19/01/2018
ہماری قوم کی جملہ غلط فہمیوں میں سے ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے آپ کو آزاد کہتے ہیں,جبکہ آزادی کی کسی بھی تعریف کے مطابق ہمارا آزادی سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے. گورا یہاں سے گیا ضرور ہے,مگر اس کی باقیات اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ باقی ہیں. سیاست سے لے کے قانون سازی تک,اور جہالت سے لے کے جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی تک سب اس مملکت میں شاد و آباد ہیں.
پولیس کا نظام ۲۰۰ سال پرانہ, پٹوار خانے بھی محکومی کے دور کے, اور انتظامیہ بھی "دیسی گوروں " کا ایک اسطبل ہے. عام انسان ۲۰۰ سال پہلے بھی جاہل,مفلس,اور بے بس تھا,اور آج بھی. تب گوروں نے تعلیم سے دور رکھا تاکہ بغاوت نہ جنم لے آج سیاستدان انہی کے نقشِ قدم پر ہیں. تب بھی جائز کام کے لیے بھی گورے صاحب کے ترلے کرنے پڑتے تھے,آج بھی خود ساختہ "گوروں" کے ڈیرے پہ حاضری کے بغیر جائز کام بھی حرام گردانہ جاتا ہے. اپنے ووٹ کی خاطر سیاستدانوں اور انتظامیہ کے گٹھ جوڑ نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے. ترقیاتی منصوبہ تو بڑا دور, عام آدمی کو تھانے اور کچہری میں جائز کام کے لیے بھی ایم این اے اور ایم پی اے کے ترلے کرنے پڑتے ہیں. ستم یہ نہیں کہ عوام کو سیاستدانوں کے در پہ حاضری دینا پڑتی ہے,بلکہ حادثہ یہ ہے کہ عوام ان کی غلامی کو تسلیم کر چکے ہیں.ووٹ دینے یا نہ دینے کی واحد شرط ہی یہ ہے کہ کوئی ساستدان تھانے کچہری ساتھ جاتا ہے یا نہیں.
چند دن ادھر کی بات ہے ایک ناکام سیاستدان سرگودھا کے ڈی پی او کے دفتر بیٹھ کے, سیلفی لے کے نیٹ پر چڑھاتا ہے جس کے ساتھ چند لائنیں لکھی ہوئی تھیں,جن میں حضرت اپنے آپ کو علاقے کا واحد مسیحا گردان رہے ہیں. اور عوام بھی اپنی جہالت کا صدقہ اتارنے انہیں شاباش دیتے نظر آئے.
سوال صرف یہ ہے کہ وہ سیاستدان صاحب کس حیثیت میں ڈی پی او کو احکامات دے سکتے ہیں؟ اگر حلقہ کے جائز کام کے لیے وہ صاحب پولیس افسر سے ملے تو ڈوب مریں کہ ۳۰ سالہ دورِ حکومت میں پولیس کو اس قابل بھی نہیں بنا سکے کہ وہ سفارش کے بغیر کام کر سکے؟ اور اگر کام جائز نہیں تھا تو پھر وہی چار حروف جو گزشتہ روز عمران خان نے پارلیمنٹ کے لیے استعمال کیے.
کب اس منجمد ذہنوں کے ہجوم,جسے عام لوگ قوم کہتے ہیں, کو سمجھ آئے گی کہ ایم این اے کا کام قانون سازی ہے نہ کہ بیوروکریسی کو تمہاری سفارشیں کرنا, بجلی اور گیس کے میٹر لگوانا اور سولنگ بنوانا.
از وڈے حاجی صاحب.