Raja Muhammad Hassan Gakhar Vlogs

  • Home
  • Raja Muhammad Hassan Gakhar Vlogs

Raja Muhammad Hassan Gakhar Vlogs 🇵🇰 ڈائری کاایک خوبصورت ورق ✒ زندگی موت کی امانت ہے بندہ ناچیز سے کوئ بھی بات ،غلطی سرذد ہوئ ہوتو معافی کا طلبگار ہے

سرسوں کا تیل واحد تیل ھے، جو ساری عُمر نہیں جمتا، اور اگر جم جائے تو سرسوں نہیں ھے،ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی باتبھی اسی...
13/11/2023

سرسوں کا تیل واحد تیل ھے،
جو ساری عُمر نہیں جمتا،
اور اگر جم جائے تو سرسوں نہیں ھے،
ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات
بھی اسی لیے کی جاتی ھے،
کیونکہ یہ ممکن نہیں ھے،
سرسوں کے تیل کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ اس کے اندر جس چیز کو بھی ڈال دیں گے،
اس کو جمنے نہیں دیتا،
اس کی زِندہ مِثال اچار ھے
جو اچار سرسوں کے تیل کے اندر رہتا ھے،
اس کو جالا نہیں لگتا،
اور اِن شاءالله جب یہ سرسوں کا تیل آپ کے جسم کے اندر جاۓ گا تو آپ کو کبھی بھی فالج،
مِرگی یا دل کا دورہ نہیں ہوگا،
أپ کے گُردے فیل نہیں ہونگے،
پوری زندگی آپ بلڈ پریشر سے محفوظ رہیں گے، (اِن شاء الله)
کیونکہ؟
سرسوں کا تیل نالیوں کو صاف کرتا ھے،
جب نالیاں صاف ہوجاٸیں گی تو دل کو زور نہیں لگانا پڑے گا،
سرسوں کے تیل کے فاٸدے ہی فاٸدے ہیں،
ہمارے دیہاتوں میں جب جانور بیمار ہوتے ہیں تو بزرگ کہتے ہیں کہ ان کو سرسوں کا تیل پلاٸیں،
أج ہم سب کو بھی سرسوں کے تیل کی ضرورت ھے،

3- نمک (نمک بدلیں)

نمک ہوتا کیا ھے؟
نمک اِنسان کا کِردار بناتا ھے،
ہم کہتے ہیں بندہ بڑا نمک حلال ھے،
یا پھر
بندہ بڑا نمک حرام ھے،
نمک انسان کے کردار کی تعمیر کرتا ھے،
ہمیں نمک وہ لینا چاہیٸے جو مٹی سے آیا ہو،
اور وہ نمک أج بھی پوری دنیا میں بہترین پاکستانی کھیوڑا کا گُلابی نمک ھے،
پِنک ہمالین نمک 25 ڈالر کا 90 گرام یعنی 8000 روپے کا نوے گرام اور 80000 روپے کا 900 گرام بِکتا ھے،
اور ہمارے یہاں دس تا بِیس روپے کلو ھے،
بدقسمتی دیکھیں!
ہم گھر میں آیوڈین مِلا نمک لاتے ہیں،
جس نمک نے ہمارا کردار بنانا تھا،
وہ ہم نے کھانا چھوڑ دیا۔
اس لٸے میری أپ سے گذارش ھے کہ ہمیشہ پتھر والا نمک استعمال کریں،

*4- مِیٹھا
ہم سب کے دماغ کو چلانے کے لٸے میٹھا چاہیٸے،
اور میٹھا الله کریم نے مٹی میں رکھا ھے،
یعنی گَنّا اور گُڑ،
اور ہم نے گُڑ چھوڑ کر چِینی کھانا شروع کر دی،
خدارہ گُڑ استعمال کریں،

*5- پانی
انسان کے لٸے سب سے ضروری چیز پانی ھے،
جس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں،
پانی بھی ہمیں مٹی سے نِکلا ہُوا ہی پینا چاہیٸے،
پوری دنیا میں آبِ زم زم سب سے بہترین پانی ھے،
اور اس کے بعد زمین کا پانی ھے،
اس کے بعد مٹی سے نکلنے والی گندم استعمال کریں،
لیکن گندم کو کبھی بھی چھان کر استعمال نہ کریں،
گندم جس حالت میں آتی ھے،
اُسے ویسے ہی استعمال کریں،
یعنی سُوجی، میدہ اور چھان وغیرہ نکالے بغیر
کیونکہ!
ہمارے آقا کریم حضرت محمد ﷺ بغیر چھانے أٹا کھاتے تھے،
تو پھر طے یہ ہوا کہ ہمیں یہ پانچ کام کرنے چاہٸیں،
1- مٹی کے برتن،
2- سرسوں کا تیل،
3- گُڑ،
4- پتھر والا نمک،
5- زمینکے اندر والا پانی،
زمین کے اندر والا پانی،
مٹی کے برتن میں رکھ کر،
مٹی کے گلاس میں پئیں،
اور ان ساری چیزوں کے ساتھ گندم کی روٹی کھائیں-
💯

27/04/2023

*خون کی الٹی سے روزہ کا حکم / الٹی کے بعد روزہ توڑنے کا حکم*

سوال
کیا روزے کی حالت میں خون کی الٹی ہونے سے روزہ باقی رہتا ہے؟ اور اگر روزہ توڑ دیا تو پھر اس کا کیا حکم ہے؟

جواب
روزے کی حالت میں خود بخود الٹی ہونے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، چاہے خون کی الٹی ہو یا کھانے وغیرہ کی۔ اگر کسی شخص کو الٹی سے روزہ نہ ٹوٹنے کا علم نہ ہو اور قے آنے سے روزہ ٹوٹ جانے کے گمان سےاس نے قصداً کچھ کھا کر روزہ توڑ دیا تو ایسی صورت میں صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، البتہ مسئلہ معلوم ہونے کے باوجود اگر کوئی شخص الٹی کے بعد قصداً کھا پی لے تو قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہوگا۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں بھی یہی حکم ہوگا، البتہ اگر خون کی الٹی کی وجہ سے تکلیف ہو یا بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو، اس وجہ سے ڈاکٹر کے کہنے پر یا خود دوا لی تو بوجہ مرض دوا لینے سے صرف قضا کا حکم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 402):
"وكذا لو ذرعه القيء وظن أنه يفطره فأفطر، فلا كفارة عليه؛ لوجود شبهة الاشتباه بالنظير فإن القيء والاستقاء متشابهان؛ لأنّ مخرجهما من الفم، وكذا لو احتلم للتشابه في قضاء الشهوة، وإن علم أن ذلك لايفطره فعليه الكفارة؛ لأنه لم توجد شبهة الاشتباه ولا شبهة الاختلاف اهـ". فقط والله أعلم

فتوی نمبر : 144109202462

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

27/04/2023

*جمعہ کے دن مرنے والے سے عذابِ قبر کا اٹھ جانا*

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر کسی شخص کا جمعرات یا جمعہ کے دن انتقال ہو جائے اور اس کی تدفین اور نماز جنازہ جمعہ سے پہلے پہلے ادا کر دی جائے تو کیا اس کا حساب کتاب نہیں ہوتا؟

جواب: حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو مومن رمضان میں یا جمعہ کے دن وفات پائے، اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
جو مسلمان جمعہ کے دن یا جمعہ کی شب مرتا ہے اللہ تعالیٰ قبر کی آزمائش سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
جمعہ کے دن جس کی موت ہوگی وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔
مسند احمد حديث نمبر ( 6546 )
جامع ترمذى حديث نمبر ( 1074 )
محدثین کے درمیان یہ اختلاف ہے کہ ہمیشہ کے لیے قبر کا عذاب اس سے اٹھالیا جاتا ہے یا صرف رمضان تک یا صرف جمعہ کو؟ کچھ حضرات اسی دوسرے قول کو لیتے ہیں کہ صرف رمضان یا صرف جمعہ کو قبر کا عذاب اٹھایا جاتا ہے اور کچھ محدثین پہلے قول کو لیتے ہیں کہ ہمیشہ کے لیے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اللہ کی بے پناہ رحمتوں سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ ہمیشہ کے لیے اس سے عذاب قبر اٹھالیا جاتا ہے۔ اس حدیث کی وجہ سے رمضان یا جمعہ کے دن وفات پانے والے کو مبارک کہا جاسکتا ہے۔
اور اگر کوئی غیر مسلم رمضان المبارک میں مر جائے تو صرف ماہ مبارک کے احترام میں رمضان المبارک تک عذاب قبر سے محفوظ رہے گا، اور رمضان کے بعد پھر اسے عذاب ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (165/2)
قال أهل السنة والج**عة: عذاب القبر حق وسؤال منكر ونكير وضغطة القبر حق، لكن إن كان كافراً فعذابه يدوم إلى يوم القيامة ويرفع عنه يوم الجمعة وشهر رمضان، فيعذب اللحم متصلاً بالروح والروح متصلاً بالجسم فيتألم الروح مع الجسد، وإن كان خارجاً عنه، والمؤمن المطيع لا يعذب بل له ضغطة يجد هول ذلك وخوفه، والعاصي يعذب ويضغط لكن ينقطع عنه العذاب يوم الجمعة وليلتها، ثم لا يعود وإن مات يومها أو ليلتها يكون العذاب ساعةً واحدةً وضغطة القبر ثم يقطع، كذا في المعتقدات للشيخ أبي المعين النسفي الحنفي من حاشية الحنفي ملخصاً ''۔

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

25/04/2023

آئیے بیوی کے ساتھ رومانس کرنا سیکھیں:
1: گھر میں داخل ہوتے ہی سلام کے بعد پہلا کام برش کرنا اور اس کیلئے اپنے آپ کو بنانا سنوارنا
2: اُس کے ساتھ بیٹھ کر ڈھیروں باتیں کرنا
3: اس کے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا دینا
4: اس کے جھوٹے برتن سے پانی پینا خاص طور پر جہاں اس کے ہونٹ لگے ہوں۔
5: اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا۔
6: اس کے بغیر کوئی دعوت پر بلائے تو انکار کر دینا
7: اُس کے پسندیدہ نام یا اس کے نام کو مزید پیارا بنا کر بلانا
8: اس کی گود میں سر رکھ کر سونا
9: لوگوں میں اس سے محبت کا اعتراف کرنا۔
10: اس سے ایسے برتاؤ کرنا جیسے وہ کانچ کی بنی ہوئی ہو۔
11: اسے اپنے ہاتھ سے کھلانا یا اس کے منہ میں لقمہ ڈالنا-
12: اس کے ساتھ حسن سلوک، حسن معاسرت، شفقت، حنان، عفو، درگزر، خندہ پیشانی، لطف و عنایت اور مہربانی والا رویہ رکھنا۔
ایسے کام لازمی کرنے چاہیے کیونکہ بہتر شخص وہ ہوتا ہے جواپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا ہوتا ہے.

25/04/2023

یہ پوسٹ ضرور پڑھیں اور عمل کیجئے،⁦👍⁩
رمضان شریف کا مہینہ آرہا ہے اس کے حوالے سے
_"عورت سحری میں سب سے پہلے جاگتی ہے۔ اور سب گھر والوں کے لیئے سحری تیار کرتی ہے لیکن سب سے آخر میں کھاتی ہے۔🍝
روزہ رکھنے کے بعد دوپہر میں بچوں کو کھانا کھلاتی ہے۔🍜
پھر 4 بجے کے بعد سے افطاری تک اپنے خاندان والوں کے لیئے افطاری تیار کرنے میں لگ جاتی ہے۔
چاول۔ پالک۔ گوشت۔ چٹنی وغیرہ وغیرہ تیار کرتی ہے اور ساتھ میں یہ ڈر بھی رہتا ہے کہ پتہ نہیں کیسے پکایا ہوگا۔
ساس اور سسر کے لیئے الگ چیز پکاتی ہے۔اور ساتھ ساتھ میں افطاری سے پہلے شوہر کے غصہ کو صبر سے جھیلنا بھی پڑتا ہے۔⭐

اذان سے پہلے دسترخوان لگانا تعریف تو دور کی بات 2۔۔2 روٹیاں کھانے کے بعد ایک ٹھنڈا گلاس🍺 لسی مانگنا اور پھر کہنا کہ نمک کم ہے اور خاص ٹھنڈا نہیں ہے اور افطاری پوری کی پوری کر لی جناب نے۔🌙

اسکے بعد چھپکے سے کسی کمرے میں افطاری کرلیتی ہے۔
تراویح کے بعد پھر سے حضرات کے لیئے چائے اور میوہ تیار کرتی ہے۔☕🍱

اور پھر سے سحری میں سب سے پہلے جاگتی ہے۔💆
اگر خدا نا خواستہ نہ جاگی 2 بجے یا سحری لیٹ ہوئی تو سب خاندان کا نزلہ بیچاری عورت پر گرتا ہے سارا دن۔

آپ سب سے درخواست ہے کہ ۔
گھر کی ساری عورتیں خواہ وہ ماں ہو بیوی ہو بیٹی ہو بہن ہو یا کوئی اور رشتہ ہو انکا لازمی خیال رکھنا چاہیئے۔
آخر وہ بھی ہماری طرح انسان ہے۔💯

25/04/2023

*ذاتی گھر كے لیے وظیفہ*

سوال:

مفتی صاحب مہربانی فرما کر زاتی گھر کیلئے وظیفہ بتا دیں۔ اور کسی شخص سے اپنی زاتی رقم لینی ہو تو وظیفہ بتا دیں کے وہ شخص خود رقم دیدے ، اللہ آپ کو جزائے خیر دے ، آمین

جواب نمبر: 175832
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa:456-323/sn=5/1441

”بسم اللہ“ کو بارہ ہزار مرتبہ اس طرح پڑھیں کہ ایک ہزار مرتبہ پڑھنے کے بعد دو رکعت نماز پڑھ کر ذاتی مکان کے لیے، اسی طرح وصولی قرض کے لیے اللہ سے خشوع خضوع کے ساتھ دعا کریں، اس کے بعد پھر ایک ہزار مرتبہ پڑھ کر یہی عمل کریں، اس طرح بارہ ہزار مرتبہ پڑھیں

(اعمال قرآنی، ص: ۳۹)

نیز حسبنا اللہ ونعم الوکیل کثرت سے پڑھا کریں، اللہ نے چاہا تو آپ کا مقصد پورا ہوگا۔

(۲) وضو میں جب پیر دھوئیں تو یہ دعا پڑھیں اللہم اغفرلي ذنبي وَ وَسِّعْ لي في داري وبارک في رزقي۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

25/04/2023

*صلوة التوبہ پڑھنے کا طریقہ*

سوال: مفتی صاحب ! صلاۃ التوبہ کا طریقہ بتا دیجیے۔ جزاك الله خيراً

جواب: توبہ کا افضل طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نفل "صلاۃ التوبہ" کی نیت سے پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور ندامت اور شرمندگی کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کریں، حقوق العباد ذمہ میں ہوں تو ان کی جلد سے جلد ادائیگی یا اصحابِ حقوق سے معافی کی کوشش کریں، گزشتہ فرائض جو باقی ہیں، جیسے: نمازیں، روزے، زکوۃ وغیرہ ان کی ادائیگی کی ترتیب بنائیں، آئندہ کے لیے متبعِ سنت نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، بری صحبت سے اجتناب کریں۔
اگر کسی کا حق ذمے میں باقی ہے اور اس کا انتقال ہوچکا ہو تو اگر مالی حق ہو تو اس کے ورثاء تک وہ رقم پہنچائیں، اگر کوشش کے باوجود ورثاء ملنے کا امکان نہ ہو تو اتنی رقم صاحبِ حق کی طرف سے صدقے کی نیت سے کسی غریب مستحق کو دے دیں اور اگر مالی حق کے علاوہ کوئی حق ہے، مثلاً: کسی کی غیبت کی یا کسی کا دل دکھایا ہو تو صاحبِ حق کے لیے استغفار اور دعا کرتے رہیں، حسبِ توفیق کچھ صدقہ کرکے اس کا ثواب اصحابِ حقوق تک پہنچادیں، اس سے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں آپ کی معافی پیدا کردیں گے اور وہ روزِ قیامت آپ کو معاف کردیں گے۔
باج**عت صلوة التوبہ پڑھنے کا حکم
سورج گرہن کے وقت صلاۃ الکسوف، صلاۃ الاستسقاء اور تراویح کے علاوہ کسی بھی نفل نماز کی ج**عت کے ساتھ ادائیگی ثابت نہیں ہے، اس لئے فقہاء نے تداعی (یعنی لوگوں کو دعوت دے کر اہتمام )کے ساتھ نفل نماز کی ج**عت کرنے کو منع کیا ہے اور اگر پابندی کے ساتھ نفل نماز کی ج**عت کی جائے، تب تو سخت کراہت ہے۔
لہذا صلوة التسبیح، صلوة التوبه وغیرہ کو انفرادی طورر پر ادا کرنا چاہیے، ج**عت سے ادا کرنا درست نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

غنیة المستملي: (تتمات من النوافل، ص: 432، ط: سهيل اكيدمي)
"واعلم أن النفل بالج**عة علی سبيل التداعي مكروه".

الدر المختار: (قبيل باب إدراك الفريضة، 48/2، ط: سعيد)
"( ولایصلی الوتر و) لا ( التطوع بج**عة خارج رمضان) أي يكره ذلك على سبيل التداعي؛ بأن يقتدي أربعة بواحد".

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

25/04/2023

21, 2023
آخری رمضان
▪️ *آخری رمضان* ▪️

ایک ویڈیو کلپ میں آخری رمضان کے نام سے بتایا جارہا ھے کہ ایک رمضان آئے گا جس میں ایک چیخ سنائی دے گی اور لوگوں کو معلوم نہ پڑے گا یہ آواز کہاں سے آرہی ھے اور جب تم ایسی چیخ سنو تو ایک سال کا غلہ گھروں میں جمع کرلینا کیونکہ پھر قحط سالی ہوگی اور یہ رمضان دنیا سے ختم ہوجایئگا اور یہ قیامت سے ایک سال قبل ہوگا۔
اسکی تحقیق مطلوب ھے!!!

••• *باسمہ تعالی* •••
*الجواب وبہ التوفیق*:

بعینہ ان الفاظ میں تو یہ روایت موجود نہیں ھے البتہ مستدرک حاکم / کنز العمال وغیرہ میں اس طرح کی روایت موجود ہے ؛ لیکن وہ معتبر نہیں ھے:

✴️ *مستدرک حاکم* ✴️

أخبرني أبوبكر محمد بن مؤمل بن الحسن، ثنا فضل بن محمد الشعراني، ثنا نعيم بن حماد، ثنا ابن وهب، عن مسلمة بن علي، عن قتادة، عن ابن المسيب، عن أبي هريرة: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " تَكُونُ هَدَّةٌ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ تُوقِظُ النَّائِمَ وَتُفْزِعُ الْيَقْظَانَ ، ثُمَّ تَظْهَرُ عِصَابَةٌ فِي شَوَّالٍ ، ثُمَّ مَعْمَعَةٌ فِي ذِي الْحِجَّةِ ، ثُمَّ تُنْتَهَكُ الْمَحَارِمُ فِي الْمُحَرَّمِ ، ثُمَّ يَكُونُ مَوْتٌ فِي صَفَرٍ ، ثُمَّ تَتَنَازَعُ الْقَبَائِلُ فِي الرَّبِيعِ ، ثُمَّ الْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ بَيْنَ جُمَادَى وَرَجَبٍ ، ثُمَّ نَاقَةٌ مُقَتَّبَةٌ خَيْرٌ مِنْ دَسْكَرَةٍ تُقِلُّ مِائَةَ أَلْفٍ ". قال الحاكم: قد احتج الشيخان برواة هذا الحديث عن آخرهم غير مسلمة بن علي الحسني، وهو حديث غريب المتن، ومسلمة أيضا ممن لا تقوم به الحجة. وقال الذهبي: موضوع.

٭ المصدر: مستدرك حاكم
٭ المجلد: 4
٭ الصفحة: 563
٭ الرقم: 8580
٭ الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان.

🔅 *كنز العمال* 🔅

عن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا كان صيحة في رمضان فإنه يكون معمعة في شوال، وتمييز القبائل في ذي القعدة، وتسفك الدماء في ذي الحجة والمحرم وما المحرم يقولها ثلاث مرات هيهات هيهات! يقتل الناس فيه هرجا هرجا، قلنا: وما الصيحة يا رسول الله؟ قال: هدة في النصف من رمضان ليلة الجمعة فتكون هدة توقظ النائم وتقعد القائم وتخرج العواتق من خدورهن في ليلة جمعة في سنة كثيرة الزلازل والبرد، فإذا وافق شهر رمضان في تلك السنة ليلة الجمعة فإذا صليتم الفجر من يوم الجمعة في النصف من رمضان فأدخلوا بيوتكم وأغلقوا أبوابكم وسدوا كواكم، ودثروا أنفسكم وسدوا آذانكم، فإذا أحسستم بالصيحة فخروا لله سجدا وقولوا: سبحان القدوس، سبحان القدوس، ربنا القدوس، فإنه من فعل ذلك نجا ومن لم يفعل هلك (نعيم، ك).

ترجمة:

ایک سال ایسا آئے گا جس میں اولے بہت برسیں گے اور زلزلے کثرت سے آئیں گے اس سال رمضان المبارک کا پہلا اور پندرھواں روزہ جمعہ کا دن ہوگا اور پندرھواں رات کو ایک دھماکہ سنائی دے گا، تو اس جمعہ کی فجر کی نماز پڑھ کر اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جاؤ دروازوں کو بند کرلینا اور چادر اوڑھ لینا پھر ایک چیخنے کی آواز سنائی دے تو فوراً اللہ کو سجدہ کر کے سجدہ میں یہ تسبیح پڑھیں (۱) سبحان القدوس (۲) سبحان القدوس (۳) ربنا القدوس جبتک آواز سنائی دے جو ایسا کرے گا وہ نجات پائے گا (زندہ بچ جائے گا) اور جو ایسا نہیں کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔

÷ المصدر: كنز العمال
÷ المجلد: 14
÷ الصفحة: 569
÷ الرقم: 39627
÷ الطبع: مؤسسة الرسالة، بيروت، لبنان.

💟 *دوسری بات* 💟

ایک سال کیلیے غلہ جمع کرلینا یہ بات دوسری روایت میں ھے جسکو کتاب الفتن میں ذکر کیا ھے:

🌷 *كتاب الفتن* 🌷

حدثنا عبد القدوس، عن عبدة بنت خالد بن معدان، عن ابيها خالد بن معدان: إذا رأيتم عمودا أحمر من قبل المشرق؛ في شهر رمضان؛ فادخروا طعام سنتكم؛ فإنها سنة جوع ".

ترجمہ:

جب تم آسمان میں سرخ لکیر دیکہو جو جانب مشرق میں ہوگی تو تم ایک سال کیلیے خوراک جمع کرلینا ؛ کیونکہ یہ سال قحط سالی کا ہوگا۔

• المصدر: كتاب الفتن
• المحدث: حماد بن نعيم
• الصفحة: 231
• الرقم: 649
• الطبع: مكتبة التوحيد، القاهرة، مصر.

⚠️ *فيض القدير* ⚠️

امام مناوي نے اس روايت كو اسي معني كي ايك روايت جو مجمع الزوائد ميں هے كيليے شاهد مانا هے:

٭ المصدر: فيض القدير
٭ المجلد: 1
٭ الصفحة: 361
٭ الرقم: 645
٭ الطبع: دار المعرفة، بيروت، لبنان.

☪️ *ضعيف الجامع* ☪️

علامة الباني نے بهي اس روايت كو ضعيف لكها هے: إذا رأيتم عمودا أحمر من قبل المشرق؛ في شهر رمضان؛ فادخروا طعام سنتكم؛ فإنها سنة جوع. (ضعيف)

٭ المصدر: ضعيف الجامع
٭ المحدث: العلامة الباني
٭ الصفحة: 73
٭ الرقم: 514
٭ الطبع: المكتب الإسلامي، بيروت، لبنان.

⚠️ *خلاصه* ⚠️

امام ابن القیم نے " المنار المنیف" میں ایک ضابطہ رقم فرمایا ھے: کہ جن روایات میں یہ ہو کہ فلاں فلاں اگر ویسا ہو تو یہ ہوگا وہ ہوگا ایسی سب روایات معتبر نہیں:

*ومنها*: أن يكون في الحديث تاريخ كذا و كذا، مثل قوله: إذا كان سنة كذا و كذا، وقع كيت وكيت.

٭ المصدر: المنار المنيف
٭ المحدث: الإمام ابن القيم
٭ الصفحة: 56
٭ الطبع: دار عالم الفوائد، بيروت، لبنان.

⏹️ *كشف الخفاء* ⏹️

امام عجلونی نے بھی صراحت فرمائی ھے کہ رمضان میں ایسا ایسا ہوگا یہ سب غیر معتبر روایات ہیں:

وباب ظهور آيات القيامة في الشهور المتعينة، ومن المروي فيه: يكون في رمضان هدة، وفي شوال همهمة، إلي غير ذلك ما ثبت فيه شيء، ومجموعه باطل.

٭ المصدر: كشف الخفاء
٭ المحدث: الإمام العجلوني
٭ المجلد: 2
٭ الصفحة: 514
٭ الطبع: مكتبة العلم الحديث
وﷲ تعالی اعلم
✍🏻... کتبہ: *محمد عدنان وقار

25/04/2023

✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨

*سلسلہ نمبر 582:*
🌻 *سجدہ تلاوت ادا کرنے کا طریقہ*

📿 *سجدہ تلاوت ادا کرنے کا طریقہ:*
1⃣ سجدہ تلاوت کی آیت تلاوت کرنے یا سننے سے سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے، جس کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی نیت کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سجدہ تلاوت ادا کرتا ہوں، دل میں نیت کرلینا کافی ہے، البتہ زبان سے بھی نیت کے الفاظ کہنا جائز ہے لیکن ضروری نہیں۔ اس کے بعد تکبیر یعنی اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں جائے اور سجدے میں کم از کم تین مرتبہ سجدے کی تسبیحات پڑھے، پھر تکبیر کہتے ہوئے واپس سجدے سے اُٹھ جائے۔
2️⃣ سجدہ تلاوت میں بنیادی چیز سجدہ ہے جو کہ واجب ہے، جبکہ اس کے علاوہ سجدے کے لیے جانے اور سجدے سے اُٹھنے کی تکبیرات اور سجدے کی تسبیحات سنت ہیں۔
3⃣ سجدہ تلاوت میں تکبیرِ تحریمہ نہیں ہے اور نہ ہی رفع الیدین یعنی کانوں تک ہاتھ اٹھانے کا حکم ہے، اسی طرح اس میں سجدے سے اٹھنے کے بعد التحیات، تشہد اور سلام بھی نہیں، حتی کہ سجدے کے بعد قعدہ بھی ضروری نہیں، اس لیے اگر کوئی شخص سجدے کے بعد بیٹھنے کی بجائے اٹھ کھڑا ہوجائے تب بھی جائز ہے۔
4️⃣ سجدہ تلاوت کی ادائیگی کے لیے قیام یعنی کھڑا ہونا بھی ضروری نہیں، بلکہ بیٹھے بیٹھے سجدہ تلاوت ادا کرنا بھی جائز ہے، البتہ بعض ائمہ کرام نے سجدہ تلاوت کے لیے کھڑے ہوجانے کو مستحب قرار دیا ہے۔
5️⃣ سجدہ تلاوت کی ادائیگی کے لیے بھی وہی شرائط ہیں جو کہ نماز کے لیے ہیں کہ اس کے لیے بھی باوضو ہونا، قبلہ رخ ہونا اور جسم، کپڑے اور جگہ کا پاک ہونا ضروری ہے۔
6️⃣ واضح رہے کہ سجدہ تلاوت میں سجدہ کے لیے جانے، سجدہ کرنے اور سجدہ سے اُٹھنے کا وہی طریقہ سنت ہے جو کہ نماز کے سجدے کا ہے، اس لیے نماز کے سجدے کی طرح سجدہ تلاوت ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح نماز کے سجدے میں مرد اور عورت کا جو فرق ہے وہی فرق سجدہ تلاوت میں بھی ہے۔
7️⃣ ایک ساتھ ایک سے زائد سجدہ تلاوت ادا کرنا بھی جائز ہے، جن کا وہی طریقہ ہے جو کہ ماقبل میں گزر چکا، البتہ ہر ایک سجدے کے لیے الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے۔ اس صورت میں ہر سجدے کے لیے قیام بھی ضروری نہیں، بلکہ بیٹھے بیٹھے بھی تمام سجدے ادا کرنا جائز ہے، البتہ بعض ائمہ کرام کے قول کے مطابق ہر سجدے کے لیے قیام کرنا بہتر ہے۔

🌹 *وضاحت:* زیرِ نظر تحریر میں نہ تو سجدہ تلاوت کے تفصیلی احکام ذکر کیے گئے ہیں اور نہ ہی نماز میں سجدہ تلاوت کی ادائیگی سے متعلق احکام ذکر کیے گئے ہیں، بلکہ صرف خارجِ نماز میں سجدہ تلاوت کی ادائیگی کا طریقہ اور اس سے متعلق چند ضروری مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔

☀ الفتاوى الهندية:
وَسُنَّتُهَا التَّكْبِيرُ ابْتِدَاءً وَانْتِهَاءً، كَذَا في «مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ»، هو الظَّاهِرُ، كَذَا في «التَّبْيِينِ»، فإذا أَرَادَ السُّجُودَ كَبَّرَ وَلَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ وَسَجَدَ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ رَأْسَهُ وَلَا تَشَهُّدَ عليه وَلَا سَلَامَ، كَذَا في «الْهِدَايَةِ»، وَيَقُولُ في سُجُودِهِ: سُبْحَانَ رَبِّي الْأَعْلَى ثَلَاثًا وَلَا يَنْقُصُ عن الثَّلَاثِ كما في الْمَكْتُوبَةِ، كَذَا في «الْخُلَاصَةِ»، وهو الصَّحِيحُ، هَكَذَا في «فَتَاوَى قَاضِي خَانْ»، وَلَوْ لم يذكر فيها شيئا يُجْزِيهِ كما في الْمَكْتُوبَةِ، كَذَا في «الْخُلَاصَةِ». وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ، وَالْمُسْتَحَبُّ أَنَّهُ إذَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ وإذا رَفَعَ رَأْسَهُ من السُّجُودِ يَقُومُ ثُمَّ يَقْعُدُ، كَذَا في «الظَّهِيرِيَّةِ»، ثُمَّ إذَا أَرَادَ السُّجُودَ يَنْوِيهَا بِقَلْبِهِ وَيَقُولُ بِلِسَانِهِ، أَسْجُدُ لِلّٰهِ تَعَالَى سَجْدَةَ التِّلَاوَةِ اللهُ أَكْبَرُ، كَذَا في «السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ». (الْبَابُ الثَّالِثَ عَشَرَ في سُجُودِ التِّلَاوَةِ)
☀ الموسوعة الفقهية الكويتية:
كَيْفِيَّةُ سُجُودِ التِّلاَوَةِ:
11- اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ سُجُودَ التِّلَاوَةِ يَحْصُل بِسَجْدَةٍ وَاحِدَةٍ، وَذَهَبَ جُمْهُورُهُمْ إِلَى أَنَّ السَّجْدَةَ لِلتِّلاَوَةِ تَكُونُ بَيْنَ تَكْبِيرَتَيْنِ، وَأَنَّهُ يُشْتَرَطُ فِيهَا وَيُسْتَحَبُّ لَهَا مَا يُشْتَرَطُ وَيُسْتَحَبُّ لِسَجْدَةِ الصَّلاَةِ مِنْ كَشْفِ الْجَبْهَةِ وَالْمُبَاشَرَةِ بِهَا بِالْيَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ وَالأنْفِ، وَمُجَافَاةِ الْمِرْفَقَيْنِ مِنَ الْجَنْبَيْنِ وَالْبَطْنِ عَنِ الْفَخِذَيْنِ، وَرَفْعِ السَّاجِدِ أَسَافِلَهُ عَنْ أَعَالِيهِ وَتَوْجِيهِ أَصَابِعِهِ إِلَى الْقِبْلَةِ، وَغَيْرِ ذَلِكَ. لَكِنَّهُمُ اخْتَلَفُوا فِي تَفْصِيل كَيْفِيَّةِ أَدَاءِ السُّجُودِ لِلتِّلَاوَةِ اخْتِلَافًا يَحْسُنُ مَعَهُ إِفْرَادُ أَقْوَال كُل مَذْهَبٍ بِبَيَانٍ:
ذَهَبَ الْحَنَفِيَّةُ إِلَى أَنَّ رُكْنَ سَجْدَةِ التِّلاَوَةِ السُّجُودُ أَوْ بَدَلُهُ مِمَّا يَقُومُ مَقَامَهُ كَرُكُوعِ مُصَلٍّ وَإِيمَاءِ مَرِيضٍ وَرَاكِبٍ. وَقَالُوا: إِنَّ سُجُودَ التِّلَاوَةِ سَجْدَةٌ بَيْنَ تَكْبِيرَتَيْنِ مَسْنُونَتَيْنِ جَهْرًا، وَاسْتَحَبُّوا لَهُ الْخُرُورَ لَهُ مِنْ قِيَامٍ، فَمَنْ أَرَادَ السُّجُودَ كَبَّرَ وَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ وَسَجَدَ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ رَأْسَهُ اعْتِبَارًا بِسَجْدَةِ الصَّلَاةِ؛ لِمَا رُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ أَنَّهُ قَال لِلتَّالِي: إِذَا قَرَأْتَ سَجْدَةً فَكَبِّرْ وَاسْجُدْ، وَإِذَا رَفَعْتَ رَأْسَك فَكَبِّرْ. وَالتَّكْبِيرَتَانِ عِنْدَ الْهُوِيِّ لِلسُّجُودِ، وَعِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ مَنْدُوبَتَانِ لَا وَاجِبَتَانِ، فَلَا يَرْفَعُ السَّاجِدُ فِيهِمَا يَدَيْهِ؛ لأَنَّ الرَّفْعَ لِلتَّحْرِيمِ، وَلَا تَحْرِيمَ لِسُجُودِ التِّلَاوَةِ، وَقَدِ اشْتُرِطَتِ التَّحْرِيمَةُ فِي الصَّلَاةِ لِتَوْحِيدِ الأَفْعَال الْمُخْتَلِفَةِ فِيهَا مِنْ قِيَامٍ وَقِرَاءَةٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ، وَبِالتَّحْرِيمَةِ صَارَتْ فِعْلًا وَاحِدًا، وَأَمَّا سَجْدَةُ التِّلَاوَةِ فَمَاهِيَّتُهَا فِعْلٌ وَاحِدٌ فَاسْتَغْنَتْ عَنِ التَّحْرِيمَةِ؛ وَلأَنَّ السُّجُودَ وَجَبَ تَعْظِيمًا لِلّٰهِ تَعَالَى وَخُضُوعًا لَهُ عَزَّ وَجَل.

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
7 رمضان المبارک 1442ھ/ 20 اپریل 2021
03362579499

25/04/2023

*تعویذ کی حقیقت اور اُس کا شرعی حکم*

بعض مرتبہ یہ سوال اُٹھتا ہے کہ تعویذ کا کیا حکم ہے؟ اور دم و تعویذ میں کیا فرق ہے؟ سو یاد رکھئے کہ ان میں وہی فرق ہے جو کلامِ الٰہی اور کتاب اللہ میں ہے۔ کتاب اللہ کو لکھا جاتا ہے اور کلام اللہ کو پڑھا جاتا ہے۔ جس طرح ہم کلام اللہ کی عزت کرتے ہیں، ناپاک ہونے کی حالت میں اُسے اپنی زبان پر نہیں لاتے، قرآن کریم کتاب کی صورت میں ہے تو اُسے چھو بھی نہیں سکتے۔ اگر یہ لکھا ہوا قرآن واجب الاحترام نہ ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ جب دشمن کے علاقے میں جاؤتو لکھا ہوا قرآن (مصحف) وہاں نہ لے جاؤ، کہیں دشمن کے ہاتھ لگے اور وہ اس کی بےاحترامی کریں۔
علاج بالقرآن دم سے ہو سکتا ہے تو لکھے ہوئے پاک اور طیب کلمات سے کیوں نہیں ہو سکتا؟! وہاں بھی اس میں تاثیر اذنِ الٰہی سے آتی ہے،اور تعویذ میں بھی حروف و کلمات مؤثر بالذات نہیں، اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ،جب وہ چاہے۔ رہا پاک کلمات کو حروف میں لکھنا تو اس میں ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ان کلمات اور آیات پر دلالتِ لفظی ہو تو یہ وہ صورت ہے جو ہمیں عیاناً (کھلی ہوئی) نظر آتی ہے اور دلالتِ وضعی ہو تو یہ ان کلمات کے حروفِ ابجد ہیں اور ان میں بھی اثر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے، یہ حروف بالذات کوئی اثر نہیں رکھتے ۔

تعویذ میں روحانی اثرات
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جو شخص اپنی نیند میں گھبرا جائے اُسے چاہیے کہ وہ یہ کلمات پڑھے : ’’اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِہٖ وَعِقَابِہٖ وَشَرِّ عِبَادِہٖ وَمِنْ ھَمَزَاتِ الشَّیَاطِیْنِ وَاَنْ یَّحْضُرُوْنَ۔‘‘ تو وہ خواب اُسے ہر گز نقصان نہ دے گا ، آپؓ کے پوتے کہتے ہیں کہ: حضرت عبد اللہؓ کی اولاد میں جو بالغ ہو جاتا تو آپ اُسے یہ کلمات سکھادیتے ، اور جو نابالغ ہوتا تو آپ اس کے گلے میں یہ دعا لٹکا دیتے تھے :
’’و کان عبد اللہ بن عمروؓ یعلمھا من بلغ من ولدہٖ و من لم یبلغ منھم کتبھا في صک ، ثم علقھا في عنقہٖ۔‘‘

(رواہ ابو داؤد و الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ، ص: ۲۱۷)

اس سے معلوم ہوا کہ کلام پاک کا پڑھنا اور کلماتِ مبارکہ تعویذ لکھ کر بنانا اور اُسے بدن سے باندھنا دونوں عمل جائز ہیں۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابیؓ کبھی بھی اپنے بچوں کے گلے میں تعویذ نہ ڈالتے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ تعویذات کے اثر کے قائل تھے ، جبھی تو آپ نے تعویذ لکھا اور اسے اپنے بچوں کے گلے میں ڈالا۔ یہ کلمات کوئی روحانی تاثیر نہ دیتے تو آپ ہی بتلائیں کیا صحابی رسول ایسا عمل کرتے ؟

تاثیر میں اذنِ الٰہی کو شرط جاننا ضروری ہے
۱: دسویں صدی کے مجدد حضرت ملا علی قاری ؒ (متوفی:۱۰۱۴ھ) اس حدیث پر لکھتے ہیں کہ :
’’و ھٰذا أصل في تعلیق التعویذات التي فیھا أسماء اللہ تعالٰی۔‘

‘ ( مرقات ،ج: ۵، ص: ۲۳۶)

ا س سے واضح ہوتا ہے کہ وہ تعویذات جو اسمائے الٰہیہ اور کلماتِ مبارکہ پر مشتمل ہوں ، اپنے اندر ایک روحانی ا ثر رکھتے ہیں اور اس سے مریضوں کا علاج کرنا علاج بالقرآن ہی ہے۔ ہاں! وہ تعویذات جو شرکیہ الفاظ پر مشتمل ہوں‘ ان کی قطعاً اجازت نہیں۔ جن روایات میں تمائم اور رُقٰی کو شرک کہا گیا ہے، اس سے مراد اسی قسم کے دم اور تعویذ ہیں، جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال کا دخل پایا جائے۔ ’’التمائم‘‘ میں ’’ الف لام‘‘ اسی کے لیے ہے ، اور جو دم اور تعویذ اس سے خالی ہوں، ان کا استعمال جائز ہے اور اس کے روحانی اثرات ثابت ہیں۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم دورِ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ،ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’أعرضوا عَلَیَّ رقاکم ، لا بأس بالرقی ما لم یکن فیہ شرک۔‘‘ (رواہ مسلم ، مشکوٰۃ، ص: ۳۸۸)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ دم اور تعویذ میں اصل وجہِ منع کفر و شرک ہے، جب یہ نہ ہو تو وہ دم اور تعویذ جائز ہے، چنانچہ ابن تیمیہؒ اپنی کتاب ’’ مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں تعویذ کے جواز پر ایک مستقل فصل ’’ فصل : في جواز أن یکتب لمصاب و غیرہ ۔۔۔ الخ‘‘ باندھ کر اس کے تحت لکھتے ہیں:
’’و یجوز أن یکتب للمصاب و غیرہ من المرضٰی شیئًا من کتاب اللہ و ذکرہ بالمداد المباح ، ویغسل و یسقٰی ، کما نص علٰی ذلک أحمد و غیرہ۔‘‘ (مجموعۃ الفتاویٰ، ج: ۱۹، ص: ۳۶، ط: مکتبۃ العبیکان )

کسی مریض کے لیے کتاب اللہ میں کچھ لکھ کر دینا یا اس کو دھو کر پانی میں گھول کر پلانا، یہ دونوں جائز ہیں۔حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ ’’ کفایت المفتی‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ :

’’ قرآن شریف کی آیت تعویذ میں لکھنا جائز ہے۔‘‘ (کفایت المفتی ، الحظر والاباحۃ ، الفصل الثانی فیما یتعلق بالعوذۃ، ج: ۱۲، ص: ۴۸۲، ط: فاروقیہ)

حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اپنی کتاب ’’ تکملۃ فتح الملہم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :

’’ ۔۔۔۔۔۔ فتبین بھٰذا أن التمائم المحرمۃ لا علاقۃ لھا بالتعاویذ المکتوبۃ المشتملۃ علٰی أٰیات من القرآن أو شيء من الذکر ؛ فإنھا مباحۃ عند جماھیر فقھاء الأمۃ ، بل استحبھا بعض العلماء إذا کانت بأذکار مأثورۃ ، کما نقل عنھم الشوکاني في النیل ، واللہ أعلم۔‘‘ (تکملہ فتح الملہم، کتاب الطب ، باب رقیۃ المریض، کتابۃ التعویذات، ج: ۴، ص: ۳۱۸، ط: دار العلوم، کراچی )
وہ تعویذات جن میں اللہ کے کلام اور مسنون دعاؤں کا ذکر ہو تو وہ قطعاً حرام نہیں ، ان کاحرمت سے کوئی تعلق نہیں، ایسے تعویذات تو عام جمہور علماء کے نزدیک جائز ہیں، بلکہ بعض علماء نے اس کو مستحسن قرار دیا ہے ، علامہ شوکانی ؒ نے ان سے یہ ’’نیل الأوطار‘‘ میں نقل بھی کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ’’ فتح الباري‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’أجمع العلماء علٰی جواز الرقیٰ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: أن یکون بکلام اللہ أو بأسمائہ و صفاتہ و باللسان العربي أو بما یعرف معناہ من غیرہ و أن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالٰی۔‘‘

( فتح الباری ،ج: ۱۰ ، ص: ۱۹۵ ، ط: دار الفکر بیروت )

’’علماء نے دم اور تعویذ کے جواز پر اج**ع کیاہے ، جب ان میں درج ذیل شرائط پائی جائیں:
۱:- وہ اللہ کے کلام ،اسماء یا اس کی صفات پر مشتمل ہو ں۔
۲ :- وہ عربی زبان یاپھر ایسی زبان میں ہوں جس کا معنی سمجھ میں آتا ہو ۔
۳ :- یہ یقین رکھنا کہ اس میں بذاتِ خود کوئی اثر نہیں ، بلکہ مؤثر حقیقی اللہ جل شانہ کی ذات ہے۔
علامہ شامیؒ بھی اپنی کتاب ’’رد المحتار‘‘ میں تعویذ کا جواز نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :

’’و إنما تکرہ العوذۃ اذا کانت بغیر لسان العرب و لا یدری ما ھو ، ولعلہ یدخلہ سحر أو کفر أو غیر ذلک و أما ما کان من القرآن أو شیء من الدعوات، فلا بأس بہ۔‘‘ ( رد المحتار ، ج: ۶، ص: ۳۶۳)
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے کہ :

’’ و اختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أن یکتب في ورق و یعلق أو یکتب في طست ،فیغسل و یسقیٰ المریض ،فأباحہ عطاء و مجاھد و أبو قلابۃ و کرھہ النخعي و البصري ،کذا في ’’ خزانۃ الفتاویٰ‘‘ قد ثبت ذلک في المشاھیر من غیر إنکار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔و لابأس بتعلیق التعویذ ۔۔الخ۔‘‘

(الفتاوی الہندیۃ، الباب الثامن عشر فی التداوي ، ج: ۵، ص؛۳۵۶ ، ط: دار الفکر )

’’قرآنی آیات کے ذریعہ دم میں علماء نے اختلاف کیا ہے، مثلاً : ......کسی کاغذ پر قرآن کی آیت لکھ کر مریض کے جسم پر باندھ لیا جائے ، یا کسی برتن میں آیات لکھ کر دھویا جائے اور مریض کو پلایا جائے ، تو عطاءؒ ، مجاہدؒ اور ابو قلابہؒ اس کو جائز سمجھتے ہیں اور امام نخعیؒ اور بصریؒ اس کو مکروہ سمجھتے ہیں ، لیکن مشہور کتابوں میں اس کے جواز پر کوئی نکیر وارد نہیں ہوئی ہے...... آگے لکھتے ہیں کہ تعویذ کے لٹکانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘

ابن القیم الجوزیۃؒ اپنی کتاب ’’ زاد المعاد‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’قال المروزي : و قرأ علیٰ أبي عبد اللہ وأنا أسمع أبو المنذر عمرو بن مجمع ، حدثنا یونس بن حبان ، قال : سألت أبا جعفر محمد بن علي أن أعلق التعویذ ، فقال : إن کان من کتاب اللہ أو من کلام عن نبي اللہ فعلقہ و استشف بہ ما استطعت۔‘‘

(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ، کتاب عسر الولادۃ، ج:۴، ص: ۳۳۷، ط: مؤسسۃ الرسالۃ ،بیروت ۔ کذا فی الطب النبوی لابن القیم الجوزیۃ، حرف الکاف ، ج: ۱ ،ص: ۳۷۰، ط: دار الہلال، بیروت )

’’راوی کہتا ہے کہ میں نے ابو جعفر محمد بن علی سے تعویذ باندھنے کے بارے میں دریافت کیا کہ اس کا کیا حکم ہے ؟ تو آپ نے فرمایا :کہ اگر وہ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مشتمل ہو تو اس کو باندھ لیا کرو، اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ‘‘

تفسیر ’’روح البیان‘‘ میں ہے کہ :
’’وأما تعلیق التعویذ و ھو الدعاء المجرب أو الآیۃ المجربۃ أو بعض أسماء اللہ تعالٰی لدفع البلاء ، فلا بأس بہٖ و لکن ینزعہ عند الخلاء و الج**ع۔‘‘

(روح البیان ، سورۃ یوسف ، آیۃ : ۶۸، ج: ۴، ص:۲۹۵، ط: دار الفکر ،بیروت )

’’تعویذ اگر مجرب دعا ، مجرب آیت یا اللہ کے اسماء پر مشتمل ہو ، اور کسی مصیبت یا بیماری کے دفعیہ کے غرض سے لٹکایا ہو تو یہ جائز ہے ، لیکن ج**ع اور بیت الخلاء جانے کے وقت نکالے گا ۔ ‘‘
’’ تفسیر قرطبی‘‘ میں ہے کہ :
’’و سئل ابن المسیب عن التعویذ أیعلق ؟ قال : إذا کان في قصبۃ أو رقعۃ یحرز، فلابأس بہٖ ۔ و ھٰذا علیٰ أن المکتوب قرآن ۔ وعن الضحاک أنہ لم یکن یری بأسا أن یعلق الرجل الشيء من کتاب اللہ إذا و ضعہ عند الج**ع و عند الغائط ، و رخص أبو جعفر محمد بن علي في التعویذ یعلق علی الصبیان ، وکان ابن سیرین لا یری بأسا بالشيء من القرآن یعلقہ الإنسان۔‘‘

(تفسیر قرطبی، سورۃ الاسراء: ۸۲ ، ج:۱۰ ، ص:۳۲۰،ط: دار المعرفۃ )

سعید ابن المسیب ؒ ،ضحاک اور ابن سیرین جیسے اکابر علماء اس کے جواز کے قائل تھے ۔
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ لکھتے ہیں کہ :
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآنی آیات کا تعویذ جائز ہے، جبکہ غلط مقاصد کے لیے نہ کیاگیا ہو ، حدیث میں جن ٹونوں ، ٹوٹکوں کو شرک فرمایا گیا ہے، ان سے زمانۂ جاہلیت میں رائج شدہ ٹونے اور ٹوٹکے مراد ہیں، جن میں مشرکانہ الفاظ پائے جاتے تھے، اور جنات وغیرہ سے استعانت حاصل کی جاتی تھی، قرآنی آیات پڑھ کر دم کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام ؓ سے ثابت ہے اور بزرگانِ دین کے معمولات میں شامل ہے۔‘‘

( آپ کے مسائل اور ان کا حل، تعویذ گنڈے اور جادو، ج: ۲، ص: ۴۹۹، ط: مکتبہ لدھیانوی)

علامہ شوکانی ؒ ابن ارسلانؒ سے نقل کرتے ہیں کہ :
’’قال ابن أرسلان ،فالظاہر أن ھٰذا جائز لا أعرف الاٰن ما یمنعہ في الشرع۔‘‘ (فتاویٰ اہل حدیث، ج: ۱ ،ص: ۱۹۳ )
’’ابن ارسلان کہتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ یہ جائز ہیں، شریعت میں اس کے منع کی کوئی دلیل میں نہیں جانتا۔‘‘
شفاء بنت عبد اللہ سے روایت ہے کہ میں ام المؤ منین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے پاس بیٹھی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے مجھے کہا :
’’ألا تعلمین ھٰذہ رقیۃ النملۃ کما علمتھا الکتابۃ۔‘‘

(مسند احمد ج: ۱۷ ، ص: ۱۷۹ ،مبوب )

’’اے شفاء! کیا تو انھیں ( یعنی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو) نملہ کا دم نہیں سکھادیتی، جیسا کہ تو نے انھیں لکھنا سکھادیا ہے؟ ۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دم اور تعویذ جس میں کفر و شرک اور غیر معروف الفاظ نہ ہوں اور الفاظ میں ذاتی تاثیر نہ سمجھی جائے ، اس کے منع پر کوئی دلیل وارد نہیں ۔شیخ احمد عبد الرحمٰن البنا ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ہر گز ممنوع نہیں ، بلکہ سنت ہے:
’’فلا نھيَ فیہ ، بل ھو السنۃ۔‘‘(ایضاًص: ۱۷۷)

نواب صدیق حسن خانؒ نے ’’ الدین الخالص‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے ، اور انہوں نے بھی دم اور تعویذ کو جائز قرار دیا ہے، البتہ ان سے پرہیز کرنے کو افضل کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو ابرار میں لانا ہے جو اسباب اختیار نہیں کرتے۔ حافظ عبد اللہ روپڑی صاحبؒ نواب صاحبؒ کی یہ عبارت پیش کر کے لکھتے ہیں :
’’اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صرف شرک والی صورتیں منع ہیں، باقی جائز ہیں۔ ہاں! پرہیز بہتر ہے۔‘‘

( فتاویٰ اہل حدیث ، ج: ۱ ، ص: ۱۹۳)

حضرت مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’راجح یہ ہے کہ آیات یا کلماتِ صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ، ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان، صحابہ کرام ؓ نے ایک کافر بیمار پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔‘‘

(فتاویٰ ثنائیہ، ج:۱،ص: ۳۳۹)

اہلِ حدیث کے ایک مشہور عالم مولاناشرف الدین دہلویؒ اس کی تائید میں لکھتے ہیں کہ :

’’ حضرت عبد اللہ ابن عمرو بن العاص ؓ صحابی ’’ أعوذ بکلمات اللہ ۔۔۔۔ الخ‘‘ساری دعا لکھ کر اپنے بچوں کے گلے میں لٹکایا کرتے تھے۔‘‘ (ایضا)

غرض یہ کہ مذکورہ بالا دلائل و حوالہ جات سے یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی کہ علاج بالقرآن کی ایک قسم تعویذ بھی ہے، اور اس کے روحانی اثرات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہت سے مریض تعویذوں میں لکھی گئی آیاتِ قرآنیہ اور کلماتِ دعائیہ کی برکت سے کئی لا علاج امراض سے بھی نجات پا گئے ہیں ۔ ہاں! ان میں تاثیر ان کلمات کی ذات سے نہیں، بلکہ اللہ رب العزت کے حکم ہی سے آتی ہے۔
اگر ان تعویذات اور دموں میں کوئی روحانی تاثیر نہ ہوتی ، اور اس کا باطنی فائدہ نہ ہوتا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے قرآن کی آخری تین سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونک نہ مارتے اور انھیں اپنے بدن پر نہ ملتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ عمل تین مرتبہ فرماتے، حتیٰ کہ مرض الوفات میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود کمزوری کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے ، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہی سورتوں کو پڑھا ، اور آپ کے ہاتھوں پر پھونک لگائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں کو آپ کے بدن پر مل لیا ۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلامنے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دم کیا تھا۔ (رواہ مسلم)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سورتوں کو پڑھ کر ہاتھوں پر دم کرنا اور پھر اپنے ہاتھوں سے پورے بدن کو ملنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ ان آیات میں ضرور روحانی اثر ہے ، اور یہ شیطانی اثرات سے بچانے کا ایک خاص عمل ہے ، جو بظاہر نگاہوں سے مخفی ہوتا ہے ، لیکن باطنی آنکھ والے ان کی تاثیرات کھلے طور پر دیکھتے ہیں ، اور پڑھنے کے ساتھ ہاتھ پھیرنا یہ بھی ہر گز منع نہیں ۔
یاد رہے کہ کہ دم اور تعویذمیں وہی فرق ہے جو کلام میں اور کتاب میں ہے ، دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے اور دونوں کا اپنا اپنا احترام ہے ۔ لیکن تعویذ کے سلسلہ میں بعض فحش غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں ، جس کی بیخ کنی نہایت اہم ہے اور اس سے قطعی پرہیز اور کنارہ کشی اختیار کرنا بہت ہی ضروری ہے :

۱:- بعض جاہلوں نے لکھا ہے کہ : مسلمان کی خیر خواہی کے لیے بوقتِ ضرورت شرکیہ الفاظ سے دم کرنا جائز ہے ، سو یہ بالکل غلط ہے اور اس کا شریعت میں بالکل ثبوت نہیں ۔
۲:- اکثر عوام عملیات ( اور تعویذات وغیرہ ) کو ایک ظاہری تدبیر سمجھ کر نہیں کرتے ، بلکہ اس کو سماوی اور اور ملکوتی چیز سمجھ کر کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ تعویذ گنڈوں کے متعلق عوام کے عقائد نہایت برے ہیں، حالانکہ عملیات ،تعویذ اور گنڈے وغیرہ بھی طبی دواؤں کی طرح ایک ظاہری سبب اور تدبیر ہے ، ( کوئی آسمانی اور ملکوتی چیز نہیں ) بس جس طرح دواء سے کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نہیں ، اسی طرح تعویذ میں بھی کبھی فائدہ ہوتا اور کبھی نہیں، پھر بھی دونوں برابر نہیں ، بلکہ دونوں میں یہ فرق ہے کہ عملیات میں فتنہ ہے اور دواء میں فتنہ نہیں ، اور وہ فتنہ یہ ہے کہ کہ عامل کی طرف بزرگی کا خیال و اعتقاد پیدا ہوتا ہے ، طبیب کی طرف بزرگی کا خیال پیدا نہیں ہوتا ۔
۳:- ایک اور بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ اگر تعویذ گنڈے وغیرہ سے کام نہ ہوا ، تو پھر آیاتِ الٰہیہ سے بد عقیدگی اور بد گمانی پیدا جاتی ہے۔
۴:- عملیات قریب قریب سب اجتہادی ہیں، روایات سے ثابت نہیں ، جیسا کہ عوام کا خیال ہے کہ ان عملیات کو اوپر ہی سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت سمجھتے ہیں ، یہ صحیح نہیں ہے ، بلکہ عاملین مضمون کی مناسبت سے ہر کام کے لیے مناسب آیات وغیرہ تجویز کرتے ہیں ۔
۵:- آج کل لوگ اپنے مقاصد میں اور امراض و مصائب کے دفعیہ میں تعویذ گنڈوں کی تو بڑی قدر کرتے ہیں ، اس کے لیے کوششیںبھی کرتے ہیں، اور جو اصل تدبیر ہے یعنی اللہ سے دعا ، تو اس میں غفلت برتتے ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ کوئی نقش و تعویذ دعا کے برابر مؤثر نہیں، بشرطیکہ تمام آداب و شرائط کی رعایت رکھی جائے۔
خلاصہ یہ کہ تعویذ بذاتہ جائز ہے ، بشرطیکہ مذکورہ بالا شرائط کی رعایت رکھی جائے ، اور درج بالا ناجائز اعتقادات سے خود کو پاک اور منزہ کیا جائے ۔
نوٹ: اس مقالہ کا اکثر حصہ ڈاکٹر علامہ خالد محمود کی کتاب ’’ آثار القرآن‘‘ اور حضرت تھانویؒ کی ’’اغلاط العوام‘‘ سے ماخوذ ہے ۔اس کے علاوہ بے شمار مستند کتابوں سے بھی اخذ کیا گیا ہے ۔


ahkamذوالقعدہ ۱۴۴۲ھ - جولائی 2021ءbookمفتی شفیق الدین الصلاح

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Raja Muhammad Hassan Gakhar Vlogs posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Travel Agency?

Share