18/12/2020
ہماری شادی کو ابھی ایک ہی ہفتہ ہوا تھا۔ میں نے اُس سے کہا کہ میں چاہتا ہوں تم میرے ماں باپ کو امّی اور ابّو کہو... اُس نے کئی مرتبہ کوشش کی لیکن اکثر بے دهیانی میں اس کے مُنہ سے انکل اور آنٹی نکل آتا تھا۔
وہ ڈری ڈری اور سہمی سہمی رہتی تھی۔ وہ کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے اپنی چال ڈھال، بال، آواز، لباس سب کچھ کئی بار چیک کرتی تھی. وہ خود ہی اپنی ناقد تھی۔۔۔
اُس دن اُسے اٹھنے میں کچھ دیر ہوگئی امّی آنگن میں پھیلے کپڑے اتار رہی تھیں۔ اس نے کھڑکی کھولی... اس کا دوپٹہ رنگ چھوڑ رہا تها امّی مجھے ڈانٹ رہی تھیں کہ کہاں سے رنگ کروا کر لے آئے ہو.. پھر امی اندر گئیں اور اپنا ایک اُسی رنگ کا بہت نفیس دوپٹہ لے آئیں اور کہنے لگیں:"اِس عمر کی لڑکیاں شلوار قمیض چاہے ہلکے رنگ کی ہی پہنیں، لیکن اِن کو اپنے دوپٹے کے رنگ سے بہت پیار ہوتا ہے۔ آئنده کبھی کچا رنگ نہ رنگوانا..."
میں دوپٹہ لیے کمرے میں واپس آگیا۔ اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا: "میری امّی کے دوپٹے بھی کبھی رنگ نہیں چھوڑتے تھے" وه مسكرا رہی تهی اُس شام اُس نے وہی دوپٹہ اوڑھا۔اس کے خوف کی جگہ خوشی اور شرارت نے لے لی۔اس نے میرے ہر رشتے کو اپنا بنا ليا۔
ّامّی ایک دن مجھے کہنے لگیں: "جب نئی دُلہن گھر میں آۓ تو پہلے ہی دن اُس کو یہ نہ کہو کہ میرے آنگن کے اونچے پیڑ کا سب سے میٹھا پھل توڑ کر لاؤ... بلکہ تھوڑا انتظار کرو... وہ خود بی تمہارے آنگن میں بیج بوئے گی، اُسے روز پانی دے گی اُس کی دیکھ بھال کرے گی، یہاں تک کہ اُس کو اُس پیڑ سے محبّت ہو جائے گی اور اُس پیڑ کا ہر پهل ميٹها ہوگا۔۔۔!!!"
صبح بخیر
(منقول)