Amazing Bhakkar

Amazing Bhakkar تاریخ,سیاست,مقامی حکومتیں اور اہم واقعات.
تاریخ بھکر س?

” جو عورت اپنے سِنگھار کے پیسوں سے کتابیں خریدتی ہے اور پڑھتی ہے وہ معاشرے میں عظیم لوگوں کو جنم دیتی ہے۔ “
18/12/2024

” جو عورت اپنے سِنگھار کے پیسوں سے کتابیں خریدتی ہے اور پڑھتی ہے وہ معاشرے میں عظیم لوگوں کو جنم دیتی ہے۔ “

دنیا کے بدصورت ترین عمارتوں میں شمار ہونے والی ایک عمارت "باغراتیون" سوویت دور کی ایک عجیب و غریب تعمیر ہے، جو یوکرین کے...
18/12/2024

دنیا کے بدصورت ترین عمارتوں میں شمار ہونے والی ایک عمارت "باغراتیون" سوویت دور کی ایک عجیب و غریب تعمیر ہے، جو یوکرین کے دارالحکومت کیف میں واقع ہے۔ یہ عمارت، جسے "مبنی 104" بھی کہا جاتا ہے، سوویت طرزِ تعمیر کی سختی اور غیر روایتی انداز کی ایک واضح مثال ہے۔

اپنے منفرد ڈیزائن کے ساتھ، یہ عمارت مختلف سائز کے بلاکس اور بے ترتیب بالکونیوں پر مشتمل ہے، جو اسے ایک غیر منظم اور غیر معمولی شکل دیتے ہیں۔

اس عمارت کو رہائشی منصوبے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ بڑی تعداد میں لوگوں کو رہائش فراہم کی جا سکے۔ اس کے ڈیزائن میں روزمرہ زندگی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے بالکونیوں اور دیگر توسیعات کا اضافہ کیا گیا، لیکن جمالیاتی پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ خصوصیت سوویت دور کے زیادہ تر رہائشی منصوبوں میں دیکھی جاتی ہے، جہاں فنکشنل ڈیزائن کو ترجیح دی گئی۔

اگرچہ یہ طرزِ تعمیر ہر کسی کو پسند نہیں آتا، لیکن "باغراتیون" عمارت آج ایک منفرد آرکیٹیکچرل علامت بن چکی ہے، جو فوٹوگرافروں اور انجینئرز کو اپنی غیر روایتی اور سخت طرزِ تعمیر کی وجہ سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

کیف سوویت_آرکیٹیکچر غیر_روایتی_ڈیزائن یوکرین رہائشی_عمارتیں

یہ 1957ء كی بات ہے- بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا- یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار ت...
17/12/2024

یہ 1957ء كی بات ہے- بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا- یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا- تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نامور مصنف اور سرکاری ملازم ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹوگراف كی كی درخواست كی- ٹائن بی نے قلم پکڑا، دستخط کئے، نظریں اٹھائیں اور بیوروکریٹ كی طرف دیکھ کر بولے:

"میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے؟"

سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں-
ٹائن بی نے ہجری تاریخ لکھی، تھوڑا سا مسکرایا اور اس كی طرف دیکھ کر کہا:

"تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور شور سے تقریریں ہورہی تھیں- وہ لوگ تاریخ کیسے بناسکتے ہیں جنہیں اپنی تاریخ بھی یاد نہ ہو- تاریخ باتیں کرنے سے نہیں، عمل سے بنتی ہے-"

سرکاری ملازم اور مصنف نے شرمندگی سے سر جھکا لیا-

(مختار مسعود کی کتاب آواز دوست سے اقتباص)

پاکستان کی قومی مچھلی - مہاشیر :-یہ ایک " Cyprinid " یعنی کہ بغیر دانتوں والی میٹھے پانی کی مچھلی ہے جس کی نسل خطرے سے د...
17/12/2024

پاکستان کی قومی مچھلی - مہاشیر :-

یہ ایک " Cyprinid " یعنی کہ بغیر دانتوں والی میٹھے پانی کی مچھلی ہے جس کی نسل خطرے سے دوچار ہے !

یہ کوہ ہمالیہ میں دریاۓ سندھ ، دریاۓ گنگا اور دریاۓ براہم پترا کے قرب و جوار میں تیزی کے ساتھ بہتی ہوئ ندیوں ، تالابوں اور جھیلوں میں پائ جاتی ہے !

قدرتی  Risek کیپسولیہ ہیں قدرتی طور پر اُگے ہوئے Risek کیپسول۔جو لوگ عرصہ دراز سے اپنے معدے کی جلن کا علاج مہنگی آنگریزی...
16/12/2024

قدرتی Risek کیپسول
یہ ہیں قدرتی طور پر اُگے ہوئے Risek کیپسول۔
جو لوگ عرصہ دراز سے اپنے معدے کی جلن کا علاج مہنگی آنگریزی دواؤں سے کروا کروا کر جیبیں خالی کر رہے ہیں، اگر وہ جنگلی بیر کھائیں تو نہ صرف معدہ بلکہ خون کے انفیکشن سے بھی جان چھڑا سکتے ہیں۔
پاکستان میں بیشمار جنگلی بیریاں خود رو طریقے سے اگی ہوئی ہیں۔

سوہنی دھرتی پنجاب کے عظیم مسلم شاعر جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے دنیا بھر میں پنجاب کا نام رہتی دنیا تک روشن کیا۔1.بابا ...
16/12/2024

سوہنی دھرتی پنجاب کے عظیم مسلم شاعر جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے دنیا بھر میں پنجاب کا نام رہتی دنیا تک روشن کیا۔

1.بابا فرید گنج شکر آف پاکپتن (1266-1188)

2.شاہ حسین مادھولال آف لاہور (1599-1539)

3.سلطان باھو آف جھنگ (1691-1630)

4.بابا بھلے شاہ آف قصور (1757-1680)

5.سید وارث شاہ آف شیخوپورہ (1798-1722)

6.ہاشم شاہ آف امرتسر (1843-1735)

7.شاہ محمد آف امرتسر (1862-1780)

8.قادر یار آف گوجرانوالہ (1892-1802)

9.میاں محمد بخش آف جہلم (1907-1830)

10.خواجہ غلام فرید آف راجن پور (1901-1841)

11.بابو رجب علی آف اوکاڑہ (1979-1894)

12.واصف علی واصف آف خوشاب (1993-1929)

مجھے بچپن سے ہی سکے جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔مختلف ممالک کی کرنسی اور قیمتی سکے میں نے ہمیشہ  مانگنے والوں کے کش...
14/12/2024

مجھے بچپن سے ہی سکے جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے۔
مختلف ممالک کی کرنسی اور قیمتی سکے میں نے ہمیشہ مانگنے والوں کے کشکول سے لئے ہیں۔اس کی کوئی خاص وجہ نہیں بلکہ سادہ سی بات ہے کہ لوگ ان سکوں سے رب کو راضی کرنا چاہتے ہیں
دو دن پہلے ڈسٹرکٹ ہسپتال بھکر کے مین گیٹ پر بیٹھے سائیں بابا نے اپنے گلے میں ڈالے ہار میں کئی نایاب سکے پرو رکھے ہیں۔
میں نے بار بار اصرار کیا لیکن مجھے سائیں جی سکے دینے پر راضی نہیں ہوئے حالانکہ میں نے پنچ ہزار روپے تک کی افر دی لیکن سئیں جی نہیں مانے۔
سئیں جی کی رضا مندی سے لی گئی تصویر شیئر کر رہا ہوں

5,500 سال پرانا سومیری ستارہ نقشہ سائنسدانوں کے لیے گزشتہ ڈیڑھ صدی سے حیرت اور دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ مٹی کی تختی...
14/12/2024

5,500 سال پرانا سومیری ستارہ نقشہ سائنسدانوں کے لیے گزشتہ ڈیڑھ صدی سے حیرت اور دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ یہ مٹی کی تختی، جس پر قدیم سومیری تحریر کندہ ہے، ایک نہایت منفرد اور حیران کن دریافت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس پر آسمان کے ایسے مشاہدات درج ہیں جو قدیم زمانے میں کیے گئے تھے، اور کچھ محققین کا ماننا ہے کہ یہ کوفیلس اثر واقعہ (Köfel’s Impact Event) کا ریکارڈ بھی ہو سکتا ہے۔

یہ تختی انیسویں صدی کے آخر میں عراق کے قدیم شہر نینوا میں دریافت ہوئی تھی۔ اس وقت یہ تختی بادشاہ آشور بانیپال کی 650 قبل مسیح کی زیر زمین لائبریری کا حصہ تھی، اس لیے ابتدا میں اسے آشوری تہذیب کا مانا گیا۔ لیکن جدید کمپیوٹر تجزیے سے معلوم ہوا کہ یہ تختی 3300 قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا کے آسمان کی نقشہ بندی سے مطابقت رکھتی ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سومیری تہذیب کی ایجاد ہے۔

یہ ستارہ نقشہ نہ صرف ایک قدیم آلہ ہے بلکہ فلکیاتی علوم کی دنیا میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ یہ گول شکل کا نقشہ مختلف حصوں میں تقسیم ہے، جس پر زاویوں کی پیمائشیں واضح طور پر درج ہیں۔ یہ قدیم تہذیبوں کی علمی ترقی اور آسمان کے بارے میں ان کی گہری سمجھ بوجھ کا ثبوت ہے۔

اس نقشے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ ہمیں ہزاروں سال پرانے انسانوں کی سوچ اور ان کے فلکیاتی علوم سے آشنائی کا ایک جھروکہ فراہم کرتا ہے۔ یہ تختی اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد نے نہایت گہرائی اور محنت کے ساتھ کائنات کے رازوں کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ یہ دریافت صرف ایک تاریخی خزانہ نہیں بلکہ ایک ایسا سبق بھی ہے جو ہمیں ماضی کے علم کو سمجھنے اور اس کی قدر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

1875 میں امریکہ میں ٹڈی دل کا سب سے بھیانک اور تباہ کن حملہ ریکارڈ کیا گیا، جس نے لاکھوں افراد کو بے حال اور بے یار و مد...
14/12/2024

1875 میں امریکہ میں ٹڈی دل کا سب سے بھیانک اور تباہ کن حملہ ریکارڈ کیا گیا، جس نے لاکھوں افراد کو بے حال اور بے یار و مددگار کر دیا۔ یہ حملہ ایک خاص نسل کی ٹڈیوں، "راکی ماؤنٹین لوکسٹ"، نے کیا، جو بعد میں ناپید ہوگئی۔ یہ ٹڈی دل اتنا وسیع تھا کہ اس کا گروہ تقریباً 1800 میل چوڑا اور 110 میل لمبا تھا۔ یہ ایک دیو ہیکل فطری آفت تھی جس نے تقریباً 5 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہر قسم کی ہریالی، فصلوں، اور قدرتی وسائل کو مکمل طور پر ختم کر دیا۔

اس حملے کے دوران کئی دن تک علاقے میں سورج کی روشنی تک پہنچ نہ پائی، کیونکہ ٹڈیوں کے گہرے اور گھنے جھرمٹ نے آسمان کو ڈھانپ لیا تھا۔

یہ ٹڈیاں ہر طرح کی سبز چیز کھانے کی صلاحیت رکھتی تھیں، جن میں فصلیں، گھاس، درختوں کی چھال، اور حتیٰ کہ کپڑے اور لکڑی کے حصے بھی شامل تھے۔

کسان اور مقامی افراد اپنی زمینوں اور خوراک کو بچانے میں ناکام رہے، اور اس حملے کے نتیجے میں لاکھوں لوگ قحط کا شکار ہو گئے۔

دلچسپ حقائق:

1. راکی ماؤنٹین لوکسٹ کی ناپیدی: یہ نسل آج موجود نہیں ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انسانوں کے ذریعہ قدرتی رہائش گاہوں کی تباہی اور زراعتی سرگرمیوں کے باعث یہ ٹڈیاں بیسویں صدی کے آغاز میں ناپید ہو گئیں۔

2. معاشی نقصان: اس حملے کے نتیجے میں امریکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا، خاص طور پر مڈویسٹ کے علاقے جہاں زراعت معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔

3. ماحولیاتی اثرات: یہ حملہ قدرتی نظام میں عدم توازن کا نتیجہ تھا، اور اس نے ٹڈی دل کے حملوں کے خلاف عالمی سطح پر بیداری کو جنم دیا۔

1875 میں چھپنے والے کارٹونز اس ہولناک واقعے کی منظرکشی کرتے ہیں، جہاں ٹڈی دل کو ایک نہ ختم ہونے والی آفت کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ کارٹون اس وقت کے عوامی خوف اور بے بسی کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہ واقعہ آج بھی ماحولیاتی تحفظ اور قدرتی نظام کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

حکیم اجمل خان1911ءمیں حکیم اجمل خان یورپ گئے۔ اس سفر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یورپی ممالک میں طبی ترقیوں کا مطالعہ کر ک...
13/12/2024

حکیم اجمل خان

1911ءمیں حکیم اجمل خان یورپ گئے۔ اس سفر کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یورپی ممالک میں طبی ترقیوں کا مطالعہ کر کے اس کی روشنی میں ہندوستان میں طب یونانی کے فروغ کے لئے کام کیا جائے۔ لندن پہنچ کر وہ چیئرنگ کراس ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر سٹینلے بائڈ، لندن کے چیئرنگ کراس ہسپتال کے سینئر سرجن تھے۔ تشخیص مرض اور فن سرجری دونوں میں ان کا اپنا مقام تھا۔ ڈاکٹر مختار احمد انصاری وہاں ہاﺅس سرجن تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے حکیم اجمل خاں کا ڈاکٹر بائڈ سے تعارف کرایا۔ ڈاکٹر بائڈ کی دعوت پر حکیم صاحب ان کی کلینیکل سرجری کی کلاس میں بھی گئے۔ یہ کلاس طلباءکی عملی تعلیم کے لئے تھی اور ہفتہ میں دو بار ہسپتال کے کسی نہ کسی وارڈ میں ہوا کرتی تھی۔ جب حکیم صاحب کلاس میں پہنچے تو ڈاکٹر بائڈ ایک مریض کے مرض کے بارے میں طلباءکو سمجھا رہے تھے۔ ان کی رائے میں مرض کی وجہ پتہ پرورم تھا۔ انہوں نے حکیم صاحب سے کہا کہ وہ بھی مریض کا معائنہ کریں اور اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ معائنے کے بعد حکیم صاحب نے کہا کہ مریض کی آنتوں کے ابتدائی حصے پر پرانا زخم ہے، جس کے باعث داد کی تکلیف، یرقان اور حرارت ہے۔ ڈاکٹر بائڈ نے ان سے کہا کہ کل اس مریض کا آپریشن ہو گا، آپ ضرور آیئے۔ پھر ہنس کر بولے: یہ طب یونانی اور انگریزی طب کا امتحان ہے۔ دوسرے روز مریض کا پیٹ چاک کرنے پر حکیم صاحب کی تشخیص صحیح نکلی۔ ڈاکٹر بائڈ نے نہایت خوش دلی سے حکیم صاحب کو ان کی صحیح تشخیص پر نہ صرف مبارک باد دی، بلکہ انہیں اور ڈاکٹر مختار انصاری کو اپنے گھر ڈنر پر مدعو کیا۔ وہاں ڈاکٹر بائڈ نے اپنی بیوی سے، جو خود بھی سینئر سرجن تھیں، حکیم اجمل خاں کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں ڈاکٹر انصاری کے ہم وطن، جنہوں نے تشخیص کے مقابلے میں مجھے شکست دی ہے!

پیرس میں وہ ایک ڈاکٹر سے ملے۔ تعارف ہونے پر اس نے بڑی حقارت سے کہا کہ جس طب میں تشخیص کا سب سے بڑا ذریعہ صرف نبض ہو وہ کیا طب ہو سکتی ہے۔ پھر زور دے کر کہا کہ اگر آپ کو اپنی تشخیص پر اتنا ہی اعتماد ہے، تو ذرا میرے ایک مریض کو دیکھئے، چنانچہ دوسرے روز ایک مریضہ حکیم صاحب کے ہوٹل میں لائی گئی۔ اسے ایک سال سے یہ شکایت تھی کہ اس کی ٹانگیں سکڑ گئی تھیں اور پیٹ میں درد ہوا کرتا تھا۔ ایکسرے اور دوسرے ذرائع تشخیص مرض کا پتہ لگانے میں ناکام ہو چکے تھے۔کسی ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مرض کیا ہے۔ تشخیص مرض کے لئے حکیم صاحب نے اس خاتون سے بہت سے سوال کئے، تو معلوم ہوا کہ و ہ ٹینس بہت کھیلا کرتی تھی اور اسے گھڑ سواری کا بھی بہت شوق تھا۔ حکیم صاحب نے سوچ بچار کے بعد اسے ایک پڑیا میں دوائی دی اور کہا کہ وہ اسے 1/4 رتی روزانہ مکھن میں ملا کر کھائے۔ فرانسیسی خاتون اس ذرا سی پڑیا اور دوائی کی مقدار پر بے حد حیران ہوئی، لیکن پندرہ روز بعد وہ اپنے پاﺅں پر چل کر اُن کے پاس آئی، حالانکہ آٹھ مہینے سے وہ اس قابل نہیں تھی۔

حکیم صاحب نے بتایا کہ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا۔ میرے ذہن میں یہ آیا کہ کیونکہ مریضہ ٹینس کھیلتی اور گھڑ سواری کرتی تھی، اس لئے ممکن ہے کہ اس کی کسی آنت میں کسی جھٹکے کی وجہ سے گرہ پڑ گئی ہو۔ ایسے مریض میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اس لئے مَیں نے اسے ایسی دوائی دی جو آنتوں میں کھجلی پیدا کرے۔ وہ دوا بہترین ثابت ہوئی۔ آنت کی گرہ کھل گئی اور متعلقہ اعضا اپنا کام کرنے لگے۔ اس علاج سے وہ فرانسیسی ڈاکٹر اتنا متاثر ہوا کہ حکیم صاحب سے گھنٹوں طب یونانی کے بارے میں گفتگو کرتا رہا۔ اس نے ان کے اعزاز میں ایک ڈنر بھی دیا، جس میں پیرس کے بڑے بڑے ڈاکٹر شریک ہوئے۔ یہ تھے حکیم اجمل خاں۔ طب یونانی میں ان کا نام سنہری حروف سے لکھا ہوا ہے۔ آج بھی پاکستان میں ہر جگہ ”دوا خانہ حکیم اجمل خاں“ احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
حکیم صاحب کی شہرت ایسی تھی کہ سمر قند و بخارا تک کے لوگ علاج کے لئے آتے اور شفا یاب ہو کر جاتے تھے۔ غریب امیر سب کو یکساں توجہ سے دیکھتے اور بغیر کسی فیس کے۔حکیم صاحب کے مزاج میں کچھ شوخی بھی تھی۔ ایک بار ایک شخص دمہ سے ہانپتا کانپتا آیا۔ جیب سے پڑیا نکالی اور بولا:حکیم صاحب، میرے ساتھ بہت ہو گئی۔ آج میں سنکھیا کھاﺅں گا اور اس در پہ جان دے دوں گا۔ شوخی سے بولے: سنکھیا کھا کے کیوں مرتا ہے۔ مرنا ہی ہے تو دوا کھا کے مر.... پھر اس کا علاج کیا اور اس کا دمہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔

مشہور ریاضی دان فیثا غورث ایک لوہار کی دکان کے پاس سے گزر رہا تھا. دکان میں لوہے پر ہتھوڑے چل رہے تھے. فیثا غورث نے کھڑے...
10/12/2024

مشہور ریاضی دان فیثا غورث ایک لوہار کی دکان کے پاس سے گزر رہا تھا. دکان میں لوہے پر ہتھوڑے چل رہے تھے. فیثا غورث نے کھڑے ہو کر جب غور سے سنا تو یہ دو ہتھوڑے تھے ایک میں لوہا ضرب کھانے کے بعد تیز آواز کر رہا تھا جبکہ دوسرے ہتھوڑے کی ضرب کی آواز کم تھی.
فیثا غورث دکان کے اندر گیا. اس نے دیکھا زیادہ آواز پیدا کرنے والا لوہے کا ٹکڑا کم آواز والے لوہے کے ٹکڑے کا آدھا تھا. یہی تحقیق octave کی بنیاد تھی. فیثا غورث نے تحقیق کی اور ساز و آواز کی دنیا کا سارا ردھم حساب کتاب میں تلاش کر لیا. اُس نے کہا آوازوں کا بھی ایک حساب ہے یہ حساب بدلو تو آواز بدل جاتی ہیں
دُنیا حساب کتاب پر کھڑی ہے.
گلاب کا پھول بھی خوبصورت ہے اور نرگس کا پھول بھی حسین تر ہے. گلاب میں لیکن کانٹے ہیں نرگس میں کوئی کانٹا نہیں. لیکن گلاب کے پھول میں خوشبو بھی ہے اس سے آپ گل قند بنا سکتے ہیں اس سے عرق گلاب کشید کر سکتے ہیں جبکہ نرگس کو آپ صرف دیکھ کر خوش ہو سکتے ہیں.
ہم لوگ گلاب کا پھول تو پسند کرتے ہیں لیکن اس کے کانٹے نہیں. ایسا ہی ہم لوگوں کو پسند اور نا پسند کرتےہیں. ہم چاہتے ہیں لوگ ہماری پسند حاصل کرنے کیلئے اپنی فطرت بدل لیں. لیکن ہم اکثر نہیں جانتے فطرت میں گلاب کی بقا کیلئے کھڑے وہ کون سے خوف تھے جن کی وجہ سے اس نے کانٹوں میں پناہ لی.
فطرت کا یہی حساب کتاب ہے جس کی سمجھ سے ہمیں پھر گلاب کے کانٹے برے نہیں لگتے. جیسے فیثا غورث کی ایک تحقیق نے ساز و آواز کی دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا ایسے ہی آپ کی سوچ اور رشتوں سے توقعات و تعلقات میں بھی انقلاب آجاتا ہے جب آپ دوسروں کے کانٹے گنتی کرنا چھوڑ دیتے ہیں . آپ بڑے بن جاتے ہیں.
بڑے پھر شور کم مچاتے ہیں.

09/12/2024

*بچوں کے دل میں قرآن کی محبت ڈالنے کے طریقے* 🤍

1. اس کے سامنے قرآن کی تلاوت کریں: کیونکہ بچہ اپنے والدین کو اپنے لیے ایک مثال سمجھتا ہے۔

2. اسے ایک مخصوص قرآن تحفے میں دیں: اس پر اس کا نام لکھا ہوا ہو، تاکہ اسے محسوس ہو کہ یہ قرآن خاص طور پر اس کے لیے ہے۔

3. اس کی تلاوت کی آواز کو ریکارڈ کریں اور خوبصورت الفاظ میں اس کی تعریف کریں، تاکہ وہ اپنی تلاوت کو مزید بہتر بنانے کے لیے پرجوش ہو۔

4. حفظ مکمل ہونے پر انعامات دیں: جب بھی وہ کوئی حصہ مکمل کر لے تو اسے انعام دیں، جیسے کھلونے یا کوئی اور چیز۔

5. قرآنی کہانیاں سنائیں: جب وہ سونے کے لیے لیٹے تو اسے قرآن کی کہانیاں سنائیں تاکہ وہ قرآن سے جڑنے لگے۔

6. قرآن کی عظمت اس کے سامنے پیش کریں: تاکہ وہ اس کی عزت اور احترام کو دل سے محسوس کرے

7۔ قرآنی مکاتب کا وزٹ کیجئے بچے کے ہمراہ اور وہاں قاری صاحب کے ساتھ کچھ وقت صرف کیجئے

*اللہ پاک ہمیں اور ہمارے بچوں کو قران پاک کے ساتھ عشق محبت اور اس کا حقیقی اتباع نصیب فرمائے*

"تاج" ایک کانسی کا تاج ہے جو تقریباً 6000 سال پرانا ہے۔ یہ تاج 1961 میں فلسطین کے صحرا میں بحر مردار کے قریب ایک غار میں...
06/12/2024

"تاج" ایک کانسی کا تاج ہے جو تقریباً 6000 سال پرانا ہے۔ یہ تاج 1961 میں فلسطین کے صحرا میں بحر مردار کے قریب ایک غار میں ایک خزانے کے حصے کے طور پر دریافت ہوا تھا۔ یہ تاج کانسی کے دور (4500-3500 قبل مسیح) کا ہے اور اس کی شکل ایک موٹے حلقے جیسی ہے جس میں چوکور سوراخ اور اوپر پرندوں کی شکلیں جڑی ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں یہ تاج ایک خاص جگہ کے ماڈل اور ایک تقریب کی چھوٹی تصویر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہ تاج یروشلم کے ایک میوزیم میں رکھا ہے جو کہ یہودیوں کے انتظام میں ہے۔

یہ تصویر وہ نیلوٹک (Nilotic) اقوام سے متعلق ہیں، جو مشرقی افریقہ کے خاص طور پر جنوبی سوڈان، یوگینڈا، کینیا، اور ایتھوپیا...
06/12/2024

یہ تصویر وہ نیلوٹک (Nilotic) اقوام سے متعلق ہیں، جو مشرقی افریقہ کے خاص طور پر جنوبی سوڈان، یوگینڈا، کینیا، اور ایتھوپیا کے علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ نیلوٹس کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

نیلوٹک اقوام کی خصوصیات:

1. قد اور جسمانی ساخت:
نیلوٹک افراد کو دنیا میں سب سے قد آور اقوام میں شمار کیا جاتا ہے۔

مردوں کی اوسط اونچائی تقریباً 190 سینٹی میٹر (6 فٹ 3 انچ) تک ہو سکتی ہے۔

خواتین کی اوسط اونچائی تقریباً 185 سینٹی میٹر (6 فٹ) ہوتی ہے۔

2. جلد کی رنگت:
نیلوٹس کی جلد بہت گہری، تقریباً سیاہ، اور چمکدار ہوتی ہے۔ یہ رنگت انہیں منفرد بناتی ہے اور ان کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔

3. نسلی پس منظر:
نیلوٹک لوگ "نیل وادی" کے آس پاس رہنے والی قدیم افریقی نسلوں میں شامل ہیں۔ ان کی شناخت زیادہ تر نیل دریا کے قریب بسنے اور اپنے مخصوص ثقافتی اور جسمانی خدوخال سے کی جاتی ہے۔

4. معاشرت اور ثقافت:
نیلوٹس زیادہ تر زرعی اور چرواہوں کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ مویشیوں کو اپنی معیشت کا اہم حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کے ثقافتی روایات، لباس، اور موسیقی بہت متنوع ہیں۔

5. نسلی تقسیم:
نیلوٹک اقوام میں مختلف ذیلی گروہ شامل ہیں، جیسے:

دنکا

نوئر

شلوک

ماسائی (جن کا تعلق کینیا اور تنزانیہ سے ہے)

تاریخی پس منظر:

نیلوٹس کو نیگرائڈ نسل کے ایک ذیلی گروہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جن کی جڑیں ہزاروں سال پہلے دریائے نیل کے اوپری علاقوں میں تھیں۔ ان کی غیرمعمولی جسمانی ساخت اور قدیمی ثقافتی روایات انہیں منفرد بناتی ہیں۔

اہم وضاحت:

نیلوٹک افراد کو "جنات" کہنا درست نہیں ہے۔ ان کا قد انسانی پیمانوں میں ہی ہے، اور یہ ان کے جینیاتی ورثے کا نتیجہ ہے۔ اس طرح کے بیانات کو سائنسی اور ثقافتی احترام کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔

ایلون مسک نے آخرکار اپنی نئی سپر سونک اسپیس جیٹ کا انکشاف کر دیا ہے! ایلون مسک نے دنیا کو اپنی سب سے بڑی منصوبہ بندی سے ...
06/12/2024

ایلون مسک نے آخرکار اپنی نئی سپر سونک اسپیس جیٹ کا انکشاف کر دیا ہے! ایلون مسک نے دنیا کو اپنی سب سے بڑی منصوبہ بندی سے چونکا دیا ہے—ایک سپر سونک اسپیس جیٹ جو ہوا بازی اور خلا کی تحقیق کو ہمیشہ کے لیے دوبارہ تشکیل دے سکتا ہے! اس شاندار انکشاف میں، مسک نے اپنی نئی جیٹ کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا تعارف کرایا ہے، جو بے مثال رفتار اور بلندیوں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تصور کریں کہ آپ زمین کے کسی بھی کونے تک ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں پہنچ سکتے ہیں یا براہ راست خلا میں روانہ ہو سکتے ہیں! یہ انقلاب آفرین خلائی جہاز رفتار، کارکردگی اور پائیداری کو ایسے طریقوں سے یکجا کرتا ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ کیا یہ عالمی سفر کا مستقبل ہو سکتا ہے؟ اب دیکھیں، جب ہم ایلون مسک کے اس نئے اختراع کی خصوصیات، ڈیزائن اور حیرت انگیز خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں!

 # **دنیا کا گہرا ترین غار**ویریووکینا غار دنیا کی سب سے گہری غار ہے جس کی گہرائی تقریباً 2223 میٹر ہے۔ یہ غار ابخازیہ ک...
27/11/2024

# **دنیا کا گہرا ترین غار**

ویریووکینا غار دنیا کی سب سے گہری غار ہے جس کی گہرائی تقریباً 2223 میٹر ہے۔ یہ غار ابخازیہ کے علاقے میں کریپوسٹ اور زونٹ پہاڑوں کے درمیان ایک درے میں واقع ہے۔ ابخازیہ ایک خود مختار ریاست ہے جسے سرکاری طور پر ملک جارجیا کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس غار کو 1968 میں دریافت کیا گیا۔ جب پہلی دفعہ یہ غار دریافت ہوا اس وقت ماہرین صرف 115 میٹر کی گہرائی تک پہنچ پائے تھے۔ اس وقت اس ٹیم نے اس غار کا نام S-115 رکھا۔ اس کے بعد 1986 میں روسی ماہرین کی ایک ٹیم اس غار میں 440 میٹر کی گہرائی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ اس وقت اس غار کا نام تبدیل کر کے ویریووکینا غار رکھ دیا گیا 2015 میں ماہرین نے اندازہ لگایا کہ غار 440 میٹر سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ مارچ 2018 میں ماہرین اس غار کی تہہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جو 2212 میٹر کی گہرائی پر تھی۔ اس غار کہ تہہ میں ماہرین کو پانی کے کٹاؤ سے بنی سرنگوں کا ایک پورا نظام ملا جس کی لمبائی 6000 میٹر سے زیادہ تھی- 2023 میں جدید آلات سے اس غار کی گہرائی کی پیمائش کی گئی اور اس کا گہرا ترین مقام 2223 میٹر گہرا پایا گیا

... ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں ایک درخت اتنا شاندار ہے کہ ایک مجسمہ ساز نے اس کی ایک بڑی شاخ کو سہارا دینے کے لیے اس...
27/11/2024

... ارجنٹائن کے شہر بیونس آئرس میں ایک درخت اتنا شاندار ہے کہ ایک مجسمہ ساز نے اس کی ایک بڑی شاخ کو سہارا دینے کے لیے اس کا مجسمہ بنایا۔

اس کام کو "اٹلس" کہا جاتا ہے، اور یہ وہ افسانوی شخصیت ہے جس میں شہر کا سب سے قدیم درخت ہے، جو "گومیرو" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو پلازہ جوآن XXIII میں Recoleta محلے میں واقع ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یہ گم کا درخت 1800 کے لگ بھگ لگایا گیا تھا۔

شلوار قمیص کے ساتھ ٹائی باندھنے والے آخری بزرگآج 200 سے زیادہ ناولوں کے مصنف ایم اسلم  کی 41 ویں برسی ہے۔میاں محمد اسلم ...
26/11/2024

شلوار قمیص کے ساتھ
ٹائی باندھنے والے آخری بزرگ

آج 200 سے زیادہ ناولوں کے مصنف ایم اسلم کی 41 ویں برسی ہے۔
میاں محمد اسلم 6 اگست 1885 کو لاہور میں پیدا ہوئے اور ساری عمر لاہور میں ہی رہے۔ 23 نومبر 1983 کو وفات پائی اور میانی صاحب میں آسودۂ خاک ہوئے۔

ایم اسلم نے اپنی مرضی کی زندگی گزاری۔ شہری جائیداد کی وجہ سے فکرِ معاش تھی نہیں۔ بس گراموفون سنتے تھے اور ناول لکھتے تھے۔ شلوار قمیص پہنتے تھے، اوپر شوخ رنگ کی ٹائی باندھتے تھے۔ کہتے تھے یہ میرا شوق ہے۔
دوستوں کی خاطر تواضع بہت کرتے تھے لیکن دوست کھانے کے بعد ان سے ناول کا باب سننے سے خائف رہتے تھے۔ ایک بار شائد قتیل شفائی نے کہا ، میاں صاحب ، لوگ آپ کے بارے میں غلط بات کرتے ہیں،
پوچھا ، کیا ؟
قتیل نے کہا، کہ آپ زبردستی ناول سناتے ہیں، حالانکہ ایسی تو کوئی بات نہیں،
میاں صاحب نے کہا ، ہاں ، ہاں
اور یوں احباب اس روز ناول سننے سے محفوظ رہے !

ایک بار کسی کے سوال پر بتایا کہ زیادہ غوروفکر کی ضرورت نہیں پڑتی ، بس کوئی گراموفون ریکارڈ لگا کر سنتا ہوں اور ناول کا پلاٹ ذہن میں آجا تا ہے۔
ان کے والد میاں نظام دین علامہ اقبال کے دوست تھے۔ ایم اسلم پہلے شاعری کرتے تھے، علامہ اقبال کو دکھائی تو انہوں نے مشورہ دیا کہ نثر لکھا کریں ۔ انہوں نے یہ مشورہ قبول کرکے ناول افسانے لکھنا شروع کئے اور اردو فکشن کے ایک لاکھ سے زیادہ صفحات لکھ کر ایک ریکارڈ قائم کرڈالا !

ناظمہ کی آپ بیتی،عروسِ غربت، معرکۂ بدر،جوئے خون، پاسبانِ حرم، شمشیرِستم، بنتِ حرم، فتحِ مکہ، صبحِ احد، ابو جہل، غزالۂ صحرا ،فتنۂ تاتار ،خونِ شہیداں ، رقصِ ابلیس ، مرزا جی، گناہ کی راتیں ،جہنم ،حسنِ سوگوار ، خار و گل ،رقصِ زندگی ، راوی کے رومان ، درِ توبہ اور شامِ غریباں ایم اسلم کے مشہور ناول ہیں۔
معروف ناول نگار فارق خالد بتاتے ہیں ایم اسلم، مشہور مصوّر اُستاد اللہ بخش کے دوست تھے اور ان سے ملنے اکثر پُرانا مسلم ٹاون جایا کرتے تھے۔ ان کے کئی ناولوں کے سرورق بھی استاد نے ڈیزائن کیے۔ مَیں اُستاد اللہ بخش کا باقاعدہ شاگرد تھا۔ ان پر مَیں نے بڑی محبت سے ایک خاکہ لکھا ہے جو " سویرا" لاہور کی تازہ اشاعت میں شامل ہے اور اس میں میاں ایم اسلم کا ذکر بھی ہے۔

میاں یوسف صلاح الدین کی جس حویلی کا آج کل بہت چرچا ہے، وہ میاں ایم اسلم کی ہی تھی۔ ان کی اولاد نہیں تھی، اس لئے ان کی حویلی پہلے ان کے کزن میاں امیر الدین کو ملی. ان سے ان کے بیٹے اور علامہ اقبال کے داماد میاں صلاح الدین ( میاں صلی، جو ایم این اے بھی بنے ) کے حصے میں آئی اور پھر ورثے میں میاں یوسف صلاح الدین کے۔
علامہ اقبال کی صاحبزادی منیرہ کا نکاح میاں صلاح الدین سے ہوا تو خاندان کے بزرگ کی حیثیت کی سے میاں اسلم نے نکاح نامے پر گواہ کے طور پر دستخط کئے۔ اس کا عکس محترم منیب اقبال نے فراہم کیا ہے۔
ڈاکٹر انور سدید مرحوم کے صاحبزادے مسعود انور بتاتے ہیں ۔۔۔ 1976 میں ڈینٹل کالج کے قریب انکی رہائش گاہ کے سامنے سے ابا جی کے ساتھہ گزر رہا تھا۔ ایم اسلم باہر کھڑے تھے۔ اباجی بولے جلدی سے نکل چلو ۔ مگر اسلم صاحب کی نظر پڑ گئی اور آواز دے کر بلا لیا۔ چائے بسکٹ کے ساتھہ دو باب ناول کے سنے۔ ابا جی نے بتایا کہ انہوں نے فائلیں بنائی ہوئی ہیں۔ بارش کا منظر 20 صفحات۔ پہلی ملاقات 15 صفحات وغیرہ۔ ناول میں جیسا مقام آتا ھے فائل کھول کر صفحات فٹ کر دیتے ھیں۔
ارشد نعیم صاحب نے یاد دلایا ہے کہ
شاہد احمد دہلوی نے ایم اسلم کا شاندار خاکہ لکھا تھاجس سے ان کی شخصی عظمت کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور ان کی عوامی مقبولیت کے راز کا بھی پتہ چلتا ہے.

Address

Bhakkar
3000

Telephone

03337973808

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Amazing Bhakkar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Amazing Bhakkar:

Videos

Share