
07/02/2025
ڈیپ سیک اے آئی: چینی مصنوعی ذہانت کا انقلاب
20 جنوری 2025 کو مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک غیر معمولی پیش رفت دیکھنے میں آئی جب چین کے ایک تحقیقی ادارے نے ڈیپ سیک آر1 (DeepSeek R1) نامی چیٹ بوٹ متعارف کروایا۔ اس حیرت انگیز لانچ نے عالمی ٹیکنالوجی کی صنعت میں ہلچل مچا دی اور اوپن اے آئی (OpenAI)، گوگل (Google) اور میٹا (Meta) جیسے امریکی اے آئی اداروں کی اجارہ داری کو شدید چیلنج کر دیا۔ ڈیپ سیک کی آمد نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نہ صرف مسابقت کو بڑھایا بلکہ کارکردگی، رسائی اور ترقی کے نئے معیارات قائم کیے۔
ڈیپ سیک: ایک انقلابی پیش رفت
ڈیپ سیک آر1 کو ایک عام چیٹ بوٹ نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ یہ مصنوعی ذہانت میں ایک نیا سنگ میل ہے۔ یہ مغربی ماڈلز کے مقابلے میں انتہائی کم لاگت میں تیار کیا گیا ہے اور اپنی کارکردگی کے لحاظ سے کئی عالمی معیاروں پر نمایاں برتری رکھتا ہے۔ ریاضی اور منطقی استدلال میں یہ دیگر ماڈلز کو مات دے چکا ہے اور تحقیق کے مطابق، ڈیپ سیک اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی 01، میٹا کے لما (Llama) اور گوگل کے جیمنی ایڈوانسڈ (Gemini Advanced) سے زیادہ مؤثر ثابت ہوا ہے۔
ڈیپ سیک کی سب سے اہم خوبی اس کی مفت دستیابی ہے۔ جہاں اوپن اے آئی کا پریمیئم چیٹ جی پی ٹی 01 پرو ماہانہ 200 ڈالر چارج کرتا ہے، وہیں ڈیپ سیک کو مکمل مفت فراہم کیا گیا ہے، جس کی بدولت یہ تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔ اس حکمت عملی نے اسے دنیا کے مختلف ممالک، بشمول امریکہ اور بھارت میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ بنا دیا۔
کم لاگت میں غیر معمولی کارکردگی
ڈیپ سیک نہ صرف زیادہ مؤثر ہے بلکہ اس کی تیاری کا خرچ بھی انتہائی کم رہا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق، اس کا تربیتی خرچ صرف 5.6 ملین ڈالر تھا، جو کہ اوپن اے آئی، گوگل اور میٹا جیسے اداروں کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے مقابلے میں نہایت معمولی رقم ہے۔
اوپن اے آئی کے سی ای او، سیم آلٹمین (Sam Altman)، نے پہلے یہ دعویٰ کیا تھا کہ محدود بجٹ میں بنیادی اے آئی ماڈلز تیار کرنا ممکن نہیں، مگر ڈیپ سیک کی کامیابی نے ان کے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا اور یہ دکھا دیا کہ بعض اوقات تخلیقی صلاحیت اور کارکردگی سرمائے سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
عالمی منڈی پر اثرات اور مالیاتی بحران
ڈیپ سیک کی لانچ نے عالمی مالیاتی منڈیوں میں شدید ہلچل مچا دی۔ چند ہی دنوں میں یہ ایپل اسٹور اور گوگل پلے اسٹور پر سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپ بن گئی اور چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا۔
تاہم، سب سے بڑا اثر امریکی اسٹاک مارکیٹ پر پڑا، جہاں ڈیپ سیک کے لانچ کے نتیجے میں امریکی ٹیک انڈیکس میں ایک کھرب ڈالر کا نقصان ریکارڈ کیا گیا۔
اینویڈیا (NVIDIA)، جو کہ اے آئی چپس بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہے، اس بحران کا سب سے زیادہ شکار بنی۔ ڈیپ سیک کی لانچ سے پہلے اینویڈیا دنیا کی سب سے قیمتی کمپنی تھی جس کی مالیت 3.5 کھرب ڈالر تھی، مگر ایک ہی دن میں اس کی قدر 2.9 کھرب ڈالر تک گر گئی، اور اس کے حصص کی قیمت میں 17 فیصد کمی آئی، جس کے نتیجے میں 589 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ کارپوریٹ تاریخ میں ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا مالی نقصان تھا۔
ڈیپ سیک کے خالق: لیانگ وینفینگ
ڈیپ سیک کے پیچھے لیانگ وینفینگ (Liang Wenfeng) نامی چینی کاروباری شخصیت ہیں، جو 40 سال کے ہیں اور عوام میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ انہوں نے 2015 میں ہائی فلائر (High Flyer) نامی ایک ہیج فنڈ قائم کیا اور 2019 میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں قدم رکھا۔
روایتی اے آئی ٹیموں کے برعکس، جو زیادہ تر انجینئرز پر انحصار کرتی ہیں، وینفینگ نے چین کی اعلیٰ جامعات کے پی ایچ ڈی طلباء کی خدمات حاصل کیں اور ان کی توجہ روایتی انجینئرنگ کے بجائے ریاضیاتی استدلال اور مسئلہ حل کرنے کی مہارتوں پر مرکوز رہی۔ صرف دو سال میں اور محض 200 افراد پر مشتمل ایک چھوٹی ٹیم کے ساتھ انہوں نے کامیابی کے ساتھ ڈیپ سیک آر1 متعارف کروا دیا۔
ڈیپ سیک کی جدید ترین ساخت
ڈیپ سیک چین آف تھاٹ (Chain of Thought - CoT) نامی ماڈل پر مبنی ہے، جو کہ اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی 01 کی طرز پر ہے۔ اس تکنیک کے تحت اے آئی کی استدلالی صلاحیت کو بڑھایا جاتا ہے اور یہ انسانی طرز پر سوچنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر کسی سے یہ پوچھا جائے کہ:
"9.11 اور 9.9 میں سے کون سا عدد بڑا ہے؟"
تو پرانے اے آئی ماڈلز غلطی سے 9.11 کو منتخب کر لیتے، مگر ڈیپ سیک درست جواب یعنی 9.9 پر پہنچتا ہے۔
چیلنجز اور تنازعات
اگرچہ ڈیپ سیک حیرت انگیز خصوصیات رکھتا ہے، لیکن اس پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ ایک اہم اعتراض اس کی سخت سنسرشپ پالیسی سے متعلق ہے۔ چونکہ یہ ایک چینی اے آئی ماڈل ہے، اس لیے یہ چینی حکومت سے متعلق حساس موضوعات پر بات کرنے سے گریز کرتا ہے۔ تیانمن اسکوائر واقعہ، ژی جن پنگ پر تنقید، یا تائیوان سے متعلق سوالات کو یا تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا غیر واضح جوابات دیے جاتے ہیں۔
یہ مسئلہ اے آئی کے اخلاقی معیارات اور آزادی اظہار کے حوالے سے اہم سوالات کھڑے کرتا ہے۔
مستقبل کی سمت
ڈیپ سیک کی آمد نے مصنوعی ذہانت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے، جہاں کارکردگی، کم لاگت اور زیادہ رسائی کلیدی عوامل ہیں۔ اس کی کامیابی مغربی اے آئی کمپنیوں کی بالادستی کو چیلنج کر رہی ہے اور اے آئی گورننس، اوپن ایکسیس اور اخلاقی ضوابط پر نئی بحثوں کو جنم دے رہی ہے۔
مستقبل میں اے آئی کا میدان مزید سخت مسابقت کا شکار ہونے والا ہے، اور دنیا بےتابی سے دیکھ رہی ہے کہ مغربی ٹیکنالوجی کمپنیاں چین کے اس غیر متوقع چیلنج کا کیا جواب دیتی ہیں۔