Dasuha Faisalabad

  • Home
  • Dasuha Faisalabad

Dasuha Faisalabad info Dasuha Faisalabad

23/01/2022

دسویا ہوشیارپور انڈیا کی سیر

تاریخ  فیصل آبادقدیم ترین تہذیب تمدن ٹیکسلا اور گندہارا میں لکھی گئی رگ وید جو پانچ دریاؤں کی سر زمین پنجاب کا ذکر کرتی ...
06/01/2022

تاریخ فیصل آباد
قدیم ترین تہذیب تمدن ٹیکسلا اور گندہارا میں لکھی گئی رگ وید جو پانچ دریاؤں کی سر زمین پنجاب کا ذکر کرتی ہے جس نے پوری دنیا کے فاتحین کو اپنی طرف کھینچا عظیم سارس سے لیکر سکندرا عظم تک ترتیب وار دیگر حملہ آوروں کے بعد مغلوں نے اپنی سلطنت کا قیام کیا پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے راولپنڈی اور سرحدی علاقوں کے بعد محبت کی دیوی ہیر کے دریا چناب جس پر پنجاب میں اپنی داغ بیل ڈالی برصغیر کے تاریخی نسلوں بھٹی راجپوت اور سیال اور سکھوں کے تاریخی پس منظر کے باعث اٹھارہ سو ساٹھ عیسوی چناب کے ڈیلٹا سے بنے سرسبزوشاداب پنجاب کےشیشم کے گھنے جنگلات کو بڑی بے دردی سے صفایا کرکے انگلستان کے حاکم وقت نے لائلپور کی بنیاد بدست کیپٹن پوپہم ینگ نے اپنی نگرانی میں شہر کا نقشہ برطانیہ کے جھنڈے یونین فلیگ کی طرز پر رکھوایا۔ اب دیکھنے مین یہ شہر ایک مکعب کی صورت میں ڈیزائن ہو گیا اس کے آٹھ بازاروں کا اپنا انفادی طرز ہے۔ بازاروں کے عین وسط میں گھنٹہ گھر یہاں کی پہچان کلاک ٹاور ہے۔ اس ڈیزائن میں لائلپور کا رقبہ ایک سوئے دس ایکڑ تھا لیکن آبادی کے اضافے کے ساتھ آٹھ بازاروں کے باہر بھی رہائشی علاقوں کے لیے جگہ کا تعین کیا گیا۔پورے پنجاب سے یہاں نی آبادکاری شروع ہوئی دو اہم رہائشی علاقے ڈگلس پورہ اور گرو نانک پورہ۔ لائلپور جن مین سکھوں اور ہندوؤں کی اکثریت تھی اور آبادی کا تناسب تقریباً 15 فیصد مسلمان اور 85 فیصد ہندو اور سکھ قیام پاکستان تک باہمی طور پر رہائش پزیر تھے۔1892ء میں اسے جھنگ اور گوگیرہ برانچ نامی نہروں سے سیراب کیا جاتا تھا۔ 1895ء میں یہاں پہلا رہائشی علاقہ تعمیر ہوا، جس کا بنیادی مقصد یہاں ایک منڈی قائم کرنا تھا۔ ان دنوں شاہدرہ سے شورکوٹ اور سانگلہ ہل سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مابین واقع اس علاقے کو ساندل بار کہا جاتا تھا۔ یہ علاقہ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان میں واقع دوآبہ رچنا کا اہم حصہ ہے۔ لائلپور شہر کے قیام سے پہلے یہاں پکا ماڑی نامی قدیم رہائشی علاقہ موجود تھا، جسے آج کل پکی ماڑی کہا جاتا ہے اور وہ موجودہ طارق آباد کے نواح میں واقع ہے۔ یہ علاقہ لوئر چناب کالونی کا مرکز قرار پایا اور بعد ازاں اسے بلدیہ کا درجہ دے دیا گیا۔موجودہ ضلع فیصل آباد انیسویں صدی کے اوائل میں گوجرانوالہ، جھنگ اور ساہیوال کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ جھنگ سے لاہور جانے والے کارواں یہاں پڑاؤ کرتے۔ اس زمانے کے انگریز سیاح اسے ایک شہر بنانا چاہتے تھے۔ اوائل دور میں اسے چناب کینال کالونی کہا جاتا تھا، جسے بعد میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل سر جیمز بی لائل کے نام پر لائلپور کہا جانے لگا۔
خط زمانی
1896ء میں گوجرانوالہ، جھنگ اور ساہیوال سے کچھ علاقہ الگ کر کے اس پر مشتمل لائلپور تحصیل قائم ہوئی جسے انتظام و انصرام کے لیے ضلع جھنگ میں شامل کر دیا گیا۔
1902ء میں اس کی آبادی 4 ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔
1903ء میں گھنٹہ گھر کی تعمیر کا آغاز ہوا اور وہ 1905ء میں مکمل ہوا۔
1904ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا، اس سے قبل یہ ضلع جھنگ کی ایک تحصیل تھا۔
1906ء میں لائلپور کے ضلعی ہیڈکوارٹر نے باقاعدہ کام شروع کیا۔ یہی وہ دور تھا جب اس کی آبادی سرکلر روڈ سے باہر نکلنے لگی۔
1908ء میں یہاں پنجاب زرعی کالج اور خالصہ اسکول کا آغاز ہوا، جو بعد ازاں بالترتیب جامعہ زرعیہ فیصل آباد جو زرعی یونیورسٹی کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اور خالصہ کالج کی صورت میں ترقی کر گئے۔ خالصہ کالج آج بھی جڑانوالہ روڈ پر میونسپل ڈگری کالج کے نام سے موجود ہے۔
1909ء میں ٹاؤن کمیٹی کو میونسپل کمیٹی کا درجہ دے دیا گیا اور ڈپٹی کمشنر کو پہلا چیئرمین قرار دیا گیا۔
1910ء میں پنجاب کے نہری نظام کی قدیم ترین اور مشہورنہر لوئر چناب تعمیر ہوئی۔
1920ء میں سرکلر روڈ سے باہر پہلا باقاعدہ رہائشی علاقہ ڈگلس پورہ قائم ہوا۔
1930ء میں یہاں صنعتی ترقی کا آغاز ہوا۔
1934ء میں مشہورِ زمانہ لائلپور کاٹن ملز قائم ہوئی۔
1942ء قائد اعظم محمد علی جناح فیصل آباد تشریف لائے اور انہوں نے دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں عظیم الشان اجتماع سے خطاب کیا۔
3 مارچ 1947ء کو قیام پاکستان کا اصولی فیصلہ اور لائلپور کی پاکستان میں شمولیت بارے خبر ملنے پر لائلپور کے مسلمانوں نے شکرانے کے نوافل ادا کیے اور مٹھایاں بانٹیں۔
1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا، جس کے باعث شہر کا رقبہ بھی وسعت اختیار کر گیا۔ قیامِ پاکستان کے وقت شہر کا رقبہ صرف 3 مربع میل تھا، جو اب 10 مربع میل سے زیادہ ہو چکا ہے۔ بہت سے نئے رہائشی علاقے بھی قائم ہوئے، جن میں پیپلزکالونی اور غلام محمدآباد جیسے بڑے علاقے بھی شامل ہیں۔
1977ء میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر لائلپور کو میونسپلٹی سے ترقی دے کر میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا۔
1982ء میں اسے ضلع فیصل آباد، ضلع جھنگ اور ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ پر مشتمل ڈویژنل صدر مقام قرار دیا گیا۔ اسی موقع پر اس کا نام لائلپور سے تبدیل کرتے ہوئے سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل شہید کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا۔
2005ء میں یہاں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نظام لاگو کیا گیا۔
گھنٹہ گھر
فیصل آباد کی اہم خصوصیت شہر کا مرکز ہے، جو ایک ایسے مستطیل رقبے پر مشتمل ہے، جس کے اندر جمع اور ضرب کی اوپر تلے شکلوں نے اسے 8 حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس کے درمیان میں، جہاں آ کر آٹھوں سڑکیں آپس میں ملتی ہیں، مشہورِ زمانہ گھنٹہ گھر کھڑا ہے۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر ملنے والی آٹھوں سڑکیں شہر کے 8 اہم بازار ہیں، جن کی وجہ سے اسے آٹھ بازاروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ گھنٹہ گھر سے شروع ہو کر بیرونی طرف پھیلتے ہوئے بازار اس جگہ کو برطانوی پرچم کی شکل دیتے ہیں، جو سر جیمزلائل نے اپنے ملک کی یادگار کے طور پر یہاں چھوڑا ہے۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر کا فیصلہ ڈپٹی کمشنرجھنگ کیپٹن بیک (Capt Beke) نے کیا اور اس کا سنگ بنیاد 14 نومبر 1903ء کو سر جیمز لائل نے رکھا۔ جس جگہ کو گھنٹہ گھر کی تعمیر کے لیے منتخب کیا گیا وہاں لائلپور شہر کی تعمیر کے وقت سے ایک کنواں موجود تھا۔ اس کنوئیں کو سرگودھا روڈ پر واقع چک رام دیوالی سے لائی گئی مٹی سے اچھی طرح بھر دیا گیا۔ یونہی گھنٹہ گھر کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر 50 کلومیٹر کی دوری پر واقع سانگلہ ہل نامی پہاڑی سے لایا گیا۔
1906ء کے اوائل میں گھنٹہ گھر کی تعمیر کا کام گلاب خان کی زیرنگرانی مکمل ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ گلاب خان کا تعلق اسی خاندان سے تھا، جس نے بھارت میں آگرہ کے مقام پر تاج محل تعمیر کیا تھا۔ گھنٹہ گھر 40 ہزار روپے کی لاگت سے 2 سال کے عرصے میں تعمیر ہوا۔ اس کی تکمیل پر ایک تقریب کا انعقاد ہوا، جس کے مہمانِ خصوصی اس وقت کے مالیاتی کمشنر پنجاب مسٹر لوئیس تھے۔
گھنٹہ گھر میں نصب کرنے کے لیے گھڑی بمبئی سے لائی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ لائل پور کا گھنٹہ گھر ملکہ وکٹوریہ کی یاد میں تعمیر کیا گیا، جو 80 سال قبل فوت ہو چکی تھیں۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر سے پہلے شہر کے آٹھوں بازار مکمل ہو چکے تھے۔
برطانوی پرچم یونین جیک پر مبنی فیصل آباد شہر کا نقشہ اس دور کے ماہرتعمیرات ڈیسمونڈ ینگ (Desmond Yong) نے ڈیزائن کیا، جو درحقیقت سرگنگا رام کی تخلیق تھا، جو اس دور کے مشہور آبادیاتی منصوبہ ساز (town planner) تھے۔
آٹھ بازاروں پر مبنی شہر کا کل رقبہ 110 مربع ایکڑ تھا۔ گھنٹہ گھر کے مقام پر باہم جڑنے کے علاوہ یہ آٹھوں بازار گول بازار نامی دائرہ شکل کے حامل بازار کی مدد سے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یونین جیک کی بیرونی مستطیل آٹھوں بازاروں کے آخری سروں کو بھی سرکلر روڈ کی شکل میں آپس میں ملاتی ہے۔
گھنٹہ گھر کی تعمیر کے وقت اس کے گرد 4 فوارے بنائے گئے تھے، جو کچہری بازار، امیں پور بازار، جھنگ بازار اور کارخانہ بازار کی سمت موجود تھے اور انہیں آٹھوں بازاروں میں سے دیکھا جا سکتا تھا، مگر مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ ان میں سے
2 فوارے غائب ہو چکے ہیں۔ اب صرف کچہری بازار اور جھنگ بازار کی سمت والے فوارے قائم ہیں۔ویسے تو اپنی 1895 تعمیر کے وقت سے اب تک ایک سو پچیس سال سال گزرنے کے باوجود گھنٹہ گھر کی بیرونی حالت درست حالت میں ہے، تاہم اس کی اندرونی حالت شکست و ریخت کا شکار ہے۔ اگر اس کی مرمت پر بروقت توجہ نہ دی گئی تو اہل فیصل آباد زلزلے کے کسی چھوٹے جھٹکے سے ایک اہم تاریخی ورثے سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔گھنٹہ گھر کی اندرونی سیڑھیوں اور ستونوں کا پلستر ٹوٹنا شروع ہو چکا ہے۔ سیاح اس کی اڑی ہوئی رنگت اور ہر طرف اڑتی ہوئی دھول سے پریشان ہوتے ہیں۔
گمٹی + قیصری دروازہ
گمٹی
ریل بازار کی بیرونی سمت واقع قیصری دروازہ اور اس کے باہر چوک میں واقع بارہ دری جیسی مختصر عمارت گمٹی کہلاتی ہے، جس کے گرد ٹریفک کا گول چکر موجود ہے۔ یہاں سے ایک سڑک چناب کلب کو نکل جاتی ہے۔ قیصری دروازے کی تعمیر 1897ء کو مکمل ہوئی۔ سن تعمیر دروازے پر نمایاں طور لکھا ہے۔
آٹھ بازار
گھنٹہ گھر کے گرد قائم 8 بازاروں کے نام اس سمت واقع کسی اہم علاقے کی غمازی کرتے ہیں۔
ریل بازار - سمت بجانب مشرق - اس کی بیرونی سمت ریلوے روڈ واقع ہے، جو ریلوے اسٹیشن کو جا نکلتا ہے۔
کچہری بازار - سمت بجانب شمال مشرق - اس کی بیرونی طرف عدالتیں قائم ہیں۔
چنیوٹ بازار - سمت بجانب شمال - اس طرف ضلع چنیوٹ واقع ہے۔
امیں پور بازار - سمت بجانب شمال مغرب - یہاں سے ایک سڑک امیں پور بنگلہ کی طرف جاتی ہے۔
۔بھوانہ بازار - سمت بجانب مغرب - اس سمت میں بھوانہ واقع ہے۔
۔جھنگ بازار - سمت بجانب جنوب مغرب - اس بازار کا رخ جھنگ کی طرف ہے۔
منٹگمری بازار - سمت بجانب جنوب - اس بازار کا نام ساہیوال کے پرانے نام منٹگمری کی وجہ سے رکھا گیا، جو اسی سمت واقع ہے۔
کارخانہ بازار - سمت بجانب جنوب مشرق - اس جانب قدیم دور میں کارخانے قائم تھے، جن میں سے چند ایک اب بھی باقی ہیں۔
گول بازار - یہ بازار مذکورہ بالا آٹھوں بازاروں کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہوئے گزرتا ہے اور اس گول دائرہ نما بازار کے ذریعے وہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
آٹھ بازاروں کی کہاوت
قیام پاکستان کے موقع پر انگریزوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ لائلپور کے آٹھ بازاروں کی صورت میں اپنی شناخت، برطانوی پرچم (یونین جیک) ہمیشہ کے لیے اس خطے میں امر کر کے جا رہے ہیں، جبکہ رد عمل میں یہاں کے باسیوں کا کہنا تھا کہ وہ ہمیشہ برطانیہ کے پرچم کو صبح و شام اپنے قدموں تلے روندھتے رہیں گے۔

تاریخ دسوھہ1892 میں انگریزوں نےسندل بارکو سیراب کرنے کے لیے دریاے چناب پرخانکی ہیڈورکس (گوجرانوالہ) کے مقام سے نہر لوئر ...
06/01/2022

تاریخ دسوھہ

1892 میں انگریزوں نےسندل بارکو سیراب کرنے کے لیے دریاے چناب پرخانکی ہیڈورکس (گوجرانوالہ) کے مقام سے نہر لوئر چناب نکالی جس کی مزید شاخیں
(1) گوگیرہ برانچ (2)جھنگ برانچ (3)رکھ برانچ ( رکھ جانگلی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چراگاہ کے ہیں) رکھ برانچ نہر پرانا ہیڈساگر(حافظ آباد )کے مقام سے لوئر چناب نہر سے نکلتی ہے
انگریزوں نےاس علاقےکو آباد کرنے کےلیےہوشیارپور، گرداسپور، کپورتھلہ،جالندھر،سے چھوٹےزمینداروں و کسانوں اوراُن لوگوں کو جو کھیتی باڑی کا کام جانتے تھے۔ مختلف اسکیموں کے تحت ساندل بار میں زمینں الاٹ کی گیئں۔ شاہدرہ سے شورکوٹ اور سانگلہ ہل سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مابین واقع اس علاقے کو ساندل بار کہا جاتا تھا۔ ساندل بار کا علاقہ دریائے راوی اور دریائے چناب کے درمیان رچنا دوآب میں واقع تھا ۔ یہ خطہ تقریبا 80 کلومیٹر چوڑائی (مغرب سے مشرق) اور 40 کلومیٹر لمبائی (شمال سے جنوب) پر مشتمل تھا اس علاقے میں یہاں کے مقامی جانگلی قبائل کہیں کہیں آباد تھے بار" مقامی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گھنے جنگلات کے ہیں جہاں، نہری نظام دستیاب نہیں ہوتا۔ ساندل ایک ڈاکو تھا جو سانگلہ ہل میں رہتاتھا اس علاقے میں اس کا ڈاکو راج تھا موجودہ دور میں ساندل بار میں جھنگ، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پیر محل، ننکانہ صاحب، چنیوٹ، حافظ آباد اور شیخوپورہ کے کچھ اضلاع شامل ہیں جب ساندل بار کی آبادکاری شروع ہوئی تو اُس وقت دسویا (ہوشیارپور) انڈیا سےسات لوگوں کی ایک ٹولی جس میں چار مرد اور تین عورتیں تھیں آ کر یہاں آباد ہوئےجس کو آج ہم دسوھہ کے نام جانتے ہیں۔ انہوں اپنےآبائی علاقےکی نسبت سےاس جگہ کا نام بھی دسویا رکھا جو بعد میں دسویا Dasuya سے دسوھہ Dasuha بن گیا۔ (دسویا کے معنی دس دفعہ آباد ہونے والا) ۔ دسویا (جو اب ہوشیارپورکا میونسپل ٹاون ہے) سے دسوھہ(فیصل آباد) کا فیصلہ تقریبًا 300 کلومیٹر ہے۔ دسوھہ کو رکھ برانچ نہرکے دو راجبائے سیراب کرتے ہیں جن کو پنجابی میں سوہ کہتے ہیں دسوھہ رکھ برانچ نہر سے سیراب ہونے والا،242 گاؤں ہے اسی وجہ سے دسوھہ242/ ر۔ ب کہاجاتا ہے دسوھہ فیصل آباد کے جنوب مغرب میں سمندری روڈ پر واقع ہے اور اس کا فیصل آباد سے فاصلہ تقریبا 13 کلومیٹر ہےدسوھہ پنجاب کے قدیم ترین دیہات میں سے ایک ہےدسوھہ بوائز ہائی سکول فیصل آباد شہراور برصغیر کے دیہاتوں میں قائم ہونے پہلا ہائی سکول ہے جس کی بنیاد1909 میں مہرآبادان نے رکھی تھی۔ یکم مئی 1936ء کو خان صاحب مہر آبادان اس دنیا سے رخصت ہو گے جنہیں سکول کے صحن میں ہی دفن کیا گیا۔گورنر پنجاب جنرل ایڈوائر نے بھی مہر آبادان کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کیا جو سکول میں ایک تختی پر کنندہ کیے گئے ہیں۔"دسوھا ہائی سکول صوبے میں واقع چند اہم اداروں میں سے ایک ہے جس کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ ایک چھوٹے گاؤں میں واقع ہے۔ یہ آبادان کے خواب کی تعبیر ہے جن کا موازنہ سرسید احمد خان سے کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سرسید کو نوابوں، مہاراجوں اور وائسرائے کی مدد حاصل تھی لیکن آبادان نے اپنی زمین بیچ کر اس خواب کو پورا کیا۔"قیامِ پاکستان کے بعد ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں زمیندارہ سکول کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا اور اب ادارے کے انتظامات گورنمنٹ سکول کے طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ اب یہ گوریمنٹ زمیندرہ اسلامیہ ہائی سکول کے نام سے مشہورہے۔ ایک وقت تھا جب یہ سکول تعلیم و کھیل میں پورے برصغیرمیں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔
اس سکول سے فارغ التحصیل چند نمایاں طلبہ

(1) پاکستان کی طرف سے پہلا نشان حیدر پانے والے کیپٹن راجا محمد سرور شہیدنے1927ء میں زمیندرہ اسلامیہ ہائی سکول دسوھہ سے میٹرک پاس کیاتھا
(2) سابقہ ڈیپٹی کمشنر دہلی (بھارت) رامیش لال کندن
(3) بھارتی ہاکی ٹیم کے سابقہ کپتان لال شاہ بخاری مرحوم
(4)پاکستانی ہاکی ٹیم کے سابقہ کپتان عبد الحمید
(5)سابقہ صوبائی وزیر بلدیات پنجاب مہر محمد صدیق
(6)سابقہ صوبائی وزیرتعلیم پنجاب مہر محمد صادق
(7) سابقہ رکن اسمبلی چوہدری سلطان احمد
(8)سابقہ رکن اسمبلی چوہدری غلام نبی
(9)سابقہ رکن اسمبلی چوہدری بشیر احمد
(10)رکن اسمبلی میاں محمد فاروق شامل ہیں

مہرآبادان  ( بانی زمیندرہ اسلامیہ ہائی سکول دسوھہ )
06/01/2022

مہرآبادان ( بانی زمیندرہ اسلامیہ ہائی سکول دسوھہ )

زمیندرہ اسلامیہ ہائی سکول دسوھہ نے 1942 میں آل انڈیا سر سکندر فٹ بال ٹورنامنٹ میں کلکتہ کو شکست دیکر  یہ ٹرافی حاصل کی ت...
06/01/2022

زمیندرہ اسلامیہ ہائی سکول دسوھہ نے 1942 میں آل انڈیا سر سکندر فٹ بال ٹورنامنٹ میں کلکتہ کو شکست دیکر یہ ٹرافی حاصل کی تھی

1934-35 میں زمیندرہ اسلامیہ ہائی سکول دسوھہ سے میٹرک پاس کرنے والی کلاس کا گروپ فوٹو
06/01/2022

1934-35 میں زمیندرہ اسلامیہ ہائی سکول دسوھہ سے میٹرک پاس کرنے والی کلاس کا گروپ فوٹو

Commendation by Sir Odvior – then Governor of PunjabSir Odvior, then Governor of Punjab wrote to the Government of India...
06/01/2022

Commendation by Sir Odvior – then Governor of Punjab

Sir Odvior, then Governor of Punjab wrote to the Government of India – a mention in the comments given was as under:
“Dasuha High School is one of the best institutions in the province more because it is situated in a small village. It is the outcome of a dream of a villager colonist namely Mehar Abadan. It was considered to have been an attempt rather to bridge over the sea than doing a work within the reach of his Province. One could compare him with Sir Syed Ahmad Khan but it should not escape noted that Sir Syed had the support of the Rajas, Maharajas, Nawabs and the Viceroy himself, whereas poor Abadan could bank only on the sale of his small political grant of land – Sir Odvior, Governor of Punjab”.

گورنمنٹ زمیندرہ اسلامیہ ہائی اسکول دسوہہ فیصل آباددسوھہ بوائز ہائی اسکول فیصل آباد شہراور برصغیر کے دیہاتوں میں قائم ہون...
06/01/2022

گورنمنٹ زمیندرہ اسلامیہ ہائی اسکول دسوہہ فیصل آباد
دسوھہ بوائز ہائی اسکول فیصل آباد شہراور برصغیر کے دیہاتوں میں قائم ہونے پہلا ہائی اسکول ہے جس کی بنیاد1909 میں مہرآبادان نے رکھی تھی۔ یکم مئی 1936ء کو خان صاحب مہر آبادان اس دنیا سے رخصت ہو گے جنہیں اسکول کے صحن میں ہی دفن کیا گیا۔گورنر پنجاب جنرل ایڈوائر نے بھی مہر آبادان کی تعلیمی خدمات کا اعتراف کیا جو اسکول میں ایک تختی پر کنندہ کیے گئے ہیں۔"دسوہہ ہائی اسکول صوبے میں واقع چند اہم اداروں میں سے ایک ہے جس کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ ایک چھوٹے گاؤں میں واقع ہے۔ یہ آبادان کے خواب کی تعبیر ہے جن کا موازنہ سرسید احمد خان سے کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سرسید کو نوابوں، مہاراجوں اور وائسرائے کی مدد حاصل تھی لیکن آبادان نے اپنی زمین بیچ کر اس خواب کو پورا کیا۔"قیامِ پاکستان کے بعد ستر کی دہائی میں ذو الفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں زمیندارہ اسکول کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا اور اب ادارے کے انتظامات گورنمنٹ اسکول کے طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ اب یہ گورنمنٹ زمیندرہ اسلامیہ ہائی اسکول کے نام سے مشہو رہے۔ ایک وقت تھا جب یہ اسکول تعلیم و کھیل میں پورے برصغیرمیں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔

اس اسکول سے فارغ التحصیل چند نمایاں طلبہ

(1) پاکستان کی طرف سے پہلا نشان حیدر پانے والے کیپٹن راجہ محمد سرور شہید نے1927ء میں زمیندرہ اسلامیہ ہائی اسکول دسوھہ سے میٹرک پاس کیا

(2) پاک بحریہ کے 12 چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل محمد افضل طاہر نے میٹرک دسوھہ ہائئ اسکول سے پاس کیا

(3) سابقہ ڈیپٹی کمشنر دہلی (بھارت) رامیش لال کندن

(4) بھارتی ہاکی ٹیم کے سابقہ کپتان لال شاہ بخاری مرحوم

(5)پاکستانی ہاکی ٹیم کے سابقہ کپتان عبد الحمید

(6)سابقہ صوبائی وزیر بلدیات پنجاب مہر محمد صدیق

(7)سابقہ صوبائی وزیرتعلیم پنجاب مہر محمد صادق

8-سابقہ رکن اسمبلی چوہدری سلطان احمد

(9)سابقہ رکن اسمبلی چوہدری غلام نبی

(10)سابقہ رکن اسمبلی چوہدری بشیر احمد

(11)رکن اسمبلی میاں محمد فاروق شامل ہیں

تاریخ پنجابپنجاب کا لفظ ویدک سنسکرت کے ہم پلا لفظ پنجا ندا سے نکلا ہے۔ دو ہزار سال قبل مسیح گندھارا تہذیب وا تمدن کے دور...
06/01/2022

تاریخ پنجاب
پنجاب کا لفظ ویدک سنسکرت کے ہم پلا لفظ پنجا ندا سے نکلا ہے۔ دو ہزار سال قبل مسیح گندھارا تہذیب وا تمدن کے دور میں جب ٹیکسلا کی داغ بیل ڈالی جا رہی تھی ہمالہ سے نکلنے والے دریاؤں کے ڈیلٹا پر انتہائی گھنے جنگل اور سرسبز و شاداب گھاس کے میدان تھے اس وقت جب رگ بھی لکھی گئی تو سات دریاؤں کا تصور سامنے نہیں آیا تھا کسی کے باعث ہندوؤں کی مذہبی کتاب رگ وید میں لفظ پنجا ندہ یعنی پانچ دریاؤں کی زمین کا ذکر ملتا ہے بات کے عربی دور اور فارسی دور نے اسی لفظ کو ترقی دے کر پنج کے ساتھ آب کا فارسی اضافہ کیا جسے عرف عام میں پنجاب لکھا جانا لگا پنج یہاں کی مقامی بولی میں پانچ کو کہتے ہیں پر ہند آریائی زبان کا حصہ پنجابی زبان کا لفظ
پنجاب کا مطلب ہے پانچ دریاؤں والا علاقہ۔
پنجاب فارسى زبان كے دو لفظوں پنج بمعنی پانچ اور آب بمعنی پانی سے مل کر بنا ہے۔ یوں اس کا مطلب پانچ دریاؤں کی سرزمین لیا جاتا ہے۔ان پانچ درياؤں كے نام ہيں: ستلج، بیاس، راوی، چناب اور دریائے جہلم۔یونانی اسے تاریخی طور پھن ٹھاپی سیمیا (Pentapotamia) کہتے تھے، ایک پانچ مرتکز دریاؤں کا اندرون ڈیلٹا۔ نام پنجاب بھارت کے وسطی ایشیائی ترکیائی فاتحین کی طرف سے علاقے کو دیا گیا۔ اور اور ترک-منگول مغلوں میں مقبول رہا علاقائی بولی پنجابی کا لفظ پنج کا مطلب ہے پانچ اور آب کا مطلب دریا۔ پنجاب یعنی پانچ دریاوں کی سرزمین جو اسے سیراب کرنے والے پانچ دریاوں راوِی، ستلج، جہلم، چناب اور بیاس کی وجہ سے دیا گیا ہےان پانچوں دریاؤں کے نام رگ وید میں بھی درج ہے انڈس ویلی کی دس ہزار سال قبل مسیح کی تاریخ جس کی دریافت شہداء تاریخی مقامات ہڑپہ اور موہنجوداڑو ہیں چندر گپت موریا خاندان کا دور حکومت 550 قبل مسیح کا زمانہ جن کا دار الحکومت ٹیکسلا رہا ہے۔اس ٹیکسلا پر 324 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے حملہ کیا اور لڑتا ہوا جل بھگیا چاہا کے راجپوت بادشاہ راجا پورس سے تاریخی جنگ ہوئی جو دریائے جہلم کے کنارے پر تھے۔ 712 میں محمد بن قاسم پنجاب کے جنوبی حصہ ملتان تک آیا جو عربوں کی آمد کا دور تھا۔ تیموری خاندان کے مغل بادشاہوں کے دور حکومت کے بعد مہاراجا رنجیت سنگھ نے پنجاب پر قبضہ کر لیا اور پھر انگریزوں نے اٹھارہ سو انچاس میں اس پر قبضہ کرلیا۔ 1947 کی ہونے والی تقسیم ہند کے نتیجے میں پنجاب کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا گیا: مشرقی پنجاب بھارت کے حصے میں آیا اور مغربی پنجاب پاکستان کے حصے میں آیا۔ موجودہ دور میں اس میں بھارتی پنجاب، چنڈی گڑھ، دہلی، ہریانہ، ہماچل پردیش اور پاکستانی پنجاب، اسلام آباد اور خیبر پختونخوا (1901 تک)شامل تھے 1901 دریائے سندھ پار کے سرحدی علاقوں کو الگ کر کے ایک نیا صوبہ شمال مغربی سرحدی صوبہ تشکیل دیا گیا- جسے آج کل خیبر پختونخوا کہتے ہیں
نجاب کی تاریخ میں دکھ دور اور 17 سو سے 500 قبل مسیح کے زمانے میں بی اے علاقہ آباد تھا 21 فروری 1849 کو برطانوی افواج نے سکھوں کو گجرات کی لڑائی میں شکست دے دی- برطانیہ کی فتح نے پنجاب کو ایسٹ انڈیا کپمنی کی جھولی میں ڈال دیا- پنجاب 2 اپریل 1849 برطانوی راج کا حصہ بنا - اس خطے نے برطانیہ کو بہت سے فوجی مہیا کیے جنھوں نے بوطانوی سلطنت کو دنیا کے مختلف خطوں میں وسعت دی-

تاریخ آرائیاں آرائیں ایک ذات (Caste) ہے۔ اس ذات کے لوگ پاکستان میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔آرائیں ذات کے آباؤاجداد اریح...
06/01/2022

تاریخ آرائیاں
آرائیں ایک ذات (Caste) ہے۔ اس ذات کے لوگ پاکستان میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
آرائیں ذات کے آباؤاجداد اریحائی فلسطینی عرب تھے، جو 712ء ميں دریائے اردن کے کنارے آباد شہر اريحا سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ محمد بن قاسم کے ساتھ برصغير ميں داخل ہونے والی فوج کی تعداد 12,000 تھی، جس میں سے 6,000 اریحائی تھے۔ محمد بن قاسم تقریباً 4 سال تک سندھ میں رہے۔ اسی دوران میں گورنر عراق حجاج بن یوسف اور خلیفہ ولید بن عبد الملک کا یکے بعد دیگرے انتقال ہو گیا۔ خليفہ سلیمان بن عبدالملک نے تخت نشینی کے بعد حجاج بن یوسف کے خاندان پر سخت مظالم ڈھائے۔ اسی دوران میں اس نے محمد بن قاسم کو بھی حجاج بن یوسف کا بھتیجا اور داماد ہونے کے جرم میں گرفتار کرکے عرب واپس بلایا، جہاں وہ 7 ماہ قید میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔
خليفہ کی ان کارروائيوں کی وجہ سے اریحائی فوجیوں نے اپنے آبائی وطن واپس نہ جانے اور برصغیر ہی میں ہی قيام کا فيصلہ کرليا۔ خلیفہ کے عتاب سے بچنے کے لیے انہوں نے فوج کی ملازمت چھوڑ دی اور کھیتی باڑی کواپنا ذریعہ معاش بنا لیا۔ کچھ عشروں بعد وہ آہستہ آہستہ وسطی اور مشرقی پنجاب کی طرف چلے گئے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی اگلی نسلیں پورے برصغیر میں پھیل گئیں۔
محمد بن قاسم کے لشکر سے آرائیں لفظ کی تشریح راجا داہر کی قید میں ایک مسلمان لڑکی کی آواز پر لبیک کہنے والا بارہ ہزار عوام کا اسلامی لشکر چار حصوں پر مشتمل تھا پہلا حصہ کا نام مقدمتہ الجیش تھا جو تھوڑے سے آدمیوں پر مشتمل تھا اور لشکر سے تین چار میل آگے سے راستہ کی راہنمائی کر رہا تھا۔باقی دائیں طرف کا لشکر (میمنہ) اور بائیں طرف والا (میسرہ) اور درمیان میں والے لشکر کا نام( قلب )تھا۔ ہر اسلامی لشکر کے پاس ایک جھنڈا ہوتا تھا جس کو فوج ہر صورت میں بلند رکھتی ہے۔اور جنگ کے اختتام پر یہ مفتوحہ زمین پر گاڑ دیا جاتا ہے۔اس جھنڈے کا ذکر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلمنے جو غزوات خود لڑے ان میں بھی ہے اور صحابہ اکرام نے ان کو گرنے سے بچانے کے لیے شہادتیں نوش فرمائیں ہیں۔ اس فتح کے نشان والے جھنڈے کا نام (الرائیہ) ہوتا تھا۔ فتح کے بعد اس شامی فوج کے سپاہی کو الرائیہ کی نسبت سے الرائیی کہا جانے لگا لفظ الرائیی عربی میں جب بولا جاتا ہے تو سننے میں آرائیں ہوتا ہے کیونکہ عربی میں ا کے بعد ل نہیں بولی جاتی۔ الرائیی لفظ کو انگلش میں آرین کہتے ہیں۔ انگلش تاریخ دانوں نے جو یہ لکھا ہے کہ آرین A***n نے یورپ سے آکر یہاں حملہ کیا اور آباد ہوئے بالکل ٹھیک لکھا ہے کیونکہ جب یہ واقعہ ہوا اس وقت شام میں اسلامی خلافت اور دنیا کی سپر پاور تھی اور اس سلطنت کے علاقے یورپ میں بھی تھے اس وقت جب یہ لشکر شام کے جس علاقے سے بھیجا گیا وہ آج بھی شامی علاقہ یورپ کی حدود میں واقعہ ہے۔۔خلاصہ کلام یہ کہ آرائیں قوم برصغیر پاک وہند میں عرب سے محمد بن قاسم کی قیادت میں ہی آئی تھی۔جو بعد میں مستقل طور پریہاں رہائش پزیر ہو گئی۔ان میں زیادہ تر لوگ آج بھی کھیتی باڑی کے شعبے سے ہی منسلک ہیں۔
تاریخی پس منظر
آلِ زورعین کی آمد1200سال قبل از مسیح ہے۔ عین یا راعین محبُ العدیہ یعنی قحطانی النسل خاندان بنو حمیرکے ایک الولعزم اور باہمت شہزادے بنی مسرت زیاد الجہور کی اولاد سے ہے۔ یہ خاندان یمن میں بادشاہی کرتا تھا۔ بنو حمیرقحطان سے ساتویں پُشت میں تھا۔ قحطان کے بیٹے کا نام بعصر تھا یا قحطان کی ایک شاخ branch جنب میں سے بنى بشر تھے۔ جو حضرت ابراہیم کا ہمعصر تھا۔پریم یا يریم نے جب ایک قلعہ جبلِ روعین پر تعمیر کیا تواس کا نام پریم یا يریم زورعین پڑ گیا۔پریم یا یریم زورعین کو آرائیوں کا مورثِ اعلیٰ تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے آرائیوں کو آلِ زورعین بھی کہا جاتا ہے۔ پریم یا یریم زورعین کی اُولادسے صحابی رسول حضرت نعمان زورعین رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جنھوں نے 632؁ء میں حضرت محمدؐ کا دعوت نامہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا تھا۔ آرائیں وہ افراد ہیں جو اسلامی جنگوں میں جھنڈوں کی حفاظت پر معمور ہوتے تھے۔ اس فتح کے نشان والے جھنڈے کا نام (آرئیہ) ہوتا تھا۔ ارائیں قوم کا آبائی علاقہ دریائے اُردن یا دریائے فرات کے کنارے (آریحا)نامی مقام جو ملک شام کی سرزمین تھی۔ جب تاریخ یہ لوگ سرزمین ہند پہنچے تو ارائیں اور بعد ازاں آرائیں کہلائے۔ آرائیں قبیلے کے مشہور سردار شیخ سلیم آرائیں ہیں۔ جنھوں نے حضرت سلمان فارسی سے دینی علوم و فیض حاصل کیا۔ لوگ ان کے پاس فیصلے کروانے اتے تھے۔ شیخ سلیم آرائیں کے فرزند شیخ حبیب آرائیں اپنے وقت کے بزورگ تھے۔ جنھوں نے شہدائے کربلا کی تجہیز وتدفین کی تھی۔ شیخ محمد حبیب آرائیں کے فرزندشیخ حلیم آرائیں بھی عظیم ہستی ہیں جنھوں نے محمد بن قاسم بن عقیل کے ساتھ مل کر راجا داہر کی فوج کا مقابلہ کیا۔ 712؁ء خلیفہ ولید بن عبد المالک کی منظوری سے گورنر (دمشق)حجاج بن یوسف نے آپنے نو عمر داماد محمد بن قاسم کو12000 شامی جہادی لشکرجس میں 6000 آرائیں قبیلے کے آفراد شامل تھے راجا دا ہر کی راج دہانی سندھ میں بھیجا۔ راجا داہر اپنی فوج سمیت جھنگ میں مارا گیا۔ محمد بن قاسم نے ملتان، بیکانیر، ستلج، دہلی، دریائے سرسوتی تک کا علاقہ فتح کر لیا۔ یوں آرائیں لوگ برصغیر کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ جرنیل سپہ سالار محمد بن قاسم ساڑھے 3سال ہند، سندھ میں رہے۔ اسی دوران میں خلیفہ ولید اور گورنر حجاج بن یوسف کا یکے بعد دیگر انتقال ہو گیا۔ اورخلیفہ سلمان نے تخت نشینی کے بعد حجاج بن یوسف کے خاندان پر ظلم کیے۔ فتح ہند کے بعد خلیفہ سلیمان نے محمد بن قاسم کو واپس بلا کر قید کر ادیا۔ محمد بن قاسم 7ماہ قید میں ہی وفات پا گئے۔ خلیفہ سلیمان نے شیخ حلیم آرائیں کو محمد بن قاسم کا ساتھی ہونے کی وجہ سے ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ خلیفہ کی ان ظالمانہ کاروا ئیوں کی وجہ سے آرائیں قوم نے اپنے وطن واپس نہ جانے اور برصغیر قیام کا فیصلہ کر لیا۔ شیخ حلیم الرائی نے آرائیں لوگوں میں زمین تقسیم کی تو آرائیں فوج نے ملازمت چھوڑ کر کھیتی باڑی کرنے لگے۔ آرائیوں کا پیشہ ذراعت اور باغ بانی ہے۔ کھیتی باڑی کا طریقہ بھی تمام اقوام نے انہیں سے سیکھا۔ آرائیں عربی نسل سے ہے مگر عرب سے عجم تک کے سفر میں ان کی زبان اور تہذیب میں نمائیاں فرق آیا ہے۔
ارائیں سے آرائیں
آرائیں اُردو زبان کا لفظ ہے۔ پنجابی ارائیں کہتے ہیں۔ آرائیں کے معنی(کاشتکار)یعنی زمیندار کے ہیں۔ لفظ ارائیں درصل عربی کا لفظ(ارائیں)ہے۔ جو کثرت استعمال اور امتدادِزمانہ سے آرائیں بن گیا ہے۔ عرفِ عام میں آرائیں کہا جاتا ہے۔۔ صدیوں تک غیر عرب علاقے میں رہنے اور مقامی آبادیوں کے ساتھ گھل مل جانے کی وجہ سے عرب ارائیں جہاں اپنی عربی زبان چھوڑ کر عجمی ہو گئے، وہاں انہوں نے برصغیر کی مقامی زبانوں پر بھی گہرا اثر چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کی زبانوں میں بے شمار عربی الفاظ شامل ہوتے چلے گئے۔ مقامی لوگوں کے لیے عربی کے حرف ’ح‘ کا اصل تلفظ کرنا مشکل تھا اور لفظ ارائیں وقت کے ساتھ ساتھ پھر اور پھر بالآخر آرائیں بن گیا۔

رکھ برانچ نہررکھ برانچ نہر1892 میں انگریزوں نے سندل بارکو سیراب کرنے کے لیے دریائےچناب پرخانکی ہیڈورکس (گوجرانوالہ) کے م...
06/01/2022

رکھ برانچ نہر
رکھ برانچ نہر1892 میں انگریزوں نے سندل بارکو سیراب کرنے کے لیے دریائےچناب پرخانکی ہیڈورکس (گوجرانوالہ) کے مقام سے نہر لوئر چناب نکالی جس کی مزید شاخیں : (گوگیرہ برانچِ )(جھنگ برانچ ) (رکھ برانچ )( رکھ جانگلی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چراگاہ کے ہیں) (حافظ آباد ) کے مقام سے لوئر چناب نہر سے نکلتی ہے رکھ برانچ نہر کو 1892 میں انگریزوں نے تعمیر کیا تھا۔ یہ نہر حافظ آباد، سکھیکی، سانگلہ ہل، سالاروالا، چک جھمرہ،کے دیہات کو سراب کرنے کے بعد فیصل آباد میں داخل ہوتی ہے فیصل آباد سے یہ نہر جہانگیر خورد، موڑ سے گوجرہ کی طرف مڑجاتی ہے اس نہر سے سراب ہونے والا آخری مقام سیتلاں ہے رکھ برانچ نہر کی کل لمبائی تقریباً 175 کلومیٹر ہے اور یہ تقربیًا 300 دیہات کو سیراب کرتی ہے اس نہر سے سیراب ہونے والے دیہاتوں کے نمبر ز کے آگے رکھ برانچ کا مخفف ر۔ ب لکھا جاتا ہے مثال کے طور پر دسوھہ، فیصل آباد کو دسوھہ 242ر۔ب کہا جاتا ہے

دریائے چنابدریائے چناب (انگریزی: River Chanab) چناب کا نام 'چن' اور 'آب' سے مل کر بنا ہے جس میں چن کا مطلب چاند اور آب ک...
06/01/2022

دریائے چناب
دریائے چناب (انگریزی: River Chanab) چناب کا نام 'چن' اور 'آب' سے مل کر بنا ہے جس میں چن کا مطلب چاند اور آب کا مطلب پانی ہے، (چندر بھاگ دریائے چناب کا پرانا نام ہے۔) دریائے چندرا اور دریائے بھاگا کے بالائی ہمالیہ میں ٹنڈی کے مقام پر ملاپ سے بنتا ہے، جو بھارت کی ریاست ہماچل پردیش کے ضلع لاہول میں واقع ہے۔ بالائی علاقوں میں اس کو چندرابھاگا کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کے جموں کے علاقہ سے بہتا ہوا پنجاب کے میدانوں میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستان کے ضلع جھنگ میں تریموں بیراج کے مقام پر یہ دریائے جہلم سے ملتا ہے اور پھر دریائے راوی کو ملاتا ہوا اوچ شریف کے مقام پر دریائے ستلج سے مل کر پنجند بناتا ہے، جو کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ دریائے چناب کی کل لمبائی 960 کلو میٹر ہے اور سندھ طاس معاہدہ کی رو سے اس کے پانی پر پاکستان کا حق تسلیم ہے۔ ویدک زمانہ (قدیم ہندوستان) میں اس کو اشکنی یا اسکمتی کے نام سے اور قدیم یونان میں آچےسائنز کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے سکندریہ (جو آج شاید اوچ شریف یا مٹھن کوٹ یا چچارن ہے) نام سے ایک شہر دریائے سندھ کے نزدیک پنجند کے سنگم پر تعمیر کیا۔ پنجابی تہذیب میں چناب کا مقام ایک علامت کے طور پر ہے جس کے گرد پنجابی سوجھ بوجھ گھومتی ہے اور سوہنی مہینوال کی پنجابی رومانوی داستان دریائے چناب کے گرد ہی گھومتی ہے۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dasuha Faisalabad posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Travel Agency?

Share