05/09/2022
قومی ورثہ
لچہ کھر قلعہ موضوع تلو بروق روندو کا ایک تاریخی عمارت ہے سینہ بہ سینہ بزرگوں سے جو کہا نی مشہور ہے وہ اس طرح ہے کہ اس قلعے میں ایک ملکہ رہتی تھی ملکہ کو زیر کر نے اور اسکے حصول کی غرض سے( مقامی لوک کہانی) کے مطابق جس کو۔ مقامی زبان میں ا پی فڑ ژ و کہتے ہیں جو کہ ایک جن زات تھا بقول سید شمشا حسین سحر قدیم زمانہ کے قصے کہانیوں سے یہ اندازہ ملتا ہے کہ جنات اور پریاں ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں جنگیں بھی ہو تی رہی ہیں۔ ھو سکتا ہے مذکورہ بالا ملکہ پری ذات ھو اور آپی فڑ ژ و یعنی دادی کاگنجا پوتا جو کہ جن ذات تھا نےاقتدار کے حصول کی خاطر ملکہ کے قلعے پر حملہ کیا ھو۔ کہتے ہیں کہ جب اس نے قلعے کو فتح کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کی لیکن قلعہ فتح کرنے میں نا کام رہا کیونکہ قلعہ کا راستہ دشوار تھا بعض بزرگوں کے مطابق قلعے کا راستہ اندرونی خوفیہ تھا مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے بلکل نیچے ایک چشمہ ہے وہاں تک یہ راستہ اندرون خاںہ تھا لیکن بندہ حقیر نے جن بزرگوں سے انٹرویو کیا ان میں سے گاؤں کے طویل العمر شخصیت دادا محمد خان المعروف ممت خان( مرحوم ) نے فرمایا کہ منو کوٹ کا گیٹ ( یعنی اس قلعے کا دوسرا نام مقامی زبان میں منو کوٹ بمعنا منو قلعہ ہے) سونے کا تھا خیر بات لمبی ھو جاے گی اس بندے نے جب دیکھا کہ قلعہ چاروں طرف پہاڑ پر مشتمل ہے اور اس پر چڑھنا آسان نہیں ہے تو پھر اس نےاگ کے گاروں کو جمع کیا اوراس پہا ڑ پر
رکھ کر خوب سلگایا اس طرح پہا ڑ کے دامن سے لیکر قلعے کے روشندان تک جابجا اس پہاڑ نما پتھر پر بڑے بڑے گھڑے پڑے ہوئے ہیں اس طرح اس نے اپنی محنت جا ری رکھی ہوئی تھی قلعہ فتح کرنے کے قریب تھا یاد رہے کہ وہ گھڑ ے آج بھی اپنی قدیم ترین تاریخ کو دامن میں لئے ہوئے محقیقین وقت کو داعوت تحقیق دے رہے ہیں یکدم کیسر بھی ملکہ کی خواہش دل میں لئے ہونے میدان میں کود پڑے اس طرح دادی کے گنجے پوتے اور کیسر کے آپس میں گھمسان کا رن پڑتا ہے باقی اگر ہم ثقافت کی بات کرے تو
ثقافت سے مراد کسی بھی معاشرے کے افراد کی طرز زندگی و تمدن کا حسن ہے اس میں وہ تمام امور شامل ھونگے جن سے اس معاشرے کے افراد کے جمالیاتی ذوق ،تفریحی شوق اور فنی مہارت کا اندازہ لگایا جا سکے یوں ھم کہ سکتے ہیں کہ کسی بھی قوم کے وہ علوم و فنون اور نظریات شامل ھونگے جو اسے دوسری قوموں سے منفرد اور ممتاز کرتے ہوں ان فنون میں فن تعمیر بھی ایک بلند مقام رکھتاہے کسی بھی قوم کا فن تعمیر اس کے ذوق ،طبعی رجحانات، اقدار اور تھذیب و تمدن کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو آپنے تہذیب و تمدن کی ترقی کی آبیاری کے ساتھ ساتھ اس تہذیبی و ثقافتی ورثے کی حفاظت بھی کرتی ہے لیکن جہاں علم و شعور کی کمی ہوں اور اپنے اسلاف کی یادگاروں کی پہچان سے تہی دست ہوں تو ایسے معاشرے میں افراد اپنے ثقافتی ورثے کے ساتھ وہ سلوک
کرتے ہیں جو سلوک ہلاکو خان اور چنگیز خان نے بغداد کے تاراجی میں بھی نہیں کیا تھا اس سے میری مراد وہ عظیم قومی ورثے ہیں جو جا بجا وقت کے ہلاکو خانوں اور چنگیز خانوں نے تاراج و برباد کیا ہوا ہے انھی قومی ورثوں میں سے ایک ورثہ مرحوم و مظلوم لچے کھر تلو بروق بھی ہے جس کے بارے میں گزشتہ قسط کے اندر ناچیز نے عرض کیا تھا کہ اپی فڑاژھو اور کسر نے ملکہ کی حصول کے لیے گھمسان کی لڑائی کی تھی اور اپی فڑاژھو نے ملکہ تک رسائی کے لیے قلعے کو آگ کے انگارے داغےتھے شاید اس وقت اس حسین قلعے کو اتنا نقصان نہ پہنچا ھوگا جتنا نقصان وقت کے اپی فڑاژھوؤں اور کسروں نے نقصان پہنچایا ہے یہ سب کچھ جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ھوا ۔ بقول شاعر
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ، اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت کے مصداق اب کیا ہو سکتا ہے جب تک حکومت کے مالی معاونت نہ ہو اس کے بغیر پرانی طرز تعمیر پر اس قلعے کو تعمیر کرنا نا ممکن ہے لہذا میں manistar tourism جناب راجہ ناصر علی خاں سے خصوصی عرض کرونگا کہ اس قومی ورثے کو قدیمی طرز تعمیر پر تعمیر کرنے کے لیئے محکمہ سیاحت سے مالی امداد کا بندوست فرمائے تاکہ آثار قدیمہ سے شگوف رکھنے والے tourist کے لۓ تفریح کا باعث ہو جزبات میں کہیں دور نکل گیا اب ہم اپنے main موضوع کی طرف آتے ہیں کہ گذشتہ قسط میں راقم نے عرض کیا تھا کہ لچے کھر (قلعہ) میں ایک ملکہ رہتی تھی اس کی تھوڑی وضاحت کرنا ضروری ہے بقول (انجینئر وزیر قلبی علی )وہ فر ما تے ہیں کہ اس ملکہ کا نام لچے کھری چوچو (شہذادی) تھا جس کو حاصل کرنے کے لئے اپی فڑاژھو نے اس قلعے کو آگ لگا دی
تحریر بہ دست
# # # # # # # # #
( جناب استاد محترم فاضل حسین روحانی )