Al Ithad Tourism AJK Muzaffarabad

  • Home
  • Al Ithad Tourism AJK Muzaffarabad

Al Ithad Tourism AJK Muzaffarabad Al Ithad Tourism AjK MZD
(1)

06/07/2024
06/07/2024
18/06/2024

نیلم ویلی میں سیرو تفریح کیلئے سفر کرنے والوں کے لیے چند گزارشات

1) فجر کے فوراً بعد سفر شروع کریں اور مغرب تک اپنی منزل تک پہنچ جائیں ۔ رات کے وقت پہاڑوں پر سفر کرنے سے گریز کریں ۔
2) گرمیوں کے موسم میں سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی بھیڑبھاڑ ہوتی ہے اس لیے سفر پر جانے سے پہلے اپنے لیے رہائش کا انتظام یقینی بنائیں تاکہ وہاں جا کر پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
3) گاڑی میں گنجائش سے زیادہ لوگ سوار نہ کریں ۔ گنجائش سے کم لوگ ہوں تو سفر بھی اچھا گزرتا ہے اور تفریح کا مزہ بھی آتا ہے ۔
4) پہاڑی شاہراوں پر سفر کرنا ہو تو گاڑی کا پٹرول ٹینک ہر وقت فل رکھیں ۔
5) پہاڑی شاہراوں پر لینڈ سلائیڈنگ یا بعض اوقات کسی احتجاج کی وجہ سے کئی کئی گھنٹے راستہ بند ہو جاتا ہے اس لیے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء ضرور رکھیں ۔
6) پہاڑی شاہراہوں پر بارش میں سفر کرنے سے اجتناب کریں ۔
7) اپنے بچوں اور خواتین کو دریا ، ندی نالوں اور جھیلوں کے قریب جانے یا پانی میں اُترنے سے منع کریں ۔ پہاڑی علاقوں میں پانی ناقابل برداشت حد تک ٹھنڈا ، توقع سے زیادہ گہرا اور بہاؤ تیز ہو سکتا ہے ۔ سیاح خاص طور پر بچے اور خواتین عدم واقفیت کی وجہ سے سیلفیاں لینے کے چکر میں دریا میں اتر جاتے ہیں اور حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
😎 تقریباً ہر گاڑی کے دروازے میں کچرے دان بنا ہوتا ہے اپنا ہر قسم کا کچرا اُس میں رکھیں اور جہاں بڑا کچرے دان پڑا ہو وہاں خالی کریں ۔ سٹرکوں پر یا تفریحی مقامات پر کچرا نہ پھینکا کریں ۔
9) جس علاقے کا سفر کرنا ہو وہاں کے موسم کے بارے میں علم ہونا بہت ضروری ہے اور موسم کے حساب سے کپڑوں کا انتخاب کریں ۔
10) سردی سے حفاظت کیلئے گرم کپڑے ، بارش سے بچنے کیلئے چھتری اور برساتی ساتھ رکھیں ۔ عموماً خواتین اونچی ایڑی والے جوتے پہن کر پہاڑی علاقوں میں چلی جاتی ہیں۔ کوشش کریں کہ جوگر پہن کر جائیں یا کم از کم ساتھ رکھیں ۔
11) ہائیکنگ کا ارادہ ہو تو چھڑی اور جوتے ضرور ساتھ لے کر جائیں ۔
12) ہرعلاقے کی اپنی ثقافت اور روایات ہوتی ہیں اُنکا احترام کریں ۔
13) ضرورت سے زیادہ کھانے پینے سے پرہیز کریں ۔
14) نیشنل ڈش چائے پکوڑا ، چپس اور تلے ہوئے تمام کھانوں کی بجائے فریش فروٹس کا استعمال کریں ۔
15) راستہ میں بچوں کو پچاس ، سو کا نوٹ دے کر اُن کو بھکاری بنانے کی بجائے اُن کیلئے گھر سے سکول بیگ کی مختلف چیزیں یا کھانے پینے کی اشیاء لے کر جائیں ۔
16) ابتدائی طبی امداد کا سامان اور بنیادی ضرورت کی ادویات ہر صورت اپنے ساتھ رکھیں ۔
17) ملک کے اندر سفر کریں یا ملک سے باہر ہم اپنے شہر یا ملک کے سفیر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اپنے اچھے اخلاق اور ہرکات سے اپنے علاقے کی بہترین نمائندگی کریں
کسی بھی قسم کی فوری مدد کے لیے درج ذیل نمبرات پر رابطہ کریں
05821930005
03558126666

ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نیلم

30/05/2024

(کشمیر کی تاریخ)---(1)
اسلام علیکم تاریخ کشمیر کا پہلا پارٹ ( نادر کشمیری)
کشمیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے یہ خطہ پیل پنجال اورہمالیہ کی وادیوں کے درمیان واقع ہے۔
کشمیر پاکستان اور انڈیا کی تاریخوں سے بہت پہلے کی تاریخ ہے اور کشمیر کسی ملک کی کوئی شہ رگ نہیں ہے کشمیر خود ایک اپنا نام رکھتا ہے جو اللّٰہ پاک نے حسین وادی کشمیریوں کو دی ہے اور اس پر کسی بھی ملک یا کسی اور کا کوئی حق نہیں ہے میں اصلی تاریخ بیان کر رہا ہوں جو میں بہت دونوں سے تلاش کر رہا تھا کے اسکو ہر ملک خاص کر پاکستان اور انڈیا اپنی شہ رگ کیوں بولتے ہیں کشمیر کا نام کب رکھا گیا اور کس نے رکھا بہت دونوں سے تلاش کرنے کے بعد بھی ابھی تک میں کشمیر کی تاریخ کے کچھ پنے ہی پڑھ پایا ہوں الحمدُ اللّٰہ فخر ہے میں کشمیری ہوں اللّٰہ پاک نے ہمیں اتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے کے جتنا شکر ادا کرو اتنا کم ہے اللّٰہ تعالیٰ نے اس خطے سرزمین کو دنیا سے الگ حسن عطا کیا ہے تو پھر دنیا اپنی جھوٹی باتیں بنا کر جھوٹی تاریخ بنا کر شہ رگ بولتی ہے جس حسین وادی کو وہ دراصل اللّٰہ تعالیٰ نے ایک الگ حُسن والی وادی بنائی ہے لیکن شہ رگ کسی کی نہیں بنائی دنیا نے ٹکڑے کر کے اپنا اپنا حق جمانے کی کوشش تو بہت کی ہے لیکن حق جو اصل حقدار ہے وہ صرف کشمیر کا رہنے والا ہر انسان ہے تین ہزار سال قبل حضرت سلمان علیہ السلام نے اس حسین وادی کو نام دیا تھا ایک الگ نام اور نایاب اور انوکھا نام جو نہ اس دنیا میں کسی بھی وادی کا نہیں ہے تین ہزار سال پہلے نہ تو پاکستان کا نام تھا نہ انڈیا کا لیکن ہمارا اس وقت بھی تھا اُس دور میں اگر جس حسین وادی کا نام ہو اور رکھنے والے بھی اللّٰہ تعالیٰ کے بہت ہی پیارے نبی حضرت سلمان علیہ السلام جنہوں نے اس وادی کو جنت ارضی کا نام دیا جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے نبوت اور بادشاہت سے نواز رکھا تھا اللّٰہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام پر اپنے بے بھات خزانے کھول رکھے تھے کے جن کا ذکر سُن کر انسان حیران و پریشان ہو جاتا ہے اور انہی معجزات میں سے آپکا ایک معجزہ تخت شاہی تھا اور آپ اُس تخت پر بیٹھ کر دنیا کی سیر کیا کرتے ایک دفعہ کا ذکر ہے کے آپ علیہ السلام اپنے تخت پر میوے پرواز تھے کے اچانک انکی نظر ایک وسیع و عریض پانی میں موجود ایک پہاڑ کی ایک خشک چوٹی پر پڑی اُس خطے کو دیکھ کر آپ نے اپنے تخت کو اس چوٹی پر اترنے کا حکم دیا آپکا تخت جب اُس چوٹی پر اتر گیا تو آپ نے اس چوٹی پر کھڑے ہو کر جب آس پاس کا جائزہ لینا شروع کیا تو آپکو ہر طرف پانی ہی پانی دکھائی دیا اور آپ علیہ السلام نے جب یہ خوبصوت منظر دیکھا تو آپ بہت خوش ہوئے تو اچانک آپ نے اپنے وزراء کے ساتھ ایک مشورے کی میٹنگ کی اُس میٹنگ کے دوران آپ علیہ السلام نے فرمایا کے اگر اس جیل کے پانی کو یہاں سے نکلا جائے تو اسکی تہ سے بہت ہی حسین و جمیل وادی نمودار ہوگی اور اس وادی میں انسانوں کی آبادی ممکن ہو سکے گی حضرت سلمان علیہ السلام کا یہ ارادہ دیکھ کر پہلے تو سب نے ہاں میں ہاں ملا دی پھر اچانک سے ایک سوال پیدا ہوا کے آخر اس سمندر نما وادی سے اس پانی کو نکالے گا کون اور اس میٹنگ میں بہت سی مخلوقات کے سردار بھی موجود تھے اور وہاں جنات کا سردار بھی موجود تھا جس کا نام "کاش" تھا اور ساتھ میں پریوں کی ملکہ جس کا نام "میر" پری تھا وہ بھی موجود تھی لٰہذا جنات کا سردار " کاش" جو کے ملکہ پرستا کا عشق تھا وہ کہنے لگا کے میں یہ فریضہ سرانجام دیتے کے لئے تیار ہوں لیکن یہ کام سرانجام دینے سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کے نبی کے سامنے میری ایک فرمائش بھی ہے تو حضرت سلمان علیہ السلام نے فرمایا کے بولو تمھاری کیا فرمائش ہے تو "کاش" بولا کے اگر میں اس جیل سے پانی نکلنے میں کامیاب ہوگیا تو آپ میرا آخت "میر" پری کے ساتھ کر دو گے تو حضرت سلمان علیہ السلام نے اُسکی یہ فرمائش پوری کرتے ہوئے اسکو کام سرانجام دینے کا حکم دیا تو " کش" نے اپنا کام شروع کر دیا کے جتنی جلدی ہو سکے میں اس جیل کے پانی کو خشک کر دوں اور کچھ ہر دیر میں "کاش" نے اپنے جلسمنی عمل سے بڑھاہ کا پہاڑ کاٹ کے اُس میں سے پانی کا راستہ بنا دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک حسین وادی نمودار ہوتی گئی اور اس واقعے کو دیکھ کے حضرت سلمان علیہ السلام نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے "کاش" جن کی شادی " مير"پری کے ساتھ کر دی اور"کاش " اور" میر " کی نسبت سے ہی اس وادی کا نام کشمیر رکھا گیا جو سوئیتبغر کے باعث ساتھ کشمیر کے نام سے مشہور ہوگیا۔
سرینگر میں کوی ہرمگ کی چوٹی پر تخت سلمان اسی واقع سے منسوب ہے اور چودویں صدی عیسوی میں جب سید علی ہمدانی کشمیر تشریف لائے تو انہوں نے کشمیر کو باغ سلمان کا کا نام دیا تو اِس سب سے اندازہ لگا لو کے خطہ کشمیر تاریخی تہزیبی اور ثقافتی اعتبار سے کتنی عظمت اور حست اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں جب کشمیر کی تاریخ اتنی بڑی ہے ان ملکوں کا اُس وقت نام و نشان بھی نہیں تھا تو اج اسکو شہ رگ یا اپنا حصہ بولنے میں شرم بھی نہیں آتی ان لوگوں کو جب تمہارے ملک ہی نہیں تھے وجود ہی نہیں تھا جب بھی ھماری ریاست تھی اور الحمدُ اللّٰہ پکی اور سچی تاریخ رکھتے ہیں ہم اپنا نام ہے اور نام رکھنے والے بھی اللّٰہ تعالیٰ کے نبی حضرت سلمان علیہ السلام تھے تُو پھر ہنری تاریخ کو مٹانے کی کوشش کیوں کر رہے ہو جب تاریخ ہی سچی ہو اور جس نے اس وادی نکالا وہ بھی سچا ہو تو ہم کیوں یہ آجکل کی تاریخ پر یقین کریں ان جھوٹی تاریخوں پرکسی نے شہ رگ بنائی ہوئی ہے کسی نے کیا کسی نے اپنے باپ کی جاگیر بنائی ہوئی ہمیں جس نبی کی بدولت یہ حسین و جمیل جنت نظیر وادی ملی ہے وہ نبی بھی سچا اور تاریخ بھی لیکن میں آجکل کی ان جھوٹی تاریخوں پر یقین نہیں کرتا میں نے اگر یقین کیا ہے تو سچ پر کیا ہے ہر کشمیری کمنٹ میں سچا اور پکا کشمیری ہونے کا ثبوت اس طرح دو کے جیسے حق ہوتا ہے اِس ریاستِ کو پاکستان انگلینڈ اور آسٹریلیا بنانے والے دور ہی رہنا بے ایمان لوگوں سے میری نہیں بنتی
اگلی تحریر بھی جلد لکھو گا

18/02/2024

Peer Chansi

18/02/2024

Ganga choti AJk

10/08/2023

Gilgit GP

09/06/2023

#چٹاکٹھہ معلوماتی مضمون
نیلم کنارے سے اقتباس

از قلم یاسر مغل
پھولوں سے محبت چھلکتی ہے پھول محبت کا نشان ہیں اور شونٹرویلی محبت والوں کی وادی ہے کیونکہ یہاں اگست میں پھولوں کی بہار ایسے آتی ہے کہ پگڈنڈیاں اور ڈھلوانیں پھولوں بھر جاتی ہیں،
ضلع نیلم آزاد کشمیر کے علاقوں میں شونٹرویلی پھولوں کی وادی کہا جائے تو بےجاہ نہ ہوگا ، کیل سے اڑھائی گھنٹے کے جیپ ٹریک کے بعد سطح سمندر سے نوہزار فٹ بلندی پہ واقع مقام حوض آتا ہے چٹا کٹھا جھیل جانے والوں کےلیے یہ پہلا گھر یا بیس کیمپ ہوتا ہے، بہت زیادہ ایڈونچر والے یہاں کیمپ کرتے ہیں اور اگلی صبح ٹریک پہ نکلتے ہیں یہاں پھولوں کی وادی میں ظہیر الدین بابر کا کیمپ سائٹ ہے جہاں رہائش کھانا گھوڑے اور گائیڈ مل جاتے ہیں،
کیمپ سائٹ سے تھوڑا آگے جانے پہ دو رستے ہیں ایک جیپ ٹریک سیدھا اپردومیل اور شونٹر کی طرف جاتا ہے جبکہ دائیں طرف اترائی والا رستہ شونٹر نالے کے قریب لے جاتا ہے،جہاں چنگھاڑتی ندی اور لکڑی سے بنا روایتی سا پل خود میں ایک خاص ایڈونچر چھپائے ہوئے ہیں،
پل عبورکرکے ایک بات پھر آپ کے قدم اوپر اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں جس کے دائیں دائیں جانب ندی ہے اور بائیں جانب رنگ بھرنگے پھولوں سے تنی چادریں،
جس سے ناک میں ایک لاجواب خوشبو اترتی ہے، یہاں بھی دو رستے ہیں ایک راستہ سیدھا ندی کے ساتھ ساتھ دائیں ہاتھ رہتے ہوئے شونٹر اور چٹاکٹھا ندی کے سنگم والے مقام سے بائیں ہوتا ہے یہ راستہ قدرے آسان سمجھا جاتا ہے اور عام سیاح اسی پہ جاتے ہیں جبکہ دوسرا رستہ بدستور بائیں رہتے ہوئے اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے کچھ ہی دیر بعد آپ اپنے آپ کو ایک ایسی وادی میں پاتے ہیں جہاں آپ جنگل ، پھول ، جڑی بوٹیاں کی مہکتی خوشبوؤں کو اپنے جسم و روح میں انڈیلتے ہیں اور یہ جادو مسلسل جاری رہتا ہے، دھند جیسے بادل آپ کے جسم سے ٹکراتے ہوئے ایک احساس ایک رومانیت اور ایک پیغام آپ تک پہنچاتےہیں، اس راستے پہ آپ کو چٹانوں پر سے کلائمبنگ بھی کرنا پڑتی ہے اسکے بعد آپ اوپر آتے ہی کھلے میدان میں داخل ہوتے ہیں
یہ ڈک ون کا علاقہ ہے جہاں ایک بڑا میدان جس کو ہر طرف سے پہاڑوں نے گھیرا ہوا ہوتا ہے اس کے دائیں جانب سے چٹاکٹھا ندی گزرتی ہے اور میدان کے آخر پہ پہاڑی ٹیلے پہ ڈک ون کیمپ سائٹ ہے جہاں آپ کےلیے رہائش اور کھانے کا انتظام موجود ہے اور اسکے میزبان ایک بار پھر ظہیر الدین بابر ہیں،
ہم دو گھنٹے میں ڈک ون پہنچے اور بیس منٹ کے بعد ہمارا سفر دوبارہ شروع ہوا،
ڈک ون کے بالکل سامنے ہی ڈک ٹو ہےیہاں بھی کیمپ سائٹ موجود ہے، اس سے آگے بڑی چٹانوں اور سفید دودھیا ندی کے درمیان سے ایک راستہ آپ کو الگ ہی جہان میں پہنچا دیتا ہے چندمنٹ چلنے کے بعد آپ ایک بار پھر نیچے اترنا شروع ہوتے ہیں اور لکڑی کا پل عبور کرکے ندی کے دائیں ہاتھ بڑے میدان میں داخل ہوتے ہیں
جہاں مارموٹ کی آماجگاہیں ہیں، اس میدان میں پھول جڑی بوٹیاں اور جنگلی حیات ملتی ہے، اطراف میں لٹکتی سفید آبشاروں کا منظر بہت سحر انگیز ہوتا ہے آپ پہلی بار ہری پربت کو اپنے سامنے پاتے ہیں جو پورے جاہ و جلال سے بادلوں میں گھیری ہوئی نظر آتی ہے، سفید آبشاروں کے سنگم کی وجہ سے ہی اس کو چٹا کٹھا کہا جاتا ہے،
میدان میں چلنے کے بعد آپ مسلسل چڑھائی چڑھنا شروع ہوتے ہیں، یاد رہے ٹریک پہ بل دار چڑھائی چڑھنے سے آپ زیادہ تھکاوٹ کا شکار نہیں ہوتے اگر آپ شارٹ کٹ کرنے کی کوشش کریں گے تو زیادہ چڑھائی چڑھنی پڑے گی،
اس سبزہ زار سے گزر کر آپ دل میں راحت و سکون پاتے ہیں کچھ دیر یہاں میدان میں آرام کریں اور اسکے بعد چڑھائی چڑھنا شروع کریں، مسلسل چڑھائی کے بعد آپ خوبصورت اور ہریاول سے سجے ٹریک پہ چلتے ہوئے آبشار کے سامنے پہنچتے ہیں
اس آبشار کے چرنوں سے ہی آپ کا آخری امتحان شروع ہوتا ہے یہیں سے آخری چڑھائی چڑھ کر آپ جھیل کو دیکھنے کی قابلیت ثابت کرتے ہیں، ہمیں ڈک ون سے اس آبشار تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگے اور پندرہ سے بیس منٹ قیام کیا،
آبشار کا نظارہ کریں اس کی سرسراہٹ بھری آواز کو روح میں اتارئیے اور آخری مہم جوئی شروع کیجیے ، چیونگم ہو تو چباتے جائیں, نمکول ضرور ساتھ لائیں اور تھوڑا تھوڑا استعمال کرتے رہیں، اگر ہائیٹ فوبیا ہو تو گڑ یا کچا پیاز ساتھ لائیں اور ضرور استعمال کریں آخری چڑھائی والا ٹریک بھی بہت شاندار ہے سبزہ زار کے اندر سے پگڈنڈی اوپر کو چڑھتی جاتی ہے لیکن چونکہ بلندی کافی ہے اس لیے آپ ہمت و حوصلہ کے ساتھ آہستہ آہستہ چڑھتے جائیے
یاد رہے آبشار تک پہنچتے ہی آپ سطح سمندر سے ساڑھے بارہ ہزار فٹ بلندی تک پہنچ جاتے ہیں، آخری جاندار چڑھائی چڑھنے کے بعد آپ 90 فیصد ٹریک مکمل کرلیتے ہیں اور آگے دس فیصد حلوہ ٹریک ہے جسے آپ ہنستے اور گوڈھے گھٹے دباتے پہنچ جاتے ہیں،
اوپر پہنچتے ہی نقشہ بدل جاتا ہے بادل دھند بن جاتے ہیں اور آپ تھکاوٹ کے باوجود جوان ہوجاتےہیں جھیل کا عشق آپ کو تیز کرتا ہے اورقدم نہ چاہتے بھی اٹھتے ہی چلے جاتے ہیں،ہری پربت کے ماتھے پہ بادلوں کی جھومر ماتھے کا بار بار بوسہ لیتی ہے جھیل پہ پہنچتے ہی ایک طلسمی احساس جنم لیتا ہے آپ خود کو ایک الگ دنیا میں پاتے ہیں شکر ادا کیجیے اللہ نے اپنی کائنات دیکھنے کےلیے آپکو چنا لیکن خدارا اس طلسمی اور صاف ستھرے قدرتی ماحول کو یونہی صاف ستھرا رکھنا ہے یا گندہ کرنا ہے یہ آپ نے چننا ہے
مجھے حوض بیس کیمپ سے جھیل تک ٹریکنگ کرتے ہوئے پانچ گھنٹے بیس منٹ لگے اور بخیر وعافیت جھیل کا دیدار نصیب ہوا ، یہ جھیل نخرے والی ہے بہت کم وقت کےلیے نظر آتی ہے اس لیے جلدی سے تصویریں بنالیں کیونکہ پھر دھند اپنی آغوش میں لے کر جھیل کو چھپا لیتی ہے
یاسرمغل

اسلام آباد سے مظفرآباد کا فاصلہ: 134.6 کلومیٹر، تخمینہ وقت 3.31 گھنٹے مظفرآباد سے وادی لیپا کا فاصلہ: 93.3 کلومیٹر، تخمی...
28/05/2023

اسلام آباد سے مظفرآباد کا فاصلہ: 134.6 کلومیٹر، تخمینہ وقت 3.31 گھنٹے

مظفرآباد سے وادی لیپا کا فاصلہ: 93.3 کلومیٹر، تخمینہ وقت 3.16 گھنٹے۔

وادی لیپا کی تفصیلات
بارڈر کا نام: ایل او سی لیپا سیکٹر

اونچائی: 5000 فٹ سے 12000 فٹ

وادی کی لمبائی: 18 کلومیٹر

علاقہ کا خدوخال : جنگل، پہاڑ، چوٹیاں، میدان (وادی اونچے پہاڑوں اور چوٹیوں سے گھیری ہوئی ہے )

سڑک کی حالت: پکی سڑک (ریشیان سے چننیاں تک)، کچی سڑک (چننیاں سے بارہ ہزاری تک)

وادی لیپا تک پہنچنے کے لیے گاڑیاں: ٹرک، جیپیں، بسیں، ہائی ایس، چھوٹی کوچیں، کاریں اور بائک

مشہور پہاڑ: شیش محل، کافر کھن، شمس بری، بارہ ہزاری وغیرہ

موسم: برفباری، بارش، ابر آلود اور دھوپ

درجہ حرارت: دن کے وقت درجہ حرارت گرم جبکہ شام کا اور صبح درجہ حرارت سرد رہتا ہے

وادی لیپا میں سب سے کم ترین مقام : چتکڑھی اور ست پورہ

وادی لیپا میں بلند ترین مقام: بارہ ہزاری

دیکھنے کے مقامات:چکمقام، تریڈا شریف، لب گراں، غائ پورا، لیپا، نوکوٹ، نوکوٹ گلی، چمولا گلی، چننیاں، منڈا کلی، کلی منڈل، بارہ ہزاری

ہائیکنگ والے علاقے : منڈا کلی سے بارہ ھزاری، داؤ کھن سے پٹیالی

کیمپنگ ایریا: لیپا لاجز اینڈ گیسٹ ہاؤس، داو کھن، داؤ کھن ٹاپ، پٹیالی، منڈا کلی بیلا، کلی منڈل، لیپا ویلی کے پچھلے علاقے،

گیسٹ ہاؤسز :
سرکاری گیسٹ ہاؤسز: داؤ کھن اور لیپا،
آرمی گیسٹ ہاؤس رڈاں/منڈل،
پرائیویٹ گیسٹ ہاؤسز: چمقام، لیپا، گھی کوٹ، نوکوٹ

گاؤں کی تعداد: انتیس (29)

یوسیز: گیا پورہ، نوکوٹ، اور بنہ مولہ

تحصیل ہیڈ کوارٹرز: لیپا میں ہیں جہاں اے سی، سیشن جج، ایس ایچ او وغیرہ بیٹھتے ہیں۔

ڈاک خانہ: لیپا اور بنا مولہ

بینک: نیشنل بینک لیپا

ہسپتال: ایم ڈی ایس (آرمی)، گورنمنٹ لیپا ہسپتال

پٹرول پمپس: 2 ہوچڑی بازار، 1 لیپا، 1 گھی کوٹ

پاور پلانٹس: لیپا پاور پلانٹ اور بنہ مولہ کپہ گلی پاور پلانٹ

نیٹ ورکس: Ufone اور Scom (Scom sims مظفرآباد میں اور لیپا ویلی میں دستیاب ہیں)

لینڈ لائن: صرف SCO

نیٹ: صرف SCO

پھل: سیب، گری دار میوے، خوبانی وغیرہ

فصلیں: مکئی، سرخ چاول، پھلیاں (لوبیا) وغیرہ۔

دیگر: شہد، مشروم (گچھی)، جڑی بوٹیاں وغیرہ۔

ندی: نالہ قاضی ناگ ( اس میں مچھلی بھی ہیں)

مقامی ملیں: فلور مل اور رائس مل
(وہ پانی کے بہاؤ پر چلتی ہیں)

روایتی کھانے: اخروٹ کی چٹنی، پھلیوں کے ساتھ ابلے ہوئے چاول (لوبیا)، ہربل چائے، کنڈور اور کنجی (جنگل کی سبزیاں)،

مزارات: سائیں مٹھا باجی (تریڈہ شریف)، مونگ شاہ باجی (چکمقام)

نوٹ :
1) ایک دن میں پوری وادی کا دورہ کیا جا سکتا ہے۔

2) ضروری ہدایات
جوتے: جوگر (جو گیلے نہیں ہوسکتے ہیں)،
سوٹ: ٹریک سوٹ (ہائیکنگ اور سیر کے لیے)،
اوپر پہننے کے لیے : جیکٹس/سویٹر،/ برساتی کوٹ،
کپڑے: اونی کپڑے/گرم سوٹ
دیگر لوازمات: ٹارچ، پاور بینک (طویل عرصے سے بجلی کی خرابی کی صورت میں)

3) گیسٹ ہاؤس کو پہلے سے ہی بک کروا لینا چاہیے ورنہ رہائش بہت مشکل ہے

★★★★★ · Motel

24/05/2023

کی تمام جھیلوں کی مکمل تفصیل۔۔۔

1)رتی گلی جھیل
2)رتی گلی سمال
3)ہنس راج جھیل
4)کالا سر
5)گھٹیاں جھیل
6)سرال جھیل
7)مون جھیل
8) رام چکور جھیل
9)مُلاں والی جھیل
10) بٹ کنالی جھیل
11)شاؤنٹرجھیل
12)چٹہ کٹھہ جھیل
13)چٹہ کٹھہ 2
14) بنجوسہ جھیل
15) باغسر جھیل
16) سُبڑی / لنگر پورہ جھیل
17) زلزال جھیل
18) پَتلیاں جھیل
19) مائی ناردہ جھیل
20) نوری جھیل
21) کھرگام جھیل
22 )ڈک جھیل

1) رتی گلی جھیل ❤

سب سے پہلے رتی گلی نام کی کنفیوژن دور کرلیں ۔ 2010 تک رتی گلی کا مقامی نام ڈاریاں سریاں سر تھا۔ سر مقامی طور پر جھیل یا پانی کے قدرتی ذخیرے کو کہا جاتا ہے۔
2010 میں سرکاری طور پر اور ایک مقامی صوفی بزرگ میاں برکت اللہ سرکار جن کا آستانہ برکاتیہ کے نام سے موجود ہے ان کی دینی خدمات کے اعتراف اور احترام کی وجہ سے جھیل اور اس تک آتی سڑک انکے نام سے منسلک کرنے کو اس جھیل کا نام رتی گلی برکاتیہ جھیل رکھا گیا ۔ جسکا باقاعدہ حکومتی نوٹیفیکیشن بھی موجود ہے ۔
رتی گلی جھیل وادی نیلم میں واقع الپائن گلیشئل لیک ہے یعنی اسکے پانیوں کا ماخذ و منبع اس علاقے میں موجود گلیشئیرز ہیں۔
یہ جھیل مظفرآباد کی جنوبی سمت قریباً 75 کلو میٹر کی مسافت پر وادی نیلم روڈ پر دواریاں کے مقام سے قابلِ رسائی ہے ۔ جو کہ دواریاں سے 16 کلو میٹر جیپ ٹریک کے بعد بیس کیمپ تک پہنچاتی ہے ۔
بیس کیمپ سے جھیل تک ایک گھنٹے کے آسان پیدل ٹریک کے بعد پہنچا جا سکتا ہے ۔
یہ جھیل سطح سمندر سے 12130 فٹ یا 3700 میٹر کی بلندی پر واقع ہے ۔
یہ علاقے کا مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں تمام سہولیات موجود ہیں۔ بیس کیمپ پر ایک بڑی کیمپنگ سائٹ موجود ہے جہاں مناسب داموں خیمہ اور خوراک، بجلی اور وائی فائی دستیاب ہے نیز گھڑ سواری کے شوقین افراد کیلئے جھیل تک جانے کیلئے گھڑ سواری کی سہولت موجود ہے ۔ یاد رہے کہ یہ جھیل علاقے کی سب سے بڑی جھیل ہے ۔ جسکے اطراف میں چھبیس دیگر چھوٹی بڑی جھیلیں موجود ہیں ۔ نیز اس جھیل کے پانی سے چار واٹر فال بنتی ہیں ۔

2)رتی گلی سمال ❤

رتی گلی بیس کیمپ سے 10 ،15 منٹ کی پیدل مسافت پر یہ جھیل سریاں سر کہلاتی ہے ۔ اس جگہ پانی کے بہت سے حوض/ ذخیرے ہیں جنہیں مقامی زبان میں سر کہتے ہیں۔ اسی نسبت سے یہ جگہ سریاں سر کہلاتی ہے۔ اس جگہ ایک واٹر فال اور مقامی ڈھوک اور ڈھارے موجود ہیں جہاں مقامی لوگ موسم گرما کے دوران رہائش رکھتے ہیں۔

3) ہنس راج جھیل ❤

یہ جھیل بھی وادی نیلم آزاد کشمیر میں واقع ہے ۔ اصل میں اس جھیل کا مقامی نام رتہ سر تھا اور وجہ شہرت اسکے اطراف موجود لال رنگ کے پہاڑ ہیں ۔ نیز اس علاقے میں لال بُتی پیک بھی موجود ہے جسے برطانیہ راج کے دوران جغرافیے کے سروے میں استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ اس علاقے میں تین لا بُتی پیکس ہیں ایک رتی گلی، دوسری سرگن اور تیسری کیل کے مقام پر ہے ۔
ہنس راج نام کی وجہ شہرت پاکستان کے سب سے بڑے سفر نامہ نگار اور سیاح سر مستنصر حسین تارڑ جب اس جھیل پر آے تو اس میں تیرتے گلیشیئر کے ٹکڑوں کو تیرتے ہنس راج سے مشابہہ قرار دیا اور اسے ہنس راج لکھا اور یہ جھیل ہنس راج جھیل مشہور ہوئی ۔۔ تب سے یہ جھیل ہنس راج جھیل ہی کہلاتی ہے۔
رتی گلی جھیل بیس کیمپ سے لگ بھگ ڈیڑھ، دو گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ جھیل رتی گلی اور نوری ٹاپ کے درمیان قریباً 3900 میٹر بلند رتی گلی پاس پر واقع ہے ۔ جسکے دوسری جانب براستہ سرال لیک وادی کاغان کی مشہور دودی پت سر کا ٹریک بھی کیا جاسکتا ہے۔
موسم سرما میں یہ جھیل بھی وادی نیلم کی دیگر جھیلوں کی مانند برف سے ڈھک جاتی ہے.

4)کالا سر جھیل ❤

وادی نیلم میں تین جھیلیں کالا سر 1، کالا سر 2 اور کالا سر 3 کے نام سے مشہور ہیں ۔
ہنس راج جھیل سے کالاسر1 ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے کالا سر 2 کیلئے مزید ایک گھنٹے کا ٹریک جبکہ کالاسر 3 کیلئے مزید کچھ اونچائی کی جانب ٹریک کرنا ہو گا۔
کالا سر 3 سے ہی آپ کو گھٹیاں لیک کا ویو بھی مل سکتا ہے بشرطیکہ آپ کسی مقامی گائیڈ کی رہنمائی لیں ۔ رات کیلئے آپ کو واپس رتی گلی بیس کیمپ آنا پڑے گا یا پرائیویٹ کیمپنگ لیکن اسکے لئے بھی مقامی گائیڈ آپ کو بہتر طور پر گائیڈ کر سکتے ہیں.

5) گھٹیاں جھیل ❤

رتی گلی بیس کیمپ سے لگ بھگ چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے ۔ یہ ٹریک رتی گلی سے ہنس راج / کالا سر لیک سے ہوتا ہوا گھٹیاں جھیل تک پہنچتا ہے ۔ یعنی کے مناسب پلاننگ اور حکمت عملی سے ایک ہی ٹور میں یہ تینوں جھیلیں با آسانی نمٹائی جا سکتی ہیں ۔
گھٹیاں لیک کا ویو تو آپ کو کالا سر سے ہی با آسانی مل جاے گا جبکہ رتی گلی کے پچھلے پہاڑ کے ٹاپ سے بھی گھٹیاں اور نانگا پربت کے درشن مل سکتے ہیں ۔
جبکہ نوری ٹاپ کے آخر پر شاردہ یا سرگن سے آنے والے برج یا نالے کے ساتھ ساتھ ٹریک کریں تو وہ راستہ چار سے پانچ گھنٹے کے ٹریک کے بعد آپ کو گھٹیاں لیک تک پہنچائے گا۔ یہاں بھی تین جھیلیں گھٹیاں کے نام سے موجود ہیں۔ جنکی شناخت گھٹیاں 1،2،3 کے نام سے کی جاتی ہے ۔ 1،2 کا، ویو کلئیر ملتا، ہے جبکہ تیسری کیلئے کچھ بلندی تک ہائیک کرنا پڑتی ہے ۔ اسکا مقامی نام ڈونگا سر یا ڈونگا ناڑ بھی ہے۔

6)سرال لیک ❤

یہ جھیل بھی وادی نیلم کا حصہ ہے جو سطح سمندر سے 13600 فٹ یا 4100 میٹر بلند ہے۔ یہاں تک پہنچنے کیلئے کئی راستے مستعمل ہیں ۔
پہلا راستہ بیسل اور دودی پت سر اور وہاں سے سرال تک آتا ہے ۔ یہ راستہ کم استعمال ہوتا ہے اور اس راستے سے آنے والے اکثر سرال ویو پوائنٹ سے ہی واپس ہو لیتے ہیں ۔ کیونکہ اسکے لئے ایک دفعہ اترائی میں اترنا اور پھر چڑھائی چڑھ کر جھیل تک پہنچنا پڑتا ہے ۔
دوسرا راستہ جلکھڈ، نوری ٹاپ سے میاں صاحب روڈ سے سرال تک آتا ہے یہ وہیں دودی پت سر والے ٹریک پر مل جاتا ہے ۔
تیسرا راستہ نوری ٹاپ پر سامنے سے آنے والے نالے کے ساتھ کشمیر والی سائیڈ پر آتا ہے، اسے کرنے کیلئے گھوڑے بھی مل جاتے ہیں اور پیدل ٹریک بھی کیا جاتا ہے ۔
چوتھا راستہ گموٹ نالے کے ساتھ ساتھ چلتے آئیں تو یہ آپ کو سرال لیک تک پہنچا دے گا۔ گموٹ نالہ بنیادی طور پر سرال سے ہی آ رہا ہے.

7)مون لیک❤

مون لیک کا راستہ بھی سرال لیک سے جاتا ہے ۔ سرال سے بائیں جانب ٹریک ہے جسے سرال کے ساتھ ہی ایک دن میں بھی کیا جا سکتا ہے ۔ اسے مقامی گائیڈ کی معیت میں کریں ۔ گموٹ اور جبہ کی بیک سائیڈ سے بھی یہاں پہنچ سکتے ہیں.

8)رام چکور / چھر والی لیک❤

یہ جھیل بھی سرال وادی میں چار سے پانچ گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ہے ۔ 2019 میں مقامی گائیڈز کی ٹیم نے پانچ جھیلوں کے ٹریک دریافت کیے یہ جھیل ان میں سے ایک ہے۔ رام چکور ( پرندہ) کی بہتات کی وجہ سے اسے رام چکور لیک بھی کہتے ہیں جبکہ مقامی نام پھرڑ ناڑ ہے۔ پھرڑ بھی مقامی زبان میں چکور کو کہا جاتا ہے۔ گموٹ، جبہ بیک اور سرگن کے راستے بھی یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے ۔

9) مُلاں والی جھیل❤

مُلاں والی جھیل جسے مُلاں والی ناڑ بھی کہتے ہیں یہ بھی مون جھیل اور رام چکور جھیل کے قریب واقع ہے ۔
نوٹ: مون جھیل، رام چکور جھیل اور ملاں والی جھیل ایک ساتھ بھی کی جا سکتی ہیں جا میں ایک نائٹ کیمپ شامل ہوگا اور کسی پریشانی سے بچنے کیلئے مقامی گائیڈ کی معیت میں با آسانی کیا جا سکتا ہے ۔

10) بٹ کنالی جھیل ❤

جاگراں سے شال تک گاڑی کے سفر کے بعد 7-8 گھنٹے کا پیدل ٹریک ڈھوک کنڈی نامی جگہ سے اوپر اٹھتا ہے اور ڈھوک بٹ کنالی تک پہنچاتا ہے جہاں سے ملاں والی جھیل کا راستہ قریباً ڈیڑھ کلو میٹر کا پیدل ٹریک بنتا ہے ۔


11)شاونٹر جھیل ❤

یہ جھیل شاؤنٹر ویلی نیلم آزاد کشمیر میں واقع ہے یہ جھیل سطح سمندر سے 3100 میٹر یا 10200 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہ جھیل برفپوش پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے اور اس جھیل کے پانیوں کا منبع بھی انہی پہاڑوں کے درمیان موجود گلیشئیرز ہیں۔
یہ جھیل سپون لیک بھی کہلاتی ہے، وجہ تسمیہ اسکی شکل کا سپون یعنی چمچ سے مشابہہ ہونا ہے اور کیل سے بذریعہ جیپ با آسانی اس جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ جس جگہ روڈ ختم ہوتی وہاں شاؤنٹر واٹر فال کے ساتھ یہ جھیل موجود ہے ۔ اسے مقامی طور پر بٹار لیک بھی کہتے ہیں ۔

12)چٹہ کٹھا سر ❤

یہ جھیل بھی شاؤنٹر ویلی میں واقع ہے ۔ 13500 فٹ یا 4100 میٹر کی بلندی پر واقع یہ ایک خوبصورت جھیل ہے جس تک پہنچنے کا راستہ دلفریب ہونے کے ساتھ ساتھ دشوار گزار بھی ہے ۔ بیس کیمپ سے ڈک ون اور ٹو نام کے دو پڑاؤ اسکی سحر انگیزی میں اضافہ کرتے ہیں ۔ کیل سے 20 کلوميٹر کا جیپ ٹریک آپ کو اسکے بیس کیمپ حوض نیلم نامی گاؤں تک پہنچاتا ہے، جو چٹہ کٹھا کا بیس کیمپ شمار ہوتا ہت۔ جسکے بعد 5 کلومیٹر کا پیدل مگر سخت چڑھائی والا راستہ اس جھیل تک پہنچاتا ہے ۔
عموماً مقامی دس سے بارہ گھنٹے میں آنا جانا کر لیتے ہیں جبکہ سیاح ایک طرف کا بارہ گھنٹے بھی لگاتے ہیں ۔
بہتر یہ ہے کہ بیس کیمپ سے ڈک 2 تک ایک دن میں کریں اگلے دن ڈک 2 سے جھیل تک جائیں اور واپسی اپنی سہولت کی مناسبت اور وقت کو دیکھ کر ترتیب دیں ۔
چٹہ کٹھہ سر کی ایک وجہ شہرت ہری پربت کادل موہ لینے والا نظارہ بھی ہے مزید یہ کہ اب تک کوئی اس چوٹی کو سر نہیں کر سکا ۔ یہ اس علاقے کی تیسری بلند چوٹی ہے پہلے نمبر پر سِروالی، دوسرے نمبر پر توشِیرہ وانگ کا، سلسلہ اور تیسرےپر ہری پربت ہے
یہاں نیچے وادی میں ایک جھیل چٹہ کٹھہ 2 کے نام کی بھی ہے ۔
مزید لنڈا سر 1،2 ایک سے دو گھنٹے کی مسافت پر، پنج کھٹیاں اور چند غیر معروف بے نام جھیلیں بھی اس علاقے میں موجود ہیں ۔

13)چٹہ کٹھا 2❤

ہری پربت کے عین نیچے سے بائیں جانب ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ کی پیدل مسافت چٹہ کٹھہ 2 تک پہنچاتی ہے۔


14) بنجوسہ جھیل ❤

بنجوسہ جھیل راولا کوٹ سے 18 کلو میٹر کی مسافت پر پونچھ ڈسٹرکٹ میں واقع ایک مصنوعی جھیل ہے ۔ یہ ایک مشہور سیاحتی مقام ہے اور باآسانی ہر سیاح کی پہنچ میں ہے ۔ یہ ایک گھنے جنگل میں واقع ہے۔ یہاں متعدد ریسٹ ہاوسز بھی موجود ہیں۔ کلومیٹر طویل ، کلومیٹر وسیع اور 52 میٹر گہری یہ جھیل 1981 میٹر یا 6499 فٹ بلندی پر واقع ہے۔

15) باغسر جھیل ❤

یہ جھیل وادی سماہنی، بھمبر میں لائن آف کنٹرول کے قریب باغسر قلعہ کے قریب واقع ہے۔
یہ قلعہ مغلوں کے زیرِ تسلط اور شاندار تاریخی حیثیت کا حامل رہا ہے ۔
سطح سمندر سے 975 میٹر بلند یہ جھیل قریباً نصف کلومیٹر طوالت کی حامل ہے ۔ یہ جھیل سرمائی موسموں کے مہاجر پرندوں اور اپنے کنول کے پھولوں کی وجہ سے مشہور ہے ۔
اس جھیل کی ایک اور وجہ شہرت اسکی شکل کو پاکستان کے نقشے سے کسی حد تک مماثلت بھی قرار دی جاتی ہے ۔
یہ علاقہ چیڑھ کے درختوں اور جا بجا کھلے واٹر للیز یعنی کنول کے پھولوں سے بھرا پڑا ہے ۔

16) سُبڑی لیک / لنگر پورہ جھیل ❤

سُبڑی لیک یا لنگر پورہ جھیل مظفر آباد کے جنوب مشرق کی سمت قریباً 10 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ یہ جھیل عین اس مقام پر واقع ہے جہاں دریاے جہلم کا پاٹ وسیع ہوتا ہے ۔ یہ جھیل مظفرآباد - چکوٹھی روڈ کے زریعے با آسانی رسائی رکھتی ہے۔
(اس جھیل کی تصدیق اور تصاویر اگر کوئی کر سکے تو ضرور شئیر کرے ۔۔۔ گوگل پر انفارمیشن موجود ہے مگر مجھے ابھی تک کوئی ملا نہیں جو تصدیق کر سکے یا کسی کے پاس تصاویر ہوں )

17)زلزال جھیل ❤

یہ جھیل 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کے نتیجے میں دو پہاڑوں کے مل جانے اور چار گاؤں بھٹ شیر، لودھی آباد، کُرلی اور پدر کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے اور پانی کی قدرتی گزرگاہ بلاک ہو جانے سے معرضِ وجود میں آئی۔
یہ جھیل چکار اور بنی حافظ کے درمیان واقع ہے۔ یہ جھیل 3.5 کلومیٹر طویل، اور 350 فٹ گہری ہے۔ سطح سمندر سے 1828 میٹر بلندی پر واقع ہے۔
اس جھیل کو گنگا چوٹی / سدھن گلی جاتے یا چکار گیسٹ ہاؤس میں رہائش کے دوران باآسانی وزٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس جھیل کے قریب ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کا ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔

18) پَتلیاں جھیل❤

اس جھیل کا راستہ لوات نالہ سے جاتا ہے ۔ دواریاں سے 3 گھنٹے کی جیپ ڈرائیو اور آدھ گھنٹے پیدل ٹریک کے بعد آپ یہاں تک پہنچ سکتے ہیں ۔ اس کے قرب و جوار میں بھی تین، چار چھوٹی بڑی جھیلیں اور ان گنت واٹر فال ہیں جن میں جھاگ چھمبر اور کنالی واٹر فال مشہور ہیں ۔
مین پتلیاں جھیل سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ایک جھیل پتلیاں ٹو کے نام سے بھی منسوب ہے۔

19) مائی ناردہ جھیل ❤

یہ جھیل ہندؤوں کیلئے مقدس مقام ہے اور انکے اشنان کی جگہ ہے ۔ شاردہ سے دو سے تین دن کے پیدل ٹریک کے بعد اس جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے ۔ لگ بھگ 14000 فٹ کی بلندی پر یہ جھیل واقع ہے۔

20) نوری جھیل❤

یہ جھیل عین نوری ٹاپ پر واقع ہے اور اسکی نشانی یہ ہے کہ اسکے آگے ایک بہت بڑی واٹر فال موجود ہے ۔

21 ) کھرگام جھیل❤

یہ جھیل رتی گلی کے پیچھے واقع ہے ۔ رتی گلی کے پچھلے پہاڑ میں جو شگاف نظر آتا ہے اسکے اوپر کھرگام جھیل ہے۔ یہ نسبتاً دشوار اور سخت پتھریلا راستہ ہے جو صرف پروفیشنل ٹریکرز اور ہائیکرز کیلئے موزوں ہے ۔

22) ڈک جھیل ❤

جانوئی کے مقام سے ڈک جھیل کا ٹریک شروع ہوتا ہے ۔ چٹہ کٹھہ جھیل کے ٹریک سے مماثلت رکھتا یہ ٹریک ایک جانب لگ بھگ 8-9 گھنٹے کا پیدل ٹریک ہے ۔ کیمپنگ کا سامان ساتھ لے جائیں اس علاقے میں کوئی کیمپ سائٹ نہیں ۔
اسکے علاوہ گجر ناڑ اور شکر گڑھ کی جھیلیں اب تک ان ایکسپلورڈ ہیں ۔
گال ویلی میں بھی 11 جھیلیں ہیں جو نیلم ویلی میں آتی ہیں ۔ علاوه ازیں سندر نکہ، ہولا بیک اور کالا جندر کے خوبصورت علاقے بھی متعدد جھیلوں اور آبشاروں کے حامل ہیں ۔
جولائی تا اکتوبر یہ جھیلیں وزٹ کرنے کا موسم شمار ہوتا ہے اسکے بعد کم و بیش اکثریتی علاقے برف سے ڈھک جاتے ہیں ۔ انکی لمبائی، چوڑائی یا گہرائی کی تاحال کسی مستند زرائع سے پیمائش نہیں کی گئی، زیادہ تر گلیشئیل جھیلوں کے بانی کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں ۔ ان تمام جھیلوں میں تیراکی کا خطرہ مول نہ لیں ۔ نیز کیمپنگ کیلئے بھی مناسب رہنمائی اور مقامی گائیڈ کاساتھ ہونا ضروری ہے ۔
لال بُتی پیکس برطانوی راج کے زمانے میں جغرافیائی سروے کیلئے استعمال ہوئیں، جنکے نشان اب بھی باقی ہیں ۔ علاقے میں تین لال بُتی پیکس رتی گلی، سرگن اور کیل کے علاقے میں ہیں اسکے علاوہ ڈاک بنگلہ رتی گلی موہری اور گورا قبرستان رتی گلی بھی موجود ہیں جو اس زمانے میں برطانوی فوجیوں/ افسروں کی رہائش اور اموات کی صورت میں تدفین کے علاقے تھے۔

کشن گھاٹی غار شاردہ میں موجود ہے اس کا زمانہ قریباً 5000 سال پرانا بتایا جاتا ہے اور یہ بدھ مت اور ہندووں کی عبادت گاہ کے طور پر استعمال ہوئی ۔
ان جھیلوں میں کچھ نئی دریافت ہیں یا وہاں تک کے باقاعدہ ٹریک منتخب کیے گئے۔

08/05/2023

https://www.youtube.com/watch?v=dDouM649rxg&t=69s
آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد
پاکستان کے زیرانتظام آزاد کشمیر کا دارلحکومت یہ ضلع مظفرآباد ہے۔چاروں اطراف میں اونچے پہاڑوں کے دامن میں یہ دریائے جہلم اور نیلم کے کنارے واقع ہے ضلع مظفرآباد کا کل رقبہ 1,642 مربع کلومیٹر ہے۔ سمندر سے اس شہر کی بلندی تقریباً 2400 فٹ ہے۔اسلام آباد سے مظفرآباد شہر کا فاصلہ تقریباً 135 کلومیٹر ہے۔
محققین کے مطابق اس سے پہلے بھی مظفرآباد کو مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا، جیسے چوراہیا، چکور، چکڑی بہک، شکری، اور اب مظفرآباد،
مظفرآباد شہر کا نام سلطان مظفر خان کے نام سے 1652میں رکھا گیا۔ مظفرآباد کے بانی سلطان مظفر خان کا تعلق بمبا خاندان سے تھا۔ مظفرآباد شہر کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسے سلطان مظفر خان نے دوبارہ آباد کیا تھا، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سلطان مظفر خان مظفرآباد کی بنیاد 1652ء میں رکھی
لیکن اگر تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مظفرآباد شہر سلطان مظفر خان سے پہلے بھی آباد تھا، لال قلعہ کی تعمیر 1549ء میں شروع ہوئی۔ سید عنایت شاہ ولی سلطان مظفر خان کی حکومت کے قیام سے پہلے یہاں تشریف لائے تھے۔
صدیوں سے آباد شہر میں تقسیم کشمیر سے پہلے اور گزشتہ کئی دہائیوں تک ہندومت، بدھ مت، اسلام اور سکھ مت کے مختلف قبائل اور مذہب یہاں اس شہر میں آباد رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کئی صدیوں پہلے مظفرآباد ایک وسیع اور گہری جھیل میں ڈوبا ہوا تھا۔ مظفرآباد کا علاقہ مختلف تہذیبوں اور مذاہب کا مرکز رہا ہے۔
یہاں بولی جانے والی زبانوں میں پہاڑی، ہندکو، گوجری، کشمیری، بلتی، اردو، پنجابی اور پشتو بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ پہاڑی، ہندکو، کشمیری اور گوجری یہاں کی قدیم زبانیں ہیں۔
مظفرآباد کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہ صدیوں سے ایک گیٹ وے کا کام کر رہا ہے، سلطان مظفر خان سے پہلے اور بعدمظفرآباد صدیوں تک ایک تجارتی منڈی اور بین الاقوامی گزرگاہ رہا تھا۔ ہر قبیلہ، قافلہ، لشکر مظفرآباد کے راستوں سے کشمیر میں داخل ہوتا رہا ہے۔
سلطان مظفر خان نے مظفرآباد میں محلے بنوائے، مسجد بنوائی، مختلف قومیتوں اور پیشوں کے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا۔ محلوں کو مختلف پیشوں کے نام سے منسوب کیا گیا، جیسے سلطانی محلہ، خواجہ محلہ، قاضی محلہ، تیلی محلہ، محلہ کمہاراں،محلہ قصاباں،کاندر امحلہ
مظفرآباد میں بہت سے مزارات ہیں جن میں سائیں سہیلی سرکار، سید عنایت بادشاہ، سید حسین شاہ پیر چناسی،پیراسیمار مشہور ہیں۔
اس شہر میں کئی تاریخی اور خوبصورت مساجد ہیں: جامع مسجد سلطانی، جامع مسجد حمام والی، جامع مسجد بازار والی، جامع مسجد بھی مظفرآباد میں واقع ہے۔
مظفرآباد شہر کے سیاحتی مقامات میں پیر چناسی، سری کورٹ،مکرا چوٹی،دھنی آبشار، چکار زلزلہ جھیل، پیر آسی مار، شہید گلی، قلعہ پلیٹ، گوردوارہ، پرانادومیل، میل پل، پرانا نیلم پل، تاریخی اور تفریحی باغات جیسے خوبصورت سیاحتی مقامات بھی ہیں۔
مظفرآباد چونکہ کشمیر کا دارالحکومت ہے، اس لیے شہر میں قانون ساز اسمبلی، ایون صدر، ایون وزیر اعظم، آزاد کشمیر ریڈیو اسٹیشن، ٹیلی ویژن اسٹیشن، اسٹیٹ بینک، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور دیگر تمام محکموں کے دفاتر بھی موجود ہیں۔
مظفرآباد میں کرکٹ اسٹیڈیم اور فٹ بال اسٹیڈیم بھی موجودہیں۔
اپنی قدرتی خوبصورتی، شاندار آب و ہوا کی وجہ سے، یہ فطرت سے محبت کرنے والوں کا شہر مظفرآباد ہے۔
کشمیر کی وادیاں قدرتی حسن کی سحر آفرینیوں کا مرقع ہیں آثار قدیمہ اور فطری موضوعات میں
دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے اس علاقے کی سیاحت میں ان گنت نقوش اور باقیات موجود ہیں
تحریر:ایم ٖڈی مغل

25/04/2023

Kail AJK

28/11/2022

kail Nelum

06/09/2021

Leepa AJK

Tao But
05/09/2021

Tao But

Address


Telephone

+923008363035

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Al Ithad Tourism AJK Muzaffarabad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Travel Agency?

Share