28/09/2024
یہ اندرون فصیل شہر دلّی کی اینگریوینگ ہے، یہ 1857 کے سقوط دلی سے پہلے کی صورتحال تھی- جمنا کے کنارے لال قلعہ اور سامنے جامع مسجد تو واضح ہیں، قلعہ کے سامنے جامع مسجد کو چھوڑتی ہوی جو سڑک نطر آ رہی ہے اسی پر چاندنی چوک اور بازار کے آخر میں ایک مسجد نظر ارہی ہے، اسکے اور جامعہ مسجد کے پیچھے جاتی ہؤی گلیوں میں ایک گلی قاسم جان تھی جس پر غالب کی رہائش تھی۔۔جبکہ داغ دہلوی کا گھر جامع مسجد سے چاندنی چوک بازار جانے والی ایک گلی میں تھا۔
اس علاقے کو اب پرانی دلّی کہا جاتا ہے-
اس اینگریونگ کی اصل لال قلعہ دلی کے میوزیم میں موجود ہے-یہ نقل 1958 میں لندن کے ایک اخبار میں شائع ہوئی تھی-
یہ کیسی عجیب بات ہے دلی کا نقشہ اب بھی یہی ہے ۔نئی دہلی جدا ہے ۔
پس نوشت
کئی صدیوں بعد میں دہلی پہنچا ۔۔۔۔اگرچہ گھر کے لوگ 1523 عیسوی میں وہاں پہنچ گئے تھے۔۔۔سارے مقامات دیکھتے ہوئے مجھ پر تاریخ سوار تھی جو چاندنی چوک میں گھر والوں کے لئے ساڑھیاں خریدتے ہوئے اتر گئی۔۔۔دکاندار نے کہا تھا " بھیا پاکستان سے آئے ہو تو بیٹھو۔۔بس کہیں اور نہیں جانے دوں گا " ۔۔۔مجھے 6 ساڑھیاں لینی تھیں لیکن کتنی لیں یہ ہمارے کیمرہ مین محبوب بھائی جانتے ہیں😊
دلی پر دسویں کتابیں ہیں لیکن حالی اور شرر اور سرسید کو ضرور پڑھیں۔۔۔۔ میر غالب داغ سب کے شہر آشوب موجود ہیں۔ دلی آخری بار اندرا گاندھی کے قتل پر اجڑی برسوں بعد امرتسر میں ایک سردار جی نے مجھے دربار صاحب کی زیارت کرائی تو میں نے دلی میں سکھوں کے قتل عام کا پوچھا۔۔۔وہ ہنس پڑے " ارے کچھ بھی نہیں۔ اپنے گلزار صاحب سے پوچھو گے تو کہہ دیں گے جو سکھ تلوار 1947 میں بے نیام ہوئی تھی یہ اسی کا بدلہ پے "
دلی کہاں گئیں تیرے کوچوں کی رونقیں
گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں( جاں نثار اختر )
تصویر اور تعارف کے لیے صولت پاشا صاحب کا شکریہ