BANNU GUL ZAMA GUL


Hire Me on Freelancer.com

(function() {
var po = document.createElement("script");
po.type = "text/javascript";
po.async = true;
po.src =

("https:" == document.location.protocol ? "https" : "http") + "://www.freelancer.com/js/hireme/widget.js";
var s = document.getElementsByTagName("script")[0];
s.parentNode.insertBefore(po, s);
})();

17/04/2024

BANNU GUL ZAMA GUL ❤️

Bannu Gul Zama GulExplore with JD Shah
30/03/2024

Bannu Gul Zama Gul

Explore with JD Shah

حضرت عامر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا عجیب و غریب واقعہ( کتاب ۔۔اَلرَّوْضُ الْفَائِق فِی الْمَوَاعِظِ وَالرَّقَائِق۔۔ ...
06/10/2023

حضرت عامر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا عجیب و غریب واقعہ

( کتاب ۔۔اَلرَّوْضُ الْفَائِق فِی الْمَوَاعِظِ وَالرَّقَائِق۔۔ مصنف۔۔ اَلشَّیْخ شُعَیْب حَرِیْفِیْش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اَلْمُتَوَفّٰی۸۱0ھ۔۔صفحہ 577 تا 580 مترجم میں یہ واقعہ منقول ہے)

حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاواقعہ اہلِ عقل ودانش کے لئے حیران کن ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام لانے سے قبل حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک بت کی پوجاکیا کرتے تھے ،آپ کی ایک بیٹی فالج و جذام کی بیماری میں مبتلا تھی اور چلنے پھرنے سے قاصر تھی،آپ اپنے بت کے پاس بیٹھ جاتے اور اپنی بیٹی کو بھی اس کے سامنے بٹھا لیتے اور پھر کہتے کہ میری یہ بیٹی بیمار ہے اس کا علاج کر دے، اگر تیرے پاس اس کی شفاء ہے تو اسے مصیبت و بیماری سے چھٹکارا دے دے ،کئی سال اس بت سے اپنی حاجت پوری کرنے کا مطالبہ کرتے رہے لیکن بے سود کچھ نہ ہوا۔ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر توفیق و ہدایت کی بادِ عنایت چلی توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجۂ محترمہ سے ارشاد فرمایا :'' کب تک اس بہرے و گونگے پتھر کی عبادت کرتے رہیں گے جو نہ آواز نکالتا ہے، نہ بات کرتا ہے، میں اِسے دین ِ حق گمان نہیں کرتا۔''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی نے عرض کی : ''آپ ہمیں کسی راستے پر لے چلیں۔ اُمید ہے کہ ہم راہِ حق پا لیں گے ،یقینا اس مشرق و مغرب کا کوئی تو خدا ہو گا۔''
حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کی چھت پر بت کے سامنے بیٹھے تھے کہ اچانک آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نور دیکھا جس نے آفاق کو بھر دیا اور ساری موجودات کو روشنی سے چمکادیااور پھراللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نگاہِ بصیرت سے پردے ہٹا دئيے تا کہ آپ خوابِ غفلت سے بیدار ہوجائیں ،پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ فرشتے قطار در قطار ایک گھر کے گرد جمع ہیں،پہاڑ سجدہ ریز ،زمین ساکت و جامد اور درخت جھکے ہوئے ہیں،خوشیاں عروج پر ہیں اور پھر ایک آواز سنی کہ ہدایت دینے والے نبئ محترم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی ولادت ہو گئی ہے، اس کے بعد آپ اپنے بت کے پاس آئے تو وہ بھی اوندھا پڑا ہوا تھا،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی سے کہا:''یہ کیا ہو رہا ہے ؟کس چیز کا ظہور ہو رہا ہے؟یہ کیسی خبر سنائی دے رہی ہے؟''پھر بت کو گھُور کر دیکھا تووہ کہہ رہا تھا:' توجہ سے سنو! ایک بہت بڑی خبر کا ظہور ہو چکا ہے اور وہ یہ کہ آج وہ ہستی دنیا میں تشریف لاچکی ہے جو کائنات کو شرف و افتخار بخشے گی ،وہ نبئ آخر الزماں صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم تشریف لا چکے ہیں جن کا صدیوں سے انتظار کیا جا رہا تھا جن سے حجر و شجر گفتگو فرمائیں گے ،چاند ان کی خاطر دو ٹکڑے ہو گااور وہ بنی ربیعہ و بنی مضر کے سردار ہیں۔''

حضرتِ سیِّدُنا عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ سے استفسار فرمایا: ''کیا تم سُن رہی ہو، یہ بے جان پتھر کیا کہہ رہا ہے ؟ ' ' اس نے عرض کی: ''اس سے اس مولودِ محترم کا اسم گرامی تو دریافت کریں۔'' آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا :'' اے وہ غیبی آواز جو اس سخت پتھر کی زبان میں گفتگوفرمارہی ہے! تجھے اس ذات کی قسم جس نے تجھے قوت گویائی عطا فرمائی! ذرا یہ تو بتاؤکہ اس پیدا ہونے والی ہستی کا اسمِ گرامی کیا ہے؟'' آواز آئی:''حضرتِ سیِّدُنا محمد ِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم جو صاحب ِ زم زم و صفا یعنی حضرتِ سیِّدُنا اسماعیل علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بیٹے ہیں،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی زمین تہامہ ہے ،آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہے اورسخت گرم دھوپ میں بادل آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم پرسایہ فگن رہے گا۔''

حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی اہلیہ سے ارشاد فرمایا:''چلو، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی تلاش میں نکلیں،تاکہ ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے سبب راہ ِحق پا لیں۔''ابھی وہ دونوں میاں بیوی یہ گفتگو کرہی رہے تھے کہ ان کی بیٹی جونیچے گھرمیں بیمارپڑی تھی، اچانک ان کے پاس چھت پر آکھڑی ہوئی اور انہیں پتہ بھی نہ چلا،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو پوچھا: ''اے بیٹی! کہا ں گیا تیرا وہ درد اور بیماری جس میں تو ہمیشہ سے مبتلا تھی ؟ اور کہاں گیاتیرا بے قراری کی وجہ سے راتوں کو جا گنا؟''

بیٹی نے جواب دیا:''اے میرے والد ِ محترم !میں نے خواب دیکھا کہ میرے سامنے ایک نور ہے اور ایک شخص میرے پاس آیا۔میں نے اس سے دریافت کیا: ''یہ نور کس کا ہے جو میں دیکھ رہی ہوں؟اوریہ شخص کون ہے جس کا نور مبارک مجھ پر چمک رہا ہے؟'' مجھے جواب ملا:''یہ نور بنی عدنان کے سردارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کا ہے جن سے ساری کائنات معطر ہو گئی ہے۔'' میں نے پھر پوچھا : ''ان کا اسمِ گرامی کیا ہے؟''تو جواب ملا :''ان کا نام مبارک محمد اور احمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم ہے، قیدیوں اور مصیبت زدوں پر رحم اور مجرموں کو معاف فرمائیں گے۔''

میں نے پوچھا:'' ان کادین کیاہے؟''جواب ملا:'' دینِ حنیف ۔''میں نے پوچھا:'' ان کانسب کیا ہے؟''جواب ملا: '' قریشی عدنانی ۔''میں نے پوچھا:'' یہ کس کی عبادت کریں گے ؟''جواب ملا:''خدائے وحدہ، لا شریک عَزَّوَجَلَّ کی۔'' میں نے پوچھا : '' اے مجھ سے خطاب فرمانے والے! تو کون ہے ؟''جواب ملا:'' میں ان کی آمد کی بشارت دینے والے فرشتوں میں سے ایک ہو ں۔''
میں نے عرض کی: ''جس دکھ درد میں میں مبتلا ہوں اس کے بارے میں تیرا کیاخیال ہے؟ '' اس نے جواب دیا:'' بارگاہِ ربُّ العزت عَزَّوَجَلَّ میں ان کی عظمت ا ور جاہ ومرتبہ کا وسیلہ پیش کرو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے خود ارشاد فرمایا ہے: ''میں نے اپنا راز اور اپنی برہان ان کو ودیعت کر دی ہے،اب جس نے بھی ان کے وسیلے سے مجھ سے دعا کی میں اس کو ضرور قبول کرو ں گا اور قیامت کے دن اپنے نافرمان کے حق میں بھی ان کی شفاعت قبول فرماؤں گا۔''پس میں نے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مرتبۂ کمال کا واسطہ دے کر دعا کی اور اپنے ہاتھ جسم پر پھیر لئے۔ اب جبکہ میں بیدار ہوئی تو بالکل تندرست ہو چکی تھی جیسا کہ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ سے فرمایا: ''یقینا اس مولودِ مسعودصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی خبر خوش آئند اور بڑی دل آویز ہے ،ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی عجیب و غریب نشانیاں سن اور دیکھ رہے ہیں، میں توضرور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی محبت میں وادیاں اور گھاٹیاں عبور کرتاہوا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بارگاہ تک رسائی حاصل کروں گا۔

چنانچہ، وہ قافلے کے ہمراہ گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَکْرِیْمًا کا قصد کیا۔ وہاں پہنچ کر حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر کے متعلق دریافت کیا،اور پھر کاشانۂ اقدس کے دروازے پر دستک دی۔ جواب ملنے پر عرض کی: '' ہمیں اس نو مولود ہستی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی زیارت کرا دیں جس کے نور کی بدولت اللہ عَزَّوَجَلَّ نے موجودات کو منور فرمایا ہے اور جس کی وجہ سے اس کے آباؤاجداد شرف والے ہو گئے ہیں ۔''اس پر حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ارشاد فرمایا :'' میں ہر گز اس ہستی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو باہر نہیں نکالوں گی کیونکہ مجھے یہودیوں کی جانب سے تکلیف پہنچائے جانے کا خطرہ ہے۔''
انہوں نے عرض کی:''ہم نے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی محبت میں اپنے وطن سے جدائی گواراکی، حبیبِ خدا عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کا حسن و جمال دیکھنے کے لئے اپنا دین چھوڑا اور اپنے بدنوں کو تھکاوٹ سے چور چور کردیا۔''
حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ارشاد فرمایا:'' اگر ایسا ہے تو پھر انتظار کرو ، کچھ دیر تک مزید صبر کرو، قطعاً جلد بازی سے کام نہ لو پھر آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکچھ دیر کے لئے دروازے کے پاس سے ہٹ گئیں اور دوبارہ واپس آکر انہیں ارشاد فرمایا: ''اندر آجاؤ۔''جب شمعِ رسالت کے پروانوں نے اجازت پاکر باریابی کاشرف حاصل کیا تو انوار ِحبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے جلوے دیکھ کر نثار ہو گئے اور بے اختیار تکبیر و تہلیل کے نعرے زبانوں پر جاری ہو گئے،اور پھر جب رُخِ زیبا سے نقاب ہٹا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے چہرۂ اقدس سے ایسی روشنی نمودار ہوئی جس کی کرنیں آسمان تک جا پہنچیں۔یہ دیکھ کر سب خوشی و مسرت سے بے خود ہوگئے۔ قریب تھا کہ رعب و دبدبہ سے بے ہوش ہو جاتے لیکن سنبھل گئے اور آگے بڑھ کر قدم بوسی کی سعادت حاصل کی اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم پر ایمان لے آئے۔

حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ان سے ارشاد فرمایا:'' جلدی کرو کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے دادا جان حضرتِ سیِّدُنا عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وعدہ لے رکھا ہے کہ میں اپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو لوگوں سے چھپا کر رکھوں اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے شان و مرتبہ کو مخفی رکھوں۔''
وہ حبیبِ خداعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کی بارگاہ سے اس حال میں جدا ہوئے کہ ان کے دلوں میں محبت کی آگ بھڑک رہی تھی پھر حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بے خودی میں اپنا ہاتھ دل پر رکھ دیا اور کہا :'' مجھے واپس حضرتِ سیِّدَتُنا آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے درِ دولت پر لے چلو، ان سے دوسری بار رُخِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے حسن و جمال کی زیارت کی بھیک مانگتے ہیں۔ لہٰذا وہ سب ان کی یہ بے قراری دیکھ کر واپس چل پڑے۔جب حضرتِ سیِّدُنا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کو دیکھا تو دوڑ کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآ لہ وسلَّم کے ننھے ننھے قدمینِ شریفین کو بوسے دینے لگے اور گُھٹی گھٹی سانسیں لینے لگے اور پھر اسی حالت میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ نے ان کی روحِ پاک کو جنت میں پہنچا دیا۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !عاشقوں اور سچی محبت کرنے والوں کے یہی اوصاف ہوتے ہیں۔

05/10/2023

The Great Canal in the Desert of Afghanistan
افغانستان کے صحرا میں عظیم نہر

•  Model: T500Want  Compatibility: Compatible With All   Smartphones•  Function: Call Reminder•  Battery Capacity: 180 t...
28/07/2023

• Model: T500
Want Compatibility: Compatible With All Smartphones
• Function: Call Reminder
• Battery Capacity: 180 to 220mAh
• Screen Shape: Square
• Product Code: MZ3700016RHZM

‏مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک جب حادثے کا شکار ہوا تو اسکے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مساف...
02/07/2023

‏مشہور برطانوی بحری جہاز ٹائی ٹینک جب حادثے کا شکار ہوا تو اسکے آس پاس تین ایسے بحری جہاز موجود تھے جو ٹائی ٹینک کے مسافروں کو بچا سکتے تھے۔۔
سب سے قریب جو جہاز موجود تھا اسکا نام سیمسن (Samson) تھا اور وہ حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے صرف سات میل کی دوری پہ تھا۔ سیمسن کے عملے نے نہ صرف ٹائی ٹینک کے عملے کی طرف سے فائر کئے گئے سفید شعلے (جو کہ انتہائی خطرے کی صورت میں فضا میں فائر کئے جاتے ہیں) دیکھے تھے
بلکہ مسافروں کی آہ و بُکا کو بھی سُنا۔ لیکن کیونکہ سیمسن کے لوگ غیر قانونی طور پہ انتہائی قیمتی سمندری حیات کا شکار کر رہے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ پکڑے جائیں لہذا ٹائی ٹینک کی صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی بجائے مدد کرنے کے وہ جہاز کو ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں بہت دور لے گئے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنی گناہوں بھری زندگی میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ان کے اندر سے انسانیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور پھر وہ ساری زندگی اپنے گناہوں کو چھپاتے گزار دیتے ہیں۔
یہ ہے انسانوں کا پہلا رویہ
دوسرا جہاز جو قریب موجود تھا اس کا نام کیلیفورنین (Californian) تھا جو حادثے کے وقت ٹائی ٹینک سے چودہ میل دور تھا۔ اس جہاز کے کیپٹن نے بھی ٹائی ٹینک کی طرف سے مدد کی پکار کو سنا اور باہر نکل کے سفید شعلے اپنی آنکھوں سے دیکھے لیکن کیونکہ وہ اس وقت برف کی چٹانوں میں گھرا ہوا تھا
اور اسے ان چٹانوں کے گرد چکر کاٹ کے ٹائی ٹینک تک پہنچنے میں خاصی مشکل صورتحال سے دو چار ہونا پڑتا لہذا کیپٹن نے اس کی بجائے دوبارہ اپنے بستر میں جانا اور صبح روشنی ہونے کا انتظار کرنا مناسب سمجھا۔
صبح جب وہ ٹائی ٹینک کی لوکیشن پہ پہنچا تو ٹائی ٹینک کو سمندر کی تہہ میں پہنچے چار گھنٹے گزر چکے تھے اور ٹائی ٹینک کے کیپٹن ایڈورڈ اسمتھ سمیت 1569 افراد موت کے گھاٹ اتر چکے تھے۔
یہ جہاز ہم میں سے ان افراد کی نمائندگی کرتا ہے جو کسی کی مدد کرنے کو اپنی آسانی سے مشروط کر دیتے ہیں اور جب تک حالات حق میں نہ ہوں کسی کی مدد کرنا اپنا فرض نہیں سمجھتے۔
یہ ہے انسانوں کا حارثہ کے بارے میں دوسرا رویہ
تیسرا جہاز کارپیتھیا (Carpathia) تھا جو ٹائی ٹینک سے 68 میل دور تھا۔ اس جہاز کے کیپٹن نے ریڈیو پہ ٹائی ٹینک کے مسافروں کی چیخ و پکار سنی۔ صورتحال کا اندازہ ہوتے ہی باوجود اس کے کہ یہ ٹائی ٹینک کی مخالف سمت میں جنوب کی طرف جا رہا تھا،
اس نے فورا اپنے جہاز کا رخ موڑا اور برف کی چٹانوں اور خطرناک موسم کی پروا کئے بغیر مدد کے لئے روانہ ہو گیا۔ اگرچہ یہ دور ہونے کے باعث ٹائی ٹینک کے ڈوبنے کے دو گھنٹے بعد لوکیشن پہ پہنچ سکا
لیکن یہی وہ جہاز تھا جس نے لائف بوٹس پہ امداد کے منتظر ٹائی ٹینک کے باقی ماندہ 710 مسافروں کو زندہ بچایا تھا اور انہیں بحفاظت نیو یارک پہنچا دیا تھا۔
اس جہاز کے کیپٹن کیپٹن آرتھر روسٹرن کو برطانوی نیوی کی تاریخ کے چند بہادر ترین کیپٹنز میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کے اس عمل پہ انہیں کئی سماجی اور حکومتی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا تھا۔
ہماری زندگی میں ہمیشہ مشکلات رہتی ہیں، چیلنجز رہتے ہیں، لیکن وہ جو ان مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے بھی انسانیت کی بھلائی کیلئے کچھ کر جائیں انہیں ہی انسان اور انسانیت یاد رکھتی ہے
دعاکریں کہ اللہ کسی کی مدد کی توفیق دے کیوں کہ یہ انسانیت کی معراج اور اعلی ترین درجہ ہے

چوسہ کی جنگ (جون 26-1539) مغل بادشاہ ہمایوں اور افغان پشتون بادشاہ شیر شاہ سوری (شیر خان) کے درمیان ہوئی۔ چوسہ کی جنگ می...
27/06/2023

چوسہ کی جنگ (جون 26-1539) مغل بادشاہ ہمایوں اور افغان پشتون بادشاہ شیر شاہ سوری (شیر خان) کے درمیان ہوئی۔ چوسہ کی جنگ میں ہمایوں کو شیر شاہ سوری نے شکست دی۔
شیر شاہ اور ہمایوں کی فوجیں تین ماہ (26 اپریل تا 26 جون 1539) تک آمنے سامنے رہیں۔ بارش شروع ہوتے ہی شیر شاہ سوری نے مغل فوجوں پر حملہ کر دیا اور ان میں کافی انتشار پیدا کر دیا۔ مغلوں کا کیمپ پانی سے بھر گیا، شیر شاہ نے مغلوں پر اچانک حملہ کر دیا۔ افغان فوج جو کہ شیر شاہ ، اس کے بیٹے جلال خان اور اس کے سب سے بڑے جرنیل خواص خان کے ماتحت بالترتیب تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی، نے مغلوں پر تین سمتوں سے حملہ کیا۔ اس لڑائی میں مغلوں کی کل آٹھ ہزار فوجیں میدان جنگ میں ہلاک ہوۓ اور کچھ دریائے گنگا میں ڈوب کر ہلاک ہوئیں۔
شیر شاہ مغلوں کے توپ خانے اور حرم سمیت مغل کیمپ پر قبضہ کر لیا۔ شیر شاہ نے حرم کی عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کیا اور ہمایوں کے پاس ان کی بحفاظت واپسی کا انتظام کیا۔ خود ہمایوں چند آدمیوں کے ساتھ آگرہ کی طرف بھاگ گیا۔
اس جنگ نے تاریخ بدل دی اور شیر شاہ سوری حکمران بن گیا اور فرید الدین شیر شاہ کے نام سے ہندوستان کا بادشاہ بن گیا۔


The Battle of Chausa (June 26-1539) took place between Mughal Emperor Humayun and Afghan Pashtun king Sher Shah Suri (Sher Khan). Humayun was defeated in Chausa War by Sher Shah Suri.
The armies of Sher Shah and Humayun lay facing each other for three months (April to June 26, 1539). With the beginning of the rains, Sher Khan attacked the Mughal forces and caused a lot of confusion among them. The Mughal camp was filled with water, Sher Shah made a surprise attack on the Mughals. The Afghan army, which was divided into three divisions under Sher shah, his son Jalal Khan, ands his greatest general Khawas Khan respectively, attacked the Mughals from three directions. In the battle total eight thousand Mughals troops were killed and some drowned in ganga river.
Sher shah captured the Mughal camp along with their artillery and harem. Sher shah treated the ladies of the harem kindly and made arrangements for their safe return to Humayun. Humayun himself, attended by a few men, fled towards Agra.
The battle changed history and Sher Shah Suri became a ruler and crowned himself Farid al-Din Sher Shah.

These images are made by admin of Pakhtun Pashtun page using AI software.

سرتور فقیر (ننگے سر) کو پشتو میں "ملا مستان، ملا مستانہ، لیونئی فقیر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور انگریزوں نے "The gr...
19/06/2023

سرتور فقیر (ننگے سر) کو پشتو میں "ملا مستان، ملا مستانہ، لیونئی فقیر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور انگریزوں نے "The great fakir" یا "The mad faqir of swat " یا "mad mullah " کہا ہے۔ سرتور فقیر ایک قابل ذکر شخصیت تھے جنہوں نے خیبر پختونخوا میں برطانوی سلطنت کے خلاف جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا۔

سرتور فقیر کا اصلی نام سیدللہ خان تھا اپ کی پیدائش وادی بونیر کے گاؤں ریگا بونیر میں ہوئی تھی اور وہ پشتونوں کے یوسف زئی قبیلے کی ایک شاخ سے تعلق تھا۔ اپنی مذہبی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے، وہ دس سال تک افغانستان میں مزار شریف میں قیام کرنے سے پہلے پورے ہندوستان اور وسطی ایشیا میں رہا اور سفر کیا۔ 1895 میں وہ بونیر واپس آئے۔

شمال مغربی سرحدی صوبے (خیبر پختونخوا) پر برطانوی قبضے اور ڈیورنڈ لائن کے ذریعے پشتون زمینوں کی تقسیم کے جواب میں فقیر نے برطانوی سلطنت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ اس نے علاقائی یوسفزئی، مہمند، عثمان خیل، بونیروال، سواتی قبائل کے بارہ ہزار 12000 سے زائد پشتون قبائلیوں کو برطانوی سلطنت کے خلاف اکٹھا کیا اور مالاکنڈ اور دیر میں برطانوی چھاؤنیوں پر حملے شروع کر دیے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انگریزوں کو نہ صرف مالاکنڈ بلکہ پشاور سے بھی بے دخل کیا جائے گا۔

اس نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس تمام فوت شدہ فقیروں نے ملاقات کی ہے، جنہوں نے اسے بتایا کہ ان کی (برطانوی) بندوقوں اور رائفلوں کے منہ بند کر دیے جائیں گے اور ان کی (برطانوی) گولیوں پر پانی پھر جائے گا۔ کہ اس نے صرف دریائے سوات میں پتھر پھینکنا تھا اور ہر پتھر جو وہ پھینکے گا اس کا اثر ان (برطانوی فوجیوں) پر بندوق کا ہوگا۔ اس نے اعلان کیا کہ اس کی مدد کے لیے اس کے پاس آسمان سے ایک پوشیدہ فوج ہے۔ اس لیے انگریز انھیں دیوانہ فقیر اور پشتون ان کے مختلف مذہبی باتوں کی وجہ سے لیونائی فقیر کہتے تھے۔

سرتر فقیر نے لنڈکے سے مالاکنڈ اور چکدرہ کی طرف مارچ شروع کیا۔ اپر سوات، بونیر، عثمان خیل اور ملحقہ علاقوں کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان کے ساتھ شامل ہوئے۔ ان کی کمان میں 8000 سے زیادہ پشتون قبائل نے چکدرہ میں انگریزوں پر حملہ کیا جس میں انگریزوں کے مطابق 28 فوجی ہلاک اور 178 زخمی ہوئے لیکن مقامی پشتونوں کے مطابق 100 سے زائد انگریز فوجی مارے گئے۔ جیسے ہی حکومت ہند کو معلوم ہوا کہ مالاکنڈ اور چکدرہ گیریژن پر حملے محض ایک چھوٹی سی مقامی پریشانی کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ مشترکہ قبائلیوں کی طرف سے جان بوجھ کر ہماری فوجوں کو ملک سے باہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انگریزوں نے مالاکنڈ کو مضبوط کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے؛ سرتور فقیر کی کمان میں پشتون قبائلیوں کے اُٹھنے کو کچلنے کے مقصد کے لیے ڈویژنل دستوں کے ساتھ دو بریگیڈوں پر مشتمل ایک فیلڈ فورس کی تشکیل کے احکامات جاری کیے گئے۔

اس لڑائی میں دونوں طرف سے بہت سے جنگجو مارے گئے۔ وادی میں تعزیری مہم کے وقت لنڈکے کے قریب کوٹاہ اور نوے کلے میں لڑائی کی شدید نوعیت اور انگریزوں کے لیے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی حکومت نے سب سے اعلی فوجی تمغہ وکٹوریہ کراس سے لیفٹیننٹ کرنل ایڈمز اور ویزکاؤنٹ فنکاسل کو نوازا ۔ پانچ دیگر کو آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا۔ ملاکنڈ کا محاصرہ ونسٹن چرچل کا اصل لڑائی کا پہلا تجربہ تھا، وہ برطانوی اخبار میں اس کے بارے میں مضامین لکھتے ہیں ان مضامین کو بالآخر ان کی پہلی شائع شدہ کتاب، The Story of the Malakand Field Force میں مرتب کیا گیا، جس سے انہونے بطور مصنف اور سیاست دان اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

بعد میں عبداللہ خان کے ماتحت نواب کے دیر نے سرتر فقیر کے خلاف ہو کر اس کی فوجوں پر حملہ کر کے اس کی تحریک کو کمزور کر دیا۔ اس سے سرتور فقیر پریشان ہو گئے۔ انگریزوں نے اس کے خلاف تقسیم کرو اور حکومت کرو کی حکمت عملی استعمال کی اور اس کے مزید حملوں کو روکنے کے لیے انہوں نے نواب دیر سے معاہدہ کیا کہ فقیر کو ان علاقوں میں کبھی داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

برطانوی افسروں کے مطابق میک مہین اور رمسے نے اعتراف کیا کہ "سرتور فقیر نے شمال مغربی سرحدوں پر بہترین اور سخت ترین لڑائیاں کی جن کا ہم اعتراف کرتے جو ہم مانتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس خطے میں ان کی تحریک نے بہادر جنگجوؤں میں آزادی اور جہادی کے جذبے کو زندہ رکھا۔

فقیر کا بنیادی مقصد خطے میں رہنے والی قبائلی برادریوں کی خودمختاری اور آزادی کا تحفظ تھا۔ انہوں نے اپنی زمینوں پر برطانوی سلطنت کے تجاوزات کی شدید مخالفت کی اور مختلف قبائلی گروہوں کو برطانوی افواج کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی۔ وہ قبائلی برادریوں کے لیے امید کی علامت بن گئے، انہیں برطانوی سامراج کے خلاف کھڑے ہونے کی ترغیب دی۔

سرتور فقیر کا انتقال 1917 میں فتح پور سوات میں ہوا۔

یہ تصویر ایڈمن نے AI سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے بنائی ہے۔

The Sartor Faqir (bareheaded) also known as "Mullah Mastan , Mullah Mastana,Lewanai Faqir" in Pashto and by the British as "The Great Fakir" or "Mad Faqir", "Mad Faqir of Swat" or the "Mad Mullah". Sartor Faqir was a notable figure who played a significant role in the struggle against the British Empire in the Khyber Pakhtunkhwa.

Sartor faqir real name was saidullah khan , he was born in the village of Rega Buner in the Buner Valley and was a member of a branch of the Yousafzai tribe of Pashtuns. In order to further his religious education, he lived and travelled throughout India and Central Asia, before setting in Mazar-i-Sharif in Afghanistan for a period of ten years. In 1895, he returned to Buner.

In response to the British occupation of the North West Frontier Province (Khyber Pakhtunkhwa), and the division of Pashtun lands by the Durand Line, the Faqir declared a jihad against the British Empire. He gathered more than 12,000 Pashtun tribesmen tribesmen of the regional Yusufzai, Mohmand, Uthmankhel, Bunerwal, Swati tribes among others against british empire and started attacks on british garrisons in malakand and dir. He claimed that the British would not only be expelled from Malakand but also from Peshawar.

He claimed to have been visited by all the deceased faqirs, who told him that the mouths of their (British) guns and rifles would be closed and that their (British) bullets would be turned to water; that he had only to throw stones into the Swat river, and each stone he threw would have on them (British troop) the effect of a gun. He proclaimed that he had an invisible army from heaven at his side to assit him. Thats why British used to call him Mad faqir and pashtuns as Lewanai faqir for his different relgious ideas.

Sartor Faqir started marching from Landakay to Malakand and Chakdara. People from Upper Swat, Buner, Utman Khel and the adjacent areas joined him in thousands. Under his command more than 8,000 pashtuns tribesmen attacked british in Chakdara in which according to british they lost 28 soldiers and 178 injured but according to local Pashtuns more than 100 of british soldiers were killed. As soon as the Government of India became aware that the attacks on the Malakand and Chakdara garrisons were not merely the result of a small local disturbance, but that a deliberate attempt was being made by the combined tribesmen to turn our troops out of the country, The british took immediate steps to reinforce the Malakand; orders were issued for the formation of a field force, consisting of two brigades with divisional troops, for the purpose of crushing the rising of Pashtun tribesmen under sartor faqir command.

In this fighting a lot of fighters were killed from both sides. The severe nature of the fighting at Kotah and Naway Kalay, near Landakay, at the time of the punitive expedition in the valley, and its significance to the British can be judged from the fact that the British government awarded the highest military medal, the Victoria Cross, to Lieutenant-Colonel Adams and Viscount Fincastle. Five others were awarded the Order of Merit. The siege of Malakand was Winston Churchill's first experience of actual combat, he writes articles about in british newspaper these articles were eventually compiled into his first published book, The Story of the Malakand Field Force, beginning his career as a writer and politician.

Later the dir of nawab under Abdullah khan of robat turned against sartor faqir and attacked his forces and made his movement weak. This made sartor faqir upset. British used the divide and rule strategy against him and to stop further attacks from his they made agreements with Nawwab of dir to never allow faqir to enter these areas.

According to British officers McMahin and Ramsay admit that "the sartor faqir provided some of the hardest and sternest fighting we have known on the North-Western Frontiers. It may be said that his movement kept the urge for freedom and jihadi alive among the hardy warriors of this region.

Faqir's primary objective was to protect the autonomy and independence of the tribal communities living in the region. He fiercely opposed the British Empire's encroachment on their lands and sought to unite the various tribal groups against the British forces. He became a symbol of hope for the tribal communities, inspiring them to stand up against British imperialism.

sartor faqir died in 1917 burried in fatehpur swat.

This picture was made by admin of Pakhtun Pashtun using AI software.

03/06/2023
گجو خان ​​یوسفزئی جسے گجو خان ​​بابا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ایک طاقتور پشتون سردار تھا جس نے 15 صدی کے وسط میں یوسفز...
31/05/2023

گجو خان ​​یوسفزئی جسے گجو خان ​​بابا کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ایک طاقتور پشتون سردار تھا جس نے 15 صدی کے وسط میں یوسفزئی اور دیگر پشتون قبائل کی سربراہی کی۔ گجو خان ​​1490 میں کابل میں اس وقت پیدا ہوئے، جب مغل گورنر مرزا علاغ بیگ نے ظلم و ستم شروع کیا اور کابل میں کئی یوسفزئی بزرگوں کو قتل کر دیا، گجو خان ​​اس وقت ملک احمد خان یوسفزئی کی قیادت میں یوسفزئی قبیلے کے ساتھ دوہابہ منتقل ہو گئے۔

ملک احمد خان یوسفزئی جنہوں نے پشتون قبائل کو دوبارہ منظم کیا اور ایک پختون ریاست قائم کی جس کا دارالحکومت مالاکنڈ تھا۔ لیکن ان کی موت کے بعد، غالباً 1535 میں، ان کے درمیان ایک لیڈر کی ضرورت تھی کیونکہ ان کے بیٹے تخت کے لیے ایک دوسرے کے گلے پڑ گئے تھے اور قیادت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ پروفیسر رابرٹ نکولس اپنی کتاب 'Settling the Frontier: Land, Law, and society in Peshawar' میں لکھتے ہیں کہ احمد خان کے سب سے قابل ذکر بیٹوں، الہدا اور اسماعیل کے درمیان بہن بھائیوں کی حسد قبیلے کے اندر دھڑے بندی کا باعث بنی۔ اس مقصد کے لیے عمائدین کا ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں غور و فکر کے بعد گجو خان ​​کو یوسف زئی قبیلے کی قیادت کرنے پر اتفاق ہوا کیونکہ وہ نہ صرف ایک اعلیٰ سپاہی تھا بلکہ اس کے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد بھی تھی.

احمد خان یوسفزئی کی قیادت میں ملک گجو خان ​​نے 1515 میں لڑی جانے والی سوات کی جنگ میں پہلے ہی عظیم بہادری کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے 1520 میں لڑی گئی کاٹلنگ کی تاریخی جنگ میں بھی فوج کی قیادت کی اور قبائل کی ایک عظیم کنفیڈریشن بنانے میں مدد کی۔ جب گجو خان ​​لیڈر بنے تو اس نے اب شمالی خیبر پختونخواہ کے بڑے علاقے کو کنٹرول کیا۔ Henry George Raverty ہنری جارج راورٹی کہتا ہے کہ اگر کوئی پشتون سردار تھا جو اپنے علاقے کی حد ، اس کی فوج کی تعداد اور اس کی طاقت کی حد اس دور تک بادشاہ کہلانے کا حقدار تھا تو وہ خان گجو خان ​​تھا۔ اپنی طاقت کے عروج پر، اسے مغرب میں ننگرہار اور کنڑ سے لے کر مارگلہ کی پہاڑیوں (پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں) اور مشرق میں گکھڑ کے علاقے اور شمال میں بالائی سوات سے لے کر جنوب میں کوہاٹ تک تسلیم کیا گیا۔ پکھلی کے حکمران (ایک قرلغ ترک) اور پنجاب میں سلطان آدم (گکھروں کے سردار) نے گجو خان ​​کی برتری کو تسلیم کیا اور اس کی بیعت کی۔

گجو خان ​​بابا کے دور میں تقریباً 2 لاکھ پشتون قبائلیوں کی مضبوط فوج تھی۔ اس نے اپنی فوج میں یوسفزئی، گگیانیوں، محمد زئیوں، ترکانڑی، جدون، مشوانی، عثمان خیل، بڑیچ، وردک، سواتی، خٹک، گبری، اعوان، گجر اور دیگر سے جنگجو بھرتی کئے۔

1530 کی دہائی میں کسی وقت، گجو خان ​​ہندوستان گئے اور شیر شاہ سوری کے جھنڈے تلے خدمات انجام دیں۔

1553 میں مغل شہنشاہ ہمایوں نے کابل سے پشاور پر حملہ کیا، یہ خان گجو خان ​​ہی تھے جنہوں نے ڈیڑھ لاکھ جوانوں کی حمایت سے مغلوں کے جنرل سکندر ازبک کو شکست دی اور وہ قلعہ بالاحصار میں پناہ لینے میں مجبور ہوگیا ۔ شکست کے بعد مغل بادشاہ ہمایوں پشاور انے کے بجائی واپس کابل چلا گیا۔ جب کہ اس کے جنرل، ازبک کو جنگی معاوضے کی ادائیگی اور پشاور پر حملے کے لیے معافی مانگنے کے بعد بحفاظت واپس بھیج دیا گیا۔

گاجو خان بابا کا مقبرہ صوابی، خیبر پختونخوا میں ہے۔

یہ تصویر پیج ایڈمن نے اے آئی سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے بنائی ہے۔

Gaju Khan yousafzai also known as Gaju khan baba was a powerful Pashtun chieftain who headed the Yousafzai and other pashtun tribes in mid-15 century.Gaju Khan was born in Kabul in 1490 at the time, when the Mughal governor Mirza Alagh Baig started persecution of Pakhtuns in Kabul and killed a number of Yousafzai elders, Gajju Khan in a cradle at the time shifted to Dohaba along with Yousafzai tribe under the leadership of Malik Ahmad khan yousafzai.

Malik Ahmed Khan yousafzai who had reorganised the Pashtun tribes and established a Pukhtun’s state with Malakand as its capital. But after his death, probably in 1535, there was a need of a leader among them as his sons were at each other’s throats for the throne and not in position to lead. Professor Robert Nichols in his book ‘Settling the Frontier: Land, Law, and society in Peshawar,’ writes that sibling jealousy between Ahmad’s khan most notable sons, Al-hoda and Ismael, led to factionalism within the clan. For this purpose a Jirga of elders was held after deliberation, they agreed on Gaju khan to lead the Yousafzai tribe as he was not only a superior soldier but had also a large number of kinsmen.

Under Ahmad’s khans leadership, Malik Gaju khan had already displayed great heroism in war of Swat which was fought in 1515. He has also led army in the historical war of Katlang fought in 1520 and helped forming a great confederation of tribes. When Gaju khan become leader he controlled large area of what is now Northern Khyber Pakhtunkhwa. Henry George Raverty states that if there was one Pashtun chief who from the extent of his territory, the number of his troops and extent of his power, was entitled to be called a king up to that period, it was Khan Gaju khan. At the height of his power, he was acknowledged from Nangarhar and Kunar in the west to the Margallah hills (in the Islamabad capital of Pakistan) and Gakkhar territory in the east, and from upper Swat in the north to Kohat in the south. The ruler of Pakhli (a Qarlugh Turk) and Sultan Adam (the chief of Gakkhars) in Punjab acknowledged the superiority of Gaju Khan and paid allegiance to him.

During gaju khan baba has strong army of nearly 2 lac pashtun tribesmen. He recruited fighters in his army from Yusufzais, Gagianis, Muhammadzais, Tarkanris, Jadoons, Mashwanis, Utman Khels , Barech, Wardak, Swatis, Khattaks, Gabris, Awans, Gujjars and others.

At some point in 1530s, Gaju Khan went to Hindustan and served under the banners of Sher shah suri.

In 1553, Mughal Emperor Humayun attacked Peshawar from Kabul, it was Khan Gajju Khan who with the support of 150,000 men defeated the Mughal’s General Sikandar Uzbek who was forces to take shelter in Balahisar fort.Emperor Humayun instead of proceeding towards Peshawar had to return to Kabul. While his general, Uzbek was sent safely after he paid war reparations and apologised for the attack on Peshawar.

Gaju khan baba tomb is in Swabi, Khyber Pakhtunkhwa.

This picture is made by Page admin of Pakhtun Pashtun Pakhtun Pashtun using AI softwar

پشتون افغان بادشاہ شیر شاہ سوری کا اصلی نام فرید خان تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ فرید خان کو شیر شاہ کیوں کہا جاتا ہے۔ یہ ...
21/05/2023

پشتون افغان بادشاہ شیر شاہ سوری کا اصلی نام فرید خان تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ فرید خان کو شیر شاہ کیوں کہا جاتا ہے۔ یہ ایک واقعہ کی کہانی کی وجہ سے ہے۔ جب ایک بار شیر نے ہندوستان میں بہار کے بادشاہ پر حملہ کیا تو فرید خان نے اس سے مقابلہ کیا اور ننگے ہاتھوں شیر کو قتل کر لیا۔ اس واقعے کے بعد وہ بڑے پیمانے پر شیر شاہ یا "شیر خان" کے نام سے مشہور ہوئے۔

Pashtun Afghan King Sher Shah Suri Real name was Farid khan. You might be wondering why Farid Khan is known as Sher Shah. This is because of an adventurous story. When once a lion attacked the king of bihar in hindustan, Farid Khan fought with it and killed the lion with his bare hands. After this incident, he was widely known as "Sher Shah" or "Sher khan."

This picture is made by Admin with AI software.

بنوں کرم گڑی ہیڈ کے خوبصورت اور دلکش نظارے📷🔴   #بنوںُ      #بنوں     Deputy Commissioner Bannu Photos📷: Uzair Shah
08/05/2023

بنوں کرم گڑی ہیڈ کے خوبصورت اور دلکش نظارے📷🔴

#بنوںُ #بنوں
Deputy Commissioner Bannu
Photos📷: Uzair Shah

کالو خان 16 ویں صدی میں افغان یوسف زئی قبیلہ کے لیڈر  اور فوجی رہنما تھے جنہوں نے 16 ویں صدی میں مغلوں کو  زبردست شکست د...
27/04/2023

کالو خان 16 ویں صدی میں افغان یوسف زئی قبیلہ کے لیڈر اور فوجی رہنما تھے جنہوں نے 16 ویں صدی میں مغلوں کو زبردست شکست دی. کالو خان یوسفزئی کا نام مغلوں کے خلاف مزاحمت میں بہت سے تاریخی نسخوں میں کیا گیا ہے. وہ ایک بہادر قبائلی کمانڈر ، ایک سفارت کار اور فوجی حکمران تھے ۔ اسٹریٹجک طور پر ، موجود دور کا خیبر پختونخوا اس وقت مغل سلطنت کے دفاع کے لئے بہت اہم تھا.

خیبر پاس کے ذریعے مواصلات کی لکیر کو محفوظ بنانے کے لئے ، اکبر جنوری 1586 میں ذاتی طور پر اٹک پہنچ گیا. کالو خان نے شہنشاہ اکبر عظیم کے خلاف اتنی بہادری سے لڑائی لڑی کہ وہ دریائے انڈس کے کنارے اٹک قلعہ تعمیر کرنے پر مجبور ہوگیا تھا. اکبر نے زین خان کوکا اور حکیم ابول فتاح اور مشہور راجہ بیربل جیسے دیگر قابل کمانڈروں کے تحت ایک مضبوط فورس بھیجی کالو خان کے خلاف۔

مغل فوج مالندارے کے مقام پہنچنے کے بعد ، انہوں نے قریب آنے والے خطرے کا احساس کیا. ان میں سے کچھ نے یوسف زئی جنگجوؤں کو پہاڑیوں کی چوٹی پر پوزیشن لیتے ہوئے دیکھا. کرھاپا ( بونر ) کے تنگ گھاٹیوں میں ، کالو خان کے ماتحت یوسفزایوں نے مغل افواج پر حملہ کیا اور زبردست نقصان اٹھایا. آٹھ ہزاروں مغل فوجی اس جگہ پر ہی دم توڑ گئے. راجہ بربل ، خوجا عرب بخشی ، ملا شیرین اور بٹانی کمانڈر حسن خان ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے.

زین خان اور حکیم ابول فتاح اٹک کے قلعے تک فرار ہوگئے. اکبر نے دو دن تک فرار ہونے والے دو کمانڈروں سے بربل کی موت پر غصے کی وجہ سے ملاقات کرنے سے انکار کیا اور نہ کچھ کھایا پیا ۔ اطلاعات کے مطابق ، انہوں نے اپنے پسندیدہ درباری بیربل پر اپنے دکھ کا اظہار کیا۔ بونر سوات سرحدی علاقے کاراکر میں مغل فوج کے قتل عام کالو خان یوسف زئی کے ہاتھوں نے اکبر بادشاہ پر شدید اثر ڈالا ۔

اکبر کو اپنی پوری حکومت میں اب تک کی سب سے بڑی شکست تھی۔ مغل مورخ خفی خان کے مطابق ، اس لڑائی کے نتیجے میں 40،000 – 50،000 مغل جنگجوؤں کی ہلاکت ہوئی۔ تاہم ، بڈوانی کے مطابق ، اس پورے واقعے کے نتیجے میں 8000 کے قریب مغل جنگجوؤں کی ہلاکت ہوئی.

پختونخوا کے عام لوگ کالو خان ​​کی فتح کو مغلوں کی مداخلت کے خلاف اپنی مزاحمت کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ پختون بزرگ اس فتح کو نوجوانوں کو اپنے لیجنڈز اور ہیروز کی قربانیوں کے اعتراف میں سناتے ہیں۔

کالو خان کی قبر صوابی ضلع میں ہے اور یہاں ایک گاؤں کا نام بھی کالو خان کے نام سے منسوب ہے.
#یوسفزئی

Kalu Khan was Afghan Yousafzai chief and military leader in 16th century who inflicted a great defeat on the Mughals in 16th Century. The name of Kalu Khan and his role in resisting the Mughal intrusions has been mentioned in many historical manuscripts. He was a brave tribal commander, a diplomat and a military strategist.Strategically, the region that is now modern Khyber Pakhtunkhwa was much important for the defence of the Mughal Empire.

To secure the line of communication through Khyber Pass, Akbar personally reached Attock in January 1586. Kalu Khan fought against Moughal Emperor Akbar the Great so bravely that he was forced to construct the Attock Fort at the edge of River Indus. Akbar sent a strong force under Zain Khan Koka and other capable commanders like Hakim Abul Fatah and famous Raja Birbal.

After the Mughal army reached Malandaray, they sensed the approaching threat. Some of them spotted the Yusufzai fighters taking position on the top of hills. In the narrow gorges of Krhapa (Buner), the Yusufzais under Kalu Khan attacked and inflicted great losses on the Mughal forces. Eight thousands of Mughal soldiers died on the spot. Raja Birbal, Khwaja Arab Bakhshi, Mulla Shirin and a Battani commander Hasan Khan were among the dead.

Zain Khan and Hakim Abul Fatah escaped to the fort of Attock. Akbar refused to meet the two escaping commanders for two days due to his anger on the death of Birbal.According to reports, he expressed his sorrow over Birbal, his favourite courtier, passing away.The massacre of Mughal army in the defiles of Karakar in the Buner-Swat border area by Kalu khan yousafzai was an event of serious implications.

This was one of the greatest defeats Akbar had ever received in his entire regime.According to Mughal historian Khafi Khan, this fight resulted in the deaths of 40,000–50,000 Mughal warriors.[12] However, according to Badoani, this entire incident resulted in the deaths of close to 8000 Mughal warriors.
General masses in the frontier considered the victory of Kalu Khan as part of their resistance against the Mughal intrusion. Pakhtun elders narrate this victory to youngsters in recognition of the sacrifices made by their legends and heroes.

The grave of kalu khan is in swabi district and there is a village by name kalu khan named after him.

Address

Bannu

Telephone

+923358426383

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when BANNU GUL ZAMA GUL posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to BANNU GUL ZAMA GUL:

Videos

Share