Beautiful Pakistan

Beautiful Pakistan ® Official Public Page █║▌│█│║▌║││█║▌│║█║▌ Beautiful Pakistan Public Page ®
(242)

08/06/2024

ان گرمیوں میں انسان تو کیا جانور بھی ٹھنڈی چھاؤں کے تلاش میں ہے ہم نے بے دردی سے اپنے درختوں کو کاٹا چھاؤں کو ختم کیا اور زندگی کا خمیازہ بکت رہے ہیں
یہ خوبصورت معصوم بلیاں کتنے ارام سے مصنوئی ٹھنڈک کو انجوائے کر رہی ہے میں نے ان لمحات کو انکھ کے ساتھ ساتھ موبائل میں محفوظ کر لیا ۔۔

یہ ice Box دیکھ کر ذرا اس زمانے کو یاد کریں جب فریج نہیں ہوتے تھے برف کے ٹکڑے اس میں بوتلوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے رکھے ج...
07/06/2024

یہ ice Box دیکھ کر ذرا اس زمانے کو یاد کریں جب فریج نہیں ہوتے تھے برف کے ٹکڑے اس میں بوتلوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے رکھے جاتے تھے دکاندار کولڈڈرنک کی بوتل اس میں سے نکال کر ایک خاص قسم کی چابی سے بوتل کا ڈھکن کھولتے تھے اور وہ چابی ایک زنجیر یا ڈوری کے ساتھ اس Box کیساتھ بندھی ہوتی تھی کہ کہیں گُم نہ ہو جائے۔
جب پکنک منانے کبھی دوستوں یا فیملیز کے ساتھ جاتے تھے تو پکنک کا مزا اسکے بغیر نامکمل تھا ۔
آتا ہے یاد مجھکو گزرا ہوا زمانہ

06/06/2024

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا

Only 90s kids knows
05/06/2024

Only 90s kids knows

خوبصورت دور کی سنہری یادیں ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا ۔۔
02/06/2024

خوبصورت دور کی سنہری یادیں
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا ۔۔

ممتاز اداکار طلعت حسین جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!ایک عہد جو تمام ہوا
26/05/2024

ممتاز اداکار طلعت حسین جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!
ایک عہد جو تمام ہوا

The Mall road Lahore in 1950s
18/05/2024

The Mall road Lahore in 1950s

Photograph of the Samadhi of Ranjit Singh at Lahore, Pakistan, taken by George Craddock in the 1880s, part of the Bellew...
15/05/2024

Photograph of the Samadhi of Ranjit Singh at Lahore, Pakistan, taken by George Craddock in the 1880s, part of the Bellew Collection of Architectural Views.

A wonderful restoration of Wazir Khan Mosque Lahore cascade room restored very well This room was specially designed to ...
14/05/2024

A wonderful restoration of Wazir Khan Mosque Lahore cascade room restored very well This room was specially designed to cool the underground floor in summer۔۔The fresco painting work added to its beauty

کرنال شاپ انارکلی لاھور ۔۔
12/05/2024

کرنال شاپ انارکلی لاھور ۔۔

پنجابی کہاوت ہے اَنھی پیوے تے کتُی چَٹے۔۔*بخدمت جناب CEOs صاحبان الیکٹرک سپلائر کمپنیز پاکستان ، پیمرا ، وزیراعظم پاکستا...
10/05/2024

پنجابی کہاوت ہے اَنھی پیوے تے کتُی چَٹے۔۔

*بخدمت جناب CEOs صاحبان الیکٹرک سپلائر کمپنیز پاکستان ، پیمرا ، وزیراعظم پاکستان ، چیف جسٹس پاکستان..*
*جناب عالی،*
*گزارش ھے کہ تمام ملک کے بجلی کے صارفین کو ان 13 نکاتی ٹیکسز کے سلسلہ کی وضاحت کی جاۓ .......* *شکریہ*

*1.بجلی کی قیمت ادا کر دی تو اس پر کون سا ٹیکس؟*
*2.کون سے فیول پر کونسی ایڈجسٹمنٹ کاٹیکس؟*
*3.کس پرائیس پہ الیکٹریسٹی پہ کون سی ڈیوٹی؟*
*4 .کون سیے فیول کی کس پرائیس پر ایڈجسٹمنٹ؟*
*5.بجلی کے یونٹس کی قیمت ( جو ھم ادا کر چکے) پر کونسی ڈیوٹی اور کیون؟*
*6.ٹی وی کی کونسی فیس، جبکہ ھم کیبل استعمال کرتے ھین الگ سے پیسے دیکر ..*
*7.جب بل ماھانہ ادا کیا جاتا ھے تو یہ بل کی کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ھے؟*
*8. کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟*
*9.جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کر رھےھیں تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟*
*10.کس چیز کے اور کون سے further ( اگلے) چارجز.*
*11.ود ھولڈنگ چارجز کس شے کے؟*
*12. میٹر تو ھم نے خود خریدا تھا اسکا کرایہ کیوں؟*
*13. بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟*
*اگے سینڈ کیجے تاکہ متعلقہ ذمہ داروں تک یہ میسج پہنچ جاۓ*
*منجانب؛ صارفینِ بجلی*
عوام کا لہو پینا بند کریں
اس گھسے پٹے کرپٹ نظام میں بدلاؤ لائیں نہیں تو عوام کے جوتے بہت زیادہ اور آپ کے افسر بہت کم .

ہمارے استاد یہ قلم مفت میں خود بناکر دیتے تھے آج یہی قلم 600روپے میں  فروخت ہورہی ہے باقی خود ہی حساب لگا لے تعیلم کتنی ...
03/05/2024

ہمارے استاد یہ قلم مفت میں خود بناکر دیتے تھے آج یہی قلم 600روپے میں فروخت ہورہی ہے باقی خود ہی حساب لگا لے تعیلم کتنی مہنگی ہوگی اور ایسا استاد کتنے نایاب ہوگے

میٹھادر 1897 کراچی کی تصویر:میٹھادر کا لفظی مطلب سندھی اور اردو دونوں میں میٹھا دروازہ ہے، اور یہ پرانے کراچی کے دو دروا...
24/04/2024

میٹھادر 1897 کراچی کی تصویر:
میٹھادر کا لفظی مطلب سندھی اور اردو دونوں میں میٹھا دروازہ ہے، اور یہ پرانے کراچی کے دو دروازوں میں سے ایک کا نام تھا - دوسرے کا مغرب میں "کھارا دروازہ" تھا - جسے اب کھارادر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دونوں دروازے 1729 میں بنائے گئے تھے، اور 1860 میں انگریزوں کے سندھ فتح کرنے کے بعد انہیں توڑ دیا گیا تھا۔ کھارادر کی ملحقہ کمیونٹی کے ساتھ، یہ وہی جگہ بناتا ہے جسے کراچی کا اصل مرکز سمجھا جاتا ہے، جب یہ شہر "کلاچی جو گوٹھ" کے نام سے جانا جاتا تھا۔
تصویر اور تحریر محمد فیصل قریشی

آج کی نسل ایسی رات کو ترس رہی ہوگی، کیونکہ تقریباً ہر کسی کے گھر میں کولر، اے سی ہیں۔ہر شام ہم جا کر چھت پر پانی ڈالتے ا...
22/04/2024

آج کی نسل ایسی رات کو ترس رہی ہوگی، کیونکہ تقریباً ہر کسی کے گھر میں کولر، اے سی ہیں۔

ہر شام ہم جا کر چھت پر پانی ڈالتے اور زمین کو ٹھنڈا کرتے، پھر ایک ایک کر کے تکیہ، منجی اور مچھر دانی/ کوائل پہنچاتے، جب تک والد صاحب چھت پر لیٹ جاتے، ہم کھانا کھاتے۔ چھت پر چڑھتےاور اسی طرح ہم ستاروں کو دیکھتے،بھائیوں اور کزنوں کو بات کرتے دیکھتے۔

ہم لوگوں کو آہستہ آہستہ نیند آتی اور رات کے آخری پہر فُل اےسی جیسی ہوا میں سو جاتے😊

آپ بتائیں چھت پر سونے کا مزہ کس نے لیا ہے؟

Good morning from the North of Pakistan
16/04/2024

Good morning from the North of Pakistan

Eid Mubarak
10/04/2024

Eid Mubarak

80 اور 90 کی دہائی میں جو لوگ پیدا ہوئے انہیں جنریشن ایکس (Generation X) کہا جاتا ہے۔ اس جنریشن نے اپنی زندگی میں دو ادو...
06/04/2024

80 اور 90 کی دہائی میں جو لوگ پیدا ہوئے انہیں جنریشن ایکس (Generation X) کہا جاتا ہے۔ اس جنریشن نے اپنی زندگی میں دو ادوار کا تجربہ کیا جس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ جب انہوں نے دنیا میں آنکھ کھولی تو یہ ریڈیو، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، اور کمپیوٹر کا ابتدائی دور تھا جن کی سہولیات بہت کم لوگوں کو میسر تھی۔ اس دور میں لوگ رات کو لالٹین اور موم بتی جلاکر رات کو روشنی کا انتظام کرتے تھے۔ گاؤں میں کسی ایک دو گھروں میں ٹیلی فون یا ٹیلی وژن کی سہولت موجود تھی۔ ریڈیو دنیا سے باخبر رہنے کا نامور ذریعہ تھا۔ کچے مکان، مٹی میں کھیلنا اور رات کو جلدی سونے کا رواج تھا۔

2,000ء چونکہ نئی صدی کا آغاز تھا اور صدی کے بدلنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی بڑے پیمانے پر چیزیں بدل گئی۔ یہ ٹیکنالوجی کے عروج کا ابتدائی مرحلہ تھا جس میں ڈرون جہاز، موبائل فون، انٹرنیٹ اور جدید خودکار آلات کی آمد کا سلسلہ جاری ہوا۔ ٹیکنالوجی اور جدید آلات تک عام لوگوں کی رسائی ممکن ہوئی۔

ان سب کے بعد موبائل فون سمارٹ فون میں بدل گئے، WIFI کا دور آ گیا، Robotics اور Artificial Intelligence نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ Generation X نے ان سب تبدیلیوں کو اپنے زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے دیکھا۔

دنیا پچھلے تین سو سالوں میں اتنی تیزی کے ساتھ نہیں بدلی جتنی ان 30 اور 40 سالوں میں بدل چکی ہے۔
مشہور فارسی کہاوت ہے۔ "ہر کمالے را زوالے" مطلب ہر عروج کو زوال ہے۔ جس رفتار سے یہ ٹیکنالوجی اور سائنس میں دنیا ترقی کررہی ہے شاید یہ اپنے ترقی اور اونچائی کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے۔

یاد ماضی
06/04/2024

یاد ماضی

1940ء میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے یہ چائے خانہ شروع کیا بوٹا سنگھ نے 1940ء سے 1944ء تک اس چائے خا...
06/04/2024

1940ء میں ایک سکھ بوٹا سنگھ نے "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے یہ چائے خانہ شروع کیا بوٹا سنگھ نے 1940ء سے 1944ء تک اس چائے خانہ و ہوٹل کو چلایا مگر اس کا کام کچھ اچھے طریقے سے نہ جم سکا۔ بوٹا سنگھ کے چائے خانہ پر دو سکھ بھائی سرتیج سنگھ بھلا اور کیسر سنگھ بھلا جو گورنمنٹ کالج کے سٹوڈنٹ تھے اپنے دوستوں کے ہمراہ اکثر چائے پینے آتے تھے۔ 1940ء میں یہ دونوں بھائی گورنمنٹ کالج سے گریجوایشن کر چکے تھے اور کسی کاروبا ر کے متعلق سوچ رہے تھے کہ ایک روز اس چائے خانہ پر بیٹھے، اس کے مالک بوٹا سنگھ سے بات چل نکلی اور بوٹا سنگھ نے یہ چائے خانہ ان کے حوالے کر دیا۔

پاک ٹی ہاؤس لاہور میں مال روڈ پر واقع ہے جو کہ انار کلی بازار اور نیلا گنبد کے قریب ھے۔ قیام پاکستان کے بعد حافظ رحیم بخش صاحب جالندھر سے ہجرت کر کے لاہور آۓ تو انہیں پاک ٹی ہاؤس 79 روپے ماہانہ کرایہ پر ملا۔ یہ چائے خانہ "انڈیا ٹی ہاؤس" کے نام سے ہی چلتا رہا بعد میں "انڈیا" کاٹ کر "پاک" کا لفظ لکھ دیا گیا۔

دبلا پتلا بدن، دراز قد، آنکھوں میں ذہانت کی چمک، سادہ لباس، کم سخن، حافظ رحیم بخش کو دیکھ کر دِلی و لکھنؤ کے قدیم وضعدار بزرگوں کی یاد تاذہ ہو جاتی۔ حافظ صاحب کے دو بڑے بیٹوں علیم الدین اور سراج الدین نے پاک ٹی ہاؤس کی گدی کو سنبھالا۔

لاھور کے گم گشتہ چاۓ خانوں میں سب سے مشہور چاۓ خانہ پاک ٹی ہاؤس تھا جو ایک ادبی، تہذیبی اور ثقافتی علامت تھا۔ پاک ٹی ہاؤس شاعروں، ادیبوں، نقاد کا مستقل اڈہ تھا جو ثقافتی، ادبی محافل کا انعقاد کرتی تھیں۔ پاک ٹی ہاؤس ادیبوں کا دوسرا گھر تھا اور کسی کو اس سے جدائی گوارا نہیں تھی وہ ٹی ہاؤس کے عروج کا زمانہ تھا۔

ان دنوں لاھور میں دو بڑی ادبی تنظیمیں، حلقہ ارباب ذوق اور انجمن ترقی پسند مصنفین ہوتی تھیں۔ صبح سے لیکر رات تک ادبی محفلیں جمی رہتی تھیں۔ یہاں ملک بھر سے نوجوان ان شخصیات سے ملاقات کرنے کیلۓ آتے تھے۔ اتوار کو ٹی ہاؤس میں تِل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی۔ جو کوئی آتا کرسی نہ بھی ہوتی تو کسی دوست کے ساتھ بیٹھ جاتا تھا۔ یہاں شعر و ادب پر بڑے شوق سے بحثیں ہوتی تھیں۔

ٹی ہاؤس میں بیٹھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں سے سواۓ چند ایک کے باقی کسی کا بھی کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا۔ کسی ادبی پرچے میں کوئی غزل، نظم یا کوئی افسانہ لکھ دیا تو پندرہ بیس روپے مل جاتے تھے لیکن کبھی کسی کے لب پر تنگی معاش کا شکوہ نہیں تھا۔ ایسا کبھی نہیں تھا کہ کسی دوست کی جیب خالی ہے تو وہ ٹی ہاؤس کی چاۓ اور سگریٹوں سے محروم رہے۔ جس کے پاس پیسے ہوتے تھے وہ نکال کے میز پر رکھ دیتا تھا۔ جس کی جیب خالی ہوتی علیم الدین صاحب اس کے ساتھ بڑی فراخ دلی سے پیش آتے تھے۔ اس وقت کے ادیبوں میں سے شاید ہی کوئی ادیب ہو جس نے پاک ٹی ہاؤس کی چاۓ کا ذائقہ نہ چکھا ہو۔

پاک ٹی ہاؤس کا بڑا دلکش ماحول ہوتا تھا۔ نائیلون والا چمکیلا فرش، چوکور سفید پتھر کی میزیں، دیوار پر لگی قائدآعظم کی تصویر، گیلری کو جاتی ہوئی سیڑھیاں، بازار کے رخ پر لگی شیشے دار لمبی کھڑکیاں جو گرمیوں کی شاموں کو کھول دی جاتی تھیں اور باہر لگے درخت بھی دکھائی دیتے تھے۔ دوپہر کو جب دھوپ پڑتی تو شیشوں سے گلابی روشنی اندر آتی تھی۔

ٹی ہاؤس کے اندر کونے والے کاؤنٹر پر علیم الدین کا مسکراتا ہوا سانولا چہرا ابھرتا اور بل کاٹتے وقت پیچھے کہیں دھیمے سروں میں ریڈیو بج رہا ہوتا تھا۔ علیم الدین کی دھیمی اور شگفتہ مسکراھٹ تھی۔ اس کے چمکیلے ہموار دانت موتیوں کی طرح چمکتے تھے ٹی ہاؤس کی فضا میں کیپسٹن سگریٹ اور سگار کا بل کھاتا ہوا دھواں گردش کرتا تھا۔ ٹی ہاؤس کی سنہری چاۓ، قہوہ اور فروٹ کیک کی خوشبو بھی دل کو لبھاتی تھی۔ کبھی کبھی کاؤنڑ پر رکھا ہوا ٹیلیفون یک دم بج اٹھتا تھا۔

ہجرت کر کے آنے والوں کو پاک ٹی ہاؤس نے اپنی گود میں پناہ دی۔ کسی نے کہا میں انبالے سے آیا ہوں میرا نام ناصر کاظمی ہے۔ کسی نے کہا میں گڑھ مکستر سے آیا ہوں میرا نام اشفاق احمد ہے۔ کسی نے کہا میرا نام ابن انشاء ہے اور میرا تعلق لاہور سے ہے۔

وہ بڑے چمکیلے اور روشن دن تھے۔ ادیبوں کا سارا دن ٹی ہاؤس میں گزرتا تھا۔ ذیادہ تر ادیبوں کا تخلیقی کام اسی زمانے میں انجام پایا تھا۔ ناصر کاظمی نے بہترین غزلیں اسی زمانے میں لکھیں۔ اشفاق احمد نے گڈریا اسی زمانے میں لکھا۔ شعر و ادب کا یہ تعلق پاک ٹی ہاؤس ہی سے شروع ہوا تھا۔

صبح آٹھ بجے پاک ٹی ہاؤس میں کم لوگ آتے تھے۔ ناصر کاظمی سگریٹ انگلیوں میں دباۓ، سگریٹ والا ہاتھ منہ کے ذرا قریب رکھے ٹی ہاؤس میں داخل ہوتا تھا اور اشفاق احمد سائیکل پر سوار پاک ٹی ہاؤس آتا تھا۔

پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوں تو دائیں جانب شیشے کی دیوار کے ساتھ ایک صوفہ لگا ھوا تھا۔ سامنے ایک لمبی میز تھی۔ میز کی تینوں جانب کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ ناصر کاظمی، انتظار حسین، سجاد باقر رضوی، پروفیسر سید سجاد رضوی، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد وغیرہ کی محفل شام کے وقت اسی میز پر لگتی تھی۔

اے حمید، انور جلال شمزہ، عباس احمد عباسی، ھیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء وغیرہ قائد آظم کی تصویر کے نیچے جو لمبی میز اور صوفہ بچھا تھا، وہاں اپنی محفل سجاتے تھے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی اور سید وقار عظیم بھی وقت نکال کر پاک ٹی ہاؤس آتے تھے۔ ھر مکتبہ فکر کے ادیب، شاعر، نقاد اور دانشور اپنی الگ محفل بھی سجاتے تھے۔

سعادت حسن منٹو، اے حمید، فیض احمد فیض، ابن انشاء، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، کمال رضوی، ناصر کاظمی، پروفیسر سید سجاد رضوی، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، انتظار حسین، اشفاق احمد، قیوم نظر، شہرت بخاری، انجم رومانی، امجد الطاف امجد، احمد مشتاق، مبارک احمد، انورجلال شمزہ، عباس احمد عباسی، ہیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء، ڈاکٹر عبادت بریلوی، سید وقار عظیم وغیرہ پاک ٹی ہاؤس کی جان تھے۔

ساحر لدھیانوی بھارت جا چکا تھا اور وہاں فلمی گیت لکھ کر اپنا نام امر کر رھا تھا۔ شاعر اور ادیب اپنے اپنے تخلیقی کاموں میں مگن تھے۔ ادب اپنے عروج پہ تھا اس زمانے کی لکھی ھوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اس زمانے کی بوئی ہوئی ذرخیز فصل کو ھم آج کاٹ رہے ہیں۔

پاک ٹی ہاؤس کئی نشیب و فراز سے گزرا اور کئی مرتبہ بند ہو کر خبروں کا موضوع بنتا رہا۔

عرصہ دراز تک اہل قلم کو اپنی آغوش میں پناہ دینے کے بعد 2000ء میں جب ٹی ہاؤس کے مالک نے اسے بند کرنے کا اعلان کیا تو ادبی حلقوں میں تشویس کی لہر دوڈ گئی اور اھلِ قلم نے باقاعدہ اس فیصلے کی مزاحمت کرنے کا اعلان کر دیا۔

دراصل ٹی ہاؤس کے مالک نے یہ بیان دیا تھا کہ "میرا ٹی ہاؤس میں گزارہ نہیں ہوتا میں کوئی دوسرا کاروبار کرنا چاہتا ہوں" ادبی تنظیموں نے مشترکہ بیان دیا کہ ٹی ہاؤس کو ٹائروں کی دکان بننے کی بجاۓ ادیبوں کی بیٹھک کے طور پر جاری رکھا جاۓ کیونکہ اس چاۓ خانے میں کرشن چندر سے لیکر سعادت حسن منٹو تک ادبی محفلیں جماتے رھے۔
ادیبوں اور شاعروں نے اس چاۓ خانے کی بندش کے خلاف مظاہرہ کیا اور یہ کیس عدالت میں بھی گیا اور بعض عالمی نشریاتی اداروں نے بھی احتجاج کیا۔ آخر کار 31 دسمبر 2000ء کو یہ دوبارہ کھل گیا اور اہل قلم یہاں دوبارہ بیٹھنے لگے لیکن 6 سال کے بعد مئ 2006ء میں یہ دوبارہ بند ہو گیا اس بار ادیبوں اور شاعروں کی طرف سے کوئی خاص احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا۔

اس طرح یہ تاریخی، ادبی اور ثقافتی ورثہ نصف صدی تک اہل قلم کی میزبانی کرنے کے بعد اپنے پیچھے علم و ادب کی دنیا کی کئ داستانیں چھوڑ گیا۔ اب اس کے بند شٹر اور اوپر لکھا ہوا بورڈ صرف ماضی کے ایک ادبی ورثہ کی یاد دلانے لگا۔

نگینہ بیکری، چوپال، شیزان اور عرب ہوٹل کی طرح یہ بھی ماضی کا حصہ بن گیا۔

پاک ٹی ہاؤس کی بحالی لاہور کے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کا ایک مسلسل درینہ مطالبہ تھا۔ پاک ٹی ہاؤس کا افتتاح 14 اگست کو کیا جانا تھا لیکن نہ ہو سکا۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر افتتاح کی نئی تاریخ 6 ستمبر رکھی گئی لیکن بے سود۔ 20 اکتوبر 25 اکتوبر اور 25 دسمبر 2012ء کو کیے گئے وعدے بھی وفا نہ ہو سکے۔ پاک ٹی ہاؤس کی جدائی ختم ہوئی اور وصل کا وقت آ گیا۔ میاں نواز شریف نے بالآخر 23 مارچ کو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پی کر اور اس کا افتتاح کر کے ادیبوں اور شاعروں کے لیے اس کے دروازے ایک بار پھر کھول دئیے۔

اے حمید ایک جگہ لکھتے ہیں کہ "میں اور اشفاق احمد دیر تک ٹی ہاوس میں بیٹھے گزرے زمانے کو، گزرے زمانے کے چہروں کو یاد کرتے رہے، کیسے کیسے لوگ تھے، کیسے کیسے چمکیلے چہرے تھے جو ادب کے آسمان پر ستارے بن کر چمکے اور پھر اپنے پیچھے روشنی کی لکیریں چھوڑ کر نظروں سے غائب ہو گئے۔ کبھی ٹی ہاوس کے کاؤنٹر پر رکھے گلدان میں نرگس اور گلاب کے پھول مہکا کرتے تھے۔ شیشوں میں سے ان پر سردیوں کی دھوپ پڑتی تو وہ بجلی کے بلب کی طرح روشن ہو جاتے۔ اب کاؤنٹر پر نہ گلدان ہے نہ گلدان کے پھول ہیں۔ صرف میں اور اشفاق احمد میز کے آمنے سامنے سر کو جھکاۓ بیٹھے پرانے دنوں کو یاد کر رہے ہیں۔ ایک دن آۓ گا کہ اس میز پر کوئی اور بیٹھا ہمیں یاد کر رہا ہو گا " ـــــــــــــــــــ

حیف صد حیف اے حمید تو پاک ٹی ہاؤس میں محفل جمانے کی حسرت لیے اگلے جہان روانہ ہو گئے لیکن ہم لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

05/04/2024
 #ونگار  اک رسم تھی کہ پیار کا بہانہ تھا۔ وِنگار جسے پنجاب میں "ونگار " پختون علاقوں  میں "بلاندرہ" اور"اشر" کےنام سے بھ...
04/04/2024

#ونگار
اک رسم تھی کہ پیار کا بہانہ تھا۔

وِنگار جسے پنجاب میں "ونگار " پختون علاقوں میں "بلاندرہ" اور"اشر" کےنام سے بھی جانا جاتا ھے۔ ونگار کالفظی مطلب
جو میں سمجھا ھوں کہ بلا معاوضہ اجتماعی کام ( مُفتا)
جب جدید زرعی آ لات نہیں تھے ۔ کھیتی باڑی کے کام مینوئلی Manually ھوتے تھے۔ھمارےعلاقہ میں بیلوں کے ذریعے ھل چلائےجاتے (نالی پھیرنا) کھیت کو ھموار کرنا۔ تال وغیرہ۔ گندم اور چنےکی بوائی، کٹائی اور گہائی کا مرحلہ ھوتا، پڑ پکائے جاتے۔ کباڑ ،جڑی بوٹیاں (بھوکل) وغیرہ تلف کی جاتیں۔ یہ سارے کام چونکہ مشقت طلب تھے اور زیادہ افرادی قوت کی ضرورت ھوتی تو سب کاشتکار مل کر باری باری ایک دوسرےکے کام کرتے تھے ۔
اس کے علاوہ جب کچے مکانات کی چھتوں کی مرمت کی جاتی مٹی اور گارا چڑھایا جاتا یا نئی چھت ڈالنے کا بھاری کام ھوتاتواس موقعےپر بھی وِنگار برپا کیا جاتا تھا ۔
یہ سارے کام سب لوگ خوشی، جوش و ولولے سے انجام دیتے تھے ۔ ایسے موقعوں پر کبھی کبھی ڈھول اور شہنائی والے کو بھی بلایا جاتا تھا۔ اور کام کے دوران منچلوں کا رقص وغیرہ بھی ھوتا تھا اور ڈھول کی تھاپ پر درانتی بھی چلائی جاتی تھی۔
نوجوان، (کچھ بزرگ بھی) کام کرتے ھوئے مذاق میں ایک دوسرے پرفقرے کستے اور ھنسی مذاق کے ساتھ بخوشی سارا کام ھو جاتا تھا ۔
اب بھی کہیں کہیں یہ رواج موجود ھے لیکن کم کم۔ کیونکہ جدید زرعی آلات اور زمانے کی ترقی نے ان سارے کاموں کو آسان بنا دیا ھے۔
ایک وقت تھا کہ جیسے ہی مرغ نے اذان دے کر طلوع سحرکا اعلان کیا۔ اور مساجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوئیں تو گھروں میں بندھے بیلوں کے گلوں میں لٹکتی گھنٹیاں بجنے لگتیں۔
ہر گھر سے جفاکش، محنتی کاشتکار اپنے بیل اور اونٹ لے کر گاؤں، محلہ کے چوک میں جمع ہوتے، پھر ایک سیدھی لائن میں کھیتوں کی جانب رواں دواں، ایک کاشتکار کے کھیت میں پہنچ کر سب ہل جوت لیتے۔ یہ سلسلہ ’’ونگار‘‘ کہلاتا تھا۔۔۔
ونگار کے یہ مناظر ہمیں آج سے دو تین دہائی قبل تھل کےسب دیہاتوں میں عام طور پر نظر آتے تھے۔ جہاں کبھی کام اور دکھ درد سانجھے ہوتے تھے۔
کھیتوں کی تیاری، گندم اورچنےکی کٹائی، گہائی، شادی بیاہ کی تقریبات، علاقہ کے فلاحی کام جیسےکنوے کی صفائی وغیرہ سب مل جل کر ونگار جیسی رسموں سے نمٹائے جاتے تھے۔
جس شخص نے ونگار لینا ہوتی وہ شام کو ہی اطلاع کر دیتا کہ صبح اس کا کونسا کام ہے۔ کوئی فرد انکار نہیں کرتا تھا اور سب لوگ خوشی خوشی صبح اجتماعی طور پر کام کے لیے چلے جاتے تھے جس سے دنوں کاکام لمحوں میں ہوجاتا تھا اور اتفاق، اتحاد اور محبت بھی قائم رہتی۔
ونگار والے دن ونگاریوں کا ناشتہ، لنچ ونگار لینے والے کے ذمہ ہوتا۔
خواتین عموماً ونگار میں کام تو نہیں کرتی تھیں لیکن ونگار میں شامل لوگوں کے لیے خالص دیسی مزیدار کھانے پکاتی تھیں۔ ھم بچوں کے ذمہ کھانا کھیت میں پہنچانا ھوتا تھا۔ پانی گروٹ کے ٹھنڈے مٹی والے گھڑوں میں اونٹوں کے کچاوے میں رکھ کر علی الصبح ھی روانہ کر دیا جاتا اور یہ ھم بچوں کی ڈیوٹی ھوتی کہ چھوٹی جھاڑیوں کے سائے میں رکھے گھڑوں کو پانی گرائے بنا کیسے سائے کی طرف سرکاتے رھنا ھے۔ اتنا ٹھنڈا اور مذیدار پانی کہ برف اور واٹر فلٹر کی کوئی بھی ضرورت نہیں تھی۔
ھمارے فرائض منصبی میں ایندھن اکٹھا کر کے حقہ بھرنا بھی شامل تھا۔
کھانا ہمیشہ روائتی اور دیسی ہوتا تھا جس میں تندوری گداز روٹی، چاٹی کی لسی، مکھن کے ساتھ گڑ یا شکر لازمی شامل ہوتے۔ کچھ لوگوں کی ونگار میں چٹنی اضافی آ ئٹم تھا۔ دوپہر کو اکثر لوگ مسی روٹیاں ( چنے کی روٹی) پکاتے اس روٹی کے آٹے میں پیاز آلو اور دیگر لوازمات شامل کیے جاتےجس سےونگار والے کام کے ساتھ ساتھ لذیذ مزیدار کھانے سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔
یہ وہ دور تھا جب دلوں میں خلوص، لہجوں میں اپنائیت، اور رشتوں میں محبت باقی تھی۔ جب بڑوں میں شفقت اور چھوٹوں میں ادب کی خوبصورت عادت تھی۔
جدید گلوبلائزیشن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ لیکن ان کے فوائد سے بھی انکار ممکن نہیں لیکن ہم اپنائیت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
ایک مقامی شاعر " درد"
نے کیا خوب کہا ھے۔۔

"جڈاں تنگ حالات دی جنگ چھڑ پئی"
"تینوں "درد" ونگار نہ لبھی

The villagers

02/04/2024

ان بھائی صاحب وقار شاہ صاحب کا میں بہت مشکور ہوں جنہوں نے مصیبت کی اس گھڑی میں اور مہنگائی کے دور میں اس جگاڑ کو عوام الناس کے لیے متعارف کروایا
ویسے ہم پاکستانی خاص طور پر مسلمان مصیبت کی گھڑی میں زیادہ سے زیادہ منافع کمانے اور دو نمبری کرنے سے کبھی باز نہیں اتے بائیک پہ لگانے والا سیفٹی راڈ جو کبھی 200 روپے کا تھا اب مارکٹ میں ہزار روپے کا مل رہا ہے
ویسے بھی پتنگ بازی کو روکنے کی بجائے ہم نے سیفٹی راڈ بیچنے کو ترجیح دی اللہ پاکستانی مسلمانوں کو ہدایت دے ۔۔

1990 سے لے کر سن 2000 تک معاشرے میں امیر اور ماڈرن سمجھے جانے والے لوگ🥹کیا خوب صورت دور تھا جو ایک خواب سا بن گیا ہے
31/03/2024

1990 سے لے کر سن 2000 تک معاشرے میں امیر اور ماڈرن سمجھے جانے والے لوگ🥹
کیا خوب صورت دور تھا جو ایک خواب سا بن گیا ہے

30/03/2024

یہ اذان کی آواز اپ کو شاید اس دور میں لے جائے جب کبھی رات کی تاریکیوں میں کوئی درد بھری اواز اپ کے وجود کو جھنجوڑ دے
امید ہے اس اواز کو بھی سن کر اپ اپنے ماضی میں کھو جائیں گے ۔۔
اگر اپ کی کوئی یادیں ہیں تو کمنٹس میں ضرور شیئر کیجئے ۔۔
یقینا ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی ایسی اواز ضرور ہوتی ہے جو اپ کو سدا یاد رہتی ہے ۔۔

Guess this place?
27/03/2024

Guess this place?

20/03/2024

یہ آواز آپ کو اس دور میں لے جائے گی جب زندگیوں میں افراتفری نہیں تھی سب لوگ مل بیٹھ کر اپنے دکھ سکھ پھولا کرتے تھے اور صبح کے وقت نشریات کے آغاز کا بہت بے چینی سے انتظار رہتا تھا
یہ آواز جب میں میرے کانوں میں گونجتی ہے مجھے وہ سنہری محبتوں اپنائیت والا دور یاد جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوں ٹپک پڑتے ہیں
ہم رہ گئے ہمارا خوبصورت زمانہ چلا گیا
پی ٹی وی کی ایک پرانی دھن آپ کی نظر ۔۔۔

Bedford Transport service Pindi PirVadai to Gilgit
20/03/2024

Bedford Transport service Pindi PirVadai to Gilgit

جانے کہاں گے وہ دن !!! ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا ایک  روپے کی برف۔🍷 پانی سے بھرا واٹر کولر🍺۔ وی سی آر۔ وی سی پی ۔ گھ...
18/03/2024

جانے کہاں گے وہ دن !!!
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
ایک روپے کی برف۔🍷 پانی سے بھرا واٹر کولر🍺۔ وی سی آر۔ وی سی پی ۔ گھوڑے کی ٹاپ۔ فجر کے وقت گلی میں سے گزرتے کسی بابے کے درود شریف پڑھنے کی آواز۔😔😔

روشن دان۔ ہینڈ پمپ۔ قلم دوات۔ ہولڈر۔ جی کی نب۔۔ تختی۔ گاچی۔ بستہ۔ چھٹیوں کا کام ۔ لکیروں والا دستہ۔ دستے پر اخبار چڑھانا۔ مارکر۔ حاشیہ۔ خوشخطی۔ رف کاپی۔ رف عمل۔ سلیٹ۔ سلیٹی۔ کریم کی خالی شیشیاں بھرنے والا۔

گلیوں میں چارپائیاں۔ لکن میٹی۔ چور سپاہی۔ اڈا کھڈا۔

شٹاپو۔ باندر کلا۔ کوکلا چھپاکی۔ یسو پنجو‘ چڑی اُڑی کاں اُڑا۔ صراحی۔ چائے کی پیالیاں۔ سیڑھیوں کے نیچے باورچی خانہ۔ بتیوں والا چولہا۔ ٹارزن۔ عمرو عیار۔ زنبیل۔ افراسیاب۔ چھڑی اور سائیکل کا ٹائر۔ دکان دار سے چونگا۔ نیاز بٹنا اور آواز آنا ''میرے بھائی کا بھی حصہ دے دیں۔‘‘😿

ٹھنڑی ہوا والی گولیاں HOEST شوق سے کھانا۔ مرونڈا۔ گچک۔ سوکھا دودھ۔ ڈیکو مکھن ٹافی۔ لچھے۔ ون ٹین کا کیمرہ۔ مائی کا تنور۔ کوئلوں والی استری۔ ہمسائے کے ٹیلی فون کا پی پی نمبر۔ گولی والی بوتل۔ جمعرات کی آدھی چھٹی۔ ٹٹوریل گروپ۔ بزمِ ادب۔ ششماہی امتحانات۔

پراگریس رپورٹ۔ عرس کے میلے میں دھمال ڈالتا سائیں۔ ٹیڈی پیسہ۔ چونّی۔ بارہ آنے۔ پُتلی تماشا۔ گراری والا چاقو۔ سیمنٹ کی ٹینکی۔👁 شام کے وقت گلی میں پائپ سے پانی کا چھڑکائو۔ دروازے کی کنڈی۔ دیسی تالا۔ ہاون دستہ۔

دادی کی کہانیاں۔ اُڑن کھٹولے کے خواب۔ ڈھیلی جرابوں کے اوپر ربڑ چڑھانا۔ لوہے کی بالٹی۔ جست کے برتن۔ بھانڈے قلعی کرا لو۔ بندر کا تماشا۔ بچے کی پیدائش پر خواجہ سرائوں کا رقص۔ گلی میں پکتی دیگ۔ چھت کی نیند۔ تاروں بھرا آسمان۔ دوپٹے کے پلو میں بندھے پیسے۔ انٹینا۔ چھت پر مٹی کا لیپ۔ شہتیر۔ بالے۔ پھونکنی۔ تندوری۔ 🌄چڑیوں کا آلنا۔ مسہری۔ شوخ رنگوں کے پائے والا پلنگ۔ بان کی چارپائی ۔ کھرا۔ نالی۔

پلاسٹک کی ٹونٹی۔ کپڑے دھونے والا ڈنڈا۔ مسی روٹی۔ پنجیری۔ پِنّیاں۔ بالو شاہی۔ دو ٹیوٹر والا ڈیک۔ دستر خوان۔ صبح کا مشترکہ ناشتہ۔ رات کا مشترکہ کھانا۔ دانتوں پر ملنے والا منجن۔ سٹیل کے گلاس۔ سٹیل کی پلیٹیں۔ سٹیل کے جگ۔ موڑھے۔

سائیکل کی قینچی۔ ☔☔سیلاب کا خوف۔ ماں کی آغوش۔ باپ کا ڈر۔ دھوتی۔ سلوکا۔ مشترکہ بیڈ روم۔ اینٹوں والا فرش۔ بیٹھک۔ اُستادوں کی مار۔ مولا بخش۔ کاربن پیپر۔ سوجی کی مٹھائی۔ ڈیمو کے لڑنے پر تالا رگڑنا۔ ڈیمو کے ساتھ دھاگا باندھ کر اڑانا۔

دو غباروں کے درمیان ڈوری باندھ کر 'واکی ٹاکی‘ بنانا۔ پانی سے بھری بالٹی میں اُلٹا گلاس ڈال کر بلبلے نکالنا۔ صابن سے سر دھونا۔ ⚡ سر درد کے لیے مولوی صاحب سے دم کروانا۔

بوتل کے سٹرا کو پائپ کہنا۔ آدھی رات کو ڈرائونے قصے سننا۔💓 بچی کھچی روٹیوں کے ٹکڑے کباڑیے کو بیچ دینا۔

مقدس عبارت والے اوراق چوم کر کسی دیوار کی درز میں پھنسا دینا👥۔ بیلٹ کے بغیر پینٹ پہننا اور محلے داروں سے شرماتے پھرنا۔ کُنڈلوں والے بال۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے قہقہے۔ سکول جاتے ہوئے بس کی چھت پر پڑے ٹائر میں بیٹھ کر سفر کرنا۔ گلابی رنگ کا سٹوڈنٹ کارڈ جیب میں رکھنا۔ کڑھائی والا رومال۔


خوش آمدید والے تکیے۔ ہاتھوں سے گھولی ہوئی مہندی۔ رنگین آنچلوں کی خوشبو۔ بالوں میں تیل لگا کر کنگھی کرنے کا فیشن۔ سُرمے کی لکیر خوبصورتی کی علامت۔

👦پسینے بھری قمیص اتار کر چلتے ہوئے پیڈسٹل فین پر ڈال دینا۔ فیوز بلب کو ہلا کر اُس کی تار پھر سے جوڑ دینا۔ بجلی کے میٹر گھروں کے اندر۔ بجلی کا سانپ کی طرح لمبا بل آنا۔👬 سنیمائوں کے پوسٹر پر نظریں جم جانا۔

سائیکل روک کر مجمع باز کی گفتگو سننا۔ صاف کپڑوں کے ساتھ جیب میں صاف رومال بھی رکھنا۔ قمیص کی جیب میں پین لٹکانا۔ بٹوے میں چھوٹی سی ٹیلی فون ڈائری رکھنا جس میں A سے Z تک سے شروع ہونے والے ناموں کے الگ خانے ہوتے تھے۔

کسی پرانے سال کی ڈائری میں اقوال زریں‘ نعتیں اور اشعار لکھنا۔ ٹی وی کے اوپر خوبصورت غلاف چڑھائے رکھنا۔ کسی کے تالا لگے ٹیلی فون کے کریڈل سے ٹک ٹک کر کے کال ملانے کی کوشش کرنا۔

باراتوں پر سکے لوٹنا۔ 💑دولہا کا منہ پر رومال رکھنا۔ دلہن کا دوسرے شہر سے بارات کے ساتھ بس میں آتے ہوئے راستے میں دل خراب ہو جانا👩۔ سردیوں میں اُبلے ہوئے ایک انڈے کو بھی پورا مزا لے کر کھانا۔ محلے میں کسی کی وفات پر تدفین تک ساتھ رہنا۔

مسجد کے مولوی صاحب کے لیے گھر میں الگ سے سالن رکھنا۔ ٹی وی ڈرامے میں کسی المناک منظر پر خود بھی رو پڑنا۔ فلم دیکھتے ہوئے ہیرو کی کامیابی کے لیے صدق دِل سے دُعا کرنا۔

لڑائی میں گالی دے کر بھاگ جانا۔ بارش میں ایک دوسرے پر گلی کے پانی سے چھینٹے اڑانا۔ سونے سے پہلے تین دفعہ آیت الکرسی پڑھ کر چاروں کونوں میں پھونک مارنا۔

۔ 🌹 مہمانوں کی آمد پر خصوصی اہتمام کرنا اور محلے والوں کا خصوصی طور پر کہنا کہ ''مہمان نوں ساڈے ول وی لے کے آنا‘‘۔ بسنت کے دنوں میں چھت پر ڈور لگانا‘ مانجھا لگانا۔ بازار سے پنے‘ گچھے اور چرخیاں خریدنا۔

گڈیاں لوٹنا‘ ڈوریں اکٹھی کرنا۔ چارپائی پر بیٹھ کر ٹوٹا ہوا شیشہ سامنے رکھ کر چہرے پر صابن لگا کر شیو کرنا۔۔💖۔

سلیٹ ہمیشہ تھوک سے صاف کرنا۔ محلے کے بڑے بوڑھوں سے اکثر مار کھانا اور بھول جانا۔💞 پنکج ادھاس کی غزلیں یاد کرنا اور ' میکدہ‘ کے لفظ سے نا آشنائی کے باعث گاتے پھرنا ''ایک طرف اُس کا گھر‘ ایک طرف میں گدھا‘‘۔😐

اگر آپ کو یہ سب یاد ہے تو آپ خوش قسمت ہیں💝 کہ آئی ٹی انقلاب سے پہلے والی زندگی انجوائے کر آئے۔ اِن میں سے شاید ہی کوئی چیز باقی بچی ہو‘ اور اگر کوئ بات باقی رہ گی ہو تو آپ بھی کومنٹ میں درج کر سکتے ہیں۔ زندگی کی نہر کے بہتے پانیوں میں سے ایک دفعہ ہاتھ نکال لیں تو وہ ویسے کب رہتے ہیں! ایسی بھی تھی زندگی!

17/03/2024

ایسے ہیرے لوگ اب ناپید ہو چکیں ہیں کس خوبصورت باتیں اور کیا خوبصورت زمانہ ریڈیو اور پی ٹی وی نے کیا چن چن کر ہیروں کو پیش کیا ۔۔

Address

Lahore
54000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Beautiful Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other Tourist Information Centers in Lahore

Show All