Society of Indus Valley Civilization

Society of Indus Valley Civilization We are dealing with learning and educational tours to different historical sites of Pakistan.
(3)

14/06/2024
28/05/2024
Gharo, Piti, Pitiani, Junah, Rechal Mouth, Hajamrao, Ghora, Siam, Muthi, Bagana, Ner, Mughra, Sita and Pinyari: all beau...
19/05/2024

Gharo, Piti, Pitiani, Junah, Rechal Mouth, Hajamrao, Ghora, Siam, Muthi, Bagana, Ner, Mughra, Sita and Pinyari: all beautiful names.

200 years ago: It is all changed now.

16/05/2024
14/05/2024
11/05/2024
03/05/2024
01/05/2024
01/05/2024

#پسرور ریلوے اسٹیشن کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
پسرور ریلوے اسٹیشن قلعہ سوبھا سنگھ اور چونڈہ ریلوے اسٹیشن کے درمیان وزیرآباد، ناروال برانچ لائن پر واقع ہے ۔ آپ سُن کر یہ حیران ہونگے یہ کونسی برانچ لائن ہے وزیرآباد ، ناروال برانچ لائن دراصل ۱۰۵ کلومیٹر طویل ریلوے ہے جس پر گیارہ ریلوے اسٹیشن ہیں جو وزیرآباد سے شروع ہوکر براستہ سمبڑیال، سیالکوٹ جنکشن ، چونڈہ ، پسرور اور ناروال جنکشن تک آتی ہے جہاں یہ شاہدرہ، چک امرو ریلوے لائن سے مل جاتی ہے۔
اس ریلوے لائن ۱۹۱۵ میں نارتھ ویسٹرن ریلوے سٹیٹ ریلوے NWR نے بنایا تھا۔
اگر خاص طور پر پسرور کی بات کی جاۓ تو یہاں پر دو ریل گاڑیوں کے سٹاپ ہیں جن میں سہرفہرست علامہ اقبال ایکسپریس ہے جو سیالکوٹ اور کراچی تک پسرور کی عوام کو سہولت مہیا کرتی ہے اور دوسری سیالکوٹ سے لاہور کے درمیان چلنے والی لاثانی ایکسپریس ہے ۔
پسرور پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل پسرور کا صدر مقام ہے۔ اسے انتظامی طور پر دو یونین کونسلوں میں تقسیم کیا گیا۔ پسرور تحصیل کے چاول نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دُنیا میں مشہور ہیں۔ علاقے کا ستر فیصد دارومدار زراعت پر منحصر ہے۔
یہ علاقہ اپنے دفاعی اور جغرافیائی لحاظ سے ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے جموں و کشمیر کو جانے والے راستوں میں سے بیشتر یہاں سے ہی گزرتے تھے، چونکہ یہاں سے لاہور اور جموں کا سفر قریباً یکساں ہیں اس لیے دونوں اطراف سے آنے والے مسافر اس علاقے میں رکنا مناسب سمجھتے تھے۔
مغل شہنشاہ ظہیر الدین محمد بابر نے تزک بابری میں پسرور کا ذکر کیا ہے۔ یہاں مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے دور میں تعمیر کیا جانے والا ایک بڑا تالاب موجود ہے۔
پسرور تاریخی و ادبی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔مشہور پنجابی شاعر رشید احمد راہی ابدالی صاحب کا تعلق بھی پسرور سے ہے۔مشہور ناول نگار و مصنفہ عمیرہ احمد جو عالمی و قومی تشخص رکھتی ہیں ان کا تعلق بھی پسرور سے ہے۔
اس سب کے علاوہ آپ پسرور کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

عبدالمنان صاحب کی تحریر۔سیتلا مندر سوھدرہ وزیر آبادمنشی رام پرشاد ماتھر اپنی کتاب  " ھندوؤں کے تہوار " میں لکھتا ھے کہ  ...
01/05/2024

عبدالمنان صاحب کی تحریر۔

سیتلا مندر سوھدرہ وزیر آباد
منشی رام پرشاد ماتھر اپنی کتاب " ھندوؤں کے تہوار " میں لکھتا ھے کہ
سیتلا ، پاریتی یا دیوی کی ایک اجمالی شکل ھے۔ چونکہ یہ چیچک کے مریض کو سکون بخشتی ھے ۔ اس کو دیگر معنوں میں ٹھنڈک بھی کہتے ہیں۔ (ھندوؤں کا تہوار 19)
محمود غزنوی کے غلام ایاز نے دریائے چناب کے بائیں طرف ایک اونچے ٹیلے پر ایک شہر بسایا ۔ اس شہر کی فصیل کے سو درے ( در - دروازے ) رکھے۔ اور اس کا نام سودرہ رکھا۔ جو کہ وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ سفر کرتا آج کا سوھدرہ کہلایا۔ اس دوران اس کے دیگر نام بھی مستعمل ھوئے جن میں ابراھیم آباد بھی شامل تھا ۔ آج سوھدرہ دنیا بھر میں کٹلری کے سامان کی وجہ سے جانے جانے والے شہر وزیر آباد کا ایک قصبہ ھے۔ جو کہ وزیر آباد سیالکوٹ روڈ پر 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ھے۔ خالصہ راج کے عروج کے عہد میں مہاراجہ رنجیت سِنگھ کی سوھدرہ کے ساتھ خاص عقیدت رھی جس کا سبب یہاں کے ایک مشہور صوفی بزرگ " بابا مستان شاہ تھے. سوھدرہ شہرمیں تقسیم ھند سے قبل سکھ اور ہندو بھی آباد تھے۔ ھندوؤں کی ابادی کا تناسب سکھوں کی نسبت زیادہ تھا۔

15/04/2024
Alexander also buried his horse near the modern-day town of Jalalpur Sharif in district Jhelum and historians say he als...
01/04/2024

Alexander also buried his horse near the modern-day town of Jalalpur Sharif in district Jhelum and historians say he also built a monument .

Happy birthday dude
03/02/2023

Happy birthday dude

29/11/2022
السلام علیکم۔وادی ژوب (بلوچستان) کی بودوباش اور ارضیاتی خدوخال۔۔پیارے دوست جاوید آپ کا گزر اس وادی سے اکثر ہوتا رہتا ہے۔...
23/10/2022

السلام علیکم۔
وادی ژوب (بلوچستان) کی بودوباش اور ارضیاتی خدوخال۔
۔
پیارے دوست جاوید آپ کا گزر اس وادی سے اکثر ہوتا رہتا ہے۔
یہ وادی مسلم باغ سے شروع ہوتی ہے جس کا پرانا نام ہندو باغ تھا۔ جسے بعد میں (1975) مسلم باغ کا نام دیا گیا۔ مسلم باغ ارضیاتی علوم میں اوفئولائٹ کی وجہ سے معروف ہے جس سے کان کن کرومائٹ نکالتے ہیں۔ جس سے کرومیم دھات نکالی جاتی ہے جو دوسری دھاتوں کے ساتھ ملا کر سٹیل وغیرہ بنانے میں مدد دیتی ہے۔ مسلم باغ جگہ اچھی فاصل پانی ہے جس سے بارش کا پانی، مشرق میں ژوب اور مغرب میں کو کوئٹہ کی جانب جاتا ہے۔
یہاں پہ آتشی اور ذراتی چٹانیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں دو معروف پہاڑی سلسلے ہیں،
کوہ سلیمان جنوب میں اور پشین کا پہاڑی سلسلہ شمال میں۔ جنوب سے پہاڑی سلسلہ شمال کے پہاڑی سلسلے کے نیچے جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایک گڑھا بنا ہے۔ جسے وادی ژوب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پہاڑی سلسلوں میں گرھی ہوئی یہ وادی ایک ہی قسم کی پٹھان ثقافت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اس وادی میں مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، لورالائی اور ژوب کا علاقہ شامل ہے۔
مجھے پہلی مرتبہ یہاں چند دن رہنے کا موقع ملا ہے۔ میں یہاں کے لوگوں سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ لوگ بہت پرامن، دھیمے مزاج، مہمان نواز اور پیار کرنے والے ہیں۔ کھانے میں گوشت ان کی ضروری خوراک ہے۔ کاشت کاری ، غلہ بانی، باغات، خشک میوہ جات ان کے ذرائع آمدن ہیں۔ پشین اور مسلم باغ سے نکلنے والے ندی نالے دریائے ژوب بناتے ہیں۔ جن سے یہ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ ابھی شمسی نظام سے بھی زمینی پانی نکال کر باغات کو سینچا جا رہا ہے۔
سیپ، چلغوزے، بادام، خوبانی اور آلو بخارے کے باغات عام ہیں۔ سیب میں کالا کلو، سبز سیب عام ہیں۔ بہترین سیب مسلم باغ اور شرن کے علاقے کا ہے۔ جس کا موسم ستمبر میں ختم ہو جاتا ہے۔
یہاں کا موسم یہاں کے لوگوں کے رہن سہن پہ بہت اثر انداز ہوتا ہے۔ موسم تقریبا اگست سے ہی سرد ہو جاتا ہے جس سے بے موسمی سبزیاں یہاں اگائی جاتی ہیں۔ آج کل گاجر کھیتوں سے منڈی میں پہنچائی جا رہی ہے۔
پشین کے پہاڑی سلسلے سے آنے والا پانی ساتھ جپسم بھی لا رہا ہے۔ جو زمین کو بہت زرخیز بناتا ہے۔
لوگ مٹی کے گھروں میں رہتے ہیں۔ اور دروازے چھوٹے رکھتے ہیں تاکہ سردی سے بچا جا سکے۔ چھت میں بھی لکڑی اور بانس اور گارے کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
اکتوبر کے۔۔۔۔۔

السلام علیکم۔۔کوئٹہ کا سلیمانی قہوہ۔پیارے دوست جاوید جی۔آپ نے کوئٹہ گردی کافی کی ہے اور آپ اس کی ثقافت سے بہت واقفیت رکھ...
23/10/2022

السلام علیکم۔
۔
کوئٹہ کا سلیمانی قہوہ۔
پیارے دوست جاوید جی۔
آپ نے کوئٹہ گردی کافی کی ہے اور آپ اس کی ثقافت سے بہت واقفیت رکھتے ہیں۔
لیکن کیوں کہ یہ ہمارا پہلا پیار تھا کوئٹہ سے تو ہمیں یہ رسم بہت اچھی لگی۔ دودھ کی قلت کے سبب یہاں کے لوگ چائے بہت کم پیتے ہیں۔
لیکن سلیمانی قہوہ نہ صرف قہوہ ہے بلکہ سالن بھی ہے۔ وہ روٹی بھی اسی کے ساتھ کھا لیتے ہیں۔
سلیمانی قہوہ،
کی تعریف یا اجزائے ترکیبی بس اتنے ہی ہیں کہ چائے میں دودھ نہیں ڈالنا اور سلیمانی قہوہ تیار۔
اور جھٹ سے مہمانوں کے آگے پیش کر دیا جاتا ہے۔ ہم ان پٹھان بھائیوں کے خلوص کے مقروض ہیں۔
لیکن یہ ہمارے ہاں کسی کو بیمار ہونے پہ دیا جاتا ہے۔ اور کسی تندرست کو پلا دیں تو وہ مہمان اس گھر میں آنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔
دوسری بات۔ اسلام آباد میں جگہ جگہ کوئٹہ کیفے بنے ہیں جو منوں کے حساب سے جائے بناتے ہیں۔
لیکن کوئٹہ میں ایک بھی ایسا کیفے نہ تھا۔ بس اگر پنجابی چائے پینی ہے تو دودھ والی چائے کہنا پڑتا ہے۔

پیارے جاوید جی۔آپ کی مسکراہٹ، نرم دلی اور وفا ہمارے دل کی دھڑکن ہیں۔اسی طرح جب بات آئے خوبصورتی کی اور امید کی اور امید ...
14/09/2022

پیارے جاوید جی۔
آپ کی مسکراہٹ، نرم دلی اور وفا ہمارے دل کی دھڑکن ہیں۔
اسی طرح جب بات آئے خوبصورتی کی اور امید کی اور امید بھی وہ جو پھل آور ہو تو ہمیشہ
تشبیہات کا رخ نرگس کے پھول کی طرف ہی جاتا ہے۔
اسی طرح اگر دنیا میں جنت کی بات ہو تو بات کشمیر پہ آ کر رک جاتی ہے۔ کشمیر جنت کا ایک نظارہ ہے۔
ان سب باتوں میں وفا، امید اور خوبصورتی یکجا الفاظ ہیں۔
انہیں الفاظ کا مجموعہ علامہ اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
۔
نرگس ایک پھول ہے جس کا بیج،موسم سرما کے آتے ہی برف میں دب جاتا ہے۔
جس کے اگنے کی امید ختم ہو جاتی ہے لیکن جیسے ہی برف باری کا موسم ختم ہوتا ہے تو یہ صراحی نما گردن برف سے نکال کر اپنا رنگ برنگا پھول دیتا ہے اور زندگی کی امید کی کرن کھلاتا ہے۔
جی ہاں جنت نظیر کشمیر کی ہی بات ہو رہی ہے۔ یعنی سری نگر کی۔ جہاں نرگس یا گل لالہ یا ٹیولپ کے پھول ہر آنگن میں کھلتے ہیں۔
اور یہ نوید کی ایک کرن ہے کہ بہار آنے والی ہے۔ یہ خوبصورت پھول، پتیوں کا ایک ہالہ رکھتا ہے اور درماں میں زردانوں کی ایک تجوری۔ جسے شعراء آنکھ سے بھی تشبیہ دیتے ہیں۔
جاوید جی۔
آپ نے انڈین فلمیں دیکھی ہوں گی۔ جن میں بہت بڑے بڑے کھیت پھولوں سے لدے ہوتے ہیں۔
وہ سب نرگس کے پھول ہی ہوتے ہیں۔

22/08/2022

پاکستان میں

09/08/2022

Old industry

کٹاس راج مندراورTravertine (نامیاتی چونے کا پتھر)تحریر۔ طارق محمود ماہر علوم ارضی۔۔پیارے جاوید جی۔ پہلے تو میں معذرت خوا...
07/08/2022

کٹاس راج مندر
اور
Travertine
(نامیاتی چونے کا پتھر)
تحریر۔ طارق محمود
ماہر علوم ارضی۔
۔
پیارے جاوید جی۔
پہلے تو میں معذرت خواہ ہوں کہ کافی دنوں سے آپ کے نام کچھ تحریر نہ کر سکا۔
خیر آج ایک معلوماتی مواد آپ کی نظر کرنا چاہ رہا ہوں۔
۔
توجہ سے پڑھیں۔

انسان کی اونچی عمارت اور مقامی آسان تعمیراتی مواد کمزوری رہا ہے۔ دوسری طرف پانی سب سے بنیادی ضرورت رہا ہے۔ کیونکہ پانی انسان اور تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
کٹاس راج کی بھی کچھ ایسی ہی داستان ہے۔ جس میں ٹریورٹائن سے بنے ہوئے پتھر سے پورا مند تعمیر کیا گیا ہے۔
ٹریورٹائن ایک نامیاتی چونے کا پتھر ہے یا اس کا نام
کلسی تف بھی ہے جو کہ ایک قسم کا سفید ٹھوس چونے کا پتھر جو چشموں کے گچ ملے پانی کی تہ میں جم کر سخت ہو جاتا ہے۔
یہ پودوں کی ٹہنیوں اور پتوں کے گرد پانی میں حل شدہ چونے کے پتھر کی ایک تہہ بٹھاتا ہے۔جو وقت گزرنے پہ خود ٹھوس ہو جاتا ہے البتہ پتے اور ٹہنیاں گھل مل جاتے ہیں اور اپنے نشانات اور سوراخ چھوڑ جاتے ہیں۔ اس طرح یہ پتھر چشموں کے کناروں پہ بنتا ہے۔ چونے کے پہاڑوں میں۔
یہ کٹائی میں بہت آسان اور رہنے میں بہت ٹھنڈا ہے۔ اور پانی کا بہت بڑا ذخیرہ لیے ہوئے ہوتا ہے۔
پوجا پاٹھ کے لیے ہندو دھرم میں اسے متبرک پتھر سمجھا جاتا ہے۔ اس میں غاریں بنانا آسان ہے اور رہنا انتہائی پرتکلف ہے خاص طور پر گرمیوں میں۔
ایک نالے کے کنارے بنی جھیل اور اس جھیل کے کناروں پہ بننے والا یہ ٹریورٹائن یا نامیاتی چونے کا پتھر ہی اصل وجہ ہے اس مندر کے اس جگہ بننے کی۔
نہ صرف اسی آنسو بھری جھیل کے کناروں سے یہ پتھر کاٹ کر مندر بنایا گیا ہے۔
بلکہ کانٹ چھانٹ میں اسی پتھر کا برادہ تھوڑا پیس کر پانی ملا کر ان پتھروں کو جوڑنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔
اس مندر کی تزئین و آرائش میں سیمنٹ اور چونے کے پتھر کا بھی استعمال کیا گیا ہے حکومت پاکستان کی طرف سے۔

آرک یا ڈاٹ یا گنبد بھی ثانوی دور کے معلوم ہوتے ہیں۔
کھیوڑہ ریت کا پتھر بھی کچھ جگہوں پہ استعمال کیا گیا ہے۔ جو کہ اس مندر کی خصوصیات میں سے نہیں یہ بھی دور جدید کی تزئین کے وقت کا معلوم ہوتا ہے۔
دو دیواروں پہ کچھ نقش و نگار بھی بنائے گئے ہیں لیکن یہ سیمنٹ کے اوپر ہیں جو کہ زمانہ قدیم کے نہیں ہیں۔ فرش اور سیڑھیوں پہ لگا سنگ مر مر یا رکازی چونے کا پتھر بھی کچھ عرصہ پہلے کا ہی ہے۔

25/07/2022

Alauddin Khilji was born in Delhi in 1266 AD and ruled as Sultan of Delhi from 1296 AD – 1316 AD. Khilji greatly expanded the empire that he inherited from his uncle.

during his rule, the Mongols of the Chagatai Khanate invaded India. Khilji, by his military brilliance, managed to defeat the Mongols not once, but *five* times: in 1298 AD (led by Ulugh Khan, and inflicting 20,000 casualties on the Mongols), 1299 AD in Sindh (led by Zafar Khan), 1299 AD in Delhi (leading the army himself against the Mongols), 1305 AD (led by Malik Nayak, and inflicting 8000 casualties on the Mongols), and 1306 AD (led by Malik Kafur); and a “draw” in the sixth Mongol invasion of 1303 AD (again personally leading the army), where the Mongols were unable to defeat Khilji, but were able to sack Delhi.

This was a military feat unprecedented in those days, because the Mongols were an unstoppable force wherever else they went. No one in the rest of the world – whether the Russian Empire or the mighty Persian empire or the Baghdad Caliphate – could stand up to the dreaded Mongols. Khilji defeated them 5 times and had a draw in a 6th confrontation. The armies of the Delhi sultanate under Khilji were some of the most disciplined and well-trained in the world, and that is why they could defeat the Mongols time and again.

23/07/2022
20/07/2022
19/07/2022
19/07/2022
16/06/2022

Address

118/12. L Kassowal District Sahiwal
Kassowal
57300

Telephone

+923214037721

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Society of Indus Valley Civilization posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Society of Indus Valley Civilization:

Share

Category


Other Kassowal travel agencies

Show All

You may also like