22/03/2024
چڑیا کا عالمی دن
آصف محمود | ترکش | روزنامہ 92
چڑیا کا عالمی دن منایا جا چکا اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ یہ ننھا پرندہ اب نظر کیوں نہیں آتا؟یہ کہاں چلا گیا؟ایک زمانہ تھا ہر سو یہ چڑیاں چہچہاتی پھرتی تھیں اور اللہ کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے تھے۔ آج یہ وقت آن پہنچا کہ دنیا اس ننھی مخلوق کا عالمی دن منا رہی ہے لیکن یہ چڑیا اب کہیں نظر نہیں آتی۔یہ پرندہ ہمارے گھر وں کا حصہ ہوتا تھا ہم نے اس کی قدر نہیں کی ، آج یہ نایاب ہوتا جا رہا ہے اور ہم بیٹھے اس کا عالمی دن منا رہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ بھی شاید وہی ہے کہ آنکھ تب کھلتی ہے جب بند ہونے لگتی ہے۔اب ا کر ہمیں چڑیوں کی یادآ رہی ہے جب ہم چڑیوں سے محروم ہو چکے۔
چڑیوں کے ساتھ اپنا رشتہ بہت پرانا ہے۔ گاؤں میں اپنے گھر میں کینو، امرود اور سنبل کے درخت تھے۔ وہیں چارپائیوں پر ہم سوتے تھے۔ صبح دم نانا بالوں میں ہاتھ پھیرتے اور لوری دے کر جگاتے : اٹھ نام اللہ دا بول چڑیاں بول گئیاں۔ آنکھ کھلتی تو چڑیوں کی چہچہاہٹ اور نانا کی لوری ایک ساتھ سماعتوں میں رس گھولتیں۔ وقت کا موسم یوں بدلا کہ اب نہ نانا ہیں نہ چڑیاں ہیں۔ نہ کوئی لوری ہے نہ کسی چڑیا کی چوں چوں کی موسیقی۔
پرندے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔فاختہ اور کوئل کی آواز سنے اب عرصہ ہو گیاہے۔ پہاڑ کے دامن میں گھر بنا رہا ہوں۔ساتھ جنگل ہے سامنے پہاڑ ہے۔ ہر گھر کے سامنے پودے لگے ہیں لیکن چڑیا کہیں نظر نہیں آتی۔ بیج کے ساتھ زہر ڈال کر ہم نے پرندوں کی نسلیں معدوم کر دیں۔ جگنو جو ہماری دیہی تہذیب کا ایک بنیادی رنگ ہوتے تھے اسی زہر کی وجہ سے ختم ہو چکے۔
درختوں کے کٹائو سے ویسے ہی پرندے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔پہاڑی علاقے کے جنگلات میں پرندوں کی جو چند اقسام بچ گئی ہیں وہ بھی ہماری جہالت کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔ لوگ پہاڑوں پر جاتے ہیں اور شاپر پھینک کر آ جاتے ہیں۔ جس پرندے نے شاپر کا کوئی ٹکرا کھا لیا وہ مر جاتا ہے۔
اب چڑیا اور فاختہ جیسے پرندے بھی کم کم نظر آتے ہیں۔ طوطے دیکھے تو اب عرصہ ہو گیا۔تیتر اب صرف پنجروں میں دکھائی دیتے ہیں۔مرغابیوں کی کتنی اقسام معدوم ہو چکیں۔یہی عالم رہا تو پرندے صرف کتابوں میں رہ جائیں گے اور ہم کتاب کھول کر بچوں کو دکھایا کریں گے کہ چڑیا، فاختہ، تیتر اور طوطے کیسے ہوتے تھے۔
جو کسر رہ گئی تھی وہ موبائل کمپنیوں کے ٹاورز نے پوری کر دی ہے۔ ان سے خارج ہوتی