08/07/2023
کبھی تنہائیِ کوہ و دمن عشق
کبھی سوز و سرُور و انجمن عشق
کبھی سرمایۂ محراب و منبر
کبھی مولا علیؓ خیبر شکن عشق!
تشریح:
اس رباعی میں حکیم الامت نے جذبہ عشق کی وسعت کو بیان فرمایا ہے کہ کبھی عشق کوہ و دمن کی طرح وسیع اور تنہا ہوتا ہےاور کبھی محفل کا سوز و سرور یعنی رونق ہوتا ہے، جب عرفانِ الہی سے آشنائی اور خدا تعالی سے قربت ہو جاۓ تو عشق مسجد کے محراب و منبر کی متاع بنتا ہے اور جب مولا علی رضی اللہ عنہ جیسا فقر عطا ہوتا ہے تو یہ جذبہ عشق بلندیوں کی انتہا کو پہنچتا ہے تو قلعہ خیبر کی فتح کا سبب بن جاتا ہے۔
(شرح ایک اقبال شناس دوست غلام عباس)
کبھی تنہائی کوہ و دمن عشق:
۱-رسول اللہ ﷺ نبوت ملنے سے پہلے غارِ حرا میں کئی کئی دن خلوت نشین رہا کرتے تھے، یہاں تک کہ پہلی وحی آئی اور آپ ﷺ نے تنہائی کا وہ معمول ترک فرما دیا جو تلاشِ حق کی خاطر اختیار کیا تھا۔ اس مصرعے میں اسی دور کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دراصل اسلام کا پہلا مرحلہ تھا۔
۲۔ باہر کی دنیا میں حق کو پانے کا راستہ بند دیکھ کر اسے بالکل تنہا اور یکسو ہو کر اپنے اندر ڈھونڈنے کا عمل
۳۔ عشق کا پہلا مرحلہ مراقبۂ محبوب ہے جو تنہائی میں ہی ممکن ہے۔
۴۔ عبد و معبود کے تعلق میں معبود کی شانِ تنزیہ کا غلبہ بندے پر۔
۵۔ اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ انفس میں۔
کبھی سوز و سرور و انجمن عشق:
۱۔ عشق، مقصودِ حقیقی سے شدید تعلق اور اس تک رسائی کا نام ہے جس میں وہ دوسروں کو بھی شریک کرتا ہے۔
۲۔ عاشق، بندہ ہے اور اللہ محبوب---اس تعلق میں اللہ کی شانِ جلال کا احساس غالب ہو تو بندے کی بنیادی کیفیت "سوز" ہو گی، اور اللہ کی شانِ جمال کا احساس غالب ہو تو بندے کا مرکزی حال "سرور" ہو گا۔ جب یہ دونوں احوال اپنے کمال کو پہنچ کر ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو ان سے وابستہ داخلیت اور تنہائی کا رنگ بدل جاتا ہے اور اللہ کی محبت اس عاشق کامل کے ذریعے اپنے تمام احوال سمیت دوسروں میں بھی منتقل ہونے لگتی ہے---یہ انجمن ہے۔
۳۔ اس مصرعے میں عشق کے تین درجے بیان ہوئے ہیں: طلب (سوز)، حصول (سرور)، اور حضور(انجمن)۔
۴۔ عبد و معبود کے تعلق میں معبود کی شانِ تشبیہ کا غلبہ بندے پر۔
۵۔ اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ انفس میں بھی اور آفاق میں بھی۔
دعوتِ دین پوری گہرائی اور پھیلاؤ کے ساتھ۔
کبھی سرمايہ محراب و منبر:
۱۔ بندے کا اللہ سے تعلق دو بنیادوں پر استوار ہے: عبادت اور اطاعت۔ عبادت، دین کی حقیقت ہے جس کا اظہار اطاعت کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ باطن ہے اور وہ ظاہر۔ "محراب" عبادت کا استعارہ ہے جس میں امامت بھی شامل ہے اور منبر اطاعت کا اشارہ ہے جس میں خلافت بھی شامل ہے۔ یعنی دین کا ظاہر و باطن اور حقیقت و غایت عشق پر قائم ہے بلکہ عشق ہی ہے۔
۲۔ رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی دو جہتیں: اللہ سے تعلق (محراب) اور مخلوق سے تعلق (منبر)۔
۳۔ مسلمان کے باطن یعنی بندگی اور ظاہر یعنی پیغمبر علیہ السلام کی نیابت کی اساس عشق ہے۔
۴۔ عشق ہی سے مسلمان بندہ بھی ہے اور حاکم بھی۔
کبھی مولا علی خيبر شکن عشق:
۱۔ عشق روحِ جہاد ہے جو شیرِ خدا علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ کی شکل میں مجسم ہو گئی۔
۲۔ عشق حق کی شانِ جلال ہے جس کا مظہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
(شرح احمد جاوید رسالہ اقبالیات جنوری تا مارچ ۲۰۱۰ جاری کردہ اقبال اکادمی پاکستان)
Kabhi Tanhai-e-Koh-o-Daman Ishq
Kabhi Souz-o-Suroor-o-Anjuman Ishq
Kabhi Sarmaya-E-Mehrab-o-Manbar
Kabhi Moula Ali (R.A.) Khaybar Shikan Ishq!
Love, sometimes, is the solitude of Nature;
It is, sometime, merrymaking and company-seeking:
Sometime the legacy of the mosque and the pulpit,
Sometime Lord Ali (A.S.) the Vanquisher of the Khyber!
Reference: https://tinyurl.com/53pn7ftf