11/12/2023
"کوہ پیمائی کی دنیا میں پاکستان کا خاص مقام"
✍️_____ عثمان یاسین
پاکستان اور چین کی سرحد پر علاقہ بلتستان میں واقع دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ کےٹو جس کی بلندی 8611 میٹر ( 28ہزار 251 فٹ ) ہے ۔ یہ قراقرم سلسلہ ہائے کوہ کا بلند ترین پہاڑ ہے ۔ بلتستان میں چھوغوری کہلاتا ہے جس کے معنیٰ " بڑا پہاڑ " کے ہیں ۔ انگریز" سرویئر تھامس چارج" نے 1850ء کے لگ بھگ اس کو " کے ٹو " کا نام دیا اب سرکاری طور پر اسی نام سے مشہور ہے
کے ٹو کی بیشتر چٹانیں عمودی ہیں ۔ اسی لیے اس پر چڑھنا اور اترنا، دونوں مرحلے بہت خطر ناک اور مشکل ترین ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے پچھتر (75 ) سالوں میں تین ہزار سے زائد کوہ پیما دنیا کا بلند ترین پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ سر کر چکے ہیں ۔ لیکن اسی عرصے میں تقریباً تین سو کوہ پیما ہی کے ٹو کو سر کر پائے ۔ جبکہ ستتر ( 77 ) کوہ پیماؤں کو اس بے رحم و ظالم پہاڑ نے اپنی آغوش میں موت کی نیند سلا دیا ۔ جبکہ بہت سے زخمی بھی ہوئے ۔
چین میں واقع " کےٹو " کی سمت زیادہ عمودی ہے ، اسی لیے تمام کوہ پیما پاکستان کی جانب سے ہی کے ٹو پر چڑھتے ہیں ۔ چھبیس ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ کر کوہ پیما " احاطہ موت " ( Death zone )میں داخل ہو جاتا ہے ۔ کے ٹو کے اس حصے میں آکسیجن بہت کم ہوتی ہے ۔ اس لیے تمام کوہ پیما آکسیجن سلنڈر استعمال کرتے ہیں ۔ خدانخواستہ سلنڈر خراب ہو جائے تو آکسیجن کی کمی کے باعث کوہ پیما کی موت یقینی ہے ۔
عمودی چٹانوں، آکسیجن کی کمی کے علاوہ کوہ پیماؤں کو دیگر قدرتی آفات کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے ۔ مثلاً کہیں کہیں برف پگھلنے سے اس کے ٹوٹنے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں انسان گہری کھائی میں گر سکتا ہے ۔ پھر کبھی کبھی برفانی تودے ٹوٹنے سے برفشار ( Avalanche ) بھی کوہ پیما کو دبوچ لیتے ہیں ۔ لہذا " کے ٹو " سمیت بلند ترین پہاڑوں پر چڑھنا اترنا بچوں کا کھیل نہیں ، اس کیلیے زبردست دل گردہ رکھنا شرط اولین ہے ۔
دنیا کے پچیس بلند ترین پہاڑوں میں سے تقریباً نصف یعنی گیارہ پاکستان میں واقع ہیں ۔ اس لیے کوہ پیمائی کی دنیا میں پاکستان ایک خاص مقام رکھتا ہے
✍️____عثمان یاسین
11/12/2022