Explore Pakistan

Explore Pakistan We organise the Most ecnomical public Group tours to different Destinations in pakistan.

With excellent services.

سستے پیکجز - بہترین سروسسز - آو آپکو پاکسنان کی سیر کرائیں۔

یہ تو سب کو معلوم ھے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ھے,ٹریکرز کے قدموں تلے کیا ھے یہ میں بتا دوں؟؟؟؟کُھرک ھے جناب کُھرک۔زیر نظر...
03/02/2025

یہ تو سب کو معلوم ھے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ھے,ٹریکرز کے قدموں تلے کیا ھے یہ میں بتا دوں؟؟؟؟
کُھرک ھے جناب کُھرک۔
زیر نظر تصاویر آنسو جھیل کے منُور ویلی سائیڈ ٹریک سے لی گئ تھیں۔۔۔زمانۂِ خواری ھے جولائ دو ہزار چوبیس کا.

چھوربٹ خپلو بلتستان میں دریائے شیوک پہ سلسلہ کوہ قراقرم کے دامن میں تاریخی طرزِ تعمیر کا انوکھا شاہکار  پُل:- لکڑی سے بن...
03/02/2025

چھوربٹ خپلو بلتستان میں
دریائے شیوک پہ سلسلہ کوہ قراقرم کے دامن میں تاریخی طرزِ تعمیر کا انوکھا شاہکار پُل:- لکڑی سے بنا اپو علی زمبا (فرانو پل) زمبا بلتی زبان میں پل کو کہتے ہیں ۔
یہ تاریخی پل اپنی نوعیت کا ایک ایسا عجوبہ ہے جسکی تعمیر میں نہ ھی کوئی نَٹ بولٹ یا لوہے کا میخ استعمال ہوا ہے اور نہ ہی سیمنٹ کا استعمال کیا گیا ہے۔
بڑے بڑے پتھروں میں سفیدے کے تختوں کو گاڑ کر تعمیر کیا جانے والا یہ پل تقریباً اپنی تعمیر کے 100 سال پوری کر چکا ہے۔ اس عظیم کاریگر کے انوکھے شاہکار میں سہارہ دینے کیلئے نہ کوئی ستون ہے اور نہ ہی کوئی لوہے کی رسیاں ہیں جوکہ عموماً لکڑ ی کے پلوں میں استعمال ہوتی ہیں ۔
اس پل کے معمار کا نام اپو علی شاہ تھا آج تک مقامی لوگ اسے اپو علی شاہ پل کہتے ہیں ۔
فرانو، ضلع گنگچھے، گلگت بلتستان کا لائن آف کنٹرول پہ آخری گاؤں ہے۔ اور یہ پل لائن آف کنٹرول ہے، قیامِ پاکستان سے قبل اس پل کے ذریعے لداخ کو خپلو اور بلتستان سے جوڑ کے رکھا ہوا تھا۔

تحریر: زبیر شریف قاضی

بشو ویلی (سلطان آباد میڈو) بلتستان بشو ویلی سکردو ضلع، گلگت بلتستان، پاکستان میں واقع ایک دلکش وادی ہے جو اپنی قدرتی خوب...
02/02/2025

بشو ویلی (سلطان آباد میڈو) بلتستان
بشو ویلی سکردو ضلع، گلگت بلتستان، پاکستان میں واقع ایک دلکش وادی ہے جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور خاموشی کے باعث سیاحوں کے لیے ایک جنت سمجھی جاتی ہے۔ یہ وادی سطح سمندر سے 3,600 میٹر (11,800 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے، اور سکردو شہر سے تقریباً 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بشو ویلی کو اس کے جغرافیائی محل وقوع اور قدرتی مناظرات کی وجہ سے ایک اہم سیاحتی مقام سمجھا جاتا ہے۔
"بشو" لفظ مقامی بلتی زبان سے آیا ہے، جس کا مطلب "کشمش" ہے۔ اس نام کی وجہ یہاں کی انگوروں کی بھرپور پیداوار ہے، جو اس وادی کی زرخیزی اور قدرتی وسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ بشو ویلی میں انگور کی مختلف اقسام اگتی ہیں، اور مقامی لوگ ان کا استعمال خوراک اور تجارت دونوں میں کرتے ہیں۔
بشو ویلی اپنے منفرد قدرتی مناظر کے لیے معروف ہے۔ یہاں کی سبز چراگاہیں، گھنے جنگلات، اور برف پوش پہاڑ وادی کے جمال کو نکھارتے ہیں۔ خاص طور پر موسمِ گرما میں یہاں کا منظر سبزے سے بھرا ہوتا ہے، جبکہ سردیوں میں برف باری اس وادی کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
وادی کے اندر سے بہنے والے قدرتی چشمے اور جھرنے اس کی دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں، جو پُرسکون اور ٹھنڈے پانی سے بھرے ہوتے ہیں۔ ان چشموں پر چھوٹے لکڑی کے پل بنائے گئے ہیں جو نہ صرف یہاں کے ماحول کو منفرد بناتے ہیں بلکہ ان کا ساختی حسن بھی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے
بشو گلیشیئر اس وادی کی سب سے بڑی قدرتی خصوصیت ہے۔ یہ گلیشیئر بشو ویلی کے پہاڑوں سے پگھل کر نکلتا ہے اور اس کا ٹھنڈا پانی وادی کی زمین کو سینچتا ہے۔ بشو گلیشیئر تک پہنچنا ایک بڑا ایڈونچر ہے، اور یہ گلیشیئر ان لوگوں کے لیے ایک مقبول مقام ہے جو ٹریکنگ اور مہم جوئی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ گلیشیئر کا منظر انتہائی حسین اور منفرد ہوتا ہے، جہاں آپ برف کے وسیع حصوں اور چمکتے ہوئے پہاڑوں کا دیدار کر سکتے ہیں۔
بشو ویلی کا قدرتی ماحول مختلف جنگلی حیات کے لیے ایک پناہ گاہ ہے۔ یہاں کے جنگلات اور پہاڑوں میں ہرن، مارخور، آیبیکس، اور برفانی چیتے جیسے جانور پائے جاتے ہیں۔ بشو ویلی کی ایڈیبل نباتات اور قدرتی ماحول ان جنگلی حیات کے لیے ایک مثالی گھر فراہم کرتے ہیں، اور یہ وادی قدرتی حیات کے شوقین افراد کے لیے ایک بہترین مقام ہے۔
بشو ویلی کا قدرتی حسن اور خاموش ماحول سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہاں آنے والے سیاح نہ صرف اس کی قدرتی خوبصورتی سے محظوظ ہوتے ہیں بلکہ ایڈونچر کی سرگرمیاں جیسے ٹریکنگ، کیمپنگ، اور ہائیکنگ بھی یہاں دستیاب ہیں۔ یہاں کا اونٹ کی شکل والا پہاڑ، جو بیس منٹ کی ہائیک کے بعد دکھائی دیتا ہے، ایک دلچسپ مقام ہے۔ اس پہاڑ کی منفرد شکل اور ارد گرد کے مناظر وادی کے قدرتی حسن میں اضافے کا سبب ہیں-
بشو ویلی میں ایک قدرتی غار بھی موجود ہے جسے مقامی طور پر "قدرتی فریزر" کہا جاتا ہے۔ یہ غار موسمِ گرما میں بھی انتہائی ٹھنڈی رہتی ہے، اور اس کا ٹھنڈا ماحول یہاں کے سیاحوں کے لیے ایک خاص تجربہ فراہم کرتا ہے۔ یہاں کی ٹھنڈی ہوا اور قدرتی ساخت اس غار کو ایک قدرتی فریزر کی طرح کام کرنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہیں۔
بشو ویلی کا موسم خاص طور پر گرمیوں میں دلکش ہوتا ہے، جب یہاں کی چراگاہیں سبز اور گلوں سے بھر جاتی ہیں۔ سردیوں میں برف باری کی وجہ سے یہاں کا منظر ایک جنت کی طرح تبدیل ہو جاتا ہے، اور وادی میں برف کا سماں دیکھنا ایک یادگار تجربہ بن جاتا ہے۔
بشو ویلی تک پہنچنے کے لیے سکردو سے جیپ سفر کا استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ وادی کی سڑکیں زیادہ تر کھچاک اور پتھریلی ہیں۔ سکردو شہر سے جیپ کے ذریعے پہنچنا ایک ایڈونچر ہے، جو اس وادی کے قدرتی حسن کو دیکھنے کی توقعات بڑھا دیتا ہے۔
اگر آپ قدرتی خوبصورتی، خاموشی، اور ایڈونچر کی تلاش میں ہیں، تو بشو ویلی گلگت بلتستان کا ایک ایسا مقام ہے جہاں آپ کو سب کچھ ملے گا۔ یہ وادی قدرت، سکون، اور مہم جوئی کا حسین امتزاج ہے اور سکردو کے دیگر سیاحتی مقامات کے ساتھ اس کا ایک منفرد مقام ہے۔

Heart Touching View the Colours of Autumn in Phandar Valley, Ghizer District, Gilgat-Baltistan.Yeh hay Piyara Pakistan.
02/02/2025

Heart Touching View the Colours of Autumn in Phandar Valley, Ghizer District, Gilgat-Baltistan.
Yeh hay Piyara Pakistan.

آزاد کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو خود مختار خطہ ہے لیکن پاکستان کے زیرِ انتظام ہے۔ اس کا باقاعدہ نام ریاست آ...
02/02/2025

آزاد کشمیر ریاست جموں و کشمیر کا وہ حصہ ہے جو خود مختار خطہ ہے لیکن پاکستان کے زیرِ انتظام ہے۔ اس کا باقاعدہ نام ریاست آزاد جموں و کشمیر ہے جو پاکستان اور بھارت کے مابین متنازع ہے۔ یہ علاقہ 13،300 مربع کلومیٹر (5،135 مربع میل) پر پھیلا ہے۔ آزاد کشمیر کا دار الحکومت مظفرآباد ہے اور ریاست آزاد جموں و کشمیر کی آبادی اندازہ 40 لاکھ ہے۔ اور یہاں پہاڑی زبان، ہندکو، گوجری، پنجابی اور کشمیری زبانیں بولی جاتی ہیں۔ آزاد کشمیر کی شرح تعلیم 65 فیصد ہے

کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی اور دلکش مناظر کی وجہ سے جانا جاتا ہے اور سیر و تفریح کے لیے لوگ بڑی تعداد میں آزاد کشمیر کا رُخ کرتے ہیں۔ انہی خوبصورت مناظر کی وجہ سے مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے کہا تھا کہ کشمیر زمین پر جنت ہے۔ آزاد کشمیر میں 10 اضلاع، 32 تحصیلیں اور 182 یونین کونسلیں ہیں۔ آزاد کشمیر کی تین ڈویژن ہیں۔

پونچھ ڈویژن

میرپور ڈویژن

مظفرآباد ڈویژن

1- پونچھ ڈویژن

1 ضلع حویلی

2 ضلع باغ

3 ضلع پونچھ

4 ضلع سدھنوتی

2 - میرپور ڈویژن

1 ضلع میرپور

2 ضلع کوٹلی

3 ضلع بھمبر

3 - مظفرآباد ڈویژن

1 ضلع مظفرآباد

2 ضلع نیلم

3 ضلع جہلم ویلی

تحصلیں

ضلع میرپور

1-میرپور

2-ڈڈیال

3-چکسواری

ضلع پونچھ

1-راولاکوٹ

2-ہجیرہ

3-عباسپور

4-تھوراڑ

ضلع کوٹلی

1-کوٹلی

2-سہنسہ

3-کھوئی رٹہ

4-چڑھوئی

5-نکیال-فتح پور

6-درلیاں جٹاں

ضلع باغ

1-باغ

2-ہاڑی گہل

3-دھیرکوٹ

ضلع حویلی

1-حویلی

2-خورشید آباد

3-ممتاز آباد

ضلع مظفرآباد

1-مظفرآباد

2-پٹہکہ

3-گڑھی دوپٹہ

4-ٹیٹوال

ضلع ہٹیاں بالا

1-چکار

2-ہٹیاں بالا

3-لیپہ

ضلع نیلم

1-اٹھمقام

2-شاردا

ضلع بھمبر

1-برنالہ

2-بھمبر

3-سماہنی

ضلع سدھنوتی

1-پلندری

2-تراڑ کھل

3-بلوچ

4-منگ

Chakwal   دنیا بھر عجیب و غریب نوکیلے یا پتھریلے پہاڑ موجود ہیں جو عجیب و غریب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوب صورت اور منفرد ...
02/02/2025

Chakwal
دنیا بھر عجیب و غریب نوکیلے یا پتھریلے پہاڑ موجود ہیں جو عجیب و غریب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوب صورت اور منفرد بھی نظر آتے ہیں۔ Canyon ایسی وادی یا کھائی کو کہا جاتا ہے جو ہوا کی رفتا، دریا کے کٹاؤ یا پھر دریا کے راستہ بدلنے کی وجہ سے وجود بھی آئی ہو۔
دنیا بھر کے مختلف ممالک میں Canyon موجود ہیں۔ سب سے بڑے canyon امریکہ کے North Arizona کے Grand canyon پارک میں موجود ہیں جن کی عمر کا اندازہ پانچ سے چھ ملین سال لگایا گیا ہے۔ ان کی اونچائی تقریباً چھبیس سو فٹ جب کہ لمبائی تقریباً ساڑھے چار سو کلو میٹر ہے۔ چوڑائی ہر جگہ سے ایک جیسی نہیں۔ کم سے کم چوڑائی سات کلو میٹر جب کہ زیادہ سے زیادہ چوڑائی تیس کلومیٹر ہے۔
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ہنگول نیشنل پارک میں بھی ایسے بہت سی وادیاں یا کھائیاں موجود ہیں جو عجیب و غریب تو ہیں ہی مگر خوب صورت بھی بہت ہیں۔ ہنگول نیشنل پارک کے بارے تو تقریباً سب ہی جانتے ہیں جسے اگر آپ نے کھلی آنکھ سے نہ بھی دیکھا ہو تو کم از کم تصاویر کی صورت تو کہیں نہ کہیں ضرور دیکھا ہو گا۔ ہمارے پنجاب میں بھی ایک منی ہنگول چکوال شہر سے فقط چند کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے جو زیادہ نہیں تو کم از کم پچاس سے ساٹھ سو سال پرانے تو ضرور ہوں گے۔ ان canyon کو چکوال canyon کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دور سے یہ سب چٹانیں معلوم پڑتی ہیں مگر اصل میں یہ مٹی کے چھوٹے چھوٹے سلسلے ہیں جو دریا کے راستہ بدلنے کی وجہ سے وجود میں آئے ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں سے دریائے دراب گزرتا تھا جو کہ دریائے سواں کا معاون دریا ہے۔ اب دریائے دراب کے پانی اصل مقام سے بہت دور جا چکا ہے۔
اگر آپ نے دریائے دراب کا نام کبھی نہیں بھی سنا تو موٹر وے پر سفر تو ضرور کیا ہو گا۔ کلر کہار اور بلکسر کے درمیان جب اچانک سے موٹر وے نیچے کی طرف جاتی ہے تو یہ ایک چھوٹے دریا پر سے گزرتی ہے۔ یہی دریائے دراب ہے جو آگے جا کر دریائے سواں میں گرتا ہے اور دریائے سواں خطے کے ہر دریا کی طرح دریائے سندھ سے جا ملتا ہے۔
پنجاب کا منی ہنگول کہلانے والے چکوال canyon کے درمیان میں ایک مٹی کا آدمی بھی بیٹھا جو ہو بہ ہو شطرنج کے بادشاہ کی مانند ہے۔ یہ علاقہ کم و بیش تین مربع کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں دریائے راوی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کو چھوتا تھا مگر آج دیکھیں دریائے راوی کہاں ہے۔ اسی طرح دریائے سندھ بھی بہت پہلے بھارتی گجرات کے مقام پر بحیرہ عرب میں گرتا تھا مگر آج یہ کراچی کے سمندر میں شامل ہوتا ہے ۔ دریائے دراب نے بھی جب کچھ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنا رخ تبدیل کیا تو یہ ساری چٹانیں بہت پیچھے رہ گئیں اور دریا کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ چکوال تو چکوال، میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر آپ پنجاب کی زمین کے واسی ہیں تو اس جگہ کا حق ہے کہ آپ اس علاقے کی طرف جائیں، اس زمین پر قدم رکھیں کہ یہ زمین کبھی کسی زمانے میں کسی دریا کی گزر گاہ رہی ہے۔

دیوسائی نیشنل پارک – قدرت کا ایک حسین شاہکارپاکستان کے گلگت بلتستان میں واقع دیوسائی نیشنل پارک ایک ایسا قدرتی عجوبہ ہے ...
02/02/2025

دیوسائی نیشنل پارک – قدرت کا ایک حسین شاہکار

پاکستان کے گلگت بلتستان میں واقع دیوسائی نیشنل پارک ایک ایسا قدرتی عجوبہ ہے جو اپنی دلکش وادیوں، بلند و بالا پہاڑوں، نایاب جنگلی حیات اور کھلے سبز میدانوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ حیرت انگیز مقام سکردو اور استور کے درمیان سطح مرتفع پر واقع ہے اور دنیا کے بلند ترین میدانوں میں سے ایک ہے۔ دیوسائی دو الفاظ پر مشتمل ہے، "دیو" اور "سائی", یعنی "دیو کا سایہ"۔ صدیوں سے مقامی لوگ اس علاقے کو جنات اور پریوں کی سرزمین تصور کرتے رہے ہیں۔
دیوسائی نیشنل پارک تقریباً 4,144 میٹر (13,500 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے اور اس کا رقبہ تقریباً 3,000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں سال کے آٹھ مہینے برف کی سفید چادر بچھی رہتی ہے، جبکہ گرمیوں کے چار مہینے رنگ برنگے جنگلی پھولوں اور گھاس کے سبز قالین سے مزین ہوتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وسیع و عریض خطے میں ایک بھی درخت نہیں اگتا، جو اسے مزید منفرد بناتا ہے۔
پارک تک دو اہم راستوں سے پہنچا جا سکتا ہے:
اسکردو سے یہ تقریباً 30 کلومیٹر طویل دشوار گزار راستہ ہے جو جھیل سدپارہ کے قریب سے ہو کر گزرتا ہے۔
استور سے چلم کے راستے سے پارک میں داخل ہوا جا سکتا ہے، جو نسبتاً طویل لیکن نہایت دلکش ہے۔
دیوسائی کو خوبصورتی اور جغرافیائی تنوع کا خزانہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہاں بہنے والے دریا، سبزہ زار، اور شفاف پانی کے جھیلیں مل کر ایک جادوئی منظر تخلیق کرتے ہیں۔
یہ جھیل دیوسائی کے مغربی حصے میں 4,142 میٹر (13,589 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے اور دنیا کی بلند ترین جھیلوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کا پانی انتہائی صاف اور نیلگوں ہوتا ہے، جو آس پاس کی برف پوش چوٹیوں اور سبز میدانوں کے ساتھ مل کر جنت نظیر منظر پیش کرتا ہے۔ حیران کن طور پر، اس جھیل کے پانی کے آنے اور جانے کا کوئی واضح راستہ معلوم نہیں، جس کی وجہ سے اسے "اندھی جھیل" بھی کہا جاتا ہے۔
یہ دو ندیاں دیوسائی میں بہتی ہیں اور ان کا ٹھنڈا اور شفاف پانی یہاں کے قدرتی حسن میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ "بڑا پانی" اکثر سیاحوں کے خیمہ زن ہونے کا مقام ہوتا ہے جہاں محکمہ جنگلی حیات کے کیمپ بھی موجود ہوتے ہیں۔
دیوسائی نیشنل پارک کو 1993 میں قومی پارک کا درجہ دیا گیا تھا تاکہ یہاں پائے جانے والے نایاب ہمالیائی بھورے ریچھ (Himalayan Brown Bear) کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ اس وقت یہ ریچھ دنیا میں انتہائی کم تعداد میں باقی رہ گئے ہیں اور دیوسائی وہ واحد جگہ ہے جہاں ان کا قدرتی مسکن ابھی تک محفوظ ہے۔ ماضی میں، شکاریوں کے ہاتھوں ان کی نسل کو شدید خطرہ لاحق تھا، مگر اب ان کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کیے جا چکے ہیں۔
دیوسائی میں پائے جانے والے دیگر جانوروں میں شامل ہیں:
برفانی چیتا تبتی نیلا ریچھ لداخی اڑیال مارکو پولو بھیڑ سنہرے مارموٹ (Golden Marmot) سرخ لومڑی ہمالیائی ہرن۔
یہ تمام حیوانات اور پرندے دیوسائی کی قدرتی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع کو مزید بڑھاتے ہیں۔
دیوسائی نیشنل پارک میں سیاحت کا بہترین وقت جون سے ستمبر کے درمیان ہوتا ہے، جب یہاں کی برف پگھل چکی ہوتی ہے اور سبزہ اپنی بہار پر ہوتا ہے۔ یہاں مختلف مہم جوئی اور تفریحی سرگرمیاں کی جا سکتی ہیں، جن میں شامل ہیں۔
یہاں رات گزارنے کا سب سے حیرت انگیز تجربہ ستاروں سے بھرے آسمان کے نیچے ہوتا ہے، جو ہر فطرت کے شوقین کے لیے یادگار لمحہ ثابت ہوتا ہے۔
قدرتی حسن، جنگلی حیات اور بدلتے موسم کی شاندار تصاویر لینے کا بہترین موقع ملتا ہے۔
زیادہ تر سیاح 4x4 جیپ میں بیٹھ کر دیوسائی کی سیر کرتے ہیں، کیونکہ راستے نہایت دشوار گزار ہیں۔
حالیہ برسوں میں دیوسائی میں بائیسکل سفاری بھی مقبول ہو رہی ہے، جہاں سائیکلسٹ بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان اپنے سفر کا مزہ لیتے ہیں۔ خصوصی گائیڈز کے ساتھ نایاب جانوروں جیسے کہ ہمالیائی بھورے ریچھ کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
دیوسائی ایک انتہائی بلند اور دشوار گزار علاقہ ہے، جہاں موسم کسی بھی وقت شدید خراب ہو سکتا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے چند احتیاطی تدابیر ضروری ہیں:
دیوسائی نیشنل پارک پاکستان کا ایک نایاب قدرتی خزانہ ہے، جہاں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی سرزمین ہے جہاں وقت ٹھہر سا جاتا ہے، بادل زمین کو چھونے لگتے ہیں، اور قدرت کے حیرت انگیز مناظر ہر آنکھ کو مسحور کر دیتے ہیں۔ اگر آپ فطرت، سکون، اور مہم جوئی کے شوقین ہیں تو دیوسائی کی سیر آپ کی زندگی کا سب سے یادگار تجربہ ثابت ہو سکتا ہے!

گنز بلوچستان (پاکستان کا آخری گاؤں) گنز، بلوچستان ایک تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے منفرد مقام ہے، جو دو اہم جگہوں پر مشت...
02/02/2025

گنز بلوچستان (پاکستان کا آخری گاؤں)
گنز، بلوچستان ایک تاریخی اور جغرافیائی لحاظ سے منفرد مقام ہے، جو دو اہم جگہوں پر مشتمل ہے:
گنز، تحصیل ایرندگان (ضلع خاش) اور گنز بیچ، جیوانی (پاکستان کا آخری گاؤں)۔ گنز، خاش ایک قدیم گاؤں ہے، جہاں ایک تاریخی قبرستان موجود ہے جو اشکانی دور (247 ق.م - 224 عیسوی) سے منسوب کیا جاتا ہے اور 2007 میں قومی ورثے کی فہرست میں شامل ہوا۔ یہاں کے لوگ بلوچ ثقافت سے جُڑے ہوئے ہیں اور زیادہ تر زراعت اور مال مویشی پر انحصار کرتے ہیں۔
دوسری طرف، گنز بیچ، جیوانی پاکستان کا آخری گاؤں ہے، جو جیوانی سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور بنیادی طور پر ماہی گیروں کی بستی ہے۔
یہ مقام اپنی نیلگوں پانی، سنہری ریت، حیران کن پہاڑوں اور ڈالفنز کی موجودگی کی وجہ سے مشہور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پرتگالیوں نے سب سے پہلے اس علاقے کو دریافت کیا تھا، جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔
یہاں کا ساحل بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں سے زیادہ خوبصورت تصور کیا جاتا ہے، اور اس کا فطری حسن ابھی تک سیاحوں کی بڑی تعداد سے اوجھل ہے۔
یہ مقام مچھلیوں، سمندری خوراک، سن سیٹ پوائنٹ، کیمپنگ اور وائلڈ لائف کے شوقین افراد کے لیے ایک جنت ہے۔ گنز، بلوچستان اپنی تاریخ، قدرتی حسن اور ثقافت کی وجہ سے ایک منفرد مقام ہے، جہاں آ کر ہر شخص خود کو خوش قسمت محسوس کرتا ہے۔

آئیس لینڈ میں ایک لائٹ ہاؤس ہے جو تین چٹانوں میں سب سے بلند چٹان پر واقع ہے، اور آئیس لینڈ کے ساحل سے چھ میل دور ہے۔ یہ ...
01/02/2025

آئیس لینڈ میں ایک لائٹ ہاؤس ہے جو تین چٹانوں میں سب سے بلند چٹان پر واقع ہے، اور آئیس لینڈ کے ساحل سے چھ میل دور ہے۔ یہ لائٹ ہاؤس 1939 میں انتہائی دشوار گزار اور خطرناک چٹان پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اسے Þrídrangar لائٹ ہاؤس کہا جاتا

Rakaposhi (7788m), Nagar (Pakistan)
01/02/2025

Rakaposhi (7788m), Nagar (Pakistan)

سیاچن کے اس پار
01/02/2025

سیاچن کے اس پار

لیپہ ویلی: قدرت کا حسین شاہکار،لیپہ ویلی آزاد کشمیر کے ضلع ہٹیاں بالا میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے، جو سیاحوں کے لیے جنت...
01/02/2025

لیپہ ویلی: قدرت کا حسین شاہکار،
لیپہ ویلی آزاد کشمیر کے ضلع ہٹیاں بالا میں واقع ایک خوبصورت وادی ہے، جو سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔ مظفرآباد سے تقریباً 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ وادی سرسبز پہاڑوں، سرخ چاولوں کے کھیتوں، ٹھنڈے چشموں، اور مہمان نواز لوگوں کے لیے مشہور ہے۔ اگر آپ اسلام آباد سے سفر کا آغاز کریں، تو مظفرآباد مری ایکسپریس وے کا انتخاب کریں۔ کوہالہ کے راستے مظفرآباد پہنچنے کے بعد، نیلی پل کے ذریعے شاہراہ سری نگر اختیار کریں۔

سفر کا آغاز اور راستے کی دلکشی
مظفرآباد سے لیپہ ویلی کا سفر تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔ راستے میں گڑی دوپٹہ، ہٹیاں بالا، اور ریشیاں جیسے خوبصورت علاقے آپ کے سفر کو یادگار بناتے ہیں۔ نیلی پل سے ریشیاں تک کا سفر دلکش نظاروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں دو راستے لیپہ ویلی کے لیے نکلتے ہیں۔

داوکھن روٹ: یہ روڈ مکمل پختہ اور آرام دہ ہے، جو لبگراں تک آسانی سے لے جاتا ہے۔
برتھواڑ گلی روٹ: یہ راستہ وادی کے منڈل گاؤں تک جاتا ہے اور بے حد حسین مقامات کا نظارہ پیش کرتا ہے۔
وادی کی خوبصورتی اور اہم مقامات
لیپہ ویلی میں داخل ہوتے ہی قدرتی حسن کا ایک نیا منظر پیش ہوتا ہے۔ قیصر کوٹ گاؤں کے دلکش نظارے، نوکوٹ کے سرخ چاولوں کے کھیت، اور چننیاں کا خوبصورت نالہ قاضی ناگ دیکھنے والوں کے دل موہ لیتا ہے۔

مشہور مقامات:

داوکھن اور شیر پاس: بلند و بالا پہاڑوں سے گزرتا یہ راستہ قدرت کی شاندار صناعی کا نمونہ ہے۔
نوکوٹ: سرخ چاولوں کے کھیت اور سیدھا سادہ دیہاتی ماحول۔
چننیاں پارک اور قاضی ناگ کا نالہ: گھنے جنگلات اور ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے۔
منڈل گلی: کیمپنگ کے لیے مثالی مقام۔
تریڈا شریف: حضرت سائیں مٹھا بابا سرکار کا دربار، جو لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے۔
سیاحوں کے لیے معلومات
لیپہ ویلی کی سیر کا بہترین وقت مئی سے اکتوبر تک ہے، کیونکہ سردیوں میں برفباری کے باعث راستے بند ہو جاتے ہیں۔ مقامی لوگ انتہائی مہمان نواز اور مددگار ہیں۔ ہوٹل اور کھانے پینے کی اشیاء کے نرخ بھی مناسب ہیں۔ وادی کے مختلف گاؤں، جیسے بجلدار، لبگراں، اور سیدپورہ، اپنی انفرادیت کے لیے مشہور ہیں۔

تاریخی پس منظر
لیپہ ویلی کا قدیم نام "کرناہ" تھا، جو برصغیر کی تقسیم سے قبل مظفرآباد کی ایک تحصیل تھی۔ مقامی راجہ مہاراجہ پیپہ سنگھ کے نام پر اس وادی کو "وادی پیپہ" کہا جاتا تھا، جو وقت کے ساتھ لیپہ کہلائی۔

سفر کی تفصیلات
اسلام آباد سے راستہ: مری ایکسپریس وے، کوہالہ، گڑی دوپٹہ، ہٹیاں، نیلی پل، اور ریشیاں کے راستے لیپہ ویلی پہنچیں۔
دیکھنے کی جگہیں: ساون واٹر فال، چناری واٹر فال، اور جسکول واٹر فال۔
ٹرانسپورٹ: ذاتی گاڑی، موٹر سائیکل، یا لوکل ٹرانسپورٹ بہترین انتخاب ہیں۔
حفاظتی ہدایات
لیپہ ویلی لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے، اس لیے آرمی کی چیک پوسٹوں پر شناختی کارڈ ضرور ساتھ رکھیں اور وہاں کی SOP's پر عمل کریں۔

اختتامیہ
لیپہ ویلی نہ صرف قدرتی حسن سے مالا مال ہے بلکہ یہاں کا ماحول، صاف پانی، گھنے جنگلات، اور مہمان نواز لوگ سیاحوں کو بار بار آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر آپ سکون اور خوبصورتی کی تلاش میں ہیں، تو لیپہ ویلی کا سفر زندگی کا یادگار تجربہ ثابت ہوگا۔
تحریر: ظہیر شاہ زاری

🚨بریکنگ نیوز🚨اطلاعات کے مطابق، قذافی اسٹیڈیم میں 25 فٹ 'رننگ مین' کا مجسمہ نصب کیا جائے گا جو کہ لاہور آئی سی سی چیمپئنز...
01/02/2025

🚨بریکنگ نیوز🚨
اطلاعات کے مطابق، قذافی اسٹیڈیم میں 25 فٹ 'رننگ مین' کا مجسمہ نصب کیا جائے گا جو کہ لاہور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے تیار ہو رہا ہے ۔
۔
۔
۔

سرنگ کھودنے والی مشین "برثا" دنیا کی سب سے بڑی کھدائی کی مشینوں میں سے ایک ہے جو زیر زمین سرنگوں کی کھدائی کے منصوبوں می...
01/02/2025

سرنگ کھودنے والی مشین "برثا" دنیا کی سب سے بڑی کھدائی کی مشینوں میں سے ایک ہے جو زیر زمین سرنگوں کی کھدائی کے منصوبوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اسے خاص طور پر شہروں میں زیر زمین سرنگوں کی کھدائی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے اور عام طور پر بڑے منصوبوں جیسے میٹرو لائنز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اسے "برثا" کا نام ریاضی کی ماہر برثا کاسٹل کے نام پر دیا گیا ہے۔ یہ اپنی دیوقامت جسامت اور طاقت کی وجہ سے نمایاں ہے، کیونکہ یہ 17.6 میٹر تک چوڑی سرنگیں کھودنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

01/02/2025
Map of Gilgit-Baltistan: The Jewel of PakistanGilgit-Baltistan, a breathtaking region in northern Pakistan, is known for...
31/01/2025

Map of Gilgit-Baltistan: The Jewel of Pakistan

Gilgit-Baltistan, a breathtaking region in northern Pakistan, is known for its majestic mountains, rich cultural heritage, and strategic significance. Nestled in the Karakoram and Himalaya ranges, this region is home to some of the world's highest peaks, including K2, and serves as a gateway for trade and tourism.

This map of Gilgit-Baltistan highlights its diverse valleys, key towns, and important routes, reflecting the region’s historical, geographical, and economic importance. From the serene Hunza and Skardu valleys to the bustling Sost Dryport, Gilgit-Baltistan remains a hub of adventure, trade, and cultural exchange.

ستول کی تاریخی مسجد اور انوکھے واقعات - وادی چوڑ وادی چوڑ پاکستان کی ایک ایسی جنت نظیر وادی ہے جو کہ ابھی تک سیاحوں کی ن...
31/01/2025

ستول کی تاریخی مسجد اور انوکھے واقعات - وادی چوڑ
وادی چوڑ پاکستان کی ایک ایسی جنت نظیر وادی ہے جو کہ ابھی تک سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہاں تک سڑکوں کا نہ ہونا اور مشکل راستوں کا ہونا ہے۔ اس لیے بہت کم لوگ اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔ سب سے اچھی بات یہاں کی یہ ہے کہ یہ وادی اور اس کی خوبصورتی بالکل اصلی حالت میں موجود ہے۔

اب بات کرتے ہیں اس کی ایک تاریخی مسجد کی جو کہ ستول گاؤں میں موجود ہے اس لیے اس مسجد کو بھی ستول کی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مسجد پتھروں اور بڑے بڑے ستونوں سے بنائی گئی ہے۔ اس مسجد کے ستون اتنے بڑے اور وزنی ہے کہ مسجد کی تعمیر کے وقت ان کو لانے کیلئے الائی سے 300 سے 500 بندوں کو بلایا گیا تھا۔ اس مسجد میں اکثر سیاح اور مسافر قیام بھی کرتے ہیں۔

ہم جب یہاں پہنچے تو دروازہ کھولتے ہی میری نظر ایک بزرگ پر پڑی جو کہ آنکھیں بند کرکے عبادت میں مصروف تھے۔ ہماری باتوں کی وجہ سے ان کا دھیان ٹوٹ گیا تو وہ اٹھ کر باہر آگئے۔ وہ انتہائی ضعیف اور کمزور تھے مگر ان کے چہرے پہ ایک عجیب سا نور تھا۔ انہیں دیکھ کر میرے ذہن میں پرانے زمانے کے ولی، صوفیاء اور بزرگ آئے جن کے بارے میں ہم قصے کہانیوں اور کتابوں میں پڑھتے آرہے تھے۔ مجھے کافی حیرت ہوئی، ہم تصاویر بنوانے لگے اور وہ برآمدے میں پڑے ایک پتھر پر بیٹھ کر پھر سے عبادت میں مشغول ہوگئے۔ کچھ وقت کے بعد میں اور میرے دوست ان کے پاس جاکے بیٹھ گئے۔ میں نے سلام دعا کی، حال چال دریافت کی۔

میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں سے ہیں ( کیونکہ اس علاقے میں سارے لوگ مسافر اور کچھ چرواہے ہوتے ہیں جو کہ مختلف علاقوں سے گرمیوں میں یہاں کا رخ کرتے ہیں)۔ انہوں نے آہستہ سے کہا میرا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ میں نے پوچھا گھر بار کا پوچھا تو بتایا کہ میں چترال سے ہوں۔ مجھے ایک خوشگوار سی حیرت ہوئی کیونکہ یہ وادی دور ہونے کی وجہ سے یہاں اپنے ضلعوں کے لوگ نہیں جا پاتے اور بابا جی اتنے دور چترال سے یہاں آتے ہیں ہر گرمیوں میں، 4 مہینے اسی مسجد میں عبادت کرتے ہوئے گزارتے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ یہاں تک آتے ہوئے تو اچھے خاصے جوانوں کی ٹانگیں کھسک جاتی ہیں، آپ اس عمر میں یہاں تک کیسےپہنچ پاتے ہیں؟ انہوں نے کہا مجھے اللہ لے کر آتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کو اس جگہ کا پتا کیسے چلا کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ چترال میں کسی بھی بندے نے اس وادی کا نام بھی سنا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اللہ نے بتایا۔ میں تجسس سے بھرے ذہن کے ساتھ بلکل حیرت کا شکار تھا اس وقت۔ میرے بار بار پوچھنے پہ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلی بار خواب میں یہ جگہ دیکھی تھی اور پھر وہ اس جگہ کو ڈھونڈنے نکلے تھے۔ ان سے پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ انہوں نے نہ شادی کی تھی اور نہ ہی ان کے کوئی بچے وغیرہ تھے۔ وہ جوانی سے لے کر اب تک گرمیوں میں اس خاموش وادی کے اس کچی مسجد میں چلے آتے ہیں اور دن رات عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا کہ دنیا میں اب بھی ایسے بزرگ موجود ہے۔ لیکن ایک بات تو پکی ہے کہ یقین والوں کے لئے اب بھی معجزے ہوتے ہیں۔

ایک تصویر میں آپ پیچھے دیکھ سکتے ہیں کہ بابا جی برآمدے میں بیٹھے ہوئے عبادت کر رہے ہیں.

پھنڈر غذر گلگت بلتستان 😍
31/01/2025

پھنڈر غذر گلگت بلتستان 😍

Address

Sidique Trade Center
Lahore

Telephone

+923064493012

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Explore Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Explore Pakistan:

Share

Category