
03/10/2024
السلام علیکم و رحمت اللہ
کسی دوست کے حوالے سے ایک صاحب کا فون آیا کہ ایجنٹ کہہ رہا ہے کہ ہم آپ کے بچے کو بیلارس سے پولینڈ کی سرحد یعنی بارڈر پار کروا کر یورپ میں انٹری دلوائیں گے۔ اور اس کی "لاگت" 22 لاکھ روپے ہو گی (بائیس لاکھ روپے۔ غالبا ان کی ایک ایکڑ زمین کی قیمت) جبکہ ہونہار کی قابلیت میٹرک ہے۔ اور اس کے بعد گزشتہ 5 برس میں وہ بچہ ایک دو دیگر ممالک کی ٹرائی میں دس لاکھ برباد کروا چکا ہے، جبکہ اپنی زمین ٹھیکے پر دی ہوئی ہے۔
میں نے انہیں تفصیل سے سمجھایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ پولینڈ بیلارس بارڈر کے معاملات پاکستان انڈیا سے کہیں زیادہ خطرناک اور سخت ہیں۔ آئیں کچھ تصاویر کی مدد سے تفصیلات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر نمبر 1۔
کئی ایجنٹ (بنیادی طور پر انسانی سمگلر) یورپ جانے کے خواہشمند افراد کو بیلارس سے پولینڈ انٹری کروانے کے خواب دکھاتے ہیں۔ ایسے خواہشمند اگر یہ بیلارس پولینڈ بارڈرسیکیورٹی وال پار کر سکتے ہیں تو شوق سے اپنا 20 سے 30 لاکھ روپیہ برباد کریں۔
تصویر نمبر 2:
پولینڈ بارڈر فورسز کی ترجمان اینا مچالیسکا نے اس برس اوائل میں اپنے ایک بیان میں واضح طور پر کہا تھا کہ پولینڈ بیلارس سے آنے والے تارکین وطن کی پولینڈ آمد روکنے کے لئے ہر ممکن قانونی راستہ اختیار کرے گا (یورپ کے تمام ممالک ایک ابھر رہے معاشی و انرجی بحران کی شدت سے بچنے کے لئے اپنی امیگریشن اور اسائلم پالیسیاں سخت کر رہے ہیں تا کہ ان کے ساتھ وہ نہ ہو جو 30 لاکھ افغانیوں کے یہاں آنے سے ہمارے ساتھ ہوا)۔
تصویر نمبر 3:
پولینڈ نے جنوری 2022 میں بیلارس کے ساتھ قریبا 418 کلومیٹر طویل سرحد پر دنیا کی کچھ ہائی سیکیورٹی بارڈر والز میں سے ایک کی تعمیر کا آغاز کیا۔ 396 کلومیٹر طویل اس دیوار/رکاوٹ کا قریبا 186 کلومیٹر لمبا حصہ اس 18 فیٹ اونچی دیوار پر اور باقی کا حصہ انتہائی خطرناک ریزر وائر (ڈبل لئیر) پر مشتمل ہے۔ پولینڈ نے اس کے لئے 50 کروڑ امریکی ڈالر کے برابر رقم مختص کی ہے۔ اور اب تک اس کا ایک بڑا حصہ تعمیر کیا جا چکا ہے۔
تصویر نمبر 4:
بیلارس کے علاقے گوردنو میں پولینڈ بارڈر پر جمع مہاجرین کو پولینڈ نے سختی سے کہہ دیا ہے کہ وہ واپس چلے جائیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو Asylum Seekers کی واپسی پر تشویش ہے، جبکہ سرد موسم وہاں شدت اختیار کر رہا ہے۔ (تاہم یورپی یونین کی جانب سے دباؤ پر اور یوکرائن جنگ کے تناظر میں پولینڈ نے کچھ مہاجرین کے لئے بارڈر انٹری کی عارضی اجازت دی ہے)۔
تصویر نمبر 5:
پولینڈ بیلارس بارڈر پر Kuznitsa کے مقام پر غیر قانونی تارکین وطن اپنے پیچھے کے نقصانات اور آگے کی صعوبتوں کے سائے تلے اپنے آنے والے کل کے بارے میں فکرمند پڑے ہیں۔
تصویر نمبر 6:
اگر پاکستانی جنگجو ٹائپ تارکین وطن (جنہیں اپنے ملک میں کسی، بیلچا، گوبر، اینٹیں، مٹی، چارہ، فائلیں وغیرہ اٹھاتے شرم آتی ہے) سمجھتے ہیں کہ وہ اس بارڈر سے زندہ/آسانی سے نکل سکتے ہیں تو وہ اپنے والدین کے حصے میں آئے ایکڑ ضرور فروخت کروائیں۔
حاصل کلام:
بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد کو میرا ایک انتہائی مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ نے جانا ہی ہے تو ہمیشہ قانونی راستے سے جائیں۔ جان اور وسائل دونوں کی بچت ہوتی ہے۔ دوم، اگر آپ کو پاکستان میں کام کرنے میں عار اور شرم ہے تو یہ یاد رکھیں کہ یورپ جا کر بھی آپ کو جنرل مینیجر کی پوسٹ نہیں مل جانی۔ وہاں بھی ہمارے اکثر بھائیوں کو بالکل Layman Category کے یا بسا اوقات Below the Belt کام کرنے پڑتے ہیں۔ بیرون ملک جانا ہے تو سب سے پہلے اپنی تعلیم کے حصول پر توجہ دیں۔ تعلیم سے کم از کم آپ ان ممالک میں بہتر طریقے سے سروائیو کر سکتے ہیں۔
تحقیق و تحریر،
محمد کامران امین
(لائیو اسٹاک اور ویزہ کنسلٹنٹ)