Explore Pakistan With Javed

Explore Pakistan With Javed Trekking Hiking Relaxing Trips

جب آپ 200 میٹر (656 فٹ) کی گہرائی تک پہنچتے ہیں، تو آپ سمندر کے twilight zone میں داخل ہوتے ہیں - ایک وسیع دنیا جہاں تقر...
21/01/2025

جب آپ 200 میٹر (656 فٹ) کی گہرائی تک پہنچتے ہیں، تو آپ سمندر کے twilight zone میں داخل ہوتے ہیں - ایک وسیع دنیا جہاں تقریباً کوئی روشنی نہیں ہوتی ہے۔ یہ اتنا سیاہ ہے کہ فوٹو سنتھیسس ممکن نہیں ہے۔ اس علاقے سے آگے، 1000 میٹر (3280 فٹ) کی گہرائی پر، آپ ہمیشہ تاریکی میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ مڈ نائٹ زون ہے۔ - ایک وسیع دنیا جو ابسال میدانوں کی طرف لی جاتی ہے۔ ان تک 4000 میٹر (13,000 فٹ) کی گہرائی پر پہنچا جاتا ہے۔ لیکن یہیں ختم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد 6,000 میٹر (19,000 فٹ) پر ہڈال زون آتا ہے۔ اس زون کا سب سے گہرا حصہ ماریانا ٹرینچ ہے، جو 10,935 میٹر (35,876 فٹ) گہرا ہے - جو ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی سے زیادہ ہے۔ ایک انسان کی طرف سے سب سے زیادہ گہری ڈائیونگ کا ریکارڈ؟ 332 میٹر (1,090 فٹ) ہے.

16/01/2025

روس کی جھیل بائیکل، جو سائبیریا میں واقع ہے، دنیا کی سب سے گہری اور قدیم تازہ پانی کی جھیل ہے، جس کی گہرائی 1,642 میٹر اور عمر 25 سے 30 ملین سال ہے۔یہ زمین کے غیر جمے ہوئے تازہ پانی کا 20% رکھتی ہے، جس کی وجہ سے یہ سب سے بڑی تازہ پانی کی ذخیرہ گاہ ہے۔حال ہی میں یہاں آئس سونامی کا انتہائی نایاب مظہر دیکھا گیا، جو انتہائی دلکش ہے۔ 😱🥶

آئس سونامی، جسے آئس شَو بھی کہا جاتا ہے، دراصل ایک نایاب قدرتی مظہر ہے جس میں تیز ہوائیں یا پانی کے دھارے جمی ہوئی جھیل یا سمندر کی برف کو کنارے کی طرف دھکیل دیتے ہیں، جس سے بڑے بڑے برف کے ڈھیر بن جاتے ہیں۔آئس سونامی کی شدت اور اس کا اثر جغرافیائی علاقے کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔یہ مظہر خاص طور پر ان علاقوں میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں سردیوں میں برف کی بڑی مقدار جمع ہوتی ہے اور جب درجہ حرارت میں اضافہ دیکھا جاتا ہے تو برف کی پرتیں اپنی جگہ سے ہٹتی ہیں، تو یہ زمین یا پانی میں موجود قدرتی رکاوٹوں کے ساتھ ٹکرا کر ایک شدید حرکت پیدا کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں برف کے بڑے ٹکڑے ساحل کی طرف پھینکے جاتے ہیں۔
Explore Pakistan With Javed

"دنیا کا واحد برفانی صحرا: پاکستان کا شگر"🌨️ کیا آپ نے کبھی برف کے ٹیلوں کا صحرا دیکھا ہے؟پاکستان کے علاقے شگر (گلگت بلت...
12/12/2024

"دنیا کا واحد برفانی صحرا: پاکستان کا شگر"

🌨️ کیا آپ نے کبھی برف کے ٹیلوں کا صحرا دیکھا ہے؟
پاکستان کے علاقے شگر (گلگت بلتستان) میں ایک ایسا حیرت انگیز قدرتی منظر موجود ہے جسے "برفانی صحرا" کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد مقام ہے جہاں آپ کو صحرا کی طرح ٹیلے نظر آئیں، لیکن یہ ریت کے بجائے برف سے بنے ہوتے ہیں!

❄️ خصوصیات:

یہ منفرد برفانی صحرا قطبہ صحرا کے نام سے مشہور ہے۔

یہاں دن کے وقت سورج کی روشنی برف کے ٹیلوں پر پڑتی ہے تو یہ ہیرے کی طرح چمکتے ہیں۔

سردیوں میں درجہ حرارت منفی 20 ڈگری تک گر جاتا ہے، جو اسے مزید پراسرار بناتا ہے۔

💭 دلچسپ حقیقت:
دنیا میں صرف پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں آپ ایک ساتھ بلند ترین پہاڑ، گلیشیئر، اور برفانی صحرا دیکھ سکتے ہیں۔

❓ سوچیے:
کیا آپ اس منفرد مقام کو دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں؟ یا آپ کے خیال میں ایسا منظر خوابوں جیسا ہے؟
اپنی رائے کمنٹ میں دیں اور پاکستان کی اس حیرت انگیز جگہ کو دنیا کے سامنے لانے میں ہمارا ساتھ دیں!

Explore Pakistan With Javed

بی بی سی اردو۔ قطب شمالی ایک ایسا پراسرار علاقہ ہے جو بحر منجمند شمالی کے وسط میں برف کی مسلسل حرکت میں رہنے والی چادر ک...
30/07/2024

بی بی سی اردو۔
قطب شمالی ایک ایسا پراسرار علاقہ ہے جو بحر منجمند شمالی کے وسط میں برف کی مسلسل حرکت میں رہنے والی چادر کی طرح ہے۔ یہ کسی کی ملکیت نہیں تاہم اس کے دعویدار کافی ہیں۔

دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور آئس بریکر، برف توڑنے والا جہاز ففٹی لیٹ پوبڈی، جو جوہری توانائی سے چلتا ہے، ہر سال موسم گرما میں 100 ایسے مسافروں کے ساتھ قطب شمالی کا رخ کرتا ہے جو کرہ ارض کے اس دور دراز مقام پر قدم رکھنا چاہتے ہیں۔

ان میں سے زیادہ تر مسافروں کے لیے قطب شمالی پر قدم رکھنے کے لمحے سے زیادہ وہاں تک پہنچنے کا سفر اہم ہوتا ہے۔

اس جہاز کے نام کا روسی زبان میں مطلب ہے ’فتح کے پچاس سال‘ جو روس کی دوسری عالمی جنگ میں فتح کی پچاسویں سالگرہ کی جانب اشارہ ہے۔
اس جہاز کو توانائی فراہم کرنے کے لیے 171 میگا واٹ کے دو جوہری ری ایکٹر ہیں اور 27.6 میگا واٹ کے دو سٹیم ٹربو جنریٹر بھی، جن کی مدد سے 160 میٹر طویل آئس بریکر 21.4 ناٹ کی رفتار تک پہنچ سکتا ہے جو زمین کے حساب سے تقریبا چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار بنتی ہے۔

یہ جہاز چھ سال تک خشکی پر واپس آئے بغیر پانی میں سفر کر سکتا ہے کیونکہ اس کی ایندھن کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔
اس دیوہیکل بحری جہاز کا بنیادی مقصد موسم سرما کے دوران بڑے ہجم کے کارگو جہازوں کو برف سے جمے شمالی سمندری راستے کو پار کرانا ہے۔ موسم گرما میں یہ ایڈوینچر اور دریافت کے لیے مختص ہو جاتا ہے اور مرمینسک بندرگاہ سے اس افسانوی زمین کی جانب سفر کرتا ہے جہاں صرف روسی بحری جہاز ہی پڑاو کر سکتے ہیں۔

شمال کی حد کو سفر کرنے والوں کر دیکھ کر پرانے زمانے کے ان مہم جو افراد کی یاد آتی ہے جو کسی طرح کی مشکل صورتحال سے گھبراتے نہیں تھے۔ مرمینسک کی بندرگاہ سے نکلنے کے بعد یہ جہاز دو دن میں برف کی جمی ہوئی سمندری سطح تک پہنچ جاتا ہے۔

یہ برفانی ریچھ کا علاقہ ہے جہاں انسانوں کو نئے قسم کے قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مقام سے آگے منجمند خاموشی، برف کے نیچے سے جھانکتے سمندر کے پانیوں اور قطب شمالی کی پراسرار روشنیاں آپ کا ستقبال کرتے ہیں۔

اتنے خاموش سفر میں ایک آواز مسلسل موجود رہتی ہے۔ یہ برف کو چیرتے اس دیو ہیکل جہاز کے اگلے حصے سے آنے والی آواز ہے جو اپنا راستہ بنا رہا ہے۔

گرم کپڑوں میں لپٹے مسافر جہاز کے اگلے حصے پر کھڑے اپنی نگاہیں نیچے کی جانب مرکوز رکھتے ہیں جہاں ان کو بحر منجمند شمالی کی سطح پر موجود برف کی تہہ توٹتی نظر آتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے نیچے موجود پانیوں کو سانس لینے کا موقع ملا ہو۔

یہ کسی شاندار اور پر آسائش جہاز کا عام سا سمندری سفر نہیں۔ زمین کے سب سے شمال تک پہنچنے کا یہ سفر، جہاں زمین اور آسمان مل جاتے ہیں، گیارہ دن میں طے ہوتا ہے۔

اس دوران اس جہاز کی رفتار بیس کلومیڑ فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہوتی خصوصاً جب اسے برف کو چیرتے ہوئے راستہ بنانا ہو تاہم برفانی ریچھ کی موجودگی اس سفر کو ایک دلچسپ رخ دیتی ہے۔

اس منجمند دنیا کا بادشاہ انسان نہیں۔ یہاں تک سفر کرنے والے دنیا کے شمال تک پہنچنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اس خطے کی خوبصورتی اور پراسراریت کو محسوس کرنے بھی آتے ہیں۔
برفانی سمندر کی وسعت پر نگاہ جمائے رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی نشہ طاری ہو رہا ہو۔ یہ ایک پرسکون عمل بھی ہوتا ہے۔

موسم گرما میں یہاں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تاہم روشنی برف کی نیم سفید چادر سے ٹکرا کر مسلسل بدلتی رہتی ہے۔

یہاں کبھی موسم سرد اور دھندلا ہوتا ہے تو کبھی گلابی یا کسی اور رنگ کی روشنی جگمگاتی ہے۔ اس ناچتی روشنی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ جہاز کے ڈیک پر موجود ہیں یا پھر اندر کے گرم ماحول میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی چھوٹے سے سوراخ سے باہر جھانک رہے ہیں۔

چند دن کے بعد جب آخر کار جہاز قطب شمالی کو چھو لیتا ہے تو مسافروں میں ایک عجیب سی لہر دوڑتی ہے۔ کچھ کے مطابق یہ ایسا احساس ہوتا ہے جیسے ایک نیا آغاز ہو رہا ہو۔

دنیا کی چھت پر یہ برف کی طرح سرد ووڈکا سے جشن منانے کا وقت ہے۔ تمام مسافر ایک دائرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے جام ہوا میں بلند کرتے ہیں۔

یہ ایک فاتحانہ لمحہ ہے اور پھر وقت ہوتا ہے مشہور پولر چھلانگ کا جو شاید دنیا میں سب سے زیادہ مشہور تیراکی کی جگہ ہے۔

یہ زندگی میں صرف ایک بار کرنے والی چیز ہے لیکن ہر کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی۔ چند مہم جو واڈکا اور وائن انڈیل کر خود کو اس کام کے لیے تیار کرتے ہیں جبکہ جہاز کا عملہ برف پر کھانے کا انتظام کرنے لگ جاتا ہے۔
اس مقام پر بتائے چند گھٹوں میں سورج نکلا، پھر ہوا تیز ہوئی، بادل امڈ آئے اور برف پڑنے لگی۔ دنیا کے سب سے بلند مقام پر ایک گھںٹے میں ہی چار موسموں کا مزہ چکھ لیا۔

قطب شمالی ایک فریب کی طرح ہے۔ یہ کسی کے ہاتھ نہیں آنا چاہتا۔ یہاں پڑاؤ بہت مختصر تھا۔ جب تک جہاز واپسی کے لیے روانہ ہوا، یہ چار کلومیٹر تک بہہ چکا تھا کیوں کہ سمندر یہاں منجمند تو ہے لیکن حرکت میں بھی ہے۔

جنوب کی جانب واپسی کے دوران جہاز برف کی دوبارہ جم جانے والی چادر میں اپنے نشان تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہوکر آئی لینڈ پر کشتیوں کی مدد سے مسافروں کو روبینی روک پر گلیشیئر تک لے جایا گیا جہاں ستر ہزار سے زیادہ مختلف الانواع پرندے رہتے ہیں۔

یہاں اگر ہیلی کاپٹر پر سفر کریں تو فرانز جوزف لینڈ پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ اس منجمند صحرا کی وسعت کو سمجھنے کے لیے مسافروں کو ہوائی دورے کی دعوت دی جاتی ہے۔

جب آپ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر جہاز سے اڑتے ہیں تو یہ دیو ہیکل جہاز کچھ ہی دیر میں ایک سرخ نقطہ بن کر رہ جاتا ہے۔ برف میں بنا اس کا راستہ اس طرح نظر آتا ہے جیسے سمندر کی رگیں ہوں۔ ہیلی کاپٹر جہاز کے گرد ایک چکر لگاتا ہے اور مسافر کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ علاقہ نہ ختم ہونے والا ہے جہاں وقت کبھی نہیں گزرتا، جو یا تو تاریک ہوتا ہے یا پھر روشنی سے بھرپور۔

اس سفر سے پہلے شاید کسی کو بھی اس علاقے کی وسعت کا اندازہ نہیں تھا لیکن اب ہمیں اندازہ ہے کہ سفید برف کا یہ کمبل جو ہماری زمین کے اوپر موجود ہے کتنا وسیع ہے۔

مسجد چقچنکہا جاتا ہے کہ اس مسجد کا اصلی نام شوق چن تھا۔ بلتی زبان میں شوق چن کا مطلب فیصلہ کرنے کی جگہ ہے۔سکردو سے 110 ک...
16/07/2024

مسجد چقچن

کہا جاتا ہے کہ اس مسجد کا اصلی نام شوق چن تھا۔ بلتی زبان میں شوق چن کا مطلب فیصلہ کرنے کی جگہ ہے۔
سکردو سے 110 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع چقچن مسجد 8 سو سال قدیم ہے
یہ مسجد تبتی ایرانی اور کشمیری فن کا حسین امتزاج رکھتی ہے اور اس دور کے ماہرین کی قابلیت کی گواہی دیتی ہے۔
بین المذاہب و بین المسالک ہم آہنگی کی جیتی جاگتی مثال چقچن مسجد ضلع گانچھے کا ضلعی ہیڈ کوارٹر خپلو میں واقع ہے۔ سیرو تفریح یا کسی بھی کام کی غرض سے خپلو جانے والے لوگ اس مسجد کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق مسجد کے اندرونی دروازے کے ساتھ لٹکے دو زنجیروں کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر کوئی بھی حاجت کی دعا کی جائے یا منت مانگی جائے تو وہ لازمی طوع پر پوری ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے روزانہ سینکڑوں خواتین و حضرات یہاں حاجت مانگنے جاتے ہیں۔ یہ مسجد تبتی ایرانی اور کشمیری فن تعمیر کا ایک حسین و جمیل اور شاندار امتزاج رکھتی ہے۔ اس مسجد کو مقامی سطح پر قدیم ترین تاریخی، ثقافتی اور مذہبی ورثہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

لوگ اپنے تنازعات کے حل کے لئے آج بھی چقچن مسجد میں آ کر قسم کھاتے ہیں جس میں دو فریقین یہ دعا مانگتے ہیں کہ جس کا حق ہے اس کے لئے مخالف فریق کا دل نرم ہو جائے اور وہ خود اس حقیقی حقدار کے حق سے دستبردار ہو جائے۔ شنید ہے کہ سینکڑوں دفعہ ایسا ہو چکا ہے کہ حقدار کو اس کا حق ملا ہے۔
جب سے انسان نے خپلو کی سر زمین پہ قدم رکھا ہے تب سے یہ جگہ متبرک رہی ہے اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اس جگہ کو اپنی عبادت گاہ کا درجہ دے کر یہاں اپنے عقائد کے مطابق اپنی عبادات بجا لاتے رہے ہیں۔

چقچن مسجد کا تاریخی پس منظر بہت خوبصورت اور حیران کن ہے۔ تاریخی کتب میں لکھا گیا ہے کہ ہزاروں سال قبل گلگت بلتستان کے لوگوں کا مذہب بونگ شوس تھا جس کو دیو مالائی مذہب کہا جاتا ہے۔ جس کے بارے میں کئی لوک داستانیں مشہور ہیں۔ اس مذہب کے ماننے والے لوگوں نے یہاں اپنی عبادت گاہ کی بنیاد رکھی تھی۔ جس میں کئی صدیوں تک وہ عبادات کرتے رہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہاں کے لوگ بدھ مت کے پیروکار بن گئے جس کے بعد اسی عبادت خانے کو نقصان پہنچائے بغیر اس کے اوپر ایک منزل بنائی گئی جس کو بدھ مت ٹیمپل یعنی خانقاہ قرار دیا گیا اور بدھ مذہب کے عقیدے کے مطابق عبادت شروع کی گئی۔ بدھ مت کے پیروکار بھی صدیوں تک یہاں عبادت کرتے رہے ہیں۔

آج سے 8 سو سال قبل پہلا مبلغ اسلام حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی سیاچن کے راستے خپلو پہنچے۔ ان کی آمد کے بعد مقامی آبادی نے اسلام قبول کیا اور مسلمان بن گئے۔ مقامی لوگوں نے بونگ شوس اور بدھ مت مذہب کے پیروکاروں کی تعمیر شدہ خانقاہ کو منہدم کرنے کی بجائے اس کے اوپر لکڑی کی مدد سے تیسری منزل تعمیر کی اور اپنی عبادت شروع کی۔ اس عبادت گاہ کو منہدم نہ کرنے کا مقصد بونگ شوس اور بدھ مت کے پیروکاروں کی دل آزاری سے اجتناب کرنا تھا اور ساتھ میں ہزاروں سال سے مقدس اور متبرک سمجھی جانے والی اس جگہ کے تقدس کو برقرار رکھنا تھا۔

نچلی دو منزلوں کے اوپر لکڑی کی مدد سے تیسری منزل یعنی مسجد بنانے کے لئے عبادت گاہ کی ایک طرف لکڑی کا اور دوسری طرف پتھر کا مضبوط ستون نصب کیا گیا ہے تاکہ اس کے اوپر مسجد تعمیر کی جا سکے۔ یوں اس کی تیسری منزل تعمیر کی گئی اور اس کو مسجد کا درجہ دیا گیا۔

چقچن مسجد کی تعمیر کے حوالے سے ایک اختلاف یہ پایا جاتا ہے کہ اس مسجد کی بنیاد حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی، میر سید محمد نور بخش یا میر شمس الدین عراقی میں سے کس نے رکھی۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کو ایک طویل عرصہ لگا ہے جس میں مذکورہ اہم شخصیات کا بنیادی کردار ہے۔ موجودہ وقت میں یہ مسجد دو مقامی مسالک کے پیروں کاروں کی مشترکہ عبادت گاہ ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس میں عبادت کے لئے جگہ کم پڑ گئی تو صدیوں قبل چوتھی اور آخری منزل بنائی گئی۔ جو کی لکڑی کا ایک جال بچھا کر تعمیر کی گئی ہے۔ جہاں ہر طرف خوبصورت چوب کاری کی گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بالائی مسجد کی تعمیر کو مکمل ہونے میں ایک صدی کا عرصہ لگا ہے۔ جس کا اندازہ اس کے اندر باریکی اور کثرت سے کی گئی دلکش اور خوبصورت کندہ کاری ہے۔

یوں تو جھیل سیف الملوک پاکستان کی بے حد مشہور و معروف جھیل ہے جسکا نام بچے بچے نے سن رکھا ہے مگر پھر بھی نئے لوگوں کے لئ...
18/04/2024

یوں تو جھیل سیف الملوک پاکستان کی بے حد مشہور و معروف جھیل ہے جسکا نام بچے بچے نے سن رکھا ہے مگر پھر بھی نئے لوگوں کے لئیے اسکا تعارف بہت لازمی ہے۔
جھیل سیف الملوک ناران پاکستان میں 3224 میٹر/10578 فٹ کی بلندی پر وادی کاغان میں واقع ہے۔ قریبی قصبہ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل اس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت جھیل ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے کے لیے ہر سال ناران آتے ہیں۔ ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

جھیل سیف الملوک
Saiful Muluk Lake

جھیل سیف الملوک سرما میں
محل وقوع
وادی ناران
قسم جھیل
پہاڑی جھیل
بنیادی اضافہ
برفانی پانی
نکاسی طاس ممالک
پاکستان
رقبہ سطح
2.75 کلومیٹر2 (29,600,000 فٹ مربع)
سطح بلندی
3,224 میٹر (10,577 فٹ)
آبادیاں
ناران
جھیل سیف الملوک کا پاکستان میں مقام

جھیل سیف الملوک کا دلفریب منظر🏞
جھیل سیف الملوک تک پہنچنے کے لیے آپ کو وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ہزارہ موٹر وے سے سفر شروع کرنے کے بعد آپ ایبٹ آباد اور پھر مانسہرہ شہر تک جا پہنچتے ہیں۔ مانسہرہ سے قراقرم ہائی وے پر ناران بابو سر ٹاپ روڈ بالا کوٹ کے راستے وادئ ناران کاغان تک جاتی ہے۔ وادئ ناران کے بعد سیاح ہائیکنگ یا پھر جیپ کے ذریعے جھیل سیف الملوک کی سیر کرسکتے ہیں۔
گزشتہ کچھ سالوں سے سیاحوں کی بڑھتی ہوئ تعداد اور ناقص انتطامی معاملات کیوجہ سے جھیل اور اسکے اطراف کا ماحول شدید بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے اسکی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئیے اگر بروقت مناسب انتظامات نہ کئیے تو عنقریب یہ جگہ محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں چلی جائیگی🙄

شہر اقتدار سے 700 کلو میٹر دور 7900 مربع کلو میٹر پر محیط ہنزہ گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ سطح سمندر سے 2500 م...
15/04/2024

شہر اقتدار سے 700 کلو میٹر دور 7900 مربع کلو میٹر پر محیط ہنزہ گلگت بلتستان کا ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ سطح سمندر سے 2500 میٹر بلند اس وادی کو وادئ ہنزہ بھی کہتے ہیں۔ یہ گلگت کے شمال میں نگر کیساتھ واقع ہے۔

قریب 4 دہائیاں قبل ہنزہ میں مقامی راجہ کی حکومت ہوا کرتی تھی جسے میر آف ہنزہ کہا جاتا تھا۔ تاہم بھٹو دور میں ریاستی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ہنزہ میں بھی یہ نظام ختم ہو گیا۔ آج بھی ہنزہ میں میر تو ہے مگر صرف اعزازی عہدہ کے ساتھ۔
وادی ہنزہ گلگلت بلتستان کا ایک ضلع ہے۔ جہاں کی زبان بروشسکی ہے۔ جو دنیا کی تنہا اور مشکل زبان سمجھی جاتی ہے۔ جب کہ واخی اور شینا زبان بھی بولی جاتی ہے۔ عام طور پر ہنزہ کو ایک شہر کا نام سمجھا جاتا ہے جبکہ یہ ایک وادی کا نام ہے جس میں بہت سی چھوٹی چھوٹی وادیاں اور قصبات شامل ہیں۔ وادی تین علاقوں پر مشتمل ہے۔ 1 بالائی ہنزہ (گوجال) 2 مرکزی ہنزہ اور لوئر ہنزہ۔
ہنزہ کا سب سے اہم شہر علی آباد ہے جبکہ سیاحت اور اردگرد کے نظاروں کے لئیے کریم آباد مشہور ہے۔ ہنزہ کے اردگرد موجود چوٹیوں میں راکا پوشی، دیران پیک، گولڈن پیک، التر پیک اور لیڈی فنگر پیک مشہور ہیں۔ کریم آباد کا بازار ہنزہ کی ثقافتی اشیاء سے بھرا پڑا ہے۔ چونکہ ہنزہ میں پاکستانی سیاحوں کی نسبت غیر ملکی سیاح زیادہ آتے ہیں اس لیے یہ بازار قدرے مہنگا محسوس ہوتا ہے۔
کریم آباد میں موجود میر کا پرانا گھر بلتت قلعہ کریم آباد کے حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ تقریباً 700 سال پرانا یہ قلعہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ کریم آباد کے قریب ہی ایک اور پرانا قصبہ التت ہے جو وادی ہنزہ کا سب سے پرانا علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ جس میں موجود التت قلعہ 900 سال پرانا ہے۔
ہنزہ کے سیاحتی مقامات میں سب سے مشہور ڈوئیکر یا ایگل نیسٹ ہیں جو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت برف پوش چوٹیوں پر پڑنے والی سورج کی کرنوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہاں سے التر پیک و التر میدان کا خوبصورت ٹریک بھی شروع ہوتا ہے۔
جیپ پر دریا کے دوسرے کنارے پر واقع وادی نگر بھی جایا جا سکتا ہے جہاں پر گلیشئیرز کا نظارہ دیدہ زیب ہوتا ہے۔ راکاپوشی کے دامن میں واقع خوبصورت گاؤں مناپن ایک پورا دن گزارنے کیلے بہترین جگہ ہے۔ نومل اور نلتر کی خوبصورت وادیاں سیاحوں کے دلوں کو خوشی سے بھر دیتی ہیں۔
قدرتی آفت کے نتیجے میں بننے والی عطاء آباد جھیل اب ایک اہم تفریحی مقام کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ بلند پہاڑوں کے بیچ جھیل کے نیلگوں پانیوں میں کشتی رانی ایک یادگار سفر بن جاتا ہے۔ صرف ایک دن مزید صرف کر کے جھیل کے پار اتر کر گلمت گاؤں، بورت جھیل، پسو گاؤں پاکستان کے آخری قصبے سوست بھی با آسانی جایا جا سکتا ہے۔ چین کی سرحد کے ساتھ واقع دنیا کے سب سے اونچے درے درہء خنجراب کا سفر ہے جو آپکے سیاحتی لمحات کو ہمیشہ کے لئیے یادگار بنا دیتا ہے۔
اسلام آباد سے ہنزہ اور باقی وادیوں کا مکمل سفر 4 پانچ 7 اور 10 دنوں میں اپنی سہولت کے مطابق کیا جا سکتا ہے۔ ہنزہ ہو یا ہنزہ کی بالائی وادیاں ہوں ہر جگہ بہترین سہولتوں سے آراستہ ہوٹل اور مقامی ٹرانسپورٹ اور گائیڈ کی حیثیت سے مقامی لوگ دستیاب ہیں۔ پورا خطہ مہمان نواز اور خوش اخلاق ہے۔

‏پاکستان کے وہ 5 خوبصورت مقامات جہاں زندگی میں ایک بار ضرور جانا چاہیئےچندا ویلیچندا ویلی اسکردو سے قریب ایک وادی ہے جہا...
14/04/2024

‏پاکستان کے وہ 5 خوبصورت مقامات جہاں زندگی میں ایک بار ضرور جانا چاہیئے

چندا ویلی

چندا ویلی اسکردو سے قریب ایک وادی ہے جہاں قدرت نے حسن کے تمام جلوے بکھیر رکھے ہیں۔ سطح سمندر سے 10 ہزار فٹ بلند یہ ہری بھری وادی ایک غیر معروف سیاحتی مقام ہے چنانچہ شہروں کی بھیڑ بھاڑ سے دور یہاں زندگی کا حسین ترین وقت گزارا جاسکتا ہے۔

وادی نلتر

نلتر گلگت سے 40 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے، یہ وادی اپنی رنگین جھیلوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ خزاں میں جب درختوں سے سنہری پتے جھڑتے ہیں تو یہ وادی جنت کا ٹکڑا معلوم ہونے لگتی ہے

راما میڈو

گلگت بلتستان کے ضلع استور سے 11 کلو میٹر دور واقع راما میڈو شمال کے خوبصورت ترین دیہات میں سے ایک قرار دیا جاسکتا ہے۔

کھلا سرسبز میدان، میدان میں نالیوں کی صورت میں بہتا ٹھنڈا برف دودھیا پانی، پانی کے کناروں پر میدان میں جا بجا گائیں اور بھیڑیں، ارد گرد چیڑ کے لمبے سرسبز درخت، عقب میں پہاڑی ڈھلوان پر چیڑ کا جنگل، اس کے اوپر چونگڑا کی برف پوش چوٹی، چوٹی کے ساتھ نانگا پربت کی جنوبی دیوار اور نیلے آسمان پر پہاڑ کی چوٹیوں کو چھوتے بادلوں کا سحر انگیز منظر راما میڈو میں ہی مل سکتا ہے۔

وادی نیلم

وادی نیلم آزاد کشمیر کی ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ مظفر آباد کے شمال اور شمال مشرق میں دریائے نیلم کے دونوں اطراف واقع ہے۔ یہ وادی 144 کلو میٹر طویل ہے جو بلند و بالا پہاڑوں، گھنے جنگلات اور خوبصورت باغات پر مشتمل ہے۔

ٹیکسلا
صوبہ پنجاب کے شہر راولپنڈی میں واقع ٹیکسلا کے کھنڈرات تاریخی اہمیت رکھتے ہیں، یہ مقام گندھارا دور میں بدھ مت اور ہندو مت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔

یہاں گوتھک طرز کا ایک عجائب گھر ہے، جس میں پانچویں صدی قبل مسیح کے گندھارا آرٹ کے نمونے، 10 ہزار سکے، زیورات، ظروف اور دیگر نوادرات رکھے ہیں۔

1940ء میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے یہ چائے خانہ شروع کیا بوٹا سنگھ نے 1940ء سے 1944ء تک اس چائے خا...
06/04/2024

1940ء میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے یہ چائے خانہ شروع کیا بوٹا سنگھ نے 1940ء سے 1944ء تک اس چائے خانہ و ہوٹل کو چلایا مگر اس کا کام کچھ اچھے طریقے سے نہ جم سکا۔ بوٹا سنگھ کے چائے خانہ پر دو سکھ بھائی سرتیج سنگھ بھلا اور کیسر سنگھ بھلا جو گورنمنٹ کالج کے سٹوڈنٹ تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ اکثر چائے پینے آتے تھے۔ 1940ء میں یہ دونوں بھائی گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کر چکے تھے اور کسی کاروبا ر کے متعلق سوچ رہے تھے کہ ایک روز اس چائے خانہ پر بیٹھے، اس کے مالک بوٹا سنگھ سے بات چل نکلی اور بوٹا سنگھ نے یہ چائے خانہ ان کے حوالے کر دیا۔

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں مال روڈ پر واقع ہے جو کہ انار کلی بازار اور نیلا گنبد کے قریب ھے۔ قیام پاکستان کے بعد حافظ رحیم بخش صاحب جالندھر سے ہجرت کر کے لاہور آۓ تو انہیں پاک ٹی ہاؤس 79 روپے ماہانہ کرایہ پر ملا۔ یہ چائے خانہ "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے ہی چلتا رہا بعد میں "انڈیا" کاٹ کر "پاک" کا لفظ لکھ دیا گیا۔

دبلا پتلا بدن، دراز قد، آنکھوں میں ذہانت کی چمک، سادہ لباس، کم سخن، حافظ رحیم بخش کو دیکھ کر دِلی و لکھنؤ کے قدیم وضعدار بزرگوں کی یاد تاذہ ہو جاتی۔ حافظ صاحب کے دو بڑے بیٹوں علیم الدین اور سراج الدین نے پاک ٹی ہاؤس کی گدی کو سنبھالا۔

لاھور کے گم گشتہ چاۓ خانوں میں سب سے مشہور چاۓ خانہ پاک ٹی ہاؤس تھا جو ایک ادبی، تہذیبی اور ثقافتی علامت تھا۔ پاک ٹی ہاؤس شاعروں، ادیبوں، نقاد کا مستقل اڈہ تھا جو ثقافتی، ادبی محافل کا انعقاد کرتی تھیں۔ پاک ٹی ہاؤس ادیبوں کا دوسرا گھر تھا اور کسی کو اس سے جدائی گوارا نہیں تھی وہ ٹی ہاؤس کے عروج کا زمانہ تھا۔

ان دنوں لاھور میں دو بڑی ادبی تنظیمیں، حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنفین ہوتی تھیں۔ صبح سے لیکر رات تک ادبی محفلیں جمی رہتی تھیں۔ یہاں ملک بھر سے نوجوان ان شخصیات سے ملاقات کرنے کیلۓ آتے تھے۔ اتوار کو ٹی ہاؤس میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ جو کوئی آتا کرسی نہ بھی ہوتی تو کسی دوست کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا۔ یہاں شعر و ادب پر بڑے شوق سے بحثیں ہوتی تھیں۔

ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں سے سواۓ چند ایک کے باقی کسی کا بھی کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا۔ کسی ادبی پرچے میں کوئی غزل، نظم یا کوئی افسانہ لکھ دیا تو پندرہ بیس روپے مل جاتے تھے لیکن کبھی کسی کے لب پر تنگی معاش کا شکوہ نہیں تھا۔ ایسا کبھی نہیں تھا کہ کسی دوست کی جیب خالی ہے تو وہ ٹی ہاؤس کی چاۓ اور سگریٹوں سے محروم رہے۔ جس کے پاس پیسے ہوتے تھے وہ نکال کے میز پر رکھ دیتا تھا۔ جس کی جیب خالی ہوتی علیم الدین صاحب اس کے ساتھ بڑی فراخ دلی سے پیش آتے تھے۔ اس وقت کے ادیبوں میں سے شاید ہی کوئی ادیب ہو جس نے پاک ٹی ہاؤس کی چاۓ کا ذائقہ نہ چکھا ہو۔

پاک ٹی ہاؤس کا بڑا دلکش ماحول ہوتا تھا۔ نائیلون والا چمکیلا فرش، چوکور سفید پتھر کی میزیں، دیوار پر لگی قائدآعظم کی تصویر، گیلری کو جاتی ہوئی سیڑھیاں، بازار کے رخ پر لگی شیشے دار لمبی کھڑکیاں جو گرمیوں کی شاموں کو کھول دی جاتی تھیں اور باہر لگے درخت بھی دکھائی دیتے تھے۔ دوپہر کو جب دھوپ پڑتی تو شیشوں سے گلابی روشنی اندر آتی تھی۔

ٹی ہاؤس کے اندر کونے والے کاؤنٹر پر علیم الدین کا مسکراتا ہوا سانولا چہرا ابھرتا اور بل کاٹتے وقت پیچھے کہیں دھیمے سروں میں ریڈیو بج رہا ہوتا تھا۔ علیم الدین کی دھیمی اور شگفتہ مسکراھٹ تھی۔ اس کے چمکیلے ہموار دانت موتیوں کی طرح چمکتے تھے ٹی ہاؤس کی فضا میں کیپسٹن سگریٹ اور سگار کا بل کھاتا ہوا دھواں گردش کرتا تھا۔ ٹی ہاؤس کی سنہری چاۓ، قہوہ اور فروٹ کیک کی خوشبو بھی دل کو لبھاتی تھی۔ کبھی کبھی کاؤنڑ پر رکھا ہوا ٹیلیفون یک دم بج اٹھتا تھا۔

ہجرت کر کے آنے والوں کو پاک ٹی ہاؤس نے اپنی گود میں پناہ دی۔ کسی نے کہا میں انبالے سے آیا ہوں میرا نام ناصر کاظمی ہے۔ کسی نے کہا میں گڑھ مکستر سے آیا ہوں میرا نام اشفاق احمد ہے۔ کسی نے کہا میرا نام ابن انشاء ہے اور میرا تعلق لاہور سے ہے۔

وہ بڑے چمکیلے اور روشن دن تھے۔ ادیبوں کا سارا دن ٹی ہاؤس میں گزرتا تھا۔ ذیادہ تر ادیبوں کا تخلیقی کام اسی زمانے میں انجام پایا تھا۔ ناصر کاظمی نے بہترین غزلیں اسی زمانے میں لکھیں۔ اشفاق احمد نے گڈریا اسی زمانے میں لکھا۔ شعر و ادب کا یہ تعلق پاک ٹی ہاؤس ہی سے شروع ہوا تھا۔

صبح آٹھ بجے پاک ٹی ہاؤس میں کم لوگ آتے تھے۔ ناصر کاظمی سگریٹ انگلیوں میں دباۓ، سگریٹ والا ہاتھ منہ کے ذرا قریب رکھے ٹی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور اشفاق احمد سائیکل پر سوار پاک ٹی ہاؤس آتا تھا۔

پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوں تو دائیں جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ایک صوفہ لگا ھوا تھا۔ سامنے ایک لمبی میز تھی۔ میز کی تینوں جانب کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، پروفیسر سید سجاد رضوی، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد وغیرہ کی محفل شام کے وقت اسی میز پر لگتی تھی۔

اے حمید، انور جلال شمزہ، عباس احمد عباسی، ھیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء وغیرہ قائد آظم کی تصویر کے نیچے جو لمبی میز اور صوفہ بچھا تھا، وہاں اپنی محفل سجاتے تھے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اور سید وقار عظیم بھی وقت نکال کر پاک ٹی ہاؤس آتے تھے۔ ھر مکتبہ فکر کے ادیب، شاعر، نقاد اور دانشور اپنی الگ محفل بھی سجاتے تھے۔

سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال شمزہ، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھے۔

ساحر لدھیانوی بھارت جا چکا تھا اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام امر کر رھا تھا۔ شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے۔ ادب اپنے عروج پہ تھا اس زمانے کی لکھی ھوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اس زمانے کی بوئی ہوئی ذرخیز فصل کو ھم آج کاٹ رہے ہیں۔

پاک ٹی ہاؤس کئی نشیب و فراز سے گزرا اور کئی مرتبہ بند ہو کر خبروں کا موضوع بنتا رہا۔

عرصہ دراز تک اہل قلم کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے بعد 2000ء میں جب ٹی ہاؤس کے مالک نے اسے بند کرنے کا اعلان کیا تو ادبی حلقوں میں تشویس کی لہر دوڈ گئی اور اھلِ قلم نے باقاعدہ اس فیصلے کی مزاحمت کرنے کا اعلان کر دیا۔

دراصل ٹی ہاؤس کے مالک نے یہ بیان دیا تھا کہ "میرا ٹی ہاؤس میں گزارہ نہیں ہوتا میں کوئی دوسرا کاروبار کرنا چاہتا ہوں" ادبی تنظیموں نے مشترکہ بیان دیا کہ ٹی ہاؤس کو ٹائروں کی دکان بننے کی بجاۓ ادیبوں کی بیٹھک کے طور پر جاری رکھا جاۓ کیونکہ اس چاۓ خانے میں کرشن چندر سے لیکر سعادت حسن منٹو تک ادبی محفلیں جماتے رھے۔
ادیبوں اور شاعروں نے اس چاۓ خانے کی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا اور یہ کیس عدالت میں بھی گیا اور بعض عالمی نشریاتی اداروں نے بھی احتجاج کیا۔ آخر کار 31 دسمبر 2000ء کو یہ دوبارہ کھل گیا اور اہل قلم یہاں دوبارہ بیٹھنے لگے لیکن 6 سال کے بعد مئ 2006ء میں یہ دوبارہ بند ہو گیا اس بار ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے کوئی خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔

اس طرح یہ تاریخی، ادبی اور ثقافتی ورثہ نصف صدی تک اہل قلم کی میزبانی کرنے کے بعد اپنے پیچھے علم و ادب کی دنیا کی کئ داستانیں چھوڑ گیا۔ اب اس کے بند شٹر اور اوپر لکھا ہوا بورڈ صرف ماضی کے ایک ادبی ورثہ کی یاد دلانے لگا۔

نگینہ بیکری، چوپال، شیزان اور عرب ہوٹل کی طرح یہ بھی ماضی کا حصہ بن گیا۔

پاک ٹی ہاؤس کی بحالی لاہور کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا ایک مسلسل درینہ مطالبہ تھا۔ پاک ٹی ہاؤس کا افتتاح 14 اگست کو کیا جانا تھا لیکن نہ ہو سکا۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر افتتاح کی نئی تاریخ 6 ستمبر رکھی گئی لیکن بے سود۔ 20 اکتوبر 25 اکتوبر اور 25 دسمبر 2012ء کو کیے گئے وعدے بھی وفا نہ ہو سکے۔ پاک ٹی ہاؤس کی جدائی ختم ہوئی اور وصل کا وقت آ گیا۔ میاں نواز شریف نے بالآخر 23 مارچ کو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پی کر اور اس کا افتتاح کر کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اس کے دروازے ایک بار پھر کھول دئیے۔

اے حمید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "میں اور اشفاق احمد دیر تک ٹی ہاوس میں بیٹھے گزرے زمانے کو، گزرے زمانے کے چہروں کو یاد کرتے رہے، کیسے کیسے لوگ تھے، کیسے کیسے چمکیلے چہرے تھے جو ادب کے آسمان پر ستارے بن کر چمکے اور پھر اپنے پیچھے روشنی کی لکیریں چھوڑ کر نظروں سے غائب ہو گئے۔ کبھی ٹی ہاوس کے کاؤنٹر پر رکھے گلدان میں نرگس اور گلاب کے پھول مہکا کرتے تھے۔ شیشوں میں سے ان پر سردیوں کی دھوپ پڑتی تو وہ بجلی کے بلب کی طرح روشن ہو جاتے۔ اب کاؤنٹر پر نہ گلدان ہے نہ گلدان کے پھول ہیں۔ صرف میں اور اشفاق احمد میز کے آمنے سامنے سر کو جھکاۓ بیٹھے پرانے دنوں کو یاد کر رہے ہیں۔ ایک دن آۓ گا کہ اس میز پر کوئی اور بیٹھا ہمیں یاد کر رہا ہو گا " ـــــــــــــــــــ

حیف صد حیف اے حمید تو پاک ٹی ہاؤس میں محفل جمانے کی حسرت لیے اگلے جہان روانہ ہو گئے لیکن ہم لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

چین کے علاقے تبت میں واقع 21778 فٹ بلند کوہ کیلاش چار مذاہب ہندو مت ، بدھ مت ، جین مت اور بون مذہب کے لیے مقدس مانا جانے...
31/03/2024

چین کے علاقے تبت میں واقع 21778 فٹ بلند کوہ کیلاش چار مذاہب ہندو مت ، بدھ مت ، جین مت اور بون مذہب کے لیے مقدس مانا جانے والا پہاڑ ہے اس پہاڑ کی برف سے برصغیر میں بہنے والے تین بڑے دریاوں برہم پترا ، سندھ اور ستلج کا آغاز ہوتا ہے
اس پہاڑ کے ساتھ بہت ساری پراسرار کہانیاں جڑی ہیں بہت زیادہ بلند نہ ہونے کے باوجود یہ آج تک سر نہیں کیا جاسکا جسکی وجہ کبھی سمت کا بدل جانا اور کبھی اچانک موسمی تبدیلیاں ہیں
روایات کے مطابق اس کے ارد گرد ایک کلومیٹر کے علاقے میں وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے چوبیس گھنٹے کے اندر آپکے بال اور ناخن اتنے بڑھ جاتے ہیں جتنے عام حالات میں ایک ماہ میں اس پہاڑ کے نزدیک جانے سے کبھی سریلی اور کبھی ڈراونی آوازیں سنائی دیتی ہیں کہیں لوگوں نے پہاڑ سے نیلی روشنی نکلتے دیکھنے کا دعوی' کیا ہے
ہندو مت کے پیروکاروں کا ماننا ہیکہ اس پہاڑ کی چوٹی پر " شیوا" بیٹھے " عبادت" کر رہے ہیں
جبکہ بدھ مت کے پیروکاروں کا کہنا ہیکہ یہ " خوشی کے گوتم بدھ" کا گھر ہے
ہر سال بڑی تعداد میں لوگ اس پہاڑ تک کا سفر کرتے ہیں اور اکثر ننگے پاوں اسکے گرد چکر لگاتے ہیں یہ روایت ہزاروں سالوں سے قائم ہے اسکا ایک چکر قریب باون کلومیٹر پر محیط ہے



22/12/2023

Mayphang Festival 2023

📍Skardu Valley 😍

"بلتستان کی قدیم روایتی تہوار "مے فنگ" میں روشنی کی لہریں اور مشعلوں کا جشن، جس کے ساتھ ناری، قمقم اور موسیقی بھری رات گزرتی ہے، بہت خاص ہے۔ 21 دسمبر کو شروع ہونے والے "مے فنگ تہوار" میں لکڑی کی مشعلیں، روایتی موسیقی اور رقص کی لہریں، اور مے فنگ تقریب کے بازاروں میں چمکتی ہوئی روایتی پکوانیں شامل ہیں۔ایک قدیم روایت کے مطابق، یہ تہوار ایک بادشاہ کی موت کا جشن کے طور پر منایا جاتا ہے، جو دہائیوں سے گزر کر بھی اس کا جاودانی ہوا ہے۔ بلتستان کے سرد موسم میں اس تہوار کا جشن منانا ایک خاص تجربہ ہے، جہاں درجہ حرارت منفی 15 ڈگری سینٹی گریڈ تک گر سکتا ہے اور لوگ مشعلوں کی روشنی میں جوش و جذبہ بھرتے ہیں۔مے فنگ کی رات میں بچے اور جوانان لکڑی کی مشعلیں ہاتھوں میں لہراتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر چراغاں بجھاتے ہیں، جو گاڑیوں کے پرانے ٹاٸرز کو آگ لگاتے ہیں اور ان ٹاٸرز کی شعلوں نے پورے علاقے کو روشن کردیتا ہے۔ مے فنگ کی مناسبت سے سرزمین بھر میں گھر گھر دعوتوں کا رواج ہے، جہاں لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ننیال میں مے فنگ کے جشن میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں اور علاقے کے مساجد میں عبادت گزاروں کو مختلف لذیذ پکوانات فراہم کئے جاتے ہیں۔"

فورٹ منرو فورٹ منرو جسے تمن لغاری بھی کہا جاتا ہے ، ایک پہاڑی اسٹیشن ہے جو ڈیرہ غازی خان میں سطح سمندر سے 6،470 فٹ (1،97...
21/11/2023

فورٹ منرو

فورٹ منرو جسے تمن لغاری بھی کہا جاتا ہے ، ایک پہاڑی اسٹیشن ہے جو ڈیرہ غازی خان میں سطح سمندر سے 6،470 فٹ (1،970 میٹر) کی بلندی پر واقع ہے۔ گرمی کے دوران یہ بہت سارے لوگوں کو مختصر قیام کے لئے اپنی جانب راغب کرتا ہے اسے جنوبی پنجاب کا مری بھی کہتے ہیں جس کا موسم بے حد سہانا ہوتا ہے۔ یہ پنجاب میں ڈیرہ غازیخان شہر سے 85 کلو میٹر کے فاصلے پر کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں ملتان سے تقریبا 185 کلومیٹر دور ہے۔ فورٹ منرو کے لوگ خانہ بدوش ہیں ، خاص کر لغاری قبیلے کےہیں
فورٹ منرو کوئٹہ روڈ پر ڈیرہ غازیخان شہر سے 85 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ کوہ سلیمان پہاڑی سلسلے میں جنوبی پنجاب کا واحد پہاڑی اسٹیشن ہے۔ اس کی اونچائی 1800 میٹر ہے ا۔ فورٹ منرو یا تو لورالائی بلوچستان سے یا ملتان سے پہنچا جاسکتا ہے۔ پنجاب سے یہ پہاڑی سلسلہ رکنی کے قریب شروع ہوتا ہے ، جو بلوچستان اور پنجاب کے درمیان ایک سرحدی چوکی ہے
اس شہر کی بنیاد 19 ویں صدی کے آخر میں رابرٹ گروس سینڈیمین نے رکھی تھی اور اس نے کرنل اے اے منرو کے نام سے فورٹ منرو کا نام دیا تھا جو ڈیرہ جات ڈویژن کے کمشنر تھے۔
فورٹ منرو کوہ سلیمان سلسلے کا ایک حصہ ہے۔ یہ سلسلہ وسطی پاکستان میں واقع ہے ، یہ گومل پاس سے تقریبا 280 میل (450 کلومیٹر) جنوب میں جیکب آباد کے شمال میں پھیلی ہوئی ہے ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کو بلوچستان سے الگ کرتی ہے۔ اس کی اونچائی آہستہ آہستہ جنوب کی طرف کم ہوتی ہے ، اور اس کی اوسط چوٹی جو سب سے اونچی جڑواں چوٹی
(گومل پاس سے 30 میل کی دوری)
ہے جسے تخت سلیمان یا سلیمان کا عرش کہا جاتا ہے ، جو شاہ سلیمان کے دورہ پاکستان سے مشہور ہے۔ چوٹیوں کی اونچائی ، 18،481 فٹ (5،633 میٹر) بلندی پر واقع ہے ، ایک مسلم زیارت (مزار) کا مقام ہے جہاں ہر سال کئی عازمین زیارت کرتے ہیں۔ اس سلسلے کا مشرقی حصہ دریائے سندھ کی طرف بہت تیزی سے ڈوبتا ہے ، لیکن مغرب میں یہ حد آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے۔ شمال میں جونیپر پائن بہت زیادہ ہیں اور وسط میں زیتون ، لیکن جنوب میں پودوں کی کمی ہے۔ گھاٹ ، زاؤ ، چہار خیل دھنہ ، اور سخی سرور شمال میں اصل پاس ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے جنوب میں ، فورٹ منرو کا پہاڑی علاقہ واقع ہے۔
یہ ہر سال متعدد سیاہ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں ، خاص طور پر وہ لوگ جو جنوبی پنجاب کے گرم میدانی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ ایک یا دو دن تک ہلکے اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہوں۔ حکومت پنجاب نے سیاحت کا ایک اہم ٹھکانہ بنانے کے لئے اس پہاڑی اسٹیشن پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے جولائی 2015 میں 2 ارب روپے سے زائد جاری کیے تھے۔ فورٹ منرو اور کھر کے مابین چیرلفٹ اور کیبل کار کی سہولت کی تنصیب ، کے اور صاف پانی کی فراہمی ، گندے پانی کی صفائی اور نکاسی آب کی اسکیم اور 6 چھ نئی کارپٹ سڑکوں اور کیڈٹ کالج کی تعمیر پر خرچ کیئے گئے
یہاں موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے۔

لندن۔  06 نومبر 2023: لندن میں سیاحت کے سب سے بڑے عالمی فیسٹیول ورلڈ ٹریول مارکیٹ سیاحتی نمائش کا اغاز ہو گیا ہے ورلڈ ٹر...
07/11/2023

لندن۔ 06 نومبر 2023: لندن میں سیاحت کے سب سے بڑے عالمی فیسٹیول ورلڈ ٹریول مارکیٹ سیاحتی نمائش کا اغاز ہو گیا ہے ورلڈ ٹریول مارکیٹ (WTM) میں پاکستان پویلین کا افتتاح وزیر مملکت برائے سیاحت اور امور نوجوانان کیلیے وزیراعظم پاکستان کے خصوصی مشیر وصی شاہ نے برطانیہ کے لیے لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کے ہمراہ کیا۔

وصی شاہ کی قیادت میں پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PTDC)، صوبائی محکمہ سیاحت سندھ، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور پی آئی اے دنیا کے سب سے بڑے ٹریول شو میں شرکت کر رہے ہیں ٹریول مارکیٹ کے انتظامات کو سراہتے ہوئے وصی شاہ نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے سیاحتی مقامات سے متعلق نمائش WTM جیسے شوز سے آنے والے دنوں میں مزید سیاحوں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کو دنیا کے خوبصورت ترین مناظر اور ثقافتی تنوع سے نوازا گیا ہے جس سے پاکستان سیاحتی اعتبار سے بہترین ملک ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے پاکستان میں سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ پر یقین رکھتی ہے۔اگر انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے اور دنیا میں اختیار کی جانے والی نتیجہ خیز کامیاب حکمت عملی کو اپنایا جائے تو سیاحت پاکستان کے لیے زرمبادلہ کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے وزیرسیاحت نے اس سلسلے میں شرکاء سے تجاویز بھی حاصل کیں اور انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے سیاحت کی صنعت میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ورلڈ ٹریول مارٹ میں ملکی سیاحت کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے پاکستان پویلین نے بڑی تعداد میں سیاحوں، بین الاقوامی ٹریول کمپنیوں کے نمائندوں اور سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کی توجہ حاصل کی ۔ورلڈ ٹریول مارکیٹ میں پاکستان پویلین ان لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی تھا جو اس سے قبل سیاحت کے لیے پاکستان آچکے ہیں اور پاکستان کے دیگر سیاحتی مقامات دیکھنے کے لیے دوبارہ پاکستان انے میں دلچسپی رکھتے ہیں ڈبلیو ٹی ایم لندن دنیا کے سب سے بڑے ٹریول شوز میں سے ایک ہے اور سیاحوں کو دنیا کے 5,000 سے زیادہ بڑے مقامات اور برانڈز سے متعارف کراتا ہے۔

وزیر مملکت برائے سیاحت اور وزیراعظم پاکستان کےمعاون خصوصی امور نوجوانان وصی شاہ نے لندن میں ورلڈ ٹریول مارکیٹ میں پاکستان کی شرکت کےلئے ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آ ف پاکستان کی معاونت پر پاکستان ہائی کمیشن کے کردار کو سراہا اس موقع پر بتایاگیا کہ لندن ایکسل میں شروع ہونے والا وورلڈ ٹریول مارکیٹ سیاحتی نمائش 6 نومبر سے 8 نومبر 2023 تک جاری رہے گی۔


Address

Lahore

Telephone

+923238436740

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Explore Pakistan With Javed posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category