Explore Pakistan With Javed

Explore Pakistan With Javed Trekking Hiking Relaxing Trips
(3)

فورٹ منرو فورٹ منرو جسے تمن لغاری بھی کہا جاتا ہے ، ایک پہاڑی اسٹیشن ہے جو ڈیرہ غازی خان میں سطح سمندر سے 6،470 فٹ (1،97...
21/11/2023

فورٹ منرو

فورٹ منرو جسے تمن لغاری بھی کہا جاتا ہے ، ایک پہاڑی اسٹیشن ہے جو ڈیرہ غازی خان میں سطح سمندر سے 6،470 فٹ (1،970 میٹر) کی بلندی پر واقع ہے۔ گرمی کے دوران یہ بہت سارے لوگوں کو مختصر قیام کے لئے اپنی جانب راغب کرتا ہے اسے جنوبی پنجاب کا مری بھی کہتے ہیں جس کا موسم بے حد سہانا ہوتا ہے۔ یہ پنجاب میں ڈیرہ غازیخان شہر سے 85 کلو میٹر کے فاصلے پر کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں ملتان سے تقریبا 185 کلومیٹر دور ہے۔ فورٹ منرو کے لوگ خانہ بدوش ہیں ، خاص کر لغاری قبیلے کےہیں
فورٹ منرو کوئٹہ روڈ پر ڈیرہ غازیخان شہر سے 85 کلومیٹر دور واقع ہے۔ یہ کوہ سلیمان پہاڑی سلسلے میں جنوبی پنجاب کا واحد پہاڑی اسٹیشن ہے۔ اس کی اونچائی 1800 میٹر ہے ا۔ فورٹ منرو یا تو لورالائی بلوچستان سے یا ملتان سے پہنچا جاسکتا ہے۔ پنجاب سے یہ پہاڑی سلسلہ رکنی کے قریب شروع ہوتا ہے ، جو بلوچستان اور پنجاب کے درمیان ایک سرحدی چوکی ہے
اس شہر کی بنیاد 19 ویں صدی کے آخر میں رابرٹ گروس سینڈیمین نے رکھی تھی اور اس نے کرنل اے اے منرو کے نام سے فورٹ منرو کا نام دیا تھا جو ڈیرہ جات ڈویژن کے کمشنر تھے۔
فورٹ منرو کوہ سلیمان سلسلے کا ایک حصہ ہے۔ یہ سلسلہ وسطی پاکستان میں واقع ہے ، یہ گومل پاس سے تقریبا 280 میل (450 کلومیٹر) جنوب میں جیکب آباد کے شمال میں پھیلی ہوئی ہے ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کو بلوچستان سے الگ کرتی ہے۔ اس کی اونچائی آہستہ آہستہ جنوب کی طرف کم ہوتی ہے ، اور اس کی اوسط چوٹی جو سب سے اونچی جڑواں چوٹی
(گومل پاس سے 30 میل کی دوری)
ہے جسے تخت سلیمان یا سلیمان کا عرش کہا جاتا ہے ، جو شاہ سلیمان کے دورہ پاکستان سے مشہور ہے۔ چوٹیوں کی اونچائی ، 18،481 فٹ (5،633 میٹر) بلندی پر واقع ہے ، ایک مسلم زیارت (مزار) کا مقام ہے جہاں ہر سال کئی عازمین زیارت کرتے ہیں۔ اس سلسلے کا مشرقی حصہ دریائے سندھ کی طرف بہت تیزی سے ڈوبتا ہے ، لیکن مغرب میں یہ حد آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے۔ شمال میں جونیپر پائن بہت زیادہ ہیں اور وسط میں زیتون ، لیکن جنوب میں پودوں کی کمی ہے۔ گھاٹ ، زاؤ ، چہار خیل دھنہ ، اور سخی سرور شمال میں اصل پاس ہیں۔ ڈیرہ غازی خان کے جنوب میں ، فورٹ منرو کا پہاڑی علاقہ واقع ہے۔
یہ ہر سال متعدد سیاہ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں ، خاص طور پر وہ لوگ جو جنوبی پنجاب کے گرم میدانی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ ایک یا دو دن تک ہلکے اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہوں۔ حکومت پنجاب نے سیاحت کا ایک اہم ٹھکانہ بنانے کے لئے اس پہاڑی اسٹیشن پر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے جولائی 2015 میں 2 ارب روپے سے زائد جاری کیے تھے۔ فورٹ منرو اور کھر کے مابین چیرلفٹ اور کیبل کار کی سہولت کی تنصیب ، کے اور صاف پانی کی فراہمی ، گندے پانی کی صفائی اور نکاسی آب کی اسکیم اور 6 چھ نئی کارپٹ سڑکوں اور کیڈٹ کالج کی تعمیر پر خرچ کیئے گئے
یہاں موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے۔

لندن۔  06 نومبر 2023: لندن میں سیاحت کے سب سے بڑے عالمی فیسٹیول ورلڈ ٹریول مارکیٹ سیاحتی نمائش کا اغاز ہو گیا ہے ورلڈ ٹر...
07/11/2023

لندن۔ 06 نومبر 2023: لندن میں سیاحت کے سب سے بڑے عالمی فیسٹیول ورلڈ ٹریول مارکیٹ سیاحتی نمائش کا اغاز ہو گیا ہے ورلڈ ٹریول مارکیٹ (WTM) میں پاکستان پویلین کا افتتاح وزیر مملکت برائے سیاحت اور امور نوجوانان کیلیے وزیراعظم پاکستان کے خصوصی مشیر وصی شاہ نے برطانیہ کے لیے لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل کے ہمراہ کیا۔

وصی شاہ کی قیادت میں پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن (PTDC)، صوبائی محکمہ سیاحت سندھ، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور پی آئی اے دنیا کے سب سے بڑے ٹریول شو میں شرکت کر رہے ہیں ٹریول مارکیٹ کے انتظامات کو سراہتے ہوئے وصی شاہ نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے سیاحتی مقامات سے متعلق نمائش WTM جیسے شوز سے آنے والے دنوں میں مزید سیاحوں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کو دنیا کے خوبصورت ترین مناظر اور ثقافتی تنوع سے نوازا گیا ہے جس سے پاکستان سیاحتی اعتبار سے بہترین ملک ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے پاکستان میں سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ پر یقین رکھتی ہے۔اگر انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے اور دنیا میں اختیار کی جانے والی نتیجہ خیز کامیاب حکمت عملی کو اپنایا جائے تو سیاحت پاکستان کے لیے زرمبادلہ کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتی ہے وزیرسیاحت نے اس سلسلے میں شرکاء سے تجاویز بھی حاصل کیں اور انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے سیاحت کی صنعت میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ورلڈ ٹریول مارٹ میں ملکی سیاحت کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے پاکستان پویلین نے بڑی تعداد میں سیاحوں، بین الاقوامی ٹریول کمپنیوں کے نمائندوں اور سوشل میڈیا پر اثر انداز ہونے والوں کی توجہ حاصل کی ۔ورلڈ ٹریول مارکیٹ میں پاکستان پویلین ان لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی تھا جو اس سے قبل سیاحت کے لیے پاکستان آچکے ہیں اور پاکستان کے دیگر سیاحتی مقامات دیکھنے کے لیے دوبارہ پاکستان انے میں دلچسپی رکھتے ہیں ڈبلیو ٹی ایم لندن دنیا کے سب سے بڑے ٹریول شوز میں سے ایک ہے اور سیاحوں کو دنیا کے 5,000 سے زیادہ بڑے مقامات اور برانڈز سے متعارف کراتا ہے۔

وزیر مملکت برائے سیاحت اور وزیراعظم پاکستان کےمعاون خصوصی امور نوجوانان وصی شاہ نے لندن میں ورلڈ ٹریول مارکیٹ میں پاکستان کی شرکت کےلئے ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن آ ف پاکستان کی معاونت پر پاکستان ہائی کمیشن کے کردار کو سراہا اس موقع پر بتایاگیا کہ لندن ایکسل میں شروع ہونے والا وورلڈ ٹریول مارکیٹ سیاحتی نمائش 6 نومبر سے 8 نومبر 2023 تک جاری رہے گی۔


تذکرہ حسن جہاں کا ہو تو روئے زمیں پر کشمیر اور پھر کشمیر میں وادی نیلم کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ خوبصورت وادیوں کے ساتھ ساتھ...
30/07/2023

تذکرہ حسن جہاں کا ہو تو روئے زمیں پر کشمیر اور پھر کشمیر میں وادی نیلم کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ خوبصورت وادیوں کے ساتھ ساتھ بلندیوں پر اٹھتے پہاڑ اس کے حسن کو ایک انوکھا رنگ دیتے ہیں۔ شمال کے پہاڑ روز ازل سے ہی انسانوں کو اپنی طرف کھینچتے رہے ہیں، کسی نے انہیں وحشت ناک پایا تو ڈر کر ان کی پوجا شروع کر دی اور کسی نے ان کے اندر ممتا کا پیار تلاش کر دیا۔
یہ پہاڑ بیک وقت دلکش و دلنشین بھی ہیں اور وحشت زدہ کر دینے والے بھی، انہی میں ایک نام بابون ویلی کا بھی ہے. اگر آپ نے قدرت کے حسین لمحوں کا نظارہ کرنا ہے تو ایک بار بابون ضرور وزٹ کریں،
12731 فٹ بلندی پر واقع بابون ویلی کو اللہ پاک نے بے پناہ حسن سے نوازا ہے جسے دیکھتے ہی انسان کے منہ سے بے ساختہ سبحان اللہ نکلتا ہے.
نیلم ویلی میں داخل ہونے کے بعد بابون ویلی کی طرف دو راستے جاتے ہیں ایک جاگراں ویلی کی جانب سے جو کہ قدرے حال بہتر ہے جبکہ دوسرا کیرن کی طرف سے جبڑی بہک سے ہوتے ہوئے جاتا ہے۔
کنڈل شاہی سے جاگراں (شال) تک پکی سڑک ہے، آپ کسی بھی گاڑی کے ساتھ شال تک جا سکتے ہیں اور 45 منٹس میں آپ شال تک پہنچ سکتے ہیں. شال سے آگے 4*4 روڈ ہے جو کہ رتی گلی روڈ سے کافی حد تک بہتر ہے مگر 2 سے 3 جگہیں ہیں جہاں پر بارش کی صورت میں گاڑی سلپ کرتی ہے باقی اگر موسم اچھا ہو تو راستے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا.
شال سے بابون ٹاپ تک 1.30 گھنٹہ لگتا ہے اور بابون ٹاپ پہنچتے ہی آپ قدرت کے دلکش مناظر دیکھنے میں مگن ہو جاتے ہیں.
یاد رہے بابون ویلی کافی اونچائی پر ہونے کی وجہ سے بہت مختصر وقت کے لیے کھلی رہتی ہے، پھر جوں ہی برف پڑتی ہے تو اس کے راستے بند ہو جاتے ہیں. جون، جولائی، اگست اور ستمبر کے مہینے بابون وزٹ کرنے کے لیے بہترین ٹائم ہوتا ہے.
سیزن میں بابون ٹاپ پر 2 سے 3 کیمپنگ سائیٹس موجود ہوتی ہیں، مگر بہتر رائے یہ ہے کہ کنڈل شاہی/کٹن سے صبح سویرے بابون کے لیے نکلیں، دن سارا بابون گزارنے کے بعد رات کو واپس کنڈل شاہی/کٹن آ کر سٹے کیا جائے. کیونکہ وہاں رہائش اور واش رومز وغیرہ کا کوئی پراپر سسٹم نہیں ہوتا ہے اور اچھی خاصی سردی بھی ہوتی ہے.
جاتے ہوئے راستے میں واٹرفالز اور بہت سارے گلیشئرز کا نظارہ دیکھنے کو بھی ملتا ہے۔
#نوٹ
نیلم ویلی میں کسی بھی 4x4 راستے پر سفر کرنے کے لیے لوکل اور ماہر ڈرائیور کا انتخاب انتہائی ضروری ہے، جنت نظیر وادی کشمیر کی سیر کرنے کے لیے ہم سے رابطہ کریں اور کسی بھی معلومات کے لیے واٹس ایپ نمبرز پر رابطہ کریں


0323-8436740

سکردو آنے والے سیاح یہ تحریر  ضرور پڑھ لیں_❤سکردو گلگت بلتستان کے ایک شہر کا نام ہے لیکن مقامی سیاحتی انڈسٹری میں سکردو ...
21/07/2023

سکردو آنے والے سیاح یہ تحریر ضرور پڑھ لیں_❤
سکردو گلگت بلتستان کے ایک شہر کا نام ہے لیکن مقامی سیاحتی انڈسٹری میں سکردو سے مراد بلتستان کے چار ضلعے اور ضلع استور کو شامل کیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان جانے والے سیاح یا تو ہنزہ کا رخ کرتے ہیں یا سکردو کا۔
اسی لئے گلگت بلتستان ٹور کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے :
1: سکردو ٹور
2: ہنزہ ٹور
ہنزہ ٹور جگلوٹ سے شروع ہو کر خنجراب ٹاپ پر ختم ہو جاتا ہے جبکہ سکردو ٹور جگلوٹ سے شروع ہو کر ایک طرف کے ٹو دوسری طرف سیاچن اور تیسری طرف دیوسائی سے ہوتا ہوا منی مرگ پر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر جہاز کے ذریعے سکردو کا سفر کریں تو سکردو شہر سے تمام سیاحتی مقامات تک جانے کے لیئے ہر قسم کی گاڑیاں مل جاتی یے۔ بائی روڈ سکردو کا سفر شاہراہ بابوسر اور قراقرم ہائی کے بعد جگلوٹ سے شروع ہوتا ہے۔ جگلوٹ سے سکردو تک بہترین سڑک بن گئی ہے نئے شاہراہ کا نام جگلوٹ سکردو روڈ سے بدل کر شاہراہ بلتستان رکھ دیا ہے۔۔
استور، گانچھے(وادی خپلو)، کھرمنگ اور شگر جانے کیلے بھی سکردو سے روٹ لے سکتے ہیں۔
سکردو ٹور میں درج ذیل سیاحتی مقامات شامل ہیں۔

1: ضلع سکردو
ضلع سکردو روندو وادی سے شروع ہوتا ہے اور سرمک کے مقام پر ختم ہوجاتا ہے۔
سکردو شہر گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے اس شہر میں گلگت بلتستان کے ہر ضلعے سے بغرض روزگار لوگ آباد ہیں۔ اس شہر میں شیعہ ، نوربخشی ،سنی، اسماعلیلی، اہل حدیث ہر فرقے کے لوگ پر امن زندگی بسر کرتے ہیں۔ سکردو اس پورے علاقے کا تجارتی مرکز بھی ہے۔سکردو میں گلگت بلتستان کا واحد انٹرنیشنل ائیرپورٹ بھی موجود ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن روزانہ پروازیں اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے چلاتی ہے ۔ پچھلے سال سے سیالکوٹ فیصل آباد اور ملتان سے بھی پروازوں کا آغآز ہوچکا ہے۔

ڈسٹرکٹ سکردو کے سیاحتی مقامات

#دیوساٸی نیشنل پارک
(تاریخی قلعہ)
#شنگریلا ریزورٹ
# ژھوق ویلی
#کچورا جھیل اپر لیک
#سکم ژھو گرین لیک لور کچورا
#سدپارہ ڈیم
#چنداہ ویلی
# ستک ویلی روندو
#بلامک روندو
#وادی بشو بشو ویلی
# ننگ ژوھوق آرگینک ویلیج
#کتپناہ لیک اینڈ کولڈ ڈیزرٹ
# بھڈہ راک منٹھل سدپارہ
#میسور راک حسین آباد

2: ضلع گانچھے (وادی خپلو)
ضلع گانچھے کریس سے شروع ہوتا ہے اور سیاچن گلیشئر پر ختم ہوتا ہے ۔ ضلع گانچھے کو وادی خپلو بھی کہا جاتا ہے ۔ ضلع گانچھے بلند ترین پہاڑوں اور گلیشیئرز کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ دنیا کی بلند ترین مہاز جنگ سیاچن اسی ضلع میں واقع ہے اس کے علاوہ قراقرم کے بلند ترین پہاڑوں جیسے کے ٹو، گشہ بروم ، براڈپیک۔ اور مشہ بروم سے کوہ پیما واپسی پر اسی ضلع کی وادی ہوشے کا روٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ ڈسٹرکٹ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔
اس ڈسٹرکٹ کی چند تاریخی اور سیاحتی مقامات درجہ ذیل ہے_
#خپلو فورٹ_
#چقچن مسجد(7 سو سال پرانی مسجد)
#تھوقسی کھر
#ہلدی کونس ویو پوائنٹ
#وادی ہوشے ، کے سکس، کے سیون، مشہ بروم جیسے قراقرم کے اونچے پہاڑوں کی وادی
#سلنگ ریزورٹ
# وادی کندوس گرم چشمہ
#گیاری سیاچن وادی سلترو
#وادی تھلے، تھلے لا
# ننگما وادی کاندے
#کھرفق جھیل
#خانقاہ معلٰی خپلو (ایشیا کی سب سے بڑی خانقاہ)
# کے ٹو ویو پوائنٹ مچلو بروق

3_ضلع شگر
شگر ایک ذرخیز وادی ہے یہ وادی تاریخی مقامات اور بلند ترین پہاڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی k2 بھی اس ڈسٹرکٹ میں واقع ہے اور دنیا میں 8000 اونچاٸی سے اوپر والی 5 پہاڑ بھی اس خطہ میں موجود ہیں_یہ ڈسٹرکٹ سکردو سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے
شگر کے سیاحتی مقامات
#شگر فورٹ
#بلائنڈ لیک
# دنیا کی بلند ترین اور سرد ریگستان سرفہ رنگا کولڈ ڈیزرٹ
#کے ٹو پہاڑ_k2
#:ہشوپی باغ
#خانقاہ معلیٰ 600 سال پرانی مسجد ہیں_
# وادی ارندو
# کنکورڈیا
#گلاب پور رنگاہ
#ژھوقگو آبشار
#گرم چشمہ چھوتوڑن اور بیسل

# وسط قراقرم کے بلند ترین پہاڑ گشہ بروم، براڈ پیک، ٹرنگو ٹاور وغیرہ

4: ضلع کھرمنک
آبشاروں اور صاف و شفاف ندی نالوں کی سرزمین۔
سیاحتی مقامات
# منٹھوکھا واٹر فال
# خموش آبشار
# وادی شیلا
# غندوس لیک
# کارگل بارڈر

5: استور
ضلع استور انتطامی طور پر دیامر ڈویژن میں واقع ہے لیکن استور تک رسائی سکردو سے ہوتا ہے خصوصا جو سیاح بذریعہ جہاز سکردو آتے ہیں ان کے لئیے استور تک رسائی سکردو دیوسائی سے ہوتا ہے ۔ وادی استور کے سیاحتی مقامات درج ذیل ہیں۔
# روپال فیس ننگا پربت
# راما میڈوز
# پرشنگ
# منی مرگ
# ڈومیل جھیل
# راٹو
# شونٹر
اس کے علاوہ بے شمار سیاحتی مقامات موجود ہیں جہاں تک عام سیاحوں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔

08/04/2023

🎊 𝐂𝐞𝐥𝐞𝐛𝐫𝐚𝐭𝐞 𝐘𝐨𝐮𝐫 𝐄𝐈𝐃 𝐢𝐧 𝐍𝐨𝐫𝐭𝐡𝐞𝐫𝐧 𝐀𝐫𝐞𝐚𝐬 🥳

𝐋𝐄𝐓’𝐒 𝐄𝐗𝐏𝐋𝐎𝐑𝐄
Only Adventure Tours is Pleased to Announce Best Trip for you.

𝐂𝐨𝐧𝐭𝐚𝐜𝐭 𝐟𝐨𝐫 𝐁𝐨𝐨𝐤𝐢𝐧𝐠:
0345-4263663 | 0323-8436740
----------------*----------------
𝟑 𝐃𝐚𝐲𝐬 𝐍𝐞𝐞𝐥𝐚𝐦 𝐕𝐚𝐥𝐥𝐞𝐲 (𝐀𝐫𝐚𝐧𝐠 𝐊𝐞𝐥)
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-25 April
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 13,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 32,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/1367719904017588?mibextid=Nif5oz
---*---
𝟑 𝐃𝐚𝐲𝐬 Swat Kalam Malamjaba
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-25 April
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 13,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 32,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/913754346602747?mibextid=Nif5oz
---*---
𝟑 𝐃𝐚𝐲𝐬 Naran kaghan Shogran
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-25 April
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 13,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 32,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/206318692031990?mibextid=Nif5oz
---*---
5 Days Hunza Khunjrab & Naltar
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-27 April |
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 23,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 52,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/3650403681872141?mibextid=Nif5oz
---*---
5 𝐃𝐚𝐲𝐬 Fairy Meadows Nanga Parbat
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-25 April
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 23,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 52,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/175185788694663?mibextid=Nif5oz
---*---
8 Days Hunza & Skardu
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-30 April |
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 33,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 76,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/727913825486424?mibextid=Nif5oz
----------------*----------------
𝐂𝐡𝐞𝐞𝐫𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐇𝐚𝐩𝐩𝐲 𝐒𝐢𝐠𝐡𝐭 𝐒𝐞𝐞𝐢𝐧𝐠
𝐂𝐨𝐧𝐭𝐚𝐜𝐭 𝐟𝐨𝐫 𝐁𝐨𝐨𝐤𝐢𝐧𝐠:
0345-4263663 | 0323-8436740

🎊 𝐂𝐞𝐥𝐞𝐛𝐫𝐚𝐭𝐞 𝐘𝐨𝐮𝐫 𝐄𝐈𝐃 𝐢𝐧 𝐍𝐨𝐫𝐭𝐡𝐞𝐫𝐧 𝐀𝐫𝐞𝐚𝐬 🥳𝐋𝐄𝐓’𝐒 𝐄𝐗𝐏𝐋𝐎𝐑𝐄Only Adventure Tours is Pleased to Announce Best Trip for you.𝐂𝐨𝐧𝐭𝐚...
07/04/2023

🎊 𝐂𝐞𝐥𝐞𝐛𝐫𝐚𝐭𝐞 𝐘𝐨𝐮𝐫 𝐄𝐈𝐃 𝐢𝐧 𝐍𝐨𝐫𝐭𝐡𝐞𝐫𝐧 𝐀𝐫𝐞𝐚𝐬 🥳

𝐋𝐄𝐓’𝐒 𝐄𝐗𝐏𝐋𝐎𝐑𝐄
Only Adventure Tours is Pleased to Announce Best Trip for you.

𝐂𝐨𝐧𝐭𝐚𝐜𝐭 𝐟𝐨𝐫 𝐁𝐨𝐨𝐤𝐢𝐧𝐠:
0323-8436740
----------------*----------------
𝟑 𝐃𝐚𝐲𝐬 𝐍𝐞𝐞𝐥𝐚𝐦 𝐕𝐚𝐥𝐥𝐞𝐲 (𝐀𝐫𝐚𝐧𝐠 𝐊𝐞𝐥)
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-25 April
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 13,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 32,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/1367719904017588?mibextid=Nif5oz
---*---
𝟑 𝐃𝐚𝐲𝐬 Swat Kalam Malamjaba
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-25 April
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 13,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 32,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/913754346602747?mibextid=Nif5oz
---*---
𝟑 𝐃𝐚𝐲𝐬 Naran kaghan Shogran
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-25 April
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 13,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 32,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/206318692031990?mibextid=Nif5oz
---*---
5 Days Hunza Khunjrab & Naltar
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-27 April |
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 23,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 52,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/3650403681872141?mibextid=Nif5oz
---*---
5 𝐃𝐚𝐲𝐬 Fairy Meadows Nanga Parbat
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-25 April
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 23,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 52,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/175185788694663?mibextid=Nif5oz
---*---
8 Days Hunza & Skardu
𝐃𝐞𝐩𝐚𝐫𝐭𝐮𝐫𝐞: 22-30 April |
𝐒𝐭𝐚𝐧𝐝𝐚𝐫𝐝: 33,000 𝐂𝐨𝐮𝐩𝐥𝐞: 76,000
Details 👇
https://m.facebook.com/events/727913825486424?mibextid=Nif5oz
----------------*----------------
𝐂𝐡𝐞𝐞𝐫𝐬 𝐚𝐧𝐝 𝐇𝐚𝐩𝐩𝐲 𝐒𝐢𝐠𝐡𝐭 𝐒𝐞𝐞𝐢𝐧𝐠
𝐂𝐨𝐧𝐭𝐚𝐜𝐭 𝐟𝐨𝐫 𝐁𝐨𝐨𝐤𝐢𝐧𝐠:
0323-8436740

پہاڑوں کا عالمی دن اور پاکستان کل 11 دسمبرکو دنیا بھر میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا...
10/12/2022

پہاڑوں کا عالمی دن اور پاکستان
کل 11 دسمبرکو دنیا بھر میں پہاڑوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے پہاڑوں اور پہاڑوں کے قریب رہنے والی آبادیوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔
پہاڑ دنیا بھر کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل اور نیشنل پارکس کا 56 فیصد حصہ پہاڑوں میں واقع ہے۔
اسی طرح دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب افراد پہاڑوں میں آباد ہیں جبکہ دنیا کی نصف آبادی غذا اور پینے کے صاف پانی کے لیے پہاڑوں کی محتاج ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کا سب سے پہلا اثر پہاڑی علاقوں پر ظاہر ہوتا ہے۔
ایسے موقع پر خشک پہاڑوں کے ارد گرد آبادی مزید گرمی اور بھوک کا شکار ہوجاتی ہے، جبکہ کلائمٹ چینج کے باعث برفانی پہاڑ یعنی گلیشیئرز بہت تیزی سے پگھلنے لگتے ہیں جس سے دریاؤں میں سیلاب کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔
پاکستان کے خوبصورت پہاڑی سلسلے
پاکستان میں 5 ایسی بلند برفانی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی 26 ہزار فٹ سے زائد ہے جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے 2 اور نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی پاکستان میں واقع ہے۔
آئیں پاکستان میں واقع خوبصورت پہاڑی سلسلوں اور پربتوں کی سیر کریں
سلسلہ کوہ ہمالیہ
کوہ ہمالیہ اپنے ذیلی سلسلوں کے ساتھ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ ہے جس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں بشمول نیپال کی ماؤنٹ ایورسٹ موجود ہیں۔
دنیا کی 8 ہزار میٹر سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں اسی پہاڑی سلسلے میں واقع ہیں۔
اس سلسلے کی بلندی کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا کافی ہے کہ اس میں 7 ہزار 2 سو میٹر سے بلند 100 سے زیادہ چوٹیاں ہیں جبکہ اس سے باہر دنیا کی بلند ترین چوٹی کوہ اینڈیز میں واقع اکونکا گوا ہے جس کی بلندی صرف 6 ہزار 9 سو 62 میٹر ہے۔
سلسلہ کوہ قراقرم
سلسلہ کوہ قراقرم پاکستان، چین اور بھارت کے سرحدی علاقوں میں واقع ہے۔ یہ دنیا کے چند بڑے پہاڑی سلسلوں میں شامل ہے۔ قراقرم ترک زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب کالی بھربھری مٹی ہے۔
کے ٹو
کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے جس کی لمبائی 8 ہزار 6 سو 11 میٹر ہے۔ بے شمار ناکام کوششوں اور مہمات کے بعد سنہ 1954 میں اس پہاڑ کو سر کرنے کی اطالوی مہم بالآخر کامیاب ہوئی۔
نانگا پربت
نانگا پربت دنیا کی نویں اور پاکستان کی دوسری سب سے بلند چوٹی ہے۔ اس کی اونچائی 8 ہزار 1 سو 25 میٹر ہے۔ اسے دنیا کا قاتل پہاڑ بھی کہا جاتا ہے۔
اس کو سر کرنے میں سب سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ نانگا پربت کو سب سے پہلے ایک جرمن آسٹرین ہرمن بہل نے 1953 میں سر کیا۔
سلسلہ کوہ ہندوکش
سلسلہ کوہ ہندوکش شمالی پاکستان کے ضلع چترال اور افغانستان کا اہم پہاڑی سلسلہ ہے۔ ہندوکش کی سب سے اونچی چوٹی ترچ میر چترال پاکستان میں ہے۔ اس کی بلندی 7 ہزار 7 سو 8 میٹر ہے۔
کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ
صوبہ بلوچستان اور سندھ کی سرحد پر واقع کیر تھر کا پہاڑی سلسلہ حسین قدرتی مناظر کا مجموعہ اور نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔
کارونجھر کے پہاڑ
صوبہ سندھ کے صحرائے تھر میں واقع کارونجھر کے پہاڑ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

پاکستان کے شہروں کے ناموں کے پیچھے چھپے حقائق👈 *اسلام آباد:*1959ء میں مرکزی دارالحکومت کا علاقہ قرار پایا۔ اس کا نام مذہ...
03/12/2022

پاکستان کے شہروں کے ناموں کے پیچھے چھپے حقائق

👈 *اسلام آباد:*
1959ء میں مرکزی دارالحکومت کا علاقہ قرار پایا۔ اس کا نام مذہب اسلام کے نام پر اسلام آباد رکھا گیا۔

👈 *راولپنڈی:*
یہ شہر راول قوم کا گھر تھا۔ چودھری جھنڈے خان راول نے پندرہویں صدی میں باقاعدہ اس کی بنیاد رکھی۔

👈 *کراچی:*
تقریباً 2200 سال پہلے یہ ماہی گیروں کی بستی تھی۔ کلاچو نامی بلوچ کے نام پر اس کا نام کلاچی پڑگیا۔ پھر آہستہ آہستہ کراچی بن گیا۔ 1925ءمیں اسے شہر کی حیثیت دی گئی۔ 1947ءسے 1959ءتک یہ پاکستان کا دارالحکومت رہا۔

👈 *لاہور:*
ایک نظریےکے مطابق ہندوﺅں کے دیوتا راما کے بیٹے لاوا کے بعد لاہور نام پڑا. لاوا کو لوہ سے پکارا جاتا تھا اور لوہ (لاوا) کیلئے تعمیر کیا جانیوالا قلعہ ’لوہ، آور‘ سے مشہور ہوا۔ جس کا واضح معنی ’لوہ کا قلعہ‘ تھا۔ اسی طرح صدیاں گزرتی گئیں اور پھر ’لوہ آور‘ لفظ بالکل اسی طرح لاہور میں بدل گیا جس طرح سیوستان سبی اور شالکوٹ، کوٹیا اور پھر کوئٹہ میں بدل گیا۔

اسی طرح ایک اور نظریئے کے مطابق دو بھائی لاہور اور قاصو دو مہاجر بھائی تھے جو اس سرزمین پرآئے جسے لوگ آج لاہور کے نام سے جانتے ہیں. ایک بھائی قاصو نے پھر قصور آباد کیا جس کی وجہ سے اس کا نام بھی قصور پڑا جبکہ دوسرے بھائی نے اندرون شہر سے تین میل دور اچھرہ لااور کو اپنا مسکن بنایا اور بعد میں اسی لاہو کی وجہ سے اس شہر کا نام لاہور پڑ گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ اچھرہ کی حدود میں کئی ہندﺅوں کی قبریں بھی ملیں۔

👈 *حیدر آباد:*
اس کا پرانا نام نیرون کوٹ تھا۔ کلہوڑوں نے اسے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کے نام سے منسوب کرکے اس کا نام حیدر آباد رکھ دیا۔ اس کی بنیاد غلام کلہوڑا نے 1768ءمیں رکھی۔

👈 *پشاور:*
پیشہ ور لوگوں کی نسبت سے اس کا نام پشاور پڑگیا۔ ایک اور روایت کے مطابق محمود غزنوی نے اسے یہ نام دیا۔

👈 *کوئٹہ:*
لفظ کوئٹہ، کواٹا سے بنا ہے۔ جس کے معنی قلعے کے ہیں۔ بگڑتے بگڑتے یہ کواٹا سے کوئٹہ بن گیا۔

👈 *ٹوبہ ٹیک سنگھ:*
اس شہر کا نام ایک سکھ "ٹیکو سنگھ" کے نام پہ ہے "ٹوبہ" تالاب کو کہتے ہیں یہ درویش صفت سکھ ٹیکو سنگھ شہر کے ریلوے اسٹیشن کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھا رہتا تھا اور ٹوبہ یعنی تالاب سے پانی بھر کر اپنے پاس رکھتا تھا اور اسٹیشن آنے والے مسافروں کو پانی پلایا کرتا تھا سعادت حسن منٹو کا شہرہ آفاق افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ" بھی اسی شہر سے منسوب ہے۔

👈 *سرگودھا:*
یہ سر اور گودھا سے مل کر بنا ہے۔ ہندی میں سر، تالاب کو کہتے ہیں، گودھا ایک فقیر کا نام تھا جو تالاب کے کنارے رہتا تھا۔ اسی لیے اس کا نام گودھے والا سر بن گیا۔ بعد میں سرگودھا کہلایا۔ 1930ءمیں باقاعدہ آباد ہوا۔

👈 *بہاولپور:*
نواب بہاول خان کا آباد کردہ شہر جو انہی کے نام پر بہاولپور کہلایا۔ مدت تک یہ ریاست بہاولپور کا صدر مقام رہا۔ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والی یہ پہلی رہاست تھی۔ ون یونٹ کے قیام تک یہاں عباسی خاندان کی حکومت تھی۔

👈 *ملتان:*
کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی تاریخ 44 ہزار سال قدیم ہے۔ البیرونی کے مطابق اسے ہزاروں سال پہلے آخری کرت سگیا کے زمانے میں آباد کیا گیا۔ اس کا ابتدائی نام ”کیساپور“ بتایا جاتا ہے۔

👈 *فیصل آباد:*
اسے ایک انگریز سر جیمزلائل (گورنرپنجاب) نے آباد کیا۔ اس کے نام پر اس شہر کا نام لائل پور تھا۔ بعدازاں سعودی فرمانروا شاہ فیصل شہید کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔

👈 *رحیم یار خاں:*
بہاولپور کے عباسیہ خاندان کے ایک فرد نواب رحیم یار خاں عباسی کے نام پر یہ شہر آباد کیا گیا۔

👈 *عبدالحکیم:*
جنوبی پنجاب کی ایک روحانی بزرگ ہستی کے نام پر یہ قصبہ آباد ہوا۔ جن کا مزار اسی قصبے میں ہے۔

👈 *ساہیوال:*
یہ شہر ساہی قوم کا مسکن تھا۔ اسی لیے ساہی وال کہلایا۔ انگریز دور میں پنجاب کے انگریز گورنر منٹگمری کے نام پر ”منٹگمری“ کہلایا۔ نومبر 1966ءصدر ایوب خاں نے عوام کے مطالبے پر اس شہر کا پرانا نام یعنی ساہیوال بحال کردیا۔

👈 *سیالکوٹ:*
22 ہزار قبل مسیح میں راجہ سلکوٹ نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ برطانوی عہد میں اس کا نام سیالکوٹ رکھا گیا۔

👈 *گوجرانوالہ:*
ایک جاٹ سانہی خاں نے اسے 1365ءمیں آباد کیا اور اس کا نام ”خان پور“ رکھا۔ بعدازاں امرتسر سے آ کر یہاں آباد ہونے والے گوجروں نے اس کا نام بدل کر گوجرانوالہ رکھ دیا۔

👈 *شیخوپورہ:*
مغل حکمران نورالدین سلیم جہانگیر کے حوالے سے آباد کیا جانے والا شہر۔ اکبر اپنے چہیتے بیٹے کو پیار سے ”شیخو“ کہہ کر پکارتا تھا اور اسی کے نام سے شیخوپورہ کہلایا۔

👈 *ہڑپہ:*
یہ دنیا کے قدیم ترین شہر کا اعزاز رکھنے والا شہر ہے۔ ہڑپہ، ساہیوال سے 12 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ موہنجوداڑو کا ہم عصر شہر ہے۔ جو 5 ہزار سال قبل اچانک ختم ہوگیا۔ رگِ وید کے قدیم منتروں میں اس کا نام ”ہری روپا“ لکھا گیا ہے۔ زمانے کے چال نے ”ہری روپا“ کو ہڑپہ بنا دیا۔

👈 *ٹیکسلا:*
گندھارا تہذیب کا مرکز۔ اس کا شمار بھی دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ راولپنڈی سے 22 میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ 326 قبل مسیح میں یہاں سکندرِاعظم کا قبضہ ہوا۔

👈 *بہاولنگر:*
ماضی میں ریاست بہاولپور کا ایک ضلع تھا۔ نواب سر صادق محمد خاں عباسی خامس "پنجم" کے مورثِ اعلیٰ کے نام پر بہاول نگر نام رکھا گیا۔

👈 *مظفر گڑھ:*
والئی ملتان نواب مظفرخاں کا آباد کردہ شہر۔ 1880ءتک اس کا نام ”خان گڑھ“ رہا۔ انگریز حکومت نے اسے مظفرگڑھ کا نام دیا۔

👈 *میانوالی:*
ایک صوفی بزرگ میاں علی کے نام سے موسوم شہر ”میانوالی“ سولہویں صدی میں آباد کیا گیا تھا۔

👈 *ڈیرہ غازی خان:*
پاکستان کا یہ شہر اس حوالے سے خصوصیت کا حامل ہے کہ اس کی سرحدیں چاروں صوبوں سے ملتی ہیں۔

👈 *جھنگ:*
یہ شہر کبھی چند جھونپڑیوں پر مشتمل تھا۔ اس شہر کی ابتدا صدیوں پہلے راجا سرجا سیال نے رکھی تھی اور یوں یہ علاقہ ”جھگی سیال“ کہلایا۔ جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جھنگ سیال بن گیا اور پھر صرف جھنگ رہ گیا۔

👈 *بنوں*.
بنوں کا پرانا ایڈورڈ آباد تھا ۔ایڈورڈاباد میں ایک عورت تھی۔جو بہت مشہور تھی۔اس کا نام بنو تھا ۔جو اس شہر کےنام سے مشہور ہوا

واں بچھراں ۔میانوالیتقریباً 550 سال پرانی باٶلی(پانی کا کنواں) واں مقامی زبان میں کنویں کو کہتے ہیں اور بچھراں یہاں کی آ...
03/11/2022

واں بچھراں ۔میانوالی
تقریباً 550 سال پرانی باٶلی(پانی کا کنواں) واں مقامی زبان میں کنویں کو کہتے ہیں اور بچھراں یہاں کی آباد قوم ہے جو باٶلی بننے کے بعد ہی یہاں آکے آباد ہوٸی یہ باٶلی انتہاٸی بری حالت میں تھی جسے مقامی لوگوں کی غفلت نے انتہاٸی خراب کر رکھا تھا
لیکن کچھ عرصہ قبل یہاں کی مقامی قیادت اور آثار قدیمہ کی دلچسپی سے اسے اپنی اصلی اور اچھی حالت میں واپس لایا جانے کا کام شروع ہے
شیرشاہ سوری کا تعمیر کردہ یہ شاہکار بہت بہتر حالت میں تھا بس کچھ غفلت اور عدم توجہ اسے بگاڑے ہوۓ تھی اس کنویں کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ترتیب سے سیڑھیاں بنائی گئیں۔ سیڑھیاں بناتے وقت اس بات کا خاص طور خیال رکھا گیا کہ کنویں کے تازہ پانی سے صرف انسان ہی نہیں بلکہ ہرقسم کے جانور یہاں تک کہ ھاتھی بھی سیڑھیوں کے ذریعے کنویں کے پانی کی تہہ پہنچ کر پانی پی سکیں۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس طرح کی باؤلیاں موجود ھیں۔مگر واں بچھراں کی باؤلی میں ایک منفرد بات یہ ھے کہ سیڑھیوں کے اترنے کے راستے کے ساتھ تقریبا"20 فٹ اونچے دو مینار دونوں اطراف بنائے گئے۔
تازہ پانی کی بہتر طریقے سے فراھمی کی وجہ سے لوگ اس باؤلی کے نزدیک آباد ھونا شروع ھو گئے۔سب سے پہلے"بچھر"قبیلہ کے لوگ یہاں آباد ھوئے۔انہوں نے کنویں کی مناسبت سے اس جگہ کا نام " واں بچھراں" رکھا۔
واں بچھراں موجودہ حالات میں ایک جدید قصبے کی صورت اختیار کر چکا ھے۔ میانوالی سرگودھا ریلوے لائن اور سڑک پر واقع ھونے کی وجہ سے کافی اہمیت ہے
کھاریاں کی مغلیہ دور کی تاریخی باؤلی کی بحالی کے بعد اب اس تاریخی باٶلی کو واپس اپنی حالت میں لا کر اس علاقے کی ہی نہیں بلکہ میانوالی کی پہچان بنا دیا گیا ہے جہاں لوگ وزٹ کریں گے وہاں اس علاقہ کی پہچان بھی بڑھے گی تاریخی باٶلی اور یہ علاقہ بھی پرانے وقتوں کی یاد تازہ کرتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کے مقامی لوگ اور انتظامیہ نا صرف تاریخی مقامات کا خیال کریں بلکہ مناسب دیکھ بھال کریں اور ان کے بارے معلومات دیگر لوگوں تک پہنچاٸیں جو کے اک مکمل تفریح کے ساتھ تاریخ سے واقف ہونا کا موقعہ بھی ہو گا، یہ باؤلی ڈیزائن کے حوالے سے کھاریاں باؤلی سے کچھ چھوٹی ھے مگر اس باؤلی میں دو عدد اضافی مینار بھی ہیں،

Pani Wali Masjid, Shikarpur Sindhیہ شکارپور کی پانی والی مسجد ہے جو کہ کیرتھر كنال کے بیچ میں واقع ہے۔ آج سے ٹھیک 100 سا...
12/10/2022

Pani Wali Masjid, Shikarpur Sindh

یہ شکارپور کی پانی والی مسجد ہے جو کہ کیرتھر كنال کے بیچ میں واقع ہے۔ آج سے ٹھیک 100 سال پہلے 1922 میں یہ مسجد زمین پر تھی۔ 1922 میں سکھر بیراج سے نہریں نکالنے کا کام شروع ہوا تو کیرتھر کنال کی کھدائی شروع ہوئی۔ یہ مسجد رکاوٹ سمجھی گئی اور اس کو شہید کرنے کا اعلان کیا گیا۔

علاقے کے عالم دین مولانا تاج محمد امروٹی نے تجویز دی کہ کنال کا رخ تبدیل کیا جائے اور مسجد شہید نہ کی جائے۔ انگریز سامراج کی جانب سے یہ مطالبہ رد کردیا گیا۔ مولانا نے ایک اشتہار نکالا جس میں لوگوں کو مسجد کے پاس جمع ہونے کا کہا۔ بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے۔

مولانا امروٹی اور انگریز کلکٹر کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔ کلکٹر نے مولانا سے کہا کہ تمہارا خدا خود آکر کیوں نہیں اس مسجد کو بچاتا۔ مولانا نے کہا کہ اگر کوئی تمھارے آفس کو برباد کرنے آئیگا تو جارج خود آکر لڑے گا یا تم لوگ لڑو گے۔ کلکٹر لاجواب ہوگیا۔

آخر میں کلکٹر نے مسجد کو اسی جگہ قائم رکھنے کا تحریری آرڈر جاری کردیا۔ منصوبے کے انجنیئر نے کیرتھر کنال کو مسجد کے اطراف سے ایسی مہارت سے گزارا کہ مسجد بھی برقرار رہی اور کنال بھی۔

مسجد جونیجہ پانی کے بیچ میں آنے کے بعد پانی والی مسجد کے نام سے مشھور ہوگئی۔ یہ ایک چھوٹی مسجد ہے جس تک جانے کے لئے پل تعمیر کیا گیا ہے۔ چھ ستونوں پر کھڑی یہ مسجد دیکھنے والوں کو حیران کردیتی ہے۔ مسجد کے اندر ٹائلوں کا خوبصورت کام بھی کیا گیا ہے۔ یہ مسجد شکارپور کی تحصیل گڑھی یاسین کے گاؤں امروٹ شریف سے دو کلومیٹر دور ہے۔ مولانا امروٹی کی قبر بھی یہیں موجود ہے۔

Credit palwa

(جی ٹی ایس) وادی سون سکیسر  1982 گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) کی ایک گاڑی کی لی گٸی نایاب تصویر آپکے سامنے یہ تصوی...
07/09/2022

(جی ٹی ایس) وادی سون سکیسر 1982
گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس (جی ٹی ایس) کی ایک گاڑی کی لی گٸی نایاب تصویر آپکے سامنے یہ تصویر 1982 میں نڑواڑی باغ میں لی گٸی تھی بس کے داٸیں جانب بس ڈراٸیور مظفر خان جبکہ باٸیں جانب کنڈکٹر فرمان علی کھڑے ہیں یہ گاڑی صبح سویرے انگہ، کھبیکی،مردوال اور وادی سون کے مزید شہروں سے ہوتے ہوۓ سرگودھا کو روانہ ہوتی تھی جی ٹی ایس کے تحت ایسی دس گاڑیاں چلتی تھیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب کے نمبرز7201 سے7209 تک لگاتار تھے
مزید بتاتا چلوں یہی وہ ٹرانسپورٹ ہے جس پر وادی سے تعلق رکھنے والے ،، عالمی شہرت یافتہ ادیب اور شاعر ”احمد ندیم قاسمی“ بھی سفر کرتے تھے
اس بس سروس کو علاقے سے نوے کی دہاٸی میں ختم کر دیا گیا۔

اسلام آباد کا پرانا نام راج شاہی تھا  اسلام آباد میں 85 دیہات شامل تھے جو اسلام آباد کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔ جن میں تقری...
11/08/2022

اسلام آباد کا پرانا نام راج شاہی تھا
اسلام آباد میں 85 دیہات شامل تھے جو اسلام آباد کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔ جن میں تقریباً 50 ہزار افراد آباد تھے۔
شکر پڑیاں بھی ان میں سے ایک گاؤں تھا یہاں دو سو سے زائد گھر تھے جو بالکل اس جگہ پر تھے جہاں آج لوک ورثہ موجود ہے۔ لوک ورثہ کے پیچھے پہاڑی پر اس گاؤں کے آثار آج بھی جنگل میں بکھرے پڑے ہیں۔
85 دیہات کی 45 ہزار ایکٹر زمین جب سی ڈی اے نے حاصل کی تو متاثرین میں اس وقت 16 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے جبکہ انہیں ملتان، ساہیوال، وہاڑی، جھنگ اور سندھ کے گدو بیراج میں کاشت کے لیے 90 ہزار ایکڑ زمین بھی الاٹ کی گئی جس کے لیے 36 ہزار پرمٹ جاری کیے گئے۔
ان میں جو بڑے گاؤں تھے ان میں "کٹاریاں" بھی شامل تھا
جو موجودہ شاہراہ ِ دستور اور وزارت خارجہ کی جگہ آباد تھا۔
شکر پڑیاں لوک ورثہ کی جگہ،
بیسٹ ویسٹرن ہوٹل کے عقب میں "سنبل کورک"
مری روڈ پر سی ڈی اے فارم ہاؤسز کی جگہ "گھج ریوٹ"،
جی سکس میں "بیچو"
ای سیون میں "ڈھوک جیون"
ایف سکس میں "بانیاں"
جناح سپر میں "روپڑاں"
جی 10 میں "ٹھٹھہ گوجراں"
آئی ایٹ میں "سنبل جاوہ نڑالہ اور نڑالہ کلاں"
ایچ ایٹ میں "جابو"
زیرو پوائنٹ میں "پتن"
میریٹ ہوٹل کی جگہ "پہالاں"
ایچ ٹین میں "بھیگا سیداں"
کنونشن سینٹر کی جگہ "بھانگڑی"
آبپارہ کی جگہ "باغ کلاں"
اسی طرح راول ڈیم کی جگہ راول، پھگڑیل، شکراہ، کماگری، کھڑ پن اور مچھریالاں نامی گاؤں بستے تھے۔
فیصل مسجد کی جگہ "ٹیمبا" اور اس کے پیچھے پہاڑی پر کلنجر نام کی بستی تھی۔
شکر پڑیاں میں گکھڑوں کی بگیال شاخ کے لوگ آباد تھے جنہیں ملک بوگا کی اولاد بتایا جاتا ہے۔ گکھڑوں نے پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال حکمرانی کی ہے۔
راولپنڈی کے گزٹیئر 1884 کے مطابق ضلع راولپنڈی کے 109 دیہات کے مالک گوجر اور 62 گکھڑوں کی ملکیت تھے۔

تخت بھائی اثار قدیمہ-- "کھنڈرات"پشاور سے 80کلومیٹر اور مردان سے 15کلومیٹر پر تخت بھائی واقع ہے۔ تخت بھائی کے لغوی معنی پ...
10/08/2022

تخت بھائی اثار قدیمہ-- "کھنڈرات"

پشاور سے 80کلومیٹر اور مردان سے 15کلومیٹر پر تخت بھائی واقع ہے۔ تخت بھائی کے لغوی معنی پہاڑی پر کسی قدرتی چشمے کے ہیں۔ بدھ دور کی ایک تاریخی عبادت گاہ کے دامن میں ایک قدرتی چشمہ، اب بھی موجود ہے جو سارے علاقے کو پانی فراہم کرتا ہے یہ آثار سطح زمین سے 150 میٹر کی بلندی پر واقع ہیں۔ بدھ مذہب کی چھوٹی بڑی عبادت گاہیں، خانقاہوں اور تہہ خانوں پر مشتمل ہیں۔ یہ آثار پہلی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک محیط ہیں۔ یہ اثار قدیمہ کوئی دوہزار سال پرانے ہیں جب بدھ مت کے مذھبی راہنما انوشکا نے یہاں قیام کیا تھا۔یہ مقام بدھ مت ماننے والوں کے لیے کوئی سات سو سال تک اھم مرکز رہاہے۔تخت بھائی، صدیوں تک مٹی کے تودوں کے نیچے دبا رہا یہاں کا علاقہ چاروں طرف پہاڑیوں سے محیط ہے۔ سوات کی طرف جانے والی سڑک کے دور دور تک پہاڑی پتھریلی راہوں اور غیر ہموار پگڈنڈیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جو صدیوں سے قائم ہے چونکہ ایک اونچی پہاڑی کو تلاش کریہ عبادت گاہ بنائی گئی اس لیے ابھی بھی اس کے ہر طرف پہاڑوں کا ایک سلسلہ موجود ہے بیچ میں گہری کھائیاں ہیںجو قدیم دور میں اور بھی گہری ہوں گی شاید کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس خاص جگہ بدھ مت کی اتنی شاندار یاد گار موجود ہے۔ صدیاں گزر گئیں حکومتیں آتی اور جاتی رہیں حملہ اور آتے رہے۔ ان ہی راہوں سے لوگ گزرتے رہے لیکن سنگلاخ پہاڑیوں میں واقع یہ وسیع عبادت گاہ عہد رفتہ کی تمام یادیں سمیٹے مٹی کے نیچے مدفن رہی۔ تاریخ کے طالب علم جانتے تھے کہ اس زمین میں پرانی تہذیبوں نے جنم لیا اور شاندار حکومتیں قائم رہیں لیکن یہ شاید کسی کے بس کا روگ نہیں تھا کہ ان پہاڑوں کو کاٹ کر نیچے کچھ تلاش کیا جائے یہ تو بڑا اچھا ہوا کہ چند مزدوروں نے جب مٹی کھود کر اس جگہ گھر بنائے تو انہیں کچھ پرانے سکے پرانی اینٹیں نظر آئیں پھر علاقے میں چھوٹے نالوں میں محکمہ آبپاشی والوں کو بدھا کی مورتیاں کچھ ٹوٹے ہوئے اعضاء اور پرانے دور کی چند اشیاء دستیاب ہوئیں چنانچہ حکومت نے ریسرچ پارٹیاں بنائیں کچھ جگہوں کو کھودا گیا اور چند ہفتوں کے بعد پتہ چلا کہ یہاں دور گم گشتہ کا ایک عظیم عہد مدفن ہے۔ اس مہم کا سہرا برطانوی دور کے ایک قابل ماہر آثار قدیمہ سرجان مارشل کے سر ہے جس نے اس سلسلے میں ٹیکسلا اور موہنجوداڑو میں بہت سی معلومات فراہم کیں اور اپنی پارٹی کے افراد کے ساتھ کام کیا۔1927ء میں یہاں زیادہ کھدائیاں ہوئیں کہ ایک دور تاریخ کے دبیز مراحل میں گم ہوگیا تھا۔ دنیا کے سامنے پہلے پہل یہاں پہنچنے کے لیے پہاڑی راستوں اور پتھروں سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ یونیسکو نے عبادت گاہ کے ایک طرف ایک باقاعدہ راستہ بنا دیا ہے جس کے ساتھ لوہے کا مضبوط جنگلا موجود ہے نیچے سے کھڑے ہو کر عبادت گاہ کے کھنڈرات کسی افسانوی داستان کے کردار معلوم ہوتے ہیں۔ چڑھائی پر آہستہ آہستہ جانا پڑتا ہے۔ کھنڈرات کے قریب سیڑھیاں بنا دی گئیں ہیں جو ایک سو کے لگ بھگ ہیں۔ اوپر پہنچ کر سارے علاقے کا نظارہ بڑا محسور کن لگتا ہے۔ آکاش کی وسعتوں کو چھوتے ہوئے یہ تاریخی کھنڈرات الف لیلیٰ کی داستان معلوم ہوتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے گویا صدیاں پلک جھپکتے گزر گئی ہوں۔ اس میلوں میں پھیلی ہوئی عبادت گاہ جو یونیورسٹی بھی تھی اب ایک اجڑا ہوا مقام، کھنڈروں اور بوسیدہ عمارتوں کا مسکن ہے جہاں مذہبی کانفرنسیں منعقد ہوتی تھیں زائرین آتے تھے شمالی ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں سے طلباء تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ راجہ کنشک اور کشن خاندان کی بے شماریادگاریں ان پتھر کے ٹیلوں اور تودوں میں موجود ہیں۔ چینی سیاح400 ق م میں بدھ مت کی مقدس زیارتوں کے لیے برصغیر آیا تو اس نے اپنی تحریروں میں شمال مغربی سرحدی صوبہ اور ٹیکسلا کا بھی ذکر کیا ہے وہ کہتا ہے اس سرزمین میں بدھ مت کی نایاب چیزیں ہیں مقدس عبادت گاہیں ہیں۔ تخت بھائی کی یونیورسٹی جہاں طلباء کی ایک کثیر تعداد بدھ مت کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا کرتی تھی کا بھی ذکر کرتا ہے ۔
یہ نہ صرف تاریخی، ثقافتی ورثہ ہے بلکہ سیاحت کا بھی بہتر مقام ہے۔ یہاں پر سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولیات موجود ہے ،محکمہ آثار قدیمہ کی طرف سے سیاحوں کے لئے گائیڈ ، مسجد ، ٹائیلٹس ، سیاحوں کی سہولت کے لئے جگہ جگہ آرام گاہیں کی سہولیات فراہم کی ہے ۔۔ مقامی گائیڈ کے مطابق یہاں پر پہلے غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد آتی تھی لیکن ملکی خالات کی وجہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد بند ہوگئی تھی ۔۔ اب دو سال سے دوبارہ نہ صرف غیر ملکی سیاح آتے ہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی سیاح اس تاریخی ورثے کا وزٹ کرتےہیں ۔۔

Address

Lahore

Telephone

+923238436740

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Explore Pakistan With Javed posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Travel Companies in Lahore

Show All

You may also like