22/08/2023
بغض حفیظ!
یوں تو حفیظ اور مسلم لیگ ن سے میرا تعلق الیکشن 2020 سے 4 مہینے قبل ہی ختم ہو چکا تھا۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر حافظ صاحب کے خلاف پروپیگنڈے کو دیکھ کر سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر قلم اٹھانے پر مجبور ہوا ہوں۔
مسلم لیگ ن اور حفیظ ایک دوسرے کی شہہ رگ ہیں حافظ صاحب کے بغیر مسلم لیگ ن اور ن کی کوئی اہمیت اس علاقے میں میرے حساب سے نہیں ہے۔
حافظ صاحب مشرف کے امریت کے دور سے لیکر 2023 تک بہت سے نشیب و فراز دیکھے ،عروج دیکھا زوال دیکھا اور ڈٹے رہے،
لوگ اتے گئے جاتے گئے اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑا ،اپنے عروج کے دور میں علاقے کی خدمت میں بہت اگے نکل گئے جس کی مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں۔
اب اتے ہیں اصل نقطے کی طرف،
پچھلے کچھ دنوں سے میر غضنفر ہنزہ سے اور انجنئیر انور دیامر سے اور جعفر اللہ صاحب گلگت سے حافظ صاحب کے خلاف کھڑے ہوگئے تینوں کا کہنا ہے کے مسلم لیگ بنیادوں میں ہمارا خون شامل ہے اس لئے فرد واحد کی بالادستی نہیں مانتے،
دیامر سے حاجی جانباز مرحوم برے وقت میں ق لیگ جوائن کر گئے، پھر واپس ائے ہر وقت اپنے مفادات کی جنگ لڑی، (اللہ پاک ان کو غریق رحمت کرے)
میر صاحب نے ہمیشہ نواز شریف سے پرسنل تعلقات کا غلط فائدہ اٹھایا اور 2020 کے الیکشن میں پارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا،
گلگت سے جعفراللہ اللہ کا بھی کچھ یہی صورت حال رہی پارٹی کے ٹکٹ لیتے وقت حافظ صاحب کور کمیٹی سے ناراضگی مول لی اور جعفر اللہ کو ٹکٹ دے دیا موصوف الیکشن کی رات بارگیننگ کر کے اپنا اور پارٹی کا نام ڈبو دیا۔۔
ہر موقع پر پارٹی کے ساتھ زیادتی کرنے کے باوجود اج بغض حفیظ میں یہ تینوں پارٹی کو توڑنے کے لئے ایک پیج پر جمع ہیں۔
بغض حفیظ میں انکو اتنا اگے نہیں جانا چاہیے جہاں سے سیاسی طور پر انکو زات کو نقصان پہنچے۔ حافظ صاحب ایک منجے ہوئے سیاست دان ہیں اور پاکستان لیول کی سیاست میں ان کا کردار ہے۔ اس مسند کے لئے ان کے علاوہ کوئی اہل ہو ہی نہیں سکتا اس لئے پارلیمانی کمیٹی نے ان کو بلا مقابلہ 5 سال کے لئے صدر منتخب کیا ہے۔
اگر کسی کو ان سے اختلاف ہے تو 5 سال انتظار کرے وگرنہ پارٹی پالیسی پر عمل و پیرا رہیں۔
وا تعز من تشاء وا تزل من تشاء