Beautiful Pakistan Beauty of Thoughts

Beautiful Pakistan Beauty of Thoughts Beautiful Pakistan

27/03/2023

میری یہ بچپن سے عادت رہی ہے کہ جب محلے کی دکان سے کچھ بھی لیا،
انہوں نے اخباری ٹکڑے میں لپیٹ کر دیا تو شے کے استعمال کے بعد اس ٹکڑے کو ضرور دیکھا اور پڑھا۔
یہ 2007 کی بات ہے میں اسلام آباد میں اس وقت سی ایس ایس کی تیاری کر رہا تھا۔ مارکیٹ میں تازہ جلیبی بن رہی تھی وہ خریدی تو اخبار کا ساتھ آنے والا ٹکڑا پوری زندگی تبدیل کر گیا۔
ہوا کچھ یوں کہ اُس ٹکڑے پر ایک کالم چھپا ہوا تھا۔ کالم نگار کا نام اب یاد نہیں ہے لیکن اس نے جو لکھا تھا وہ سب یاد ہے حرف بہ حرف تو نہیں، لیکن یاد ہے۔ آپ بھی پڑھیں۔
اُس نے لکھا کہ:
میں کل اپنے ایک کاروباری دوست کے پاس دفتر گیا چائے پی گپ شپ لگاتے ہوئے گھر جانے کا وقت ہو گیا۔ جب دفتر سے باہر نکل رہے تھے تو کلرک نے آ کر ایک شکایت لگائی کی جناب فلاں چپڑاسی سست ہے کام نہیں کرتا، ڈرائیور نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔
میرے اُس دوست نے کہا اگر کام نہیں کرتا تو کس لیے رکھا ہو ہے، فارغ کرو اسے۔ میں نے فورا مداخلت کی اور کہا، کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ایک دفعہ اس سے بات کر لو، کیا پتہ اسکے کچھ مسائل ہوں۔ پھر میں نے اپنے دوست کو ایک آنکھوں دیکھا واقعہ سنایا۔
،،شیخ صاحب لاہور میں ایک معمولی سے دفتر میں ملازم تھے، دن کچھ ایسے پھرے کہ اسی دفتر کے صاحب کو پسند آ گئے اور یوں انکی فیملی میں ہی شیخ صاحب کی شادی ہو گئی۔
قدرت شیخ صاحب پر مہربان تھی، دن رات اور رات دن میں بدلتے گئے اور شیخ صاحب ایک دکان سے ایک مارکیٹ اور پھر ایک فیکٹری سے دو، چار، اور پھر نہ جانے کتنی فیکٹریوں کے مالک بنتے گئے۔
دھن برستا گیا، دو بچے ہو گئے۔ شیخ صاحب نے کرائے والی کمرے سے ایک اپارٹمنٹ اور پھر لاہور کے انتہائی پوش علاقے میں دو کنال کی ایک کوٹھی خرید لی۔ مالی کی ضرورت پیش آئی تو چکوال سے آئے ہوئے سلطان کو فیکٹری سے نکال کر اپنی کوٹھی میں پندرہ سو روپے ماہوار پر اپنی کوٹھی پر ملازم رکھ لیا۔
سلطان ایک انتہائی شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان تھا، نہ کسی سے کوئی جھگڑا، نہ کوئی عداوت، نہ کبھی کوئی شکائت۔ ایک بار شیخ صاحب دن کے دس بجے کسی کام سے گھر واپس آئے تو گاڑئ دروازے پر ہی کھڑی کر دی
کہ ابھی واپس دفتر جانا تھا۔ دروازے سے گھر کے داخلئ دروازے کے درمیان اللہ جانے کیا ہوا کہ پودوں کو پانی دیتے سلطان کے ہاتھ سے پایپ پھسلا اور شیخ صاحب کے کپڑوں پر پوری ایک تیز پھوار جا پڑی،
شیخ صاحب بھیگ گئے۔ سلطان پاؤں میں گر گیا، گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا کہ صاحب غلطی ہو گئی۔ لیکن شیخ صاحب کا دماغ آسمان پر تھا۔ غصے میں نہ آو دیکھا نہ تاو، وہیں کھڑے کھڑے سلطان کو نوکری سے ننکال دیا۔کہا شام سے پہلے اس گھر سے نکل جاوؐ۔
سلطان بیچارہ سامان کی پوٹلی باندھ کر گھر سے نکل کر دروازے کے پاس ہی بیٹھ گیا کہ شاید صاحب کا غصہ شام تک ٹھنڈا ہو جائے تو واپس بلا لیں۔ شام کو سیخ صاحب واپس آئے، دیکھا سلطان ابھی تک بیٹھا ہوا تھا، گارڈ کو کہا اسے دھکے دیکر نکال دو، یہ یہاں نظر نہ آئے، صبح ہوئی تو سلطان جا چکا تھا۔ رب جانے کہاں گیا تھا۔
وقت کزرتا گیا، شیخ صاحب کے تیزی سے ترقی پاتے کاروبار اور فیکٹریوں میں ایک ٹھہراوؐ سا آنے لگا۔ کاروبار میں ترقی کی رفتار آہستہ آہستہ کم پڑتی گئی۔ لیکن شیخ صاحب زندگی سے بہت مطمئن تھے۔
پھر ایک فیکٹری میں آگ لگ گئی، پوری فیکٹری جل کر راکھ ہو گئی۔ کچھ مزدور بھی جل گئے۔ شیخ صاحب کو بئٹھے بٹھائے کروڑوں کا جھٹکا لگ گیا۔ کاروبار میں نقصان ہونا شروع ہوا تو شیخ صاحب کے ماتھے پر بل پڑنا شروع ہو گئے۔ بڑا بیٹا یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ تھا،
دوستوں کے ساتھ سیر پر مری گیا واپسی پر حادثہ ہوا تو وہ جوان جہان دنیا سے رخصت ہو گیا۔ شیخ صاحب کی کمر ٹوٹ گئی۔
نقصان پر نقصان ہوتے گئے۔ دو کنال کی کوٹھی بیچ کر دس مرلے کے عوامی طرز کے محلے میں آ گئے۔ جب عقل سے کچھ پلے نہ پڑا تو پیروں فقیروںںں کے ہاں چلے گئے کہ شاید کوئی دعا ہاتھ لگ جائے اور بگڑی ہوئی زندگی پھر سے سنور جائے۔ باقی ماندہ کاروبار بیچ کر اور کچھ دیگر پراپرٹی کو رہن رکھ کر بنک سے قرضہ لیا اور چھوٹے بیٹے کو ایک نیا کاروبار کر کے دیا۔
اسکے پارٹنر دوست نے دغا کیا اور اکثر پیسہ ڈوب گیا۔ شیخ صاحب ساٹھ سال کی عمر میں چارپائی سے لگ گئے۔
ایک دن ایک پرانا جاننے والا ملنے آئا، حالات دیکھے تو بہت افسوس کیا۔ کہا شیخ صاحب انڈیا سے ایک بزرگ آئے ہوئے ہیں، بہت بڑے اللہ والے ہیں، داتا صاحب کے پاس ہی ایک مکان میں انکا چند دن کا قیام ہے، اگر ان کے پاس سے دعا کروا لیں تو اللہ کرم کرے گا۔
شیخ صاحب فورا تیار ہو گئے۔ اس مکان پر پہنچے، ملاقات کی، مسئلہ بیان کیا۔ انہوں نے آنکھیں بند کیں، کچھ دیر مراقبے کی کیفیت میں رہے، پھر آنکھیں کھولیں، شیخ کو دیکھا اور کہا "تم نے سلطان کو کیوں نکالا تھا؟"
چیخ کے سر کے اوپر گویا ایک قیامت ٹوٹ پڑی، آنکھوں سے آنسووؐں کی ایک نہ تھمنے والی لڑی جاری ہو گئی، شیخ بزرگ کے پاوؐں میں گر گیا، معافیاں مانگنے لگا۔ بزرگ نے اسے کہا میری بات سنو۔ پروردگار رازق ہے، وق رزق ضرور دے گا لیکن اسکا وسیلہ انسانوں کو ہی بنائے گا۔اوپر سے نیچے آتے پانی کی تقسیم جس طرح نہروں نالوں کی طرح ہوتی ہے رزق کی تقسیم اسی طرح ہے۔
پروردگار کے نزدیک ہم میں سے ہر ایک شخص وسیلہ ہے کسی اور کے رزق کا۔ اگر آپ وسیلہ بننے سے انکار کرو گے تو تمہارے حصے کا وہ رزق جو اس وسیلے سے تمہیں بطور معاوضہ مل رہا تھا ختم ہو جائے گا۔
تمہیں لاکھوں کروڑوں سلطان کو پندرہ سو روپے دینے کے لیے ملتے تھے۔ تم نے وہ روک لیے، اوپر والے نے نمہارا معاوضہ ختم کر دیا۔ اب جاوؐ اور سلطان کو ڈھونڈو، اگر وہ مان جائے معاف کر دے تو تمہارے دن پھر جائیں گے۔
شیخ کی دنیا لٹ گئی، وہ سر پیٹتا گھر آیا پرانے کاغذات ڈھونڈتا رہا کہ شاید کہیں سلطان کا کوئی پتہ، کوئی شناختی کارڈ، کوئی اور معلومات مل سکیں۔ کچھ بھی نہ ملا تو شیخ دیوانہ وار سلطان کو ڈھونڈنے چکوال جانے والی بس میں بیٹھ کر چکوال چلا گیا۔ مگر سلطان نہ ملا۔
چھوٹا بیٹا ڈھونڈتا ڈھونڈتا چکوال اڈے پر آ پہنچا اور باپ کو واپس لاہور لے آئا۔ لیکن شیخ کا دل کا سکون ختم ہو گیا تھا۔ کچھ دن بعد شیخ پھر گھر سے غائب ہوا تو بیٹے کو معلوم تھا کہ کہاں ملے گا۔
وہ چکوال پہنچا تو دیکھا باپ زمین پر بیٹھا سر میں راکھ ڈال رہا تھا اور کہہ رہا تھا سلطان تم کہاں ہو، سلطان تم کہاں ہو۔ بیٹا خود روتا ہوا باپ کو واپس لے آئا۔ چند دن کے بعد شیخ کا انتقال ہو گیا۔
کالم نگار نے لکھا، میں نے اپنے دوست کو یہ پوری کہانی سنائی اور اسے کہا، چپڑاسی کو نہ نکالو، اسکا رزق تمہارے رزق سے جُڑا ہے، اسے تو رب کہیں اور سے بھی دے دے گا کہ اس کے پاس وسیلہ بنانے کے لیے کسی چیز کی کوئی کمی نہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس معاوضے والی نعمت سے محروم ہو جاوؐ۔
مجھے یہ واقعہ پڑھے ہوئے تیرہ سال گزر گئے ہیں۔ آپ یقین کریں اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں مالی معاملات میں بہت زیادہ محتاط ہو گیا۔ اگر کسی کے پاس دس بارہ رہ گئے تو نہیں مانگے کہ کہیں اوپر والے سے ملنے والا معاوضہ کم نہ ہو جائے۔
میں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور نیک نیتی سے وسیلہ بننے کی کوششیں بھی کیں
،میں جو بھی مستحق ہیں انکا خیال رکنے کی کوشش کی۔ میں ان تیرہ سالوں میں کبھی تنگ دست نہیں ہوا۔ ایک سے بڑھ کر ایک وسیلہ ملتا گیا اور میں آگے بڑھتا رہا۔
سبحان اللّہ

۔ رمضان شریف کا مہینہ آرہا ہے اس کے حوالے سے یہ پوسٹ ضرور پڑھیں اور عمل کیجئے،⁦👍⁩_"عورت سحری میں سب سے پہلے جاگتی ہے۔ او...
26/03/2023

۔ رمضان شریف کا مہینہ آرہا ہے اس کے حوالے سے یہ پوسٹ ضرور پڑھیں اور عمل کیجئے،⁦👍⁩
_"عورت سحری میں سب سے پہلے جاگتی ہے۔ اور سب گھر والوں کے لیئے سحری تیار کرتی ہے لیکن سب سے آخر میں کھاتی ہے۔🍝
روزہ رکھنے کے بعد دوپہر میں بچوں کو کھانا کھلاتی ہے۔🍜
پھر 4 بجے کے بعد سے افطاری تک اپنے خاندان والوں کے لیئے افطاری تیار کرنے میں لگ جاتی ہے۔
چاول۔ پالک۔ گوشت۔ چٹنی وغیرہ وغیرہ تیار کرتی ہے اور ساتھ میں یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ پتہ نہیں کیسے پکایا ہوگا۔
ساس اور سسر کے لیئے الگ چیز پکاتی ہے۔اور ساتھ ساتھ میں افطاری سے پہلے شوہر کے غصہ کو صبر سے جھیلنا بھی پڑتا ہے۔⭐

اذان سے پہلے دسترخوان لگانا تعریف تو دور کی بات 2۔۔2 روٹیاں کھانے کے بعد ایک ٹھنڈا گلاس🍺 لسی مانگنا اور پھر کہنا کہ نمک کم ہے اور خاص ٹھنڈا نہیں ہے اور افطاری پوری کی پوری کر لی جناب نے۔🌙

اسکے بعد چھپکے سے کسی کمرے میں افطاری کرلیتی ہے۔
تراویح کے بعد پھر سے حضرات کے لیئے چائے اور میوہ تیار کرتی ہے۔☕🍱

اور پھر سے سحری میں سب سے پہلے جاگتی ہے۔💆
اگر خدا نا خواستہ نہ جاگی 2 بجے یا سحری لیٹ ہوئی تو سب خاندان کا نزلہ بیچاری عورت پر گرتا ہے سارا دن۔

آپ سب سے درخواست ہے کہ ۔
گھر کی ساری عورتیں خواہ وہ ماں ہو بیوی ہو بیٹی ہو بہن ہو یا کوئی اور رشتہ ہو انکا لازمی خیال رکھنا چاہیئے۔
آخر وہ بھی ہماری طرح انسان ہے۔
ڈاکٹر:زین خان ✍️🥀

ایک خوبصورت تحریر 👇مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں لادین رہا۔ خدا اور مذہب میں م...
13/03/2023

ایک خوبصورت تحریر 👇

مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں لادین رہا۔
خدا اور مذہب میں میرا یقین کم ہوتے ہوتےختم ہو گیا۔ ۔
شاید میری مذہب اور خداسےمتعلق معلومات اور علم کابنیادی ذریعہ جمعہ کاخطبہ تھا۔
ہمارےمولانا جب خطبےسےپہلےتقریرکرتےتو
اُنکےسنائےہوئے مذہبی قصے کہانیاں میرےدل میں بہت سوال پیداکیا کرتے
لیکن سوال پوچھنےکی ہمارے معاشرے میں روایت ہی نہیں تھی
جُمعے کے خُطبوں میں سُنے گئے قصّوں نے
میرےدل ودماغ نےایک عجیب الخلقت خدا کا خاکہ تشکیل دیاجوایک دم غصےمیں آسکتاہے
اوراچانک مہربان ہوکرگھربیٹھےرزق دےسکتاہے
جو مجھے پیدا کرنے سے پہلے یہ طےکئےبیٹھا ہےکہ میں جہنمی ہوں یا جنتی
اوراگراُس نےجہنمی لکھ دیا ہےتومجھے مرنےسےپہلے گناہوں کی دلدل میں دھکیل دےگا،
بصورتِ دیگر مجھ سے کوئی ایسا کام کرائےگا کہ میں میں بخشاجاؤں۔
میں نے نتیجہ اخذ کیا کہ خدا بہت جذباتی ہے،
ہر جمعےسوچتا کہ اس بار مولانا سے اپنےخدشات سے متعلق سوال کرونگا لیکن ہمت نہ پڑی۔
پھر ایک باراسی سے ملتاجلتا سوال ہمارے علاقےکےایک معزز بزرگ جن کا نام محمود تھا اٹھا بیٹھے
پھرکیا تھا مولانا نےان پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا
حالانکہ وہ تہجداوراشراق کی نمازٰیں بھی مسجد میں ادا کرتے تھے۔
سارا علاقہ محمودصاحب کےخلاف ہوگیا،
نہ جانے کیسے وہ جان بچانے میں کامیاب ہوئے
اس واقعے نے مجھےمذہب سے اور دور کردیا
اورخداسے بھی شکوہ بڑھا کہ
کیسے مڈل مین اپنےراستےمیں بٹھا دئیے ہیں
جو انکےبتائےہوئےخدا کی طرح چھوٹی سی بات پر ناراض ہوجائیں تو
کہیں پناہ نہیں ملتی۔
خداسےناواقف رہنےکی ایک وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ
خدا کے مڈل مین قرآن کوعربی میں تو پڑھاتےہیں
لیکن اس کا مفہوم اردومیں سمجھنےکی ترغیب نہیں دلاتے۔
بلکہ دانستہ حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔
تعلیم کے سلسلے میں دیگر ممالک جانا ہوا تو مُختلف مذہبی معاشروں کو قریب سے دیکھا۔
جیسے اسلامی مُعاشرے میں مولانا ایک اسلامی دائرہ لیے بیٹھا ہے
اور مُختلف لوگوں کوپرکھ کر یا تو دائرے کے اندر قرار دیتا ہے یا باہر۔
ایسا ہی ہر مذہب میں کوئی نا کوئی گیٹ کیپر دیکھا
عیسائیت میں خدا کے راستے میں پوپ اور بشپ بیٹھے نظر آتے ہیں
یہود میں ربی
ہندوازم میں پنڈت
غرض یہ کہ ہر مذہب میں ایک ملتی جُلتی وضع قطع کا مڈل مین دیکھا۔
اس پس منظر میں مارکس کوپڑھ کردل و دماغ بالکل ہی مذہب کےخلاف ہوگیا۔
پھرکوئی ایک دہائی بعد ایک کانفرنس کے سلسلےمیں
مصر میں مسلمانوں کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعۃ الازہر جانے کا اتفاق ہوا۔
ہر لیکچرکےآخرمیں کانفرنس کے شرکاعلما سے اس سے بھی زیادہ سخت سوال کر رہے تھے جو بچپن سے میرے دل میں تھے
اورعالم جو دراصل جامعۃ الازہر کے پروفیسرز تھے ہر سوال کا خںدہ پیشانی سے جواب دے رہےتھے۔ ایک صاحب نے وہی سوال پوچھ لیا جس کی بنیادپر میرے علاقےکےمولانانے محمودصاحب کو گستاخ قرار دے دیا تھا۔
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب پروفیسر نے کہا میری خواہش تھی کوئی یہ سوال کرے اور پھر قرآن کی آیات سے سوال کاجواب دیا۔ اب میری بھی ہمت بڑھی
میں نے پوچھا جناب جب خدا جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے جسے چاہے ہدایت دے جسے چاہے گمراہی میں مبتلا کر دے
تومیں اسے مانوں نہ مانوں کیا فرق پڑتا ہے۔
پروفیسر صاحب تھوڑے سے مسکرائے اور بولے
قُرآن میں احکامات دو طرح کے ہیں
ایک مُحکمات
اور دوسرے مُتشابہات۔
ضروری ہے کہ مُتشابہات کومُحکمات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے
جن آیات میں یشا ء اور تشاء آتا ہے
ان کا ترجمہ آپکے ہاں مُتشابہات ومُحکمات کے عام اُصول کے تحت نہیں کیا جاتا
اس لئے انڈیا اور پاکستان کےمسلمان خدا کے تصور کو غلط سمجھتے ہیں۔
اس کا عربی مفہوم یہ ہے کہ جو چاہتا ہے اللہ اسے عزت دیتا ہے
اور جو چاہتا ہے اللہ اسے ذلت دیتا ہے۔
جو چاہتا ہے اللہ اسے ہدایت دیتا ہے۔
انہوں نے کہا اس آیت کو آپ ایک اور آیت کے مطابق دیکھیں جو مُحکمات میں سے ہے
جس کا مطلب ہے کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہےجس کے لئے وہ کوشش کرے۔
میں نے پھر بودا سا سوال کیا کہ
میں نے تو ہمیشہ عُلماء سے یہی سُنا ہے کہ اللہ توفیق دے تو ہی مُجھ سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے۔
کانفرنس روم میں قہقہہ گُونجا
پھر پروفیسر صاحب نے سورہ رعد کی آیت پڑھی کہ
اللہ لوگوں میں کُچھ نہیں بدلتا جب تک وہ خود میں تبدیلی نہ لائیں۔
میں پروفیسر صاحب کا جُملہ مُکمل ہونے سے پہلے بول پڑا کہ
یہ سب جو میں اس کانفرنس میں دو دن سے سُن رہا ہوں
اُس اسلام سے بالکُل مُختلف ہے جو میں آج تک عُلماء سے سُنتا آیا ہوں۔
اس پرپروفیسر صاحب نے سورہ بقرہ کی آیت پڑھی
اور جب اُن سے کہا جائے اللہ کے اُتارے پر چلو تو
کہیں گے ہم تو اُس پر چلیں گے
جس پر اپنے باپ دادا کو پایا۔
اگرچہ اُن کے باپ دادا نہ کُچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت۔۔
کہنے لگے قرآن اللہ نے میرے اور تُمہارے لیے ہی اُتارا ہے
اسے خود پڑھتے اور سمجھتے کیوں نہیں
میرے یا کسی بھی مولوی کے محتاج کیوں ہوتے ہو۔
قرآن عین انسانی عقل کے مُطابق بات کرتا ہے۔
میں نے پھر سوال کیا کہ مُجھے تو آج تک علماء نے یہی بتایا ہے کہ
ایمان اور استدلال یعنی ریزن الگ الگ چیزیں ہیں
اور ریزننگ بھٹکا دیتی ہے۔
اس بار پروفیسر صاحب نے انڈین اور پاکستانی عُلماء کی کم علمی اور تنگ نظری کی وجوہات پر بات کی
اور سورہ انفال کی ایک آیت پڑھی کہ
اللہ کی نظر میں وہ جانوروں سے بھی بد تر ہیں جو گُونگے بہرے بنے رہتے ہیں اور استدلال نہیں کرتے۔
بس پھر میں جیسے گُونگا ہو گیا۔
میرےسامنےسےجیسے اندھیرےچھٹ گئے۔
میں نے بڑے خلوصِ دل سےکلمہ پڑھا کہ واقعی میراخداتوبالکل ویسا ہے
جیسا ایک خالق کو ہونا چاہیے ۔
کانفرنس کے اختتام پر پروفیسر صاحب نے قرآن کی انگلش ترجُمے والی کاپی گفٹ کی ۔
ہر آیت مُجھے خود سے مُکالمہ کرتی سنائی دیتی۔
کچھ عرصہ بعد ایک نومسلم گورے سےکینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی۔
وہ اسلام کی پہلی دو صدیوں کے حوالے سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔
اُس کے ساتھ مل کر کُچھ سال اسلام کی ابتدائی اُٹھان
اور پھر اس میں فرقے بنتے ٹُکرے ہوتے تاریخ کی نظر سے دیکھا۔
یہ بھی دیکھا کہ کیسے لوگ قُرآن جیسا خزانہ چھوڑ کرروایات کی تلاش میں دہائیوں تک بھٹکتے پھرے۔
آج شیعہ کڑوروں میں ہیں
اور کڑوروں ہی سنّی
کہیں مالکی ہیں
کہیں حنبلی اور کہیں شافعی۔
ہر فرقے میں مزید تقسیم اور فرقے در فرقے ہیں۔
افسوس کہ ایسے لوگ کہیں مُشکل سے نظر آتے ہیں
جو نہ وہابی ہوں نہ دیو بندی
نہ بریلوی ہوں نہ اہل حدیث
جن کا دین صرف اسلام ہو۔
جو قرآن و سُنّت میں استدلال کریں۔
سورہ یونس کی سویں آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عقل کا استعمال اور استدلال ایمان کی بُنیادی شرط ہے ۔
اب میں فرقوں میں بٹے اپنی اپنی انا میں مدہوش مُسلمانوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ
کیا یہ دُنیا بھر میں ہوتی اپنی ذلّت کو نہیں دیکھتے
کیا یہ اب بھی نہیں جان پائے کہ اللہ کی رسی چھوڑ کر یہ ٹُکریوں میں بٹ چُکے ہیں۔
شاید دل مُردہ ہونے سے اپنی ذلّت کا احساس ہی نہ ہوتا ہو۔
سورہء حج میں اللہ کہتے ہیں
پس کیا وہ زمین میں نہیں پھرے تاکہ انہیں وہ دل ملتے جن سے وہ عقل سے کام لیتے
یا ایسے کان نصیب ہوتے جن سے وہ سن سکتے۔
پس آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ( سورہء حج آیت نمبر سنیتالیس)
اس آیت کے عین مُطابق
اللہ کی زمین میں پھرنے اور مُشاہدے نے دل کی آنکھیں کھول کر دوباررہ مُسلمان تو کر دیا
لیکن اب میں بہت اکیلا محسوس کرتا ہوں
کہ میرے اردگرد کوئی سُنّی ہے کوئی شیعہ
کوئی دیوبندی ہے کوئی بریلوی
کوئی اہل حدیث ہے کوئی مُقلّد
کوئی اہلِ قُرآن ہے کوئی غیر مقلّد۔
مُجھے مُسلمان کی تلاش ہے۔
ایسا مُسلمان جو صرف مُسلمان ہو
جس کا کوئی مسلک کوئی فرقہ نہ ہو۔ ۔ ..

02/03/2023

"جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے"
🐈‍⬛☠️💀🦉

ہر طرح کی "خاندانی سیاست" کی کاٹ کے لئے آج ہی ہم سے رابطہ کیجئے۔

اگر کوئی پوچھتا ہے کہ شادی کیوں نہیں ہو رہی تو اسے پوپلا سا منہ بنا کر بتائیں "میں تے تیار بیٹھی آں تسی رشتہ تے دسو ، صبح کرا لواں گی ویاہ ۔"
وہ جو بھی مثال دیں آپ کہیں "ہائے آنٹی سواد آ گیا مثال دا ، میرا ویاہ بھی اب آپ نے ہی کروانا ہے اور بالکل ویسا کروانا ہے جیسا فلاں کا ہوا ۔ اور فلانے کی دلہن والا دوپٹہ تو بس آپ نے ہی بنوانا ہے میرا ۔"
ہو سکے تو ایک آدھ جپھی پپی بھی ڈال دیں جیسے یہ رشتےدار آپ کی سب سے زیادہ سگی ہوں۔ اس سے ان کی اندر کی آگ بھی ٹھنڈی ہو جائے گی اور آپ کا بھی شغل میلے میں وقت اچھا گزر جائے گا۔
اگر آپ کا بچہ نہیں ہو رہا تو اللہ کی مرضی اور اپنی صفائیاں دینے کی بجائے ڈھیٹ بن کر پوچھیں آپ ہی کوئی ٹپس دیں نا۔۔۔ "نا" کو کھینچ کر لاڈیوں سے ادا کرنا اہم ہے ۔
اگر بیٹیاں ہیں اور بیٹا نہیں ہو رہا تو فرضی ہنسی روک کر کہیں "ہا ہا ہا وہ بچوں کے بابا کہتے ہیں میں کون سا ٹیپو سلطان یا ارتغرل ہوں جو میری نسل بیٹے سے نہ چلی تو امت مسلمہ کا نقصان ہو جائے گا۔ "

اگر آپ کی طلاق ہوئی ہے تو کہیں " میرا بھی یہی خیال ہے میری تے زندگی مک گئی اے ۔ میں کدوں کیہا اے میں بڑا مارکہ ماریا اے۔۔۔"
ساتھ زوردار قہقہ بھی لگائیں کیونکہ "جگت" ٹھنڈی ہو یا گرم ، اپنے آپ کو مار کر دوسرے کو سنانا اور جگت کی ادائیگی کب اور کہاں کیسے کرنی ہے، آپ کو یہ سیکھنا چایئے ۔
کوئی گھما گھما کر طلاق کا پوچھ رہا ہو تو واضح الفاظ میں ذرا اونچی آواز سے کہیں
"طلاق ہو گئی آ میری۔۔۔۔۔ "
اس کے بعد سامنے والے کے "ایکسپیشنز ول بی پرائسلیس"
اس سے آپ کی کلیجی میں جیسے خون سا بننا شروع ہو جائے گا اور سامنے والے کے جگر کی گرمی بھی کم ہو گی۔ آزمائش شرط ہے ۔
آپ کے سامنے کوئی اپنے بچے کے گریڈز کی بڑکیں مارے تو اپنے پچے کو کٹ لگانے کی بجائے کہیں "مجھے امید ہے آپ کا بچہ تو بس ڈاکٹر یا انجینئر ہی بنے گا ۔مجھے بتانا کہاں ایڈمیشن ہوا " ساتھ بچے کی نظر اتارنے کا مشورہ دینا نہ بھولیں ۔ اگر آپ کے بچے کے مارکس کم آئے ہیں یا ایڈمیشن نہیں ہوا کہیں تو کہیں "اس کے پاس اور بہت آئیڈیاز ہیں کر لے گا کچھ نہ کچھ ہوشیار ہے بہت، بالکل آپ پر گیا ہے ۔ "

مزید مفید مشوروں کے لئے آپ ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں کہ کس وقت کون سی بور جگت آپ کی سیڈ سٹوری میں مصالحہ ڈال کر اسے چسکے دار بنا سکتی ہے ۔

نوٹ : ہماری کوئی فیس نہیں ہے لیکن اپنی خوشی سے کوئی جو مرضی دے جائے ، ہم ہر رنگ کا نوٹ شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہیں ۔

”آستانہ عالیہ مینٹل ہیلتھ سائکیٹری پیج شریف کے لئے سپیشل ڈسکاؤنٹ، جسے ڈاکٹر عرفان اقبال خود فائنانس کریں گے۔“

ڈاکٹر محمد علی

15/02/2023

میرے پیارے اللہ میاں ۔۔۔🙏

1976 میں PTV کے مشہور زمانہ پروگرام کلیاں میں پیش کی جانے والی مشہور نظم "اللہ میاں" پیش خدمت ہےجسے مشہور کردار “رولا “ سنایا کرتا تھا

اب۔پتہ نہیں یہ نظم شاہکار ہے ؟ یا پھر ہمارا سفر معکوس سمت میں ہے کہ ستر کے عشرے میں پیش کی جانے والی یہ نظم أج بھی تر وتازہ لگتی ہے

میرےپیارےاللہ_میاں
دل میرا حیران ہے ،
میرے گھر میں فاقہ ہے ،
اس کے گھر میں نان ہے ،

میں بھی پاکستان ہوں ،
اور وہ بھی پاکستان ہے ،

میرےپیارےاللہ_میاں ،
لیڈرکتنےنیک ہیں ،
ہم کو دیں وہ صبر کا پھل ،
خود وہ کھاتےکیک ہیں ،

میرےپیارےاللہ_میاں
یہ کیسا نظام ہے ؟
فلموں_میں_آزادی ہے ،
ٹی_وی_پراسلام_ہے ،

میرےپیارےاللہ_میاں ،
سوچ کے دل گھبراتا ہے ،
بند ڈبوں میں خالص کھانا ،
ان کا کتا کھاتا ہے ،
میرا بچہ روتے روتے ،
بھوکا ہی سوجاتا ہے ،

میرےپیارےاللہ_میاں ،
دو طبقوں میں بٹتی جائے ،
ایسی اپنی سیرت ہے ،
ان کی چھت پر ڈش انٹینا ،
میرے گھر بصیرت ہے ،

میرےپیارےاللہ_میاں ،
میری آنکھ کیوں چھوٹی ہے ؟
اس کی آنکھ میں کوٹھی ہے ،
میری آنکھ میں روٹی ہے ،

میرےپیارےاللہ_میاں ،
تیرے راز بھی گہرے ہیں ،
ان کے روزے سحری والے ،
میرے آٹھ پہرے ہیں ،

میرےپیارےاللہ_میاں
روزہ کھولوانے کی ان کو ،
دعوت ملے سرکاری ہے ،
میرا بچہ روزہ رکھ کر ،
ڈھونڈتا پھرے افطاری ہے ،

میرےپیارےاللہ_میاں ،
یہ کیسا وٹہ سٹہ ہے ؟
این ٹی ایم کا سر ہے ننگا ،
پی ٹی وی پہ ڈوپٹہ ہے ،
( این ٹی ایم پہلا پرائیویٹ
چینل تھا )

میرےپیارےاللہ_میاں ،
بادل مینہ برسائے گا ،
اس کا گھر دھل جائے گا ،
میرا گھر بہہ جائے گا ،

میرےپیارےاللہ_میاں ،
*چاند* کی ویڈیو فلمیں دیکھ
کر اس کا بچہ سوتا ہے ،
میرا بچہ روٹی سمجھ کر
چاند کو دیکھ کے روتا ہے ،

میرےپیارےاللہ_میاں
یہ کیسی بدنظمی ھے
میرا پیٹ تو خالی ھے
اس کو کیوں بدہضمی ھے

میرےپیارےاللہ_میاں
یہ کیسی ترقی ہے ؟
ان کی قبریں تک ہیں پکی
میری بستی کچی ہے... 💔

01/02/2023

کیا آپ نے کبھی شدید دکھ میں سورۃ الضحی کو سنا یا پڑھا ہے ؟
آپ اسکو سن کر تو دیکھے پڑھ کر تو دیکھے آپکے دل کی تنگی تحلیل ہوگی۔اس سورۃ کو anxiety ,depression کی دوا بھی کہا جاتا ھے۔
اللہ تعالیٰ سورۃ کے آغاز میں دو قسمیں کھاتے ہیں۔
وَالضُّحٰى (1)
دن کی روشنی کی قسم ہے۔
وَاللَّيْلِ اِذَا سَجٰى (2)
اور رات کی جب وہ چھا جائے۔
اس سے پتہ چلتا ہے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی دونوں کتنی Value رکھتی ہیں۔
زندگی بھی تو ایسے حالات سے گزارتی ہے ۔ کبھی روشن کبھی تاریک۔
تو پتہ چلا دونوں ہی برے نہیں ہوتے ہیں۔ دونوں کا آنا لازم ہوتا ہے۔ اور دونوں اپنی خوبصورتی کے ساتھ آتے ہیں۔
جب روشنی ہوتی ہے تو تاریکی چھانا لازمی امر ہے اور جب تاریکی ہے تو روشنی آنا بھی لازمی امر ہے۔
بات یہ ہے آپکو یقین ہونا چاہیے۔
کیا یقین ہونا چاہیے ؟
کہ کچھ بھی ہو۔
مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلٰى (3)
آپ کے رب نے نہ آپ کو چھوڑا ہے اور نہ بیزار ہوا ہے۔
ہمارا رب نہ ہمیں چھوڑے گا نہ بیزار ہوگا۔
ساری دنیا چھوڑ سکتی ہے رب نہیں چھوڑے گا
جب لوگ آپ کو چھوڑ جائیں تو پریشان مت ہو۔ آپکا رب نہیں چھوڑے گا۔
ہر محبت بیزار ہوسکتی ہے۔پر خالق کی محبت مخلوق سے ختم نہیں ہوتی 🤍
کتنی پیاری تسلی ہے نا ۔ اللہ ہمیشہ ساتھ ہیں ۔۔۔
جب ہم دنیا میں خسارے میں جارہے ہوتے ہیں۔ہر تعلق آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہوتا ہے ۔ ہر چیز دور جا رہی ہوتی ہے۔ دنیا منہ موڑے کھڑی ہوتی ہے تو یاد رکھے
وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْـرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (4)
اور البتہ آخرت آپ کے لیے دنیا سے بہتر ہے۔
اصل چیز تو آخرت ہے۔
دنیا میں نہ ہو کامیابی، لیکن آخرت پر کمپرومائز نہیں ہوسکتا ہے
آپ کیوں امید کرتے ہیں لوگ راضی کریں ؟
آپ کیوں ایسے اعمال نہیں کرتے جن سے اللّٰہ تعالیٰ راضی ہو،
آپ اللہ کے لیے کوشش کریں اللہ تسلی دیتے ہیں۔
وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَـرْضٰى (5)
اور آپ کا رب آپ کو (اتنا) دے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے۔
کیا ہوا جو ساری محنت ضائع ہوگی ؟ کیا ہوا سب نے چھوڑ دیا ؟ کیا ہوا سب کے آگے برے بن گے ؟ کیا ہوا مسلسل ناکامی ہے ؟ کیا ہوا مسلسل تنگی ہے؟ کیا ہوا کوئی راہ نظر نہیں آتی ۔
یاد رکھے ! اللہ آپکے ساتھ ہیں وہ آپکو بھولے گا نہیں۔
تو پھر کیا غم ؟ پھر کیا پریشانی ؟۔
لوگوں کی بیزاریت پر پریشان نہ ہو آپ مسلمان ہیں آپکے پاس اعزاز ہے آپکا رب آپ سے بیزار نہیں ہوگا
تو پھر مسکرائیے اور ہر دکھ ' درد تکلیف کو سپرد خدا کردیں پھر ایک سکون نازل ہو گا جو ہر چیز سے بے نیاز کر دے گا۔ان شاءاللہ❤

15/01/2023

‏امی:لو بریانی کھا لو 😁
میں :مجھ سے نہیں کھائی جاتی اُس کے بنا ..😀
امی:چپل اٹھاتے ہوئے کون ہے وہ ??👀
میں :رائتہ امی جی رائتہ🤭🤣🤣😂
]
انسان تین چیزیں کبھی نہیں چھپا سکتا۔۔!!!
محبت۔۔!!! کھانسی۔۔!!!
اور Lays کھانے کی آواز🙂🤣
]
شکر ہے جانوروں میں کھانا پکانے
کا رواج نہیں..
ورنہ ہاتھیوں کے خاندان کی بہو تو روٹیاں پکا پکا کے ہی مر جاتی...
🤣
[
کہتے ہیں کسی کے گھر خالی ہاتھ نہیں جاتے
اس لئے جہاں بھی جائیں ۔
۔
۔
۔
چارجر ساتھ لے کر جائیں۔
😂🤣🤣😂😄😂🤣😅😂🤣
[
روز ايک اجنبی شخص کو ديکھ کر مسکرايا کرو
تاکہ وہ اپنی ساری پريشانياں بھول کر سارا دن يہی سوچتا رہے
اے چول کیا سی؟🤔
[
: انسان کی پہچان دولت سے نہیں😐😐
شناختی کارڈ سے ہوتی ہے پاگلو😝😂😂
[
دوسرے ممالک میں کوئی مسئلہ بن جائےتو لوگ کہتے پولیس کو بلاؤ
اور
پاکستان میں کہتے ہیں
گَل مکاؤ جے پولیس آگئی تے کَم ودھ جانا ایں😂🤣😂✌🏻
[
چڑھ گیا نا بخار لگ گئ نظر زمانے کی☺😌
کیا ضرورت تھی تمہیں اتنے مہینوں بعد نہانے کی.😪😪😷
😜😜😂😂😅
[
دنیا میں کامیاب جوڑا صرف جُرابوں کا ہے
کیونکہ ایک کے بِنا دوسرا کسی کام کا نہیں رہتا
😂😂😂😂
[
اور ہاں جرابیں دھو کر پہنا کریں یہ نا ہو کہ کامیابی آپ کے قدم چومنے آئےاور آپ کی جرابوں کی خوشبو سونگھ کر بے ہوش ہو جاۓ
]
: لڑکا ھونے کا ایک فاہدہ یہ بھی ھے جب بےعزتی ھونے لگے
تو چپ چاپ گھر سے نکل جاو
بچاری لڑکیوں کو پوری قوالی سننی پڑتی ھے😂😂😂😜
[
سائنس دان سمجھتے ہیں کہ پانی ابالنے سے جراثیم مر جاتے ہیں لیکن سائنس دانوں کو کوئی یہ تو بتائے جراثیم تو مر جاتے ہیں لیکن ان کی ڈیڈ باڈیز تو پانی میں ہی رہ جاتی ہیں
]
کالج کی دیوار پہ کسی نوجوان نے یہ لکھ دیا۔
پیاری؛ کل کالج نہ آنا،
ھم تمھارے گھر آٸینگے،
تمھارے رشتے کے لیٸے۔
دوسرے دن...
247 لڑکیاں
19 استانیاں
1 پی ٹی ٹیچر
1 کمپیوٹر آپریٹر لڑکی
1 کلرک لڑکی
اور تو اور کالج میں کام کرنے والی
خالہ ھاجراں بھی غیر حاضر رھیں۔
پتہ نھیں کون تھا وہ کمینہ....پورے کالج کو پريشان کر کہ رکھ دیا۔😂😁😂😀
]
چلے ہی جائیں گے تیری محفل سے.،
😂 👉
بس یہ تھوڑے چاول تو کھا لینے دو 😃😂😂😂
]
آج کے دور میں سر اٹھا کر وہی چل سکتا ہے جس کے پاس موبائل نہ ہو👇
نئی تے قسمیں نالیاں وچ ڈگدے تے کنداں وچ وجدے میں آپ ویکھے😂🤣✌🏻😜
[
ساری دنیا کا ٹیلینٹ ایک طرف 😌
مگر دھوپ میں اپنے سائے کو دیکھ کر بال صحیح کرنے کا ٹیلینٹ صرف پاکستانیوں کے پاس ہے
😝😝🤣
😆😜
کدی میری پوسٹ تے وی آ جایا کرو🙄🙄
پاسہ مار کے لنگ جاندے او😂😂😅🤣🤣
ظالموں 😒 😂
]
اور آخر میں....
ایک غزل!!!!!!🙈🙈
خوشیاں ملیں تجھے قدم بقدم ☺️☺️
_اس کے ساتھ ہی یہ غزل ختم_
اچھا دوسری غزل!!!!!🙈🙈
چاہیں گے تجھے دل و جان سے ہم
_تیری قسم یہ غزل بھی ختم_
اچھا لاسٹ ٹائم
🙈🙈 Plzzzzzzzzzzzz
تیرے ہیں سدا تیرے ہی رہیں گے صنم 🥰
تو نے جو کرنا ہے جا کر لے یہ غزل بھی ختم
🙈🙈🙈🙈😜😛🤪😝😆🤣😁
]
ہونٹوں پے ہنسی😊..!!!
دل میں غم ہے😥..!!!
ہاتھ✋کھڑا کرو کون کون..!!! مجھ سے تنگ ہے😕🙄..!!!
]
کچھ لوگ اتنے کنجوس مکھی چوس ہوتے ہیں اگر پوسٹ اچھی لگے تو من ہی من ہستے رہتے ہیں پر تعریف کر کے نھیں مسکراتے 😊😅💯🙏

اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔2023ء تک فن لینڈ ...
11/01/2023

اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ” سپر پاور ” امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔2023ء تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جاتی، فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔

دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ” پڑھانے” کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ” پڑھائی ” ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ” اسکلز ” بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔

سات سال سے پہلے بچوں کے لیےپورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ” میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں “۔

آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا “جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں “۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔

ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔اشفاق احمد صاحب مرحوم کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے ۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز۔

جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہےپڑھانے کی نہیں اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔

دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں
جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے ” پبلشرز ” بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیںاور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں،
بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو ” کوڑھ مغز ” اور ” کند ذہن ” کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے ۔طالبعلموں کا اسکول میں سارا وقت سائنس ” رٹتے ” گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ” سائنس دان ” نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس ” سیکھنے ” کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ” رٹّا” لگواتے ہیں۔آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں
۔علامہ اقبال ؒ کے شعر کا یہ مصرعہ اس تمام صورتحال کی صیح طریقے سے کرتا نظر آتا ہے کہ
۔۔شاخ نازک پر بنے گا جو آشیانہ ، ناپائیدار ہو گا

28/12/2022

سبحان اللہ ❤️

‏ہمیں جِینا نہیں آتا اِن کے بغیریا اِلٰہی' ہماری ماؤں کی عُمریں دراز کر ♥️ آمین ✨.
27/12/2022

‏ہمیں جِینا نہیں آتا اِن کے بغیر
یا اِلٰہی' ہماری ماؤں کی عُمریں دراز کر ♥️ آمین ✨.

🤲
22/11/2022

🤲

🥹
22/11/2022

🥹

🕌❤️
20/11/2022

🕌❤️

Bay Shak !!
20/11/2022

Bay Shak !!

Maa ❤️
19/11/2022

Maa ❤️

30/10/2022

تازہ اپڈیٹ ۔بٹہ کنڈی ناران کاغان ویلی 🇵🇰

30/10/2022

Passu Cones
Hunza Gilgit Baltistan Pakistan

30/10/2022

Colors of autumn 🍂

📍Basho Waterfall Skardu

Please
30/10/2022

Please

18/10/2022

*عقلمندی*
*ایک علاقے میں بادشاہ منتخب کرنے کا بہت عجیب رواج تھا*.
*لوگ ہر ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﺟﻮ ﺑﮭﯽﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ* ، *ﺍﻭﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩﻩ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ’ ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ ‘ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ جگہ ﭼﮭﻮﮌ ﺍٓﺗﮯ، ﺟﻬﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ نہ ﺗﮭﺎ*۔ *ﺍﮔﺮ ﻭﻩ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮﻭﮞ ﺳﮯﮐﺴﯽ نہ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﺎ ،ﺗﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ.ﮐﺘﻨﮯ ہی ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺍﯾﺴﮯ ہی ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎہی ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺮ ﮐﮭﭗ گئے*.
*ﺍﺱ ﺩﻓﻌﻪ ﺷہر ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻟﮓ ﺭہا ﺗﮭﺎ، ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﯼ ،ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ*، *ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﻭﻩ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺑﮭﯽ۔ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﻫﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻪ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮩﺎﮞ ﮔﯿﺎ، ﺗﻮ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺑﺘﺎﯾﺎ کہ ہر ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎﺟﺎﺗﺎ ہے، ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ. ﯾﻪ ﺳﻨﺘﮯ ﻫﯽ ﻭﻩ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﻪ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻫﻮﺍ*، *ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ، ﮐﻪ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﺅ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻢ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﻫﻮ۔ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﭙﺎﻫﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺳﻼﻣﺖ ﮐﻮ ﻭﻩ ﺟﮕﻪ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ*، *ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﻩ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ*۔
*ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﮑﻢ ﯾﻪ ﺩﯾﺎ ،ﮐﻪ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ’ ﻋﻼﻗﻪﻏﯿﺮ ‘ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺳﺒﺰ ﻭ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﺭﺍﺳﺘﻪ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﮐﮯ ﺑﯿﭽﻮﮞ ﺑﯿﺞ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺭﻫﺎﺋﺶ ﺗﻌﻤﯿﺮﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ،ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻫﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﻬﻮﻟﺖ ﻫﻮ، ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﺎﻍ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮯﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻫﻮﮔﺌﯽ*، *ﮐﭽﮫ ﻫﯽ ﻋﺮﺻﻪ ﻣﯿﮟ ﺳﮍﮎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﻭﻏﯿﺮﻩ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﻫﻮ ﮔﺌﮯ*۔
*ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻫﻮﺗﮯ ﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺳﻢ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻭ، ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﻫﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺅ ﺟﻬﺎﮞ ﻣﺠﮫ ﺳﮯﭘﮩﻠﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
*ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺳﻼﻣﺖ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﻪ ﺭﺳﻢ ﺧﺘﻢ ﻫﻮ ﮔﺌﯽ ،ﮐﯿﻮﻧﮑﻪ ﻫﻤﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ، ﻭﻫﺎﮞ ﺗﻮ ﻫﻢ ﺍﻥ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﻮﮞ ﮐﻮﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﻣﺰﮮﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻧﻪ ﮐﺮﺗﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻋﻘﻠﻤﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﮐﯿﺎ ﮐﻪ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﺪﻩ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻓﺮﻣﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﻫﻤﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﯽﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﺏ ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻫﻢ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﯾﮟ*.
*ﺍﺱ ﺍﻧﻮﮐﮭﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ’ﺩﻧﯿﺎ ‘ ﻫﮯ؛ ﻭﻩ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻫﯿﮟ ﺍﻭﺭ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ، ﻫﻤﺎﺭﯼ ﻗﺒﺮ ﻫﮯ*.
*ﺍﺏ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﻓﯿﺼﻠﻪ ﮐﺮ ﻟﯿﺠﯿﮯ ،ﮐﻪ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﻫﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﻪ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ*، *ﺗﻮ ﮐﯿﺎﻫﻢ ﻧﮯ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻭﻫﺎﮞ ﺍﭘﻨﺎﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﮯ ﻫﯿﮟ، ﯾﺎ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﺑﻦ ﮐﺮﺍﺳﯽ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯﻩ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻣﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻫﯿﮟ.ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﺪﺕ ﺷﺎﻫﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯﮔﺰﺍﺭ ﮐﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺭﻫﮯ ﻫﯿﮟ*.
*ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﺌﮯ ﮐﻪ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯﺑﮩﺖ ﮐﭽﮧ ﮨﮯ ،ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﺴﺎ ﺁﮮ ﮔﺎ ﮐﮯ ﭘﮭﺮﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻣہﻠﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﻬﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ*، *ﺍﻟﻠﮧ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﻮﺍﭘﻨﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﺧﻮﺏ ﺳﭽﯽ ﻓﮑﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ ﺍﻭﺭ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮما.آمین*😞🌴

Lexus Hotel Attabab lake Hunza ❤️🌹👍
11/10/2022

Lexus Hotel Attabab lake Hunza ❤️🌹👍

ایک فلم تھیٹر نے اعلان کیا کہ 8 منٹ کی ایک فلم نے دنیا کی بہترین شارٹ فلم کا خطاب جیتا ہے ... لہذا ، یہ فلم سینما میں مف...
11/10/2022

ایک فلم تھیٹر نے اعلان کیا کہ 8 منٹ کی ایک فلم نے دنیا کی بہترین شارٹ فلم کا خطاب جیتا ہے ...
لہذا ، یہ فلم سینما میں مفت ڈسپلے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ اسے دیکھنے کے لئے بڑا ہجوم جمع ہو.

مووی ایک کمرے کی چھت کی تصویر سے شروع ہوئی تھی جو کسی بھی سجاوٹ اور کسی بھی نقش و نگار سے خالی ہے۔ صرف ایک سفید چھت ...
3 منٹ بغیر کیمرے کے حرکت کیے گزرے اور کسی دوسرے سین کو نہیں دکھایا گیا... مزید 3 منٹ بغیر کیمرے کے حرکت کیے اور منظر کو تبدیل کیے بغیر گزرے ...
6 بورنگ منٹ کے بعد ، دیکھنے والوں نے آوازیں لگانا شروع کردی۔ ان میں سے کچھ ہال چھوڑنے والے تھے۔
اور ان میں سے کچھ لوگوں نے تھیٹر کے عہدیداروں پر اعتراض کیا کیونکہ انہوں نے چھت دیکھنے میں اپنا وقت ضائع کیا ...
پھر اچانک اکثریت میں تشویش پیدا ہونے لگی اور رخصت ہونے ہی والے تھے ،کہ بغیر کسی تفصیل کے کیمرہ آہستہ آہستہ چھت سے دیوار کی طرف چلا گیا یہاں تک کہ وہ نیچے کی طرف فرش تک پہنچا.
وہاں ایک بچہ بستر پر دکھائی دیا ، جو کسی وجہ سے مکمل طور پر معذور تھا۔ اس کے چھوٹے سے جسم میں ریڑھ کی ہڈی نہیں تھی اور نا ہی وہ حرکت کر سکتا تھا اُس کی نظریں اُسی خالی سفید چھت کی طرف تھیں اور انکھ میں آنسو نمایاں تھے.
کیمرا آہستہ آہستہ معذور کے بستر کی سمت چلا گیا ، بغیر پیٹھ کے پہیے والی کرسی دکھاتے ہوئے ... کیمرا دوبارہ چھت کے بورنگ مقام پر چلا گیا۔ اس بار اس نے ایک جملہ دکھایا: * "ہم نے آپ کو یہ منظر صرف 8 منٹ دیکھایا ، اور اس منظر کو یہ معذور بچہ اپنی زندگی کے سارے گھنٹے دیکھتا ہے ، اور آپ نے صرف 6 منٹ میں شکایت کرنا شروع کر دیں۔ آپ سے خالی چھت کو 6 منٹ کے لئے بھی دیکھنا برداشت نہیں ہوا.
لہذا اپنی زندگی کے ہر سیکنڈ کی قدر جانیں جو آپ خیریت سے گذارتے ہیں ، اور آپ کو عطا کردہ ہر نعمت پر خدا کا شکر ادا کریں 💞
الحمدللہ رب العالمین 💞

Address

Karachi
75500

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Beautiful Pakistan Beauty of Thoughts posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Travel Services in Karachi

Show All

You may also like