راجپوت الپیال

راجپوت الپیال Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from راجپوت الپیال, Eco tour agency, Rawalpindi.

_*"میں ڈاکو ضرور آں پر بےغيرت نئی آں۔"*_مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃ الله علیہ نےاپنی کتاب میں لکھا، فرماتے ہیں:مج...
04/03/2024

_*"میں ڈاکو ضرور آں پر بےغيرت نئی آں۔"*_
مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃ الله علیہ نےاپنی کتاب میں لکھا، فرماتے ہیں:
مجھے وہاڑی کے ایک گاؤں سے بڑا محبت بھرا خط لکھا گیا
کہ مولانا صاحب ہمارے گاؤں میں آج تک سیرة النبى صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بیان نہیں ہوا۔
ہمارا بہت دل کرتا ہے، آپ ہمیں وقت عنایت فرما دیں ہم تیاری کر لیں گے۔
میں نے محبت بھرے جزبات دیکھ کر خط لکھ دیا کہ فلاں تاریخ کو میں حاضر ہو جاؤں گا۔
دیے گئے وقت پر میں فقیر ٹرین پر سے اتر کر تانگہ پر بیٹھ کر گاؤں پہنچ گیا تو آگے
میزبانوں نے مجھے ھدیہ پیش کرکے کہا
مولانا صاحب آپ جا سکتے ہیں،
ہم بیان نہیں کروانا چاہتے۔
وجہ پوچھی تو بتایا کہ ہمارے گاؤں میں %90 قادیانی ہیں
وہ ہمیں دھمکیاں دیتے ہیں
کہ
نہ تو تمہاری عزتیں
نہ مال
نہ گھربار محفوظ رہیں گے۔
اگر
سیرة النبى (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بیان
کروایا تو۔
مولانا ہم کمزور ہیں
غریب ہیں
تعداد میں بھی کم ہیں
اس لیے ہم نہیں کرسکتے۔
میں نے لفافہ واپس کر دیا اور کہا
بات تمہاری ہوتی یا میری ہوتی تو واپس چلا جاتا۔
بات مدینے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کی آگئی ہے۔
اب بیان ہوگا ضرور ہوگا۔
وہ گھبرا گئے کہ حضرت
آپ تو چلے جائیں گے مسئلہ تو ہمارے لیے ہوگا۔
میں نے کہا،
"اس گاؤں کے آس پاس کوئی ڈنڈے والا یعنی بااثر یا غنڈہ ہے؟"
انہوں نے بتایا کہ گاؤں سے کچھ دُور نُورا ڈاکو رہتا ہے !
پُورا علاقہ اس سے ڈرتا ہے۔
میں نے کہا چلو مجھے لے چلو نُورے کے پاس
جب ہم نورے کے ڈیرے پر پہنچے دیکھ
کر نورا بولا اج خیر اے!
مولوی کیویں آگئے نے؟
میں نے کہا کہ
بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت کی آگئی ہے تم کچھ کرو گے؟
میری بات سن کر نورا بجلی کی طرح کھڑا ہوا اور بولا،
"میں ڈاکو ضرور آں پر بےغيرت نئی آں۔"
وہ ہمیں لے کرچل نکلا
مسجد میں 3 گھنٹے بیان کیا میں نے۔
اور نورا ڈٹ کر کھڑا رہا۔
آخر میں نورے نے یہ کہا
کہ اگر کسی نےمسلمانوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو نورے سے بچ نہیں سکے گا۔
میں واپس آگیا
کچھ ماہ بعد میرے گھر پر ایک آدمی آیا
سر پر عمامہ
چہرے پرداڑھی
زبان پر درود پاک کا ورد ۔۔۔!
میں نے پوچھا،
"کون ہو..؟ "
وہ رو کر
بولا،
"مولانا …
میں نورا ڈاکو آں۔
جب اس دن میں واپس گھر کو لوٹا جا کر سو گیا.
آنکھ لگی ہی تھی
پیارے مصطفٰی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے خواب میں تشریف لائے۔
میرا ماتھا چوما اور فرمایا،
"آج تو نے میری عزت پر پہرہ دیا ہے، میں اور میرا اللہ تم سے خوش ہوگئے ہیں۔
اللہ نے
تیرے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیئے ہیں."
مولانا صاحب اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو سب کچھ بدل چکا تھا اب تو ہر وقت آنکھوں سے آنسو ہی خشک نہیں ہوتے مولانا صاحب میں آپ کاشکریہ ادا کرنے آیا ہوں آپ کی وجہ سے تو میری زندگی ہی بدل گئی میری آخرت سنور گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اے میرے پیارے اللہ جو شخص بھی اس کو شیئر کررہاہےاس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت اور قیامت کے دن شفاعت نصیب فرما، آمین

18/02/2024
17/02/2024

*‏پریشر کی وجہ سے ایک بار خودکشی کرنے کی کوشش کی،پھر سوچا کیوں نا سب کچھ عوام کے سامنے رکھوں،انتخابی دھاندلی پر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرتا ہوں،کمشنر راولپنڈی کا بڑا اعلان، ناانصافی پر استعفیٰ دے دیا۔*💔

16/02/2024

‏🚨🚨
الحمداللہ، آج ہم نے الیکشن کے مبینہ نتائج کی تبدیلی دھاندلی کے ثبوت انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے رکھ دیے ہیں۔۔

اس ویڈیو کو دھیان سے دیکھیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔۔

12/02/2024

‏فرعون کا دریائے نیل میں ڈوبنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا.

مگر ڈوبنا پڑا

شداد اگلے سینکڑوں سال اپنی جنت میں عیاشیاں کرنا چاہتا تھا.

مگر دروازے پر پہنچ کر مر گیا

نمرود کی پلاننگ تو کئی صدیاں اور حکومت کرنے کی تھی.

مگر ایک مچھر نے مار ڈالا

یزید نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کر کے اپنے لیے لمبا عرصہ کی بادشاہت کا انتظام کیا تھا.

مگر یزید تین سال بعد ہی عبرتناک موت مر گیا اور آگے اس کی نسل بھی مٹ گئی

ہٹلر کے ارادے اور بھی خطرناک تھے.

مگر حالات ایسے پلٹے کہ خودکشی پر مجبور ہوا،

*دُنیا کے ہر ظالم کو ایک مدت تک ہی وقت ملتا ہے*

جب اللہ کی پکڑ آتی ہے تو کچھ کام نہیں آتا.

سارا غرور ، گھمنڈ، تکبر یہیں پڑا رہ جاتا ہے۔“

12/02/2024

جناب انجینیر قمر السلام (شکست خوردہ امیدوار ن لیگ) حلقہ این اے 53 راولپنڈی کو انتہائی نفیس انداز میں اپنی جیت کے متعلق جواب دیتے ہوئے تفصیلی وڈیو پیغام دیا ہے۔ جبکہ وہ اور باقی حریف امیدواران قابل احترام ہیں۔

بہت ضروری پیغام ہے۔ خود بھی سنیں اور آگے بھی پھیلائیں۔ شکریہ۔

‏الحمدللہ  فارم 47  مل گیا  مبارک ڈیرہ غازی خان  کہ غیور عوام . زر تاج گل‎
11/02/2024

‏الحمدللہ فارم 47 مل گیا
مبارک ڈیرہ غازی خان کہ غیور عوام . زر تاج گل

07/02/2024

اسلام علیکم
میں چوھدری ناطق شکیل ولد چوہدری لال خان کل بھی چوہدری افصل پڑیال کے ساتھ تھے آ ج بھی چوہدری افصل پڑیال کے ساتھ ہی اور پی ٹی آ ئ کے ساتھ ہی میرے والد صاحب نے اپنی زندگی میں چوھدری محمد افضل کے ساتھ دعا خیر کی تھی جس پر میں آ ج بھی قائم ہیں مجھے آ ج پتا چلا کسی دوسری پارٹی نے میرے والد صاحب کی تصویر پوسٹر پر لگائی میں اس کی شدید الفاظ میں مزمت کرتا ھوں تصویر لگانے والے کو سوچنا چاہیے تھا چوہدری لال خان کا سیاسی وارث میں ھو فیصلہ میں نے کرنا تھا کسی اور نے نہیں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے والد صاحب کے دھڑے کے ساتھ کھڑا ہو اور کھڑا رھو گا

مکھیالہ راجدھانی کی آخری  یادگار "قلعہ مکھیالہ"                            علی خان                  کہا جاتا ہے کہ جنجوع...
25/05/2023

مکھیالہ راجدھانی کی آخری یادگار "قلعہ مکھیالہ"

علی خان


کہا جاتا ہے کہ جنجوعہ قبیلہ لگ بھگ تین ہزار سالوں سے کوہِ جود (کوہستان نمک کا پرانا نام) کے ان دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں موجود ہے تاہم کسی بھی تاریخی کتاب میں اس کے ثبوت میں کوئی دستاویزی حوالہ درج نہیں ہے۔

جنرل کننگھم انہیں چندر بنسی راجپوت قبیلے کے یادُد کے بیٹے انو کی نسل سے قرار دیتا ہے۔ کوہستان نمک کے بے آب پہاڑی سلسلے میں زندگی کی سختیاں جھیلنا کس قدر دشوار ہے اس کا اندازہ ایک مقامی ضرب المثل سے لگایا جاسکتا ہے شاید جو صدیوں سے پانی کی تلاش میں سرگرداں اس شجاع قبیلے کی عورتوں کا نوحہ بھی ہے۔

گڑھ مکھیالہ تخت سلوئی
پانٹری بھردی ادھی ہوئی

اس قبیلے نے بارہا بیرونی حملہ آوروں کے مقابل سنگلاخ پہاڑی سلسلے میں مختلف مقامات پر آباد اپنے لوگوں اور اُن کی زمینوں کا دفاع بھی کیا ہے۔ کبھی انہیں شکست ہوتی اور کبھی وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہتے مگر مجموعی طور پر صدیوں سے کوہستان نمک کے کچھ مخصوص علاقے آج بھی اُن کے پاس ہیں۔ غالباً یہ ضلع چکوال کا واحد قبیلہ ہے جو سینکڑوں سالوں سے بیشتر انہی علاقوں میں آباد ہے جہاں اُن کے آباؤ اجداد نے آکرقیام کیا تھا۔

سر ڈینزل ابٹسن کی تصنیف "پنجاب کی ذاتیں"میں درج جنجوعوں کے اپنے بیان کے مطابق وہ راجہ مل راٹھور کی نسل ہیں جو تقریباً 980ء میں جودھ پور یاقنوج سے جہلم کو ہجرت کر گیا اور مالوت (ملوٹ)تعمیر کیا۔ جنجوعہ سلسلہ ہائے نسب راجہ مل سے لے کر صرف 18تا 23پشتیں بتاتے ہوئے حیرت انگیز ہمہ گیریت ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن کا ایک بیٹا "جود "کہلاتا تھا جو کوہستان نمک کا پرانا نام ہے۔

مسٹر برانڈرتھ کہتے ہیں کہ صرف اس (جود یا جودھ) کے بھائی ویر کی اولادیں اب جنجوعہ کے طور پر جانی جاتی ہیں"۔ مزید لکھا ہے کہ "کسی دور میں جنجوعہ سارے خطہ کوہستانِ نمک پر قابض تھے لیکن کگھڑوں نے انہیں مرحلہ بہ مرحلہ شمال میں اور اعوانوں نے مغرب میں نکال دیا۔ اب ان کا قبائلی علاقہ سلسلہ کے صرف مشرقی اور سطی حصہ ہے یہ بالکل وہی علاقہ بنتا ہے جو بابر کے حملہ کے وقت ان کے پاس تھا"۔

980ء میں راجہ مل کی ان علاقوں میں آمد کے بعد ملوٹ اور مکھیالہ راجدھانی کی بنیاد پڑی جو قریب سات سو سالوں تک برقرار رہی۔ راجہ مل کے پانچ بیٹے تھے جن کے نام ویر، جودھ کھیلا، تارلونی اور خاکا تھے۔ ان میں سے ویر اور جودھ کی اولاد ضلع چکوال جبکہ راجہ مل کے دیگر بیٹوں کی اولاد راولپنڈی، اٹک اور کشمیر کے علاقوں میں آباد ہوئی۔ ہم یہاں صرف چکوال کے علاقوں میں آباد ویر اور جودھ کا ذکر کریں گے ۔

راجہ مل کی یہاں آمد اور راج گڑھ (ملوٹ کا پرانا نام) کی بنیاد رکھنے کے بعد جب سلطان محمودغزنوی (997ء-1037ء)نے قنوج(جودھ پور) پر حملہ کیا جہاں اُس وقت ایک راجپوت راٹھور شہزادہ حکمران تھا۔ سلطان محمود غزنوی کی فوج جب اس کو کوہستانی علاقے (سالٹ رینج) سے گزری تو اُ س نے یہاں پر حاکم راجہ مل کو طلب کیا تو وہ حاضر نہ ہوا۔ اس پر سلطان نے اُن پر چڑھائی کردی۔ راجپوتوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر بہت جلد لڑائی بند کردی اور راجپوت روایات کے تحت سلطان محمود غزنوی کی آؤ بھگت کے بعد لڑاکا جوانوں کی کمک بھی پیش کردی جسے سلطان محمود غزنوی نے قبول کر لیا۔

پروفیسر انور بیگ اعوان کی تصنیف "دھنی ادب و ثقافت "کے مطابق متھرا کی کامیابی مہم (ھ1018/409ء) میں پٹھانوں (افغانوں) اور کوہستان ِ نمک کے راجپوت جوانوں کے میل جول نے اور اُن کی اخلاقی و عسکری برتری نے راجپوت راجہ مل کو اسلام کی طرف راغب کردیا۔

بیان کیا جاتا ہے کہ راجہ مل کے اسلام قبول کرنے کے موقع پر جب جنجوں (زُنار) توڑے گئے تو اُسی دن اس نو مسلم قبیلے کا نام "جنجوعہ" پڑ گیا لیکن جنجوعہ راجپوتوں کے شجرہ نسب جو کہ سلطان آف مکھیالہ کے پاس موجود ہے اور جسے راقم (انور بیگ اعوان) نے خود دیکھا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جنجوعہ راجہ مل سے آٹھ نو پشتیں اوپر ایک شخص کا نام ہے۔ تاریخی طور پر ان کا مسلمان ہونا پندرھویں صدی عیسوی سے ثابت ہوتا ہے۔

انسائیکلوپیڈیا آف چکوال کے صفحہ118/119کے مطابق راجہ مل کا اسلامی نام حطیم الدین رکھا گیا تھا اور اس نے سلطان محمود غزنوی کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔

راجہ مل کی وفات کے بعد چکوال کے موجودہ علاقوں میں اُس کے بیٹوں ویر اور جودھ نے ریاست کے علاقے آپس میں تقسیم کر لیے۔ ویر نے کھیوڑہ میں نمک کی کانیں پنڈدادنخان اور کہون کے علاقے لیے جب کہ جودھ نے مکڑاچ نمک کی کان لی۔ جودھ نے مکھیالہ میں آباد مہیال براہمنوں سے اُن کا علاقہ بھی چھین لیا۔ براہمن آبادی کے اس علاقے کا نام اُس وقت مکھشالہ تھا۔ جسے جودھ نے تبدیل کر کے مکھیالہ کردیا۔ براہمنوں کے یہاں دو قبیلے آباد تھے جن کے نام موہن اور بھیموال تھے۔

پروفیسر انور بیگ اعوان لکھتے ہیں کہ مطابق موہن نامی موضع ابھی تک مکھیالہ کے دامن میں بجانب جنوب مشرق ایک میل کے فاصلے پر نشیب میں موجود ہے اور وہاں کی آبادی اعوانوں پر مشتمل ہے جو کہ سلطان آف مکھیالہ کے مزار عین ہیں اور بھیموال قلعہ نندنہ نزد باغانوالہ میں مقیم ہوگئے۔

جودھ نے مکھیالہ پر قبضے کے بعد قلعہ مکھیالہ تعمیر کرایا اور اس میں پانی کے لئے ایک تالاب بھی بنوایا۔ جودھ کے چار بیٹے تھے جن کے نام راجہ راہپال، راجہ سنسپال، راجہ جسپال اور راجہ جے پال تھے۔ اس اعتبار سے قلعہ مکھیالہ لگ بھگ گیارہ سو سال پرانا ہے۔ جنجوعوں نے کوہستان نمک کے ان علاقوں میں کسک، نندنا اور ملوٹ کے قلعے تعمیر کرائے اور ان کے ذریعے سینکڑوں سال تک ان علاقوں کے حکمران رہے۔


1398ء میں تیمور شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تو جنجوعوں نے اُس کی مدد کی اور اُس کے ساتھ جنگوں میں باقاعدہ حصہ لیا۔ 1526ء میں ظہیر الدین بابر کے حملہ کے وقت بھی جنجوعہ قبیلہ پورے کوہستان نمک پر حکمران تھا۔

وہ اس وقت اٹک سے لے کر بھیرہ کے علاقوں تک قابض تھے۔ بابر کی کلر کہار آمد (1526ء915/ھ) کے وقت ملک ہست (اسد) خان نے جنجوعہ سردار تھے اور انہوں نے بابر کی آؤ بھگت کی جس پر بابر نے خوش ہوکر انھیں "سلطان "کا لقب دیا تاہم بابر نے اپنی تُزک میں اس (سلطان کے لقب) کا ذکر نہیں کیا۔ بابر نے اپنی یہاں آمد کے وقت یہاں کے حکمران جنجوعہ قبائل پر تفصیل سے بات کی ہے اور اُن کی کگھڑوں سے دشمنی کا بھی ذکر کیا ہے۔ مکھیالہ، باغانوالہ اور وٹلی کے جنجوعے راجہ جودھ جبکہ ڈلوال کے جنجوعے راجہ مل کے دوسرے بیٹے ویر کی اولاد سے ہیں۔

آئین اکبر ی میں کلر کہار مکھیالہ اور ملوٹ کے پرگنوں کو جنجوعہ سرداروں کے قبضے میں بتایا گیا ہے اور کہار دروازہ (کلر کہار کا پرانا نام) سے 24540، مکھیالہ سے 384000اور ملوٹ سے 133233دام تخمینہ محصول لکھا گیا ہے۔ مغلوں کے زوال پر یہ علاقہ برائے نام درانیوں (ابدالیوں) کے ماتحت رہا تاہم جنجوعہ راجگان آزاد حیثیت میں فیصلے کرتے تھے انھیں ابدالیوں اور بعد ازاں سکھوں کی برتری تسلیم کرنے میں تامل تھا اور اسی باعث رنجیت سنگھ کو جنجوعہ علاقوں پر حملہ کر کے جلاوطن کرنا پڑا۔

مکھیالہ کی سینکڑوں سالوں پر محیط راجدھانی کا اختتام مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ان علاقوں میں آمد سے ہوا۔ رنجیت سنگھ کے 1810ء میں کُسک اور مکھیالہ کے قلعوں پر حملہ کر کے انہیں فتح کرلیا اور جنجوعہ سرداروں کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ جنجوعوں نے رنجیت سنگھ کے خلاف سخت مزاحمت کی تاہم قلعوں میں محصور ہونے اور وہاں پانی کی قلت کے باعث انہیں شکست ہوئی۔

رنجیت سنگھ نے جنجوعوں کو اُن کے علاقوں سے جلا وطن کر دیا تھا تاہم انگریزوں کی آمد پر جنجوعوں کی اپنے علاقوں میں واپسی تک اُن کا اثرو رسوخ ابھی تک باقی تھا۔ انگریزوں نے پنجاب پر قبضے کے بعد 23مارچ 1849ء کو ضلع جہلم بنایا اور اس کا ہیڈ کوارٹرز پنڈدادنخان تھا۔

ڈسٹرکٹ گزیٹئرآف جہلم 1904ء کے مطابق "جنجوعے بھی ایک چھوٹا سا قبیلہ ہیں اور اس وقت کل تقریباً 4000مربع میل میں سے 150مربع میل کے رقبہ میں صرف 60دیہات (ضلع جہلم بشمول چکوال) میں رہتے ہیں لیکن وہ اہم ہیں کیونکہ کگھڑوں کے ساتھ مل کر ضلع (جہلم) کے زمیندار طبقات کی اشرافیہ تشکیل دیتے ہیں ۔ وہ ضلع کے زیادہ تر حصہ پر حکمران رہے نیز اُن کا اثر و رسوخ آج بھی زیر ملکیت علاقے کی حدود سے باہر تک پھیلا ہوا ہے۔ 1904"ء تک کی اسی سرکاری دستاویز میں فتح علی آف کُسک، صوبہ خان آف ملوٹ اور رسالدار میجر جلال خان آف سلوئی کو ان علاقوں میں ممتاز قرار دیا گیا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد بھی کوہستان نمک کے ان علاقوں میں آباد جنجوعہ راجپوت ممتاز خاندان رہا ہے اور یہ علاقہ کی سیاست میں اپنا اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ قلعہ مکھیالہ میں آباد جنجوعہ خاندان اپنی خوش خلقی، سخاوت اور مہمان نوازی کی بنا پر معروف ہے۔



صدیوں تک حکمرانی سے پیدا ہونے والے اوصاف اس قبیلے میں موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ نسبی تفاخر بھی اس قبیلے میں نسبتاً زیادہ پایا جاتا ہے۔ قلعہ مکھیالہ کی باقیات بہت کم رہ گئی ہیں ۔چکوال کی تحصیل چوآسیدن شاہ کے معروف قصبہ بشارت کے قریب سے سڑک کے ایک طرف لگا بورڈ مکھیالہ کی طرف جانے والے راستے کا تعین کرتا ہے۔ اسی بورڈ پر قصبہ موہن کا نام بھی درج ہے۔ نسبتاً سنسان پتھریلے راستوں پر بچھی سڑک ہمیں مکھیالہ راجدھانی کے ہیڈ کوارٹرز قلعہ مکھیالہ کی باقیات تک لے جاتی ہے۔

مکھیالہ گاؤں کے آغاز میں ہی مشرقی سمت چونے کے تراشیدہ پتھرگچ سے بنی ایک گول دیوار دکھائی دیتی ہے۔ یہ منہدم ہونے کے قریب ہے مگر ابھی تک اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے۔ زمین سے اس کی موجودہ بلندی کوئی تیس فٹ کے قریب ہے۔ مقامی لوگ اسے برج کہتے ہیں۔ برج کی تقریباً تین فٹ چوڑی دیوار میں پہرے داروں کے لیے چوکور سوراخ بنے ہیں جن سے وہ علاقے پر نظر رکھتے ہوں گے۔

دیوار پر کھڑے ہوں تو نشیب میں آباد گاؤں اور دور دور تک کا علاقہ نظر آتا ہے یہیں سے قلعہ کُسک بھی دکھائی دیتا ہے۔اردگرد بے شمار تراشیدہ مگر بھاری پتھر دور دور تک بکھرے ہیں جو یقیناً کبھی مکھیالہ راجدھانی کے اس مضبوط قلعے کی فصیلوں کا حصہ تھے۔ سنتھے اور بہیکڑ کے پودے اب ان پتھروں میں بھی اُگ آئے ہیں۔

ہم جب وہاں پہنچے تو مکھیالہ میں شام اتر چکی تھی۔ گاؤں کے درمیان سے گذرنے والی پختہ سڑک کے شمال میں چونے کے پتھر بنے کچھ قدیم گھر اب بھی باقی تھے۔ شمالی طرف قلعہ مکھیالہ کی تعمیر کے سینکڑوں برس بعد بنایا جانے والا گھوڑوں کا اصطبل بہتر حالت میں باقی ہے مگر اس کی چھتیں گر چکی ہیں۔ قلعے میں داخلے کا قدرتی راستہ بھی باقی ہے دو چٹانوں کے درمیان سے پانی کے پختہ نالے بھی باقی ہیں تاہم یہ زیادہ پرانے دکھائی نہیں دیتے۔ راجہ جودھ کے بنائے گئے تالاب اب بھی باقی ہیں مگر ان دنوں ان میں پانی نہ تھا۔

بڑے تالاب کے مغرب میں پیپل کا بہت بڑا درخت موجود ہے جو یقیناً صدیوں پرانا ہے۔ قلعہ مکھیالہ سے ایک دشوار گذار راستہ قلعہ کُسک تک بھی جاتا ہے قلعہ مکھیالہ اپنی سینکڑوں سالہ رفعت و عظمت کی اب بھی یاد باقی رکھے ہوئے ہے تاہم اس کو توجہ کی ضرورت ہے اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو محتاط انداز کے مطابق ایک کلو میٹر کے علاقے میں پھیلی اس کی باقیات بھی آئندہ نسلوں کو دیکھنے کو باقی نہ رہیں گی مکھیالہ راجدھانی کی یہ یادگار ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گی۔

پروفیسر انور بیگ اعوا ن نے "دھنی ادب و ثقافت" مکھیالہ کے جنجوعوں کی شان میں ایک طویل گیت بھی رائے زادہ جعفر خان سکنہ بشارت کی زبانی درج کیا ہے جو کچھ یوں ہے تاہم مکمل گیت کے لیے کتاب مذکور ملاحظہ فرمائیں۔

سیواں اللہ رسول ؐ کوں چیت نام دھیان
جودھ ویر کی بنس کو جانے کل جہان

کبت جانت جہان رب رکھے تیری آن
ایسا سپھل سپوت نر جودھا بل دان

دلی نالا تے دار منظور کیا سب ہونان
کوٹ ہی ملوٹ راجہ مل کا تھان

بھٹ بھی کری دعا باب دادا او شجاع
سدا تیرا راج بھاگ آدمی خاندان

کیگو نامہ کے مصنف رائے زادہ دنی چند(1137ھ/1725ء)نے سلطان بوڑھا خان والی قلعہ مکھیالہ کی شان میں ایک فارسی غزل کہی ہے جسے پروفیسر انور بیگ اعوان نے یوں نقل کیا ہے۔ میں یہاں اس کے کچھ اشعار نقل کر رہا ہوں۔

مژدہ اے دل آں صنم باروئی زیبا میرسد
مرحبا برہم جلیساں یاد دانا میرسد

اے غریق چاہ زنخداں از پریشانی منال
دست آویزت رسن زلف سیمن سا میرسد

دیدۂ صحرائیاں گر انتظار مہا کشید
مخملی می شدروان بانگ جرسہا میرسد

حوالہ جات۔ پنجاب کی ذاتیں از سر ڈینزل ابٹسن، دھنی ادب و ثقافت و دھن ملوکی از پروفیسر انور بیگ اعوان۔ ڈیلی ڈان رپورٹ بائی نبیل انور ڈھکو۔ ڈسٹرکٹ گزیٹئیر آف جہلم 1904ء۔ انسائیکلو ییڈیا آف چکوال از عابد منہاس۔
نوٹ۔ یہ تحریر تین سال قبل لکھی گئی جب کہ تصاویر گزشتہ روز لی گئی ہیں ۔ (علی خان )

Address

Rawalpindi

Telephone

+923005214304

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when راجپوت الپیال posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to راجپوت الپیال:

Videos

Share


Other Eco Tours in Rawalpindi

Show All

You may also like