27/09/2021
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج سیاحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سیاحت کا عالمی دن ورلڈ ٹورازم آرگنائزیشن کی ایگزیکٹو کونسل کی سفارشات پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے بعد سے 1970 سے ہر سال 27 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد سیاحت کے فروغ، نئے سیاحتی مقامات کی تلاش، آثار قدیمہ کو محفوظ بنانے، سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اور جدید سہولیات پیدا کرنے، سیاحوں کے تحفظ ، نئے سیاحتی مقامات تک آسان رسائی سمیت دیگر متعلقہ امور کو فروغ دینا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال سیاحت کو تمام لوگوں خاص طور پر جسمانی معذوری کا شکار افراد کے لیے دستیاب بنانا ہے۔ پاکستان قدرتی حسن سے مالا مال ملک ہے۔ا گر یہاں سیاحت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو صرف سیاحت ہماری معیشت میں ایک بڑے اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ دہشت گردی کے باوجود اب بھی پاکستان کے شمالی علاقوں میں غیر ملکی سیاحوں کی آمد جاری ہے جو پاکستان کے سحر انگیز اور دیو مالائی قدرتی حسن کا ثبوت ہے۔ یہاں ہم آپ کو پاکستان کے چند خوبصورت سیاحتی مقامات کی سیر کروا رہے ہیں۔ بیرونی کوہ پیماؤں کی کشش کا باعث بننے والی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان میں موجود ہے۔ 8 ہزار 611 میٹر کی بلندی رکھنے والی اس چوٹی کو سر کرنے کے لیے ہر سال بے شمار ملکی و غیر ملکی کوہ پیما رخت سفر باندھتے ہیں لیکن کامیاب کم ہی ہو پاتے ہیں۔ ضلع چترال پاکستان کے انتہائی شمالی کونے پر واقع ہے۔ یہ ضلع ترچ میر کے دامن میں واقع ہے جو کہ سلسلہ کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی ہے جو اسے وسط ایشیا کے ممالک سے جدا کرتی ہے۔ اپنے منفرد جغرافیائی محل وقع کی وجہ سے اس ضلع کا رابطہ ملک کے دیگر علاقوں سے تقریباً 5 ماہ تک منقطع رہتا ہے۔ اپنی مخصوص پرکشش ثقافت اور پراسرار ماضی کے حوالے سے چترال نے سیاحت کے نقطہ نظر سے کافی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ :گورکھ ہل سندھ کے شہر دادو کے شمال مغرب کوہ کیر تھر پر گورکھ ہل اسٹیشن واقع ہے۔ یہ صوبہ سندھ کا بلند ترین مقام ہے اور سطح سمندر سے 5 ہزار 688 فٹ بلند ہے جو کہ پاکستان کے مشہور ترین ہل اسٹیشن مری کا ہم پلہ ہے۔ کراچی سے گورکھ ہل اسٹیشن کا فاصلہ 400 کلو میٹر ہے۔ بلوچستان میں واقع ہنگول نیشنل پارک پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے جو 6 لاکھ 19 ہزار 43 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کراچی سے 190 کلو میٹر دور یہ پارک بلوچستان کے تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور آواران کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں بہنے والے دریائے ہنگول کی وجہ سے اس کا نام ہنگول نیشنل پارک رکھا گیا ہے۔ اس علاقہ کو 1988 میں نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا۔ ہندوؤں کا معروف ہنگلاج مندر بھی اس پارک میں واقع ہے۔ یہ پارک کئی اقسام کے جنگلی درندوں، چرندوں، آبی پرندوں، حشرات الارض، دریائی اور سمندری جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔ بلوچستان کا مشہور امید کی دیوی یا پرنسز آف ہوپ کہلایا جانے والا 850 سالہ قدیم تاریخی مجسمہ بھی اسی نیشنل پارک کی زینت ہے۔ پاکستان کے ضلع جہلم میں کھیوڑہ نمک کی کان واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 160 جبکہ لاہور سے قریباً 250 کلومیٹر فاصلہ پر ہے۔ کھیوڑہ میں موجود نمک کی یہ کان جنوبی ایشیا میں قدیم ترین کان ہے اور یہ دنیا کا دوسرا بڑا خوردنی نمک کا ذخیرہ ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جب سکندر اعظم 322 ق م میں اس علاقے میں آیا تو اس کے گھوڑے یہاں کے پتھر چاٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ ایک فوجی نے پتھر کو چاٹ کر دیکھا تو اسے نمکین پایا۔ یوں اس علاقے میں نمک کی کان دریافت ہوئی۔ اس کے بعد یہ کان یہاں کے مقامی راجہ نے خرید لی اور قیام پاکستان تک یہ کان مقامی جنجوعہ راجوں کی ملکیت رہی۔ ایوبیہ نیشنل پارک مری سے 26 کلومیٹر دور صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع ہے۔ سابق صدر پاکستان ایوب خان کے نام پر اس علاقے کا نام ایوبیہ رکھا گیا۔ چار مختلف پہاڑی مقامات گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، خیرا گلی اور خانسپور کو ملا کر ایوبیہ تفریحی مقام بنایا گیا۔ ٹھنڈیانی ضلع ایبٹ آباد کے جنوب میں واقع ہے۔ ایبٹ آباد شہر سے اس کا فاصلہ تقریباً 31 کلو میٹر ہے۔ اس کے مشرق میں دریائے کنہار اور کشمیر کا پیر پنجال سلسلہ کوہ واقع ہے۔ شمال اور شمال مشرق میں کوہستان اور کاغان کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ شمال مغرب میں سوات اور چترال کے برف پوش پہاڑ ہیں۔ ٹھنڈیانی سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ بلند ہے۔ جھیل سیف الملوک وادی کاغان کے علاقے ناران میں 10 ہزار 578 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کا شمار دنیا کی حسین ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ صبح کے وقت ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔ جھیل سے انتہائی دلچسپ لوک کہانیاں بھی منسوب ہیں جو یہاں موجود افراد کچھ روپے لے کر سناتے ہیں اور اگر آپ جھیل سے منسوب سب سے دلچسپ کہانی سننا چاہتے ہیں تو جھیل پر کالے خان نامی نوے سالہ بزرگ کو تلاش کیجیئے گا۔ دیوسائی نیشنل پارک سطح سمندر سے 13 ہزار 500 فٹ اونچائی پر واقع ہے۔ پارک 3 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ نومبر سے مئی تک پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ بہار کے موسم میں پارک پھولوں اور کئی اقسام کی تتلیوں کے ساتھ ایک منفرد نظارہ پیش کرتا ہے۔ دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ دیو اور سائی یعنی دیو کا سایہ۔ ایک ایسی جگہ، جس کے بارے میں صدیوں یہ یقین کیا جاتا رہا کہ یہاں دیو بستے ہیں، آج بھی مقامی لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ یہ حسین میدان مافوق الفطرت مخلوق کا مسکن ہے۔ یہاں دیکھتے دیکھتے ہی موسم خراب ہونے لگتا ہے، کبھی گرمیوں میں اچانک شدید ژالہ باری ہونے لگتی ہے۔ ہر لمحہ بدلتے موسم کی وجہ سے دیوسائی میں دھوپ چھاؤں کا کھیل بھی جاری رہتا ہے۔ یہ علاقہ جنگلی حیات سے معمور ہونے کی وجہ سے انسان کے لیے ناقابل عبور رہا۔ برفانی اور یخ بستہ ہواﺅں، طوفانوں اور خوفناک جنگلی جانوروں کی موجودگی میں یہاں زندگی گزارنے کا تصور تو اس ترقی یافتہ دور میں بھی ممکن نہیں۔ اسی لیے آج تک اس خطے میں کوئی بھی انسان آباد نہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے پائے نامی علاقہ سے ذرا آگے پائے میڈوز واقع ہے جہاں کا طلسماتی حسن آپ کو سحر انگیز کردے گا۔ بہاولپور کے قریب صحرائے چولستان میں قلعہ دراوڑ گو کہ وقت کے ہاتھوں شکست و ریخت کا شکار ہے تاہم یہ اب بھی سیاحوں اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے باعث کشش ہے۔ صحرائے تھر پاکستان کی جنوب مشرقی اور بھارت کی شمال مغربی سرحد پر واقع ہے۔ اس کا رقبہ 2 لاکھ مربع کلومیٹر ہے۔ اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے صحرا کے طور پر کیا جاتا ہے۔ صحرا میں ہندوؤں کے قدیم مندروں سمیت کئی قابل دید مقامات موجود ہیں۔ یہاں یوں تو سارا سال قحط کی صورتحال ہوتی ہے تاہم بارشوں کے بعد اس صحرا کا حسن نرالا ہوتا ہے
حریم ٹریولز اینڈ ٹورز
بالمقابل پنجاب بینک مین ملکوال روڈ بھیرہ
03007430754
03217430754
03006090540