08/31/2024
تاریخ ملتان اور صوبہ ملتان یا سرائیکی وسیب یا جنوبی پنجاب آج کے وقت اور پاکستان کی اشد ضرورت ہے !
پچھلے 5 ہزار سال میں ملتان صوبہ و ریاست کی تاریخی تور پر بہت زیادہ اہمیت تھی جو کہ انگریز نے اپنے خوف کے مارے تاج برطانیہ کے اقتدار کو بچانے کے لیے مکمل ختم کر دی تھی ۔
ملتان کے آخری مسلم حکمران نواب مظفر خان سدوزئی شھید جن کے نام پر شہر مظفر گڑھ آباد کیا گیا تھا ۔ ان کے آخری حکمرانی کے دن تک جب سکھوں نے ملتان فتح کیا تھا ان سے اور پھر ملتان میں سکھوں کے صرف مختصر 50 سالہ حکمرانی کے آخری دن اور آخری حکمران سکھ حکمران حاکم و گورنر و صوبیدار دیوان ساون مل اور اسکا بیٹا مول راج مل تک ملتان کی حکومت یا صوبہ بلوچستان، پورا سرائیکی وسیب سوائے ریاست بہاولپور چھوڑ کر ملتان کے ہی زیرنگیں تھا۔ باالخصوص نواب مظفر خان شھید ملتان صوبے و ریاست کے آخری مسلم حکمران تھے جو سکھوں سے لڑتے ہوئے اپنے بیٹوں سمیت 1818 میں شھید ہوئے اور پھر 48 سے 50 سالہ سکھ دور حکومت ملتان میں شروع ہوا اور اس دور تک سب ہی ملتان کے حکمران تاج وتخت دلی کے ہی تحت تھے مگر خودمختار تھے ۔ سکھ حکمران بس تھوڑے سے زیادہ بے باک تھے اور مغلوں کی تضحیک کرتے تھے لیکن رسمی تور پر وہ بھی تخت دلی کے ماتحت تھے مگر سکھوں کو ملتان ، ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان کی قبائیلی عوام زیادہ گھاس نہیں ڈالتے تھے ۔
جتنے بھی افغانی ، ترک ، مغل ، عرب جنگجو بادشاہ سپہ سالار ہندوستان پر حملہ آور ہوئے وہ سب یا تو ڈیرہ اسماعیل خان کے راستے یا اٹک کے راستے پھر بلوچستان کوئٹہ لورالائی یا پھر مکران سے براستہ سکھر سندھ سے پہلے ملتان آئے کیونکہ اس دور میں ملتان سے پاکپتن بزریعہ دیپالپور دلی کو راستہ جاتا تھا جبکہ دلی فتح کرنے کے لیے ملتان کا پورا علاقہ بشمول سکھر ڈیری غازی خان جھنگ خوشاب کوئٹہ بلوچستان ایک زبردست علااہ تھا جہاں ملتان جیسا زبردست شہر مکس سرائیکی قبائلی بلوچ پختون فوجیں قومیں سب ہی ایک زبردست قسم کے زرائع تھے دلی کو فتح کرنے کے لیے ۔ اور 5 ہزار سال سے ہی ریاست و صوبہ ملتان موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے دور سے ہی بہت اہم بلکہ پورے برصغیر میں سب سے بڑی تھی ۔
احمدشاہ ابدالی تو پیدا بھی ملتان میں ہوا تھا جسکی جائے پیدائش کے مقام پر ملتان کی سب سے مہنگی کارپوریٹ سڑک ابدالی روڈ آج بھی جہاں پر شہنشاہ و بادشاہ ابدالی کی ایک خیمے میں پیدائش کا مقام آج بھی موجود ہے ۔
جبکہ پورے دنیا سے ہندوستان آنے والے اولیاء کی بڑی اکثریت ملتان ہی آئی تھی یعنی کہ بہاالدین زکریا ، شمس تبریز سبزواری ، بابا فرید الدین گنج شکر ، موسی پاک شھید اور بہت سے بڑے صوفیاء و اولیاء کرام بزرگان دین سب سے پہلے یہیں ملتان ہی آتے تھے کیونکہ ملتان تاریخی تور ہندومت کی جائے پیدائش اور سب سے بڑا گڑھ تھا ۔ جبکہ ہندومت کی بہت سی مزہبی مقدس کتابیں ویدیں ملتان قلع کہنہ قاسم باغ کے پرہلاد مندر میں لکھی گئی تھیں ۔ جبکہ ہندوں کا ہولی کا تہوار بھی ملتان کے پر ہلاد مندر اور پر ہلاد بادشاہ کی وجہ سے شروع ہوا جس نے انسانوں کی پوجا کی بجائے ایک خدا کی عبادت کا درس دیا اور اپنے بادشاہ باپ کی پوجا کرنے سے انکار کر کے اسکا مقابلہ کیا۔
جبکہ ملتان بزرگان دین اور صوفیاء کرام تبلیغ کے لیے اسی لیے آتے تھے کہ ملتان کا اس پورے خطے میں اثر ورسوخ کی تاریخ کئی ہزار سال پرانی تھی اور ہے ۔ خاص کر اسی لیے حضرت بہالدین زکریا سینٹرل ایشیاء سے ملتان میں آ کر بالکل پرہلاد مندر کے ساتھ اپنی خانقاہ اور دنیا کی بہت بڑی اور ہندوستان کی پہلی اسلامی دینی و سائنسی و معاشی ہنر کی یونیورسٹی بنائی تھی جہاں اسلام کی کرنیں تعلیم و ترقی پوری دنیا میں دور دور کے علاقوں تک پھیلی ۔ اس پورے خطے برصغیر کی پہلی اسلامی سائنسی و معاشی ہنر کی یونیورسٹی بھی حضرت بہالدین زکریا نے اپنی خانقاہ کے بالکل ساتھ ملتان میں بنائی تھی اور مندر کے ساتھ بیٹھ کر بے تحاشہ اکثریت ہندو آبادی کو مسلمان کیا تھا۔ مگر صحیح شریعت و دین کی پابندی و علم ، پیار محبت اخلاق عدل مساوات اور دلیل سے ۔ جبکہ بہاالدین زکریا اپنی جیب سے بہت پیسہ بھی خلق خدا پر خرچ کرتے تھے بے تحاشہ غریب لوگوں پر ۔
ملتان ہر حوالے سے بہت اہم تھا کیونکہ ہندوستان پر قبضے کا راستہ میں پہلا پہاڑ امتحان یا فتح ملتان کی لازمی شرط ہوتی تھی ۔لورالائی، ڈیرہ غازی خان ، ڈیرہ اسماعیل خان ، سکھر تک ملتانی سرائیکی زبان اور ملتانی وسیب ہی ہے ۔ جبکہ محمدبن قاسم ، سکندراعظم ، محمود غزنوی ، غوری ، تغلق ، مغل بابر ، ہمایوں ، نادرشاہ ، غوری ، ابدالی ، حتکہ پرانا اسماعیلی نظاری فرقہ جسے صلاح الدین ایوبی نے مصر ، شام ، لبنان ، فلسطین اور خطہ عرب سے کدھیڑ کر ختم کیا یا نکالا تھا ۔ یہ سب ہی ملتان پر حکومت کر کے ہندوستان میں داخل ہوئے ۔ کیونکہ 5 ہزار سال سے ملتان پر حکومت کرنے یا فتح کرنے کا مطلب آدھا سندھ ، پورا بلوچستان ، آدھا کے پی کے اور آدھا پنجاب ساہیوال اور اوکاڑہ تک اور آدھا چولستان راجھستان پر حکومت کرنا تھا اس سے ہندوستان میں داخل ہونے اور فتح کرنے کے بے شمار دروازے کھل جاتے تھے ۔
یہ سب باتیں مستند تاریخی ہیں ۔ رہی بات انگریز نے 1849 میں ملتان صوبہ یا ریاست فتح کی اور پھر ملتان صوبہ ریاست اور اسکے علاقے بلوچستان کو مزید ٹکڑے ٹکڑے کیوں کیا ؟؟؟؟
وہ اس لیے کہ 1857 میں جنگ آزادی غدر بغاوت ملتانی چھاونی کی گیرژن میس کمپنی باغ قاسم بیلہ سے شروع ہوئی تھی جس میں سارے انگریزی غیرملکی گورے افسر مار دیے تھے کالے دیسی ملتانی فوجیوں نے ۔
اس لیے انگریز نے اس سارے خطے کے سرائیکی بلوچی اور پٹھان جنگجو قبائیل سے ڈرتا تھا اور یہ سارا خطہ کٹر حنفی سنی جنگجو مسلمانوں کا تھا ۔ اس لیے انگریز نے ملتان اور بلوچستان کو تقسیم بھی کیا اور پسماندہ بھی رکھا ۔ مگر پاکستان بننے کے بعد اس سارے خطے کی قسمت جاگ اٹھی اور ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع یوا ۔
آج پنجاب کی آبادی بہت زیادہ ہے اور انتظامی مسائل بھی بہت زیادہ ہیں اس لیے حکومت وقت فوری تور پر ملتان صوبہ بحال کرے تاکہ ان علاقوں میں مزید خوشحالی ، ترقی کاروبار اور روزگار ملے اور انتظامی مسائل بھی حل ہوں ۔ صوبہ ملتان اگر 175 سال بعد دوبارہ بحال ہو جاتا ہے تو اس سے پنجاب کے خلاف نفرت باالکل ختم ہو جائے گی پسماندہ جنوبی پنجاب سرائیکی وسیب مزید ترقی کرے گا اور پورے ملک میں ایک مضبوط قومی ہم آہنگی پیدا ہو گی ۔ یہ آج کے وقت کی اشد ضرورت ہے ۔ ایک نیا صوبہ بنانے سے سب صوبوں کے درمیان بھی توازن پیدا ہو گا ۔ کیونکہ اب 12 سے 14 کروڑ کی پنجاب کی بے ہنگم آبادی وقت کے ساتھ مزید بدتر انتظامی مسائل ، سیاسی مسائل پیدا کریگی ۔
اگر 4.5 سے 5.5 یا 6 کروڑ آبادی کا ایک نیا صوبہ ملتان یا جنوبی پنجاب یا سرائیکی وسیب بن جائے تو انتظامی تور پر یہ سب کے لیے ہی بہت بہتر ہو گا اور اس خطے کی عوام کو جلد زیادہ سہولیات اور توجہ بھی ملیں گیں۔ جس سے اس خطے کی عوام کا بہت زیادہ معاشی اور معاشرتی سماجی فائدہ ہو گا ۔ ۔ جبکہ ملک میں قومی تور ہم آہنگی بڑھے گی اور ملک ریاست وفاق مزید مضبوط تر ہو جائے گا ۔
زرا سوچیے گا۔
پاکستان زندہ باد 🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰
پاک فوج زندہ باد 🇵🇰🇵🇰🇵🇰🇵🇰
تحریر : نوید احمد بھٹی