ملتان کے ایک سکول میں پولیس غالبا دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ریہرسل کر رہی تھی۔ ایک ماں اپنے بچے کو لینے سکول آئی۔ اس نے پولیس کو دیکھا اس کے بعد اس نے کیا کیا یہ آپ خود دیکھ لیں۔ ہم نے سماج کو وہاں پہنچا دیا جہاں بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے اب ماوں کے کلیجے دہلتے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے خیالی قائم کردہ کسی گروہ کی نظریاتی برتری کی جنگ ضرور لڑ رہے ہوں گے۔ اس نظریاتی جنگ کی مرغی جو سونے کے انڈے دے گی وہ انہیں کو مبارک۔ سماج میں ہماری روشن خیالی کے لئے مکالمے کی جنگ اپنی ماوں کو اس خوف سے نجات دلانے کے لئے ہے۔ ہم اپنے بچوں اور ماوں کو شدت پسندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم شدت پسندی کی دامے درمے سخنے عذرخواہوں کے خلاف مکالمے کی یہ جنگ برقرار رکھیں گے۔ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے۔
یرغمال منبر ومحراب کو نفرت کے سوداگروں سے بازیاب کرواکر ایسے سماج دوست علمائے کرام کے حوالے کرنا چاہیے. ❤
جلدی سے آگے آگے آجاو.
پہلے یہ بتاو کہ راک اسٹار مووی کیلیے گائی گئی اے آر رحمن کی قوالی "کن فیکون" سنی ہے آپ نے؟ ظاہر ہے کس کافرنے نہیں سنی ہوگی.
اب بارکلے کالج آف میوزک کے طلبائے موسیقیات اور مہان موسیقاروں کو ذرا سنیئے کہ اسی قوالی پہ انہوں نے کس طرح ہنر آزمایا ہے.
سماع و ردیف کی تکرار، تالی اور دھیمے رقص کا تال میل، کثیرالثقافتی نمائندگی، متعدد آوازوں کی جگل بندی، اور پھر آخر میں ایک وہ لال سرخ مصری جس نے "یاعلی" ایسا اٹھایا کہ جھولے لعل کردیا.
سننے سے زیادہ دیکھنے کی اور دیکھنے سے زیادہ سننے کی چیز ہے. عید کا تحفہ ہی سمجھ کے رکھ لو... سن لو مزہ آئے گا. ❤
کن فیکون، کن فیکون فیکون.
فیکون.......فیکون........فیکون.
عمران خان کی ذاتی زندگی اور ان کے بطور لیڈر کردار پر بحث جاری ہے - کہا جا رہا ہے کہ سیاسی لیڈر کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی بلکہ وہ اوپن ہوتا ہے - اس کے گھر کی دیواریں بھی نہیں ہونی چاہئیں کیونکہ جس کا دل کرے وہ جھانک سکے اور دیکھ سکے کہ اس کا لیڈر کس کے ساتھ کیا کر رہا ہے یا خلوت کے مزے لوٹ رہا ہے - سیاستدان کو شیشے کے ڈربہ میں بند کر کے کسی قطب مینار یا مینار پاکستان پر رکھ دینا چاہئے کہ ہر آتا جاتا دیکھ سکے کہ اس کے لیڈر کی پرسنل لائف کیا ہے - عجیب عجیب دلائل آ رہے ہیں کہ سیاستدان کی ذاتی زندگی ہوتی ہی نہیں - اس کا مطلب یہ کہ کوئی بھی قابل احترام ذاتی زندگی کا حامل شخص سیاست میں نہ آئے کیونکہ آپ جیسے مرضی آئے اسے ڈسکس کر سکتے ہو ، جب مرضی آئے اس کے بیڈ روم میں جھانک سکتے ہو اور جب مرضی آئے اس کے بیت الخلاء میں چھاپہ مار سکتے ہو کہ کہیں سرکاری خرچے پر پل کر سونے کے انڈے دے کر چھپا تو نہیں رہا -
اور یہ صرف سیاستدان ہی کیوں ، ریاست کے باقی ستون کیوں نہیں ؟ ابھی کچھ دن پہلے ابو علیحہ Abu Aleeha صحافی حضرات کے سکینڈلز منظر عام پر لایا تو صحافیوں میں بے چینی دوڑ گئی ، ایک نے کہا کہ اس سے میری ذاتی زندگی بہت ڈسٹرب ہوئی ہے ، ہماری فیلمی اس پر بہت دکھی ہے ، تو جناب سیاستدانوں کی زندگی کچرا ہے جب چاہو اور جس پر چاہو گند اچھال سکتے ہو ؟ عدالت میں ثابت کرنے کی باری آئے تو کہتے ہو کہ یہ ہماری ذمہ داری نہیں .....کیوں نہ جی ایچ کیو اور اس کے سربراہان کو بھی یوں ہی اوپن کر دیا جائے جیسا آپ سیاستدانوں کے بارے میں فرماتے ہو ، ریاست کے باقی ستون کیوں نہیں ؟- عدلیہ اس سے مستثنیٰ کیوں ؟ میڈیا کے تمام صحافی اپنے اثاثے کیوں نہیں ظاہر کرتے ؟ یہاں یقین کریں سیاستدانوں پر ہی کیچڑ اچھالنا فیشن بن گیا ہے -
میں عمران خان کی سیاست کا سخت ناقد ہوں آپ سب جانتے ہیں - مگر مجھے لبرل اقدار نے یہی سکھایا ہے کہ ذاتی زندگی کسی کی بھی ہو وہ مقدس اور قابل احترام ہے - عمران کی شادی و طلاق اس کا ذاتی معاملہ ہے اور ہمیں اس کا احترام کرنا لازم ہے -
دلیل میں بار بار مونیکا اور کلنٹن کی بات کی جاتی ہے - اس دلیل کی کمزوری یہ ہے کہ اس معاملہ کے تمام فریق خاص طور پر مونیکا کی ذاتی زندگی کو بالکل ہی کھڈے لائن لگا دیا جاتا ہے - آپ جس طرح کی رپورٹنگ عمران و ریحام کے بارے میں کر رہے ہو اس سے کتنے ہی لوگ متاثر