30/03/2024
چھوٹی سی نیکی
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنی عمر کے آخری ایام میں بہت گریہ کیا کرتے تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ تو بہت خدا ترس اور مثالی حکمران ہیں آپ کیوں اتنا روتے ہیں۔ پانچویں خلیفۂ راشد کہلوائے جانے والے حکمران نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے بے حساب دیا۔ اتنا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن اب خیال آتا ہے کہ جب وہ بے حساب دیتا ہے تو حساب بھی اُتنا ہی کڑا لیتا ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر حساب میں کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو میں کیا کروں گا۔ یاد رہے کہ یہ وہ خلیفہ تھے جو بے حد دولت مند ہونے کے باوجود اسراف سے بہت بچتے تھے۔ اتنے محتاط تھے کہ خلیقہ بننے کے بعد اپنی ساری دولت بیت المال میں جمع کروا دی اور خود عُسرت زدہ زندگی بسر کرنے لگے۔ قسامِ ازل کی اپنے بندوں میں وسائل کی تقسیم کی مصلحت سے شاید ہم کُلی طور پر کبھی واقف نہیں ہو سکتے۔ کسی کو بہت ہی کم دیا اور کسی کو بے تحاشا نواز دیا۔ لیکن ایک وجہ تو سمجھ آتی ہے کہ جس کو جتنا زیادہ ملا اس سے حساب کتاب بھی اسی حساب سے سخت ہوگا۔ اللہ کے دیے ہوئے مال کو اپنی ذات پر بھی ضرور خرچ کریں لیکن اعتدال سے۔ معاشرے کے پِسے ہوئے طبقے کا بھی ہمارے مال پر حق ہے۔ اسراف دولت کے بے دریغ استعمال کا نام ہے۔ ایک لمحے کو ذرا اپنے عمل کا جائزہ لیجیے۔ کہیں ہم بلاضرورت اور بے دریغ اللہ کے عطاکردہ مال کو لٹا تو نہیں رہے؟ اگر ہم ایسا کر رہے ہیں تو کیا روزِ حساب اللہ کو حساب دینے کے لیے تیار ہیں؟
سلمان باسط