Discover Pakistan

  • Home
  • Discover Pakistan

Discover Pakistan Pakistan is full of breathtaking locations that will make you fall in love with this country all over again.
(3)

If you are a tourist or love traveling then you must compile a list of places you plan to visit next in your life.

جسم میں رگوں کی مانند پسو کونز سے اترتا دریائے ہنزہ کا خوبصورت نظارہPhoto by .seeru
18/12/2022

جسم میں رگوں کی مانند پسو کونز سے اترتا دریائے ہنزہ کا خوبصورت نظارہ
Photo by .seeru

03/12/2022

Aerial view of Skardu , The Gate way to Mighty Karakoram Peaks Pakistan 🇵🇰❤️

گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ قراقرم اور دوسری طرف ہمالیہ کے پہاڑوں میں جڑا ایک دلکش نگینہ ہے۔Photo by
02/12/2022

گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ قراقرم اور دوسری طرف ہمالیہ کے پہاڑوں میں جڑا ایک دلکش نگینہ ہے۔
Photo by

منی مرگ - وادئ استورمنی مرگ جنت تو نہیں لیکن جنت نظیر ضرور ہے مِنی مرگ۔۔۔ چلم چوکی سے برزل ٹاپ 12 کلومیٹر ہے، برزل ٹاپ ک...
06/10/2022

منی مرگ - وادئ استور

منی مرگ جنت تو نہیں لیکن جنت نظیر ضرور ہے مِنی مرگ۔۔۔
چلم چوکی سے برزل ٹاپ 12 کلومیٹر ہے، برزل ٹاپ کی اونچائی 13800، فٹ ھے استور اور برزل ٹاپ کی دوسری طرف تقریباً 15 کلومیٹر اترائی پہ مِنی مرگ موجود ھے منی مرگ جہاں گرمی ہو تو سبزے سے ڈھکے پہاڑ نرم گھاس سے لہلہاتے میدان اور کھیت خوبصورت میٹھے پانی کے جھرنے اور چشمے نغمے گاتی ہوا آپ کی آنکھوں کو جما کے رکھ دے گی سردی ہو تو سفید رنگ کی چادر اوڑھے پہاڑ برف پوش وادی گھروں کی چھتوں پہ کٸ کٸ فٹ برف گہری خاموشی اور بادل آپ کے سر پہ ایسے جیسے کی شفیق کا سایہ ہو واقعہ ہی جنت نہیں مثال جنت منی مرگ۔ یہ وادی 1948 سے پہلے سرینگر اور گلگت بلتستان کے درمیان تجارت کی اہم گزر گاہ تھی اب بارڈر پہ ہونے کی وجہ سے سخت سیکورٹی ہے آپ کو اس جنت کو دیکھنے کے لیے کرنا یہ ہے کہ اپنے قومی شناختی کارڈ کو ساتھ رکھیں اپنی گاڑی ہو تو 4×4 ہو باٸیک ہو تو 150 ہو تو پھر مزہ دوبالا ہو گا نہیں تو جیپ بکنگ کروانی پڑے گی اور اس وادی سے لطف اندوز ہونا ہوگا۔ آپ ایک مرتبہ اس وادی کو دیکھ آٸیں پھر خواب میں بھی اسی کو دیکھیں گے۔

Skardu RoadNear DambudasPc:Gohar Balti
15/09/2022

Skardu Road
Near Dambudas
Pc:Gohar Balti

مانسہرہ سرن ویلی کا سیاحتی مقام مُنڈیMansehra heart of Hazara
07/09/2022

مانسہرہ سرن ویلی کا سیاحتی مقام مُنڈی
Mansehra heart of Hazara

Kel to Taobat road is in progress. Earlier it was a bumpy jeep road in Neelum Valley, Kashmir 🇵🇰
01/09/2022

Kel to Taobat road is in progress. Earlier it was a bumpy jeep road in Neelum Valley, Kashmir 🇵🇰

کالا باغ ڈیم! کیا حقیقت، کیا افسانہپاکستان میں کئی چھوٹے بڑے دریا ہے۔ یہ ایک زرعی ملک ہے۔ جی ڈی پی کا 23 فیصد زراعت پر ہ...
26/08/2022

کالا باغ ڈیم! کیا حقیقت، کیا افسانہ

پاکستان میں کئی چھوٹے بڑے دریا ہے۔ یہ ایک زرعی ملک ہے۔ جی ڈی پی کا 23 فیصد زراعت پر ہے۔ 42 فیصد لوگوں کا روزگار زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً 150 ڈیم ہیں۔ انہیں بجلی کی پیداوار اور آبپاشی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈیم دراصل دریا کے راستوں میں بنائے جاتے ہیں۔ انکے ساتھ ایک مصنوعی جھیل ہوتی ہے۔ جن میں اونچے علاقوں سے آنے والے پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ پانی جب اونچائی سے نیچے آتا یے تو اس میں موجود پوٹینشل انرجی ، حرکت کے کام آتی ہے۔ اسے ڈیموں میں موجود ٹربائنز کو حرکت میں لا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے۔
اسکے علاوہ ڈیم سے جُڑی کینالز میں ضرورت کے مطابق پانی چھوڑا جاتا ہے جس سے مخلف علاقوں کو پانی دے کر سیراب کیا جاتا ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا تربیلا ڈیم، دریائے سندھ پر خیبرپختونخوا کے علاقے صوابی کے قریب تربیلا میں ہے۔ اس ڈیم کی تعمیر 60 کی دہائی میں شروع ہوئی اور تین مراحل میں 1976 میں مکمل ہوئی۔ یہ ڈیم تقریبآ 35 سو میگاواٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے (مستقبل میں اسکی صلاحیت 6 ہزار میگاواٹ تک متوقع یے)۔ یہ ڈیم 1976 سے اب تک ملکی معیشت میں کئی ارب ڈالرش کا اضافہ کر چکا ہے اور کئی علاقوں کو سیلاب سے بچا چکا ہے۔

مگر رکیے 1976 میں اور ڈیم نے بھی مکمل ہونا تھا۔ اس ڈیم کا نام تھا کالا باغ ڈیم۔ پاکستان میں کالا باغ ڈیم ہمیشہ سے متنازع اور زیرِ بحث رہا ہے۔ اس ڈیم کے نہ بننے کے پیچھے کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں مگر حقیقت کیا ہے؟ اسکے لئے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا۔

بات شروع ہوتی ہے 1953 سے یعنی آج سے تقریباً 60 سال پہلے۔ ماہرین کی ایک ٹیم پاکستان میں ڈیم بنانے کے حوالے سے آتی ہے اور حکومت کو رپورٹ دیتی ہے کہ سب سے موزوں مقام جہاں ڈیم کی ضرورت ہے وہ دریائے سندھ پر میانوالی کے قریب کالا باغ ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس ڈیم کو 1976 تک مکمل ہو جانا چاہئے تھا تاکہ پاکستان کو ایندہ آنے والے خطرات سے بچایا جا سکے۔

اسکے بعد واپڈا نے پاکستانی اور بیرونی ممالک کے ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنائی جس نے کالا باغ ڈیم کی فیزیبلیٹی رپورٹ مرتب کر کے صوبوں کو پیش کی۔ جس پر اول صوبوں کی طرف سے کوئی اعتراض نہ اٹھا۔مگر ایوب خان کے دور میں کالا باغ پر تربیلا ڈیم کو فوقیت دی گئی۔ تربیلا ڈیم کا بننا بھی خوش آئند تھا۔ کیونکہ یہ ڈیم بھی ملک مے کئی مسائل کو حل کرتا تھا۔

1980 میں حکومت پاکستان کی درخواست پر ورلڈ بینک کے ماہرین کی ٹیم پھر سے پاکستان آئی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ، معاشی اور تکنیکی
حوالے سے محفوظ اور کارآمد پراجیکٹ ہے۔

1987 میں اسکی تعمیر کا تخمینہ لگایا گیا جو اس وقت کے مطابق تقریبا 3.5 ارب روپے تھا اور یہ ڈیم چھ سال میں مکمل اور اپریل 1993 تک فعال ہونا تھا۔

مگر اُس وقت کی حکومت اس پر سیاسی جماعتوں اور صوبوں کی مخالفت پر کوئی پیش رفت نہ کر پائی۔
1997 میں نواز حکومت نے اس منصوبے پر پیش رفت چاہی تو ایک بار پھر سے صوبوں کی طرف سے اعتراضات اُٹھے۔

پھر 2000 کے بعد مشرف دورِ حکومت میں اس پر بحث ہوئی۔ اسکی دوبارہ سے فیزیبلیٹی رہورٹ بنائی گئی جس کے مطابق کالا باغ ڈیم سے تقریباً 36 سو میگاواٹ بجلی اور کئی لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو سکتی تھی۔مگر صوبوں کے اعتراض سے یہ معاملہ پھر سے کھٹائی میں پڑ گیا۔

مانا جاتا ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے کافی حد تک بجلی کے بحران، آبپاشی اور سیلاب کے نپٹا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو کالا باغ ڈیم پر صوبوں اور سیاسی جماعتوں کو اعتراض کیا ہے اور اس میں کتنی سچائی ہے؟

اس ڈیم پر سب سے زیادہ دو بڑے صوبوں خیبر پختوا اور سندھ کو خدشات ہیں۔اسکے علاوہ بلوچستان کو بھی چند خدشات ہیں مگر وہ ذیلی ہیں۔ محض پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جسے اس ڈیم کے بننے پر کوئی اعتراض نہیں۔

اس ڈیم کی تعمیر سے پنجاب کی 6 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین سیراب ہو سکتی ہے۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے صوبوں کو یہ بھی اعتراض ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے پنجاب کی اُجارہ داری مزید بڑھے گی۔

اکالا باغ ڈیم پر کئی اعترضات جیسے کہ زیادہ بارشوں کی صورت پانی کے بلاک ہونے کی صورت واہس پیچھے کی طرف آنے اور نوشہرہ اور گرد و نواح کے علاقوں کا ڈوبنا غیر منطقی ہے کیونکہ اس حوالے سے کئی کمپیوٹر ماڈلزمیں یہ دیکھا گیا یے کہ بہتر ڈیزاین اور اونچائی کے فرق سے یہ مسئلہ نہیں ہو گا اسکے علاوہ دریائے سوات پر زیرِ تعمیر منڈا ڈیم بھی سیلاب کی پیش آنے سے بچاؤ فراہم کرے گا۔ مگر کئی اور اعتراضات جیسے کہ سندھ کا صحرا میں بدلنا اور دیگر صوبوں کو پانی کی منصفانہ تقسیم ، بے گھر ہوئے افراد کو بہتر منتقلی کے ہیکجز، ماحولیاتی نقصانات وغیرہ اہم مسائل ہیں جو تکنیکی نہیں بلکہ قانونی، معاشی اور سیاسی ہیں۔ جن پر نہ صرف صوبوں کو بلکہ پوری قوم کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔

اس عمل کو مزید شفاف بنانے کے لئے صوبے اپنے اپنے ماہرین کی ٹیم جو تکنیکی، معاشی ماحولیاتی اور دیگر امور پر عبور رکھتی ہو، کی باقاعدہ نگرانی میں بین الصوبائی کمیٹی تشکیل دے سکتی ہے۔ جسکی سفارشات صوبوں کی اسمبلیوں اور صوبوں کی عوام کے سامنے رکھے جائیں اور انکی منظوری کی صورت اس پر عمل درآمد وفاق کی ذمہ داری ہو۔

کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر تقریباً 6.12 ارب ڈالر کا خرچ اٹھے گا مگر 2014 کی نسٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق اس سے ہر سال ملک کو توانائی کی مد میں 4 ارب ڈالر جبکہ بہت سی زمین زیرِ کاشت آنے سے مزید اربوں ڈالر کا فائدہ ہو گا۔جس سے ملک میں آئندہ آنے والے سیلاب خوراک اور پانی کی قلت کے مسائل کو کم کیا جا سکے گا۔
مگر ضرورت شفافیت، عوام کے اعتماد، مضبوط سیاسی سوچ اور صوبوں میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کی ہے۔

Passu Cones Hunza
23/08/2022

Passu Cones Hunza

Beautiful weather murree and nathia Gali🌲🥰
20/08/2022

Beautiful weather murree and nathia Gali🌲🥰

منی مرگ کی دہلیز پر برزل ٹاپ سے اترتے ہوے منی مرگ کی خوبی ہے جتنی بار بھی دیکھو پہلے سے زیادہ خوبصورت لگتا ہے
13/08/2022

منی مرگ کی دہلیز پر
برزل ٹاپ سے اترتے ہوے
منی مرگ کی خوبی ہے جتنی بار بھی دیکھو پہلے سے زیادہ خوبصورت لگتا ہے

جگمگاتی ہوئی فیصل مسجدPhoto by
11/08/2022

جگمگاتی ہوئی فیصل مسجد
Photo by

جاگران ریزورٹ، کٹن ویلی، آذاد کشمیر۔۔🌧🍁Beautiful Jagran Resort weather Yesterday 💕Almost 78 km from  , Jagran Resort is ...
05/08/2022

جاگران ریزورٹ، کٹن ویلی، آذاد کشمیر۔۔🌧🍁

Beautiful Jagran Resort weather Yesterday 💕

Almost 78 km from , Jagran Resort is located in Valley. Road leading to resort is metaled with minor patches. Any kind of vehicle can be taken there Resort is fully furnished and most luxurious resort in whole Valley. It has more than 18 rooms and family huts.
SWAT Valley - The Switzerland of Pakistan

Photo by Ali Rizwan Khwaja.

Aerial view of Hazara Expressway ❤️Abbottabad Tunnel-1, Hazara Motorway as seen from the opposite sarban hill.
27/07/2022

Aerial view of Hazara Expressway ❤️
Abbottabad Tunnel-1, Hazara Motorway as seen from the opposite sarban hill.

Collecting apricots in Kharkoo Valley📷 Gohar Balti
20/07/2022

Collecting apricots in Kharkoo Valley
📷 Gohar Balti

Guess the location?
19/07/2022

Guess the location?

Soq Valley Upper Kachura Skardu Baltistan Pakistan Courtesy: Samra Khan
12/07/2022

Soq Valley Upper Kachura Skardu Baltistan Pakistan
Courtesy: Samra Khan

گھنول گاؤں، بالاکوٹ🏡🌲💞Ghanool Village, Balakot 🏡🌲💞(On way back from Makra peak - Manna Meadows)  is a village and union ...
07/07/2022

گھنول گاؤں، بالاکوٹ🏡🌲💞
Ghanool Village, Balakot 🏡🌲💞
(On way back from Makra peak - Manna Meadows)

is a village and union council of District in the Khyber Pakhtunkhwa province of . It is located in Balakot tehsil and lies in an area that was affected by the 2005 .UC Ghanool has four village councils i.e. , Sangar-1, Sangar-2 and .
is most populous area of Ghanool with in majority.Paya, which is also known as and , is a meadow at the height of more than 9000 feet the area which is full of thick pine forests/wild alpine flowers and Mountain which is 12743 feet above the sea level is also part of .
⠀⠀⠀⠀⠀⠀⠀⠀⠀
📸 .seerufil.arz

Captivating Scenery and Charming Weather of JALKHAD, Naran Road, Kpk, Pakistan 🇵🇰                                       ...
06/07/2022

Captivating Scenery and Charming Weather of JALKHAD, Naran Road, Kpk, Pakistan 🇵🇰






Thandinani Abbottabad 🌲
05/07/2022

Thandinani Abbottabad 🌲

In an unfortunate incident, a tourist is missing after falling from the famous Hussaini Suspension Bridge in Gojal, Hunz...
04/07/2022

In an unfortunate incident, a tourist is missing after falling from the famous Hussaini Suspension Bridge in Gojal, Hunza.

Assistant Commissioner Gojal has sealed the bridge till completion of police investigation regarding the incident.

According to local Administration, the missing tourist was a resident of Sindh.(Source: Pamirs Time)

Passu Cones Hunza📍 Gilgit Baltistan 🇵🇰
03/07/2022

Passu Cones Hunza
📍 Gilgit Baltistan 🇵🇰

جو شخص گلگت جائے اور (شپ شرو) کھائے بغیر واپس آجائے، تو اسے گلگت کے سنگلاخ پہاڑ، بنجر وادیوں کے بیچ و بیچ سر سبز چراہ گا...
30/06/2022

جو شخص گلگت جائے اور (شپ شرو) کھائے بغیر واپس آجائے، تو اسے گلگت کے سنگلاخ پہاڑ، بنجر وادیوں کے بیچ و بیچ سر سبز چراہ گاہیں، یخ بستہ و گرم ہوائیں، حسینی سسپنشن برج، عطا آباد جھیل کا پرسکون پانی، خنجراب کی منجمد کردینے والی یخ بستہ ہوائیں اور خاص طور پر دریاؤں کا جد امجد( دریائے سندھ) کبھی معاف نہیں کرے گا۔

Post credit: Zia Ur Rehman Akhir.

شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم ...
29/06/2022

شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !

اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔
ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔
یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!
کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔
یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"
شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔
تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔کوہستان کے بعد چلاس کا علاقہ شروع ہوتا ہے جوکہ سنگلاخ پہاڑوں پر مشتمل علاقہ ہے۔ چلاس ضلع دیا میر کا ایک اہم علاقہ ہے اسکو گلگت بلتستان کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ ناران سے بذریعہ بابو سر ٹاپ بھی چلاس تک پہنچا جا سکتا ہے۔ چلاس کے بعد شاہراہ قراقرم نانگا پربت کے گرد گھومنے لگ جاتی ہے اور پھر رائے کوٹ کا پُل آجاتا ہے یہ وہی مقام ہے جہاں سے فیری میڈوز اور نانگا پربت بیس کیمپ جانے کے لیے جیپیں کرائے پر ملتی ہیں۔
رائے کوٹ کے بعد نانگا پربت, دریائے سندھ اور شاہراہ قراقرم کا ایک ایسا حسین امتزاج بنتا ہے کہ جو سیاحوں کو کچھ وقت کے لیے خاموش ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اس کے بعد گلگت ڈویژن کا آغاز ہوجاتا ہے جس کے بعد پہلا اہم مقام جگلوٹ آتا ہے جگلوٹ سے استور, دیوسائی اور سکردو بلتستان کا راستہ جاتا ہے۔ جگلوٹ کے نمایاں ہونے میں ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں پر دنیا کے تین عظیم ترین پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ, کوہ ہندوکش اور قراقرم اکھٹے ہوتے ہیں اور دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں تین بڑے سلسلے اکھٹے ہوتے ہوں۔
جگلوٹ کے بعد شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت شہر کا آغاز ہوتا ہے جو تجارتی, سیاسی اور معاشرتی خصوصیات کے باعث نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ نلتر, اشکومن, غذر اور شیندور وغیرہ بذریعہ جیپ یہیں سے جایا جاتا ہے۔
گلگت سے آگے نگر کا علاقہ شروع ہوتا ہے جس کی پہچان راکا پوشی چوٹی ہے۔ آپکو اس خوبصورت اور دیوہیکل چوٹی کا نظارہ شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ دیکھنے کو ملے گا۔
نگر اور ہنزہ شاہراہ قراقرم کے دونوں اطراف میں آباد ہیں۔ یہاں پر آکر شاہراہ قراقرم کا حُسن اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے میرا نہیں خیال کہ شاہراہ کے اس مقام پر پہنچ کر کوئی سیاح حیرت سے اپنی انگلیاں دانتوں میں نا دباتا ہو۔ "پاسو کونز" اس بات کی بہترین مثال ہیں۔
ہنزہ اور نگر کا علاقہ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ بلند چوٹیاں, گلیشیئرز, آبشاریں اور دریا اس علاقے کا خاصہ ہیں۔ اس علاقے کے راکاپوشی, التر, بتورہ, کنیانگ کش, دستگیل سر اور پسو نمایاں پہاڑ ہیں۔
عطاآباد کے نام سے 21 کلومیٹر لمبائی رکھنے والی ایک مصنوعی لیکن انتہائی دلکش جھیل بھی ہے جو کہ پہاڑ کے گرنے سے وجود میں آئی۔
ہنزہ کا علاقہ "سست" پاک چین تجارت کے حوالے سے مشہور ہے اور یہ چائنہ سے درآمد اشیاء کی مارکیٹ ہے۔
سست کے بعد شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں آخری مقام خنجراب پاس آتا ہے۔
سست سے خنجراب تک کا علاقہ بے آباد, دشوار پہاڑوں اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ خنجراب پاس پر شاہراہ قراقرم کی اونچائی 4,693 میٹر ہے اسی بنا پر اسکو دنیا کے بلند ترین شاہراہ کہا جاتا ہے۔ خنجراب میں دنیا کے منفرد جانور پائے جاتے ہیں جس میں مارکوپولو بھیڑیں, برفانی چیتے, مارموٹ, ریچھ, یاک, مارخور اور نیل گائے وغیرہ شامل ہیں۔
اسی بنا پر خنجراب کو نیشنل پارک کا درجہ مل گیا ہے۔
اس سڑک پر آپکو سرسبز پہاڑوں کے ساتھ ساتھ پتھریلے و بنجر پہاڑی سلسلے اور دیوقامت برفانی چوٹیوں, دریاؤں کی بہتات, آبشاریں, چراگاہیں اور گلیشیئر سمیت ہر طرح کے جغرافیائی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں جو نا صرف آپکا سفر خوبصورت بناتے ہیں بلکہ آپ کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔
شاہراہِ قراقرم محض ایک سڑک نہیں ہے
بلکہ یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے,
یہ تہذیب و تمدن کی امین ہے, یہ پسماندگی سے نکلنے کا زریعہ ہے, یہ ہر سال ہزاروں سیاحوں کی سیاحت کی پیاس بجھانے کا آلہ کار ہے, یہ محبت و دوستی کی علامت ہے, یہ سینکڑوں مزدوروں کے لہو سے سینچی وہ لکیر ہے جس نے پورے گلگت بلتستان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنیوں کے سفر پر ڈالا۔
بلاشبہ یہ شاہراہ ایک شاہکار ہے۔

منقول

گلمیت، ہنزہ ویلی، گلگت بلدستان۔۔🌿🍁Bird’s Eye view of Gulmit, Upper Hunza Valley 🦅(Attabad lake, Shishkat & Gulmit all in...
27/06/2022

گلمیت، ہنزہ ویلی، گلگت بلدستان۔۔🌿🍁
Bird’s Eye view of Gulmit, Upper Hunza Valley 🦅
(Attabad lake, Shishkat & Gulmit all in one frame)

also known as Gul-e-Gulmit, is a town that serves headquarter of the , also known as Upper , in the Baltistan region of Pakistan. Gulmit is a centuries-old historic town, with mountains, peaks and glaciers.

Photo by Asmar Hussain
https://instagram.com/asmarsphotography

خپلو سیر کو آنے والے مہمانوں سے درخواست ہے کہ وہ کم سے کم 2 دن خپلو میں قیام  ضرور کریں- سیر کا مطلب یہ نہیں کہ سوشل میڈ...
24/06/2022

خپلو سیر کو آنے والے مہمانوں سے درخواست ہے کہ وہ کم سے کم 2 دن خپلو میں قیام ضرور کریں- سیر کا مطلب یہ نہیں کہ سوشل میڈیا پر دیکھی ہوئی چند جگہوں کو ہاتھ لگا کر واپس آئے، خپلو بہت ہی خوبصورت اور وسیع علاقہ ہے جبکہ 90 فیصد عوام صرف خپلو فورٹ، چخچن مسجد دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں، 3 گھنٹے سفر کر کے یہی کچھ دیکھ کر واپس جانا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ آپ خپلو نا ہی جائیں، خپلو کی اصل خوبصورتی ھے
سیاچن کے خوبصورت پھاڑ
ہوشے ویلی
تھلے ویلی
مشہ بروم
کوند س گرم چشمہ
سیلیں میڈو
کھرفق جھیل
وغیرہ







The soothing light of the setting sun filtering through the giant trees of Neelum Valley.Captured somehere near Karimaba...
13/06/2022

The soothing light of the setting sun filtering through the giant trees of Neelum Valley.

Captured somehere near Karimabad on the way back from Taobat to Kel.

اشو فارسٹ، کالام ویلی، سوات۔۔🌲🚙The beauty of Ushu Forest of Kalam valley Nowadays 💕  forest is situated 8km from   and 1...
13/06/2022

اشو فارسٹ، کالام ویلی، سوات۔۔🌲🚙
The beauty of Ushu Forest of Kalam valley Nowadays 💕

forest is situated 8km from and 123km from , at the height of 2,300 meters.

valley is known for its beautiful cloudy weather and rainy forest. Tourist attraction lake is located 27 kilometers from here.

Photo by Syed Haseeb Gillani

The journey matters more than the destination.
13/06/2022

The journey matters more than the destination.

آپ اسلام آباد ہیں اور اگر آپ کا بجٹ کم ہے اور آپ دو دن سیر کے لئے جانا چاہتے ہیں تو وادی لیپہ کے لئے نکل جائیں۔ وادی لیپ...
13/06/2022

آپ اسلام آباد ہیں اور اگر آپ کا بجٹ کم ہے اور آپ دو دن سیر کے لئے جانا چاہتے ہیں تو وادی لیپہ کے لئے نکل جائیں۔ وادی
لیپہ کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں۔

1- جگہ انتہائی خوبصورت اور ٹھنڈی ہے۔ جون کے مہینے میں بھی دن کے وقت گرم کپڑے اور رات کو کمبل یا رضائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔.

‏2- اس جگہ ٹورسٹ کا بالکل رش نہیں ہوتا اور 4-5 گیسٹ ہاؤس دستیاب ہیں جو آپ کو بہت ہی مناسب دام پہ رہائش اور کھانا عزت سے فراہم کریں گے۔

3- یہاں پہنچنے کے لئے بائیک، کار، کیری ڈبہ، ہائی ایس یا کوسٹر کسی بھی چیز کا انتخاب کیا جا سکتا ہے، روڈ مکمل کارپٹ ہے اور وادی لیپہ کے آخری گاوں تک آپ اپنی گاڑی پہ با آسانی پہنچ سکتے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ پہ جانا چاہیں تو وہ بھی با آسانی دستیاب ہے۔

4- یہاں کے لوگ انتہائی ملنسار اور با اخلاق ہیں۔
‏۔۔۔یہاں کے قابل دید مقامات کی فہرست درج ذیل ہے۔۔۔

‏⁧‫لیپہ_ویلی_ٹاپ‬⁩ ⛰️
🌿وادی لیپا ایک قابل کاشت وادی ہے جو آزاد جموں و کشمیر، پاکستان کے ضلع ہٹیاں بالا میں واقع ہے۔ یہ دارالحکومت مظفرآباد سے تقریباً 83 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اور مظفرآباد اسلام آباد سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وادی نوکوٹ، کاسر کوٹ، داو خان، لیپا اور چنانیاں سیکٹرز میں تقسیم ہے۔


ریشیاں سے لیپہ سفر براستہ برتھواڑ گلی سے جو سب سے پہلا مشہور سیاحتی اور بلند ترین مقام آتا ہے وہ لیپہ ویلی ٹاپ (برتھواڑ گلی ٹاپ) کے نام سے مشہور ہے. ریشیاں سے جب آپ لیپہ کے لیے نکلتے ہیں تو آپ کا سفر بلندی کی جانب شروع ہوتا ہے اور ایک گھنٹے بعد آپ سب سے بلند ترین مقام لیپہ ٹاپ پر پہنچ جاتے ہیں.

Address

Liberty Market, Gulberg 3

54000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Discover Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Discover Pakistan:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Travel Agency?

Share

Must Visit Northern Areas of PAKISTAN at least Once

“Discover Pakistan” is promoting tourism in Pakisan. It is not funded page by anyone. We just want to explore the hidden beauty of pakistan with people. “If you are continuously worried in your life, have no plan, do not know how to do something, your brain is not supporting, then you must have a tour in hilly areas, just you need to feel nature there for some days.”