Parbat Badosh

Parbat Badosh میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ، میں تشنہ کہاں جاؤ، پی

you can express your feelings here in the shape of poetry,songs,jokes,pictures,stories and good quotes...


This group only for entertainment...
Welcome To the group.. NO Spamming
NO Racism
NO Insults
NO Personal Attacks
NO Flooding
NO Incentive comment

Invite ur friends.
дηd
☻/
/▌ / \ fun.Like · ·
Follow Post
¬KHAN¬

سوئٹزرلینڈ اف ایشیا۔۔۔ سوات
31/05/2020

سوئٹزرلینڈ اف ایشیا۔۔۔ سوات

فضاء گٹ سوات
30/05/2020

فضاء گٹ سوات

13/04/2020

The Madrasah System Pride of our Community The Christian community has the Church, the Jewish community has its Synagogue, the Hindu Community has it's Mandi...

‏تقدیر، مقدر، نصیب، فلاں ڈھمکاں۔
21/12/2019

‏تقدیر، مقدر، نصیب، فلاں ڈھمکاں۔

08/11/2019

میخانے سے مسجد تک پاٸے گٸے نقشے پا۔۔۔
یا رند گیے ہونگے یا شیخ گیا ہوگا

فرعون ٹیکنالوجی اور سائنس میں ہم سے بہت آگے تھے۔یہ سات ہزار سال قبل سات سو کلو میٹر دور لکسر شہر سے ایک کروڑ پتھر یہاں ل...
10/02/2019

فرعون ٹیکنالوجی اور سائنس میں ہم سے بہت آگے تھے۔
یہ سات ہزار سال قبل سات سو کلو میٹر دور لکسر شہر سے ایک کروڑ پتھر یہاں لائے‘ ہر پتھر 25 سے اڑھائی سو ٹن وزنی تھا‘یہ ون پیس تھا اور یہ پہلے پہاڑ سے چوڑائی میں کاٹا گیا تھا اور پھر سات سو کلو میٹر دور لایا گیا تھا‘ یہ پتھر بعد ازاں صحرا کے عین درمیان 170 میٹر کی بلندی پر لگائے بھی گئے‘قدیم مصری آرکی ٹیکٹس نے آٹھ ہزار سال قبل مقبروں کا ایسا ڈیزائن بنایا جو ہر طرف سے بند بھی تھا لیکن بندش کے باوجود اندر سورج کی روشنی بھی آتی تھی‘ ہوا بھی اور اندر کا درجہ حرارت بھی باہر کے ٹمپریچر سے کم رہتا تھا۔
ان لوگوں نے آٹھ ہزار سال قبل لاشوں کو حنوط کرنے کا طریقہ بھی ایجاد کر لیا اور یہ خوراک کو ہزار سال تک محفوظ رکھنے کا طریقہ بھی جان گئے ‘ قاہرہ کے علاقے جیزہ کے بڑے اہرام میں 23 لاکھ بڑے پتھر ہیں‘ ابولہول دنیا کا سب سے بڑا ون پیس اسٹرکچر ہے اور یہ لوگ جانتے تھے شہد دنیا کی واحد خوراک ہے جو کبھی خراب نہیں ہوتی چنانچہ اہراموں میں پانچ ہزار سال پرانا شہد نکلا اور یہ مکمل طور پر استعمال کے قابل تھا۔
یہ لوگ کمال تھے‘ بس ان میں ایک خرابی تھی‘ یہ متکبر تھے اور اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں چنانچہ یہ پکڑ میں آ گئے اور یوں عبرت کی نشانی بن گئے۔

" نہیں تمہارا چہرہ نہیں آئے گا " میں اپنی ماں کی قسم کھاتا ہوں ۔۔خود ہی دیکھوں گا یہ وڈیو پھر ڈیلیٹ کردوں گانہیں پلیزززز...
03/02/2019

" نہیں تمہارا چہرہ نہیں آئے گا "
میں اپنی ماں کی قسم کھاتا ہوں ۔۔خود ہی دیکھوں گا یہ وڈیو پھر ڈیلیٹ کردوں گا
نہیں پلیزززز
" ہاتھ ہٹاؤ نا جان "
" نہیں "
اچھا میری قسم ہے تمہیں ہاتھ ہٹاؤ وڈیو بنانے دو
" اپنی قسمیں مت دیا کرو "
قسم دینا پڑجاتی ہے تم بھی تو بھروسہ نہیں کرتی میں نے بھلا کس کو دکھانی ہے۔۔۔ڈیلیٹ کردوں گا
بھروسہ کرتی ہوں تبھی تو اپنا آپ دیا ہے تمہیں "
" تو پھر بنانے دو نا "!
" تم باز نہیں آؤ گے۔۔۔۔۔ اچھا بنا لو " !! لو یو "
بہت محبت کرتی ہوں تم سے
چاہتی ہوں ہیر رانجھا کی طرح ہماری محبت کی بھی کہانیاں سنائی جائیں "
" ہمممم۔۔۔۔۔ لو یو ٹُو "
کٹی پتنگ کی طرح جھولتی ہوئی وہ گھر پہنچی اور کمرے میں آ کر سوگئی ۔۔۔۔
" وہ عام سے گھر کی گمنام لڑکی تھی "
" مگر جب اسکی آنکھ کُھلی تو وہ اور " اسکی محبت مشہور ہوچکی تھی

منقول"

"عابدہ پروین جب "مولا" پکارتی ہیں تولگتا ہے کہ ہاں، مولا تک ان کی آواز پہنچتی ہوگی۔ ہمیں جب خدا کو بلانا ہوتا ہے تو عابد...
24/07/2017

"عابدہ پروین جب "مولا" پکارتی ہیں تولگتا ہے کہ ہاں، مولا تک ان کی آواز پہنچتی ہوگی۔ ہمیں جب خدا کو بلانا ہوتا ہے تو عابدہ کی معرفت بلالیتے ہیں"

لفظوں میں مٹھاس بھرنے والے گلزار نے یہ الفاظ عابدہ کی اس پکار پر کہے تھے جو پکار عابدہ کے کسی بھی کلام کے آغاز میں نہ ملے تو اختتام پر مل جاتی ہے۔

صوفی کلام کی ثقافت میں جو مقام عابدہ پروین کے "مولا" کو حاصل ہے، وہ مقام پشتو فوک موسیقی میں زر سانگہ کے "یاقربان" کو حاصل ہے۔ وہ جب کوئے یار میں یہ صدا لگاتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ آواز پہنچ گئی۔ اس ملک میں پشتو نہ جاننے والوں تک بھی یہ صدا پہنچی ہے۔ وہ اس کا مطلب نہیں جانتے، مگر اس کا مطلب پوچھتے بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ درد کی زبان تو آفاقی زبان ہے۔

زرسانگہ نہیں جانتیں کہ وہ کس علاقے میں پیدا ہوئی تھیں، کب پیدا ہوئی تھیں۔ بس اتنا جانتی ہیں کہ بکریاں چراتے ہوئے ایک خاموش سبزہ زارمیں پہلی بار جب انہوں نے یا قربان پکارا تھا تو وہ بیس برس کی تھیں۔

زرسانگہ کو یہ بھی یاد ہے کہ پڑوسیوں کی شادی میں پہلی بار جب انہوں نے پرات الٹی کر کے اس پراپنی پوریں آزمائی تھیں تو والد کومحسوس ہوا تھا کہ میری عمر بھرکی عزت بیٹی نے خاک میں ملادی ہے۔

زرسانگہ نے چالیس ممالک میں پشتو موسیقی و ثقافت کی سفارت کاری کی ہے۔ مگر پشتو ثقافت ماری گئی ہے۔ اب اس ثقافت میں سوال اٹھانے والوں کو سنگسار کرنے اور دیواریں پھلانگ کر خواتین پر تشدد کرنے کی روایت در آئی ہے۔

ہم سوال اٹھانے والوں کو سنگسار کرتے ہیں اور پھرجنازہ گاہوں کی صفیں بھی ان پر تنگ کردیتے ہیں۔ ہم پشتو ثقافت کی سفارت کار کی جھونپڑی پرشب خون مار تے ہیں، پھرشفا گاہوں کے بستر بھی ان پر تنگ کر دیتے ہیں۔

دیکھیے، وزیراعلی پختونخوا کے شہر میں یا قربان کی زخمی صدا کس عالم میں بستر پر دراز ہے۔

09/07/2017

یہ جو آپ سیاسی لیڈروں کا ٹہور ٹپا اور پروٹوکول دیکھتے ہیں ناں اور جس کے لئے وہ گلی گلی دھکے کھاتے ہیں بندے بندے سے ووٹ مانگتے ہیں ، سو سو جھوٹے سچے وعدے کرتے ہیں ، وعدے پورے نہ کرنے کے ڈھیروں شگفتہ شگفتہ بہانے تراشتے ہیں ، ٹکے ٹکے کے اینکروں سے دن رات اپنے کپڑے اترواتے ہیں ، اس سارے ٹہور ٹپے کی حقیقت شہزاد رائے کی اس ھڈ بیتی میں ھے کہ یہ ھوتے آخر کار بلڈی سیویلین ھی ہیں ، دوسری جانب ملک توڑنے والوں کو سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر سیلوٹ مار کر رخصت کر دیا جاتا ھے ، اس سیلوٹ پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں کیونکہ وہ کوئی ملزم نہیں تھا بلکہ اسلامی ریاست کو دو لخت کرنے کا مجرم تھا ، دوسرا جرنیل ٹائیگر نیازی اسلامی تاریخ میں ہتھیار ڈال کر سب سے زیادہ نفری کو قیدی بنا دینے کا مجرم تھا مگر سیلوٹ مروا کر دفن ھوا ،،یہاں دو دفعہ مارشل لاء لگانے والے کو عدالت میں پیش ھونا اپنی توھین محسوس ھوتی ھے اور کمانڈوز کے حصار میں اسپتال میں چھاونی سمجھ کر رھتا ھے ، جیل کی بجائے اس کے گھر کو کرائے پر حاصل کر کے سب جیل قرار دے دیا جاتا ھے ، یوں اپنے ھی گھر میں خود عوامی ٹیکس سے کرایہ وصول کر کے خود ھی رہ رھا تھا ، فوج کو سابقہ سربراہ ھو کر وہ جیل میں رھے یہ تو پورے ادارے کی توھین ہے ، ٹریفک پولیس والا فوجی کو روک لے تو پورے تھانے کی پھینٹی لگ جاتی ھے ، یہاں نہ تو کسی اینکر کو قانون کی بالا دستی یاد آتی ھے اور نہ ھی آئین کی توھین ،، تو عرض کیا تھا کہ یہ وزیر اعظم ھوں یا وزراء اعلی ،، جب گیم ختم ھوتی ھے تو ان کو کنجر سمجھ کر ھی ان کے شایانِ شان سلوک ھوتا ھے ، کوئی پھانسی پہ لٹک جاتا ھے اور اس کے بیوی بچوں کا جنازہ پڑھنا نصیب نہیں ھوتا اور کوئی جھوٹے مقدمے میں سزائے موت پاتا ھے کہ کاک پٹ میں سابقہ آرمی چیف بیٹھا تھا ،مگر جہاز اغوا زمین پر بیٹھا سویلین کنجر کر رھا تھا ،، مگر اس چار دن کے کنجر خانے میں بھی وہ لذت ھے کہ کنجر بننے کے مقابلے میں سب کچھ لگا دیتے ہیں ،،

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ھے وہ گزری ھے !
تنہا پسِ زنداں کبھی رسوا سرِِ بازار ،،

اب سنیئے ثمر خان کی زبانی یہ واقعہ تا کہ آپ کو پوری بات سمجھ آ سکے ،،

کچھ ﻋﺮﺻﮧ ﻗﺒﻞ ﮔﻠﻮﮐﺎﺭ ﺷﮩﺰﺍﺩ ﺭﺍئے ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮰ ﺑﮍﮮ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭہے تھے..

ﮐﮧ ﮐﻨﺴﺮﭦ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﻨﻨﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﻟﻮﮒ ﺁﺟﺎ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ..

ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮔﻨﺖ ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺗﻌﺎﻗﺐ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ.

نئی ﺍﻟﺒﻢ ﺁئے ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮏ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ.

ﺟﺐ ﮨﻢ ﮐﻮئی ﮔﺎﻧﺎ ﭘﺒﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎتھ ﺟﮭﻮﻡ ﺟﮭﻮﻡ ﮐﺮ ﮔﺎﻧﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ.

ﻟﯿﮑﻦ.
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯﺳﺎتھ ﮨﯽ ﮔﻠﻮﮐﺎﺭ ﮐﺎ ﻟﮩﺠﮧ ﺍﻓﺴﺮﺩە ﮨﻮﮔﯿﺎ...
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺩﮐھ ﺑﮭﺮﮮ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎ...

ﻟﯿﮑﻦ ﻟﻮﮒ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻋﺰﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ..
ﮨﻢ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮئے..
ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻭە ﮐﯿﺴﮯ.؟.
ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻓﻨﮑﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﯾﻮﺍﻧﮯ ﮨﯿﮟ...
ﺷﮩﺰﺍﺩ ﺭﺍئے ﺍﯾﮏ ﺳﻤﺠﮭﺪﺍﺭ ﻓﻨﮑﺎﺭ ﮨﮯ

ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﮯﺩﻭﺳﺮﮮ ﺷﻮﺑﺰ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮ ﻋﮑﺲ عقل مند ﺍﻭﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﺑﮭﯽ..
ﺍﺱ ﭘﺮ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﭽﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ......
ﺑﺎﺕ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺳﻤجھ ﻣﯿﮟ ﺁﺟﺎئے ﮔﯽ..

ﺍﻭﺭ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺷﮩﺰﺍﺩ ﺭﺍئے ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﺎﺕ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﻤجھ ﻣﯿﮟ ﺁگئی..
ﺁﭖ ﺑﮭﯽ سنیے ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﯽ...

ﺷﺎﯾﺪ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﮔﺮہیں ﮐﮭﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ..

ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﻨﺠﺎﺏ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺯﻣﯿﻨﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﻓﻨﮑﺸﻦ ﺗﮭﺎ. ﻏﺎﻟﺒﺎ " ﺯﻣﯿﻨﺪﺍﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺠھ ﺳﻤﯿﺖ ﮐﺊ ﺩﻭﺳﺮﮮ فن کاﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺪﻋﻮ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺲ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻼﯾﺎ ﻭە ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮐﮧ ﭘﯿﺴﮧ ﻣﻨﮧ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺊ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﺍﭘﻮﺍﺋﻨﭩﻤﻨﭧ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ کے ﻓﻨﮑﺸﻦ ﻣﯿﮟ ﺷﺮﮐﺖ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﮐﯿﻨﺴﻞ ﮐﯽ گئیں ﺳﺐ ﮐﻮ ﭘﯿﺴﮧ ﮨﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﺮﭘﻮﺭ ﻣﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﭘﻮﺭﺍ ﻃﺎﺋﻔﮧ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ۔ ﻓﻨﮑﺸﻦ ﻓﯿﺼﻞ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ کے ﺍﯾﮏ ﮔﺎؤﮞ ﻣﯿﮟ ﺯﻣﯿﻨﺪﺍﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﻗﻠﻌﮧ ﻧﻤﺎ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﮰ ﺟﻮ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺑﮩﺖ ﺧﺪﺷﺎﺕ ﺗﮭﮯ ﻭە ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﮔﮱ ﺟﺐ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮧ ﻧﻔﺲ ﻧﻔﯿﺲ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﻮ ﺁﮰ۔ ﺍﻭﺭ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﮐﮯ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﮑﺸﻦ ﮐﯽ ﺑﺎﻻﺉ ﻣﻨﺰﻝ ﭘﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﺑﻨﺪﻭﺳﺖ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺴﯽ ﻓﺎئیو اﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﺭﺍﺕ ﻓﻨﮑﺸﻦ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺎﺟﯽ ﺷﺨﺼﯿﺎﺕ ﻣﺪﻋﻮ ﺗﮭﯿﮟ جن کے ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮔﺎ ﮐﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﮐﺎ ﻣﺰﯾﺪ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺍﺟﺎﮔﺮ ﮨﻮا.. ﺯﻣﯿﻨﺪﺍﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻧﺪﻭﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺁؤ ﺑﮭﮕﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺉ ﮐﺴﺮ ﻧﮧ اﭨﮭﺎ ﺭﮐﮭﯽ۔ ﺭﺍﺕ ﮔﮱ ﻓﻨﮑﺸﻦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﮔﮱ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩە ﻗﺪﺁﻭﺭ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧکھ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﺼﺒﺢ ﮐﮭﻞ ﮔﺊ۔ ﻣﯿﮟ ﺍٹھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻓﺮﯾﺐ ﻣﻨﻈﺮﮐﺎ ﻧﻈﺎرە ﮐﺮﻧﮯ ﻭﮨﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ۔ ﮔﺎؤﮞ ﻭﺍﻟﮯ ﺗﻮ ﺳﺤﺮ ﺧﯿﺰﯼ ﮐﮯ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﻟﻮﮒ ﺭﺍﺕ کے ﻓﻨﮑﺸﻦ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﻤﯿﭩﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑھ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮧ ﻧﻔﺲ ﻧﻔﯿﺲ ﺧﻮﺩ ﮨﺎتھ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﭩﮏ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺁﺗﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﮰ۔ ﻏﺎﻟﺒﺎ " ﺑﺎﻏﯿﭽﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﻧﻨﮓ ﻭﺍﮎ ﺳﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻨﻈﺮ ﺳﮯ ﻣﺤﻈﻮﻅ ﮨﯽ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﻨﺎﺉ ﺩﯼ،

" ﺍﻭﮰ ﺭﺣﻤﺎﻥ ! ؂ ﮐﻨﺠﺮﺍﮞ ﺩﮮ ﭼﺎئے ﻧﺎﺷﺘﮯ ﺩﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﺗﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﻧﺎ "
" ﮨﺎﮞ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ۔ ﺗﺴﺎﮞ ﻓﮑﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﻭ۔ ﮐﻮﺉ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺩﺍ ﻣﻮﻗﻊ ﻧﮧ ﻣﻞ ﺳﯽ "
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﭼﻮﮨﺪﺭﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺟﻮ ﮨﻢ ﮐﻨﺠﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮱ ﮐﺎﻓﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﻨﺪ ﺗﮭﮯ
ﻣﺰﯾﺪ ﺗﺎﮐﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﮰ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ٬
" ﮨﺎﮞ ﺑﮭﺊ ﺍﮮ ﮐﻨﺠﺮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﮨﯿﮟـ

ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺘﺮ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﺁﮰ ﮨﯿﮟ ۔ ﺧﻮﺵ ﺧﻮﺵ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﮯ ﭼﺎﮨﺌﯿﮟ "
ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﺰﺕ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ..
ﮨﻤﯿﮟ ﮈﮬﯿﺮﻭﮞ ﭘﯿﺴﮧ ﻣﻼ...
ﺁؤ ﺑﮭﮕﺖ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﺉ..
ﺟﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﯽ ﺭﯾﺖ ﺗﮭﯽ..
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮑﯽ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻓﻘﻂ ﮐﻨﺠﺮ ﮨﯽ ﺗﮭﮯ..
ﺍﻭﺭ ﮐﻨﺠﺮ ﺗﻮ ﮐﻨﺠﺮ ﮨﯽ ﮨﻮ ﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ...

کم از کم اس چوھدری کو یہ تو احساس تھا کہ یہ کنجر ھمارے مہمان ہیں ان کو خوش خوش جانا چاہئے ،،

05/04/2017

اب سنجیدگی سے بات کرتے ہیں، دھشت گردی پورے ملک کا اور ہم سب کا اجتماعی مسئلہ ہے اور اسکے خلاف جدوجہد کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔ ہر دھماکے کے بعد سیکیورٹی بڑھانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے مساجد پر حملہ کیا ، آپ نے وہاں پولیس والے بٹھادئے وہ پولیو والوں پر حملہ کرنے لگے آپ نے ان کے ساتھ فوجی نتھی کردیا تو وہ بازاروں میں آکر پھٹنے لگے ، آپ کہاں کہاں کدھر کدھر سیکیورٹی بڑھاتے جائینگے۔

مسئلے کا حل سادہ ہے۔ دھشت گردی کو سپورٹ کرنے والا ریاستی بیانیہ ختم کریں۔ گڈ طالبان بیڈ طالبان ، چنگا دھشت گرد تے ماڑا دھشت گرد کی تنسیخ ختم کریں۔ رمضان مینگل سمیت جس جس دھشت گرد کو آپ نے خودساختہ ریاستی مفادات کی آڑ تلے امان دی ہوئی ہے ، واپس لیجئے۔ کوئی جماعت اگر کالعدم ہے تو پھر اس کو سانس لینے کے علاوہ کسی دوسری سرگرمی کی اجازت نہیں ہونی چاہئے اور اگر آبپارہ کے چوک پر ان سے نعرے لگوانے کی مجبوری ان کو کھل کھیلنے کی اجازت دیتی ہے تو قوم کو چ بنانا بند کریں۔

چوہدری نثار جیسے دھشت گردوں کے سہولت کار کو ہٹاکر کوئی ایسا مردجری وزیر داخلہ لگائیں جس کےاوپر اور نیچے دونوں جگہ بال موجود ہوں۔ سب سے اہم ہر سانحے کے بعد سیکیورٹی ادارے معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لئے جعلی کارگزاریاں دکھانے سے گریز کریں۔ افغانوں کے نام پر پشتونوں کی پکڑ دھکڑ اور پھر ان سے پیسے لے کر چھوڑنا ، اب ایک کاروبار بن چکا ہے۔ سڑکوں سے ٹوپی پہنے مزدور اٹھاکر انہیں لشکر فلانی لشکر ٹنگانی کا کمانڈر ظاہر کرکے راوانواری پولیس مقابلوں میں پار کرنے سے آپ دھشت گردوں کی الٹا مدد کررہے ہیں۔

دھشت گردی ختم کرنےکے لئے عوام اپنے مسلکی و لسانی اختلافات بھلاکر ایک ہونے کو تیار ہیں، ریاست تو پہلے یک سو ہو۔ دھشت گرد ہم میں سے ہی ہیںِ ، ہمارے اندر ہی موجود ہیں، انہیں فنڈنگ بھلے باہر سے ملتی ہو مگر سہولت کاری سے لے کر ہتھیار تک اندرون ملک سے ہی مہیا ہوتے ہیں۔ ایران ، انڈیا، قطر، افغانستان پر الزام دھرکر خود کو ننھا کاکا ثابت کرنے کی روایت ترک کیجئے

04/04/2017

جو ورق پھاڑڈالا تھا بھٹو نے اس پر کیا لکھا تھا

ذوالفقارعلی بھٹو نے سلامتی کونسل میں کچھ اوراق پھاڑدیے تھے، دنیا نے دیکھا۔ مہینوں کو محیط رات کے آخری پہربھٹو نے ایک ورق پھاڑ دیا تھا، کسی نے نہیں دیکھا۔ سلامتی کونسل میں بکھرے کاغذ کے پرزوں پر پولینڈ کی قرارداد درج تھی یا بھٹو کی اپنی تقریر کے مندرجات، یہ سب جاننا چاہتے ہیں۔ رات کی تاریکی میں چمکتے پرزوں پہ کیا لکھا تھا، کوئی جاننا نہیں چاہتا۔ بھٹو کے نکل جانے کے بعد اقوام متحدہ ایسوسی ایٹڈ پریس کے نامہ نگار افتخارعلی ٹکڑے جوڑ کرمندرجات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر کرنل رفیع الدین کال کوٹھڑی میں بکھرے اوراق کا نوشتہ جاننا نہیں چاہتے۔ وہ شاید عدم کی طرح فقط ان کی بدن بولی پہ دھیان دیے ہوئے تھے۔

کرنل رفیع الدین راولپنڈی کے سیکیورٹی انچارج تھے۔ یہیں ذولفقارعلی بھٹو پابند سلاسل تھے۔ بھٹو صاحب کے شب وروز کرنل رفیع نے بچشمِ خود دیکھے۔ شب و ورز کا جتنا کہا سنا دستیاب تھا، کرنل رفیع نے اپنی خود نوشت ”بھٹو کے آخری تین سو تئیس دن“ میں درج کردیے ہیں۔ بھٹو صاحب کی آخری رات اسی کتاب میں میں چپ چاپ ٹھہل رہی ہے۔ کرنل رفیع نے کیا دیکھا۔ آپ بھی دیکھیے
جیل سپرٹینڈنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کے سیل میں شام ساڑھے چھ بجے ایک شخص کے ساتھ دورہ کیا، جیل عہدیدار نے پی پی پی کے بانی کو فرش پر لیٹے ہوئے پایا تو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پہلے ان کا نام پکارا اور پھر پھانسی کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا۔

کرنل رفیع نے حکم نامے میں کیا سنا۔ آپ بھی سنیے

”عدالتی احکامات کے مطابق اٹھارہ مارچ 1978 کے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق آپ یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں پھانسی پر لٹکایا جائے گا، آپ کی سپریم کورٹ میں درخواست چھ فروری 1979 کو مسترد کردی گئی اور نظرثانی درخواست کو چوبیس مارچ 1979 کو رد کیا گیا۔ صدر پاکستان نے اس معاملے میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اب آپ کو لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘

اس موقع پر کرنل رفیع الدین نے بھٹو کے چہرے پر کیا تاثرات دیکھے۔ آپ بھی دیکھیے

”سپرٹینڈنٹ جب حکم نامہ پڑھ رہے تھے تو میں نے بھٹو صاحب کے چہرے پر کسی قسم کی فکر کے آثار نہیں دیکھے بلکہ میں نے انہیں پرسکون اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے دیکھا“۔

کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بھٹو صاحب نے کیا کہا۔ سن لیجیے

”پھانسی کے احکامات سزا کے چوبیس گھنٹے پہلے سنائے جانے چاہیے تھے مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب صبح ساڑھے گیارہ بجے میں اپنی اہلیہ اور بیٹی سے ملا تو مجھے سزا کے دن یا وقت کے بارے میں معلوم نہیں تھا“

سپریٹنڈنٹ نے پوچھا، سزا میں کچھ ہی گھنٹے رہتے ہیں۔ کیا آپ وصیت لکھنا چاہیں گے؟ بھٹو صاحب نے اثبات میں جواب دیا اور کاغذ قلم طلب کیا۔ کاغذ قلم مہیا کردیا گیا۔ رات آٹھ بجے بھٹو صاحب نے کافی پی۔ اپنے مشقتی عبدالرحمن کو پانی گرم کرنے کو کہا۔ شیو بنائی دانت مانجھے تازہ دم ہوگئے۔ بستر پر نیم دراز لیٹ کر کچھ لکھنے لگے۔ یکایک رکے، وارڈن کو آواز دے کر پوچھا پھانسی میں کتنا وقت رہ گیا ہے۔ جواب ملا، کچھ ہی گھنٹے رہتے ہوں گے۔ قلم بند کیا، ورق پھاڑ ڈاالا، یہ کہہ کر سوگئے کہ ایک بجے سے پہلے اٹھا دینا۔ اس کے بعد کی داستان وہی ہے، جس نے چار اپریل کو خلیفۃ المسلمین کی شکست کا دن بنا دیا۔ ایک سوال مگر پیچھے رہ گیا۔ جو ورق بھٹو صاحب نے پھاڑ دیا تھا، اس پر کیا لکھا تھا۔ مورخ ان اوراق کو مسل کے گذر جاتا ہے۔ نہیں بتانا چاہتا کہ کیا لکھا تھا۔ اب یہی سوال رہ جاتا ہے کہ ان اوراق پہ کیا لکھا ہوگا۔

مدتوں کی مسافت اب تک طے ہوچکی۔ پھانسی دینے والے مرگئے۔ سولی چڑھنے والا زندہ ہے۔ پلوں کے اوپر نیچے سے کئی پانی گذرگیا۔ چار اپریل آتا ہے، گذر جاتا ہے۔ آج چار اپریل ہے۔ بکھرے ہوئے ورق کے پرزے سامنے ہے۔ جوڑیے تو تصویر نہیں بن پاتی۔ جو لکھا ہے، بمشکل تمام یہی سمجھ آرہا ہے کہ

”زندگی دراصل جنم لینے کا عمل ہے۔ موت پیدائش کا اعلان ہوتی ہے۔ موت صرف اتنا بتاتی ہے کہ آپ زندہ حالت میں پیدا ہوئے کہ مردہ حالت میں۔ میں دو بج کر پانچ منٹ پر پیدا ہونے والا ہوں۔ ظلم کی تقدیر بتاتی ہے کہ میں زندہ حالت میں پیداہوں گا۔ جینے کے لیے پیدا ہوں گا۔ مجھے کوئی سولی نہیں چڑھا سکتا۔ یہ حق کسی جابر کا نہیں کہ مجھے مار ڈالے۔ یہ حق صرف اپنے ورثا کو دے سکتا ہوں، چاہیں تو زندہ رکھیں۔ چاہیں تو مارڈالیں“

چیخنے چلانے کا نہیں، چار اپریل غور وفکر کا دن ہے۔ یہ تو طے ہے کہ جنرل ضیا الحق کی سجائی ہوئی سولی سے بھٹو نے جنم لیا تھا۔ یہ دیکھنا رہتا ہے کہ بہت کم عمری میں بھٹو کہاں چلے گئے۔ جہاں کہیں بھی ہیں، کوئی معلوم کرکے بتائے کہ زندہ ہیں یا ماردیے گئے ہے۔ زندہ ہیں تو یقیناً ہر اس گھر میں ہوں گے جس کی چھت برسات میں ٹپکتی ہے۔ اگر وہاں بھی نہیں ہیں پھر یقینا مار دیے گئے ہوں گے۔ ایسا ہے تو پھر خنجرآزما کون ہے؟

دیوار کا یہ نوشتہ پڑھ کر ابلیس پہ بہت پیار آیا. ظالم نے اپنی ایجنسی کے لیے لیبیا کے معمر قذافی کی طرح بے پردہ خواتین کا ...
19/01/2017

دیوار کا یہ نوشتہ پڑھ کر ابلیس پہ بہت پیار آیا. ظالم نے اپنی ایجنسی کے لیے لیبیا کے معمر قذافی کی طرح بے پردہ خواتین کا انتخاب کررکھا ہے.

وہ ناشتہ کر رھی تھی. مگر اس کی نظر امی پر جمی ھوئی تھی. ادھر امی ذرا سی غافل ھوئی. ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون...
04/01/2017

وہ ناشتہ کر رھی تھی. مگر اس کی نظر امی پر جمی ھوئی تھی. ادھر امی ذرا سی غافل ھوئی. ادھر اس نے ایک روٹی لپٹ کر اپنی پتلون کی جیب میں ڈال لی. وہ سمجھتی تھی کہ امی کو خبر نہیں ھوئی. مگر وہ یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ماؤں کو ہر بات کی خبر ھوتی ھے. وہ سکول جانے کے لئے گھر سے باہر نکلی .اور پھر تعاقب شروع ھو گیا. تعاقب کرنے والا ایک آدمی تھا. وہ اپنے تعاقب سے بے خبر کندھوں پر سکول بیگ لٹکائے اچھلتی کودتی چلی جا رھی تھی. جب وہ سکول پہنچی تو,, دعا,,شروع ھو چکی تھی. وہ بھاگ کر دعا میں شامل ھو گئی. بھاگنے کی وجہ سے روٹی سرک کر اس کی جیب میں سے باہر جھانکنے لگی. اس کی سہیلیاں یہ منظر دیکھ کر مسکرانے لگیں. مگر وہ اپنا سر جھکائے، آنکھیں بند کیے پورےانہماک سے جانے کس کے لئے دعا مانگ رھی تھی. تعاقب کرنے والا اوٹ میں چھپا اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھے ھوئے تھا .دعا کے بعد وہ اپنی کلاس میں آ گئی .باقی وقت پڑھنے لکھنے میں گزرا .مگر اس نے روٹی نہیں کھائی. گھنٹی بجنے کے ساتھ ھی سکول سے چھٹی کا اعلان ھوا. تمام بچے باہر کی طرف لپکے. اب وہ بھی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی. مگر اس بار اس نے اپنا راستہ بدل لیا تھا. تعاقب کرنے والا اب بھی تعاقب جاری رکھے ھوئے تھا .پھر اس نے دیکھا .وہ بچی ایک جھونپڑی کے سامنے رکی .جھونپڑی کے باہر ایک بچہ منتظر نگاھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا. اس بچی نے اپنی پتلون کی جیب میں سے روٹی نکال کر اس بچے کے حوالے کر دی. بچے کی آنکھیں جگمگانے لگیں .اب وہ بے صبری سے نوالے چبا رہا تھا. بچی آگے بڑھ گئی. مگر تعاقب کرنے والے کے پاؤں پتھر ھو چکے تھے.وہ آوازوں کی باز گشت سن رہا تھا.
,,لگتا ھے کہ اپنی,, منی,,بیمار ھے...,,
,,کیوں...کیا ھوا ...,,
,,اس کے پیٹ میں کیڑے ھیں...ناشتہ کرنے کے باوجود ایک روٹی اپنے ساتھ سکول لے کر جاتی ھے. وہ بھی چوری سے....,, یہ اس کی بیوی تھی.
,,کیا آپ کی بیٹی گھر سے کھانا کھا کر نہیں آتی...,,
,,کیوں...کیا ھوا....,,
,,روزانہ اس کی جیب میں ایک روٹی ھوتی ھے....,, یہ کلاس ٹیچر تھی..... وہ جب اپنے گھر میں داخل ھوا. تو اس کے کندھے جھکے ھوئے تھے.
,,ابو جی... ابو جی...,, کہتے ھوئے منی اس کی گود میں سوار ھو گئی.
,,کچھ پتا چلا...,, اس کی بیوی نے پوچھا.
,,ھاں....پیٹ میں کیڑا نہیں ھے. درد دل کا مرض ھے...,,ابو کا دل بھر آیا .منی کچھ سمجھ نہیں پائی تھی

~♡خدا کرے کہ نئے سال کے کلینڈر میں♡~زمین پہ امن کے پیڑوں کی فصل اگتی رہےکسی پرندے کے گیتوں میں کوئی آہ نہ ہوسسکتے غم کے ...
01/01/2017

~♡خدا کرے کہ نئے سال کے کلینڈر میں♡~
زمین پہ امن کے پیڑوں کی فصل اگتی رہے
کسی پرندے کے گیتوں میں کوئی آہ نہ ہو
سسکتے غم کے اندھیروں میں ڈوبی راہ نہ ہو
کسی بهی عالمی منڈی میں کوئی بکتا نہ ہو
کوئی بهی اندهی سیاہی سے کبھی لکهتا نہ ہو
کسی کی گود کسی کا سہاگ نہ اجڑے
~♡خدا کرے کہ نئے سال کے کلینڈر میں♡~
کسی بھی ملک کی سرحد پہ کوئی جنگ نہ ہو
کسی بهی ظلم یا سفاکی کی امنگ نہ ہو
خدا کرے کہ نہ ہوں نفرتوں کے زرد گلاب
ستم رسیدہ سے لوگوں پہ غربتوں کے عزاب
کسی کی جواں کی نگاہوں میں نہ ہوں ٹوٹے ہوئے خواب
نیا برس جو لکھیں اس میں یہ نصاب نہ ہو
~♡خدا کرے کہ نئے سال کے کلینڈر میں♡~
کوئی سوال ایسا نہ ہو کہ جواب نہ ہو
اسکول جانے کی عمروں میں پهول سے بچے
ہر ایک چوک پہ اخبار،پھول بیچتے ہیں
کہیں پہ جسم کہیں خواہشیں بھی بکتی ہیں
کہیں پہ رشتے یا انصاف بهی تو بکتا ہے
خدا کرے کے نئے سال میں نہ ہو کچھ خراب
ہر ایک مہینہ ہو روشن ہر ایک دن ہو سواب
خدا کرے کہ نئے سال کے کلینڈر میں
زمین پہ امن کے پیڑوں کی فصل اگتی رہے....
(آمین یا رب العالمین)

29/12/2016

پارسا دوستوں سے معزرت
بچوں کی پہنچ سے دور رکھیں.
صرف شادی شدہ خواتین و حضرات پڑھیں
خواتین چاھیں تو آنکھیں بند کرکے پڑھیں ہاں زبان ضرور بند ہونی چاہیے.
آج میں ایک ایشو پر صاف صاف اور کھل کر لکھنا چاہتا ہوں.
*
ایک دوست کی وال پر سوال تھا
لڑکیوں کا اپنی پسند سے شادی کرنا کیوں گناہ سمجھا جاتا ہے... ؟؟؟
الجواب
کیونکہ برصغیر پاک ہند میں شادی کا مطلب ہم بستری سمجھا جاتا ہے
اگر کسی کو کہا جائے کہ میں آپ کو پسند کرتا ہوں, یا پیار کرتا ہوں
تو کہنے والے اور سننے والی کے زھن میں سیکس بھرا ہوتا ہے
یہ پیار کا مطلب ہمیں ڈراموں, فلموں نے خوب اچھی طرح سمجھا دیا ہے
ہیرو ہیروہین ملے پیار ہوا
شادی ہوئی نہ ہوئی شادی سے پہلے ہی باقائدہ آدھے سے زیادہ کام دیکھا دیا بلکہ اب تو تقریباً پورا ہی دیکھا دیتے ہیں اور دیکھاتے اس طرح ہیں کہ یہاں لڑکا لڑکی بستر میں گئے وہاں کیمرہ سیدھا پھولوں کی جوڑی پر انھیں ہلتے ہوئے دیکھا دیا اب تو پورا دو تین مینٹ کا سین بستر میں ہی دیکھا دیتے ہیں
کچھ اندھیرا کرکے تاکہ آپ خود سمجھ جائیں کیا ہورہا ہے.
یہ فالتو باتیں کرنے کا مقصد یہ تھا کہ
ہمارے یہاں شادی, پیار وغیرہ کو صرف وجہ سیکس سمجھا جاتا ہے.
یہاں کسی سے شادی کی بات کرو فوراً اس کے دماغ میں سہاگ رات آجاتی ہے فلموں ڈراموں میں انھیں شرماکر کمرے میں جاتے دیکھایا جاتا ہے
بھائی شرم کی بات کیا ہے آپ ایک شخص کے ساتھ پوری زندگی کا اگریمینٹ کررہے ہیں شرمانے کی بجائے سنجیدہ ہوکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شرائظ پر بات ہونی چاہیے
لیکن یہاں شادی کا
مطلب لڑکا لڑکی کا ایک ساتھ سونا سمجھا جاتا ہے
جب کہ یہ تو شادی کے ایک سال بعد ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ شادی کیا ہوتی ہے جب مرد عورت اصل عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں.
خیر ہمارے معاشرے میں جب کوئی لڑکی اپنے باپ یا بھائی سے آکر کہے کی میں اپنی پسند کے لڑکے سے شادی کرونگی تو ان غیرت مند باپ بھائی کے دماغ میں ایک ہی بات آتی ہے کہ گاؤں, محلے والے یا رشتیدار کیا سوچیں گے کہ ہماری بیٹی اپنے ساتھ سونے کے لیے خود لڑکا پسند کررہی ہے.
حلانکہ اُن سمیت تمام رشتیداروں کی خوائش یہ ہے کہ وہ لڑکی ہمارے پسند کے لڑکے کے ساتھ سونے لگے,مطلب سارا معاشرہ لڑکی کے ساتھ زبردستی کرتا ہے
اب چاہے اس میں لڑکی کی مرضی ہو یا نہ ہو
یہ گناہ ہے
کئی لوگ تو رشتوں میں آگ ہی اس لیے لگاتے ہیں کہ فلاں کی بیٹی ہمارے بیٹے کو پسند ہے اگر یہ ہمارے بیٹے کے ساتھ نہ سوئی مطلب شادی نہیں کی تو اسے زندہ رہنے کا بھی کوئی حق نہیں
اسی لیے پھر باپ بھائیوں کو غیرت دلا کر لڑکا لڑکی دونوں کو ہی مروادیتے ہیں.
یہ تو ہوا الجواب...
اب سنیں میری بات شادی میں سیکس پوری شادی لائف کے بس ایک لمحے برابر مطلب 100 میں سے %5 ہوتا ہے
باقی %95 زندگی گزارنے کے لیے اگر کوئی ہم خیال ایسا انسان مل جائے جیسے ہماری بیٹی یہ سمجھتی ہو کہ یہ میرا خیال میرے باپ بھائیوں سے بھی زیادہ رکھ سکتا ہے
ہم ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں
تو اُسے یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرسکے
اب کچھ لوگوں کے دماغ میں فوراً پولیو کے اُس اکلوتے کیس کی طرح کوئی پسند کی شادی کا بگڑا ہوا کیس آجائے جو پانچ سات سال میں اگر ایک مل گیا تو اُسی کا ڈھول پیٹنا شروع کردیں گے.
تو بھائی اگر 100 میں سے %20 پسند کی شادی ناکام ہو بھی گئیں تو 80 کامیاب بھی تو ہوتی ہیں ان کے گیت آپ کیوں نہیں گاتے.
اگر دیکھا جائے تو والدین کی مرضی کی %80 فیصد شادیاں آخر میں صرف کمپرومائز رہ جاتی ہیں
عورت مار کھاتی رہتی ہے مگر باپ بھائی کی عزت کی خاطر چپ رہتی ہے...
اس کا صاف حل تو یہ ہے کہ آپ اپنی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دیں ان کو نوکری کرنے کی اجازت دیں
ہر طرح سے اپنی بچی جو مرد کے برابر کردیں کل کو وہ شادی آپ کی پسند سے کرے یا اپنی پسند سے شادی ناکام ہونے کی صورت میں وہ کسی کی محتاج نہ ہو اپنا خود کماکر زندگی گزارنے کے قابل ہو.
بھائی سیکس ویکس کچھ نہیں ہوتا اصل میں زندگی بھر آپ کی زندگی کا ساتھی کون ہوگا کون آپ کے لیے اچھا ہے اور کون نہیں
ماں باپ کبھی نہیں چاہتے کہ انکی بیٹی کوئی غلط قدم اُٹھائے جس سے اسے اور ہمیں تکلیف ہو وہ ہمیشہ اپنے بچوں کے لیے اچھا سوچتے ہیں
لیکن اگر ایسا ہو کہ جو لڑکی کو پسند ہو اس سے ملیں ان کے ماں باپ سے ملیں دوچار مھینے آنا جانا رکھیں اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد شادی کردیں تو لڑکی کی پسند بھی پوری ہوجائے اور آپ کا دل بھی مطمئن ہوجائے
یہ ہوگا بس اس صورت میں جب جہالت کہ مارے کاغزی غیرت مندوں کے دماغ سے یہ بات نکال دی جائے کہ شادی صرف سیکس یا ساتھ سونے ہمبستری کا نام نہیں پوری زندگی صرف ایک کے ساتھ رہنے کا نام ہے.
وہ ایک جیسے آپ چنتے ہیں جیسے کاروبار میں پاٹنر چنتے ہیں,
جیسے اپنے لیے کپڑے چنتے ہیں
بھائی بہنیں تو قدرت کی طرف سے زبردستی آپ کے رشتہ دار ہوجاتے ہیں لیکن دوست ہم چنتے ہیں..
اب اس میں غیرت یا بیغیرتی کہاں سے آگئی...
ماں باپ نے تو مر کھپ جانا ہے بھائیوں کی بیویوں نے انہیں پھر گھر میں گھسنے نہیں دینا اگر رکھ بھی لیا تو ہمیں پتا ہے وہ نوکرانی بن جائے گی اور ان کے بچے لاوارثوں کی طرح ہوجائینگے
تعلیم ہوگی تو اپنی اور بچوں کی زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ تو کر ہی لے گی...

16/12/2016

"سولہ دسمبر"

ماوں نے بچے تیار کرکے اسکول بھیج دیے ہیں. گھروں میں ایک سناٹا پھیل گیا ہے، جو بچوں کے جاتے ہی ماوں کو ڈسنے لگتا ہے.

کچھ ہی فاصلے پر مجاہدین اپنے تسمے کس چکے ہیں. نصر من اللہ وفتح قریب کا ورد جاری ہے. روتے بلکتے مناجات کر رہے ہیں. خدا سے دعا مانگ رہے ہیں

"گھمسان کا رن پڑنے کو ہے، الہی غیب سے نصرت بھیجنا"

امیر لشکر نے حکم کیا ہے

"دنیا کی تاریخ کا ایک منفرد معرکہ تم نے لڑنا ہے، جس میں معصوم بچوں کی فوج تمہارے مدمقابل ہوگی. ان کے لنچ بکس کھلنے سے پہلے تم نے برسٹ کھولنا ہے، اور ہر فائر کے ساتھ ایک تکبیر بلند کرنی ہے"

مائیں منتظر ہیں کہ بچے لوٹ کر آئیں گے. مگر یہ ایک لمبا انتظار ہے. وہ نہیں جانتیں کہ نصرت کے فرشتے قطار اندر قطار اترکر پشاور کو اپنے حصار میں لے رہے ہیں.

خاندان کے بزرگ بتاتے تھے کہ بچے مرجائیں تو پریوں کی مانند جنت کی فضاوں میں اڑتے ہیں.

اور الہامی سیاست کے بزرگوں نے بتایا تھا کہ یہ جو وزیرستان سے آکر پھٹتے ہیں، یہ شہید ہوتے ہیں.

المیہ یہ نہیں کہ کچھ دیر میں مجاہدین نے پریوں کو خون میں تڑپادینا ہے. المیہ یہ ہے کہ یہ پریاں اور یہ مجاہدین، دونوں کا ٹھکانہ جنت ہے.

اُس پار کی تمنا میں!!اِس پار جی سکا نہ میں
10/12/2016

اُس پار کی تمنا میں!!
اِس پار جی سکا نہ میں

Address

Mingora

Telephone

+923455272634

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Parbat Badosh posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share