Urdu & Whatsapp

  • Home
  • Urdu & Whatsapp

Urdu & Whatsapp Tourism Corporation

How To Find Cheap Flight in Pakistan
25/10/2023

How To Find Cheap Flight in Pakistan

How to Find Cheap Muscat Flights from Pakistan Posted on October 25, 2023October 25, 2023 by Usama Arshad AEM Cheap Muscat Flights from Pakistan – Muscat, the stunning capital city of Oman, is a popular destination for many travelers seeking to explore its rich history, cultural heritage, and natu...

Daily Good Price Cheap Flight Ticket - Book Now on Low Charges.Email us: info@thebookingtrip.onlineCall us:Usama Arshad ...
22/10/2023

Daily Good Price Cheap Flight Ticket - Book Now on Low Charges.
Email us: [email protected]
Call us:
Usama Arshad Aem +92 312 774 0744
WhatsApp Only: +971 50 339 7322
https://thebookingtrip.online/
Basic Govt Tax + Low fee, With No charges
TRUE Pakistani No #1 Travel Agents portal Exist here. just go head to check your Monthly tickets Calendar for all country

It's golden chance, to get service domain, and to sell any Service,Here is link, where anyone can buy it: InfexoService ...
26/08/2021

It's golden chance, to get service domain, and to sell any Service,
Here is link, where anyone can buy it: InfexoService .com is available for Sale.
You can use this domain for sale any service. this is popular domain.
Buying link: https://pk.godaddy.com/domainsearch/find?checkAvail=1&domainToCheck=infexoservice

Get the best domains name from GoDaddy. We have country domains, new domain extensions and all the traditional dot com, org, net and more domains to choose from.

Ye aik darwesh ki aah h😂 🦹
19/06/2021

Ye aik darwesh ki aah h😂

🦹

ایک جھیل کے کنارے سیر و تفریح کا انتظام کیا۔ یہ جھیل مگرمچھوں سے بھری ہوئی تھی۔ کمپنی نے بطور تفریح لوگوں سے کہا، "جو صح...
16/06/2021

ایک جھیل کے کنارے سیر و تفریح کا انتظام کیا۔ یہ جھیل مگرمچھوں سے بھری ہوئی تھی۔ کمپنی نے بطور تفریح لوگوں سے کہا، "جو صحیح سالم اس جھیل کو پار کر لے گا اسے دس لاکھ ڈالر انعام ملے گا اور اگر اسے مگرمچھ نے نگل لیا تو اس کے ورثاء کو دس لاکھ ڈالر ملے گا۔"

ورکرز میں سے کسی کی ہمت نہیں ہوئی لیکن اچانک ان میں سے کسی ایک نے جھیل میں چھلانگ لگائی اور ہانپتے کانپتے بحفاظت پار کر لیا۔

اس مقابلے میں کامیاب ہو کر وہ آدمی اپنے گاؤں کا کروڑ پتی بن گیا لیکن اس نے معلوم کرنا چاہا کہ آخر کس نے اسے دھکا دیا تھا بالآخر اسے معلوم ہوا کہ وہ اس کی بیوی تھی جس نے اسے پیچھے سے دھکا دیا تھا۔ اسی وقت سے یہ مقولہ مشہور ہو گیا کہ، "ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔"

پاکستان میں فیملی سسٹم کا زوال  ،،ھمارے زمانے میں ھمارے دادا جی کے کوئی سولہ سترہ بچے اور 4 بیویاں تھیں ،،بچوں میں سے کس...
13/06/2021

پاکستان میں فیملی سسٹم کا زوال ،،

ھمارے زمانے میں ھمارے دادا جی کے کوئی سولہ سترہ بچے اور 4 بیویاں تھیں ،،
بچوں میں سے کسی نے بھی اسکول کا منہ نہ دیکھا ،، اردو پڑھنا بھی سپارہ پڑھ کر سیکھا ،جس نے بھی سیکھا ،،

بچے سر اٹھاتے تو فصلوں اور کھیتوں میں دھکیل دئے جاتے ،، جو گائے دوسرے گاؤں سے جفتی کرا لاتا وہ پرائمری پاس کر لیتا ،جو ہل کی ہتھی پکڑ لیتا وہ میٹرک پاس کر لیتا ،جو کسی مل میں ملازم ھو جاتا وہ ایم اے کر لیتا ،، یوں والدین کا خرچہ کچھ نہیں تھا منافع ھی منافع تھا ،، لہذا والدین کبھی فرسٹریشن کا شکار ھو کر بچوں کی ماں بہن ایک نہیں کرتے تھے ،، راوی چین ھی چین لکھتا تھا ،بچے کی مونچھیں بھیگتی یا مسیں پھوٹتیں تو اسی حویلی میں سے ایک کڑی پکڑ کر اس کے ساتھ بیاہ دی جاتی اور چارپائی اور پانی کی بالٹی چھت پر چڑھا دی جاتی ،، شادیاں عموماً 16 سال کا لڑکا اور 14 سال کی لڑکی کے حساب سے ھوتی تھیں،، سارے دیہات کا تقریباً یہی رواج تھا ،، والدین میں سکھی تھے ،بچے ایک منہ اور دو ھاتھ لے کر آتے تھے ،، بچے دس بھی ھوں تو مونگ پھلی بھی چن کر لاتے تو بھی اپنی اپنی اس دن کی روٹی خود کما کر شام کو گھر آ جاتے تھے ،،

نہ زیور بکتا تھا ، نہ ایجنٹوں کا دھوکا تھا ، نہ نادرا کے دھکے تھے ، نہ والدین کے کوسنے تھے اور نہ اولاد کا ڈیپریشن تھا سالوں میں بھی کوئی معاشی خود کشی نہیں ھوتی تھی ،جو ایک آدھ کیس دو چار سال میں ھوتا وہ عشق کی ناکامی کے سبب ھی ھوتا تھا ،، فرسٹریشن دونوں نسلوں میں نہیں تھی ،،،،،،،،،،،،

پھر دور تبدیل ھوا ،، منگلا نے کشمیریوں کو لندن پہنچایا تو باقی علاقون نے بھی انگڑائی لی ،، لوگوں نے زمینیں بیچیں ، زیور بیچے اور بچوں کو ایران کے رستے یونان اور دبئ کی طرف روانہ کیا گیا ،، کچھ پہنچے کچھ رستے میں ھی خواھشات کے جنگل میں مر کھپ گئے ، جو پہنچے ان کا حال اے ٹی ایم یا گو کیش کارڈ کا سا تھا ،، وہ کما کر بھیجتے گئے اور کوشش کی کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ جائے اور کسی اچھے جاب پر لگ جائے ،، تعلیم میں مقابلہ بازی شروع ھوئی کیونکہ انڈیا کے لوگ پڑھے لکھے تھے وہ آفس جاب میں لگتے جبکہ پاکستانی نچلے درجے کے کام کرتے تھے ،،

دیہات میں بجلی آئی تو ڈاولینس کو بھی لائی ،اور دیگر بجلی کا سامان بھی امپورٹ ھوا ، والدین مشین کی طرح کما کر اولاد پر لگاتے چلے گئے اور اپنی جوانی اور اس سے متعلق جزبات کو قربان کر دیا ،، والد 4 ، 4 سال بعد ملک کا چکر لگاتے وہ بھی ایک ماہ کے لئے مہمان کے طور پر آتے ،، ایک ماہ میں بچوں کا کیا پتہ چلتا ھے ،فاتحہ خوانی پوری نہیں ھوتی تھی کہ چھٹی ختم ھو جاتی ،، سہولیات ملیں تو بچے بگڑتے چلے گئے اور والدہ چھپاتی چلی گئ اور مرد اندھا دھند 16 ، 16 گھنٹے کام کر کے کما کر گھر بھیجتے چلے گئے،،

اولاد پر لعن طعن شروع ھوا ، اخراجات کا حساب کتاب شروع ھوا ، تعلیم کو کوسا گیا اور والدین اور بچوں کے درمیان سرد جنگ شروع ھو گئ ،،تعلیم دن بدن ٹف ھوتی چلی گئ وہ آج سے چالیس سال پہلے والی تعلیم نہیں تھی جب انگلش چھٹی کلاس سے شروع ھوتی تھی اور میٹرک تک ھمیں انگلش کے حروفِ ابجد ھی درست کرنا سکھایا جاتا ،، مائی بیسٹ فرینڈ ، مائی فادر ،، ھنگری فاکس اور تھرسٹی کرو پر میٹرک ھو جاتی تھی ،، اب انگلش کچی یعنی کے جی ون سے ھی شروع ھو جاتی ھے ، بستے بڑے ھوتے گئے اور رشتے چھوٹے ھوتے چلے گئے ،، ساری ساری رات پڑھ کر بھی بچہ پاس نہ ھو تو بھی گھر میں اس قدر ذلیل کیا جاتا ،، اس کو لٹرلی ماں بہن سے گالیاں دی جاتیں ، مار اس قدر شدید کہ پڑوسی آ کر چھڑائیں تو چھڑائیں ماں بھی قریب جانے کی ھمت نہ کرے ،، یوں والدین اور اولاد کے درمیان نفرت کی نادیدہ مگر محسوس دیوار بننا شروع ھوئی ،،

ریزلٹ کے دنوں میں نہر کے پلوں پر پولیس پہرہ لگ جاتا ھے کیونکہ ناکام ھونے والے بچے ریزلٹ سن کر گھر جانے کی بجائے قبر میں جانے کو ترجیح دیتے ھیں ،، والدین اپنی جگہ اخراجات کے گوشوارے دکھاتے پھرتے ھیں اور بچہ اپبے جسم پر پڑے نیل کے نشان دکھاتا پھرتا ھے ،، یعنی کہ اس تعلیم کی بجائے ، ان اخراجات کی بجائے کچھ بھی نہ ھوتا تو والدین اور اولاد کا تعلق تو قائم رھتا ،، جب ھر لمحہ ان اخراجات کو کوسا جاتا رھے ،، تو وہ ناسور بن جاتے ھیں ،، ایک عورت بیرون ملک سے آئی تو گاؤں کی ایک غریب عورت کے لئے ایک سوٹ لے کر آئی اور اس کو کہا کہ آپ یہ سلا کرپہن لیں ،، مگر اس عورت نے شاید وہ سوٹ اپنی بیٹی کو دے دیا ھو گا ،، لیکن یہ خاتون جہاں اس غریب عورت کو دیکھتی فورا ً پوچھتی کہ " ماسی وہ سوٹ ابھی نہیں سلوایا ؟ " یہانتک کہ ماسی نے اس خاتون کو دیکھ کر ھی رستہ تبدیل کرنا شروع کر دیا ،، پھر وہ ان اوقات مین اس گلی سے گزرتی جب اس خاتون کے رستے میں ملنے کے امکانات نہ ھوتے ،مگر ایک دن صبح صبح بیچاری پکڑی گئ اور اس خاتون نے ابھی ماسی ھی کہا تھا کہ ماسی دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ھو گئ " خدا کا واسطہ ھے اگر ایک سوٹ مجھے دے ھی دیا ھے تو اب مجھے جینے دو "

یہی حال اولاد کا ھو جاتا ھے کہ خدا کا واسطہ ھے اگر پڑھا ھی رھے ھو تو یہ رات دن کا راگ بھیرویں مت سنایا کریں ، سن سن کر ڈیپریشن ھو گیا ھے ،،
والدین بچے میں نفرت بہت پہلے سے بھر چکے ھوتے ھیں ،، جب اس کی شادی ھوتی ھے اور وہ کمانے لگتا ھے تو والدین سے اس کا رویہ سرد مہری کا ھوتا ھے ،جس سے سمجھا یوں جاتا ھے گویا کہ آنے والی نے کان بھرے ھیں ، ورنہ ھمارا چاند تو ایسا نہیں تھا ،، الغرض والدین سب کچھ داؤ پر لگا کر ، اپنی جوانی کی قربانی دے کر صرف اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے بازی ھار جاتے ھیں ،، پھر جو بیٹے تابعدار ھوتے ھیں والدین خواھشات کا ایسا بار ان پر ڈالتے ھیں کہ وہ اپنے بچوں کے حقوق پورے کرنے سے عاجز آ جاتا ھے ،، یوں گھر کے اندر ایک جنگ شروع ھو جاتی ھے جب بیوی اپنے بچوں کا حق بھی پیچھے جاتے دیکھتی ھے ،، والدین ابھی بھی یہی گردان کر رھے ھوتے ھیں کہ ھم نے اتنا لگایا ھے اور اتنا کھپایا ھے ،لہذا سب کچھ ھمارا ھے ،، اور حدیث کوٹ کی جاتی ھے کہ تو اور تیرا مال تیرے والد کے ھو ،، جبکہ شریعت میں اولاد کی موجودگی میں چھٹا حصہ والد کا ھے اور چھٹا حصہ ماں کا ھے بیوی کو اٹھواں حصہ ملتا ھے اور باقی اولاد کا ھے ،مگر اس حدیث کو بیان کر کے اولاد کا حق بھی مار لیا جاتا ھے،،

والد صاحب بیٹیوں کی شادی کے لئے 10 لاکھ اور اٹھارہ لاکھ مانگتے ھیں ،، پلاٹ اور مکان کی قسطیں الگ ھیں ،، گویا پوری کوشش کی جاتی ھے کہ کمانے والے بیٹے کو ھینڈ ٹو ماؤتھ رکھا جائے اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کا کچھ بھی نہ بنا سکے ،، بیٹا اپنے بچے پاکستان بھیج کر والدین کے تقاضے پورے کرے تو وھاں اس کے بچے بیمار ھو جائیں تو کوئی اسپتال لے جانے کا روادار نہیں ھوتا ،، بیٹا پیارا ھے اور اس کی بیوی اور اولاد سے دشمنی ھے ،، بیٹا ذھنی مریض بن جاتا ھے والدین اس کا پاکستان ھیں اور اولاد اس کی ھندوستان بنا دی جاتی ھے جن کی خدمت کر کے وہ والدین کا غدار قرار پاتا ھے ،،

پاکستان جاتا ھے تو گھریلو سیاست سے ماحول کو آلودہ کر دیا جاتا ھے ،عین اس وقت جب کھانا لگ چکا ھے ، بچے بیٹھے ھوئے ھیں کہ بہن یا بھانجی کا فون آ جائے گا کہ کھانا ھمارے ساتھ کھانا ھے ، اور وہ بھی سب کچھ لگا لگایا بچوں کے سامنے پڑا رہ جاتا ھے اور وہ بھانجیوں کے ساتھ کھانے چلا جاتا ھے ،، بیوی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ھے اور بہن بھائی کو گھر بلا کر بغلیں بجا رھی ھوتی ھے اور اس ڈھگے کو اس سیاست کی کوئی سمجھ نہیں لگتی ،، اس اولاد میں بھی پھوپھو اور چاچو اور دادا دادی کے خلاف نفرت بھرتی چلی جاتی ھے جو عموماً یہ سمجھا جاتا ھے کہ ان کی ماں بھرتی ھے جبکہ اصل میں باپ اور ددھیال کا رویہ ان میں زھر بھرتا ھے ،،

اب جب باری آتی ھے رشتے ناتوں کی تو پھر ایک دوسرے کے یہاں رشتے کرنے کا امکان ختم ھو چکا ھوتا ھے ،، اور دونوں فریق رشتے باھر ڈھونڈتے پھرتے ھیں ،، دادا دادی اپنی ھی اولاد کو ایک دوسرے کا اس قدر دشمن بنا دیتے ھیں اپنی سیاست کی وجہ سے کہ مزید رشتے داری ممکن ھی نہیں رھتی ، ھر فریق دوسرے سے بدکتا ھے کہ یہ میری بیٹی سے بدلے لے گا ،، اور ایک فریق کہتا ھے کہ انہوں نے پہلے میرا شوھر ورغلائے رکھا تھا اب میں بیٹا ان کو کیسے سونپ دوں ،،

الغرض پاکستان میں برادری سسٹم صرف شناختی کارڈ مین باقی ھے ،، عملی طور پر اپنا وجود کھو چکا ھے ،، کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہی ھے ،،

12/06/2021
04/06/2021

ایک جانب حامد میر غدار کی حمایت میں میجر گورو اور بھارتی میڈیا اتاولا ہوا جا رہا ہے تو دوسری طرف پاکستان سے حامد میر جعفر خود بھارت کو پاکستان کی شکایت لگانے اور اپنی مظلومیت کا رونا رونے کے لیے بھارتی اخبار میں کالمز لکھ رہا ہے.

ٹویٹ میں غدار کا کہنا ہے کہ
"میں اتنا ذیادہ کیوں بولا؟ کیونکہ میں بہت جھیل چکا ہوں، مجھ پر دو مرتبہ قاتلانہ حملہ ہوا، دو مرتبہ میری جاب گئی، میں قتل اور اغواء کے جھوٹے کیسز کا سامنا کیا، میں نے گستاخی کے جھوٹے مقدمے جھیلے اپنی صحافت کی وجہ سے.

بےشرم و بےغیرت انسان جھوٹے مقدمے نہیں تم نے جو بےشرمیاں کی ہیں ان کی وجہ سے بنے مقدمے، جھوٹ، غداری، بیرونی فنڈنگ، سی آئی اے اور بلیک واٹر سے یارانے، دہشتگردوں کو مسنگ پرسن ثابت کرنے اور لوگوں کی عزتیں اچھالنے پر بنے.

بےشرم انسان قاتلانہ حملے کرنے والے، جن پہ تم الزامات لگا رہے ہو تمھیں اگر واقعی میں قتل کرنا چاہتے تو دہائیوں پہلے کر چکے ہوتے اور آج تمھارا نام بھی لینے والا کوئی نہ ہوتا، جاب پہلے بھی تمھاری بےغیرتی کی وجہ سے گئی اور اب بھی، جب چینل نے تم سے تمھارے بیان کی وضاحت مانگی تب اس نے کہا میں وضاحت نہیں دونگا ورنہ مجھے پیچھے ہٹنا پڑے گا اور شرمندگی اٹھانا پڑے گی اس وجہ سے جیو نے اسے کک آؤٹ کیا.

23/05/2021
20/05/2021

ہم اچھے مشوروں کے ذریعہ آپ کے لئے پراپرٹی بیچنے اور خریدنے کے لئے یہاں موجود ہیں ، آج ہی ہمارے دفتر آئیں اور مناسب خدمت حاصل کریں۔ یا کال کرے۔
Come Inbox, Like and Follow this page Usama Estate Advisor

بلمقابل: مکی روڈ، سیمنالہ والہ، کھیالی، رانا عطا آٹوز کے قریب گوجرانوالہ
------------------------------------------------------------------------

17/05/2021
16/05/2021

دور حاضر کا ایک بڑا چیلنج " " یعنی بڑھتی ہوئی دوریاں ہیں، گھر میں والدین اور اولاد کے درمیان، اسکول میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان، معاشرہ میں بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان، اور دینی جماعتوں میں بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان۔

ان دوریوں کو قربتوں میں بدلنا ضروری ہے، ورنہ رفتار کا فرق سمتوں اور منزلوں کا فرق بن جائے گا، اور یہ وہ نقصان ہو گا جس کی ذمہ داری سب پر عائد ہو گی۔

قرآن مجید میں بڑوں کی چھوٹوں سے دوستی اور قربت کے بڑے زبردست مناظر ہیں۔ اور ہر منظر میں ان بڑوں کے لئے بڑا سبق ہے جو اپنے چھوٹوں سے دور ہو گئے، اتنا دور کہ ان کو اس کی خبر نہیں ہے کہ ان کے چھوٹے کس سمت میں سفر کر رہے ہیں، کن مشاغل میں بسر کر رہے ہیں اور کیا خواب دیکھتے ہیں۔

ایک منظر خانہ کعبہ کی تعمیر کا ہے، جس میں ایک بوڑھا باپ ابراہیم علیہ السلام اور ایک جوان بیٹا اسماعیل علیہ السلام مل کر دیواریں اٹھا رہے ہیں۔ دونوں میں فکری اور قلبی ہم آہنگی اتنی ہے کہ ایک ہی تمنا، ایک ہی خواب اور لفظ بہ لفظ ایک ہی دعائیں۔

دوسرے منظر میں بیٹا یوسف علیہ السلام خواب دیکھتا ہے اور سب سے پہلے اپنے ابا کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔ ابا خواب کو غور سے سنتے ہیں، اور خواب کی عملی تعبیر کے سلسلے میں فکر مند ہو جاتے ہیں۔

تیسرے منظر میں باپ ابراہیم علیہ السلام خواب دیکھتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہا ہے، باپ اپنا خواب بلا جھجک اپنے بیٹے کو سناتا ہے اور بیٹا اس خواب کی تعبیر کی خاطر اپنی گردن پیش کر دیتا ہے۔

چوتھے منظر میں ماں اپنے بیٹے موسٰی علیہ السلام کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیتی ہے، اور پھر پورا مشن اپنی بیٹی کے حوالے کر دیتی ہے، جو بہترین طریقے سے اس مشن کو انجام دیتی ہے۔ ماں بیٹی پر اعتماد کرتی ہے، اور بیٹی اس اعتماد کی لاج رکھ لیتی ہے۔

لازم ہے کہ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان اتنا گہرا رشتہ ہو کہ بڑے چھوٹوں کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر جیسے بڑے بڑے کام انجام دیں، مل کر گھمبیر ترین مسائل کے حل تلاش کریں۔ بڑے اپنے خوابوں میں چھوٹوں کو شریک کریں، اور چھوٹے اپنے خواب بڑوں کو بلا جھجک بتا سکیں۔

نصیحت کا موقع آئے تو بڑے چھوٹوں کو نصیحت بھی کریں، لیکن اس طرح جیسے لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے تھے۔ سمجھداری، حکمت، محبت اور پیار بھری نصیحتیں۔ کہ کوئی نصیحت بار خاطر نہ ہو۔ چھوٹے بھی موقع آنے پر بڑوں کو ضرور نصیحت کریں، لیکن احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے، جس طرح بیٹے ابراہیم نے اپنے باپ کو کی تھی، احترام اور خیر خواہی کا پیکر ۔

یہ تبھی ہو سکے گا جب بڑے چھوٹوں کے ہم درد، ہم راز اور زندگی کے ہم سفر بلکہ خوابوں کے ہم نظر بن جائیں گے ۔

27/04/2021

Do Mention, Who is he?

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu & Whatsapp posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Urdu & Whatsapp:

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Want your business to be the top-listed Travel Agency?

Share