08/01/2024
دنیا کا کوئی بھی شخص جب پردیس سے دیس کا رخت سفر باندھتا ہے تو اس کی اور اس کے اہل خانہ کی خوشی اتنی قابل دید ہوتی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اگر اس کے اہل خانہ کو خبر ملے جس کے وہ منتظر ہیں اسے تو چند گھنٹے کی ڈرائیو پر قتل کر دیا گیا ہے تو وہ گھر ماتم کدہ نہیں بلکہ قیامت کا سماں پیش کر رہا ہوتا ہے
آج پھرایک کشمیری تارک وطن جس نے برطانیہ سے رخت سفر باندھا اسے ائیر پورٹ سے نکلنے کے چند منٹ بعد ہی بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔ کشمیری خواہ تاجر ہوں یا تارکین وطن ان کے لیے پنڈی اور اسلام آباد مقتل گاہ بن چکے ہیں۔ کئی بار قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توجہ مبذول کرانے کے باوجود کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ صرف اتنا ہوتا ہے کہ لاش کو ہسپتال منتقل کر کے پوسٹ مارٹم کروا کر گھر روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ہم رو دھو کر جنازہ کروا کر سپرد خاک اور فاتحہ خوانی کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ لیکن ہر گز نہیں اس مقتول کی روح ہر وقت ہم سے سوال کرتی رہے گی کہ کس جرم کی پاداش میں مجھے قتل کیا گیا؟
نام نہاد آذاد کشمیر کی حکومت سے سوال ہے کہ کیا قتل کی ان لرزہ خیز وارداتوں کے سلسلے میں آپ کی بھی کسی قسم کی ذمہ دار ہے یا آپ بھی ان معاملات سے آذاد ہیں؟
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں تین ائیر پورٹ ہیں اور وہاں کے بہت ہی کم لوگ لوگ بیرون ملک ہیں جبکہ ہمارے اس کشمیر کے 20 لاکھ لوگ بیرون ملک ہیں جبکہ ائیر پورٹ تو کیا ڈھنگ کا کوئی لاری اڈہ تک نہیں۔ حالانکہ بیرون ملک مقیم کشمیری پاکستانی معیشت کا ایک اہم ستون ہیں۔اگر کوئی کشمیریوں کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتا تو اسے اس پر تسلط اور حکومت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔