Abu noah M Bilal

Abu noah M Bilal general

30/03/2024

چھوٹی سی نیکی
۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنی عمر کے آخری ایام میں بہت گریہ کیا کرتے تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ تو بہت خدا ترس اور مثالی حکمران ہیں آپ کیوں اتنا روتے ہیں۔ پانچویں خلیفۂ راشد کہلوائے جانے والے حکمران نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے بے حساب دیا۔ اتنا کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن اب خیال آتا ہے کہ جب وہ بے حساب دیتا ہے تو حساب بھی اُتنا ہی کڑا لیتا ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ اگر حساب میں کوئی اونچ نیچ ہو گئی تو میں کیا کروں گا۔ یاد رہے کہ یہ وہ خلیفہ تھے جو بے حد دولت مند ہونے کے باوجود اسراف سے بہت بچتے تھے۔ اتنے محتاط تھے کہ خلیقہ بننے کے بعد اپنی ساری دولت بیت المال میں جمع کروا دی اور خود عُسرت زدہ زندگی بسر کرنے لگے۔ قسامِ ازل کی اپنے بندوں میں وسائل کی تقسیم کی مصلحت سے شاید ہم کُلی طور پر کبھی واقف نہیں ہو سکتے۔ کسی کو بہت ہی کم دیا اور کسی کو بے تحاشا نواز دیا۔ لیکن ایک وجہ تو سمجھ آتی ہے کہ جس کو جتنا زیادہ ملا اس سے حساب کتاب بھی اسی حساب سے سخت ہوگا۔ اللہ کے دیے ہوئے مال کو اپنی ذات پر بھی ضرور خرچ کریں لیکن اعتدال سے۔ معاشرے کے پِسے ہوئے طبقے کا بھی ہمارے مال پر حق ہے۔ اسراف دولت کے بے دریغ استعمال کا نام ہے۔ ایک لمحے کو ذرا اپنے عمل کا جائزہ لیجیے۔ کہیں ہم بلاضرورت اور بے دریغ اللہ کے عطاکردہ مال کو لٹا تو نہیں رہے؟ اگر ہم ایسا کر رہے ہیں تو کیا روزِ حساب اللہ کو حساب دینے کے لیے تیار ہیں؟
سلمان باسط

30/03/2024

مولانا ابوالکلام آزاد ایک قادر الکلام شخص تھے، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، مولانا اردو بولتے لکھتے ہوئے عربی، فارسی کے اشعار اور محاورے ایسی کثرت سے استعمال کرتے تھے کہ کئی سننے، پڑھنے والوں کو سمجھ نہیں آتی تھی وہ کس زبان میں بات کر رہے ہیں۔
ایک مرتبہ پنجاب کے سکھ کسانوں کا ایک وفد اپنے مسائل کے حل کے لیے مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا، مولانا نے انہیں شرفِ باریابی بخشا، پہلے تو خاموشی کا ایک طویل وقفہ رہا، کسان ادب کی وجہ سے خاموش رہے اور مولانا اس انتظار میں تھے کہ یہ خود ہی کچھ ارشاد فرمائیں!
آخر مولانا پہل کرتے ہوئے بولے:
"سنائیے امسال تمھاری کشت ہائے زرعی میں نزولِ باراں ہوا یا نہیں؟"
کسانوں نے سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا.....گویا زبانِ حال سے پوچھا......کیوں بھئی......کسی کی سمجھ میں کچھ آیا.....؟ سب کے چہرے سپاٹ تھے،
سر نیچے کرکے مؤدب بیٹھے رہے۔
مولانا پھر گویا ہوئے:
" نزولِ باراں عطیہ ہے رحمتِ باری تعالیٰ کا کہ اثمار و اناج نشو و نما پاتے ہیں اور فضائے بسیط کی کثافت دور ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔"
وفد میں جو قدرے سمجھ دار دکھتا تھا وہ اٹھا اور اپنے ساتھیوں کو بھی اٹھنے کا اشارہ کیا، سب کے سب مولانا کی جانب پیٹھ کیے بغیر الٹے پیروں باہر نکل گئے، پھر اس دانا شخص نے سب کو بتایا:
"مولانا اس وقت عبادت میں مصروف ہیں اور اپنی مذہبی زبان میں وظیفے پڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔" 😁😂
کرنل اشفاق حسین کی کتاب "جنٹلمین اللّٰہ اللّٰہ " سے ماخوذ

28/03/2024



** میں اپنے 8 سالہ بچے کے ساتھ کعبہ کے سامنے پہلی صف میں کھڑا تھا۔ نماز عصر شروع ہونے والی تھی۔ خادمین کعبہ صف بندی کروا رہے تھے۔ ایک عربی خادم ہمارے پاس آئے اور میرے بیٹے کو دو صفیں چھوڑ کر پیچھے لے جانا چاہا۔ میں نے منع کیا کیونکہ نماز کا سلام پھیرتے ہی فورا طواف شروع ہو جاتا ہے تو مجھے ڈر تھا کہ بچہ گم ہو جائیگا۔ لیکن اس نے کہا وہاں جگہ موجود ہے جو پر کرنی ہے۔ اور یہ طفل ہے تو ہیچھے جا سکتا ہے۔ وہ ہاتھ سے پکڑ کر اسے لے گیا تو میں بھی وہ صف چھوڑ کر بچے کے ساتھ ہی پچھلی صفوں میں آگیا

نماز مکمل ہوئی۔ سلام پھیرا ہی تھا کہ وہ خادم دوبارہ آ گیا۔ آنکھوں میں آنسو لئے۔ میرے بیٹے کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا معافی مانگ رہا تھا۔ جیب سے نکال کر اسے چاکلیٹ اور کھجور دے رہا تھا۔ میں نے اسے گلے لگایا اور تسلی دی کہ کوئی بات نہیں۔ وہ چلا گیا۔ جاتے جاتے بھی معذرت کر رہا تھا۔ لیکن میرے بچے کے دل و دماغ پر ایک گہرا اثر چھوڑ گیا۔

آج میرا بیٹا ماشاءاللہ 16 سال کا ہے۔ اور اسے وہ چاکلیٹ، وہ کھجور، وہ معذرت، وہ محبت اور وہ واقعہ نہیں بھولا

** پچھلے جمعہ کی بات ہے۔ نماز جمعہ میں بچوں کے ساتھ ایک مسجد میں گیا۔ ابھی ہم وہاں بیٹھے ہی تھے کہ سپیکر پر امام صاحب کی کسی بچے کو ڈانٹنے کی آواز آئی۔ والدین کو بھی سرزنش کر رہے تھے کہ اپنے بچوں کو مسجد کا ادب سکھا کر لایا کریں۔ اور یہ بھی اعلان فرمایا کہ 7 سال سے چھوٹے بچوں کو گھر چھوڑ کر آیا کریں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے خطبہ شروع کر دیا
میں نے دیکھا جس آٹھ نو سالہ بچے کو ڈانٹا تھا وہ سہما ہوا تھا اور والد صاحب شرمندہ سے بیٹھے تھے۔
مجھے اتنا افسوس ہوا کہ میں کوشش کے باوجود نہ خطبہ میں فوکس کر سکا نہ نماز میں 😓

** اور اسی رات ہم اسلام آباد کی ہی ایک اور مسجد میں نماز عشاء اور تراویح کیلئے گئے
مسجد مینار الہدی۔۔۔ صاف ستھری، معطر پرسکون مسجد۔۔۔۔ اور ایک بہت زبردست بات جو ہم نے وہاں دیکھی وہ تھی 7 سال سے چھوٹے بچوں کے لئے فکسڈ کارنر۔۔۔

چھوٹے بچے والدین کے ساتھ مسجد میں داخل ہوتے ہی لپک کر اپنے کارنر کی طرف چلے جاتے۔ جہاں دو لیڈیز ان کو اٹینڈ بھی کر رہی تھیں۔
مجھے پتہ چلا کہ یہاں ان کو روز اللہ کا ایک نام کلرنگ کے لئے دیا جاتا ہے اور اور مختلف طریقوں سے کھیل ہی کھیل میں یاد بھی کروایا جاتا ہے۔ بچوں کو روز ایک چاکلیٹ بھی دی جاتی ہے
والد اور والدہ نے سکون سے اپنے اپنے مخصوص حصوں میں نماز ادا کی۔ یہ اناؤنسمنٹ ہوئی کہ بچوں کو مینج اور اٹینڈ کرنے کے لئے ہم نے مکمل facilitate کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اگر کسی کا بچہ زیادہ رونے لگے یا ہم سے کنٹرول نہ ہو سکے تو والدہ اپنی نماز چھوڑ کر بچے کو دیکھیں تاکہ باقی سب کی نماز میں ڈسٹربنس نہ ہو۔
لیکن کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اور سکون سے ڈیڑھ دو گھنٹے گزرے

والدین کو بھی فکر نہیں تھی کہ بچے اکیلے گھر میں ہیں۔
اور سب سے بڑی بات۔۔۔ نماز کے دوران اور نماز کے بعد کے مختصر لیکچر میں کتنے ہی خیر کے کلمات ان بچوں کے کانوں میں پڑے۔ کچھ دماغ میں رہ بھی جائیں گے۔ بچے خوش اور مطمئن بھی

یہ ہے بچوں کو نماز کی پابندی کروانے، انکے دل میں اللہ کے گھر (مسجد) کی محبت پیدا کرنے، ان کو دین سے جوڑنے کا ایک بہترین قدم

اگر پورا بچپن بچہ کبھی مسجد ہی نہ آئے، اور آئے تو اس کے ساتھ برا سلوک ہو، اسے سب پچھلی صف میں دھکیل دیا جائے، یا جگہ کم ہونے پر جوتوں والی سائڈ پر بھیج دیا جائے تو اس کے ذہن پر کیا اثر ہوگا؟

دوستو! مساجد میں اپنے بچوں کی خوبصورت میموریز بنائیں
ان کے بچپن کی یادوں میں مسجد کو لازمی شامل کریں
انہیں شروع سے نمازی بنانے کیلئے ان کے دل میں محبت کے بیج بوئیں
مسجد میں اپنے اور دوسروں کے بچوں کے آنے کی حوصلہ افزائی کریں
مسجد جاتے سمے چند ٹافیز، چاکلیٹ جیب میں رکھ لیا کریں۔ کوئی بچہ وہاں پائیں تو اسے پیار کرکے اسکی حوصلہ افزائی کریں، اسے سویٹ دیں۔ اس کے والدین کو appreciate کریں
ممکن ہو تو اپنی قریبی مسجد میں ایسے kids corners بنائیں

یاد رکھیں! آپ کی آج کی یہ چھوٹی سی کوشش کتنوں کو نمازی بنا دے گی، کتنے دل اللہ سے جوڑ دے گی۔ مستقبل میں کتنی مسجدیں آباد کرنے کا وسیلہ بنے گی۔ معاشرے میں کیسا خوبصورت بیج بوئے گی۔ اور آپ کے لئے کیسا صدقہ جاریہ بنے گی۔۔۔۔ ان شاء اللہ

اللہ تعالٰی ہمیں، ہماری اولاد اور ہماری نسلوں کو نمازی بنائے اور ہمیں مسجدیں آباد کرنے کی توفیق عطا فرمائے

دعاؤں کا طالب
ڈاکٹر شاہد ندیم

**** آپ کے آئیڈیا کے لئے مسجد مینار الہدی کے kids corner کی تصویر کمنٹس سیکشن میں پوسٹ کر رہے ہیں

27/03/2024

ایک جاپانی لڑکی میری آفس کولیگ تھی۔ رمضان شروع ہوا تو کہنے لگی، یہ جو تم رمضان کا پورا مہینہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہتے ہو اس سے تمہیں کیا ملتا ہے؟
میں نے اسے بتایا کہ روزہ ایک عبادت ہے اور یہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزے کے دوران جھوٹ نہ بولنا، ایمانداری سے اپنا کام کرنا، پورا تولنا، انصاف کرنا وغیرہ وغیرہ اور تمام برے کاموں سے بھی بچنا ہوتا ہے۔
وہ بڑی سنجیدگی سے بولی،
آپ کے تو مزے ہیں جی۔ ہمیں تو سارا سال ان کاموں سے بچنا ہوتا ہے اور آپ کو بس ایک مہینہ!
اشفاق احمد

27/03/2024

مدد کرنے کے لئے صرف پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کسی کو حوصلہ دینا، اہمیت دینا، شاباشی دینا، تعریف کرنا، عزت کرنا، محبت کرنا، اور اسانیاں پیدا کرنا، ان سب چیزوں کی بهی ضرورت ہوتی ہے. پیسوں کے مقابلے میں یہ چیزیں بھی آپکا قبر روشن کرسکتی ہے.

یا الله اسی خامی سے بچا جو ہماری ساری خوبیوں کو کها جائے.

25/03/2024

سوال : حسن اللہ یاری نے عائشہ رض کے متعلق فلاں روایت سنائی اس پر آپ کیا کہتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اس پچ پر جاکر کھیلنے کا عادی ہی نہیں جو پچ سوچ سمجھ کر کسی خاص طرح کی فیلڈنگ باؤلنگ اور بیٹنگ کو مدنظر رکھ کر بچھائی گئ ہو۔ عائشہ رض نزول قرآن کے وقت بھی خاص طور پر منافقین کا ٹارگٹ رہی ہیں ۔ جب ٹارگٹ رہی ہیں ، اور اس کی خبر خود قرآن مقدس نے دے کر ہمیں متنبہ کردیا ہے ، تو پھر ہمیں سمجھنا چاہئے کہ منافقین بھی کوئی دوسری مخلوق نہیں بلکہ ہماری ہی طرح کے انسان تھے ۔ جس طرح اب انسان انسانوں کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے تیار کرتے ہیں اس وقت بھی اسی طرح باتیں بناتے اور پھیلاتے ہونگے۔ پھر رسول اللہ ص کی وفات کے بعد بھی عائشہ رض 45 سال زندہ رہیں ۔ اس دوران روم و فارس فتح ہوچکا۔ خلفائے راشدین پر قاتلانہ حملے ہوچکے۔ مسلمان سیاسی طور پر دو جماعتوں میں بٹ چکے تو ایسے میں مسلمانوں کو جوڑنے کے دو میعارات جو رسول اللہ ص دے کر گئے تھے ( قرآن اور ازواج یا اہلبیت ) ان دونوں میعارات پر حملے کیوں نہ ہوئے ہونگے۔ قرآن کی ش*ذ قراتیں جنھیں آج کوئی بھی نہیں مانتا وہ بھی تو آخر گھڑی ہی گئ تھیں۔ گھڑنے والوں کو اگر قرآن اور خدا پر ہاتھ ڈالتے کوئی شرم نہیں تو قضئے کی صورت میں دوسرے میعار ( اہلبیت یعنی ازواج رسول اللہ ) پر بتانات باندھتے کیسی شرم اور کیسی حیاء ؟۔ اس لئے جیسے آج حسن اللہ یاری جیسے لوگ موجود ہیں ایسے رسول اللہ ص کے دور سے لیکر بعد کے ہر دور میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں ۔ آج اگر کوئی کسی بے حیاء چڈوباز راوی کی کوئی روایت سناتا ہے تو وہ کوئی دلیل نہیں دیتا بلکہ جس بات کا وہ خود مدعی ہے اسی بات کا ایک بے غیرت مدعی ماضی سے پیش کرتا ہے ۔ یہ روایات دلائل نہیں بلکہ مدعیوں کے داعوے ہیں جو قرآن مقدس کے مقابلے پر قبول کرنا تو درکنار سنے بھی نہیں جاسکتے۔

عرب جاھلیت میں جب کوئی شوہر اپنی بیوی کو ایسی طلاق دینا چاہتا کہ اس کے بعد واپسی کا کوئی رستہ ہی نہ بچے تو وہ ظہار کرتا۔ یعنی وہ بیوی کو کہتا کہ “ انت علی کظھر امی” تجھے ہاتھ لگایا تو گویا اپنی ماں کی پیٹھ کو ہاتھ لگایا۔ اس طرح اس نے متبنہ ( منہ بولے بیٹے کی طرح ) کی طرح گویا ایک ایسے حقیقی رشتے کو وجود دے دیا کہ جو ابدی محرمات میں شامل ہونے کی وجہ سے نکاح و طلاق و رجوع والی بحث میں ہی نہیں آتا۔خولہ بنت ثعلبہ رض کے ساتھ انکے شوہر اوس بن صامت رض نے بھی بڑھاپے کے ڈیپریشن کی وجہ سے یہی معاملہ کردیا تو آپ بار بار رسول اللہ ص کی خدمت میں پیش ہوتیں اور اس غیر فطری رسم کی قباحتیں گنوا گنوا کر اس کے خلاف حکم لینے کی کوشش کرتیں۔ عرف کے مقابلے پر چونکہ رسول اللہ کے پاس خدا کی کوئی راہنمائی موجود نہ تھی اس لئے آپ ص مسلسل معذرت کرتے رہے۔ پھر خولہ اس طرف سے مایوس ہوکر اپنے رب کے ساتھ سیدھی ہوگئں۔ قرآن مقدس نے اس پر حکم سنایا کہ جس رشتے کو خدا نے وجود نہ دیا ہو وہ کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ لیکن اوس بن صامت نے جو کام کیا ہے وہ صرف یہ نہیں کہ اس پر متبنہ جیسا حکم سنا کر کہہ دیا جائے کہ ایسی طلاق کوئی طلاق ہی نہیں ہے۔ چاہے اوس بن صامت کی ماں کافرہ و مشرکہ ہی مری ہو لیکن پھر بھی ماں کا تقدس ایک ایسے رشتے کا تقدس ہے جس کی پامالی خدا کے ہاں قابل برداشت نہیں ۔ جس عورت کے ساتھ لیٹتے رہے ہو اور تنہائی رنگین کرتے ایک دوسرے کے سامنے برھنہ رہ چکے ہو آج اس برھنگی جو ہمیشہ تمھاری یاداشت میں رہے گی اسے ماں کے تقدس میں شریک کرنے چل پڑے ہو؟ طلاق تو نہ ہوئی اور نہ ہونی چاہئے لیکن اس دوسرے جرم کی سزا بھگتنا ہوگی۔ وہ سزا یہ ہے کہ کسی غلام یا لونڈی کی گردن آذاد کرواو ۔ استطاعت نہیں ہے تو مسلسل ساٹھ روزے اس طرح رکھو کہ ایک بھی چھوٹا تو گنتی دوبارہ سے شروع ہوگی ۔ اور اگر بڑھاپے یا مرض کی وجہ سے یہ بھی ممکن نہ ہو تو ساٹھ دنوں کے بدلے میں ساٹھ مسکینوں کو اپنی سحری و افطار کی استطاعت کا حساب لگا کر کھانا دو ۔
اب اس واقعہ کے برعکس ان آیات کو بھی ذھن میں رکھیں کہ کچھ مائیں وہ ہیں جنھیں خدا براہ راست غیر متبدل حکم کے ساتھ خود امت کی مائیں بنا رہا ہے ۔ یہ ازواج مطہرات ہیں ناکہ اوس بن صامت رض کی ماں کی طرح کوئی عام عورتیں ۔ باپ زندہ نہ ہو تو مائیں ہی ہوتی ہیں جو اولاد کے قضئیوں کا فیصلہ کرتی ہیں ۔ اور یہ وہ مائیں ہیں جنکی عصمت کی گارنٹی خود قرآن مقدس میں موجود ہے ۔ حق وہی حق ہوگا جس کے حق ہونے کا فیصلہ یہ سنائیں گی ۔ امت میں سے کوئی ایسا نہیں ہوگا یا ہوسکتا ہے جو ان پر قاضی ہو ۔
مبین قریشی ۔

14/03/2024

بقیع پاک میں گنبد سے نور آتا ہے
حضور سیدہ زھرا کا دھیان رکھتے ہیں ۔
صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

12/03/2024

School teachers required
Senior Science teacher 15000-20000 Salary
Qaria 10000 - 16000
English teachers
13000-20000
Contact.03007835041

11/03/2024

وہ لوگ جو صاحب استطاعت ہیں اور ان کے ساتھ ملازمین طبقہ بھی ہے تو وہ ایسے علماء کا انتخاب کر کے اپنے ادارے ۔ ہاسپٹل ۔ آفس ۔ گھر ۔ پارک وغیرہ میں اپنے ملازمین کے ساتھ تراویح میں قرآن کا اہتمام کریں جسمیں تمام افراد شامل ہو سکیں

11/03/2024

وہ لوگ جو صاحب استطاعت ہیں اور بڑی فیملیز والے ہیں وہ گھر میں مخصوص جگہ کا انتخاب کر کے ایسے علماء کو متعین کریں جو مسائل شرعیہ سے واقفیت رکھتے ہیں ۔ ان کے ساتھ قرآن مجید مکمل کرنے کا اہتمام کیا جائے جس میں تمام افراد شامل ہو سکیں

11/03/2024

رمضان المبارک میں اپنے عملہ کے لیے ۔فیملی کے لیے ۔ دوست احباب کے لیے جہاں تک ممکن ہو درس قرآن کا اہتمام بھی کیا جائے ۔ اسی طرح اپنے ماتحت افراد کیلئے نرمی اور سہولیات کو فروغ دیا جائے

09/03/2024

رمضان المبارک کی تیاری
1. اپنی زکوٰۃ مستحقین تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے ۔
2. پڑوسیوں اور مستحق لوگوں کی اور خاص کر اپنے حلقہ احباب میں علماء و آئمہ کرام کی کسی نہ کسی حد تک ضروریات کا خیال رکھا جائے ۔ دینی مدارس کو بھی مدنظر رکھا جائے ۔
3. اگر زکوٰۃ نکالنا واجب نہیں ہے تو اپنی بساط کے مطابق صدقہ و خیرات کا اہتمام کیا جائے ۔

09/03/2024

رمضان المبارک کی تیاری
1. روزے مکمل رکھتے کی نیت کر لی جائے ۔
2. عید الفطر اور رمضان المبارک کی شاپنگ رمضان سے پہلے ہی کر لی جائے تاکہ رمضان المبارک کے قیمتی اوقات کا ضیاع نہ ہو ۔
3. رمضان المبارک میں دوکان کا ۔ آفس کا۔عبادات کا ۔ سونے ۔جاگنے کا ابھی سے پلان کر لیا جائے ۔

09/03/2024

رمضان المبارک کی تیاری
1. قرآن مجید کے ساتھ تعلق مضبوط کرنے کا پلان کیا جائے ۔
2. قرآن مجید کم از کم ناظرہ درست کیا جائے ورنہ کچھ حصہ حفظ بھی کیا جائے ۔
3. قرآن مجید ترجمہ و تفسیر کا اہتمام کیا جائے اگر کہیں پر اہتمام نہ ہو سکے تو مجھ سے آن لائن شروع کر لیا جائے ۔
4. رمضان المبارک میں کم از کم ایک قرآن مجید ضرور مکمل کیا جائے

06/03/2024

قاتل آنکھیں۔
عورت کے وجود میں اس کا سب سے زیادہ قاتل، جان لیوا Lethal اور ایمان لیوا ہتھیار اس کی آنکھیں ہیں ۔ اس میں لمبی اور چھوٹی ،پتلی اور موٹی ، کالی اور گوری ،امیر اور غریب میں کوئی تفریق نہیں ۔بندوق بندوق ہوتی ہے چاہے اس پر سونے کا پانی چڑھا دو ۔
مرد جب عورت کا مکمل چہرہ دیکھتا ہے تو عورت کی ناک جو موٹی بھی ہو سکتی ہے اور ضرورت سے زیادہ لمبی اور نوکدار ، ہونٹ اور ٹھوڑی جو زیادہ اندر بھی ہو سکتی ہے اور کافی سے زیادہ لمبی بھی ، یہ سب چیزیں مل ملا کر عورت کی آنکھوں کی کاٹ کو بہت حد تک غیر مؤثر کر دیتی ہیں ۔
جب حجاب دار خاتون یا لڑکی چہرے کے سارے عیب اور خامیاں چھپا کر صرف آنکھوں کی لیزر استعمال کرتی ہے تو بقول شاعر _
قیامت ہیں ظالم کی نیچی نگاہیں ۔
خدا جانے کیا ہو جو نظریں اُٹھا لے ۔
آپ اپنے ایمان کے زور پر اس ہتھیار کا مقابلہ ہر گز نہیں کر سکتے ، بڑے بڑے پرہیزگار ان کے سامنے سرنگوں ہو گئے ہیں ۔ ان میں سے بعض کا ذکر روایات کی کتب میں بھی مذکور ہے ۔
اس کا علاج مرد کی جھکی نگاہیں ہیں جو عورت کی نگاہوں سے ملے بغیر رستہ دیکھیں ۔ ان آنکھوں کی pairing requests کو yes نہ کریں ، حجاب کر کے خود کو قلعہ بند سمجھ کر جو بےباکی نگاہوں میں آتی ہے وہ شاید بےنقاب کی نگاہوں میں نہیں پائی جاتی ۔لہذا اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں اسی چیز کا حکم دیا ہے اور ہماری محبت میں ہماری بھلائی کے لئے دیا ہے تا کہ آپ کے ایمان و اعمال کا بیلنس اڑ نہ جائے ۔ جیسے کوئی آپ کو لنک بھیجے اور اس لنک کو کلک کرتے ہی آپ کا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے اور بیلنس اڑ جائے ۔
قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ۔۔ ذالک ازکی لھم ۔ ان اللہ خبیر بما یصنعون ۔ النور ۔30

قاری حنیف ڈار ۔۔

06/03/2024

"اگر انڈین ٹائیکون مکیش امبانی کی دولت "پاکستان" کے ہر چھوٹے بڑے میں تقسیم کرے،، تو ان میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ اور اکتالیس ہزار روپے ملیں گے"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

تحریر: Tehsin Ullah Khan

01/03/2024

ملالہ!
غزہ کے بچوں کے لیے نہ سہی ،کم از کم غزہ کے بچوں کے سکولوں کی تباہی کے لیے ہی آواز اٹھا لو ۔۔
تم تو بچوں کی تعلیم کی سرگرم حامی رہی ہو ۔
پھر غزہ کے معصوموں کے لیے زبانیں گنگ کیوں ہیں ۔
ملالہ تم غزہ کی بربادیوں کا نوحہ، بی بی سی میں لکھی گئی گل مکئی کی ڈائری کی طرح کیوں نہیں سناتی ۔۔
منقول

28/02/2024

ہکو رنگ دا کفن تے ہکو جئیاں قبراں, مر گئے انسان برابر،
ہوندا فرق امیر غریب دا جگ تے, سب قبرستان برابر،

گنہگار ہوساں تے دوزخ سڑساں تیڈی میڈی جان برابر،
کھڑے ہوسن شاکر محشر نوں پکھی واس تے خان برابر,

26/02/2024

اس ملک میں جب بھی انتہاءپسندی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس میں ملوث لوگ ہر بار جاہل ہی نکلتے ہیں۔ مگر ہر واقعے کے ردعمل میں انتہاءپسندوں کی وہ قسم بھی سامنے آجاتی ہے جس کا ہر رکن بزعم خود "ارسطو" ہوتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا تکبر ہی یہ ہوتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے اور روشن خیال ہیں۔مثلا اس بار ایک روشن خیال نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس ملک میں مذہب پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ حالانکہ کل رونما ہونے والے واقعے کا سبب یہ نہیں کہ مذہب نے اس کی تلقین کی تھی۔ بلکہ یہ ہے کہ مذہب کا شعور نہ ہونے کے سبب اسے مذہبی تقاضا سمجھ لیا گیا۔ سو مطالبہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس ملک میں مذہب کی تعلیم نصاب کا لازمی حصہ بنائی جائے تاکہ لوگ جان سکیں کہ کسی بھی معاملے میں مذہب کا اس کے ماننے والے سے تقاضا کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے روشن خیال "اویرنس بڑھاؤ پروگرام" بتاتے ہیں ۔۔
منقول

26/02/2024

جاہل عوام کو جنونیت کی حد تک پہنچانے والے لوگوں کا طرز عمل دیکھئیے اور سوچئے!

جو معاشرہ عورت کو عریاں دیکھ کر غیرت نہیں کھاتا وہ ایک خاتون کا نامانوس لباس دیکھ کر مشتعل ہو گیا ہے، اعتدال پسند مذہبی سوچ کا راستہ روکا جائے گا تو یہی جنونیت اس معاشرے کا مقدر بن جائے گی، جس کا منظر آج اچھرہ لاہور کے بازار میں دیکھنے کو ملا۔

افسوس ان حضرات پر ہے جو حقیقت حال معلوم ہو جانے کے بعد بھی بے چاری "خاتون" سے معذرت کرواتے نظر آئے، حقیقت پسندی یہ تھی کہ جب معلوم ہو گیا تھا کہ لباس میں توہین آمیز چیز نام کی کوئی چیز نہیں تو پھر اس خاتون کو دی جانے والی اذیت پر اجتماعی معافی مانگنی چاہیے تھی۔

یاد رکھیں! اگر ہم اعتدال اور توازن قائم نا رکھ سکے تو مذہب بیزاری بڑھتی جائے گی۔

حافظ نصیر احمد احرار

26/02/2024

جب معاشرہ ذہنی طور پر بیمار اور جہالت کی انتہا کی بلندیوں کو چھو رہا ہو تو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے، اچھرہ بازار میں خاتون کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے لیکن مقامی انتظامیہ، برادر عزیز مولانا قاری علیم الدین شاکر اور دیگر علماء و تاجر رہنماؤں کے بروقت و دانشمندانہ اقدام نے بے گناہ خاتون کو جنونیوں کے ہاتھوں سے بچا لیا۔مگر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ان جہلاء کے معاشرے میں عربی کیلیگرافی میں لباس زیب تن کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے آخر ۔؟

25/02/2024

چھ ماہ کا بچہ ۔۔

۔امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی عورت کو سنگسار کرنے کا فیصلہ کیا جس کو شادی کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہو گیا تھا ۔ جبکہ عورت کسی بدکاری سے انکاری تھی اور گواہ بھی کوئی نہیں تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو آپ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ نے اس عورت کو کس بنیاد پر سنگسار کرنے کا فیصلہ دیا ہے ؟ اس کو چھ ماہ کے بعد بچہ پیدا ہوا ۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ۔۔ اس کے علاوہ ؟ کوئی گواہ، یا عورت کا اقرار؟؟
کچھ بھی نہیں ۔۔
تو پھر آپ نے اس عورت کے ساتھ زیادتی کی ہے ،اللہ کے لئے کسی قاصد کو بھیج کر اس بیچاری کی جان بچائیں ، قرآن کریم چھ ماہ کے بچے کی ولادت کا اقرار کرتا ہے ۔۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والوالدات یرضعن اولادھن حولین کاملین ۔۔ البقرہ 233
مائیں اپنے بچے کو دودھ پلائیں دو سال پورے ۔۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ و حملہ و فصالہ ثلاثون شھرا ۔ الاحقاف 15.
اور اس کا حمل اٹھانا اور دودھ چھڑانا تیس ماہ کی مشقت ہے ۔
دودھ پلانا ۔ 24 ماہ ۔
حمل ۔ 6 ماہ
ٹوٹل تیس ماہ ۔۔ و حملہ و فصالہ 30 شھرا ۔۔
اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فیصلہ تبدیل کر دیا ۔۔
اس بارے میں ایک روایت کہتی ہے کہ قاصد کے پہنچنے سے پہلے اس بیچاری کو سنگسار کر دیا گیا تھا ۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق اس کی جان بچ گئی تھی ۔

قاری حنیف ڈار

22/02/2024

الله تعالیٰ کے سو احکامات

یہ چند برس پرانی بات ہے‘ ایک امریکی نو مسلم نے قرآن مجید سے حقوق العباد سے متعلق اللہ تعالیٰ کے 100 احکامات جمع کیے‘ یہ احکامات پوری دنیا میں پھیلے مسلم اسکالرز کو بھجوائے اور پھر ان سے نہایت معصومانہ سا سوال کیا ’’ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر عمل کیوں نہیں کرتے‘‘ مسلم اسکالرز کے پاس اس معصومانہ سوال کا کوئی جواب نہیں تھا.

مجھے چند دن قبل ایک دوست نے یہ احکامات ’’فارورڈ‘‘ کر دیے‘ میں نے پڑھے اور میں بڑی دیر تک اپنے آپ سے پوچھتا رہا ’’ہمارے رب نے ہمیں قرآن مجید کے ذریعے یہ احکامات دے رکھے ہیں‘ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ان احکامات پر پورا اترتے ہیں‘‘ میں یہ احکامات سو نمبر کا پرچہ سمجھ کرترجمہ کر رہا ہوں اور میں یہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ آپ پہلے یہ پرچہ حل کریں‘ پھر خود اس کی مارکنگ کریں‘ پھر اپنے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ کریں اور آخر میں یہ سوچیں ہم قیامت کے دن کیا منہ لے کر اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے‘ آپ کا یہ جواب فیصلہ کرے گا ہم کتنے مسلمان ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا
1 ۔ گفتگو کے دوران بدتمیزی نہ کیا کرو‘‘
2. غصے کو قابو میں رکھو‘
3- دوسروں کے ساتھ بھلائی کرو‘
4 - تکبر نہ کرو‘
5- دوسروں کی غلطیاں معاف کر دیا کرو‘
6- لوگوں کے ساتھ آہستہ بولا کرو‘
7- اپنی آواز نیچی رکھا کرو‘
8- دوسروں کا مذاق نہ اڑایا کرو‘
9- والدین کی خدمت کیا کرو‘
10- منہ سے والدین کی توہین کا ایک لفظ نہ نکالو‘ 11-کسی کی اجازت کے بغیر ان کے کمرے میں داخل نہ ہوا کرو‘
12.حساب لکھ لیا کرو‘
13 ‘ کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو‘
14-‘ اگر مقروض مشکل وقت سے گزر رہا ہو تو اسے ادائیگی کے لیے مزید وقت دے دیا کرو‘
15- سود نہ کھاؤ‘
16-رشوت نہ لو‘
17- ‘ وعدہ نہ توڑو‘
18- دوسروں پر اعتماد کیا کرو‘حسن ظن رکھا کرو
19- سچ میں جھوٹ نہ ملایاکرو‘
20-‘ لوگوں کے درمیان انصاف کیا کرو‘
21- انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جایا کرو‘
22‘ مرنے والوں کی دولت ورثاء کے درمیان فوری تقسیم کیاکرو‘
23 -‘ خواتین بھی وراثت میں حصہ دار ہیں‘
24 -‘ یتیموں کی جائیداد پر قبضہ نہ کرو‘
25-‘ یتیموں کے مال کی حفاظت کیا کرو‘
26 - دوسروں کا مال ناجائز طریقے سے مت کھایا کرو ۔
27- لوگوں کا مال ہڑپ کرنے کے لئے حکام کو رشوت مت دیا کرو۔
28- لوگوں کے درمیان صلح کراؤ‘
29 - بدگمانی سے بچو‘
30- ‘ غیبت نہ کرو‘
31- ایک دوسرے کی جاسوسی نہ کرو‘
32- خیرات کیا کرو‘
33غرباء کو کھانا کھلایا کرو‘
34- ضرورت مندوں کو تلاش کر کے ان کی مدد کیا کرو‘
35- فضول خرچی نہ کیا کرو‘
36- ‘ خیرات کر کے جتلایا نہ کرو‘
37- مہمانوں کی عزت کیاکرو‘
38 نیکی پہلے خود کرو اور پھر دوسروں کو تلقین کرو‘
39-‘ زمین پر برائی نہ پھیلایا کرو‘
40-‘ لوگوں کو مسجدوں میں داخلے سے نہ روکو‘
41 - صرف ان کے ساتھ لڑو جو تمہارے ساتھ لڑیں‘ 42 -جنگ کے دوران جنگ کے آداب کا خیال رکھو‘ 43 -‘ جنگ کے دوران پیٹھ نہ دکھاؤ‘
44.‘ مذہب میں کوئی سختی نہیں‘
45- ‘ تمام انبیاء پر ایمان لاؤ‘
46 - ‘ حیض کے دنوں میں مباشرت نہ کرو‘
47 ‘طلاق کی صورت میں بچوں کو دو سال تک دودھ پلاؤ اور ماں کو اس کی اجرت دو۔
48- جنسی بدکاری سے بچو‘
49 - حکمرانوں کو میرٹ پر منتخب کرو‘
50 - کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو‘
51- نفاق سے بچو‘
52- کائنات کی تخلیق اور عجائب کے بارے میں گہرائی سے غور کرو‘
53 _ عورتیں اور مرد اپنے اپنےاعمال کی برابر جزاء پائیں گے‘
54- مرد کو خاندان کی ذمہ داریاں اٹھانے کا اہل ہونا چاہئے-
55 بخیل نہ بنو‘
56 - حسد نہ کرو‘
57- ایک دوسرے کو قتل نہ کرو‘
58. بدی کی وکالت نہ کرو‘
59- گناہ اور زیادتی کے معاملے میں دوسروں کے ساتھ تعاون نہ کرو‘
60- نیکی میں ایک دوسری کی مدد کرو‘
61-‘ اکثریت سچ کی کسوٹی نہیں ہوتی‘
62- صحیح راستے پر رہو‘
63- جرائم کی سزا دے کر جرم کا ارادہ رکھنے والوں کے لئے عبرت کا سامان کرو‘
64 -گناہ اور ناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے رہو‘
65 -مردہ جانور‘ خون اور سور کا گوشت حرام ہے‘ 66- شراب اور دوسری منشیات سے پرہیز کرو‘
67-‘ جواء نہ کھیلو‘
68‘ ہیرا پھیری نہ کرو‘
69 -‘ کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو‘
70- ‘ نماز کے وقت اچھے کپڑے پہنو‘
71- ‘آپ سے جو لوگ مدد اور تحفظ مانگیں ان کی حفاظت کرو‘ انھیں مدد دو‘
72-‘ طہارت قائم رکھو‘
73‘ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو‘
74‘ اللہ نادانستگی میں کی جانے والی غلطیاں معاف کر دیتا ہے‘
75- لوگوں کو دانائی اور اچھی ہدایت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاؤ‘
76- ستتر‘ کوئی شخص کسی کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘
77-‘ غربت کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو‘ 78-‘ جس بات کے بارے میں علم نہ ہو اس کا پیچھا نہ کرو‘
79-‘ کسی کے پوشیدہ امور سے دور رہا کرو (کھوج نہ لگاؤ)‘
80-اجازت کے بغیر دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو‘
81‘ اللہ اپنی ذات پر یقین رکھنے والوں کی حفاظت کرتا ہے‘
82- زمین پرعاجزی کے ساتھ چلو‘
83-دنیا سے اپنے حصے کا کام مکمل کر کے جاؤ‘
84-‘ اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘
85‘ ہم جنس پرستی میں نہ پڑو‘
86-‘ صحیح(سچ) کا ساتھ دو‘ غلط سے پرہیز کرو‘ 87‘ زمین پر تکبر سے نہ چلو‘ ن
88عورتیں اپنی زینت کی نمائش نہ کریں‘
89- اللہ شرک کے سوا تمام گناہ معاف کر دیتا ہے‘ 90-‘ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو‘
91‘ برائی کو اچھائی سے ختم کرو‘
92- فیصلے مشاورت کے ساتھ کیا کرو‘
93- تم میں وہ زیادہ معزز ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے‘
94 -‘ مذہب میں رہبانیت نہیں بلکہ بدعت ہے
95‘ اللہ کائناتی علم والوں کو مقدم رکھتا ہے‘
96-‘ غیر مسلموں کے ساتھ مہربانی اور اخلاق کے ساتھ پیش آؤ‘
97-‘ خود کو لالچ سے بچاؤ‘
98-‘ اللہ سے معافی مانگو‘ وہ معاف کرنے اور رحم کرنے والا ہے
99-’’جو شخص دست سوال دراز کرے اسے جھڑکو مت ،اچھے طریقے سے انکار کرو ۔
100- بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو ۔ناپسند ہونے کے باوجود ان میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے کثیر خیر رکھی ہو گی۔

21/02/2024

موبائل آپ کا ہے، آپ موبائل کے نہیں!

1 -موبائل کو صرف اسی وقت ہاتھ لگائیں جب کوئی کام ہو، مثلا کسی سے اہم رابطہ، یا کوئی حقیقی ضرورت

2 - سوشل میڈیا کے لئے کوئی وقت مقرر کرلیں، صرف اسی وقت سوشل میڈیا کا استعمال ہو، ان کے نوٹیفکیشنز بھی بند کردیں

3 - ان تمام ایپس کو بند کردیں جن سے آپ کو ادنی درجے میں بھی گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو۔۔

4 - واٹس ایپ کے گروپس کی تین کٹیگری بنائیں، ضروی، مفید غیر ضروری ، غیر مفید، صرف ضروری چیٹس کو چھوڑ کر تمام غیر ضروری گروپس آرکائیو میں ڈال دیں، سوشل میڈیا کے لئے مقرر وقت میں ہی انہیں دیکھیں۔ ضروری میری رائے میں صرف وہ گروپس ہیں جن میں آنے والے اکثر میسجز آپ سے براہ راست متعلق ہوں، جو گروپس اور چیٹس مفید پیغامات کے ہوں لیکن آپ کے لئے ضروری نہ ہوں وہ بھی آرکائیو میں جائیں گے۔

4 - ضرورت کے ایپس میں اگر نامناسب اشتہارات آتے ہوں تو ان کا سد باب یقینی بنائیں۔

5 - انٹرنیٹ براؤزر ہمیشہ ایڈ بلاکر والا استعمال کریں.

6 - کچھ وقت فارغ کرکے لازما موبائل کو اتنا استعمال کرنا کسی ماہر سے سیکھ لیں کہ آپ کو اپنے موبائل کی تمام ضروری سیٹنگز کا استعمال آجائے، موبائل کے مزاج واستعمال کے طریقہ کار سے بخوبی واقف ہوجائیں، موبائل میں بہت سے نامناسب چیزوں سے ہمارا جو پالا نادانستہ پڑتا رہتا ہے ان سے بآسانی بچا جاسکتا ہے۔۔

7 - نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں ، ایسے لوگوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھیں جو سمارٹ فون نہیں رکھتے، وقت کو تعمیری مشغولیات سے بھر دیں، اللہ سے مدد مانگیں اور اللہ کے ہاں جواب دہی کا دھیان رکھیں ..

16/02/2024

عاتکہ بنت زید😭 رضی اللہ عنھا👇👇

عبد اللہ بن ابی بکر سے نکاح کیا وہ شہید ہوگئے۔

پھر زید بن خطاب سے نکاح کیا وہ شہید ہوگئے۔

پھر عمر بن خطاب سے نکاح کیا وہ شہید ہوگئے۔

پھر زبیر بن عوام سے نکاح کیا وہ شہید ہوگئے۔

پھر حسین بن علی سے نکاح کیا وہ شہید ہوگئے۔

حتی کہ اہلِ مدینہ نے کہا "‏جو شخص شہادت کا خواہاں ہو وہ ان سے نکاح کرلے۔ ۔ ۔" رضی اللہ عنھم
(طبقات ابن سعد ٣/ ١٠٤)
اور ہمارے ہاں ایک شوہر فوت ہو جائے تو وہ عورت منحوس قرار دے دی جاتی ہے.

عبد الصمد صمدانی

14/02/2024

الیکشن میں پرزائیڈنگ تھا۔
میرے کچھ مشاہدات ہیں۔
1۔ سب کے انگوٹھے دیکھے۔ ناخن دیکھے۔ پوری قوم میں کیلشیم کی کمی ہے۔ جلدیں خشک ہیں۔ قوم کو اچھے moisturizer کی ضرورت ہے۔
2۔ مردوں کے ناخنوں میں مٹی تھی۔ سردی کی وجہ سے لگتا ہے نہانا کم ہوچکا ہے۔
3۔ کچھ خواتین کے ناخنوں میں آٹا لگا ہوا تھا جوکہ پاکائی میں رکاوٹ ہے ۔ اور بہت سی پاپا کی پریوں نے 100 روپے والی نیل پالش لگائی ہوئی تھی۔ حالات خراب ہیں۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔
4۔ پوری قوم کی انگریزی کا ستیاناس ہے۔ سب نے لکھا
I casted my vote.
انگریزی کے لفظ cast کی سیکنڈ فارم cast ہی ہوتی ہے۔ صحیح فقرہ یہ ہے I cast my vote.
انگریزی سیکھیں۔ انگریزی سیکھنے کے لئے مارفا کالج شادمان ٹاؤن میں داخلہ لیں،کالجز میں داخلے جاری ہونے جا رہے ہیں۔...🤷

12/02/2024

ہندؓ بنت ِعتبہ کے متعلق مبالغہ آمیز قصہ!

عالم اسلام کے عام مؤرخین اور خصوصاً حاقدینِ بنی اُمیہ نے اپنی مؤلفات میں مرویاتِ محمد بن اسحق اور مسندامام احمد کی ایک روایت کی بنیادپرحضرت ہندؓ بنت ِعتبہ قرشیہ کے متعلق بیان کیا ہے کہ اس نے جنگ ِاُحد میں حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کا پیٹ چاک کرکے اُن کا جگر چبا ڈالا تھا بلکہ اسے نگلنے کی کوشش بھی کی تھی اور سچی بات یہ ہے کہ ہم خود بھی ان لوگوں میں شامل رہے ہیں جو منبر و محراب پر ہند ِبنت عتبہ کی سنگدلی کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور ہم آج تک اس قصے کو متفق علیہ سمجھتے رہے، تاآنکہ ہمیں فضیلة الشیخ ربیع بن ہادی عمیر مدخلی سابق پروفیسر مدینہ یونیورسٹی کی کتاب مطاعن سید قطب علی أصحاب رسول اﷲ ﷺ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب میں علامہ محمود شاکر مصری کا مقالہ بھی شامل ہے جو انہوں نے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں لکھا تھا۔
اس مقالے میں اُنہوں نے ایمان قبول کرکے اسلام کی خاطر زندگیاں وقف کردینے والے صحابہ کرامؓ کے تذکرے کے بعد ہند بنت ِعتبہ قرشیہ کے متعلق لکھا تھا کہ اگر ہند بنت عتبہ کے متعلق حضرت حمزہؓکے پیٹ چاک کرنے اور ان کے جگر کو چبانے کا قصہ صحیح ثابت ہوجائے تو پھربھی بہت کم ایسے مرد اور عورتیں نظر آئیں گی جن سے جاہلیت میں ایسے افعال سرزد نہ ہوئے ہوں ۔
جب ہم نے یہ الفاظ پڑھے تو ہمیں حد درجہ حیرانی ہوئی اور پھر ٹھنڈے دل سے سوچا کہ اصل حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کے لئے اس موضوع پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ جتنا کسی کا گناہ یا قصور ہو، حکایتاً اسے اتنا ہی بیان کیا جائے اور مبالغہ آمیزی سے بچا جائے۔ ہم اسی فکرمیں تھے کہ ہمیں کویت سے شائع ہونے والا مجلہ 'اُمتی' مل گیا،ا س میں فضیلة الشیخ حای الحای کے مضمون پر نظر پڑی اور ہم نے اسے بالاستیعاب پڑھا۔ زیر نظر مضمون میں ہم اسے تمہید بناکر اس پر اپنی گذارشات پیش کریں گے۔اللہ کریم ہمیں اِفراط وتفریط سے بچائے اور حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب ہاشمی کے بعد از شہادت پیٹ چاک کرنے اور ان کے جگر چبانے کے قصے کا دارومدار مسنداحمد کی اس مرسل اور منکر المتن روایت پر ہے جو بمع سند اس طرح ہے :

''حدثنا عفان حدثنا حماد حدثنا عطاء بن السائب عن الشعبي عن ابن مسعود أن النساء کنَّ یوم أحد خلف المسلمین یُجھزن علی جرحیٰ المشرکین،فلو حلفت یومئذ رجوت أن أبرَّ: أنه لیس أحد منا یرید الدنیا حتی أنزل اﷲ عزوجل {مِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ ٱلدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ ٱلْءَاخِرَ‌ةَ ۚ ثُمَّ صَرَ‌فَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ...﴿١٥٢﴾...سورة آل عمران فلمَّا خالف أصحاب النبي ! وعصوا ما أمروا به أفرد رسول اﷲ ! في تسعة، سبعة من الأنصار ورجلین من قریش وھو عاشرھم، فلما رھِقوہ قال: (رحم اﷲ رجلا ردَّھم عنا) قال: فقام رجل من الأنصار فقاتل ساعة حتی قُتل فلمَّا رھقوہ أیضًا قال: (یرحم اﷲ رجلا ردّھم عنا) فلم یزل یقول ذا حتی قتل السبعة فقال النبي ! لصاحبه(ما أَنْصَفْنَا أصحابَنا)۔ فجاء أبوسفیان، فقال: اُعلُ ھبل! فقال رسول اﷲ !: (قولوا: ''اﷲ أعلیٰ وأجلّ'') فقالوا: اﷲ أعلی وأجل فقال أبوسفیان لنا عزّٰی ولاعزّٰی لکم۔ فقال رسول اﷲ ! قولوا: (اﷲ مولـٰنا والکافرون لا مولیٰ لھم)،ثم قال أبوسفیان: یومٌ بیومِ بدر، یوم لنا ویوم علینا، ویوم نُسَاء ویومٌ نُسَرُّ،حنظلة بحنظلة، وفلان بفلان،وفلان بفلان فقال رسول اﷲ ! : (لا سواء أما قتلانا فأحیَاء یُرزقون، وقتلاکم في النار یُعذَّبون) قال أبوسفیان: قد کانت في القوم مثلة، وإن کانت لَعَنْ غیر ملإ منا ما أمرت ولا نھیت، ولا أحببتُ ولا کرھتُ، ولاسَائَنِـيْ وَلاَ سَرَّنِيْ قال: فنظروا،فإذا حمزة قد بُقِرَ بطنه، وأخذت ھند کبدہ فَلاَکتْھا، فلم تستطع أن تأکلھا، فقال رسول اﷲ !: (أ أکلت منه شیئًا؟) قالوا:لا، قال: (ما کان اﷲ لیُدخل شیئًا من حمزة النار)، فوضع رسول اﷲ ! حمزة فصلي علیه، وجيء برجل من الأنصار فوضع إلی جنبه فصلي علیه فَرُفع الأنصاري وتُرِك حمزة ثم جيء بآخر فوضعه إلی جنب حمزة فصلي علیه ثم رُفع وتُرك حمزة حتی صلي علیه یومئذ سبعین صلاة1

''امام احمد رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عفان نے حماد کے حوالے سے اور حماد نے ان کو عطا بن سائب کے حوالے سے بیان کیا کہ شعبی کے ذریعے حضرت ابن مسعودؓ سے روایت منقول ہے کہ جنگ ِاُحد کے دن مسلمان عورتیں مسلمانوں کے پیچھے تھیں اور وہ مشرکین کے زخمیوں پرحملہ آور ہوکر ان کا کام تمام کردیتی تھیں ، اور اگر میں اس دن حلف اُٹھا کرکہتا کہ ہم میں سے کوئی بھی دولت دنیا کا ارادہ نہیں رکھتا تھا تو میں پُرامید تھا کہ میں سچا ثابت ہوں گا یہاں تک کہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمادی مِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ ٱلدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِ‌يدُ ٱلْءَاخِرَ‌ةَ ۚ ثُمَّ صَرَ‌فَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ...﴿١٥٢﴾...سورة آل عمران جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپؐ کے حکم کی خلاف ورزی کی تو آپؐ ۹ صحابہ کے ساتھ ایک طرف ہوگئے، ان میں سات انصاری تھے اور دو قریشی اور ان میں دسویں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے۔ جب کفار قریش نے آپؐ کو نرغے میں لے لیا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ اس آدمی پر رحم فرمائے جو اُنہیں ہم سے دور ہٹا دے، راوی کہتا ہے کہ انصار میں ایک صحابیؓ آگے بڑھا اور گھڑی بھر لڑتا ہوا شہید ہوگیا، جب اُنہوں نے پھر گھیرا تنگ کیا تو آپؐ نے فرمایا: اللہ اس آدمی پر رحم فرمائے جو اُنہیں ہم سے دور ہٹا دے۔ آپؐ اسی طرح فرماتے رہے یہاں تک ساتوں انصاری یکے بعد دیگرے لڑتے شہید ہوگئے، تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔ چنانچہ ابوسفیان آیا اور کہنے لگا ۔ اُعل ھبل (ہبل کا اقبال بلند ہو)۔ آپؐ نے فرمایا: تم کہو : اﷲ أعلیٰ وأجل(اللہ تعالیٰ اعلیٰ اور بزرگ تر ہے)۔ ابوسفیان نے کہا: لنا عزیٰ وعزیٰ لکم (ہمارا عزیٰ ہے تمہارا عزیٰ کوئی نہیں )۔ آپؐ نے فرمایا: تم جواب دو: اﷲ مولانا ولا مولیٰ لکم (ہمارا مولیٰ اللہ ہے اور تمہارامولیٰ کوئی نہیں ) پھر ابوسفیان نے کہا: آج کا دن یومِ بدر کے بدلہ کا ہے۔ کوئی دن ہمارے لئے اور کوئی دن ہمارے برخلاف، کسی دن ہم بے وقعت اور کسی دن ہم خوش بخت، حنظلہ کے بدلے حنظلہ کے، فلان کے بدلے فلان کے ، اور فلان کے بدلے فلان کے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کسی طرح سے برابری نہیں ، ہمارے مقتول تو زندہ ہیں اور رزق دیئے جاتے ہیں جبکہ تمہارے مقتول دوزخ میں عذاب دیئے جارہے ہیں ۔ ابوسفیان نے کہا: قوم میں کچھ افراد کے ناک، کان کاٹے گئے ہیں اور یہ ہمارے سرکردہ جنگجوؤں کاکام نہیں ہے، نہ میں نے اس طرح کرنے کا حکم دیا ، نہ اس طرح کرنے سے روکا اور نہ میں نے اسے پسند کیا اور نہ ہی بُرا سمجھا اور نہ تو یہ منظر مجھے بُرا لگا اور نہ ہی اچھا ۔ راوی کہتا ہے کہ جب اُنہوں نے دیکھا تو حضرت حمزہؓ کا پیٹ پھاڑا گیاتھا اور ہند نے ان کاجگر چبایا، لیکن اسے نگل نہ سکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس نے اس سے کچھ کھایا ہے؟ صحابہؓ نے جواب دیا: نہیں ۔آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ وہ حمزہؓ کے بدن کے کسی جز کو آگ میں داخل کرے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حمزہؓ کو سامنے رکھ کر ان کی نمازِ جنازہ پڑھی، اسی دوران ایک انصاری شہید لایا گیا اور اسے سیدنا حمزہ کے پہلو میں رکھ دیا گیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی نمازِ جنازہ پڑھی، پھر انصاری کو اُٹھالیاگیا اورسیدنا حمزہؓ کو چھوڑ دیاگیاپھر دوسرے شہیدانصاری کولایا گیا اور اسے حمزہؓ کے پہلومیں رکھ دیا گیا اور ان پر نمازِ جنازہ پڑھی گئی پھر اسے اًٹھا لیاگیا اور حمزہؓ کو چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ اس روزسیدنا حمزہؓ پر ستر مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھی گئی۔ ''
یہ طویل حدیث جسے محدثِ مصر علامہ احمد شاکر نے سہواً صحیح قرار دیا ہے ، یہ دو اعتبار سے ضعیف بھی ہے اور ش*ذ بھی اور منکربھی ہے۔ضعیف تو اس اعتبار سے کہ اس روایت کے راوی امام شعبی کا حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سماع ثابت نہیں ہے۔ جیسا کہ امام ابو محمد عبدالرحمن بن حاتم رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ ابوحاتم رازی سے سنا ، وہ فرماتے تھے کہ شعبی نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے سماع نہیں کیا اور شعبی رحمة اللہ علیہ حضرت عائشہؓ کے حوالے سے جو کچھ بیان کریں گے، وہ مرسلا ًہی ہوگا۔ البتہ حضرت مسروق حضرت عائشہؓ سے روایت کیا کرتے تھے۔ 2
اس بنا پر یہ روایت منقطع ثابت ہوئی۔ مزید برآں اس حدیث میں عطا بن سائب کی وجہ سے بھی ضعف ہے۔ چنانچہ امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اپنی تاریخ میں اس روایت کوذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : تفردبه أحمد وھذا إسناد فیه ضعف أیضا من جھة عطاء بن السائب ۔3
'' اس روایت کو بیان کرنے میں امام احمد منفرد ہیں اور اس میں عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعف بھی ہے۔''
امام ہیثمی رحمة اللہ علیہ مجمع الزوائد میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وفیه عطاء بن سائب وقد اختلط 4

اگرچہ علامہ احمد شاکر رحمة اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ یہ روایت اختلاط سے قبل کی ہے، لیکن ان کااختلاط روایت ِ مذکورہ میں اظہر من الشمس ہے اور وہ اس طرح کہ صحیح بخاری ودیگر کتب ِصحاح میں مسلمان عورتوں کے مشرکین زخمیوں پرحملہ آور ہونے کا ذکرنہیں ہے جبکہ یہاں اس بات کا ذکر ہے کہ مسلمان عورتیں زخمی مشرکوں پرحملہ آور ہو رہی تھیں ۔
صحیح احادیث میں : یوم لنا ویوم علینا، ویوم نُسَاء ویوم نُسَرُّ، حنظلة بحنظلة وفلان بفلان کا ذکر بھی نہیں ہے جبکہ اس روایت میں مسجع ومقفیٰ عبارت موجود ہے جو خود ساختہ معلوم ہوتی ہے۔
اس روایت میں ذکر ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان نے جواب میں خود فرمایا: لا سواء أما قتلانا فأحیاء یُرزقون وقتلاکم في النار یُعذَّبون جبکہ صحیح حدیث میں منقول ہے کہ حضرت عمربن خطابؓ نے اس مفہوم کا جواب دیا تھا۔
اس روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ ابوسفیان نے پہلےأعلُ ھُبل کانعرہ لگایا تھا جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ اس نے دامنِ اُحد میں کھڑا ہوکر پوچھا تھا کہ تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہے؟ کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے؟ کیا تم میں ابن خطاب ہے، پھر اس کے بعد اس نے أعلُ ھبل کہا تھا۔
اس روایت میں ہے کہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداے اُحد کی فرداً فرداً نمازِ جنازہ پڑھی اور حضرت حمزہؓ کی ستر مرتبہ نمازِ جنازہ پڑھی جبکہ صحیح احادیث میں ہے کہ آپؐ نے شہداے اُحد کو نہ توغسل دیا تھااور نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی بلکہ اُنہیں خود شہادت سمیت دفن کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اس میں کئی ایسی باتیں اوربھی ہیں جو اس روایت کے ش*ذ ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔
اس روایت کامتن بھی منکر ہے اور وہ اس طرح کہ اس روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے پوچھا: (أ أکلت منھا شیئا؟) قالوا: لا، (قال ما کان اﷲ لیدخل شیئًا من حمزة النار) اس روایت کامدعا ہے کہ ہندبن عتبہ اسلام قبول نہیں کرے گی اور جہنم میں داخل ہوگی کیونکہ اللہ نے حمزہؓ بن عبدالمطلب کے بدن کے کسی جز کو ایسے بدن میں داخل نہیں ہونے دیا جو آگ میں جلنا ہے۔ جبکہ صحیح بخاری جیسی کتب ِصحاح میں صحیح الاسناد روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندؓ نے فتح مکہ کے دن اسلام قبول کیا اور ساری زندگی اسلام و ایمان پرقائم رہی بلکہ فتح الباری میں امام ابن حجرعسقلانی رحمة اللہ علیہ نے یہ بھی بیان کیا ہے: کہ وکانت من عقلاء النساء اور پھر حضرت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دیتے وقت اس کی گفتگو سے اس کی دانش مندی پرکئی پہلوؤں سے استدلال کیا۔ 5

اگرچہ مذکورہ بالا روایت کے بعض مندرجات کی دیگر شواہد احادیث میں تائید موجود ہے لیکن ہند کے حضرت حمزہؓ کے پیٹ چاک اور ان کا جگر چبانے کی بات کسی طرح بھی صحیح طور سے ثابت نہیں ہوتی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب جیسے اسد اللہ واسد رسولہ کی شہادت نہایت الم ناک ہے، لیکن اس میں مرکزی کردار حضرت جبیر بن مُطعم کا ہے جس نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کا بدلہ لینے کے لئے وحشی بن حرب کو خصوصی طور پر مشن سونپا تھا اور اس نے محض اپنی آزادی کی خاطر بزدلانہ حملہ کرکے آپ کو شہید کردیا تھا۔

باقی رہی یہ بات کہ شہداے اُحد کامثلہ تو ہواتھا تو ہم بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ یقینا ان کامثلہ ہواتھا، لیکن یہ سارا کام صرف ہند بنت ِعتبہ قرشیہ نے سرانجام نہ دیاتھا بلکہ اس کے ساتھ دیگر خواتین یا مشرکین بھی شریک تھے جواس گھناؤنے جرم کاارتکاب کرتے رہے، لیکن جہاں تک پیٹ چاک کرکے کلیجہ یا جگر چبانے یاشہداے کرام کے ناک، کان کاٹ کر ہار بنانے اور اسے گلے میں لٹکانے اور پھر اس وحشی بن حرب کو ہدیہ دینے جیسی روایات منقول ہیں تو ایک طرف تو وہ سنداً صحیح نہیں ، دوسری طرف فطرتِ انسانی بھی اِنہیں قبول کرنے سے اِبا کرتی ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم نہیں کرتی، کیونکہ وحشی بن حرب کی حضرت حمزہؓ سے دشمنی نہ تھی۔ وہ توجبیر بن مطعم کا غلام تھا اور حضرت حمزہؓ نے جبیر بن مطعم کے چچا طعیمہ بن عدی کو جنگ ِبدر میں قتل کیاتھا، اس لئے جبیر نے اپنے چچا کاانتقام لینے کے لئے وحشی کو آزادی کا لالچ دے کر حضرت حمزہؓ کے قتل پرآمادہ کیا تھا۔ اوراس نے محض اپنی آزادی کی خاطر یہ بزدلانہ اور گھناؤنا جرم کیا تھا، لہٰذا اسے کٹے ہوئے اعضاے انسانی اپنے گلے میں پہننے کی ضرورت ہی نہ تھی، اسے تو آزادی کی ضرورت تھی جو اسے مل گئی۔ نہ وہ ہند بنت ِعتبہ کا غلام تھا اور نہ ہی ہند نے اسے حضرت حمزہؓ کے قتل پر آمادہ کیاتھا، اسے تو جبیر بن مطعم کا منصوبہ کام دے گیا۔

بعدازاں حضرت جبیرؓ بن مطعم اور ہندؓ بنت عتبہ اور وحشی ؓبن حرب نے اسلام قبول کرلیا اور اسلام کی خاطر شاندار خدمات سرانجام دیں ۔ فتح الباري اور الاصابہ وغیرہ میں شرح و بسط سے ان کے قبولِ اسلام کا قصہ مرقوم ہے۔اگر ہندؓ بنت عتبہ نے حضرت حمزہؓ کے جسد ِ اطہر سے ایسا سلوک کیاہوتا تو حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبولِ اسلام کے وقت ایسا تو کہہ دینا تھا کہ ہند تیرا اِسلام تو قبول ہے، لیکن اُٹھ کرچلی جا اور آئندہ میرے سامنے نہ آنا، کیونکہ مجھے شہید چچا کی المناک شہادت یاد آجایاکرے گی، لیکن آپؐ نے ایسا نہیں فرمایا بلکہ اس کے بجائے طبقاتِ ابن سعد :8؍171میں منقول ہے کہ وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: یا رسول اﷲ! الحمد ﷲ الذي أظھر الدین الذي اختار لنفسه لتنفعني رحمك یا محمد! إني إمرأة مؤمنة باﷲ مصدقة برسوله''
''اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! تمام طرح کی حمدوثنا اللہ کے لئے جس نے اس دین کو غالب کردکھایا جسے اس نے اپنے لئے پسند کیا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے (عفو و درگزر) کی صورت میں آپؐ سے قرابت داری کا نفع ملنا چاہئے۔ میں اللہ پر ایمان رکھنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے والی عورت ہوں ۔''
بعد ازاں اس نے کہا:
'' میں ہند بنت ِعتبہ ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرحبًا بکِ '' (خوش آمدید)
پھر وہ یوں گویاہوئی: ''واﷲ ما کان علی الأرض أھل خباء أحب إلي من أن یذلوا من خبائك۔ ولقد أصبحتُ: وما علی الأرض أھل خباء أحب من أن یعزوا من خبائك''
''اللہ کی قسم! روے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا ذلیل ہونا محبوب نہ تھا اور آج میری کیفیت یہ ہے کہ روے زمین پر مجھے آپ کے گھرانے سے بڑھ کر کسی گھرانے کا عزت دار ہونا محبوب نہیں ۔''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وزیادة اور بخاری کی روایت میں وأیضًا والذي نفسي بیدہ
پھر اس نے جہادِ یرموک مںل جو بے مثال خدمات سرانجام دیں ، وہ تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں ۔

Address

Sahiwal
Sahiwal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Abu noah M Bilal posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Abu noah M Bilal:

Share


Other Tourist Information Centers in Sahiwal

Show All