Ace Tours

Ace Tours Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Ace Tours, Travel Company, .
(1)

Hotel White Palace
12/11/2021

Hotel White Palace

Karomber Lake
04/11/2021

Karomber Lake

18/10/2021
Karakoram HighwayThe Karakoram Highway (often abbreviated to KKH and sometimes transliterated as Karakorum) is the highe...
12/08/2020

Karakoram Highway

The Karakoram Highway (often abbreviated to KKH and sometimes transliterated as Karakorum) is the highest paved international road in the world; it connects Western China and Pakistan. It is one of the very few routes that cross the Himalayas and the most westerly of them. Historically, this was a caravan trail, one branch of the ancient Silk Road. More recently, the Chinese and Pakistani governments have built a highway.

A view from the highway near Passu, Pakistan.
The name is derived from the Mongolian for Black Range, when the Mongols had their great empire, and was adopted later by their descendants, the Mughal Empire, who ruled India for many centuries.

The highway has become an adventure tourism destination and ranked as the third best tourist destination in Pakistan by The Guardian newspaper. It is the highest border crossing in the world, at an elevation of over 4,800 metres (roughly 16,000 feet) in the 1 Khunjerab Pass Khunjerab Pass on Wikipedia at the border. For comparison, Mont Blanc, the tallest mountain in Western Europe, is 4810 m and Mount Whitney, the highest point in the 48 contiguous US states, is 4421 m.

It may be the ultimate challenge for the devoted cyclist. There are organised bicycle tours, and several books about bicycling this route. Although as travel to Pakistan has declined because of terrorist attacks, the number of tours has fallen. It is a trip that is possible to undertake independently, although consideration should be given to the heat and altitude if travelling unsupported.

The border is not open for cyclists. Instead, you can board the bus in either Tashkurgan (China) or Sost (Pakistan). From the Pakistani side you can cycle up to the pass, but not over it. You will have to return to Sost to take the bus!

,,source Google ,,

Takht bhaiis perched about 500 feet atop a small hill, about 2 kilometers east of the Takht Bhai bazaar in Mardan distri...
09/08/2020

Takht bhai

is perched about 500 feet atop a small hill, about 2 kilometers east of the Takht Bhai bazaar in Mardan district of Khyber Pakhtunkhwa (KP), once known as the heart of the Gandhara civilization, which attracts tourists, historians, archaeologists and Buddhists from across the world.

The Buddhist complex and the village, as locals say, is named after the two wells found on top of the hill near the complex, however, majority believe that takht means throne and bhai means water in Persian language.
source..... Dawn news
pic Rana usman

چولستانصحرائے چولستان جو مقامی طور پر روہی کے نام سے بھی مشہور ہے، بہاولپورشہر، پنجاب، پاکستان سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پ...
09/08/2020

چولستان

صحرائے چولستان جو مقامی طور پر روہی کے نام سے بھی مشہور ہے، بہاولپورشہر، پنجاب، پاکستان سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک صحرا ہے۔ چولستان پنجاب کا اہم صحرا ہے۔ یہ جنوب مشرق میں راجستھان سے جاملتا ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ خانہ بدوش ہیں جو صحرائے چولستان کے ٹوبھوں کے گرد اپنا مسکن بناتے ہیں۔ ٹوبھا پنجابی زبان میں پانی کے تالاب کو کہتے ہیں۔ برسات کے دنوں میں یہ ٹوبھے پانی سے بھر جاتے ہیں۔ صحرائے چولستان کے باسی چولستانی لہجے کی پنجابی بولتے ہیں جو راجستھانی بولیوں سے بھی ملتی جلتی ہے ۔

Trango Tower is one of the mostspectacular granite towers in the world Nameless and Trango Tower are among the largest v...
08/08/2020

Trango Tower is one of the most
spectacular granite towers in the world Nameless and Trango Tower are among the largest vertical faces of the world
Located in the Baltoro Glacier region of northern Pakistan, Great Trango, the tallest formation in Trango Valley, features 4,396 vertical feet of granite, more than any other face in the world. This spire is over 20,000 feet above sea level, and combined with Trango Tower (aka Nameless Tower) to the northwest, these formations dominate the horizon on the approach to the larger mountains of K2, Broad Peak, Gasherbrum IV, and Nanga Parbat.

لاہور ہمیشہ لاہور رہے گا، اسے کچھ اور بننے کی خواہش نہیں ہے'بی بی سی اردوکیا آپ کو معلوم ہے کہ لاہور دنیا کا پندرہواں بڑ...
07/08/2020

لاہور ہمیشہ لاہور رہے گا، اسے کچھ اور بننے کی خواہش نہیں ہے'

بی بی سی اردو

کیا آپ کو معلوم ہے کہ لاہور دنیا کا پندرہواں بڑا شہر ہے، اس میں 460 تاریخی عمارتیں ہیں اور اس شہر میں ایک محلہ مولیاں ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ یہاں کبھی مہاتما بدھ آ کر ٹھہرے تھے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ لاہور میں کون سا مقبرہ ہے جسے سائپرس کا مقبرہ کہتے ہیں اور حضوری باغ کو طاقت کی سیٹ کیوں کہا جاتا تھا اور کیا انارکلی کے مقبرے کو کبھی گرجے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے؟

’لاہور لاہور ہے جی‘

برطانیہ کے شہر کیمبرج میں لاہور کی تاریخ اور اس کی تاریخی عمارتوں کے تحفظ پر حال ہی میں منعقد کیے گئے ایک سمپوزیم میں ان باتوں کا ذکر ہوا۔

اس سمپوزیم کے روح رواں سر نکلس بیرنگٹن تھے جو پاکستان میں کئی برس سفارتکار رہ چکے ہیں اور لاہور سے خصوصی محبت رکھتے ہیں۔ سمپوزیم کو اینشئنٹ انڈیا اینڈ ایران ٹرسٹ نے یونیورسٹی آف کیمبرج کے سینٹر آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے ساتھ مل کر منعقد کیا تھا۔

سر نکلس بیرنگٹن جو پاکستان میں کئی برس سفارتکار رہ چکے ہیں،
انکا کا کہنا تھا کہ 'لاہور ایک بڑا شہر ہے اور یہ جنوبی ایشیا کے ان شہروں میں سے ایک ہے جن میں تاریخی نوادرات کی سب سے زیادہ بہتات ہے۔ یہ بات برطانیہ میں آج کل لوگوں کو معلوم نہیں ہے کیونکہ وہ وہاں نہیں جاتے ہیں‘۔ یہ وہ وقت ہے جب لوگوں کو پاکستان کی خوبصورتی کے متعلق بتایا جائے اور لاہور چونکہ پاکستان کے بڑے مقامات میں سے ایک ہے اس لیے جتنا زیادہ لوگوں کو پتہ چلے اتنا ہی اچھا ہے۔

ہڑپہ ختم ہوا اور لاہور شروع ہوا
ڈاکٹر مجید شیخ
ڈاکٹر مجید شیخ کہتے ہیں کہ لاہور پر مزید تحقیق ہونی چاہیے

کیمبرج میں ولفسن کالج سے وابسطہ ڈاکٹر مجید شیخ پکے لاہوری ہیں۔ پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان میں لاہور پر کالم لکھنے کے علاوہ لاہور پر کم از کم چار کتابیں اور کئی مقالے لکھ چکے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ لاہور اس سے کہیں پرانا ہے جتنا کہ سمجھا جاتا ہے۔

مجید شیخ کے مطابق ’اس سمپوزیم سے ہم یہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا کہ ماہرینِ آثارِ قدیمہ، تاریخ دان، اور سکالرز کو یہ پتہ چلے گا کہ یہ شہر کتنا پرانا اور اہم شہر ہے اور صرف اس کے ارد گرد 460 تاریخی عمارتیں ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی اتنی زیادہ تاریخی عمارتیں نہیں ہیں ۔

مجید شیخ نے بی بی سی کو بتایا ’جب برطانوی ماہرین نے 1959 میں یہاں کھدائی کی تو انھیں یہاں سے چار ہزار سال پرانے مٹی کے برتن ملے تھے۔ اسی طرح محلہ مولیاں میں 2900 سال پرانے نوادارات ملے۔ یہ وہ دور ہے جب ہڑپہ ختم ہو رہا تھا۔ تو یہ بالکل صاف ہے کہ لاہور یہاں پر شروع سے آباد ہے اور یہ ہڑپہ کے دور سے شروع ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال ٹھیک طریقے سے نہیں کی جا رہی۔ 'صرف لاہور کے قلعے میں 21 تاریخی عمارتیں ہیں جن کا برا حال ہے۔ کچھ پہ کام ہو رہا ہے لیکن پھر بھی یہاں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مثلاً شیش محل کی چھت گر گئی تھی۔ ڈنمارک والوں نے پیسے دے کر اسے بچا لیا لیکن ابھی بھی حال بہت اچھا نہیں ہے‘۔

پاکستان میں تاریخی عمارتوں کے بارے میں انھوں نے مذید بتایا ’نو لکھا، دیوانِ خاص اور شاہی باورچی خانے کا حال برا ہے جسے آثارِ قدیمہ کے اصولوں کے خلاف نیا بنایا جا رہا ہے۔ کھڑک سنگھ کی حویلی کا حال دیکھ کر تو رونا آتا ہے۔‘

کیا صدیوں سے دریائے راوی کے کنارے اس قدیم شہر کو وہ اہمیت مل رہی ہے جتنی اسے ملنی چاہیے؟

انارکلی کا مقبرہ
انارکلی کا مقبرہ کبھی گرجا کے طور پر استعمال ہوا تو کبھی سرکاری دفتر بنا
برطانیہ کی باتھ سپا یونیورسٹی میں تاریخ پڑھانے والے پروفیسر افتخار ملک سمجھتے ہیں کہ برِصغیر میں ملتان اور لاہور کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان دونوں شہروں نے اس خطے کی تاریخ پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

'لاہور بقا کی ایک مثال ہے۔ لاہور کا حال اس کے ماضی کا ایک سلسلہ ہے۔ اس کے مستقبل نے ابھی شکل اختیار کرنی ہے۔ لاہور ہمیشہ لاہور رہے گا، اسے کچھ اور بننے کی خواہش نہیں ہے۔

بی بی سی اردو
تصویر ۔۔۔۔۔رانا عثمان

The Rakaposhi mountain, a 7,800-meter-high peak, is the highest mountain and, probably, the most iconic from the Karakor...
06/08/2020

The Rakaposhi mountain, a 7,800-meter-high peak, is the highest mountain and, probably, the most iconic from the Karakoram range which can be visible from the Karakoram Highway.

It’s located in the Nagar Valley, in the north of Pakistan, and in the local language it means ”shiny wall”. The Rakaposhi peak is the 27th highest mountain on Earth but considered one of the most beautiful ones.

Tirich Mir, highest peak 7,690 m in the Hindu Kush mountain system, lying 155 mi (249 km) north of Peshawar, Pak., in th...
06/08/2020

Tirich Mir, highest peak 7,690 m in the Hindu Kush mountain system, lying 155 mi (249 km) north of Peshawar, Pak., in the North-West Frontier Province near Afghanistan. The first recorded ascent of Tirich Mir was made by Norwegians in July 1950.

pic afzal shirazi

Rama village Astore valley GB  . P A K I S T A N Rana usman photographyیہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہاں بلند کی گئی...
04/08/2020

Rama village Astore valley
GB . P A K I S T A N
Rana usman photography

یہ دنیا اس برفانی پہاڑ کی طرح ہے جہاں بلند کی گئی ہر آواز، پہاڑوں سے ٹکرا کر بازگشت کی صورت میں واپس ہم تک پہنچتی ہے۔ جب بھی تم کوئی اچھی یا بری بات کرو گے، تم تک واپس ضرور پلٹ کر آئے گی۔
چنانچہ اب اگر تم کسی ایسے شخص کیلئے برے کلمات منہ سے نکالو، جو ہر وقت تمہارا برا سوچتا رہتا ہے، تو یہ اس معاملے کو اور بھی گھمبیر بنادے گا اور تم منفی قوتوں کے ایک نہ ختم ہونے والے چکر میں گھومتے رہو گے۔
بجائے اسکے کہ تم اسکے لئے کچھ برا کہو، چالیس دن تک اسکے لئے اچھا سوچو اور اچھی بات منہ سے نکالو، تم دیکھنا کہ چالیس دن بعد ہر شئے مختلف محسوس ہوگی، کیونکہ تم پہلے جیسے نہیں رہے اور اندر سے تبدیل ہوگئے۔

شمس تبریز

sukkhar bridge pic gulraiz ghouri
03/08/2020

sukkhar bridge
pic gulraiz ghouri

lowari top pic Gulraiz Ghouri
03/08/2020

lowari top
pic Gulraiz Ghouri

ratti lake Ajk Pakistan pic rana usman
03/08/2020

ratti lake
Ajk Pakistan
pic rana usman

مرزا صاحِباں ۔۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانا عثمان عشق کے سو نہیں ہزار رنگ ہیں اور عشق بے رنگ کردیتا ہے ۔ کیا سب کے عشق ک...
25/07/2020

مرزا صاحِباں ۔۔۔۔

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رانا عثمان

عشق کے سو نہیں ہزار رنگ ہیں اور عشق بے رنگ کردیتا ہے ۔

کیا سب کے عشق کے معاملات ایک جیسے ہوتے ہیں کیا ایسا کوئی ترازو ہے جس میں عشق کی اصلیت اور اسکے کھوٹ کا پتا چل سکے؟

اور کیا ایک آوارہ گرد اور ایک عام انسان کائنات کے ُحسن اور ُحسن کی کوکھ سے جنم لیتے عشق کو دیکھنے کو سمجھنے کو الگ الگ پیمانے اور آئینے رکھتے ہیں ؟

زمانہ طالب علمی میں ، میں ایک سطحی سا طالب علم رہا استادوں سے کبھی کچھ خاص لگاؤ پیدا نہ ہوا مجھے اپنا ہر استاد ایک طرح سا لگا جو خود طوطے کی طرح رٹا مار کے آیا ہوا ہو اور ہمیں بھی طوطا بنانا چاہتا ہو خیر شائد اسی لیے میں تعلیم کے میدان میں کبھی اچھے نمبروں سے پاس نہ ہوا بس پاس ہوتا رہا ۔
جب کالج کی دیواروں سے باہر نکلا تو فطرت کو استاد مان لیا فطرت کی انسان کی طرح سے زبان نہیں ہوتی لیکن وہ اشاروں کنایوں میں اور مختلف طریقوں سے آپ کو سمجھاتی ہے ۔

اب میں اپنے بہت سارے سوالات فطرت کے سامنے رکھ چھوڑتا ہوں ۔
کبھی جواب مل جاتا ہے کبھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے اپنے پاس موجود تاریخ اور جغرافیہ کی کتابوں، لاہور کے اردگرد آس پاس جگہوں اور گوگل میپ پر لاہور کے نواح کو کنگھالا تو گوگل میپ پر وہاں دانا آباد نامی قصبہ نمودار ہوا ۔
مشہور عشقیہ داستان،، مرزا صاحباں ،،کا دانا آباد ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے اب ُحسن و عشق کے متعلق معاملات سمجھنے اور جاننے کے لیے عشق و ُحسن سے منسوب ،،مرزا صاحباں،،، کا در کھٹکٹانے لاہور سے 110 کلومیٹر دور دانا آباد جانا تھا

تو چلیں کیا ؟

دیکھتے ہیں ُحسن و عشق سے متعلقہ سوالات کا مرزا صاحباں کے دانا آباد سے کیا جواب ملتا ہے ۔

رانے او نئی بائیک لی ہے ۔۔۔۔ مشہور پاکستانی نیشنل بائیکر مزمل عمران کی نئی بائیک کی خوشخبری کی فون کال آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکار مبارک ہو ۔۔۔۔ پھر کیا پروگرام ہے ، مٹھائی کھانی ہے ہم نے تو یہ نہ کہہ دینا آجاؤ ذرا نوری ٹاپ ناران تک انجن کی رننگ پوری کر آئیں ہماری پشت آدھے گھنٹے سے زیادہ بائیک سیٹ کا ظلم برداشت نہیں کرسکتی یہ بائیکر بھائیوں کا ہی حوصلہ ہے وہ ہزاروں میل کی رائیڈ کرلیتے ہیں ۔
نیشنل ہائیکر نے بلند قہقہ لگایا اور بولا ۔۔۔۔آپ بتائیں پھر کیا کریں یا بیٹھیں میری بائیک کے پیچھے آپکو آپکی معشوق کرومبر تک نہ لے جاؤں تو میں راجپوتوں کا سپوت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔

اچھا پھر تو یہ بائیک نہ ہوئی مرزے کی راج دلاری گھوڑی،، بکی،، ہوگئی ویسے بھی سرکار معشوق کرومبر کا ابھی بلاوہ آیا نہیں ہے جس دن آیا ہم اسی دن مرزے جٹ کی مانند طرح قربان ہونے کو اسکی طرف پیدل چل پڑیں گے ۔

ابھی ایسا کرتے ہیں آپکی اس،، بکی،، یعنی GS150 پر سویرے لاہور سے 110 کلومیٹر دور گاؤں دانا آباد چلتے ہیں وہاں چیمہ اپنا یار بھی ہے اس سے ملاقات بھی رہے گی اور عشق کی ایک سوئی ہوئی داستان ،،مرزا صاحباں،، بھی ہے ۔ چہرے پر دنیا داری کی بہت دھول چڑھ گئی ہے چلیں وادی عشق دانا آباد کی مٹی سے چہرے کو دھو آئیں ۔

لاہور شہر بادلوں میں گھرا ہوا تھا آج دن نہیں نکل رہا تھا تیز ہوائیں چل رہی تھیں لیکن ہماری ،، بکی،، یعنی GS 150 تیار تھی ہمیں مرزے کے دانا آباد لے جانے کو ۔
لاہور سے چلے تو درمیان میں شرق پور شریف آیا جہاں سے دوستوں کے لیے وہاں کے مشہور سوغات گلاب جامن لیے اور ٹھیک تین گھنٹے کی بائیک رائیڈ کے بعد ہم جڑانوالہ تھے ۔

فیصل آباد سے ہر دلعزیز یاروں کے یار ذیشان کلیار اور ،، یاراں نال بہاراں،، کا علم بلند کیے میاں ظفر دانا آباد پہنچے جڑانوالہ ہمارا پہلا سٹاپ حق نواز چیمہ کے محبت خانے پر تھا جو اس سفر کے امیر بھی تھے ۔
انکی شاندار ضیافت دیکھ کر ہمیں کہنا پڑا کہ پراٹھے لسی اتنے کھلا پلا کر ٹن نہ کرو کہ کہ صاحباں کے ُحسن اور مرزے کی وفا کی داستان کے خمار کی جگہ نہ بچے .

جڑانوالہ سے 18 کلومیٹر دور دانا آباد گاؤں ہے یہ ایک تنگ چھوٹی سڑک ہے جس کے دونوں طرف درخت اور جنگلی جھاڑیاں ہیں جیسے ہی آپ دانا آباد گاؤں میں داخل ہوتے ہیں آپکے دونوں طرف تاحد نگاہ مختلف فصلیں بچھی نظر آتی ہیں گاؤں کے دو تین موڑ کاٹنے کے بعد ہی آپکو دور سے ہی مرزا صاحباں کے مزار کا گنبد چار اطراف سے فصلوں میں گھرا کھڑا نظر آتا ہے ۔۔۔

چار صدیاں گزر چکی ہیں ،،،مرزا صاحباں،، کے بعد حسن و عشق کی کسی اور داستان کو وہ مقبولیت نہ ملی جو ان دونوں کو ملی تو کیا کائنات سے عشق اور ُحسن کا وجود فنا ہوگیا ؟

ہر انسان دل لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن ہر انسان وہ دھڑکن لے کر پیدا نہیں ہوتا جو کسی چہرے کو دیکھ کر اتھل پتھل ہوجائے ۔ ہر انسان آنکھ لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن ہر انسان وہ نظر لے کر پیدا نہیں ہوتا جو دوسرے کے دل میں اترتی چلے جائے ۔
یہاں دانا آباد میں دل اور نظر یکجا ہوئے تو داستان،، مرزا صاحباں،، رہتی دنیا تک کے لیے تاریخ کے کاغذوں پر قلمبند ہوگئی ۔

مرزا ذات کا کھرل تھااور اسکا گاؤں دانا آباد ، تھا تاریخ ہمیں مرزا کی پیدائش 28 مارچ 1586 اوروفات 18 مارچ 1618 بتاتی ہے یہ مغل بادشاہ جہانگیر کا زمانہ ہے مرزے کے باپ کا نام سردار ونجھل خان کھرل تھا اور وہ اپنے قبیلے کا سردار بھی تھا

مرزا بہترین گھڑ سوار تلوار کا ماہر اور تیر اندازی میں خاص شہرت رکھتا تھا اس نے تیر اندازی اور گھڑ سواری کے بہت سارے مقابلے جیت رکھے تھے اور اسی حوالے سے اسکی علاقے میں خاص شہرت تھی ایسے ہی ایک تیر اندازی کے مقابلے میں اسے ایک بہت خوبصورت اور بیش قیمت گھوڑی " بکی " انعام میں ملی یہ وہی بکی ہے جسے اپنے مالک مرزے سے وفا کے حوالے سے اس داستان میں ہمیشہ یاد رکھا جاتا ہے اور جس کے ذکر کے بغیر یہ داستان ہمیشہ ادھوری رہتی ہے ۔

دانا آباد سے لگ بھگ سو کلومیٹر دور جھنگ چنیوٹ روڈ پر صاحباں کا گاؤں کھیوہ ہے صاحباں ذات کی سیال تھی ۔
تاریخ پیدائش ، 29 مارچ 1587 اور وفات 18 مارچ 1618 ہے ۔ کہتے ہیں صاحبہ کی کچھ پشتیں پیچھے جائیں تو اس کا حسب نسب ہیر سیال سے جاملتا ہے جی جی وہی ہیر رانجھے کی ہیر سیال ۔۔۔۔۔۔

ماھنی خان صاحباں کا والد تھا اور فتح بی بی مرزا کی والدہ اور یہ دونوں دودھ شریک بہن بھائی بھی تھے اسی حوالے سے مرزا صاحباں کی آپس میں دور کی رشتے داری بھی بنتی تھی

اگر ہم اس خطے اس وابستہ حسن و عشق کی درجن بھر داستانوں کا مطالعہ کریں تو تحقیق سے دو کردار سامنے آئیں گے جن کے ُحسن کے چرچے ہر طرف پھیلے ۔ ان میں سے ایک سسی تھی ُپنل کی سسی کیچ مکران بھنبھور کی سسی اور دوسری پنجاب دھرتی سے صاحباں ، کہتے ہیں صاحباں اس قدر حسین تھی کہ اسکے حسن کے چرچے بہت جلد ہر طرف پھیل گئے تھے اسکے گاؤں کی موچی خاندان کی عورتیں سنہری تلہ کاری سے بنائی گئی جوتی اس کے لئیے بنانا اعزاز سمجھتی تھیں ، اور دکاندار اس کا حسن دیکھ کر تیل کی جگہ شہد تول دیتے تھے ،

مرزا جٹ کو بچپن میں قرآن پڑھنے کو چنیوٹ کے قریب موجود گاؤں کھیوہ میں صاحباں کے گھر رہنے کو بھیج دیا گیا ۔
عشق کی داستان وہیں سے پروان چڑھنا شروع ہوئی جب مسجد میں سبق یاد نہ کرنے پر مرزا جٹ کو چھڑی سے ہاتھوں پر مار پڑتی تو نشان صاحباں کے ہاتھ پر ابھر آتے اور جب مولوی صاحب نے صاحباں کو تختی پر سبق لکھنے کو کہتے تو صاحباں ساری تختی پر مرزا لکھ دیتی۔
یہ واقعہ جنگل میں لگی آگ کی مانند ہر سو پھیلتا گیا اور مرزے کو اس کے گھر والے آکر واپس دانا آباد لے گئے لیکن دیدار کی طلب اور عشق کی آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی تھی ایک عرصے تک مرزا اکثر رات کے اندھیرے میں دانا آباد سے کھیوہ گاؤں تک لمبا سفر کرتا رہا ۔ وقت گزرتا رہا اور ایک دن صاحباں کے گھر والوں نے اسکا بیاہ کہیں اور طے کردیا ۔
صاحباں نے اپنے ہی گاؤں کے ایک لڑکے کرموں کے ہاتھوں مرزے کو پیغام بھیجا میری شادی طے ہوگئی ہے آؤ اور اب مجھے ہمیشہ کے لیے لے جاؤ ۔۔۔۔۔۔

مرزا کو جب یہ پیغام ملا تو اس کے گھر اس کی بہن کی شادی کی تقریب چل رہی تھی. وه عشق کا مارا تقریب چھوڑ کر منزلیں مارتا صاحباں کو لینے رات کی تاریکی میں چھپتا چھپاتا بکی کو بھگاتا کھیوہ گاؤں آپہنچا ۔۔۔۔۔۔

گاؤں میں صاحباں کی شادی کی سلسلے میں چراغاں تھا جس سے صاحباں پریشان تھی کہ کہیں مرزا اسی رونق کی وجہ سے دیکھا اور پکڑا نہ جائے

داستان گو اس وقت کے حوالے سے کچھ شعر بیان کرتے ہیں جو اس وقت صاحباں کے منہہ سے بے اختیار جاری ہوئے

،،،میں بکرا دیاں نیاز دا ، جے سر دا سائیں مرے
ہٹی سڑے کراڑ دی ، جتھے دیوا نت بلے
کتی مرے فقیر دی ، جیہڑی چوں چوں نت کرے
پنج ست مرن گوانڈناں ، تے رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں ، وچ مرزا یار پھرے،،،،

ترجمہ
مرزا کی محبوبہ اس کے راستے کی تمام رکاوٹیں ہٹانا چاہتی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کا ہونے والا شوہر ہے جو گاؤں کے باہر بارات لیے آئے بیٹھا ہے اور اگر وہ مر جائے تو شکرانے کے طور پر بکرا ذبح کرے گی۔ اس کے بعد بنیے کی دکان ہے جو رات گئے تک کھلی رہتی ہے اور وہاں دیوا یعنی چراغ بھی جلتا رہتا ہے۔ پھر کٹیا والے فقیر کی کتیا مر جائے جو ہر وقت بھونکتی یعنی پہرہ دیتی رہتی ہے۔ فسادی پڑوسنوں میں سے کچھ اللہ کو پیاری ہو جائیں اور جو باقی بچیں انہیں اتنا تیز بخار ہو کہ بس چارپائی سے ہی لگ جائیں کیونکہ وہ ہر آنے جانے والے پر نظر رکھتی ہیں اور کان لگائے تمام باتیں سننے کی کوششوں میں رہتی ہیں۔ اس طرح کوئی بھی باقی نہیں بچے گا، گلیاں سنسان اور ویران ہو جائیں گی اور مرزا یار اکیلا ان سونی گلیوں میں دندناتا پھرے اور مجھے یہاں سے با آسانی لے جائے گا ۔

رات کے آخری پہر مرزا ، صاحباں کو بکی پر لیے اس کے گاؤں سے نکلا ۔
کھیوہ گاؤں سے دانا آباد تک کا سفر 100 کلومیٹر سے زیادہ بنتا ہے کہتے ہیں اس دن بکی نے اپنے دونوں سواروں کے ساتھ 100 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر بہت تیزی رفتاری سے طے کیا ۔
اتنا لمبا سفر طے کرنے کے بعد مرزا صاحباں اور گھوڑی تینوں تھکن زدہ تھے اور مرزا یہ بھی چاہتا تھا کہ اسکے گھر سے بہن کی ڈولی اٹھ جائے تو وہ گھر جائے تاکہ اسکی بہن کی شادی کے دن اسکی وجہ سے کوئی معاملہ خراب نہ ہو اس لیے اس نے دانا آباد اپنے گاؤں سے باہر ہی رکنے کا فیصلہ کیا ۔

کیا تم اپنے تیر کے نشانے سے اوپر شاخ پر موجود پرندے کے منہ سے اسکا نوالہ گرا سکتے ہو ؟
،،،،صاحباں نے اپنی گود میں سر رکھے مرزے کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے شرارت سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی واقعہ اس کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا صاحباں کا شرارت میں مرزا سے اس کا نشانہ دیکھنے کی خواہش کرنا اور پھر مرزا کا پرندے کے منہہ سے اپنے تیر سے نوالہ گرادینا ۔۔۔۔۔۔۔۔!

صاحباں مرزا کا نشانہ اور اسکی مہارت کی کہانیاں تو سن ہی چکی تھی لیکن اس کا عملی مظاہرہ دیکھ کر حیران رہ گئی یہ سب دیکھ کر ہی اس کے ذہن میں خیال آیا ہوگا کہ اگر میرے بھائی اور گاؤں والے میرے پیچھے آگئے تو ہر صورت مرزے کے تیروں کا نشانہ بن جائیں گے اسی سوچ کے زیر اثر صاحباں نے اپنے بھائیوں کو بچانے کے لیے مرزا کے کچھ تیر توڑ دیے اور اسکی کمان اوپر درخت کی اونچی شاخوں پر پھینک دی ۔ صاحباں نے سوچا کہ اگر میرے بھائی میرے پیچھے آ بھی پہنچے جس کا اسے یقین تھا کہ وہ پیچھا کرتے آئیں گے تو میں انہیں منا لوں گی لیکن تاریخ میں کچھ اور درج ہونا تھا ۔

صاحبہ کا بھائی خان شمیر اپنے حواریوں کے ساتھ مرزا صاحباں کے سر پر آپہنچے دور سے گھوڑوں کی اڑتی دھول دیکھ صاحباں نے مرزا کو جگایا اس سے پہلے کہ سویا ہوا مرزا ٹھیک سے صورتحال سمجھ پاتا صاحباں کا بھائی خان شمیر ان دونوں کے سر پر پہنچ چکا تھا ۔
مرزا نے اپنے ٹوٹے ہوئے تیر اور کمر سے غائب کمان دیکھ صاحباں کی طرف دیکھا جو اپنے بھائیوں کے پاؤں میں گری منت و زار میں گڑگڑا رہی تھی ۔
مرزا کو وہیں نہتا قتل کردیا گیا اسے اپنے ہتھیار چلانے کا موقع ہی نہ ملا اس کے ہتھیار صاحباں توڑ چکی تھی مرتے وقت بھی اس کی زبان پر صاحباں سے گلہ نہیں بلکہ اسکا نام جاری تھا اسی منظر کو پنجابی کے شاعر پیلو نے اپنی نظم میں یوں بیان کیا ہے

مندا کیتوئی صاحبا، میرا ترکش ٹنگی او
جنڈ سر توں منڈاسا اڈ گیا، گل وچ پیندی چنڈ باجھ بھراواں جٹ ماریا، کوئی نہ مرزے دے سنگ جٹا ای او۔۔۔

ترجمہ : “(اے) صاحباں! یہ تو نے اچھا نہیں کیا کہ میرا ترکش درخت پہ لٹکا دیا (مرزا کے) سر سے پگڑی اتر گئی اور چہرے پہ دھول پڑ گئی جاٹ کو بغیر بھائیوں کے مارا اور مرزا بالکل اکیلا تھا

مرزا کو اپنے بھائیوں سے بچاتے ہوئے صاحباں بھی زخمی ہوئی اور وہیں دم توڑ گئی
مرزا صاحباں دونوں کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں مرزا کے والد سردار ونجھل خان کی قبر بھی انکے ساتھ ہے کچھ سال پہلے مرزا صاحباں کی قبر پر ان کے کسی قدردان نے مقبرہ بنا دیا تھا اب مقبرے کے ساتھ ہی اسکی چہیتی گھوڑی بکی کی قبر بھی ہے جو مرزے کی موت کے چند دن بعد ہی چل بسی تھی ۔ کہتے ہیں خان شمیر صاحباں کو قتل کرنے کے بعد اسکی لاش وہیں چھوڑ گئے تھے

جس برگد کے درخت کے نیچے دونوں کا قتل ہوا وہ بوڑھا برگد کا درخت آج بھی انکی محبت کے گواہ کے حوالے دیتا وہیں موجود ہے ۔

مرزا کے قتل کی خبر ملنے پر اس کے بھائیوں اور کھرل قبیلے کے سورماؤں نے کھیوا گاؤں پر حملہ کر دیا کہتے ہیں انکے اندر انتقام کی آگ اس شدت کی تھی کہ وہ دانا آباد سے کھیوہ گاؤں تک اہنے سردار مرزا کا انتقام لینے سانڈوں پر بیٹھ کر گئے تھے ۔
سانڈوں پر بیٹھ کر جانے کے پیچھے کھرل قبیلے کا وہ حلف تھا کہ کھیوہ گاؤں سے مر کر آئیں گے یا مار کر آئیں گے اور اگر گھوڑوں پر گئے تو شکست کی صورت میں وہاں سے بھاگنے کو مجبور نہ ہوجائیں ۔
تاریخ میں جابجا اس بات کے حوالے موجود ہیں کہ مرزا کے بھائیوں اور اسکے قبیلے والوں نے اس دن کھیوہ گاؤں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور چن چن کر لوگ قتل کیے ۔ گاؤں کی مسجد کے علاوہ ہر گھر کو آگ لگادی گئی یہ وہی مسجد ہے جہاں مرزا صاحباں کے عشق کے سفر کا آغاز ہوا تھا وہ مسجد آج بھی کھیوہ گاؤں میں موجود ہے اور ادھر دانا آباد میں رہتی دنیا تک کے لیے دونوں کی قبریں موجود ہیں ۔ ہر برس مارچ میں مرزا اور صاحباں کی قبر کے بالکل سامنے میلہ سجتا ہے ُحسن و عشق کے دلدادہ دور دور سے یہاں آتے ہیں اور ان سے منسوب شعر پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں ۔

جو بھی اس روئے زمین پر آیا ہر ایک زندگی میں ایک بار عشق کا جلتا ہوا چراغ ضرور دیکھتا ہے لیکن اس چراغ کی لو سے لاکھوں میں چند صاحِباں ایسے گال ہی ہوتے ہیں جو دہک اٹھتے ہیں، چند مرزے ایسی آنکھیں ہی ہوتی ہیں جو چمک اٹھتی ہیں ۔

ایک آوارہ گرد کی زندگی میں آوارگی کو وہی مقام حاصل ہوتا ہے جو مرزے کی زندگی میں صاحباں کو حاصل تھا ۔ لیکن یاد رہے وہ مرزا تھا ایک چہرے پر مرمٹا یہاں آوارہ گرد تھے جو لاہور دانا آباد کے راستے پر محو سفر تھے اور اب ایک راجپوت کی جدید ،،بکی،، GS 150 پر سوار واپس لاہور جارہے تھے ۔
یاد رہے آوارہ گرد چونکہ ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں تو انکے محبوب اور منظر اور چہرے اور وطن بدلتے رہتے ہیں وہ کبھی ایک منظر، چہرے، جگہ پر نہیں ٹہر سکتے ۔ وہ آوارگی میں مرزا ایسے عشق کا لطف تو پا سکتے ہیں لیکن انکی زندگی میں کوئی ایک چہرا ایک منظر ایک شہر کوئی صاحباں نہیں ٹہرتی ۔۔۔۔۔۔۔!

عشق بھی خدا کی مانند سب کے ساتھ الگ الگ معاملات طے کرتا ہے

تحریر ۔۔۔۔۔۔ رانا عثمان

Phander ValleyGhizer , Gilgit BaltistanPC:  Omer
21/07/2020

Phander Valley
Ghizer , Gilgit Baltistan

PC: Omer

KIRTHAR MOUNTAINS The Kirthar Mountains are a mountain range that mark the boundary between the Pakistani provinces of B...
20/07/2020

KIRTHAR MOUNTAINS
The Kirthar Mountains are a mountain range that mark the boundary between the Pakistani provinces of Balochistan and Sindh, and which comprise much of the Kirthar National Park.
The highest peak of the mountains is Zardak Peak at 7,430 ft

PC: Ghouri

پوٹوھار کے رنگ ۔۔۔۔۔تحریر کے سنگ ڈیپ شریف پونڈز ۔۔۔کھبیکی جھیل اور ملوٹ و ملکانہ مندر ۔۔۔ ایک ہینڈسم لڑکا گلے میں کیمرا ...
15/07/2020

پوٹوھار کے رنگ ۔۔۔۔۔تحریر کے سنگ

ڈیپ شریف پونڈز ۔۔۔کھبیکی جھیل اور ملوٹ و ملکانہ مندر ۔۔۔

ایک ہینڈسم لڑکا گلے میں کیمرا لٹکائے ویرانوں میں خاموش کھڑا ہے میرے موبائل کی اسکرین پر دوبارہ کال کرنے پر اسی ہینڈسم کی یہی واٹس اپ پروفائل پکچر دوبارہ ابھر آتی ہے ۔۔۔۔۔
دوسری دفعہ کی گئی کال اٹینڈ ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔
عثمان بھائی کیا حال ہے؟ معذرت میں کال اٹینڈ نہیں کرسکا آپکی ۔۔۔۔
سناؤ وت کی حال نیں ۔۔۔۔۔ ( سنائیں کیا حال ہے )

ُاسی چاہت بھرے لہجے میں حال احوال پوچھا گیا جو پوٹوھار کے علاقے کے باسیوں کا خاصا ہے

سرکار دو گلاں نیں ۔۔۔۔۔ پہلی گل اے کہ سارے لہور نوں کرونا نہیں اے تے دوجی گل اے کہ کرونا سانوں کج آکھے نہ آکھے اسی منظر توں دوری تے نظر دی پیاس توں مرجانا اے ۔۔۔۔۔!
( سرکار دو باتیں ہیں ۔۔۔۔ پہلی بات سارے لاہور کو کرونا نہیں ہے اور دوسری بات کرونا ہمیں کچھ کہے نہ کہے ہم نے منظر سے دوری اور نظر کی پیاس سے مرجانا ہے ۔۔۔۔! )

یار عثمان بھائی جم جم آو میرے ول پنڈ وچ پھراں ٹراں گے فوٹوگرافی کراں گے تے لسی پیواں گے اور اگلے ہی دن ہم صبح سویرے موٹر وے پر تھے لاہور سے کلر کہار کو جاتی ایم ٹو موٹر وے کلر کہار انٹر چینج پر جہاں تحریر عباس ہمارا منتظر تھا اور آگے کے دو دن ہمیں اسی کی رہنمائی میں رنگ ، منظر دیکھنے اور پوٹوہار کے ویرانے ناپنے تھے ۔
( عثمان بھائی ہزار بار میری طرف آؤ گاؤں میں گھومیں پھریں گے لسی پیئں گے )

میرے وہ ہمسفر جن کی ہمراہی مجھے نصیب ہوئی انکا کچھ تعارف کروادوں ان سب کو اندر سے ٹٹولیں تو انکے اندر ے بے شمار رنگ ویرانے ، بہاریں، ادب اور موسیقی برآمد ہوتی ہے ۔

مے رہے مستی رہے گردش میں پیمانہ رہے
مجمع رنداں رہے اور پیر مے خانہ رہے

تحریر عباس۔۔۔۔ ایک زبردست فوٹوگرافر ہیں جن کو حشرات الارض کی بالخصوص تتلیوں کی فوٹوگرافی پر خاص مہارت تجربہ حاصل ہے اور یہ ان پر سیر حاصل علم رکھتے ہیں

ایڈوکیٹ حارث ۔۔۔۔۔ میرا وکیلوں تھانہ کہچریوں سے اکثر واسطہ رہتا ہے لیکن یہ وہ پہلا وکیل ہے جس سے دل کا واسطہ بنا ہے
رنگوں نظاروں کے ساتھ ساتھ آج کل اپنے لیے شریک حیات کی تلاش میں بھی ہے

ُخرم ریاض ۔۔۔۔ ایک ایسی شخصیت جس نے جہاں مجھے دوستی کے معنی بتائے ہیں وہیں گنجا ہونے کے بے شمار فوائد بھی بتائے ہیں اگر میں کبھی سر کے بالوں سے محروم ہوا تو اسکے پیچھے یقینا ہاتھ خرم ریاض کا ہوگا
ان میں سے ایک دو فوائد تو ناقابل اشاعت ہیں ۔

دل پذیر جن کا نام انکی دادی نے رکھا تھا یقینا وہ ایک ولی خاتون تھیں ۔ پالنے میں ہی پوت بارے جان گئیں تھیں یہ ہر ُاس دل میں پذیرائی پائے گا جس سے ایک بار مل لے گا ۔

کالے چشمے لگائے چمکتے سر کے ساتھ ُپرسکون انداز میں خرم ریاض گاڑی کو کلر کہار سے وادی سون کی طرف اڑائے لیے جارہا تھا ہماری پہلی منزل ڈیپ شریف کے چشمے اور اسکے اطراف میں ٹریکنگ تھی

مقامی لوگوں سے پوچھنے پر گاڑی ڈیپ شریف چشمے کو جاتی روڈ پر پارک کی گئی وہاں سے آگے گاڑی کے لیے راستہ بند تھا ۔ پیدل راستہ تھا ۔ چھوٹے سے گاؤں میں سب سے بڑی عمارت وہاں موجود خانقاہ تھی جو اتھارویں صدی کے وسط میں وہاں عروج پر رہی جسے ایک صوفی منش درویش خواجہ محمد عثمان دامانی نے ذہنی سکون اور روحانی معاملات کے حصول کے لیے ڈیپ شریف جیسے خوبصورت مقام کے قریب اس خانقاہ کو آباد کیا ۔

جیسے ہی ہم نے جنگلی زیتون کے درختوں اور جنگلی جھاڑیوں سے بھرپور راستے سے گزرتے ہوئے خانقاہ کو پیچھے چھوڑا اوپر ڈیپ شریف سے آتے چشمے کا سفید دودھیا رنگ پانی ہماری رہنمائی کے لیے ہمارے ہمراہ ہوگیا ۔
پندرہ سے بیس منٹ کی واک کے بعد ہمارے سامنے قدرت کی کاریگری کا خوبصورت شاہکار ڈیپ شریف چشمے کی صورت ہمارے سامنے تھا قدرت نے کس مہارت سے اس چشمے کو سینچا تھا ایک مکمل گولائی تھی
یہ ایک بڑا پانی کا تالاب تھا جس کو تین اطراف سے سفید پتھروں کے چھوٹے ٹیلوں نے اپنی آغوش میں لے رکھا تھا اور عین سامنے کی پہاڑی دیوار میں پانی یوں پھوٹ رہا تھا جیسے اسکو ڈیپ شریف کے تالابوں کی پیاس بجھانے کا کہیں سے ُحکم ہو ۔
جس کسی انسان نے بھی اس چشمے کے ایک طرف دائیں ہاتھ پر کھجور کا بیج کبھی بویا تھا وہ شائد جانتا نہ تھا کہ کئی سال گزر جانے بعد یہ اکلوتا کھجور کا درخت بڑا ہوکر اس لینڈ اسکیپ کو مکمل کردے گا

تصاویر بنائی گئیں کچھ ادھر ادھر کی گپ شپ ہوئی اور سب ادھورے آوارہ گردوں نے کچھ دیر اس چشمے کے مکمل پن سے اپنا ادھورہ پن مکمل کرنے کی اپنی اپنی سی سعی کی اور پھر مزید بلندی پکڑتے چشمے سے اوپر کی اور چلنا شروع کیا
جیسے ہی چڑھائی کا اختتام ہوا ایک اور چشمہ تھا جو نیچے والے بڑے تالاب سے منسلک تھا
وہاں سے جیسے ہی مزید اوپر پہنچے تو اوپر ایک وسیع چراہ گاہ تھی یہ ایک نسبتا کھلی ہوئی وادی نما جگہ تھی ہمارے اردگرد چونے کے سفید اور سرسبز پہاڑ تھے
حیرت انگیز طور اس وسیع چراہ گاہ کے تقریبا عین درمیان میں ایک تنہاء درخت تھا
وہاں اوپر کچھ مویشی چر رہے تھے
گائے تھیں اور کافی ساری بکریاں بھی تھیں
تحریر کے لیے یہ جگہ کسی جنت سے کم نہ تھی وہ ہم سب سے الگ تھلگ تتلیوں اور اس جگہ موجود باقی حشرات کو شوٹ کررہا تھا تب ہی اچانک ایک گائے کے بچے کو میں نے حیرت انگیز طور سے اپنی طرف متوجہ پایا اور پھر وہ آہستہ آہستہ چلتے میرے قریب آکھڑا ہوا میں نے پیار سے اسکی گردن کو سہلایا تو وہ لمبی ساری زبان نکال کر میرے ہاتھ کو چاٹنا شروع ہوگیا
یہ سارا منظر جو کہیں دل پذیر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ آواز لگائی ۔۔۔۔۔ جے ساڈی قسمت وچ ٹور تے رانے مانے ای نیں ۔۔۔۔۔
تے فیر تیری قسمت وچ مجاں تے گاواں ای نیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو تو ہر ٹور کے بعد آکر لوگوں کو پریوں کی جھوٹی داستانیں سناتا وہ پریاں یہی مجیں، گاواں ہوتی ہیں اور ہاں ُسن میں نے تیری اس گائے کے بچے کے ساتھ ہوئی راز و نیاز کی گفتگو کی ویڈیو بنالی ہے
تیرا بھانڈہ تو اس بار میں جاکر پھوڑوں گا تو نے جو انی مچائی ہوئی ہے

دلپذیر صاحب کسی تجربے کو بیان تو کیا جاسکتا ہے لیکن اسکو محسوس کرنے کو اس میں سے گزرنا ضروری ہے آئیے ذرا اس کے آگے ہاتھ کیجیے یہ جس اپنائیت سے اپنا سر آپکی ٹانگوں کے ساتھ آپکے ہاتھوں کے ساتھ رگڑے گی آپکو بھی اس سے محبت ہوجائے گی اسکی بڑی بڑی کالی سیاہ آنکھوں میں دیکھیے ذرا اگر یہ آپکی طرف دیکھنا شروع کردے تو بس پانچ سیکنڈ کو ہی اسکی آنکھوں میں لگاتار دیکھیے گا آپ یقینا ایسے احساس سے گزریں گے جس سے پہلے کبھی نہ گزریں ہوں گے ۔ میں بھی ابھی ابھی اس تجربے سے گزرا ہوں

عثمان بھائی چلیں آگے چلتے ہیں دستیاب معلومات کے مطابق آگے گھنٹے کے بعد ایک اور چھوٹی سی بے نام جھیل ہے ہمیں اسکی لوکیشن معلوم نہیں ہے ۔ ڈھونڈنا ہوگا تحریر نے سب کو چلنے کو بولا

ہم جوں جوں آگے بڑھ رہے تھے ویرانی کی شدت میں اضافہ ہورہا تھا ایک آوارہ گرد اور عام انسان میں یہی فرق ہوتا ہے عام انسان ویرانے سے بھاگتا ہے جب کہ ایک آوارہ گرد فطرت کے قریب تر ہونے کو ویرانوں میں جانکلتا ہے
جنگلی گھاس اب ہمارے گھٹنوں تک بلند ہورہی تھی
ویرانے کی جڑی بوٹیوں درختوں جھاڑیوں کی مخصوص خوشبو بھی آوارہ سی ہوتی ہے جکڑ لیتی ہے ۔

اسی جنگلی گھاس میں سے گزرتے ہوئے ہمارے سامنے ایک اور تنہا درخت آگیا جو عین ہمارے راستے پر تھا اور اس درخت کی بلندیوں پر چار کالے رنگ کے دلکش پرندے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کی طرف منہہ کیے بیٹھے تھے انکے درمیان کیا گفتگو چل رہی تھی؟ ۔۔۔۔۔۔۔ یقینا وہ گفتگو حسد پر مبنی نہ تھی اس گفتگو پر مجھے کسی نفرت کا شائبہ نہ ہوا نہ ہی وہ کسی کی پیٹھ پیچھے برائیاں کر رہے تھے کہ وہ جو بلند آواز میں چہچہا رہے تھے وہ خوش گلو تھے فطرت کے ُُسر چھیڑ رہے تھے ۔۔۔۔وہاں فطرت ان کے دم سے آباد تھی ۔۔ خوش تھی

وہ چہرے اور انکے ُسر ایسے تھے کہ انکو گھنٹوں کئی دنوں وہاں بیٹھ کر ُسنا ، دیکھا جاسکتا تھا لیکن ایک آوارہ گرد کیا کرتا اسکا ٹھکانہ ہی سفر ہوتا ہے سو ہم بھی وہاں دو چار کلک کرکے مزید آگے بڑھ گئے

پندرہ سے بیس منٹ کی ہائیک کے بعد ہی ہمیں سامنے راستہ بند ہوتا نظر آیا
تھوڑا مزید آگے ہوئے تو میں نے تحریر سے کہا استاد یہاں سے سامنے والے پہاڑ کے اوپر کی طرف دائیں بائیں دو پگڈنڈی نما راستے اوپر کی طرف جارہے ہیں
آپ بائیں طرف جائیں اور میں دائیں طرف جاتا ہوں اوپر جاکر دیکھتے ہیں ہمیں بہتر منظر کس طرف سے ملتا ہے
ابھی میں آدھا پہاڑ ہی چڑھا تھا کہ دائیں طرف سے آواز آئی ۔۔۔۔۔۔۔
عثمان بھائی جھیل ڈسکور ہوئی ہے ادھر ایک گمنام چھپی ہوئی جھیل ہے آجائیں ادھر۔۔۔۔

میں جوں جوں نیچے اترتا جاتا مجھے کسی جھرنے کی آواز قریب آتی گئی یہ نشانی تھی کہ قریب ہی کوئی جھرنا ہے جس کا پانی اس جھیل کو جنم دیتا ہے جو تحریر دیکھ چکا تھا
اس ویرانے میں ایک نوک دار چھوٹے ٹیلے نما پہاڑ کی آغوش میں فطرت نے مصوری کی ہوئی تھی ہرے رنگ کے پانیوں کی ایک گول جھیل جس کے اطراف میں جھاڑی نما چھوٹے درخت تھے جن پر گلابی رنگ کے ہھول تھے

عثمان بھائی پیسے پورے ہوں گئے ہیں میں تو یہیں بیٹھا ہوں بس حارث بولا۔۔۔۔۔

یار آپ نے میری سر کی کنپٹیوں کو دیکھا ہے اب نارمل ہوگئی ہیں کچھ ماہ سے میری کنپٹیان مسلسل درد کر رہی تھیں جب سے یہ ٹریک شروع کیا ہے اب بہت بہتر محسوس کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایسے ہی کسی منظر میں ُگم ہونا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ کچھ دن پہلے خرم جو اپنے کچھ مسائل کا زکر کر رہا تھا اور کہتا تھا یار یہ سب سوچ سوچ کر سر درد ہوگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لے وئی رانے کرلے فوٹوگرافی ایتھے تیرے مطلب دی جگہ ایہو ای اے ۔۔۔۔۔ تیری تصویراں نے تے انی پادینی ہے باقی تحریر وچ کوئی پری آپ ای پالیویں ۔۔۔۔۔۔۔
دلپذیر کا یہ compliment میرے لیے تھا یا اس نے یہ اس جگہ کے سحر سے متاثر ہوکر کہا تھا جو بھی تھا ۔۔۔۔ لاجواب تھا بے حد شاندار تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے دلپذیر کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے دل پر ہاتھ رکھا اور اس جھیل کی فوٹوگرافی کرنے کو مناسب اینگل تلاش میں باقی ٹیم سے علیحدہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جھیل کا طواف کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔

تحریر DSLR آنکھ سے لگائے جھیل سے کافی دوری پر ایک بلندی پر بیٹھا کسی ماہر شکاری کی مانند اسے شوٹ کرنے کو ساکت بیٹھا تھا

مجھے وہاں اس جھیل کنارے بیٹھے کچھ وقت ہی گزرا ہوگا دو منٹ پانچ منٹ یا حد دس منٹ ۔۔۔۔ وہاں مکمل ہو کا عالم تھا ایک سکوت کا شہر آباد تھا وہاں بس فطرت نغمہ سرا تھی اور اسکے نغموں کے ُسروں میں کیسے ُسر تھے؟
کیا آپ جاننا چاہتے ہیں؟
اگر میں اس ماحول کا نقشہ بیان کروں اور وہاں جو فطرت نغمہ سرا تھا اس نغمے کے مختلف ُسروں کی آوازیں آپ تک پہنچاؤں تو آپ میں سے کچھ لوگ کہیں جھوٹ بولتا ہے
فکشن زدہ ہے ۔۔۔۔

کیا آپ جانتے ہیں فکشن کیا ہے؟

ادب کی کتابیں پڑھیں گے تو اس میں فکشن کے معنی جھوٹ لکھا ملیں گے یا خواب و خیال، تصوراتی جیسے لفظوں کو فکشن سے تشبیہہ دی جارہی ہوگی

لیکن فکشن کی اعلی اور انسانی سوچ سے پرے کی ایک تعریف انسانی دل کرتا ہے ایک آوارہ گرد کی نظر کرتی ہے کہ جو کچھ وہ دیکھ رہی ہوتی ہے عام انسانی نظر اس سے blind ہوتی ہے

فکشن پر مبنی اپنا ایک تجربہ آپکے ساتھ شیئر کرتا ہوں آئیے میرے ساتھ ۔۔۔۔۔۔

،،،،میں پوٹوہار کے ایک ُبلند ویرانے میں ایک گمنام دلکش جھیل کنارے بیٹھا ہوں
اس جھیل کے رنگ بادلوں میں چھپتے ابھرتے سورج کی روشنی کے طفیل کبھی سفید کبھی گہرے سبز اور کبھی سیاہ ہورہے ہیں میں اس سب سے شدید محظوظ ہورہا ہوں کہ اچانک ایک تین انچ کا ننھا سا ڈریگن فلائر میرے سامنے پانی میں موجود ایک ڈنڈی ہر آبیٹھا اس کے ُسرخ شوخ بدنی رنگ ایسے تھے جو ُکل ُدنیا میں اور کسی کو نصیب نہ ہوئے تھے اور اسکے پروں کی نازکی کا کیا بیان جائے جس کے آر پار دیکھا جاسکتا تھا اور ان پروں پر کالی لائنوں کے ساتھ ایسے چوکور زاویے در زاویے تھے کہ جو وہ کالی لائنز نہ ہوتیں تو اسکے سفید نازک پر نظر ہی نہ آتے ۔
وہ ننھا ڈریگن فلائر بار بار میرے سامنے پانی میں لگی ڈنڈی پر بیٹھتا اور پھر چھوٹی سی اڑان بھرتا اور پاس ہی موجود ایک پھول پر جابیٹھتا ۔۔۔۔۔ یہ سب اتنا شاندار اور خوبصورت تھا کہ میں جھیل اور لینڈ اسکیپ کی فوٹوگرافی چھوڑ کر اس ننھے فلائر کو دیکھتا اور اسے کلک کرتا رہا ۔
جھیل اور اسکے اطراف میں پھیلی خوبصورتی حقیقت تھی اور ننھے ڈریگن فلائر کے سرخ شوخ رنگ میں اور اسکی اڑان میں محو ہوجانا فکشن ہے ۔
مرزا صاحباں ، سسی ُپنل ہیر رانجھا حقیقت تھے اور ان پر جو لکھا گیا ہے وہ لکھا ہوا جو امر ہوا ۔ سب فکشن تھا یونہی صوفی اور صوفی ازم حقیقت ہے اور صوفیوں سے ُجڑے تجربات، واقعات فکشن ہیں ۔

کچھ دیر وہاں گزارنے کے بعد ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا اسی روٹ سے واپس آتے ہوئے ہم اپنی گاڑی تک پہنچے اور گاڑی کا ُرخ کھبیکی جھیل کی طرف تھا
کھبیکی جھیل اپنے sun set اور ہجرتی پرندوں کی وجہ سے مشہور ہے پاکستانی فوٹوگرافروں کی جتنی flamngoes کی شاندار تصاویر ہمیں دیکھنے کو ملتی ہیں وہ ساری تصاویر تقریبا اسی جھیل کنارے شوٹ ہوئی ہیں ہم نے بھی اپنے مقدر کے انتظار میں اس جھیل کنارے خاموش بیٹھے رہے کہ شائد ہمارے نصیب میں بھی کوئی کلک ہو خیر دہکتا آسمان ڈوبتے سورج کے مزید گہرے رنگ بکھیرتا جارہا تھا ۔

رات تحریر کے گھر اس کے گاوں میں گزری تحریر کی مہمان نوازی اور سارے دن کی تھکن نے ، نیند نے ہمیں یوں اپنی آغوش میں لیا جیسے مائیں بچوں کو آغوش میں لیتی ہیں

صبح اٹھے تو ہماری منزل شیو گنگا ملکانہ کا تاریخی مندر تھا کلر کہار سے آپ اپنی گاڑی پر لگ بھگ ایک گھنٹے کے کم وقت میں ایک دلکش راستے سے ہوتے ہوئے اس قدیمی اور شاندار مندر کو دیکھنے کو پہنچ سکتے ہیں اس مندر تک کے راستے میں آپکو پانی کے حصول کے بنائے گئے پرانے دور کے بہت سے کنوئیں آج بھی مقامی آبادی کو پانی کی سپلائی جاری رکھے ہوئے دیکھنے کو ملیں گے
ملکانہ مندر آدھے سے زیادہ ڈھے چکا ہے اور اس پر carving کی ایک واضح شکل ہنومان کی صورت دیکھنے کو ملتی ہے مندر کو تین اطراف سے بہت بڑے بڑے برگد کے درختوں نے گھیر رکھا ہے جو ماحول میں ُپرسرایت پیدا کرتے ہیں
اسی مندر کی خاص بات اس مندر سے لگ کر بہتے شاندار چشمے ہیں
ملکانہ مندر کو دیکھنے کے بعد ہمارا ُرخ ایک اور مشہور اور خوبصورت پانڈؤں کے تعمیر کردہ ملوٹ کے مندروں کی طرف تھا ملکانہ کی طرح ملوٹ مندروں کا راستہ بھی بے حد خوبصورت ہے اور یہ آبادی سے ہٹ کر پہاڑ کی بلندی پر بنایا گیا ہے
ملوٹ کے بڑے مندر کے شمال کی طرف اسکا دروازہ ہے مغرب اور جنوب کی طرف اس ہر ہوئی carving کے نشانات تقریبا ختم ہونے کو ہیں لیکن مشرق کی جانب کی سائیڈ پر موجود carving مختلف شکلوں اور نقش و نگار کی صورت اس دور کے کاریگروں کی مہارت کا ثبوت آج بھی دیتے ہیں ۔

کس کو سنائیں حالِ دل زار اے ادا
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی

کیا آپ جانتے ہیں اس شعر میں زمانہ کسے کہا گیا ہے؟

ہم سب ملوٹ کی بلندیوں سے اتر کر ایک چائے کے کھوکھے پر بیٹھے چائے سگریٹ پی رہے تھے

عثمان بھائی ابھی موسم آنے والا ہے روس سے فلیمنگوز اوچھالی آنے والے ہیں ۔۔۔۔
کیا آپ نے فلیمنگوز کا رقص دیکھا ہے انکو اوچھالی جھیل کے پانیوں سے اڑان بھرتے دیکھا ہے؟

نہیں تحریر میں نے کچھ نہیں دیکھا یارا
ہم جلد کھبیکی کے کنارے خیمہ زن ہوں گے ۔

اگر میں اوچھالی جھیل پر خیمہ زن ہوا اور وہاں فلیمنگوز سے اچھی ملاقات رہی تو میں ان سے پوچھوں گا اس شعر میں ،،زمانہ،، کسے کہا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔!
آپ میں سے کوئی جانتا ہے؟

،،،کس کو سنائیں حالِ دل زار اے ادا
آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی ،،،،

تحریر و تصاویر رانا عثمان

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ace Tours posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Travel Agency?

Share