02/02/2023
🌹*”تیرہ کا درجن” والے جُملے کا اصل مصنف، حقدار اور جیتا جاگتا ثبوت: قاسم علی شاہ*🌹
کہانی اُلجھی ہوئی ہے مگر ہے بہت مزے دار۔ پڑھیے اور جانیے کہ راز کیا ہے! مُدت سے سوشل میڈیا پر ایک من موہنا نثر پارہ کہیں واصف علی واصف اور کہیں اشفاق احمد کے نام سے مشتہر ہے جس کا ایک جُملہ دِل میں بہت رچ بس گیا کہ “جس پر کرم ہو اُس کا درجن تیرہ کا ہوتا ہے”۔
کھوجی بن کر ٹوہ لگائی تو عجب صورتِ حال سامنے آئی:
اس جُملے کے اصل مصنف نہ (صفِ صوفیا والے ) واصف ہیں نہ (بابائے شوق و مستی) اشفاق بلکہ قاسم علی شاہ ہیں۔ جی ہاں، قاسم علی شاہ۔
شاہ جی نہ صرف اس جملے کے مصنف ہیں بلکہ مظہر بھی ہیں؛ محبت کے معاملے میں اُن کا درجن تیرہ کا نہیں بلکہ چودہ پندرہ کا ہے۔ حال ہی میں اُن کے ایک اور کلپ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ خوب لے دے ہوئی، یار لوگوں نے بھانت بھانت کی بولیاں ٹھولیاں پیش کیں۔ فیصلے صادر کرنے میں تو ہمارا معاشرہ ماشااللہ یدِ طُولٰی رکھتا ہے۔
بات ہوئی تو شاہ جی کہنے لگے کہ: فارس بھائی ! حاسدین نے میری گفتگو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر سوچی سمجھی سازش کے تحت بدل دیا ہے”
عرض کیا: “حاسدین کی فکر ہی کیوں؟ یہ تو وہ ڈھولچیے ہیں جنہیں ربِ اظہار نے بغیر تنخواہ، بِنا اُجرت اور بلامعاوضہ صبح و شام آپ کا ڈھول بجانے پر مامور کر رکھا ہے۔ لُطف اُٹھائیے، بھیا ! حاسد اپنے محسود کا نقارچی بھی ہوتا ہے، مراثی بھی۔ ناچیز کا شعر ہے کہ:
نُکتہ چیں ! شوق سے دن رات مِرے عیب نکال
کیونکہ جب عیب نکل جائیں، ہُنر بچتا ہے”
تو صاحبو ! کسی کو قاسم علی شاہ سے لاکھ اختلاف ہو، تلفظ پسند نہ ہو، لہجہ نہ بھاتا ہو، حقیقت یہ ہے کہ قاسم الاشیا کا قاسم علی شاہ پر خاص الخاص کرم ہے۔ اب قسامِ ازل کی تقسیم سے بھلا کیا اختلاف؟ قسمت اپنی اپنی ! اور بقول انہی کے: “جس پر کرم ہو اُس سے پنگا نہیں لینا چاہئے، کیونکہ وہ تو کرم پر چل رہا ہے۔ تُم چلتی مشین میں ہاتھ دو گے تو اُڑ جاؤ گے”
شاہ جی کے کچھ اور تاثیر بھرے جُملے جو کسی اور ہی نام سے گھوم پھر رہے ہیں:
“قیمتی ہو کے مُفت ہوجانا اصل درویشی ہے”
“علم بڑا خوددار ہے، کسی بے قدرے کے پاس نہیں جاتا”
*رحمان فارس*
شاعر/ایڈیشنل کمشنر FBR