Bahawalpur Explorers

Bahawalpur Explorers Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Bahawalpur Explorers, Tourist Information Center, Bahawalpur.

08/01/2024

Copied.
Waseem Asghar
*دروازے، فصیل اور دروازوں کے اندر قدیم بہاول پور شہر کے بازار، محلے، چوک، سرائیں اور کوچے*:فرید گیٹ (پرانا نام: بیکانیری گیٹ), ڈیراوری گیٹ، احمدپوری گیٹ، شکارپوری گیٹ، بوہڑ گیٹ، ملتانی گیٹ، موری گیٹ، شاہی بازار (پرانا نام: بھابڑیاں بازار), مچھلی بازار/صرافہ بازار (پرانا نام: بازار صادق گنج), چوک بازار، رنگیلا بازار، گری گنج بازار (گرے گنج بازار), احمد پوری بازار، فتح خان بازار، بازار دامن شاہ، زنانہ ہسپتال روڈ، بند روڈ، زیرِ جامع مسجد بازار، گُڑ منڈی (قدیم غلہ منڈی), جگہ نیشنل ہوٹل (قدیم سبزی منڈی), محلہ چاہ فتح خان۔ محلہ قاضیاں۔ محلہ بنیگراں۔ محلہ کمہاراں۔ محلہ کہاراں۔ محلہ تھلہ نور جہانیاں۔ محلہ ٹونکیاں۔ محلہ موچیاں۔ محلہ معروف خان۔ محلہ کھٹیکاں (محلہ اسلام پورہ)، محلہ بھوجڑ۔ محلہ چڑی مار۔ محلہ طاہر پورہ۔ محلہ مْکھیاں۔ کوچہ خزانچی۔ محلہ اسلام نگر۔ نتھیا گلی۔ گندی گلی۔ شیشے والی گلی۔ ڈاکخانے والی گلی۔ ریواڑی والی گلی، عباسیہ سٹریٹ۔ قریشی کالونی۔ محلہ احمد نگر۔ محلہ الور پورہ۔ محلہ غوث پورہ۔ محلہ شیخ سعدی۔ محلہ انصار۔ مشن سکول والی گلی۔ مندر والی گلی۔ گوردوارے والی گلی، نیشنل بنک والی گلی، کوچہ شیخ الجامعہ، محلہ موری گیٹ۔ محلہ سناراں۔ محلہ درکھاناں۔ محلہ حبیب آباد۔ محلہ شاہ گنج۔ محلہ گنج شریف۔ محلہ کوچہ گل حسن ۔ محلہ دھوبیاں کلاں۔ محلہ دھوبیاں خورد۔ پھٹے والی گلی۔ کوچہ سادات۔ ڈاکٹر سلطان والی گلی۔ محلہ بھابڑاں سرائے (محلہ چودھریاں), محلہ عام خاص۔ محلہ مخدوم پورہ۔ محلہ مبارک پورہ۔ محلہ ٹاہلی۔ محلہ منجھاراں۔ محلہ ٹھٹھاراں۔ محلہ کمنگراں۔ محلہ باغ مائی۔ محلہ پیراھیاں، محلہ کجل پورہ۔ محلہ کہنہ کچہری۔ کوچہ دالگراں۔ کوچہ ونگڑی گراں۔ کوچہ چوڑی گراں۔ محلہ چغتائی۔ محلہ باغیچہ شیخ اللہ داد۔ محلہ گھائیاں۔ محلہ فیل خانہ۔ محلہ میر سراج الدین۔ ترین روڈ۔ پیر حامد روڈ۔ محلہ نورشاہ بخاری۔ محلہ قریشیاں۔ محلہ چشتیاں۔ محلہ نواباں۔ محلہ گاڑی بان۔ سناروں والی گلی۔ پھٹے والی گلی۔ وݙ قصائیوں والا گلا۔ مچھی ہٹہ۔ پرانی تحصیل، تھانہ کوتوالی، محلہ سادات پورہ۔ کوچہ کّلاں والا کھوہ وغیرہ.

Sunsets December 2023. Bahawalpur.
22/12/2023

Sunsets December 2023. Bahawalpur.

Black Buck Enclosure. Lal Sohanra National Park. Need ur feedback.
17/12/2023

Black Buck Enclosure. Lal Sohanra National Park. Need ur feedback.

Takht-e Rostam or Stupa of Takht-e Rostamis a stupa Buddhist monastery complex 2 km south of the town of Haibak, Afghani...
14/12/2023

Takht-e Rostam or Stupa of Takht-e Rostamis a stupa Buddhist monastery complex 2 km south of the town of Haibak, Afghanistan. Built in the 3rd-4th century AD while the area was part of the Kushano-Sasanian Kingdom the complex is carved entirely from the bedrock and "consists of five chambers, two of them sanctuaries. One of them has a domed ceiling with an elaborate lotus leaf decoration. On an adjacent hill is the stupa, surmounted by a harmika, with several more rough caves around the base. A hoard of Ghaznavid coins was found by chance in one of the caves.

During the Ottoman period, houses would have two door knockers; a large heavy one and a small soft one. If the soft one ...
04/12/2023

During the Ottoman period, houses would have two door knockers; a large heavy one and a small soft one.
If the soft one was knocked, the family would know a lady is at the door and so a female family member would attend the call.
If the heavy one was knocked, a male from the house would open the door. How far we have come from the ideals of privacy...

Vlog About Nilgai (Blue Cow).
03/12/2023

Vlog About Nilgai (Blue Cow).

The nilgai (Boselaphus tragocamelus) (/ˈnilˌɡaɪ/, literally meaning "blue cow") is the largest antelope of Asia, and is ubiquitous across the northern Indian...

Vlog about Hog Dear.
03/12/2023

Vlog about Hog Dear.

Indian Hog DeerThe Indian hog deer (Axis porcinus), or Indochinese hog deer, is a small cervid native to the region of the Indian subcontinent and Indo-Gange...

https://youtu.be/Vs6sHZn-xNs?feature=shared
26/11/2023

https://youtu.be/Vs6sHZn-xNs?feature=shared

The nilgai (Boselaphus tragocamelus) (/ˈnilˌɡaɪ/, literally meaning "blue cow") is the largest antelope of Asia, and is ubiquitous across the northern Indian...

A good day with Dr. Mohammad Azeem Shah Bukhari , A writer, traveller and Lovly person.
26/11/2023

A good day with Dr. Mohammad Azeem Shah Bukhari , A writer, traveller and Lovly person.

Newly Discover Archaeological Site. Related to Hakra Civilization... Near Lal sohanra Bahawalpur. Visit by Team: Bahawal...
25/11/2023

Newly Discover Archaeological Site. Related to Hakra Civilization... Near Lal sohanra Bahawalpur.
Visit by Team: Bahawalpur Explorers.

Copied.وہ ناقابل یقین بات کر رہے تھے۔پروفیسر ساجدہ ونڈل صاحبہ اور نصراللہ ناصر مجھے بتا تو رہے تھے لیکن یہ کیسے ہو سکتا ...
25/11/2023

Copied.
وہ ناقابل یقین بات کر رہے تھے۔
پروفیسر ساجدہ ونڈل صاحبہ اور نصراللہ ناصر مجھے بتا تو رہے تھے لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا پورے کا پورا ایک شہر چولستان کی صحرا میں سینکڑوں سالوں سے مدفون ہو اور عام پاکستانی تو ایک طرف، بہاولپور کے رہنے والے بھی عمومی طور پر اس سے بے خبر ہوں!
یہ 2016 کی بات ہے اور میں ان کے اور یونیسکو (UNESCO) پاکستان کی ایک غیر ملکی ڈائریکٹر کے ساتھ صحراء چولستان میں دراوڑ آیا ہوا تھا۔ ہماری کوشش تھی کہ قلعہ دراوڑ یونیسکو کی Tentative Heritage List میں ڈل سکے تاکہ ہمیں اسکی بقا، بحالی اور تحفظ کے لیے ماہرین کی خدمات اور فنڈز تک رسائی حاصل ہوسکے۔ (اس مقصد میں ہمیں طویل جدوجہد کے بعد کامیابی بھی نصیب ہوئی، الحمدللّٰہ)۔
قلعہ دراوڑ کے دورے کے دوران اس مدفون شہر کا ذکر بھی آیا کہ جسے وہ گنویری والا کا نام دے رہے تھے۔
گفتگو کچھ خاص آگے نہ بڑھ سکی اور معاملہ آیا گیا ہو گیا۔
اس کے کچھ عرصہ بعد میرا بہاولپور سے تبادلہ بھی ہوگیا۔ اب چھ سال بعد کمشنر بن کر لوٹا تو ذہن کے کسی گوشہ میں وہ نام رقم تھا۔ سوچا کسی مستند ذرائع سے اس کی تصدیق کروا تے ہیں اور اگر یہ بات درست ہے تو دیکھتے ہیں اس معاملے میں کیا، کیا جا سکتا ہے۔
بھلا ہو پروفیسر ساجدہ ونڈل صاحبہ کا، ہماری گزارش پر انہوں نے چند نامور ماہرینِ آثارِ قدیمہ اپنے ساتھ لیے اور بہاولپور آن وارد ہوئیں۔ ان ماہرین میں سلیم صاحب، مقصود صاحب، افضل صاحب اور حسن صاحب شامل تھے لیکن سب سے بڑا نام اور مقام ڈاکٹر رفیق مغل کا تھا۔ اسّی کے پیٹے میں ہوں گے۔دل جوان تھا، عمر مگر اب جسم پر بھی کچھ اثر دکھا رہی تھی کہ تھوڑا کمر میں خم آگیا تھا اور کبھی کبھی لاٹھی کی ضرورت بھی پڑ جاتی تھی۔ اس تمام کے باوجود گھنٹوں کا سفر اختیار کر کے بہاولپور تشریف لے آئے۔ گنویری والا کا نام سننا تھا تو گویا وہ پھر سے جوان ہو گئے۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ڈاکٹر صاحب کا شمار پاکستان کی تاریخ کے معتبر ترین ماہرینِ آثارِ قدیمہ میں ہوتا ہے۔اگریوں بھی کہہ لیں کہ وہی سب سے بڑا نام ہے تو شاید یہ بھی غلط نہ ہوگا۔
میرے دفتر میں ہماری پہلی نشست میں گنویری والا کی موجودگی اور اسکی قدامت کے حوالے سے وہ سب میرے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب دیتے رہے۔ اگرچہ پہلے بھی چند ماہرین نے گنویری والا کی نشاندہی کی تھی لیکن یہ ڈاکٹر رفیق مغل ہی تھے جنہوں نے 1970 کی دہائی میں ایک جامع اور مدلل ریسرچ پیپر کی صورت میں گنویری والا کی حقیقت کو سب کے سامنے بیان کیا۔ پچاس ساٹھ سال ہونے کو تھے لیکن اس معاملے کو اربابِ اختیار و اقتدار نے درخورے اعتنا نہ سمجھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید ذمہ دار عہدوں پر تعینات افراد تک صحیح معنوں میں اس کی خبر پہنچ ہی نہ سکی ہو ورنہ کوئی نہ کوئی اس کا بیڑا ضرور اٹھاتا۔ اور ویسے بھی تگ و دو سے عبارت ہماری اس انفرادی اور قومی زندگی میں اتنے جھمیلے ہیں کہ آثارِ قدیمہ کی کسے سوجھتی!
جو سب سے حیرت انگیز بات ڈاکٹر مغل بتا رہے تھے وہ یہ تھی کہ گنویری والا کا تعلق بھی پانچ چھ ہزار سالہ پرانی دریائے سندھ کی تہذیب سے تھا۔ یہ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کا ہم عصر شہر تھا بلکہ انہی تین شہروں کو اس تہذیب کے تین سب سے بڑے شہر سمجھا جاتا تھا۔ ڈاکٹر مغل کے تئیں گنویری والا اگرچہ موہنجو داڑو سے کچھ چھوٹا لیکن ہڑپہ سے تھوڑا بڑا شہر تھا۔ یہ سب انکشافات میرے شوق، میرے تجسس کو جِلا بخشنے کے لیے کافی تھے۔
اگلے روز ہم سب لوگ ایک قافلے کی صورت عازمِ سفر ہوئے۔ ہمارے عزم، شوق اور جوش کا عالم دیکھیے کہ جون کی اس جھلستی دوپہر کو کہ جب لوگ گھروں سے نکلنے سے بھی بچتے ہیں، ہماری منزل ایک صحرا تھی۔ خیر بہاولپور سے کوئی ڈھائی گھنٹے کی مسافت طے کر کے ہم چولستان کے ایک بلند اور بڑے ٹیلے پر جا ٹھہرے۔ ڈاکٹر صاحب بتانے لگے گنویری والا ہمارے پیروں تلے اسی ٹیلے کے نیچے مدفون تھا۔ اس ٹیلے پر ہر طرف ٹھیکریاں پھیلی ہوئی تھیں۔ بقول ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کے، یہ اس زمانے میں بسنے والے لوگوں کے برتنوں، ضرورت کی دیگر اشیا اور اینٹوں کی باقیات تھیں۔ ہم سب اس ٹیلے پر پھیل گئے اور اس کی مٹی، اس کے پتھروں، اس کی ٹھیکریوں کو ٹٹولنا شروع کر دیا۔ لوٹے تو ہر ایک کے ہاتھ میں کچھ نہ کچھ تھا۔ خود مجھے ظروف کے ٹکڑے، کوہان والا ایک کھلونا بیل اوراس کی بیل گاڑی کا پہیہ ملا، بالکل ویسے ہی جیسے ہم ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے عجائب گھروں میں دیکھتے ہیں۔ آج کے دور سے ملتی جلتی بہت اچھی حالت میں ایک اینٹ بھی ملی، میرا خیال تھا یہ نسبتاً کچھ نئی ہو گی۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کے ساتھیوں کو دکھائی تو وہ کہنے لگے یہ کم از کم پانچ ہزار سال پرانی ہو گی۔ میں نے بے یقینی سے سر ہلا دیا کہ یہ تو جدید دور کی معلوم ہوتی ہے۔ ہنس کر کہنے لگے کہ اس دور کے ہنر مندوں کی تیار کردہ ایسی اینٹیں بھی ملی ہیں کہ جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ شاید ان کی کٹائی لیزر کی مدد سے کی گئی ہو۔ کہنے لگے اپنے اس دریائے سندھ کی تہذیب اپنے عروج پر کچھ ایسے ہی کمالات دکھا رہی تھی۔
ڈاکٹر مغل اور ان کے رفقا نے بتایا کہ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی طرح عمومی طور پر اُس دور کے شہر نسبتاً بلند جگہوں پر اور ایک مرکزی ٹیلے کے گرد آباد ہوتے تھے۔ گنویری والا بھی اسی انداز میں آباد کیا گیا تھا۔
اس موقع پر ایک امر کا انتہائی افسوس ہوا کہ گنویری والا جس ٹیلے پر آباد تھا، گاڑیوں کے سفر کے لیے ایک راستہ اسے چیرتا ہوا اس کے بیچوں بیچ گزر رہا تھا۔ گویا وہ راستہ اس مدفون شہر کو نقصان تو پہنچا ہی رہا تھا، اس کو دو حصوں میں بھی تقسیم کر رہا تھا۔ فوری طور پر متعلقہ محکموں کو ہدایت دی کہ اس راستے کو دونوں اطراف سے بند کر دیا جائے اور ان ٹیلوں سے گھما کر ایک نیا راستہ دے دیا جائے۔
نوادرات کو چوری چکاری سے بچانے کے لیے چوکیداری کے احکامات بھی جاری کیے۔
اس شام واپس لوٹے تو گنویری والا کے حوالے سے گمان حقیقت میں بدل چکا تھا، خبر امر بن چکی تھی۔
گنویری والا کی صورت ایک اثاثہ تھا، ایک خزانہ تھا جس کی نشاندہی ہو چکی تھی اور جسے اب ہمیں ڈھونڈ نکالنا تھا۔ نسلوں کا قرض چکانا تھا کہ گزری نسلوں کی زندگی اور طور اطوار سامنے لانے تھے اور محفوظ بنانے تھے، تو دوسری طرف آنے والی نسلوں کو بھی اپنے آباو اجداد کے رہن سہن سے آگاہ کرنا تھا۔ اور پھر کیا معلوم کھدائی ہونے پر محققین اور ماہرین کے لیے اور نئی دریافتیں، نئے انکشافات بھی سامنے آجاتے۔
کوئی اور ملک ہوتا تو اس دریافت پر ان ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو قومی ایوارڈ سے نوازا جاتا، اخباروں میں بڑی بڑی سرخیاں لگتیں، اعلیٰ پائے کی تحقیق ہوتی اور پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جاتے، قرب و جوار میں ملنے والے نوادرات کے لیے عجائب گھر بنتا، ملک کے دیگر عجائب گھروں کو بھی نوادرات بھجوائے جاتے، بہتر رسائی کے لیے سڑکیں، ہوٹل اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتیں، ملک اور بیرون ملک سے سیاحوں کی آمد و رفت شروع ہو جاتی، سیاحت سے جڑی معاشی سرگرمیاں فروغ پاتیں، علاقے اور اس کے مکینوں کے دن پھر جاتے!
ہم تہیہ کر چکے تھے کہ گنویری والا کی آواز اعلٰی ترین حکام تک پہنچائیں گے۔ ہمارا پہلا پڑاؤ گورنر ہاؤس ٹھہرا کہ جناب بلیغ الرحمٰن کا تعلق بہاولپور سے ہونے کے سبب ہمیں امید تھی کہ ہم انہیں قائل کر پائیں گے۔ اس روز بھی سارے متعلقہ افراد اور محکمے اور ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو ہم ساتھ لے کر گئے۔ سیر حاصل گفتگو ہوئی اور گورنر صاحب نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جو بھی بن پڑا وہ گنویری والا کے لیے کریں گے۔ فوری طور پر ہدایات و احکامات جاری کر دیے گئے۔
آنے والے دنوں میں وزیر اعلٰی پنجاب، جناب محسن نقوی کو جب ہم نے ایک میٹنگ میں گنویری والا کی بابت مطلع کیا اور ان سے فنڈ مختص کرنے کی گزارش کی تو ان کی دلچسپی بھی دیدنی تھی۔ ایک لمحے کی بھی تاخیر کیے بغیر انہوں نے کھدائی کے ابتدائی مرحلے کے لیے مطلوبہ فنڈ فراہم کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ تمام تیاریاں مکمل ہیں اور اب جلد ہی اس شہر کی کھدائی شروع ہوا چاہتی ہے۔ ہم نے ڈاکٹر رفیق مغل ، پروفیسر ساجدہ ونڈل صاحبہ اور ان کے رفقا ہی سے یہ بیڑا اٹھانے کی درخواست کی ہے۔ ڈاکٹر مغل تو خاص طور پر پُر جوش ہیں کہ انہیں شاید پہلی دفعہ لگ رہا ہے ان کی سالوں پر محیط، دہائیوں پرانی تحقیق رائیگاں نہیں گئی اور اسے آخر کار والی وارث مل گئے ہیں۔
اب وہ دن دور نہیں کہ ہزاروں سال پرانا شہر پھر سے ریت کا سینہ چاک کرتے ہوئے باہر نکل آئے گا۔
آج کے بعدتاریخ اورجغرافیے کی کتابوں میں موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے ساتھ ساتھ اب اس کا ذکر بھی عام ہو جائے گا۔
بہاولپور کے مُرَصَّع تاج میں ایک اور نگینے کا اضافہ ہو گا یہ گنویری والا !

Karshahi Castle, Aran va Bidgol, Iran.
14/11/2023

Karshahi Castle, Aran va Bidgol, Iran.

Most people know of the great construction achievements of the dynastic Egyptians such as the pyramids and temples of th...
28/10/2023

Most people know of the great construction achievements of the dynastic Egyptians such as the pyramids and temples of the Giza Plateau area as well as the Sphinx.
👉 Read more: https://buff.ly/3rUGOLg

Göbekli Tepe is one of the great mysteries of the world. Few archaeological discoveries intrigue researchers as much as ...
28/10/2023

Göbekli Tepe is one of the great mysteries of the world. Few archaeological discoveries intrigue researchers as much as this one, which may be humanity's first temple. The structure (located on the territory of present-day Turkey) was erected around 10,000 years before Christ by nomadic societies of hunter-gatherers from the Neolithic period.

📷:
Credit: Museum of Artifacts

Mall Road Murree, with Lintotts Cafe on the left, with snow on the ground, 1920 (c).
25/10/2023

Mall Road Murree, with Lintotts Cafe on the left, with snow on the ground, 1920 (c).

Construction Of Railway Bridge Over River Indus At Kalabagh, Mainwali, 1929-31 (c).R.B. Holmes 'Randolph Bezzant Holmes'...
24/10/2023

Construction Of Railway Bridge Over River Indus At Kalabagh, Mainwali, 1929-31 (c).

R.B. Holmes 'Randolph Bezzant Holmes' Was A Professional Photographer Who Lived For Over 50 Years In The North-West Frontier Province Of British India.

His Business Was Based In Peshawar From 1918 To 1947. He Travelled Extensively With Both Civil And Military Expeditions In The Himalayas And Central Asia. During The 3rd Afghan War (1919), He Photographed Many Aspects Of The Campaign Including The Terrain And The People's Of The Frontier Areas.

Derinkuyu: Mysterious Underground City in TurkeyTurkey is a country steeped in history, boasting numerous archaeological...
24/10/2023

Derinkuyu: Mysterious Underground City in Turkey

Turkey is a country steeped in history, boasting numerous archaeological wonders that have captured the imagination of travelers from around the world. One such marvel is Derinkuyu, a mysterious underground city located in the Cappadocia region of central Turkey. Derinkuyu is an extraordinary testament to human ingenuity and resourcefulness, as well as a fascinating enigma that continues to captivate explorers and historians alike.

Derinkuyu is believed to have been built during the Byzantine era, around the 8th century BCE. It was carved out of the soft volcanic rock known as tuff, which is abundant in the Cappadocia region. What sets Derinkuyu apart is its sheer size and complexity. Extending approximately 60 meters below the surface, the underground city consists of multiple levels interconnected by a network of tunnels, staircases, and ventilation shafts.

One of the most remarkable aspects of Derinkuyu is its purpose. It is thought to have been designed as a massive shelter to protect its inhabitants from external threats, including invasions and natural disasters. It could accommodate thousands of people along with their livestock and supplies, making it a self-sustaining refuge capable of sustaining life for extended periods. The city features numerous chambers that served various functions, such as living quarters, kitchens, communal areas, chapels, and even a school.

The intricate design of Derinkuyu suggests an advanced level of engineering and architectural planning. The narrow tunnels and low-ceilinged passageways were strategically constructed to impede the progress of potential invaders. Massive stone doors weighing several hundred kilograms were employed to seal off sections of the city, creating a defense mechanism against intruders. Additionally, ingenious ventilation systems allowed for fresh air circulation throughout the underground complex.

Via /IG

Construction Of Bridge Across The Indus At Kalabagh, Mainwali, 1930's (c).
24/10/2023

Construction Of Bridge Across The Indus At Kalabagh, Mainwali, 1930's (c).

Dubbed the Saint-Bélec slab, it was claimed as Europe’s oldest map by researchers in 2021 and they have been working eve...
22/10/2023

Dubbed the Saint-Bélec slab, it was claimed as Europe’s oldest map by researchers in 2021 and they have been working ever since to understand its etchings.
👉 Read more: https://buff.ly/3Sd7RMB

اٹلی میں 2 ہزار سال پرانے انوکھے مقبرے کی دریافتاس انوکھی دریافت نے ماہرین آثارِ قدیمہ کو بھی حیران کردیانیپلز (سوسائٹی ...
21/10/2023

اٹلی میں 2 ہزار سال پرانے انوکھے مقبرے کی دریافت
اس انوکھی دریافت نے ماہرین آثارِ قدیمہ کو بھی حیران کردیا
نیپلز (سوسائٹی نیوز)
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اس دنیا کو لاکھوں سال گزر چکے ہیں، اور اب تک آثارِ قدیمہ کے ماہرین انوکھی دریافتوں سے دنیا کو حیران کر رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک منفرد اور حیرت انگیز دریافت اٹلی میں سامنے آئی ہے، اٹلی کے شہر نیپلز میں قدیم رومی دور سے تعلق رکھنے والا تقریباً 2ہزار سال پرانا ایک مقبرہ دریافت ہوا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حال ہی میں شہر کے پانی کی فراہمی کے نظام کو اپ گریڈ کرنے کے دوران کاشت شدہ زمین کے اندر ایک مقبرہ ملا ہے۔
ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ اندازہ لگایا ہے کہ یہ مقبرہ تقریباً دو ہزار سال پرانا ہے۔
اس مقبرے کے داخلی دروازے کو ایک ٹف سلیب کے ساتھ سیل کیا گیا تھا۔ جب وہ اس مقبرے میں داخل ہوئے تواس مقبرے کی دیواریں انمول آرٹ سے سجی ہوئی تھیں۔
ان فن پاروں میں سے ایک میں تین سروں والے کتے ’سربیرس‘ کو نمایاں طور پر بنایا گیا تھا، اسی لیے اس مقبرے کو ’سربیرس کا مقبرہ‘ کہا جاتا ہے۔
سربیرس جسے علم الہیات میں ’Hound of Hedes‘ کہا جاتا ہے، مرنے والوں کی روحوں کو فرار ہونے سے روکنے کیلئے عالم ارواح کے دروازوں کی حفاظت کرتا تھا۔
اس مقبرے میں افسانوی مناظر کی تصویریں بھی بنی ہوئی ہیں۔
اس مقبرے میں افسانوی مناظر کی تصویر کشی بھی کی گئی ہے، اس میں اکتھیوسینٹورس (ichthyocentaurs) کی تصویر بھی بنائی گئی ہے جو انسانوں کے اوپری جسم، گھوڑوں کی اگلی ٹانگیں اور مچھلی کی دم کی حامل مخلوق ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ اس وقت چیمبر کے مقبرے کی فی الحال مکمل کھدائی میں مصروف ہیں، تاکہ اس مقبرے کے ارد گرد متعلقہ آثار قدیمہ کو بھی تلاش کیا جاسکے۔

When the bison were fat in the fall season, the hides tended to be both good and thick.  With a downed bison, the Comanc...
21/10/2023

When the bison were fat in the fall season, the hides tended to be both good and thick. With a downed bison, the Comanche men began to skin the animal. Once back in the village, the Comanche women fittingly took over and began to prepare the meat. They skillfully sliced the meat, dried the meat upon racks, the bones were chopped, and boiled for the fat.
Moreover, the hides were never wasted. With their expertise, the women did the very necessary job of hide work. The hide was stretched and pegged down to allow for drying. With a scraper tool in hand, bits of flesh and fat were removed from the hide. Their skill did not allow for any spoilage.
As the Comanche women took much time to work and soften the hide, their outstanding effort produced a cured bison hide made with the hair intact. Their hard work made for the warmest and most excellent kind of buffalo robe.
With it's recognizable pattern, colors, and border design of the Comanche robe, the wonderful Penateka Comanche elder Nemaruibetsi shared that the border design of a robe was around one and half inches from the edge. The border design had a width of one and a half inches. She also voiced that the center design was seen as a short foot across. In addition, Nemaruibetsi pointed out that Robes were worn the long way, with the tail and the head on the sides.

A very impressive picture of a painted Comanche Buffalo Robe. The extraordinary border and box design has the colors of red, green, and brown in the representation. The robe was donated by Mrs. William Palmer. The robe was on loan at the American Museum of Natural History since 1923 until the gift date of 1942 from Mrs. Palmer.
Photograph courtesy of the National Museum of Natural History, Washington, D.C. Additional information from Comanche Ethnography, Field Notes of E. Adamson Hoebel, Waldo R. Wedel, Gustav G. Carlson, and Robert H. Lowie, Edited by Thomas W. Kavanagh.

Even after 1000 years, the ancient Persian vertical-axis windmills are still operational today.
21/10/2023

Even after 1000 years, the ancient Persian vertical-axis windmills are still operational today.

Photos of before and after the excavation and restoration of the Great Ziggurat of Ur in Iraq. It was built approximatel...
20/10/2023

Photos of before and after the excavation and restoration of the Great Ziggurat of Ur in Iraq. It was built approximately 4,100 years ago by King Ur-Nammu of the Neo-Sumerian Empire.

🔸Stairs of death' (15th Century CE), are a section of stone steps, built by Incas (1438-1533 CE), located at peak Huayna...
20/10/2023

🔸Stairs of death' (15th Century CE), are a section of stone steps, built by Incas (1438-1533 CE), located at peak Huayna Picchu mountain, 2693m above sea level (one of steep mountains that overlooks Machu Picchu), Peru.

These stairs lead to top of Huayna Picchu, where we found Inca ruins on top.

Inbound for Area 51. February 1962: the first Lockheed A-12, known as “Article 121”, is secretly transported to Groom La...
20/10/2023

Inbound for Area 51. February 1962: the first Lockheed A-12, known as “Article 121”, is secretly transported to Groom Lake, Nevada. Interestingly, SR-71 “Ichi-Ban” – ended up being buried in the deepest ocean on earth! https://planehistoria.com/sr-71-ichi-ban/

The Sacred City of Caral in peru. At almost 5000 years old, it's the oldest city in the Americas and predates even the g...
19/10/2023

The Sacred City of Caral in peru. At almost 5000 years old, it's the oldest city in the Americas and predates even the great Pyramids of Egypt. It includes 6 pyramids, the largest of which measures 150x160 meters, 2 sunken ceremonial plazas, residential districts and an irrigation system

Read More: https://thetravelbible.com/sacred-city-of-caral-peru/

🔸Temple/Theater complex of Monte San Nicola (2nd Century BC); located atop Mount Nicola at a height of 450m above sea le...
18/10/2023

🔸Temple/Theater complex of Monte San Nicola (2nd Century BC); located atop Mount Nicola at a height of 450m above sea level and is accessed by ascending a steep, gravel walkway, in Pietravairano in the province of Caserta in the Campania region of Italy.

The Temple/Theatre Complex, was abandoned in the 2nd Century CE, and gradually faded from public memory due to its relatively remote location and the growth of vegetation that concealed the ruins.

The complex was lost and forgotten for centuries; then rediscovered by accident by a local pilot following a brush fire in 2001. Since 2002, a total of eight excavation campaigns have been conducted at the San Nicola theater/temple complex.

Address

Bahawalpur
63100

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bahawalpur Explorers posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other Bahawalpur travel agencies

Show All