JK Jawad International Tours

JK Jawad International Tours A warm welcome to all, who are willing to offer Hajj/Umrah.��

05/05/2024
Hajj Umrah And Ziyarat
19/01/2024

Hajj Umrah And Ziyarat

19/01/2024

*اےلڑکی! کاش تیرے باپ کا نمبر ہوتا*😭

*✍🏻: محمد نعمان مکی۔*

مکہ مکرمہ میں موجود ہمارے ایک دوست کل ملاقات کے لیے تشریف لائے، دوران گفتگو انہوں نے ایک ایسا واقعہ سنایا کہ جسے سن کر دل خون کے آنسو رونے پر مجبور ہوگیا۔

انہوں نے سنایا کہ اپریل 2023 رمضان کا مہینہ تھا، اور میں اپنی فیملی کے ساتھ ہاوڑہ ریلوے اسٹیشن سے راجدھانی ایکسپریس ٹرین میں چڑھا، وہ ریزرویشن والی بوگی تھی۔ دراصل مجھے کولکتہ سے پٹنہ کے لیے جانا تھا۔

ابھی میں اپنا لگیج وغیرہ رکھ کر فیملی کو بٹھا ہی رہا تھا کہ ایک طرف سے کسی کے سلام کرنے کی آواز آئی، میں اس طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ ایک دیندار اور باشرع آدمی سامنے کھڑے ہیں، ان کے لباس اور وضع قطع سے لگ رہا تھا کہ وہ کوئی عالم دین ہیں۔

سلام دعا کے بعد انہوں نے ایک نوجوان بچی کی طرف اشارہ کیا جو برقع میں ملبوس تھی مگر اس کا چہرہ کھلا ہوا تھا، جو کچھ ہی دوری پر کھڑکی کے ساتھ والی سنگل سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس لڑکی کے بلکل سامنے والی سنگل سیٹ اس وقت بلکل خالی تھی۔ ان صاحب نے بڑی عاجزی سے کہا کہ وہ میری بیٹی ہے جو پٹنہ جارہی ہے، وہ وہاں ایک ہاسٹل میں رہتی ہے اور کالج میں پڑھتی ہے۔ وہ اس وقت اکیلی سفر کررہی ہے، لہذا آپ سے درخواست ہے کہ ازراہ کرم اس کا خیال رکھیں۔

چونکہ ہمارے دوست بھی شرعی وضع قطع میں تھے تو ممکن ہے کہ ایک باپ کے طور پر انہوں نے امید اور بھروسے کے ساتھ یہ بات کہی ہوگی۔ تاکہ اللہ نا کرے اگر ان کی معصوم سی لخت جگر کو کوئی مسئلہ پیش آ جائے تو کوئی مسلمان بھائی مدد کے لیے موجود ہو۔ لہذا وہ اپنے دل کی تسلی کا سامان کررہے تھے۔ بیٹی تو بہر حال ہر باپ کے لیے قیمتی اثاثہ ہوتی ہے۔ اس کی عزت اور اس کے دل کا سکون ہوتی ہے۔

ہمارے دوست فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ جی ٹھیک ہے، یہ میری فیملی بیٹھی ہوئی ہے، آپ اپنی بچی سے کہہ دیں کہ اگر کچھ ضرورت ہو تو وہ میری اہلیہ سے بات کرلے۔

وہ فرماتے ہیں کہ، چونکہ میں خود بھی سامان اور اپنے بچوں کی فکر میں لگا ہوا تھا تو میں ان سے زیادہ گفتگو نا کر سکا اور نا ہی ان کا کوئی رابطہ نمبر لے سکا۔

جب ریل پلیٹ فارم چھوڑنے لگی تو وہ مولانا صاحب اپنی بچی کو الوداع کہہ کر ریل سے اتر گئے۔ رات کا وقت تھا اور تقریباً چھ سو کلو میٹر کا سفر تھا، اور پوری رات ریل گاڑی میں ہی گزارنی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں میں نے دیکھا کہ اس لڑکی کی سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر ایک ہندو لڑکا آکر بیٹھا، جس نے ہاتھ میں لوہے کا کڑا پہنا ہوا تھا اور ایک زعفرانی رنگ کا دھاگا بھی باندھ رکھا تھا۔ اور وہ دونوں آپس میں بہت ہنس ہنس کر باتیں کررہے تھے۔ ان کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کی آپس میں گہری دوستی ہے۔ پھر وہ ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر بیٹھ کر سرگوشیاں کرنے لگے۔ اب اس لڑکی نے اپنا حجاب بھی اتار دیا تھا۔

وہ فرماتے ہیں کہ اس منظر کو دیکھ کر میں پریشان ہوگیا کہ یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ دونوں اپنی شوخی میں ایسے مست تھے کہ انہیں اپنے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کا بھی احساس نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے اس لڑکی کو ناراضگی سے گھور کر دیکھا، تاکہ کم از کم اس کی وجہ سے اس کو کچھ حیا آئے اور وہ اپنی حرکات سے باز آ جائے۔ مجھے ناراضگی سے گھورتا دیکھ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے سٹپٹا سی گئی، لیکن پتا نہیں پھر اس کو کہاں سے ہمت آئی کہ اس نے مجھے بھی نظر انداز کر دیا اپنی عاشقی میں مصروف ہوگئی۔ اس لڑکے کا برتھ اوپر تھا، لیکن وہ اوپر گیا ہی نہیں، بلکہ وہ دونوں ایک ہی برتھ پر پوری رات ایک ہی چادر اوڑھ کر لیٹے رہے۔

میرا دل غم سے پھٹا جا رہا تھا، اور خون کھول رہا تھا۔ میں بار بار سوچتا کہ یا اللہ میں کیا کروں، یہ تو کسی دیندار گھرانے کی بچی معلوم ہوتی ہے۔ کبھی سوچتا کہ ان کی ویڈیو بناؤں، لیکن پھر دل نے گورا نا کیا۔ پھر سوچتا کہ جاکر ان دونوں سے بات کروں اور ان کو روکوں، لیکن پھر سوچتا کہ اگر لڑکی نے سامنے سے یہ پوچھ لیا تم کون ہوتے ہو میرے پرسنل معاملے میں دخل دینے والے تو میرے پاس اس کا کچھ بھی جواب نہیں ہوگا۔ اور ممکن ہے کہ یہ لڑکی الٹا میرے اوپر ہی کچھ الزام نا لگا دے، اس وقت ماحول اور قانون دونوں ہی موافق نہیں ہیں ، اور تو اور میرے ساتھ میری بیوی اور چھوٹے بچے بھی ہیں، لہذا کوئی بھی خطرہ یا جھگڑا مول لینا اس وقت عقلمندی نظر نہیں آرہی تھی۔ اس وقت مجھے اس بات کا شدید افسوس ہوا کہ کاش میں نے اس لڑکی کے والد صاحب سے ان کا نمبر لے لیا ہوتا۔ کم از کم میں صورت حال سے تو ان کو واقف کرا سکتا۔

بہر حال صبح تک وہ دونوں اسی طرح اس چادر میں گھسے رہے۔ اور جب ہم منزل پر اترے تو اس لڑکی کے حجاب کے ساتھ ساتھ اس کا برقع بھی اتر چکا تھا، شاید اس نے اسے اپنی بیگ میں رکھ لیا تھا۔

ایک نوجوان بچی جو کالج جانے کے لیے اپنے گھر سے اپنے باپ کے ساتھ باپردہ نکلی تھی، وہ اس وقت، بے پردہ، بے پرواہ اور بے جھجھک ہوکر ایک ہندو لڑکے کے ساتھ رواں دواں ہوگئی۔

ہمارے دوست بڑے ہی درد کے ساتھ فرمانے لگے کہ مجھے اس واقعے پر اور اپنی بے بسی پر انتہائی افسوس اور دکھ ہوا۔ مجھے رہ رہ کر اس لڑکی کے والد صاحب کا داڑھی اور ٹوپی سے سجا خوبصورت چہرہ یاد آرہا تھا۔ ان کا اپنی بچی پر اس طرح اندھا اعتماد کرنا اور پھر لڑکی کا اس طرح ان کے اعتماد کا خون کرنا سب ہوش اڑ دینے والا تھا۔ وہ صاحب تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ ان کی بیٹی حیا کی چادر میں لپٹ کر تعلم حاصل کررہی، اور ان کو کانوں کان خبر نہیں ہے کہ ان کی لخت جگر تو کسی غیر کی باہوں کی زینت بن چکی ہے۔ اس لڑکی ریلوے اسٹیشن سے جاتا دیکھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ، *اے لڑکی کاش تیر باپ کا نمبر ہوتا*۔

*سبق:*
اب کس بات کا رونا روئیں اور کس کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ یہ وقت بچیوں کو اپنے سے دور دراز علاقوں میں بھیج کر کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھانے کا ہر گز نہیں ہے۔ ان کو اگر اپنی نگاہوں کے سامنے رکھتے ہوئے مسلمانوں کے اسکول اور کالجس میں پڑھانا ممکن ہو تو پڑھائیں ورنہ ایسی تعلیم سے محرومی اچھی ہے۔ ماحول پر فتن ہے، اور موبائل فون معصوم ذہنوں کو ان فتنوں سے آشناس کرنے کا آسان سبب اور ذریعہ ہے۔ اپنے بچوں پر اندھا اعتماد نا کریں، ان کی عمر ہی ایسی ہے کہ وہ کبھی بھی جذبات کی لے میں بہہ جا سکتے ہیں۔ وقت پر اپنے بچوں کی شادی کی فکر کریں۔ مزید تعلیم تو شادی کے بعد بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

*اس تحریر کا مقصد نوجوان بچیوں کے ماں باپ کو جھنجھوڑنا ہے، تاکہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور بے فکر نا رہیں۔ اور اللہ کرے کہ اس بچی کے باپ تک بھی یہ تحریر پہنچ جائے۔

09/01/2024

رونگٹے کھڑے کر دینے والا سچا واقعہ

کل رات ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے زندگی کی کئی پہلوؤں کو چھو لیا۔ قریب شام کے7 بجےہونگے، موبائل کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھایا تو ادھر سے رونے کی آواز۔۔۔
میں نے چپ کرایا اور پوچھا کہ بھابی جی آخر ہوا کیا؟؟
ادھر سے آواز آئی آپ کہاں ہیں؟ اور کتنی دیر میں آ سکتے ہیں؟
میں نے کہا آپ پریشانی بتائیں اور بھائی صاحب کہاں ہیں؟ اور ماں جی کدھر ہیں؟ آخر ہوا کیا ہے؟
لیکن ادھر سے صرف ایک ہی رٹ کہ آپ فوراً آجائیے۔
میں اسے مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ ایک گھنٹہ لگے گا پہنچنے میں۔ جیسے تیسے گھبراہٹ میں پہنچا۔

دیکھا کہ بھائی صاحب، (جو ہمارے جج دوست ہیں) سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔
بھابی جی رونا چیخنا کر رہی ہیں۔ 12 سال کا بیٹا بھی پریشان ہے اور 9 سال کی بیٹی بھی کچھ کہہ نہیں پا رہی ہے۔

میں نے بھائی صاحب سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے؟
بھائی صاحب کچھ جواب نہیں دے رہے تھے۔

پھر بھابی جی نے کہا؛ یہ دیکھیے طلاق کے کاغذات۔

کورٹ سے تیار کرا کر لائے ہیں۔ مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں۔
میں نے پوچھا “یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟ اتنی اچھی فیملی ہے، دو بچے ہیں۔ سب کچھ سیٹلڈ ھے۔ پہلی نظر میں مجھے لگا کے یہ مذاق ہے۔

لیکن میں نے بچوں سے پوچھا دادی کدھر ھے؟ تو بچوں نے بتایا: پاپا انہیں 3 دن پہلے نوئیڈا کے “اولڈ ایج ہوم” میں شفٹ کر آئے ہیں۔

میں نے نوکر سے کہا: مجھے اور بھائی صاحب کو چائے پلاؤ
کچھ دیر میں چائے آئی. بھائی صاحب کو میں نے بہت کوشش کی چائے پلانے کی۔ مگر انہوں نے نہیں پیا اور کچھ ہی دیر میں وہ معصوم بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور بولے میں نے 3 دنوں سے کچھ بھی نہیں کھایا ہے۔ میں اپنی 61 سال کی ماں کو کچھ لوگوں کے حوالے کر کے آیا ھوں۔

پچھلے سال سے میرے گھر میں ماں کے لیے اتنی مصیبتیں ہوگئیں کہ بیوی نے قسم کھا لی کہ “میں ماں جی کا دھیان نہیں رکھ سکتی”
نہ تو یہ ان سے بات کرتی تھی اور نہ میرے بچے ان سے بات کرتے تھے۔

روز میرے کورٹ سے آنے کے بعد ماں بہت روتی تھی۔
نوکر تک بھی ان سے خراب طرح سے پیش آتے تھے اور اپنی من مانی کرتے تھے۔

ماں نے 10 دن پہلے بول دیا: تو مجھے اولڈ ایج ھوم میں ڈال دے۔ میں نے بہت کوشش کی پوری فیملی کو سمجھانے کی، لیکن کسی نے ماں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔
جب میں دو سال کا تھا تب ابو انتقال کرگئے تھے۔ ماں نے دوسروں کے گھروں میں کام کر کے مجھے پڑھایا۔ اس قابل بنایا کے میں آج ایک جج ھوں۔
لوگ بتاتے ہیں کہ ماں دوسروں کے گھر کام کرتے وقت کبھی بھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑتی تھی۔ اس ماں کو میں آج اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آیا ہوں۔ میں اپنی ماں کی ایک ایک دکھ کو یاد کرکے تڑپ رہا ہوں جو انھوں نے صرف میرے لئے اٹھائے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ھے جب میں میٹرک کے امتحان دینے والا تھا۔ ماں میرے ساتھ رات رات بھر بیٹھی رہتی تھی۔ ایک بار جب میں اسکول سے گھر آیا تو ماں کو بہت زبردست بخار میں مبتلا پایا۔ پورا جسم گرم اور تپ رہا تھا۔ میں نے ماں سے کہا تجھےتیز بخار ہے۔ تب ماں ہنستے ہوئے بولی ابھی کھانا بنا کر آئی ہوں اس لئے گرم ہے۔

لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھے یونیورسٹی سے ایل ایل بی تک پڑھایا۔

مجھے ٹیوشن تک نہیں پڑھانےدیتی تھی۔ کہیں میرا وقت برباد نہ ہو جائے۔
کہتے کہتے اور زیادہ زور سے رونے لگے اور کہنے لگے۔ جب ایسی ماں کے ہم نہیں ھو سکے تو اپنے بیوی اور بچوں کے کیا ہوں گے۔
ہم جن کے جسم کے ٹکڑے ہیں، آج ہم ان کو ایسے لوگوں کے حوالے کر آئے جو ان کی عادت، انکی بیماری، انکے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں۔ جب میں ایسی ماں کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تو میں کسی اور کے لئے بھلا کیا کر سکتا ہوں۔

آزادی اگر اتنی پیاری ھے اور ماں اتنی بوجھ ہے تو، میں پوری آزادی دینا چاہتا ہوں۔

جب میں بغیر باپ کے پل گیا تو یہ بچے بھی پل جاینگے۔ اسی لیے میں طلاق دینا چاہتا ہوں۔
ساری پراپرٹی میں ان لوگوں کے حوالے کرکے اس اولڈ ایج ھوم میں رہوں گا۔ وہاں کم سے کم ماں کے ساتھ رہ تو سکتا ہوں۔اور اگر اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود ماں، اولڈ ایج ہوم میں رہنے کے لئے مجبور ہے تو ایک دن مجھے بھی آخر جانا ہی پڑے گا۔

ماں کے ساتھ رہتے رہتے عادت بھی ھو جائےگی۔ ماں کی طرح تکلیف تو نہیں ہوگی۔
جتنا بولتے اس سے بھی زیادہ رو رہے تھے۔ اسی درمیان رات کے 12:30 ھوگئے۔ میں نے بھابی جی اور بچوں کے چہروں کو دیکھا۔ ان کے چہرے پچھتاوے کے جذبات سے بھرے ہوئے تھے۔

میں نے ڈرائیور سے کہا؛ ابھی ہم لوگ اولڈ ایج ہوم چلیں گے۔ بھابی جی، بچے اور ہم سارے لوگ اولڈ ایج ہوم پہہچے بہت زیادہ درخواست کرنے پر گیٹ کھلا۔
بھائی صاحب نے گیٹ کیپر کے پیر پکڑ لیے۔ بولے میری ماں ہے۔ میں اسے لینے آیا ہوں۔
چوکیدار نے پوچھا “کیا کرتے ہو صاحب”؟
بھائی صاحب نے کہا۔ میں ایک جج ہوں۔

اس چوکیدار نے کہا “جہاں سارے ثبوت سامنے ہیں۔ تب تو آپ اپنی ماں کے ساتھ انصاف نہیں کر پائے۔ اوروں کے ساتھ کیا انصاف کرتے ہوں گے صاحب؟ اتنا کہہ کر ہم لوگوں کو وہیں روک کر وہ اندر چلا گیا۔
اندر سے ایک عورت آئی جو وارڈن تھی۔ اس نے بڑے زہریلے لفظ میں کہا۔ 2 بجے رات کو آپ لوگ لے جاکے کہیں اسے مار دیں تو میں اللہ کو کیا جواب دوں گی؟

میں نے وارڈن سے کہا “بہن آپ یقین کیجئے یہ لوگ بہت پچھتاوے میں جی رہے ہیں۔”

آخر میں کسی طرح انکے کمرے میں لے گئی. کمرے کا جو نظارہ تھا اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ صرف ایک فوٹو جس میں پوری فیملی ہے، وہ بھی ماں کے بغل میں جیسے بچے کو سلا رکھا ھے۔مجھے دیکھی تو اسے لگا کہیں بات نہ کھل جائے۔
لیکن جب میں نے کہا کہ ھم لوگ آپ کو لینے آئے ھیں۔ تو پوری فیملی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگی۔ آس پاس کے کمروں میں اور بھی بزرگ تھے۔ سب لوگ جاگ کر باہر تک ہی آگئے۔ انکی بھی آنکھیں نم تھیں۔

کچھ وقت کے بعد چلنے کی تیاری ھوئی۔ پورے اولڈ ہوم کے لوگ باہر تک آئے۔ کسی طرح ہم لوگ اولڈ ایج ہوم کے لوگوں کو چھوڑ پائے۔ سب لوگ اس امید سے دیکھ رہے تھے، شاید انہیں بھی کوئی لینے آئے۔
راستے بھر بچے اور بھابی جی تو چپ چاپ رہے۔ مگر ماں اور بھائی صاحب پرانی باتیں یاد کرکے رو رہے تھے۔ گھر آتے آتے قریب 3:45 ھو گئے۔

بھابی جی بھی اپنی خوشی کی چابی کہاں ہے یہ سمجھ گئی تھیں۔

میں بھی چل دیا لیکن راستے بھر وہ ساری باتیں اور نظارے آنکھوں میں گھومتے رھے۔

ماں صرف ماں ھے*

اسکو مرنے سے پہلے نہ ماریں۔
ماں ہماری طاقت ہے۔ اسے کمزور نہیں ھونے دیں۔ اگر وہ کمزور ہو گئی تو ثقافت کی ریڑھ کمزور ھو جاۓگی ۔ اور بنا ریڑھ کا معاشرہ کیسا ھوتا ھے۔ یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ھے۔

اگر آپ کے آس پاس یا رشتہ دار میں اسطرح کا کوئی مسئلہ ھو تو انھیں یہ ضرور پڑھوایں اور اچھی طرح سمجھایں، کچھ بھی کرے لیکن ھمیں جنم دینے والی ماں کو بے گھر ، بے سہارا نہیں ہونے دیں۔ اگر ماں کی آنکھ سے آنسو گر گئے تو یہ قرض کئی صدیوں تک رہے گا۔

یقین مانیں سب ھوگا تمہارے پاس لیکن سکون نہیں ھوگا۔
سکون صرف ماں کے آنچل میں ھوتا ھے۔ اس آنچل کو بکھرنے مت دینا۔

اس دل کو چھولینے والی داستان کو خود بھی پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں تاکہ اس سے عبرت حاصل کر سکیں

Nahi aata maagne Toh khali hath pehla doWoh band labon kiBoliya b sunta hai
18/09/2023

Nahi aata maagne
Toh khali hath pehla do
Woh band labon ki
Boliya b sunta hai

Address

Virat Nagar Main Road, Bommanahalli
Bangalore
560068

Opening Hours

Monday 9am - 10pm
Tuesday 9am - 10pm
Wednesday 9am - 10pm
Thursday 9am - 10pm
Friday 9am - 10pm
Saturday 9am - 10pm
Sunday 9am - 10pm

Telephone

+918050418533

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when JK Jawad International Tours posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to JK Jawad International Tours:

Videos

Share

Category