21/01/2024
وہ بزمِ خوش اندام ہوئی درہم و برہم
جائیں تو کہاں جائیں بھلا آئینہ ور ہم
کیا واقعی چَھٹ جائیں گے ظلمات کے بادل !
صحرائے طلسمات سے نکلے بھی اگر ہم
اُس زخمِ خوش امکاں کی دوا کوئی تو ہوگی
نشتر کوئی، ناخن کوئی، غنچہ کوئی، مرہم
کیا کہیے کہ اب دونوں ہی ٹکروں میں بٹے ہیں
آئینہ گرا ہم پہ، گرے آئینے پر ہم
دیکھا نہ گیا شمعِ فروزاں کا پگھلنا
محفل سے چلے آئے ہیں بادیدہ تر ہم
کب تک ہمیں چلنا ہے یہ معلوم نہیں ہے
اس دشتِ تمنا میں کریں کتنا سفر ہم
ہم سر بکف آئیں گے سرِ دشتِ جُنوں خیز
وہ سِحر سے مخمور ہے اور معجزہ گر ہم
وہ عرش سے ہے اور ہمیں فرش سے نسبت
وہ صاحبِ افلاک ہے اور خاک بسر ہم
از خود قدم اٹھتے گئے اختر دمِ مجلس
بیٹھے بھی تو کتنا کہ یہی مرثیہ بھر ہم
اختر عثمان