09/07/2020
ماونٹ ایورسٹ کی رین بو ویلی، جہاں گمشدہ ارواح بھٹکتی ہیں, ایورسٹ پر موت کو گلے لگانے والے کوہ پیماوں کی کہانیاں۔ (عبدہ کے قلم سے)
Writer: Abduhu
بہت سے لوگوں کے لئے ماونٹ ایورسٹ فطرتی خوبصورتی اور کرہ ارض پر عظمت کا استعارہ ہے اور ان خوش بختوں کے لئےکامیابی یا مقصد کے حصول کا نمائندہ ، ازلی سکون کی علامت ہے جو اس کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک دل خراش حقیقت بھی ہے کہ یہ پہاڑ ایک ایسا مقام ہے جہاں گمشدہ روحیں بھٹکتی پھرتی ہیں۔ خصوصا ان کی جن کی تقدیر نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ اپنی جدوجہد کے دوران فنا کی بے کنار وسعتوں میں ہمیشہ کے لئے کھو گئے۔
ماؤنٹ ایورسٹ رینبو ویلی جیسے چوٹی کے حصے ہمیں ایورسٹ کے اس تاریک اور بدصورت چہرے کے بارے میں مسلسل یاد دلاتے ہیں جو نہ صرف کوہ پیماوں بلکہ عام آبادی سے بھی پوشیدہ ہے۔ ۔
جب آپ "ماونٹ ایورسٹ رین بو ویلی" کا لفظ سنتے ہیں تو آپ کے ذہن میں جو تصویر بنتی ہے وہ کچھ یوں ہوتی ہے کہ یہ کوئی بہت خوب صورت جگہ ہے ، غالبا کوئی وادی جو رنگوں، زندگی، روشنی اور خوشیوں سے مالا مال ہے اور جہاں ہونے کا احساس نہایت شاندار اور دل فریب ہوتا ہے ۔
تاہم ماونٹ ایورسٹ کی رین بو ویلی ان توقعات کے بالکل الٹ ہے ۔ درحقیقت ماونٹ ایورسٹ کی رین بو ویلی ایورسٹ کا قبرستان ہے جہاں آپ کو ان کوہ پیماوں کے مردہ اجسام اور ان کی باقیات ملیں گی جو چوٹی پر چڑھنے یا چوٹی سے واپس کیمپ کی طرف آتے ہوئے حادثے سے دوچار ہوئے اور ہمیشہ کے لئے ایورسٹ کا حصہ بن گئے۔
اس جگہ کو ماونٹ ایورسٹ رین بو ویلی کا نام کیوں دیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایورسٹ کے قبرستان میں جتنی لاشیں پڑی ہیں وہ سب رنگین کپڑوں سے ڈھکی ہوئی ہیں ۔ غالبا یہ وہی کپڑے ہیں جو کوہ پیماوں نے مہم کے دوران پہن رکھے تھے۔ اتنی بلندی پر کوہ پیماوں کے بے روح اجسام گلتے سڑتے نہیں ہیں جس کی وجہ سے کپڑوں کے ٹکڑے ان کے جسم پر موجود رہتے ہیں۔ دور سے دیکھنے پر یہ علاقہ مختلف رنگوں کے ایک ٹکڑے کی مانند محسوس ہوتا ہے جیسے سفید برف پر رنگین قوس قزح پھیلی ہو اور اسی لیے اس جگہ کو ماونٹ ایورسٹ رین بو ویلی کا نام دیا گیا ہے۔
یہ جگہ ایورسٹ کی ڈیتھ زون میں آتی ہے اور پہاڑ کے اس حصے کی بلندی 8000 میٹر سے 8848 میٹر کے درمیان ہے۔ اس کو ڈیتھ زون اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ چڑھتے یا اترتے ہوئے سب سے زیادہ اموات یہیں واقع ہوئی ہیں۔
اس بلندی پر آکسیجن بہت کم ہو جاتی ہے، ہوا انتہائی لطیف ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ موسم بہت شدید ہوتا ہے اور طاقتور ہواوں کے طوفانی جھکڑ ہر وقت چلتے رہتے ہیں اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ درجہ حرارت بہت کم ہوتا ہے۔ اس سطح پر محض اندازے کی ایک چھوٹی سی غلطی کوہ پیما کو زندگی سے موت کی حد میں دھکیل دیتی ہے۔
ایک عمومی نظریے کے مطابق ماونٹ ایورسٹ رین بو ویلی ایورسٹ کا تاریک چہرہ ہے اور اسے دنیا سے اوجھل رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کوہ پیماوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کی صیلاحیت رکھتی ہے اور انہیں کسی قسم کے ایڈوینچر سے روکتی ہے۔
لیکن میرے خیال میں سچ یہ ہے کہ ایورسٹ رین بو ویلی، ایورسٹ قبرستان اور ڈیتھ زون جیسی جگہوں کے متعلق جاننے سے کوہ پیما تربیتی مشقوں اور کوہ پیمائی کی تیاری کے دوران اپنی بہترین صیلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اس بات سے واقف ہوں گے کہ چوٹی پر پہنچنے پر کس قسم کے حالات پیش آ سکتے ہیں ۔
یہ علاقہ چوٹی پر اس جگہ واقع ہے کہ اس سے گریز پا ہو کر آگے نہیں جایا جا سکتا، خصوصا جب آپ ایک معروف راستہ استعمال کر رہے ہوں۔
کوہ پیما کو ناچاہتے بھی اس دل گیر نظارے اور چٹان پر ان لاشوں کو دیکھنا ہی پڑتا ہے اور وہ اس سے نظر چرا کر نہیں جا سکتا۔
لہذا یہ زیادہ مناسب ہے کہ وہ چوٹی پر چڑھنے کے دوران پیش آ سکنے والی ہر مشکل اور کمی بیشی سے بخوبی آگاہ ہوں، یہ نشانیاں انہیں خبردار کرتی رہیں گی اور پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کے دوران محتاط رہنے کی علامت کے طور پر انہیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔
ایورسٹ پر ازلی سکون میں محو خرام ان بدقسمت کوہ پیماوں سے متعلق چند کہانیاں، جو کہ سچی ہیں، اگلے حصے میں بیان کی جائیں گی۔
ماونٹ ایورسٹ تین سو کے قریب کوہ پیماوں کی آخری جائے سکینت ہے اور اس وجہ سے اسے دنیا کا سب سے بلند کھلا قبرستان بھی کہا جا سکتا ہے۔ نیپالی قوانین کے مطابق ایورسٹ ایک مقدس پہاڑ ہے لہذا اس کی ازلی برفوں میں موت کو گلے لگانے والوں کی لاشوں کو وہاں سے ہٹانا چاہئیے مگر بدقسمتی سے ایسا کرنا ممکن نہیں۔ ڈیتھ زون میں مر چکے انسانوں کو لانا نہایت مہنگا اور مشکل ترین کام ہے ۔ اس میں تقریبا 800000 ڈالر کا خرچ آتا ہے اور شرپاز آکسیجن کی کمی کا شکار ہو کر خود بھی موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ لہذا وہ ہمیشہ وہیں رہیں گے جہاں ان کی تقدیر نے انہیں سلا رکھا ہے۔ وہ جس چوٹی کو سر کرنے کا خواب لے کر یہاں آئے تھے اب اسی کے وجود کا حصہ بن چکے ہیں ۔
چھیانوے سال پرانا حقیقی زندگی کا انڈیانا جونز، جس کے آخری ایام ہنوز ایک معمہ ہیں۔
"کیونکہ وہ وہاں ہے" ان تین الفاظ میں ناممکنات کے حصول کی کوشش کرنے والا جارج ملوری نہ صرف ایورسٹ کو اپنی وجہ شہرت بنا گیا بلکہ آنے والی مغربی نسلوں کی پوری ذہنیت پر ان الفاظ کا اثر بہت گہرا ہے۔
جارج ملوری بیسویں صدی کے سب سے ماہر اور تجربہ کار کوہ پیماوں میں سے ایک تھا۔ وہ برطانیہ کی تینوں ابتدائی مہمات کا حصہ تھا جو ایورسٹ کو سر کرنے کے لئے ترتیب دی گئی تھیں اور اس کی لاش ماونٹ ایورسٹ کی سب سے پرانی لاش ہونے کا ریکارڈ بھی رکھتی ہے۔ یعنی ملوری چھیانوے سالوں سے ایورسٹ پر سو رہا ہے۔
1924 میں اپنی تیسری کوشش کے دوران ملوری اور اس کا ایک ساتھی سینڈی ارون چوٹی کی طرف گئے اور پھر کبھی نظر نہ آئے ۔ ان کی موت کن حالات میں ہوئی ، یہ ایک سربستہ راز ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تقریبا صدی گزر جانے کے باوجود کوئی یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ ملوری واقعی چوٹی تک پہنچا بھی تھا یا نہیں؟
اگر یہ معلوم ہو جائے تو ملوری ایورسٹ سر کرنے والے پہلے انسان کے طور پر جانا جائے گا۔
1999 میں ایک تحقیقاتی مہم تشکیل دی گئی تا کہ ان مشہور زمانہ مہم جوؤں کی اس جوڑی کو ڈھونڈا جائے اور ان کے آخری گھنٹوں پر روشنی ڈالی جا سکے۔
ٹیم کو ملوری کی حنوط شدہ باقیات پہاڑ کے شمالی سمت کے ایک نچلے حصے میں ملیں۔ سورج ، برف اور موسم نے اسے بے رنگ کر دیا تھا۔ اس کے نچلے دھڑ پر رسیوں کے گہرے زخموں کے نشان تھے ، ٹانگ کی ہڈی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی اس لئے یہ فرض کیا گیا کہ وہ گرتے وقت اپنے ساتھی سے بندھا ہوا تھا جب ان میں سے کوئی ایک پہاڑ سے گرا اور اپنے ساتھ دوسرے کو بھی کھینچ لے گیا۔ اس کی پیشانی پر گالف کی گیند کے حجم کے زخم کا سوراخ بھی تھا جو اس کی موت کی وجہ بنا ہو گا۔
ٹیم نے اندازہ لگایا کہ جب ملوری اس چٹانی حصے سے پھسلا تو اس نے مایوسی کے عالم میں اپنی رفتار کم کرنے کی کوشش کی اور وہ ایک جھکی ہوئی چٹان سے ٹکرا کر پیچھے کو اچھلا اور اس کی پیشانی کی ہڈی چکنا چور ہو گئی۔
یہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس دن ملوری اور سینڈی نے واقعی چوٹی سر کی تھی یا نہیں ۔
تاحال بہت سی ٹیمیں اس تصویر کی تلاش میں ہیں جس کے بارے میں ملوری کا ارادہ تھا کہ وہ اسے چوٹی پر چھوڑ کر آئے گا۔ اس کے علاوہ سینڈی کا کیمرہ بھی تلاش کیا جاتا ہے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔
کوڈک کے ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ اگر کیمرہ مل جائے اور اسے مناسب طور پر کھولا جائے تو فلم اب بھی ڈیولپ ہو سکتی ہے۔ ارون کی باقیات ابھی تک غیر دریافت شدہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایورسٹ کو پہلی بار سر کرنے کے ثبوت بھی ایورسٹ کی سفید سلطنت میں پوشیدہ ہیں۔
"جرمن خاتون "
ہینیلور وہ پہلی خاتون کوہ پیما تھی جو ایورسٹ کے عظیم معبد میں موت سے ہمکنار ہوئی ۔
وہ ایک جرمن کوہ پیما تھی جس نے اکتوبر 1979 کو کامیابی سے ماونٹ ایورسٹ سر کر لیا تھا۔ نیچے اترتے ہوئے ہینیلور اور اس کا ساتھی رے جینیٹ تھکن سے مغلوب ہو گئے اور انہوں نے ڈیتھ زون میں رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے شرپاز نے ان سے درخواست کی کہ وہ یہاں رکنے کے بجائے کیمپ فور کی طرف چلتے رہیں مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔ انہوں نے ایک عارضی کیمپ لگایا جس پہ کوئی حفاظتی ترپالیں وغیرہ نہیں تھیں۔ یعنی انہوں نے ڈیتھ زون میں محض اپنے سلیپنگ بیگز میں رات گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔
رات میں وہاں ایک شدید برفانی طوفان آیا اور رے جینیٹ ہائپو تھرمیا کا شکار ہو کر جان گنوا بیٹھا۔ ہینیلور کیمپ سے 330 فٹ کی دوری پر تھکن سے مغلوب ہو گئی، اس کے آخری الفاظ تھے "پانی ۔۔۔پانی"۔
اس کی لاش کو 1984 میں واپس لانے کی کوشش کی گئی مگر اس مہم کے دوران جنوبی ڈھلوان پر انتہائی تیز ہوا کے سبب دو آدمی اپنی جان گنوا بیٹھے ۔
کئی سالوں تک کیمپ نمبر چار پر کوہ پیما ہینیلور کی نعش کو دیکھتے رہتے تھے جو تاحال اپنے تباہ شدہ بیگ پیک سمیت ایک طرف کو جھکی ہوئی تھی۔ کھلی آنکھوں اور ہوا میں لہراتے بالوں سمیت!!
گزرتے وقت کے ساتھ اسے محض "جرمن عورت" کے نام سے جانا جانے لگا اور پھر آخرکار تیز ہواوں نے ہینیلور کی باقیات کو نیچے کانگشنگ فیس تک پہنچا دیا۔
ہینیلور نہ صرف ایورسٹ پر ہلاک ہونے والی پہلی جرمن خاتون ہیں بلکہ ایورسٹ کی بالائی ڈھلوانوں پر موت کو گلے لگانے والی پہلی خاتون تھیں۔
ایورسٹ کی سلیپنگ بیوٹی۔
فرانسز آرسینٹو امریکہ کی پہلی خاتون تھی جس نے22 مئی 1998 کو ماونٹ ایورسٹ کو بغیر مصنوعی آکسیجن کے سر کیا تھا اور چوٹی سے اترتے ہوئے وہ حادثے کا شکار ہو کر داعی اجل کو لبیک کہہ بیٹھی ۔ اس سفر میں وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اس کا شوہر سرجی آرسینٹو بھی اس کے ساتھ تھا۔
سترہ مئی کو انہوں نے ایڈوانس بیس کیمپ سے نارتھ کول کی جانب چڑھائی شروع کی اور اگلے دن وہ 7700 میٹر کی اونچائی تک پہنچ گئے۔ نارتھ کول سے 21 کوہ پیما ایورسٹ کی چوٹی تک پہنچ چکے ہیں۔
19 مئی کو وہ 8200 میٹر پر کیمپ سکس تک چلے گئے۔ سرجی نے ریڈیو کے ذریعے مطلع کیا کہ وہ اچھی حالت میں تھے اور چوٹی کی جانب اپنا سفر بیس مئی کو ایک بجے کے قریب شروع کریں گے۔ 20 مئی کو کیمپ نمبر چھ پر رات گزارنے کے بعد انہوں نے چوٹی پر جانے کی کوشش کی مگر ان کے ہیڈ لیمپس نے کام کرنا چھوڑ دیا تو وہ شدید عمودی ڈھلوان کے پہلے چٹانی حصے کے قریب سے واپس آ گئے۔ 21 مئی کو بھی وہ کیمپ نمبر چھ پر ٹھہرے رہے ۔
ان دو ناکام کوششوں کے بعد انہوں نے اپنا حتمی سفر 22 مئی کو ایک بار پھر شروع کیا۔ اتنی بلندی پر آکسیجن سلنڈر کی عدم موجودگی کے سبب وہ دونوں بہت آہستہ چل پا رہے تھے اور انہوں نے خطرے میں پڑ کر اس دن بہت دیر سے چوٹی سر کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں ایک اور رات 8000 میٹر سے زائد بلندی پر گزارنا پڑی۔ اس شام وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ سرجی اگلی صبح نیچے کیمپ تک اتر آیا مگر اسے معلوم ہوا کہ اس کی بیوی ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔ یہ جان لینے کے بعد کہ وہ یقیننا پہاڑ پر کسی بلند جگہ اور خطرے میں پڑ گئی ہے وہ آکسیجن سلنڈر اور دوائیں لے کر اس کی تلاش میں دوبارہ اوپر چلا گیا۔ اس کے بعد کیا ہوا، اس کے بارے میں کوئی یقینی اور مصدقہ اطلاعات نہیں ملیں مگر کہا جاتا ہے کہ 23 مئی کو فرانسسز ایک ازبک ٹیم کو ملی تھی۔ وہ آکسیجن کی کمی اور شدید فراسٹ بایٹ کے سبب نیم بے ہوش محسوس ہوتی تھی۔
وہ خود حرکت کرنے سے قاصر تھی لہذا انہوں نے اسے آکسیجن فراہم کی اور نیچے لے آئے جہاں تک ممکن تھا۔ یہاں تک کہ ان کی اپنی آکسیجن ختم ہونے لگی اور وہ اتنے تھک گئے کہ مزید کوشش جاری نہ رکھ سکے۔ فرانسز ابھی تک زندہ تھی۔ جب ازبک کوہ پیما اس شام واپس نیچے اتر رہے تھے تو انہیں سرجی ملا جو اپنی بیوی کو واپس لانے جا رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اسے آخری بار زندہ دیکھا گیا۔
24 مئی کی صبح برٹن لان، وڈال، ساوتھ افریقن کیتھی اور دوسرے بہت سے ازبک کوہ پیماوں نے چوٹی پر جانے کے دوران فرانسز کو دیکھا، وہ اسی جگہ تھی جہاں اسے پچھلی شام کو چھوڑا گیا تھا۔ سرجی کا برفانی کلہاڑا اور رسی پہچان لی گئی جو قریب پڑی تھیں مگر خود اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔ ووڈال اور کیتھی نے چوٹی سر کرنے کی کوشش ترک کر دی اور ایک گھنٹے سے زیادہ وقت تک فرانسز کی مدد کی کوشش کرتے رہے مگر اس کی انتہائی خراب حالت، خطرناک جگہ اور منجمد ہوتے موسم کی وجہ سے انہیں اسے اپنے حال پر چھوڑ کر نیچے اپنے کیمپ تک آنا پڑا اور وہ مر گئی۔ بالکل اسی حالت میں جیسے وہ انہیں ملی تھی۔ پہلو کے بل لیٹی ہوئی اور اپنے رسے سے ابھی تک بندھی ہوئی تھی۔ اس کی لاش کو "ایورسٹ کی سلیپنگ بیوٹی" کا نام دیا گیا ہے۔
اس کے شوہر سرجی کی پراسرار گمشدگی کا راز اگلے برس کھلا جب جیک نورٹن ، جو کہ ملوری اور ارون مہم کا ایک ممبر تھا، نے سرجی کے جسم کو پہاڑ کی سطح پر کافی نیچے دریافت کیا۔ وہ اپنی بیوی کو نیچے لانے کی جدوجہد کرتے ہوئے پہاڑ سے گر کر موت کا شکار ہوا تھا۔
گرین بوٹ کی کہانی۔
ماونٹ ایورسٹ پر پائی جانے والی لاشوں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی "گرین بوٹس" کی بھی ہے۔ یہ نام ایک ناشناخت کوہ پیما کی نعش کو دیا گیا ہے جو مرکزی شمال مشرقی راستے کا ایک لینڈ مارک بن چکی ہے۔
اسے سرکاری طور پر ابھی تک شناخت نہیں کیا جا سکا مگر کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ہندوستانی کوہ پیما سیوانگ پالجور کی لاش ہے جو 1996 میں ایورسٹ پر موت کا شکار بن گیا تھا۔
اس لاش کو گرین بوٹس کا نام اس کے چمکیلے، تیز سبز رنگ کے کوہ پیمائی کے جوتوں کی وجہ سے دیا گیا ہے جو اب تک اس کے پیروں میں موجود ہیں ۔ جتنی مہمات بھی ایورسٹ کے شمالی حصے سے گزرتی ہیں وہ اس لاش کا آمنا سامنا کرتی ہیں جو 8500 میٹر بلند چونا پتھر کی ایک کھوہ میں دوہری حالت میں موجود ہے۔
مئی 2014 میں گرین بوٹس کی گمشدگی کی اطلاع موصول ہوئی اور یہ تصور کر لیا گیا کہ اسے وہاں سے ہٹا دیا گیا ہو گا یا کسی نے دفن کر دیا ہو گا۔ تین سال تک گرین بوٹس کسی کو نظر نہیں آیا مگر 2017 میں کوہ پیماوں کو ایک بار پھر گرین بوٹس کا جسم اسی جگہ پر نظر آیا اور اس پر چند پتھر گرے ہوئے تھے۔
گرین بوٹس کو سب سے پہلے ایک فرینچ کوہ پیما پیپرون نے 21 مئی 2001 کو عکسبند کیا تھا جس میں وہ بائیں کروٹ پر اس طرح لیٹا ہوا ہے کہ اس کا چہرہ چوٹی کی جانب ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ تھک کر چند لمحوں کے لئے سستانے کو لیٹا ہے۔ اس غار میں ہوا سے بچ کر کوہ پیما چند لمحے گرین بوٹس کے پاس ٹھہرتے ہیں اکثر توانائی بحال کرنے کو کچھ کھاتے ہیں اور پھر چل پڑتے ہیں۔