Mayra Pakistan

Mayra Pakistan Pakistan is one of those nations which have gained more popularity due to the increased politics in

گنگا پور گھوڑا ریل، جسے مقامی طور پر "گھوڑا ٹرین" کہا جاتا ہے، پنجاب، پاکستان کی ایک تاریخی ریل گاڑی ہے۔ یہ 1898 میں مشہ...
01/01/2025

گنگا پور گھوڑا ریل، جسے مقامی طور پر "گھوڑا ٹرین" کہا جاتا ہے، پنجاب، پاکستان کی ایک تاریخی ریل گاڑی ہے۔ یہ 1898 میں مشہور انجینئر اور فلاحی شخصیت سر گنگا رام نے قائم کی تھی۔ اس کا مقصد گنگا پور گاؤں اور بوچھیانہ ریلوے اسٹیشن (تقریباً 3 کلومیٹر دور) کے درمیان بھاری مشینری اور زرعی پیداوار کی نقل و حمل تھا۔

سر گنگا رام، جنہیں "جدید لاہور کا بانی" بھی کہا جاتا ہے، نے علاقے میں جدید زرعی نظام کو فروغ دینے کے لیے اس ٹرام وے کا آغاز کیا۔ یہ ایک تنگ پٹڑی پر گھوڑوں کے ذریعے کھینچی جانے والی سادہ گاڑیوں پر مشتمل تھا، جو سامان اور مسافروں کو منتقل کرنے کے لیے ایک موثر ذریعہ تھا۔

یہ نظام تقریباً ایک صدی تک فعال رہا، لیکن 1990 کی دہائی میں مالی مشکلات اور خستہ حالی کی وجہ سے بند ہو گیا۔ 2010 میں، مقامی حکومت اور عوام کے تعاون سے اسے دوبارہ بحال کرنے کی کوشش کی گئی، اور کچھ وقت کے لیے یہ ثقافتی ورثے کے طور پر دوبارہ چلایا گیا۔

تاہم، حالیہ اطلاعات کے مطابق، یہ ٹرام وے باقاعدہ آپریشن میں نہیں ہے، اور اس کی بنیادی ڈھانچے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ تاریخ دانوں اور مقامی کمیونٹی کی طرف سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس تاریخی اثاثے کو محفوظ کیا جائے اور اسے سیاحتی مقام کے طور پر بحال کیا جائے۔

گنڈا سنگھ بارڈر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک کم مشہور سرحدی گزرگاہ ہے، جو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور کے قریب و...
30/12/2024

گنڈا سنگھ بارڈر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک کم مشہور سرحدی گزرگاہ ہے، جو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر قصور کے قریب واقع ہے۔ بھارت کی جانب یہ سرحد پنجاب کے گاؤں حسینی والا کے نزدیک ہے۔ یہ سرحد تاریخی اہمیت کی حامل ہے، خاص طور پر 1947 کی تقسیم ہند اور ابتدائی دنوں میں جب دونوں ممالک کے درمیان سفر اور تجارت ہوتی تھی۔

اہم خصوصیات:

1. تاریخی اہمیت:
گنڈا سنگھ بارڈر نے تقسیم ہند کے وقت ایک اہم کردار ادا کیا اور بعد میں پاک بھارت سفر اور تجارت کے لیے استعمال ہوتی رہی۔

2. سادہ جھنڈا اتارنے کی تقریب:
واہگہ بارڈر کی پرجوش اور شاندار تقریب کے برعکس، گنڈا سنگھ بارڈر پر جھنڈا اتارنے کی تقریب سادہ اور پرسکون ہوتی ہے۔

3. سیاحتی مرکز:
اگرچہ یہ واہگہ بارڈر جتنا مشہور نہیں ہے، لیکن تاریخی اہمیت کے باعث یہ مقام قصور اور فیروزپور کے قریب سے آنے والے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔

4. قصور کے قریب:
قصور اپنی ثقافتی اور روحانی اہمیت کی وجہ سے مشہور ہے، خاص طور پر بابا بلھے شاہ کے مزار کے لیے، جو صوفی شاعری کی وجہ سے مشہور ہیں۔

اگر آپ اسے دیکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یہ واہگہ بارڈر کا ایک پرسکون اور کم تجارتی متبادل ہے، جو پاک بھارت سرحد کا ایک مختلف پہلو پیش کرتا ہے۔

مقبرہ جہانگیر لاہور کو مغلیہ عہد میں تعمیر کیے گئے مقابر میں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ یہ دریائے راوی لاہور کے دوسرے کنارے ...
29/12/2024

مقبرہ جہانگیر لاہور کو مغلیہ عہد میں تعمیر کیے گئے مقابر میں ایک بلند مقام حاصل ہے۔ یہ دریائے راوی لاہور کے دوسرے کنارے شاہدرہ کے ایک باغ دلکشا میں واقع ہے۔ جہانگیر کی بیوہ ملکہ نور جہاں نے اس عمارت کا آغاز کیا اور شاہ جہاں نے اسے پایہ تکمیل تکمیل پہنچایا۔ یہ مقبرہ پاکستان میں مغلوں کی سب سے حسین یادگار مانا جاتاہے۔

مقبرہ کے چاروں کونوں پر حسین مینار نصب ہیں۔ قبر کا تعویذ سنگ مرمر کا ہے اور اس پر عقیق، لاجورد، نیلم، مرجان اور دیگر قیمتی پتھروں سے گل کاری کی گئی ہے۔ دائیں بائیں اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام کندہ ہیں۔

سکھ عہد میں اس عمارت کو بہت نقصان پہنچایا گیا۔ سکھ اس عمارت میں سفید سنگ مرمر سے بنایا گیا سہ نشین اکھاڑ کر امرتسر لے گئے۔ اسی طرح عمارت کے ستونوں اور آرائشات میں استعمال کیے گئے قیمتی جواہرات بھی نکال لیے گئے، تاہم آج بھی یہ عمارت قابل دید ہے۔

مقبرہ کا وہ حصہ جہاں شہنشاہ نورالدین جہانگیر دفن ہے ایک بلند چبوترا بنایا گیا ہے۔ اندر داخل ہونے کا ایک ہی راستہ ہے۔ مزار کے چاروں جانب سنگ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں، جو سخت گرم موسم میں بھی ہال کو موسم کی حدت سے محفوظ رکھتی ہیں۔

مقبرہ جہانگیر کی حدود میں نور جہاں نے ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کرائی تھی۔ اس مقبرہ میں نور جہاں نے کافی عرصہ رہائش بھی اختیار کی، اس لیے یہاں رہائشی عمارات بھی تعمیر کئی گئی تھیں۔

The Quaid-e-Azam Library, a prominent public library situated in Lahore, Punjab, Pakistan, is housed within the historic...
28/12/2024

The Quaid-e-Azam Library, a prominent public library situated in Lahore, Punjab, Pakistan, is housed within the historic Bagh-e-Jinnah. Dating back to the mid-19th century, the library was constructed during the British Raj and features exquisite Victorian-era architecture, including the notable Lawrence and Montgomery Halls. The library's collection comprises 125,000 volumes in English, Urdu, Arabic, and Persian.

28/12/2024

On The way to Chunda Valley skardu

Cold Desert Skardu
28/12/2024

Cold Desert Skardu

28/12/2024

شاؤسر جھیل، پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقے میں دیوسائی نیشنل پارک میں واقع ایک جھیل ہے۔ یہ جھیل 4.142 میٹر (13،589 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کی تقریبا لمبائی 2.3 کلومیٹر (1.4 میل)، چوڑائی 1.8 کلومیٹر (1.1 میل) اور اوسط گہرائی 40 میٹر (130 فٹ) ہے۔

زمزمہ جسے کمز گن (Kim’s Gun) اور بھنگیاں والا توپ (Bhangianwala Toap) بھی کہا جاتا ہے، ایک تاریخی توپ ہے، جسے احمد شاہ ا...
25/12/2024

زمزمہ جسے کمز گن (Kim’s Gun) اور بھنگیاں والا توپ (Bhangianwala Toap) بھی کہا جاتا ہے، ایک تاریخی توپ ہے، جسے احمد شاہ ابدالی کے حکم سے اس کے وزیر شاہ ولی نے 1757ء میں بنوایا۔ اس کی لمبائی 14 فٹ ساڑھے چار انچ اور نال کا قطر ساڑھے 9 انچ ہے۔ اس کا گولا آہنی ہوتا ہے۔ 1761ء میں احمد شاہ ابدالی نے پانی پت کی جنگ میں اسے مرہٹوں کے خلاف استعمال کیا اور کابل واپس جاتے ہوئے لاہور کے گورنر کے سپرد کر گیا

قائد اعظم ریزیڈنسی , کوئٹہ سے 122کلو میٹر کے فاصلے پر واقع وادی زیارت کے خوبصورت اور پر فضاء مقام پر واقع ہے۔ یہ لکڑی سے...
25/12/2024

قائد اعظم ریزیڈنسی , کوئٹہ سے 122کلو میٹر کے فاصلے پر واقع وادی زیارت کے خوبصورت اور پر فضاء مقام پر واقع ہے۔ یہ لکڑی سے تعمیر کی گئی خوبصورت رہائش گاہ اپنے بنانے والے کے اعلیٰ فن کی عکاسی کرتی ہے۔ عمارت کے بیرونی چاروں اطراف میں لکڑی کے ستون ہیں اور عمارت کے اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا استعمال بہت ہی خوبصورتی سے کیا گیا ہے ۔ آٹھ کمروں پر مشتمل اس رہائش گاہ میں دونوں اطراف سے مجموعی طور پر 28 دروازے بنائے گئے ہیں۔

گلگت بلتستان پاکستان
25/12/2024

گلگت بلتستان پاکستان

Baboon Valley Kashmir
12/05/2024

Baboon Valley Kashmir

Human Face in Neelam valley Kashmir.....
12/05/2024

Human Face in Neelam valley Kashmir.....

FortRohtas Fort is located near the city of Jhelum in Punjab, Pakistan. The fort lies on the historic GT road between th...
02/05/2024

Fort
Rohtas Fort is located near the city of Jhelum in Punjab, Pakistan. The fort lies on the historic GT road between the mountainous region of Afghanistan and the plains of Punjab. It was built under Afghan king Sher Shah Suri. This fort is about 4 km in circumference. The Rohtas fort was built to crush the local tribes of Potohar, who rebelled against the Sur dynasty after the Mughal emperor Humayun was ousted by the former.

It took eight years to built the fort, it was captured by Mughal emperor Humayun in 1555. Rohtas was also occasionally used for administrative purposes by the Sikh ruler Ranjit Singh after he captured it in 1825.

Gates
The Rohtas Fort has 12 gates, Sohail Gate, Shah Chandwali Gate,Kabuli Gate, Shishi Gate, Langar Khani Gate, Talaqi Gate, Mori or Kashmiri Gate, Khwas Khani Gate, Gatali Gate, Tulla Mori Gate, Pipalwala Gate, Sar Gate, all of them are built in ashlar stone.

A small mosque is near the Kabuli gate. It has a prayer chamber and a small courtyard. It is the most decorated of the original buildings of the fort.

Rani Mahal
The Rani Mahal is near Haveli Man Singh. It is a one storey structure. It originally had four rooms but only room remains standing today. The foundation of the four rooms can still be seen today.

Maqbara Khair un Nisa
Outside the Langar Khani Gate is the tomb of a lady called Khair Un Nisa. She was the daughter of the food minister named Qadir Bukhsh. She died here and was buried in this tomb but she was later moved to Sasaram.

Until the construction of the new Grand Trunk Road, Rohtas was a halting place on the main Peshawar-Lahore road. This road had serais about a mile apart. One of these is about one mile north of the Rohtas Fort. It is in a fair state of preservation.

Recent Condition
Most of the fort is in a very good state of preservation. In the portions that have fallen away (Haveli Man Singh) one can still see some part of the original construction. The central archway of the Chandwali Gate has been rebuilt recently so that is the only “fake” part of the fort.

In early 2005, seepage, heavy rains, and general neglect caused the left inner face of the Talaqi Gate to collapse, and the right flank and foundation to become detached from the original structure.

The Gatali Gate forms one of the original entrances to Rohtas. Over time, its right bastion and supporting wall have collapsed as a result of permeated rainwater and the erosion of its foundations.

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mayra Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Mayra Pakistan:

Videos

Share

Category