imran vlog

imran vlog This page is created for tourism,historical places,informative articles and cultural events.

05/01/2024

ضلع اٹک کے ایک 7 سو سال پرانے شہر مکھڈ شریف کا ڈرون ویو پیش خدمت ہے
میرے فیس بک پیج کو لازمی فالو کریں اور ویڈیو پر کمنٹ بھی کریں

بشکریہ  اورنگ زیب خانThe Longest Ride....‏موٹرسائیکل_______ کے طویل ترین سفر کا عالمی ریکارڈ ارجنٹائن کے ایمیلیو اسکاٹو ...
27/12/2023

بشکریہ اورنگ زیب خان
The Longest Ride....

‏موٹرسائیکل_______
کے طویل ترین سفر کا عالمی ریکارڈ ارجنٹائن کے ایمیلیو اسکاٹو کا ہے. جو 17 جنوری 1985 کو گھر سے نکلا اور 2 اپریل 1995 کو واپس آیا، مجموعی طور پر 735,000 کلومیٹر کا سفر کیا اور 214 ممالک اور آزاد علاقوں کا دورہ کیا.!

ایمیلیو نے پورا سفر ہونڈا موٹرسائیکل ( گولڈ ونگ 1980 GL1100) پر کیا، جسے "بلیک شہزادی" کا نام دیا گیا ہے۔ دس سال تک "بلیک شہزادی" نے 47,000 لیٹر پٹرول، 1300 لیٹر انجن آئل، 86 ٹائر، 12 بیٹریاں اور 9 سیٹیں استعمال کیں۔! 735,000 کلومیٹر میں صرف ایک انجن کی تبدیلی کی ضرورت پڑھی۔ گھر واپسی پر ایمیلیو نے( The Longest Ride) لکھی جس میں اس نے 224 صفحات پر اپنے حیرت انگیز سفر کو بیان کیا۔۔


26/12/2023

سوہان ریلوے برج 1893ء
ضلع میاںوالی

25/12/2023

سوہان ریلوے برج میانوالی
یہ ریلوے برج ضلع اٹک اور ضلع میانوالی کی سنگم پر واقع ہے جو کہ نارتھ ویسٹرن ریلوے سسٹم کے تحت 1893 میں بنایا گیا ۔اچھی جگہ ہے لازمی دیکھیں

23/12/2023

خوبصورت موسم
پہاڑ
اور دوست

22/12/2023

اج کا سکول
Government Comprehensive High School Mianwali
گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول میانوالی
ایک مختصر تعارف

Mianwali Old Memories.ناقل تحریر محمد عمران شاہدمیانوالی کا قدیمی ورثہقیام پاکستان کے وقت میانوالی میں کافی تعداد ہندو ب...
21/12/2023

Mianwali Old Memories.
ناقل تحریر محمد عمران شاہد

میانوالی کا قدیمی ورثہ
قیام پاکستان کے وقت میانوالی میں کافی تعداد ہندو بھی آباد تھے ۔ جو کہ تقسیم کے بعد ہندوستان چلے گئے ۔ مشہور ہندو شخصیات جگن ناتھ آزاد اور تلوک چند ‘ ہریش چندر نکرا, رام لعل, روشن لعل چیکڑ کا تعلق بھی اسی دھرتی سے ہے۔ میانوالی میں اب بھی کچھ ہندو عبادت گاہیں ( مندر) اور سمادھیاں موجود ہیں ۔ جن کے احاطوں میں اب اسکول بن چکے ہیں ۔ میانوالی شہر میں کچھ قدیم انداز کی عمارات موجود ہیں جو تقریباً سو سال کے لگ بھگ تعمیراتی انداز کی کچھ عمارات موجود ہیں ۔ زیر نظر عمارت بھی قیام پاکستان سے پہلے کی ہے ۔
گلی بینک، میانوالی میں چار کنال کے رقبے پر محیط اس عمارت کو ایک ہندو نے ہی بنایا تھا۔ اس کے ہندوستان جانے کے بعد حکومتی اداروں نے اس کی بولی کے ذریعے الاٹمنٹ کی ۔ اب یہاں کافی خاندان رہ رہے ہیں ۔

20/12/2023

میاں والی شہر کا مرکزی قبرستان زبوں حالی کا شکار ۔میرے دوست محمد مجاہد منان اپ کو اس کے بارے میں بتاتے ہوئے

بشکریہ::: اختر حسین سیال ملک کی تقسیم کو 76 برس بیت گئے  مشرقی پنجاب بھارتی پنجاب اور مغربی پنجاب پاکستانی پنجاب بن چکا ...
18/12/2023

بشکریہ::: اختر حسین سیال

ملک کی تقسیم کو 76 برس بیت گئے مشرقی پنجاب بھارتی پنجاب اور مغربی پنجاب پاکستانی پنجاب بن چکا مگر دونوں ممالک میں کئی مقامات پر لگے ھوئے پرانے "Mile stones" یعنی "سنگ میل" اب بھی متحدہ پنجاب کے دور کی یاد دلاتے ہیں.
۔‎

14/12/2023

ضلع میانوالی کی مشرقی باؤنڈری پر قصبہ لاوہ کے ایک گاؤں چکی شیخ جی میں موجود سینکڑوں سال پرانی قبروں پر ایک مختصر سی ویڈیو ۔۔۔۔۔۔

10/12/2023

تھل ایکسپریس 129 اپ سنبل حمید ریلوے اسٹیشن ضلع میانوالی کراس کرتے ہوئے ڈرون کیمرے سے لی گئی فوٹیج

07/12/2023

ایک مختصر ویلاگ
ایک ہندو مندر کے بارے میں جو گورنمنٹ پرائمری سکول یثرب سٹریٹ محلہ گوشالہ میاںوالی میں موجود ہے

تحریر : شفیق وٹو صاحب پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی ...
06/12/2023

تحریر : شفیق وٹو صاحب
پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔
دنیا کا پُرانا ترین سکہ شاید یہی ’’پھوٹی کوڑی ‘‘ہے۔یہ پھوٹی کوڑی ’’کوڑی‘‘ یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں کوئی پانچ ہزار (5000) سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ ’’پھوٹی ‘‘ کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھونگا ’’پھوٹی کوڑی‘‘ کہلایا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیدا وار محدود تھی۔ اس کی کمیابی سے یہ مطلب لیا گیا کہ اس کی کوئی قدر / ویلیو ہے۔
تین پھوٹی کوڑیوں کے گھونگھے ایک پوری کوڑی کے برابر تھے۔ جو ایک چھوٹا سا سمندری گھونگھا تھا۔ لیکن ان دونوں کی کوئی آخری حیثیت / ویلیو تھی۔ وہ ’’روپا‘‘تھی۔ جسے بعد میں ’’روپیہ‘‘ کہاجانے لگا۔۔ ایک’’روپیہ ‘‘5,275’‘پھوٹی کوڑیوں‘‘ کے برابر تھا۔ ان کے درمیان دس مختلف سکے تھے۔جنہیں ’’کوڑی‘‘، دمڑی‘‘، ’’پائی‘‘، ’’دھیلا‘‘، ’’پیسہ‘‘، ’ٹکہ‘‘، ’’آنہ‘‘، ’’دونی‘‘، ’’چونی‘‘، ’’اٹھنی‘‘ اور پھر کہیں جا کر ’’روپیہ‘‘ بنتا تھا۔
‎کرنسی کی قیمت یہ تھی-
3 پھوٹی کوڑی= 1کوڑی
10کوڑی = 1 دمڑی
02دمڑى = 1.5پائى.
ڈیڑھ پائى = 1 دهيلا.
2دهيلا = 1 پيسہ .
تین پیسے= ایک ٹکہ
چھ پيسه یا دو ٹکے= 1 آنہ .
دو آنے= دونی
چار آنے= چونی
آٹھ آنے= اٹھنی
16 آنے = 1 روپيہ
جس طرح اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔ اسی طرح
کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جانا
دمڑی جاۓ چمڑی نہ جاۓ در اصل کنجوسی کی شدید حالت کو بیان کرنےکے لئیے استعمال ہوتا ہے
ایک پائ نہ ہونا غربت کا مظہر ...
ایک دھیلے کا نہ ہونا ذراکم غربت ..
ایک ٹکے کی اوقات (ذلیل کرنے کا غیر مہذب بیانیہ)..
ٹکہ بنگلہ دیش کی کرنسی بھی ہے
کیونکہ سب سے اعلی اور مکمل حیثیت روپیہ کی تھی (جس میں سولہ آنے ہوتے تھے) اس لئیے بات کا سولہ آنے صحیح ہونا ۱۰۰ فیصد صحیح کے مترادف ہوتا تھا.

29/11/2023

ماڑی انڈس کے پہاڑوں پر بنے ہزاروں سال پرانے مندروں کا ڈرون ویو

تحریر :محمد عمران شاہد میانوالی السلام علیکم دوستو گزشتہ اتوار کو میانوالی کی تحصیل پپلاں کے ایک قصبہ  ہرنولی میں جانا ہ...
29/11/2023

تحریر :محمد عمران شاہد میانوالی
السلام علیکم دوستو
گزشتہ اتوار کو میانوالی کی تحصیل پپلاں کے ایک قصبہ ہرنولی میں جانا ہوا ۔وہاں ہندو برادری کی ایک عبادت گاہ کے کھنڈرات دیکھے جو کہ 100 سے 150سال پرانے لگ رہے تھے ۔کون نما یہ مندر ایک چھوٹے سے کمرہ پر مشتمل ہے جس کے اندرونی جانب چھت گول گنبد نما ہے ۔طرز تعمیر کے لحاظ سے یہ عمارت خوبصورت ہوگی وہاں کے لوگوں کے مطابق اس سے بالکل متصل اسی طرح کا ایک اور مندر بھی تھا جو کہ 2012 میں منہدم ہوگیا ۔قیام پاکستان سے پہلے تحصیل عیسیٰ خیل کے بعد ہرنولی میں ہندو مذہب کے لوگ زیادہ تعداد میں رہتے تھے ۔
اگر کوئی اس جگہ کو دیکھنا چاہے وہ ہرنولی کے مشہور دینی مدرسہ جامع حنفیہ اشرف العلوم میں آ کر اس مندر کو دیکھ سکتا ہے کیونکہ یہ مندر اب اسی مدرسہ کے احاطہ میں موجود ہے حکومت کو چاہیے کہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت کرے ۔

26/11/2023

گورنمنٹ ہائی سکول ابا خیل میاںوالی
ڈرون ویڈیو پیش خدمت ہے

تحریر: محمد عمران شاہد میانوالی سیشن جج والا مورچہ " . ہرنولی میانوالی ضلع میانوالی تحصیل پپلاں کے ایک قصبہ ہرنولی میں ا...
24/11/2023

تحریر: محمد عمران شاہد میانوالی

سیشن جج والا مورچہ "
. ہرنولی میانوالی
ضلع میانوالی تحصیل پپلاں کے ایک قصبہ ہرنولی میں اسڑاں والہ محلہ میں مورچہ نما ایک تاریخی عمارت موجود ہے جسے عام طور پر سیشن جج والا مورچہ کہا جاتا ہے ۔
برصغیر پاک وہند کے پہلے مسلمان سیشن جج ملک احمد یار مرحوم کے نام سے موسوم یہ مورچہ نما عمارت 1936 میں تعمیر کی گئی
تقسیم ہند سے پہلے زیادہ تر جج یا تو انگریز ہوتے تھے یا ہندو میانوالی کے سپوت ملک احمد یار کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ پہلے مسلمان سیشن جج بنے
1934 میں ملک احمد یار خاندانی دشمنی کی وجہ سے قتل ہو گئے جس کے بعد یہ مورچہ نما عمارت دفاعی مقاصد کے لیے بنائی گئی ۔ایک مقصد تو خاندانی دشمنوں سے بچنا تھا اور دوسرا ہرنولی میں ہندو بہت زیادہ تعداد میں رہتے تھے یہ مروچہ ہندوؤں سے بھی دفاع کے لیے بنایا گیا
تین منزلہ یہ خوبصورت مورچہ نما عمارت خوبصورت تعمیر کا شاہکار ہے جسے محلہ میانہ میانوالی شہر کے
"گلو مستری "نے بنایا ۔آجکل یہ عمارت پروفیسر ملک طارق اسڑ صاحب کے ملکیتی گھر میں ہے ان سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی اس تاریخی عمارت کی آرائش پر توجہ دیں یہ علاقے کا ایک تاریخی اثاثہ ہے ۔یہ تمام معلومات ملک احمد یار مرحوم کے خاندان کے ایک فرد جناب ملک محمد اشرف اسڑ نے فراہم کی

24/11/2023

میانوالی شہر سے مشرق کی جانب11 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ابا خیل ......
ڈرون ویو ملاحظہ کیجیے

تحریر : محمّد عمران شاہد مولانا سید سلیمان ندوی کی پیدائشNovember 22, 1884مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دی...
21/11/2023

تحریر : محمّد عمران شاہد

مولانا سید سلیمان ندوی کی پیدائش
November 22, 1884

مولانا سید سیلمان ندوی ضلع پٹنہ کے ایک قصبہ دیسنہ میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم سید ابو الحسن ایک صوفی منش انسان تھے۔

تعلیم کا آغاز خلیفہ انور علی اور مولوی مقصود علی سے کیا۔ اپنے بڑے بھائی حکیم سید ابو حبیب سے بھی تعلیم حاصل کی۔ 1899ء میں پھلواری شریف (بہار (بھارت)) چلے گئے جہاں خانقاہ مجیبیہ کے مولانا محی الدین اور شاہ سلیمان پھلواری سے وابستہ ہو گئے۔ یہاں سے وہ دربھنگا چلے گئے اور مدرسہ امدادیہ میں چند ماہ رہے۔

1901ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں داخل ہوئے جہاں سات سال تک تعلیم حاصل کی۔ 1913ء میں دکن کالج پونا میں معلم السنۂ مشرقیہ مقرر ہوئے۔

1940ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند عطا کی۔

عالمِ اسلام کو جن علماء پر ناز ہے ان میں سید سلیمان ندوی بھی شامل ہیں۔ ان کی علمی اور ادبی عظمت کا اندازا اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کے استاد علامہ شبلی نعمانی سیرت النبی کی پہلی دو جلدیں لکھ کر 18 نومبر، 1914ء کو انتقال کر گئے تو باقی چار جلدیں سید سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ اپنے شفیق استاد کی وصیت پر ہی دار المصنفین، اعظم گڑھ قائم کیا اور ایک ماہنامہ، معارف جاری کیا۔

تقسیم ہند کے بعد جون 1950ء میں ساری املاک ہندوستان میں چھوڑ کر ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور کراچی میں مقیم ہوئے۔ یہاں مذہبی و علمی مشاغل جاری رکھے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے تعلیمات اسلامی بورڈ کے صدر مقرر ہوئے۔

69 سال کی عمر میں کراچی میں ہی 22 نومبر 1953ء کو انتقال کیا۔

سراج الدولہ کا مقبرہ - بنگال کے آخری آزاد نواب۔ سراج کے اہم حامی، جگت سیٹھ خاندان، ان کی قیادت سے مغلوب تھے۔ اس نے دولت ...
18/11/2023

سراج الدولہ کا مقبرہ - بنگال کے آخری آزاد نواب۔ سراج کے اہم حامی، جگت سیٹھ خاندان، ان کی قیادت سے مغلوب تھے۔ اس نے دولت کے لیے ایک نئے حکمران کی تلاش شروع کی اور اسے تاجروں کا ایک چھوٹا گروہ ملا جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کہا جاتا ہے۔ چنانچہ مرشد آباد آبی گزرگاہ پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔ جگت سیٹھوں کی مالی امداد سے چلنے والی ای آئی سی نے آہستہ آہستہ سراج کا تختہ الٹ دیا، ایک نئے کٹھ پتلی بادشاہ کو تخت پر بٹھایا، اور بنگالی دولت کو چوستے ہوئے برطانوی راج کے تحت پورے ہندوستان پر حملہ کرنا شروع کیا۔ چند دہائیوں میں بنگال شدید قحط کی زد میں آ گیا۔ دنیا پر بنگال کی حکمرانی ختم ہو چکی تھی۔

16/11/2023

ماڑی انڈس کے پہاڑوں پر سفر کرتے ہوئے
ملک محمد ابوبکر کے سنگ ۔۔۔۔۔۔

ناقل تحریر :محمد عمران شاہد میانوالی مکھڈ شریفکیا آپ نے صدیوں پرانا زندہ شہر دیکھا ہے۔؟ تحصیل جھنڈ ضلع  اٹک کا یہ شہر صد...
10/11/2023

ناقل تحریر :محمد عمران شاہد میانوالی

مکھڈ شریف
کیا آپ نے صدیوں پرانا زندہ شہر دیکھا ہے۔؟
تحصیل جھنڈ ضلع اٹک کا یہ شہر صدیوں پرانا ہے جو قبل از مسیح بھی آباد تھا
ڈھائی ہزار سالہ پرانا قصبہ مکھڈ شریف ، بدھ مت ۔ سکھ ازم ۔ ہندومت۔ اور اسلام چار تہذیبوں کا گہوارہ تاریخ ضلع اٹک کی تحصیل جنڈ کا خوبصورت قصبہ مکھڈ شریف جو قبل از مسیح بھی آباد تھا
مکھڈ کے بارے تاریخ میں لکھا ہے کے یہ بستی 920 قبل مسیح میں آباد تھی 333 قبل مسیح میں بادشا دارا نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کیا 326 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے جب راجہ پورس سے جنگ کی تو اس کے لشکر کے کچھ لوگ بھاگ کر مکھڈ آگئے 317 میں نوشیروان عادل کے دور میں مکھڈ سلطنت فارس میں شامل تھا اور ہندومت کا مرکز تھا 1027 میں جب محمود غزنوی نے سومنات کے مندر پہ حملہ کیا تو وہ مکھڈ سے گزر کر گیا 1192 میں شہاب الدین غوری کے بعد مکھڈ حاکم لاہور قطب دیں ایبک کے زیر انتظام آ گیا 1520 میں جب ابراھیم لودھی حمکران بنا تو مکھڈ حاکم ملتان کے زیر نگین آگیا 1580 میں جب اکبر نے دیں الہی ایجاد کیا تو اس کے خلاف مہم میں مکھڈ کے حاجی احمد پراچہ پیش پیش تھے 1650 میں عراق کے دارلحکومت بغداد سے ایک صوفی بزرگ ایران بلوچستان بنوں سے ہوتے ہوئے مکھد آئے اس وقت مکھڈ ہندومت کا مرکز تھا انہوں نے یہاں اسلام کی روشنی پھیلائی اور یہ صوفی بزرگ نوری بادشاہ کے نام سے پکارے جانے لگے جن کا مزار شریف آج اسے قصبہ میں ہے۔
1857 جب مغل سلطنت کا سورج غروب ہوا تو مکھڈ انگریز سرکار کے زیر تسلط آ گیا مکھڈ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے اک مرکز کی حیثیت رکھتا تھا
انگریز دور میں میانوالی حیدر آباد کراچی سکھر سے تجارتی سامان مکھڈ آتا اور یہاں سے تلاگنگ راولپنڈی چکوال لے جایا جاتا 6 مارچ 1894 کو انجرا ریلوے اسٹیشن کا افتتاح ہوا اور انجرا سے مکھڈ کچی سڑک بنائی گئی 1922 میں جنگ عظیم اول کے بعد انگریزوں نے اپنا ریکروٹنگ رجسٹر دیکھا تو جنگ عظیم کے دوران انگریز فوج میں سب سے زیادہ بھرتی پیر آف مکھڈ نے کرائی انکے اس کام کے بدلے انہیں ضلع لاہور و وہاڑی میں 25000 کنال زمین بطور انعام دی گئی قصبہ مکھڈ ایک ٹیلے پہ آباد ہے قدیم شہر ایک قلعہ نما تھا جسکے مختلف دروازے تھے آج بھی اسکے آثار موجود ہیں مکھڈ کی گلیاں و مکان قدیم دور سے پتھروں سے بنائے گئے دریا کے کنارے ہونے سے لکڑی کا فراوانی سے استعمال کیا گیا جو اس قصبہ میں جگہ جگہ نظر آتا ہے محارت اور عمدہ کاریگری سے کیا گیا کام نہایت شاندار ہے
یاد رہے ۔ کہ پورے ملک میں اپنی پہچان کا حامل مکھڈی حلوہ۔ اسی قصبہ کی ایجاد ہے جسے ہر کوٸی پسند کرتا ہے اور زاٸقہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
آج یہ قصبہ بھی ترقی کی طرف گامزن ہے اور یہاں تک رساٸی بہت آسان ہو گٸ ہے لوگ بھی بہت محبت والے ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔

نااقل  تحریر :: محمّد عمران شاہد ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک پراسرار عمارات موجود ہیں جو جوابات سے زیا...
28/10/2023

نااقل تحریر :: محمّد عمران شاہد

ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک پراسرار عمارات موجود ہیں جو جوابات سے زیادہ سوالات اٹھاتی ہے۔
دریائے سندھ کے ساتھ چشمہ بیراج کے قریب واقع ہے ، اس کے دامن میں جہاں ہندو کش کی حد سے ملتے ہیں۔ایک قلعے کے کھنڈرات ہیں۔ مقامی لوگ اس جگہ کو 'کافرکوٹ' کہتے ہیں ،اور اگرچہ ان قلعوں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، وہ ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہتے ہیں جو سندھ کی تاریخ کو دریافت کرنا چاہتے ہیں۔
کافرکوٹ کو دو اہم حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، بلوٹ کافرکوٹ اور ٹلوٹ کافرکوٹ جو ایک دوسرے سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں، یہ تاریخی مندر ایک پہاڑی پر واقع ہے، ایک پتھریلی زمین کی تزئین کے درمیان جس پر چڑھنا کچھ مشکل ہے۔ بڑے پیمانے پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کھنڈرات ہندو شاہی سلطنت کے تعمیر کردہ آٹھ مندروں کے احاطے کا حصہ ہیں،یہ ایک بڑا خاندان ہے جو کبھی مغرب میں کابل کی وادی سے لے کر مشرق میں ہندوستان کے کچھ حصوں تک طاقت رکھتا تھا۔
ہندو شاہی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، اور آثار قدیمہ کے ماہرین نے جو معلومات اکٹھی کی ہیں ان میں سے بیشتر ان کے دشمنوں کی کہانیاں ، کافرکوٹ جیسی جگہوں کی دیواروں پر سکے یا نوشتہ جات سے ملتی ہیں۔ جبکہ کچھ ، جیسا کہ ایکسپلورر البیرونی دلیل دیتے ہیں کہ وہ تبتی یا ترک غیر ملکی تھے جو اس علاقے میں آباد تھے، دوسروں کا خیال ہے کہ وہ اس علاقے کے متحارب قبیلوں سے نکلے ہیں۔ہندو شاہوں نے کابل کے اہم شاہی جو کہ بدھ مت تھے سے الگ ہو گئے اور دریائے سندھ کے کنارے اس علاقے میں آباد ہو گئے۔ تاہم ، وہ 11 عیسوی میں غزنویوں کے ہاتھوں شکست کھا گئے ،جنہوں نے ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا لیکن قلعے کو برقرار رکھا۔
تاہم ، کھنڈرات کے ارد گرد مختلف شکلوں کو دیکھتے ہوئے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاہی ایک الگ تھلگ یا دشمن برادری نہیں تھے ،بلکہ ارد گرد کے قبیلوں اور حکمرانوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔تاریخ دانوں کے مطابق ، کھنڈرات پر نقش ہیں جو گندھارن اور کشمیری سلطنتوں سے تعلق رکھتے ہیں، داخلی راستوں پر کشمیری ڈیزائن ہیں۔تاہم ، کھنڈرات میں گندھارن فن تعمیر کا اشارہ ہے ،لیکن یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ ابتدائی طور پر ان کھنڈرات کو عام بودھی ستوپ سمجھا جاتا تھا۔ شاہیوں کا علاقہ غالب گندھارا پر محیط تھا اور ایک موقع پر کشمیر بھی تہذیب میں شامل تھا۔
ماہرین آثار قدیمہ نے اس خاص کمپلیکس کو 7 ویں صدی عیسوی تک قرون وسطی کے قلعوں کی ایک دلچسپ مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔اس کا محل وقوع نہ صرف ایک منفرد مقام فراہم کرتا ہے جو شمال میں سندھ کو دیکھتا ہے ، بلکہ جنوب میں ایک ناقابل تسخیر خندق ، اور مغرب میں سرحد کی دیوار سے بھی محفوظ ہے۔ تاہم ، اصل سوال یہ ہے کہ قلعہ کیسے بنایا گیا کیونکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ قلعے کی تعمیر کے لیے استعمال ہونے والے پتھر اس علاقے کے مقامی نہیں ہیں۔
مرکزی دروازے سے گزرتے ہوئے اور کمپاؤنڈ میں کھڑے ہوتے ہوئے کوئی بھی مدد نہیں کرسکتا لیکن اس جگہ کے ساختی اور تعمیراتی معجزے پر خوف کا احساس محسوس کرتا ہے۔ کمپاؤنڈ میں کچھ ہندو مندروں کی باقیات ہیں ، جو نقش و نگار کے ساتھ ، مرکز میں ایک تالاب کے ساتھ ہیں۔ یہ غور کرنا حیران کن ہے کہ غزنویوں کے حملوں اور دیگر عظیم تہذیبوں جیسے کشان ، منگولوں یا مغلوں کے باوجود یہ کھنڈر کسی نہ کسی طرح بچ گئے لیکن ان کا وجود کبھی ریکارڈ نہیں کیا گیا۔
یہ انگریزوں کے آنے تک نہیں تھا کہ میانوالی کے گزٹ نے پہلی بار 1915 میں کافر کوٹ کا وجود درج کیا ، جس میں کہا گیا تھا کہ کھنڈرات "کافی اہمیت اور قدیم ہندو تہذیب کے وجود کی علامت ہیں۔" کافرکوٹ میں پہلا آثار قدیمہ کا کام نوآبادیاتی حکمرانی کے دوران ہوا ، اور اس سائٹ سے بہت سے نمونے اب بھی برٹش میوزیم میں موجود ہیں۔ لیکن وہ بھی صرف ان لوگوں کے بارے میں قیاس آرائیاں کر سکتے تھے جنہوں نے ٹلوٹ اور بلوٹ میں قلعے بنائے اور استعمال کیے۔
اگرچہ کھنڈرات ٹوٹ رہے ہیں ، مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ دشمن کے حملہ آور کے ہاتھوں تباہی کی وجہ سے نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں ایسی کئی سائٹس ہیں جو زمین کی امیر اور پرانی تاریخ کی یاد دہانی کا کام کرتی ہیں۔ یہ شاید وہ معمہ اور حیرت کا احساس ہے جو وہ متاثر کرتے ہیں جو کہ مورخین یا تاریخ کے شوقین افراد کو ان کی اصلیت پر تحقیق کرنے اور دوسروں کو ان کے وجود سے آگاہ کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔

تحریر: محمد عمران شاہد آج کی مسجد جامع مسجد سمندی والا یونین کونسل اباخیل میانوالی کا  تقریبا 80 سال پہلے 1944ء سنگ بنیا...
27/10/2023

تحریر: محمد عمران شاہد
آج کی مسجد
جامع مسجد سمندی والا یونین کونسل اباخیل میانوالی کا تقریبا 80 سال پہلے 1944ء سنگ بنیاد رکھا گیا اور یہ مسجد ا1946ء میں مکمل ہوئی ۔
اس علاقہ کے بزرگ
شیر خان
شاہجہان خان
مسجد ھذا کے بانیوں میں سے تھے مسجد ھذا کے پہلے امام مولوی شمس الدین صاحب تھے
۔مسجد کی تعمیر کرنے والے معماروں کے نام درج ذیل ہیں
مستری ظہورالدین
مستری محمد یوسف
مستری محمد یاسین
مستری محمد دین
مستری محمد فیض
مستری محمد یامین
مستری محمد رفیق
چار کنال پر پھیلی ہوئی مسجد قدیم طرز تعمیر کی وجہ سے کافی دلکش نظر آتی ہے
پکچر کریڈٹ ؛ محمد حسیب خان ولد خان عبدالرحمان خان سمندی خیل

26/10/2023

تحصیل میانوالی کہ قصبہ واں بھچراں میں موجود 400 سال پرانی شیر شاہ سوری کی باولی پر ایک ویلاگ ۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر :محمد عمران شاہد میانوالی جامع مسجد قصاباں  وانڈھی گھنڈ والی ضلع میانوالی ۔بیسویں صدی کے اوائل میں تعمیر کی گئی یہ...
25/10/2023

تحریر :محمد عمران شاہد میانوالی

جامع مسجد قصاباں وانڈھی گھنڈ والی ضلع میانوالی
۔بیسویں صدی کے اوائل میں تعمیر کی گئی یہ مسجد فن تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار سمجھی جاتی ہے ۔اس مسجد میں مشہور عالم دین مولانا محمد زمان رحمتہ اللہ علیہ جو کہ رئیس المفسرین مولانا حسین علی الوانی رحمتہ اللہ علیہ واں بھچراں والوں کے شاگرد تھے، نے کافی عرصہ تک قرآن کی تفسیر پڑھائی ۔ماضی قریب کے ایک مشہور شہید مفتی نظام الدین شامزئی رحمتہ اللہ علیہ بھی مولانا محمد زمان رحمتہ اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے ۔صوبہ بلوچستان کے نامور علماء مولانا محمد زمان رحمت اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے

23/10/2023

ضلع میاوالی کی تحصیل کے ایک قصبہ "حافظ والا "کا نام جس مشہور شخصیت کے نام پر رکھا گیا تفصیل اس ویلاگ میں ملاحظہ کریں

تحریر ؛ محمد عمران شاہد میانوالیقلعہ منکیرہ ضلع بھکرمنکیرہ قلعہ بھکر ہائی وے پر منکیرہ سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے پ...
23/10/2023

تحریر ؛ محمد عمران شاہد میانوالی

قلعہ منکیرہ ضلع بھکر

منکیرہ قلعہ بھکر ہائی وے پر منکیرہ سے تقریباً نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قلعہ دو مرحلوں میں بنایا گیا تھا۔ اینٹوں سے بنے قلعے کی ابتدائی تعمیر بلوچ حکومت کے زمانے میں کی گئی تھی، اور پٹھانوں کے دور میں مٹی کی موٹی دیوار کی شکل میں مزید قلعہ بندی کا کام شروع کیا گیا تھا۔

آج قلعہ اور اس کی مضبوطی زیادہ تر کھنڈرات میں ہے۔ مٹی کی دیوار کا بڑا حصہ اب بھی موجود ہے، تاہم بوسیدگی اور غفلت کافی حد تک واضح ہے۔ مرکزی قلعہ زیادہ تر کھنڈرات میں ہے سوائے ایک کنویں، ایک مقبرے اور چنائی کے چند نشانات کے۔ قلعہ کی بیرونی دیواریں تاہم برقرار ہیں۔

22/10/2023

السلام علیکم دوستو میرا فیس بک پیج لازمی فالو کریں ۔۔۔۔
ماڑی انڈس کالا باغ میاوالی کے پہاڑوں پر ہزاروں سال پرانے مندروں پر مختصر ویڈیو پیش خدمت ہے

22/10/2023

السلام علیکم دوستو
یہ میرا افیشل فیس بک پیج ہے برائے مہربانی سے لازمی فالو کریں انشاءاللہ اپ کو بہت معلوماتی تاریخی اور مزیدار قسم کی ویڈیوز دیکھنے کو ملیں گی
اپ کے تعاون کا بہت شکریہ ❤

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when imran vlog posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Travel Agency?

Share