21/04/2023
21 اپریل ۶1938
ؒ
يہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہيں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پيدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پيدا
حضرت علامہ اقبالؒ مقدر کے سکندر تھے ۔ انہیں ہر طرح سے تاریخ میں اعلیٰ مقام حاصل ہوا۔ فکری و فنی پہلو میں ان کی مہارت نے اپنا لوہا منوایا تو نجی زندگی میں بھی وہ کم خوش قسمت نہیں تھے۔ ان کی علالت میں علاج اور تیمار داری ایسی شاہانہ تھی کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کی آرزو کرتے ہیں۔
شاعر مشرق، مصور پاکستان علامہ محمد اقبالؒ آغاز شباب کے سوا کسی دور میں بھی صحیح معنوں میں تندرست و توانا نہیں رہے۔ علامہ اقبالؒ نے اپنی بیماریوں کا تذکرہ خود بہت تفصیل سے کر رکھا ہے اور اپنی بیماریوں اور کیفیتوں کو خوب رقم کیا ۔ ان کے مطبوعہ ساڑھے چودہ سو خطوط میں سے 251 خطوط میں ان کی بیماریوں کا ذکر ہے ۔
علامہ کی آخری عمر کی کئی نظموں میں بھی اس کا تذکرہ ہے ۔ مسلسل بیماریوں کے حملوں کے باوجود علامہ اقبالؒ وبائی امراض اور ان کے حملوں سے محفوظ رہے۔ ایام شباب سے ہی صحت کے حوالے سے مشکلات کا شکار رہنے والے علامہ کو زندگی کے آخری سالوں میں جس جان لیوا بیماری نے مبتلائے اذیت رکھا، وہ 1934ء میں کھانسی اور زکام سے شروع ہوئی۔ 1938ء کے فروری میں دمہ کا دورہ ہوا۔ 30مارچ کو ضعف قلبی سے غشی طاری ہو گئی۔ اپریل میں چہرے ، پاؤں پر ورم ہو گیا، درد پشت اور درد شانہ کے عوارض شروع ہو گئے ۔
19 اپریل سے بلغم میں کسی قدر خون آنے لگا۔ ڈاکٹر جمعیت سنگھ نے مایوسی ظاہر کی۔ 20 اپریل کے روز صبح سے علامہ کی چارپائی جاوید منزل کے پورچ میں تھی، رات ہوتے ہی خنکی ہونے لگی اور رات گئے علامہ نے چارپائی اندر لے جانے کا کہا۔علی بخش اور ڈاکٹر قیوم چارپائی ان کے کمرۂ خاص میں لے گئے۔ چارپائی رکھ کر ڈاکٹر قیوم کمرے سے نکل کر باہر سستانے لگے ۔ علامہ نے علی بخش کو کہا کہ میرے شانے دباؤ، پھر بیٹھے بیٹھے پاؤں پھیلا لئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’یا اللہ، یہاں درد ہے، اس کے ساتھ ہی سر پیچھے کی طرف گرنے لگا۔
علی بخش نے سہارا دیا تو علامہ نے قبلہ رو ہو کر آنکھیں بند کر لیں اور پیدا کرنے والے کے دربار میں سرخرو ہو گئے۔ 21 اپریل 1938ء مطابق 19 صفر بروز جمعرات صبح سوا پانچ بجے علامہ نے جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی ۔ علی بخش نے گھبرا کر ڈاکٹر صاحب کو آواز دی ۔ڈاکٹر عبدالقیوم دوڑتے ہوئے اندر پہنچے تو علامہ کی آنکھیں بند اور لبوں پر ہلکا سا تبسم تھا۔ اس وقت ہر طرف فجر کی اذانوں کی پُر سطوت صدائیں گونج رہی تھیں پھر ڈاکٹر عبدالقیوم نے ہی ریڈیو والوں کو فون پر علامہ کے انتقال کی خبر دی ۔
لوگ جوق در جوق جمع ہونا شروع ہو گئے ۔ 60 ہزار سے زیادہ کا ہجوم شام سات بجے شاہی مسجد کے صحن پہنچا اور وہاں جنازہ رکھ کر علامہ کے بڑے بھائی عطا محمد کا انتظار ہونے لگا، جو سیالکوٹ سے نہیں پہنچ پائے تھے۔ ساڑھے آٹھ بجے مولانا غلام مرشد نے نماز جنازہ پڑھائی، اسی اثناء میں سیالکوٹ سے رشتہ دار پہنچ گئے۔ کہرام مچ گیا۔ عطا محمد روتے روتے مجمع کو ہٹاتے جاتے اور کہتے لوگو! مجھے میرے بھائی کا چہرہ دیکھ لینے دو ، اس نے کہا تھا، اس کے چہرے پر مرنے کے بعد تبسم ہو گا ۔ یقیناًہو گا۔ علامہ نے خود کہا تھا:
نشانِ مرد ِ مومن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم بر لب اوست
( مرد مومن کی علامت تجھ سے کہتا ہوں کہ جب اس پر موت آئے تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ رہتی ہے )
حکیم الامت کے جسد خاکی کو سوا دس بجے رات سپرد خاک کر دیا گیا ۔
باری تعالٰی آپ کی کامل مغفرت کرے اور آپ کی لحد مبارک پہ اپنی خاص الخاص رحمتوں کا نزول فرمائے ۔
💞 آمین ثم آمین یا رب العالمین 💞