DL.Resorts Kumrat

  • Home
  • DL.Resorts Kumrat

DL.Resorts Kumrat Landscape and Astrophotography

اس ماہ کے نئے سرگزشت میں اداکارہ دیبا کی زندگی پر میں نے کچھ بیان کیا ہے. جو مجھے تحقیق سے ملا وہ میں نے لکھا. جس پر مطم...
27/08/2024

اس ماہ کے نئے سرگزشت میں اداکارہ دیبا کی زندگی پر میں نے کچھ بیان کیا ہے. جو مجھے تحقیق سے ملا وہ میں نے لکھا. جس پر مطمئن نہ تھا اس کو میں نے چھوڑ دیا. مقصد یہی تھا کہ ہماری پاکستانی فلمی تاریخ کو مرتب کیا جائے. اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس میں کمی بیشی کی ضرورت ہے تو وہ اپنی رائے ضرور دیں. بہت شکریہ. ندیم

24/04/2024

اللہ نے واضح طور پر کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا ھے اور کچھ کو ممنوع۔ سور، شراب، تکبر، زنا، جوا،حق تلفی، جھوٹ، دھوکہ، چوری۔ ھم سے صرف سور رہ گیا ھے۔
ندیم

بارش رات اور پہلی محبت۔۔۔۔ تیسرا حصہپارٹ 3میرے لیے کتنے شرم کا مقام ہوتا جب کسی کو بھنک بھی پڑ جاتی کہ میں دل ہی دل میں ...
23/04/2024

بارش رات اور پہلی محبت۔۔۔۔
تیسرا حصہ
پارٹ 3
میرے لیے کتنے شرم کا مقام ہوتا جب کسی کو بھنک بھی پڑ جاتی کہ میں دل ہی دل میں تم سے کتنا پیار کرنے لگی ہوں۔ تم سے پیار ہو گیا تو اس میں میرا کیا قصور۔ ایسا تو نہیں کہ جب ہم سوچیں تو یہ ہونے لگتا ہے اور جب سوچنا ختم کر دیں تو یہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ پیار تو پہلے ہو جاتا ہے اور بندہ سوچتا تو بعد میں ہے۔
میں اپنے بارہویں کے پیپر دے کر چھٹیاں گزارنے اپنی بہن کے پاس ائی تھی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ زندگی کا ایک بڑا امتحان میرے سامنے ا کھڑا ہوا ہے۔
پھر مجھ سے ایک ایسی بات ہو گئی جس نے تم کو شرم سے لال پیلا کر دیا۔ سب حیران اور پریشان ہو کر ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے تھے۔ تم ندامت سے سر بھی نہیں اٹھا پا رہے تھے۔ ایسے بیٹھے تھے جیسے قصور تم سے ہوا ہے مجھ سے نہیں۔ میں تم کو اس تھوڑے سے وقت میں کتنا زیادہ حیران کر گئی تھی۔ میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ تم میرے بارے میں کچھ غلط نہ سوچنے لگو۔ مگر مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ابھی تو بتایا ہے کہ پیار پہلے ہوتا ہے اور بندہ بعد میں سوچتا ہے۔
دراصل رات کھانے کے بعد ہم سب گھر والے چولہے کے گرد چٹائیوں پر بیٹھے تھے۔ دادی نے تمہارے بارے میں کہا کہ یہ رات کو میرے کمرے میں سوئے گا۔ تم تو خاموش بیٹھے تھے مگر میں نے جھٹ سے کہا کہ میرے کمرے میں ایک پلنگ خالی پڑا ہے اور یہ بھی وہیں سوئے گا کیونکہ رات اکیلے میں مجھے ڈر لگتا ہے۔ سارے میری بات سن کر حیران رہ گئے کہ میں یہ کیا بول بیٹھی ہوں۔ مگر میں لاپرواہی سے چھت کے نیچے لگے زردبلب کو تکنے لگی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ تم نے بھی اپنا چہرہ اٹھا کر میری جانب دیکھا۔ لمحے کے ہزارویں حصے نے مجھے بتا دیا کہ تمہاری انکھوں میں میرے لیے کچھ ہے اور وہ کچھ پیار کے علاوہ کچھ نہیں۔ مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ محبت کرنا کتنا حسین اور کتنا کٹھن ہے۔ اپ خود کو تو امتحان میں ڈالتے ہیں مگر دوسروں کی زندگی میں بھی ہلچل پیدا کر دیتے ہیں۔
تم نے جب سب کو سکتے کے عالم میں دیکھا تو مجھ پر سے بے لگامی کا سارا بوجھ اتار دیا۔ جب تم نے دادی سے یہ کہا کہ میں اس کے کمرے میں سوؤں گا کیونکہ ایک تو اپ جلدی سو جاتے ہیں اور میں رات کو دیر تک پڑھتا رہتا ہوں ۔اور یہ بھی وجہ دی کہ اس کمرے میں ریڈیو ہے اور میں رات کو گانے سننے کا عادی ہوں۔ تمہاری بات سن کر دادی چپ ہو گئی۔ مجھے کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ سب لوگ تمہاری بات کیوں مان جاتے ہیں۔تمہارے لہجے میں آخر ایسا کیا ہے جو سب کو خاموش کرا دیتا ہے۔
اس رات ہم ایک کمرے میں سوئے ۔ہمارے پلنگ ساتھ ساتھ لگے تھے۔ جب تم کمرے میں آئے تو میری جانب دیکھ بھی نہیں رہےتھے۔ شاید مجھ سے خفا تھے یا شاید شرما رہے ہوگے۔ جب میں نے تم سے کہا کہ کس طرح سے میں نے تم کو بوڑھے لوگوں کی محفل سے بچا لیا ،ورنہ تم کو دادی کے کمرے میں سونا پڑتا۔۔ تم میری یہ بات سن کر بھی خاموش رہے۔
باہر بادل پھر سے برسنے لگے تھے ۔ان کی گھن گرج برآمدے سے ہو کر کمرے میں گونجنے لگتی۔ ساتھ ٹھنڈی ہوائیں بھی ہم دونوں کو کپکپا رہی تھی۔میں نے تم سے کہا بھی کہ دروازہ بند کر دو۔ تم نے آدھا بند کیا اور باقی کا کھلا رہنے دیا۔ ریڈیو پر تعمیل ارشاد پروگرام لگا کر تم رضائی میں گھس گئے ۔اور مجھ سے منہ پھیر کر کسی ناول میں کھو گئے۔تمہاری یہ بے نیازی مجھے بہت بری لگی تھی۔ میں نے سوچا کہ یہ اپنے اپ کو اخر سمجھتا کیا ہے۔ کون سی اس میں ایسی خصوصیت ہے کہ جس پر اتنا اتراتا پھرتا ہے؟۔
جتنی گالیاں میرے دل میں ائی میں نے ساری تم کو دے دی, برا, گندا, احمق,بد شکل اور نہ جانے کیا کیا.
مگر ریڈیو سے پرانے انڈین گانوں کی اواز ائی تو میرا غصہ لمحوں میں پھر سے پیار میں بدل گیا. مجھے یہ تین گانے ابھی تک یاد ہیں،
مان میرا احسان ارے نادان،
یہ رات بھیگی بھیگی یہ مست نظارے،
تم ہی میری مندر تم ہی میری پوجا۔
معلوم نہیں ان گانوں میں کیا سوز چھپا تھا کہ میری انکھیں انسوؤں سے بھر ائیں۔۔ وہ برستی بارش، وہ سرد ہوائیں، وہ بادلوں کی گھن گرج اور وہ تم۔ جیسے مجھ سے کہہ رہے ہو کہ یہ میرا پیار تم پر میرا احسان ہے۔ میں بھی کہتی ہوں احسان ہے مگر پیار جتاؤ تو صحیح۔ اس خوبصورت احساس اشنا کر دو کہ تم مجھے چاہتے ہو۔ میری روح تمہارے ساتھ بادلوں میں سیر کرتی پھر رہی تھی مگر تم پیٹھ کیے ناول میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مجھ سے غافل ہو کر تم اپنی کتاب میں ایسے ڈوبے تھے جیسے مجھ سے بہت دور ہو۔ مگر تم کیا جانتے میرے لاکھ روکنے کے باوجود بھی تم میرے دل میں داخل ہو چکے تھے۔ میں نے سوچا اب میں بھی تم کو سبق سکھاؤں گی۔(جاری ہے)

یہ دو مختلف مقامات ہیں. ایک تصویر غالبا 1960 کے اس پاس کی ہے اور یہ مری کا جی پی او چوک ہے. دائیں جانب روم میں ایک مقام ...
15/04/2024

یہ دو مختلف مقامات ہیں. ایک تصویر غالبا 1960 کے اس پاس کی ہے اور یہ مری کا جی پی او چوک ہے. دائیں جانب روم میں ایک مقام ، سپینش سٹیپس. ،اپ دیکھ رہے ہیں۔ ان دونوں مقامات میں سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اور یہاں پر ہر وقت ٹورسٹ کا رش رہتا ہے. سپینش سٹیپس پر بیٹھے ہیں تو ایک علیحدہ ماحول ہوتا ہے. دنیا بھر کے لاکھوں ٹورسٹ ہر سال روم جاتے ہیں. سپینش سٹیپس پر بیٹھنا ان کی زندگی کا خواب ہوتا ہے. زیادہ تر یہ جوڑوں کی شکل میں اتے ہیں اور یہاں بیٹھ کر اپنی خیالوں کی دنیا میں گم ہو جاتے ہیں. میں یہاں اکیلا ایا تھا. ایک میلے کا سماں تھا. میں ان سیڑھیوں پر سائیڈ سے چڑھتا ہوا اوپر گیا پھر اوپر سے نیچے ایا. ارد گرد دیکھتا رہا کہ ایسا کیا یہاں پر ہے کہ یہ سب لوگ گم سم بیٹھے ہیں ۔یہ کہ یہ فورا ہزاروں سال پرانا ہے یہ سٹیپس ہزاروں سال پرانے ہیں ،یہ ہے اس میں اٹریکشن. اس فوارے کے سامنے ایک پتلی سی گلی چلی جاتی ہے بہت لمبی. اس میں چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں ریسٹورانٹس ہیں گلی میں لوگ گٹار بجا رہے ہیں بہت کچھ کر رہے ہیں. لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں . پھر میں نے یہیں سے ایک بگی پکڑی اور کسی اور جانب نکل گیا.
اب ذرا دوسری تصویر کی جانب اتے ہیں. یہ ہمارا مر ی ہے اور چند سیاح کھڑے ہیں ۔ان کے پیچھے جی پی او چوک ہے ۔جی پی او چوک کی سیڑھیاں دیکھ کر مجھے سپینش سٹیپس یاد اگئے تھے. ورنہ میں تو جی پی ہو جوک کہ تصویر لگا رہا تھا. . مری اور ایبٹ اباد دونوں دو تین سال اگے پیچھے بنے. ایبٹ اباد کی طرح مری کو بھی میجر ایبٹ نے بنایا تھا. اور جی پی او اس کے ساتھ ایک چرچ , سیسل ہوٹل، مال روڈ کچھ ریسٹورانٹس شاپس یہ بنائی گئی تھی انگریزوں کے لیے۔ مری میں پینے کا پانی نہیں ہے تو انگریزوں کے لیے اس وقت پنڈی سے سروں پر پانی لا کر غلام لوگ مری ایا کرتے تھے۔ براؤن مری کے مال روڈ پر نہیں ا سکتا تھا۔ تمام ملازمین سنی بینک میں ٹھہرا کرتے تھے۔
یہ تو اس کی طرف سے تاریخ میں نے بتائی ہے اپ کو۔
میں ان دونوں مقامات پر بیٹھا ہوں اور مری میں تو متعدد بار۔ میں اسی سال فروری میں ،مری میں تھا۔ میں اپ کو بالکل سچ بتا رہا ہوں کہ جو سکون جو مزہ مجھے مری میں اس جی پی او کی سیڑھیوں پر بیٹھنے میں ایا وہ سپینش سٹریس پر بالکل نہیں ایا۔ کچھ کچھ مقامات سے اپ کی انسیت ہوتی ہے اور یہ انسیت اپ کو اس مقام پر لا کر مطمئن کر دیتی ہے، خوش کر دیتی ہے اور فکروں سے ازاد کر دیتی ہے۔ ندیم اقبال

بارش رات اور پہلی محبت. دوسرا حصہ..پارٹ۔2تمہاری خالی اور بے تاثر انکھوں میں بھی ایک بھرپور اثر  تھا۔ ایسا لگتا کہ جیسے ت...
13/04/2024

بارش رات اور پہلی محبت.
دوسرا حصہ..

پارٹ۔2
تمہاری خالی اور بے تاثر انکھوں میں بھی ایک بھرپور اثر تھا۔ ایسا لگتا کہ جیسے تم نے ابھی کچھ کہا ہے۔ کیا کہا ہے یہ میں تم سے پوچھنا چاہتی تھی۔ میں تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔ تم نے تو پہلی نظر ڈال کر دوبارہ میری جانب دیکھا بھی نہیں۔ تم میری بہن یعنی اپنی بھابی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے۔ میں نے اپنے بیگ سے نیا چکن کا گلابی سوٹ نکالا اور پہن کر برامدے میں اگئی۔ تم نے مجھے دیکھا اور پھر سے اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے۔ مجھے بہت غصہ آیا اورمیں اسے دبا گئی۔ پھر سوچا کہ یہ ابھی تو آیا ہے اور ایسا تو نہیں کہ آتےہی مجھ سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرنے لگتا۔ تمہاری دادی اور دادا تم سے بہت پیار کرتے تھے۔ ہر وقت ان کو تمہاری فکر لگی رہتی۔ تم ہنستے تو وہ دعائیں مانگتے، تم چلتے تو تمہاری طرف پیار بھری نظروں سے دیکھتے ، تم باتیں کرتے تو تم پر پڑھ پڑھ کر کچھ پھونکتے۔ میں سوچتی کہ اللہ نے اس لڑکے پر کتنا کرم کیا ہے کہ سب کی محبتیں یہ سمیٹ رہا ہے۔
وہ ایک ہل سٹیشن تھا۔ چاروں جانب بلند پہاڑ تھے، جن پائن کے جنگل ،یہاں تک نگاہ پڑتی وہیں تک، بچھے تھے۔ سورج ڈوبتا تو چوٹی کے درخت چمکنے لگتے۔ ایسا لگتا ایک سنہری لائن دور دور تک چلی جا رہی ہے۔ ہمارے گھر کے باہر ایک بل کھاتی چھوٹی سڑک جو درختوں سے گھری تھی ، وہ بہت دور جا کر اچانک جنگلوں میں بل کھاتی گم ہو جاتی۔ سنا تھا یہیں کہیں ایک نیلی جھیل بھی ہے۔ مجھے اس جھیل کو دیکھنا تھا مگر یہاں میرے ساتھ جانے کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا۔
پہاڑوں کی چوٹیوں کے گرد اور نیچے ڈھلانوں پربھی خالی اور کبھی پانیوں سے بھرے بادل تیرتے رہتے ۔ وہ ایک حسین منظر ہوتا مگر میں اس منظر میں ہمیشہ اکیلی ہوتی تھی۔ جب تم آے تو میں نے تصور میں تم کو وہیں اپنے ساتھ پایا۔ یہاں بہت بارش ہوتی تھی اور میں اس بارش کو تمہارے ساتھ بیٹھ کر دیکھنا چاہتی تھی۔ گرتی بوندوں کی موسیقی میں ،تمہارے ساتھ بیٹھ کر سننا چاہتی تھی۔
میری بہن آ واز دے کر نہ بلاتی تو میں اپنی جگہ سے سرک بھی نہیں سکتی تھی ۔
یاد ہے کتنی سردی تھی جس شام تو اے تھے۔ بادل پہاڑوں اور ڈھلانوں سے اتر کر وادی میں آگئے اور خوب برسے۔ درجہ حرارت بہت گر گیا تھا اور تم بھی سردی سے کانپنے لگے تھے۔ چولہے کے قریب اپنی بھابی کے ساتھ بیٹھ کر تم باتیں کر رہے تھے۔ میری بہن نے مجھ سے کہا کہ اس کو اندر الماری سے گرم شال نکال کر دے دو۔ میں شال کے ساتھ ایک اونی ٹوپی بھی لے آئی۔ یاد ہے تم نے صرف مجھ سے شال لی تھی اور گرم ٹوپی پکڑے میرے ہاتھ کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ تم نے مجھ سے نہیں اپنی بھابی سے کہا تھا یہ کیپ پہننا تم کو بالکل اچھا نہیں لگتا۔ یہ بات تم مجھ سے کر لیتے اور میں بھی خوش ہو جاتی۔
میں برامدے میں دیوار سے ٹیک لگا کر ایک چوکی پر بیٹھی ڈائجسٹ پڑھ رہی تھی۔۔ پھر بارش تھم گئی اور سارا پانی سنگریزوں سے بھری زمین نے جذب کر لیا۔ میری بہن پکوڑے بنا رہی تھی اور تم اٹھے اور یارڈ میں لگے پھول دیکھنے چلے گئے۔ دادی تم کو روکتی رہ گئی اور تم نے ان کی بات کو سنا بھی نہیں۔ تمہاری دادی کہنے لگی اس پر لگتا ہے کسی پری کا سایہ ہے۔ میں اپنے پیر سے اس کے لیے فورا تعویز منگاتی ہوں۔ تم کھڑے پھولوں کو دیکھ رہے تھے اور میں تم کو۔ میں تمہارے پاس آنا چاہتی تھی مگر ہچکچا بھی رہی تھی۔۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں بھی تمہارے پیچھے لان میں چلی ائی۔ ہوا کے زور سے پانی کی بوندیں فضا میں اڑ رہی تھی۔ ان بوندوں کا لمس خنک اور ملائم تھا۔ مجھ پر ایک سرشاری طاری ہو گئی۔ تم کھڑے تھے اور میں عین تمہارے پیچھے آ کر خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔ تم کو تو دادی نے ٹوکا تھا مگرلان میں جانے سے اور مجھے کسی نے نہیں روکا۔ پھر اچانک کسی انجان احساس سے تم نے ایک دم مڑ کر پیچھے دیکھا اور مجھے سامنے پا کر حیرت سے تمہاری انکھیں پھیل گئی تھیں۔ تم پہلے کچھ ہکلاے اور پھر سنبھل گئے۔ کچھ نہ بولا ۔صرف مجھ کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔ ادھر میں خود پریشان تھی کہ تم سے کیا کہوں۔ تمہاری نظروں کی تپ ایسی تھی کہ ایک لمحے کے سویں حصے میں تم کھنچ کر میرے دل میں آ بیٹھے۔ اس لمحے میرا وجود تمہاری نظروں کی زد کے سامنے کھڑا تھا۔ تم مجھے بہت اچھے لگے اور ایسے اچھے لگے کہ اس کے بعد کوئی نہیں لگا ۔تم پہلی بار مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہا سردی بہت ہے ،اندر سے گرم شال لے اؤ۔ میں اب تم کو کیا بتاتی کہ کسی پیار کے احساس سے میرا جسم جھلس رہا تھا۔ ایسا محسوس مجھے ہوا کہ میں سالوں سے تم کو ایسے دیکھتے چلی ا رہی ہوں۔ تمہارا میرے بارے میں فکر مند ہونا اچھا لگا۔بہن مجھے آواز دے کر نہ بلاتی تو میں کم ہمت لڑکی اپنی جگہ سے سرک بھی نہیں سکتی تھی۔ میں محبت کے ٹرانس میں مکمل طور پرچلی آئی۔میرے اندر محبت کی سر مستی ایسے ائی کہ میرے جسم کا رواں رواں خوشی سے مہکنے لگا تھا۔
جاری ہے

بارش رات اور پہلی محبت ۔۔۔(میں نے ایک کہانی سرگزشت ڈائجسٹ کے لیے تحریر کی۔ اس کا نام میں نے "بارش رات اور پہلی محبت "رکھ...
09/04/2024

بارش رات اور پہلی محبت ۔۔۔
(میں نے ایک کہانی سرگزشت ڈائجسٹ کے لیے تحریر کی۔ اس کا نام میں نے "بارش رات اور پہلی محبت "رکھا۔ ادارے نے اپنے کچھ اصولوں کے تحت اس کا نام بدل کر پہلی محبت رکھ دیا۔ یہ پہلی محبت رات اور بارش کے دھندلکے میں پروان چڑھی ،تو نام بدلنا مجھے مطمئن نہ کر سکا۔ کہانی تو وہی ہے لیکن میں نے اس کو بیان کرتے ہوئے اس کی بہت سی سطریں ،جملے ، اور اس کے فقرےتبدیل کر دیے ہیں۔ ہر چیز میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے تو میں نے اس کو اپنے طور پر اور زیادہ بہتر کرنا چاہا ہے۔ کچھ واقعات بھی ادارے نے اپنی پالیسی کے تحت تبدیل کر دیے جو میں یہاں ان کو اصل حالت میں رکھ رہا ہوں۔ یہ کہانی چند قسطوں تک چلے گی اس لیے اپ لوگوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ پڑھ کر کررائے ضرور دینا کیونکہ لکھاری کو پڑھنے والے کا فیڈ بیک چاہیے ہوتا ہے۔ بہت شکریہ۔ ندیم اقبال)۔
وہ ایک لمبا اور تھکا دینے والا سفر تھا جو میں کر کے اس پہاڑی مقام پر پہنچی تھی. تمہارے بھائی میرے بہنوئی تھے اور میری بہن سے ان کی شادی تقریبا سال پہلے ہوئی تھی۔ تمہارے بارے میں مجھے بہن نے بتایا کہ وہ چھٹیوں کا ایک ہفتہ یہاں گزارنے ا رہا ہے۔ اس سے پہلے تم سے صرف ایک بار ملاقات ہوئی تھی ،بلکہ صرف تم کو دیکھا تھا جب مہندی کے فنکشن میں تم بھائی کے ساتھ ہمارے گھر آئے تھے۔ میں نے جب تم کو بھی مہندی لگانا چا ہی تو سختی سے تم نے میرا ہاتھ دور کر دیا تھا۔ اسی لیے تمہارا تاثر میری نظروں میں کوئی زیادہ اچھا نہ تھا۔
تم مجھ سے ایک سال چھوٹے تھے اور مجھے یہ خدشہ تھا کہ کہ اس ایک سال کے وقفے کا فائدہ اٹھا کر تم مجھے باجی باجی نہ کہنا شروع کر دو۔ یہاں گھر پر سب مجھ سے بہت بڑے اور بزرگ ٹائپ کے بندے رہتے تھے۔ میں خود کو تسلی دیتی تھی کہ تمہارے بارے میں میرا پہلا تاثر ہو سکتا ہے میری غلط فہمی ہو۔ تم ویسے نہ ہو جیسا میں سوچتی ہوں۔
یہاں ایک بلند پہاڑی کے دامن میں بہت سے خوبصورت گھر بنے تھے اور ایک لمبی سڑک جو درختوں سے گھری تھی ،وہ پہاڑیوں کے بیچ بل کھاتی دور تک چلی جاتی ۔ میں اکیلے واک کرنے جاتی تو بہن مجھ کو روک لیتی۔ کہتی کہ پرامن علاقہ ہے مگر تمہارا اکیلے جانا ٹھیک نہیں۔ تمہاری دادی اور دادا بھی یہاں آے ہوئے تھے اور ان کی نظریں ہمیشہ مجھ پر رہتی۔ ان کی موجودگی میں تو میرا باہر نکلا بہت مشکل تھا۔ میرا ہم عمر یہاں کوئی نہ تھا اور میں بوریت کا شکار ہو گئی تھی ۔جب تمہارے آنے کا سنا تو امید بندھی کہ اب میرا وقت اچھا گزرے گا ۔ہم ایک ساتھ گھومنے جایا کریں گے۔ میں اپنی جانب سے کئی منصوبے ذہن میں بنا رہی تھی کہ جب تم اؤ گے تو ہم کہاں کہاں جائیں گے۔
جب شام سے پہلے تم پہنچے تو بادلوں نے پورا آ سمان گھیر رکھا تھا۔ موسم خوشگوار تھا اور بارش ہونے کے آثار بہت زیادہ تھے۔ تم ائے تھے اور سب سے بہت اچھے لہجے میں مسکرا مسکرا کر مل رہے تھے۔ جب میں نے برامدے کا درد بلب جلایا تو پہلی بار تم نے میری جانب مڑ کر دیکھا اور میں نے تم کو سلام کیا۔ تمہارا مسکرا کر مجھے جواب دینا بہت اچھا لگا۔
تم دیکھنے میں بس اچھے لگے مگر تمہاری شخصیت میں ایک بھرپور کشش تھی۔ ایسی کشش جو کسی بھی لڑکی کو ایک بار اپنی جانب متوجہ کر لے۔ میری بہن نے تمہاری بہت تعریف کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ گھر میں یہ میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ میرا بہت خیال کرتا ہے اور بہت ہی عزت کرتا ہے۔
یہاں جو چند کتابیں تھی وہ میں پڑھ چکی تھی۔ اپنے ساتھ اتنی کتاب میں لے ائے کہ لگتا نہیں تھا کہ یہ ایک ہفتے میں تم ان کو ختم کر سکو گے۔ مجھے بہن بتا چکی تھی کہ تم ناول اور ڈائجسٹ بہت پڑھتے ہو۔ اور اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ جہاں بھی جاتے ہو اپنے ساتھ کتابیں بھی لے جاتے ہو۔ مجھے خوشی تھی کہ چلو تم سے کچھ کتابیں کچھ دن کے لیے ادھار لے لو گی۔ مگر جب تم کو دیکھا تو میری دلچسپی کتابوں سے زیادہ تم میں ہو گئی۔ تو مجھے خوامخوا ہ ہی اچھے لگنے لگے تھے۔ تمہارے آنے سے گھر کے در و دیوار چمکتے محسوس ہوتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ گرمیوں میں کوئی رو چل پڑی ہے ھو۔ میرے اندر پیار کے چشمے پھوٹ پڑے ۔
میرے تو گمان میں بھی نہ تھا کہ مجھے تم سے پیار ہو جائے گا۔ ۔یہ پیار لمحوں میں ہوا اور لمحوں میں ایک تناور درخت بن گیا۔ یہ پیار کسی وجہ کسی سوال و جواب کسی تشریح اور تفسیر سے ہٹ کر ہوا تھا۔ محبت کرنے کی کوئی رسمیں نہیں ہوتیں، یہ سب رسموں سے ہٹ کے ہوا تھا ۔مجھے تم سے ایسا پیار ہوا تھا۔
(جاری ہے)

کریبین جزائر پر گھومتے پھرتے وقار نے میری ,سبین اور اس کے جاپانی شوھر عباس کی ایک تصویر لی. اس وقت میرا اس ٹرپ کا سفرنام...
08/04/2024

کریبین جزائر پر گھومتے پھرتے وقار نے میری ,سبین اور اس کے جاپانی شوھر عباس کی ایک تصویر لی. اس وقت میرا اس ٹرپ کا سفرنامہ لکھنے کا کوئی ارادہ نہ تھا اور پھر یہ تصویر مجھے چند سال پہلے اس جگہ لے گئی ،جہاں ہم ایک ساتھ سفر کر رہے تھے. یہ سب میرے سفر نامے" سمندروں پار ایک جزیرہ" کے کردار ہیں اور بہت اہم کردار ہے. عام طور پر میں اپنے کرداروں کو لوگوں کے سامنے نہیں لے اتا مگر اب کی بار یہ ریت میں نے توڑ ڈالی. ندیم اقبال

07/04/2024

‏"جو ظلم کے ذریعے عزت چاہتا ہے، اللّه اسے انصاف کے ذریعے ذلیل کرتا ہے" -

‏حضرت علی کرم اللّه وجہ

جو لوگ میرا سفر نامہ سمندروں پار ایک جزیرہ پڑھ رہے ہیں ان کے لیے سبین کوئی اجنبی کردار نہیں ہے. ہم پورٹریکو میں تھے اور ...
06/04/2024

جو لوگ میرا سفر نامہ سمندروں پار ایک جزیرہ پڑھ رہے ہیں ان کے لیے سبین کوئی اجنبی کردار نہیں ہے. ہم پورٹریکو میں تھے اور شپ کے سامنے سبین ایک پرندہ ہاتھ پہ لیے کھڑی تھی. میں نے یہ تصویر تب بنائی تھی.ندیم

مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم...
27/03/2024

مسلم سائنس دانوں کا جو حشر مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا وہ عوام کو نہیں بتایا جاتا۔ آج بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارے مسلم سائنس دان تھے اگرچہ علم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ خلافت راشدہ کے بعد مسلمان آپس کے فرقعی اختلافات میں لڑتے رہے ۔چھاپہ خانے تک بند کر دیے ۔مدرسے بن گئے اور رھجان صوفی بننے کی جانب ھو گیا۔ جس صوفی سے بادشاہ خوش ھو جاتا تو
اسے شھر کا قاضی لگا دیا جاتا۔
ان میں سے کچھ سائنسدانوں کا مختصر احوال پیش خدمت ہے۔

1۔یعقوب الکندی فلسفے، طبیعات، ریاضی، طب، موسیقی، کیمیا اور فلکیات کا ماہر تھا۔ الکندی کی فکر کے مخالف خلیفہ کو اقتدار ملا تو مُلّا کو خوش کرنے کی خاطر الکندی کا کتب خانہ ضبط کر کے اس کو ساٹھ برس کی عمر میں سرعام کوڑے مارے گئے۔ ہر کوڑے پر الکندی تکلیف سے چیخ مارتا تھا اورتماش بین عوام قہقہہ لگاتے تھے۔
2۔ابن رشد یورپ کی نشاۃ ثانیہ میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اندلس کے مشہورعالم ابن رشد کو بے دین قراردے کر اس کی کتابیں نذرآتش کر دی گئیں۔ ایک روایت کے مطابق اسے جامع مسجد کے ستون سے باندھا گیا اورنمازیوں نے اس کے منہ پر تھوکا۔ اس عظیم عالم نے زندگی کے آخری دن ذلت اور گمنامی کی حالت میں بسر کیے۔
3.ابن سینا جدید طب کے بانی ابن سینا کو بھی گمراہی کا مرتکب اورمرتد قراردیا گیا۔ مختلف حکمران اس کے تعاقب میں رہے اوروہ جان بچا کر چھپتا پھرتا رہا۔ اس نے اپنی وہ کتاب جو چھ سو سال تک مشرق اورمغرب کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی گئی، یعنی القانون فی الطب، حالت روپوشی میں لکھی۔
4۔ذکریا الرازی عظیم فلسفی، کیمیا دان، فلکیات دان اور طبیب زکریا الرازی کوجھوٹا، ملحد اورکافر قرار دیا گیا۔ حاکم وقت نے حکم سنایا کہ رازی کی کتاب اس وقت تک اس کے سر پر ماری جائے جب تک یا تو کتاب نہیں پھٹ جاتی یا رازی کا سر۔ اس طرح باربارکتابیں سرپہ مارے جانے کی وجہ سے رازی اندھا ہو گیا اوراس کے بعد موت تک کبھی نہ دیکھ سکا۔
5۔جابر ابن حیان جسے مغربی دنیا انہیں جدید کیمیاء کا فادر کہتے ہیں جس نے کیماء ، طب ، فلسفہ اور فلکیات پر کام کیا۔ جس کی کتاب الکینیاء اور کتاب السابعین صرف مظرب کی لائبریریوں میں ملتی ہے ۔ جابر بن حیان کا سے انتقامی سلوک : حکومت وقت کو جابر کی بڑھتی ہوئی شہرت کھٹکنے لگی۔ جابر کا خراسان میں رہنا مشکل ہو گیا۔ اس کی والدہ کو کوڑے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ جابر اپنی کتابوں اور لیبارٹری کا مختصر سامان سمیٹ کر عراق کے شہر بصرہ چلا گیا۔ بصرہ کے لوگ جابر کے علم کے گرویدہ ہو گئے۔ جابر جیسی کیمیا گری اور علمی گفتگو انہوں نے اس سے قبل کبھی نہیں سنی تھی۔ جابر نے انہیں زمین سے آسمان اور زمین سے اس کی تہوں تک کا سفر کروا دیا۔ حاکم بصرہ کو بھی اس کی شہرت برداشت نہ ہوئی ۔ حاکم کے درباری جابر کی بڑھتی ہوئی علمی شہرت اور مسلکی اختلاف کو حکومت کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک دن جابر کو الزامات کی زد میں لا کر قاضی بصرہ کے سامنے پیش کیا گیا۔ قاضی نے حاکم کی ایما پر جابر کو سزائے موت سنا دی۔ اور یوں جس جابر بن حیان کو آج مغرب بابائے کیمیا ”Father of Chemistry“ کہتی ہے، اس کی کیمیا گری، علم اور سائنسی ایجادات کو اس کے اپنے ہم مذہبوں نے جادوگری، کذب اور کفر قرار دے دیا۔۔
آج بھی یھی ھو رہا ہے۔اور آج بھی مسلمان غافل ہیں
۔ندیم اقبال

25/03/2024

آج پاکستان میں تئیس مارچ کے حوالے سے ایوارڈ تقسیم ہویے .بہت سے ایسے بھی ایوارڈ پانے والوں میں ہیں جو واقعی حقدار تھے . .جیسے ہمارے دوست عجب خان ہے .اس کے علاوہ کچھ دوسرے بھی ہیں جن کو جانتا ہوں اور وہ حق دار تھے .
مگر صاحب اقتدار لوگوں نے یہاں بھی اقربا پروری کی یاد گار مثال قائم کی .ایک لسٹ ہے جو لوگ حق دار تھے اور رہ گئے.اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ایوارڈ ملنے پر ہنسی آتی ہے .
ظلم کے اس تاریک دور میں سیاہ اور کالی باتیں ہمارے سامنے ہو رہی ہیں .لوگ حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں .کچھ خاموش ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگ اپنی بات مختصر کر کے چپ ہو جاتے ہیں .
آپ یقین کریں کہ باہر کے ملکوں میں جاکر یہ احساس اب بڑھ کرتناور درخت بن چکا ہے کہ پاکستانی قوم پستی کے حساب سے اپنا مقام مضبوطی سے تھامے ہے .جن حق داروں کو ایوارڈ ملا ،ان پر بھی ایک الگ قسم کی یاسیت چھائی ہے .دل سے مبارکباد ادا بھی نہیں ہو رہی .میں اپنے ڈیڑہ کے عجب خان سے معذرت کروں گا کہ اب کی بار دل سے تم کو مبارک بعد نہیں دے سکوں گا .کیونکہ تمھارے ساتھ ایوارڈ لینے والوں میں کئی ایسے چہرے بھی تھے جن کو دیکھ کر گھن آتی ہے .یہ وہ لوگ جنہوں نے ڈٹنا تھا وہ گھٹنوں کے بل آگرے .
میں نے تو سنا ہے کہ چاہت فتح علی خان کو بھی ایوارڈ ملا ہے ؟
میں نے سوچا کہ ایسی پوسٹ لگاؤں گا جس سے ہمیں معلوم ہوسکے کہ ہماری تاریخ نے بہت قابل سائنس دان پیدا کیے .ابن خلدون ہوں ،ابن سینا ہو یا یعقوب القندی ،یا پھر رازی.ان سب کو وقت کے حکمرانوں اور حکمرانوں کے دلالوں نے قید میں ڈالا ،کوڑے لگائے اور کیا کیا نہیں کیا .یہی کیا جو ابھی ہو رہا ہے .اس کے بعد مسلمانوں میں ڈر کر ایک ایسا سائنس دان پیدا نہ ہوا جس نے دنیا میں نام پیدا کیا ہو .میں ان سائنس دنوں کے حالت مختصر کر کے بتانا چاہتا تھا جن کو کوئی ایوارڈ حکمرانوں نے نہ دیا بلکہ رسوا کیا .آج حکمرانوں کا نہیں ان سائنس دنوں کا نام زندہ ہے .
ہماری تاریخ میں بہت گھپلے ہوے.میں آکسفورڈ یونیورسٹی دیکھ کر حیران کھڑا تھا کہ کتنی عظیم درسگاہ انگریزوں نے بنائی تھی.میرا کزن جو ساتھ کھڑا تھا وہ مجھ سے کہنے لگا کہ اس یونیورسٹی کی بنیاد تب رکھی گئی تھی جب تاج محل تعمیر ہو رہا تھا .ہم کیا بنا رہے تھے اور مغرب کدھر کو نکل چکا تھا .......
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے دو عوامل درکار ہوتے ہیں .ایک یہ کہ آپ کو لیڈر ایسا ملے جو قوم کی سمت چند برسوں میں بدل دے .دوسری بات کہ قوم نیچر کے اصول کے تحت صدیوں کا رگڑا کھائے اور پھر قوم بنے .ہم دونوں میں نہیں ہیں بلکہ ہم کہیں بھی نہیں ہیں .
انشاللہ میری اگلی پوسٹ ان مسلمان سائنس دانوں کے مختصر حالات زندگی ہونگے جن کی بے توقیری ھوی ..ابھی تک میری ریسرچ ختم نہیں ہوئی ..ندیم اقبال

سرگزشت اس  نیے  شمارے میں میری دو کہانیاں چھپی ہیں .ایک تو میرا سفرنامہ چل رہا ہے اور پچھلے چار مہینے میں ایک کہانی سوچی...
23/03/2024

سرگزشت اس نیے شمارے میں میری دو کہانیاں چھپی ہیں .ایک تو میرا سفرنامہ چل رہا ہے اور پچھلے چار مہینے میں ایک کہانی سوچی اور لکھنا شروع کی .ہر بار پڑھتا اور ایڈٹ کرتا گیا .
کچھ کہانیاں ایک موج میں لکھی جاتی ہیں اور موج ہر وقت بلند نہیں ہوتی.عام دنوں میں تو ہم سب لکھتے ہیں .مگر کچھ کہانیاں دل اور روح سے لکھی جاتی ہیں کہانی کا اصل نام " بارش رات اور پہلی محبت.ایڈیٹر صاحب بہتر جانتے ہیں کہ کیوں اس کا نام بدل کر "پہلی محبت " لکھ دیا .سر آپ بہتر جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے .دراصل کہانی کا اصل نام "بارش رات اور پہلی محبت " میں مجھے ساری کہانی یاد رہتی ہے ..اس کہانی سے چند سطور....
"ایک سہ پہرہم لمبی اور درختوں سے گزرتی سڑک پر واک کرنے گئے.تم نے سیاہ جیکٹ پہنی تھی .میں نے بھی اپنی بہن کی کالی چادر اوڑھے ہوئی تھی . ہم باتیں کرتے اور چلتے دور نیلی جھیل تک چلے گئے تھے . جھیل کے کناروں پھول کھلے تھے .سفید ،زرد اور کاسنی پھول ہر جانب بکھرے تھے . تم پھولوں پر بیٹھ کر انہیں روندنا نہیں چاہتے تھے . میں نے اپنی شال اس نرم و ملائم گھاس پر بچھائی اور زبردستی تمہارا بازو پکڑ کر بٹھایا . میں اپنے ساتھ چائے کا تھرمس اور سینڈوچ بنا کر لائی تھی . تم نے کہا تھا کہ اتنے حسین منظر کے سامنے بیٹھ کر کچھ کھانا اس منظر کی تو ہیں ہے .پھر بھی تم نے سینڈوچ کھایا اور آد ھامیرے والا بھی لے لیا تھا . چا ے پیتے تم جھیل کے منظر میں ایسے ڈوبے کہ لگا تم اکیلے آئے ہو .میں تمھارے ساتھ نہیں.اس خیال پر میں تڑپ اٹھی تھی. مجھے رونا آرہا تھا .پھر اچانک تم چونکے اور میری جانب دیکھنے لگے تھے .میں نے اپنا منہ دوسری جانب کر لیا تھا . میری لا پرواہی بھانپ کر تم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا .محبت کی موج میرے من میں تلاطم مچانے لگی .تمہارا اس طرح سے مجھے چھونا اس دن مجھے بہت اچھا لگا ،کیا وہ لمس اب لوٹا سکتے ہو .جی چاہنے لگا تھا کہ تم مجھے گلے لگا لو .اتنے زور سے کہ مجھے اپنی روح میں اتار لو .مگر تم نے ایسا نہیں کیا .شائد شرم آ گئی ہوگی ..میرا ماتھا تمھارے ہونٹوں تک پہنچتا تھا اور تم نے چاہت سے مغلوب ہو کر میرا ماتھا کئی بار چوما کہ میرے ماتھے پر نقش پڑ گئے.کیا اپنے ہونٹوں کی وہ شبیہ پھر سے میرے ماتھے پر ثبت کر سکتے ہو ."
ندیم اقبال

غُربت سَے پنَاہ مَانگا کریں یَہ مُحبت سَے بَڑا دُکھ ہَے Seek shelter from povertyThis is a greater pain than love..مفلسی...
14/03/2024

غُربت سَے پنَاہ مَانگا کریں
یَہ مُحبت سَے بَڑا دُکھ ہَے
Seek shelter from poverty
This is a greater pain than love..
مفلسی کے سایے ہوں تو محبت کہاں یاد رہتی ہے .غربت کے جنگل میں دل اندھا رہتا ہے .غربت کی در بدری ایک عذاب ہے .خالی پیٹ کو پیار سے پہلے بھرا کرتے ہیں ،کیونکہ یہاں امید بھی نہیں چمکتی .محبت نے مجھے سمجھایا کہ غرور کا زوال ہو کر رہے گا
جب محبت کا جادو ٹوٹتا ہے اور غربت دروازے سے جھانکتی ہے تو معلوم پڑا کہ زندگی کبھی کبھی کتنا بڑا بوجھ ہے .مفلسی کے ظالم گرفت کی اذیت ان سے پوچھو جن کو پیار کی باتیں دیوانگی محسوس ہوتی ہیں .محرومیوں کی زنجیروں کے وزنی بوجھ تلے مفلس اپنی محبت بھول کر بقا کی جنگ لڑنے لگتا ہے اور آخر کار تھک ہار کر بیٹھا ہوتا ہے .ندیم اقبال

ان درختوں کے ساتھ ہنسی اور آنسوؤں کے ذریعے، میرا رشتہ ہمیشہ سے  بہت مضبوط ہے .ان درختوں  کی  نرم رنگت میں محبت کی سرگوشی...
13/03/2024

ان درختوں کے ساتھ ہنسی اور آنسوؤں کے ذریعے، میرا رشتہ ہمیشہ سے بہت مضبوط ہے .ان درختوں کی نرم رنگت میں محبت کی سرگوشیاں کبھی آہستہ میں ڈولتی پائیں اور کبھی غم میں لپٹیں سسکیاں اور کراہیں. اس آسمانی دائرے کو درختوں کے پس منظر میں دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے اس کی آنکھوں میں دیکھنا، جہاں سے کائنات در کائنات نظر آتی ہے .اس جنگل میں میری روح ایک ندی کی طرح بہتی ہے .یہاں مجھے تیرا لمس ملا اور تیرے لمس کی سمفنی کسی راگ الہی کی طرح مجھے ملی .ان درختوں کی آغوش میں میرا دل اپنا گھر ڈھونڈتا ہے ،اپنی پناہ .درخت سانس لیتے ہیں ،مجھے معلوم ہے کیونکہ ہم ملکر سانس لیتے ہیں .ہم ایک دوسرے کو ہزاروں سالوں سے جانتے ہیں .یہاں میری روح میرا ساتھ چھوڑ کر ان کی شاخوں کے بیچ تیرنے چلی جاتی ہے .جب مر جاؤں گا تب بھی یہاں آیا کرے گے ...
یہ تصویر میں نے " کمراٹ " میں لی جب ابھی صبح کا مرغ بھی نہیں جاگا تھا ...ندیم اقبال

ایک خاص اور اہم شعر...چلتی پھرتی  ہوی ان آنکھوں نے اذان دیکھی ہے میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ،  پر ماں دیکھی ہے ندیم
10/03/2024

ایک خاص اور اہم شعر...
چلتی پھرتی ہوی ان آنکھوں نے اذان دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ، پر ماں دیکھی ہے

ندیم

آئیے.کردار تبدیل کرتے ہیں .آپ انتظار کریں اور میں واپس نہیں آوں گی ....
07/03/2024

آئیے.کردار تبدیل کرتے ہیں .آپ انتظار کریں اور میں واپس نہیں آوں گی ....

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں ..............جوں ایلیا ندیم
06/03/2024

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں ..............جوں ایلیا

ندیم

کبھی یوں بھی تو ہو .......................جاوید اختر کبھی یوں بھی تو ہو دریا کا ساحل ہو پورے رات کا  چند ہو اور تم  آ و ...
05/03/2024

کبھی یوں بھی تو ہو .......................جاوید اختر
کبھی یوں بھی تو ہو
دریا کا ساحل ہو
پورے رات کا چند ہو
اور تم آ و
کبھی یوں بھی تو ہو
پریوں کی محفل ہو
اور کوئی تمہاری بات ہو
اور تم آ و
کبھی یوں بھی تو ہو

یہ نرم ملائم ٹھنڈی ہوائیں
جب گھر سے تمہاری گزریں
تمہاری خشبی چرائیں
اور میرے گھر لے آئین....

ندیم

20/02/2024

‏پچھلے چند دنوں کی کہانی:

‏جمعے والے دن پی ٹی آئی نے جلسہ نما پریس کانفرینس کی اوردھاندلی کے ثبوت لوکل اور انٹر نیشنل میڈیا کو دیے

‏اس کے بعد روز ہی ایک عالمی اخبار دھاندلی کا اور عمران خان کی تاریخی جیت کے بارے میں لکھ رہا ہے

‏ہفتے کو پی ٹی آئی نے دھاندلی کے خلاف تاریخی احتجاج ریکارڈ کرایا اور وہ بھی عالمی میڈیا دکھانے لگی

‏پھر راولپنڈی کمشنر کا ضمیر جاگا اور اس نے دھاندلی بے نقاب کی

‏پھر پرنٹنگ پریس کی وڈیو منظر عام پر آئی، ایک اور بڑا ثبوت ملا دھاندلی کا

‏مشاہد حسین سے ن لیگ کوسگنلنگ کروائی گئی کہ بلاول کو پی ایم بنا دو

‏کاکڑ صاحب سے لکھوایا گیا کہ سپلٹ مینڈیٹ ہے، ان کو کمیونیٹی نوٹ پڑ گیا

‏منیب سے بلوایا گیا کہ معافی نہیں ہے لیکن یہ اعتراف ہو گیا باتوں میں کہ ساری عوام عمران خان کے ساتھ ہے جو کہ ریکارڈ پر آنا بڑی بات ہے

‏اب جب سب ہی مان چکے ہیں کہ ⁧‫عمران_خان_کا‬⁩ ہے تو اب کیا بچا؟ زبردستی پی ڈی ایم نافذ کرنے کا نتیجہ تو سب ۱۶ مہینوں میں دیکھ چکے ہیں اب اس کو ڈریگ کرکے مزید نقصان ہی ہونا ہے- پورے پاکستان کے مینڈیٹ کا احترام ملک کو تیزی سے آگے لے جا سکتا ہے-

کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الٰہ آباد گئی اور جانکی بائی کے مکان پر ٹھہری۔ جب گوہر جان رخصت ہونے لگی تو اپنی...
19/02/2024

کلکتہ کی مشہور مغنیہ گوہر جان ایک مرتبہ الٰہ آباد گئی اور جانکی بائی کے مکان پر ٹھہری۔ جب گوہر جان رخصت ہونے لگی تو اپنی میزبان سے کہا کہ میرا دل خان بہادر سید اکبر حسین سے ملنے کو بہت چاہتا ہے۔ جانکی بائی نے کہا کہ آج میں وقت مقرر کر لوں گی کل چلیں گے۔ چنانچہ دونوں دوسرے دن اکبر الہ آبادی کے ہاں پہنچیں۔ جانکی بائی نے تعارف کرایا اور کہا کہ یہ کلکتہ کی نہایت مشہور و معروف مغنیہ گوہر جان ہیں۔ آپ سے ملنے کا بے حد اشتیاق تھا لہذا ان کو آپ سے ملانے لائی ہوں اکبر نے کہا " زہے نصیب، ورنہ نہ میں نبی ہوں ، نہ امام ، نہ غوث ، نہ قطب اور نہ کوئی ولی جو قابلِ زیارت خیال کیا جاؤں۔ پہلے جج تھا اب ریٹائر ہو کر صرف اکبر رہ گیا ہوں، حیران ہوں کہ آپ کی خدمت میں کیا تحفہ پیش کروں" گوہر نے کہا "یادگار کے طور پر ایک شعر ہی لکھ دیجئے" اکبر الہ آبادی نےکاغذ پر یہ لکھ کے حوالے کیا
خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

ندیم اقبال

18/02/2024

ایک الگ سی صورت حال ہمارے سامنے ہے جب سے پنڈی کے کمشنر نے دھاندھلی کا اعتراف کرتے ہویے اپنا استعفیٰ دیا ہے .
یہ استعفیٰ ظاہر ہے اسٹبلشمنٹ کے کہنے پر سامنے آیا ہے .کتینکه کمشنر ہماری طرح کا جذباتی بندہ نہیں ہوتا کہ ضمیر جاگ گیا ہے .اور خاص کر پنڈی کا وہ کمشنر جو پی ڈی ایم کی حکومت کے آنے کے تین دن بعد تعینات ہوا ،کیا اسٹبلشمنٹ کی مرضی اور حکم سے تعینات نہیں ہوا ہوگا .؟ ہو بھی نہیں سکتا کہ ان کی مرضی سے نہ لگا ہو .
پھر کیا فوج نون سے اپنا فاصلہ بڑھا رہی ہے .؟ میرا جواب ہاں میں ہے .پچھلے کچھ دن سے میں اسے دیکھ رہا تھا .میڈیا پر کھل کر دھاندھلی کے خلاف بولا جارہا ہے .
دوری کی وجوہات یہ دو ہو سکتی ہیں .
١.نوں والے حکومت بنانے سے دور بھاگ رہے ہیں ..
٢.باہر کے میڈیا پر شور اور برطانوی اور امریکی حکومت نے انہیں کہہ دیا ہے کہ اب اور نہیں .کیونکہ فوج کی مداخلت امریکہ کی مرضی سے ہو رہی تھی .امریکہ میں الیکشن کا سال ہے اور بیڈن اپنی ہار کو جیت میں بدلنا چاہتا ہے .وہ کوئی ایسا الزام اپنے پر نہیں آنے دے گا جیسے جمہوریت میں مداخلت کرنا اور ایک منتخب حکومت کو ہٹانے کا الزام اپنے کاندھے پر لینا کیونکہ ادھر پاکستانیوں نے ووٹ کا انقلاب برپا کر دیا ہے .ندیم

غیر متوقع  طور پر کل یہاں بہت  برف پڑی.صبح جاگا تو ہر جانب ایک                        برف کی سفید چادر  بچھی تھی .بارش ا...
16/02/2024

غیر متوقع طور پر کل یہاں بہت برف پڑی.صبح جاگا تو ہر جانب ایک برف کی سفید چادر بچھی تھی .
بارش اور برف کا انتظار اپنی محبت کے انتظار کی طرح ہے . ہر وقت پڑتی رہے تو ولولہ مانند پڑ جاتا ہے .کبھی کبھار گرے تو اس کی لگن بڑھ جاتی ہے .میں اس کاٹیج کے سامنے سے اپنی گرم گاڑی میں بیٹھا گزر گیا .مگر اس کاٹیج میں ہونے کے احساس سے جسم گرما گیا .بلب کی زرد رنگ کی روشنی نے قدرے اداس کر دیا .اس موسم کی سختی میں استقامت سے کھڑے خاموش درختوں نے ایک اطمینان بخش دیا .افق پر پھوٹتی روشنی نے امید روشن کی اور اگلی بار اسی طرح کے کاٹیج میں ایک شب گزارنے کا پکا ارادہ کر لیا ..انشاللہ ..ندیم اقبال

14/02/2024

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when DL.Resorts Kumrat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to DL.Resorts Kumrat:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Travel Agency?

Share