Discover Lahore

Discover Lahore An initiative to make our passion into profession. We are a group of people, who have enthusiasm of
(17)

یہ اندرون فصیل شہر دلّی کی اینگریوینگ ہے، یہ 1857 کے سقوط دلی سے پہلے کی صورتحال تھی- جمنا کے کنارے لال قلعہ اور سامنے ج...
28/09/2024

یہ اندرون فصیل شہر دلّی کی اینگریوینگ ہے، یہ 1857 کے سقوط دلی سے پہلے کی صورتحال تھی- جمنا کے کنارے لال قلعہ اور سامنے جامع مسجد تو واضح ہیں، قلعہ کے سامنے جامع مسجد کو چھوڑتی ہوی جو سڑک نطر آ رہی ہے اسی پر چاندنی چوک اور بازار کے آخر میں ایک مسجد نظر ارہی ہے، اسکے اور جامعہ مسجد کے پیچھے جاتی ہؤی گلیوں میں ایک گلی قاسم جان تھی جس پر غالب کی رہائش تھی۔۔جبکہ داغ دہلوی کا گھر جامع مسجد سے چاندنی چوک بازار جانے والی ایک گلی میں تھا۔
اس علاقے کو اب پرانی دلّی کہا جاتا ہے-
اس اینگریونگ کی اصل لال قلعہ دلی کے میوزیم میں موجود ہے-یہ نقل 1958 میں لندن کے ایک اخبار میں شائع ہوئی تھی-
یہ کیسی عجیب بات ہے دلی کا نقشہ اب بھی یہی ہے ۔نئی دہلی جدا ہے ۔
پس نوشت
کئی صدیوں بعد میں دہلی پہنچا ۔۔۔۔اگرچہ گھر کے لوگ 1523 عیسوی میں وہاں پہنچ گئے تھے۔۔۔سارے مقامات دیکھتے ہوئے مجھ پر تاریخ سوار تھی جو چاندنی چوک میں گھر والوں کے لئے ساڑھیاں خریدتے ہوئے اتر گئی۔۔۔دکاندار نے کہا تھا " بھیا پاکستان سے آئے ہو تو بیٹھو۔۔بس کہیں اور نہیں جانے دوں گا " ۔۔۔مجھے 6 ساڑھیاں لینی تھیں لیکن کتنی لیں یہ ہمارے کیمرہ مین محبوب بھائی جانتے ہیں😊
دلی پر دسویں کتابیں ہیں لیکن حالی اور شرر اور سرسید کو ضرور پڑھیں۔۔۔۔ میر غالب داغ سب کے شہر آشوب موجود ہیں۔ دلی آخری بار اندرا گاندھی کے قتل پر اجڑی برسوں بعد امرتسر میں ایک سردار جی نے مجھے دربار صاحب کی زیارت کرائی تو میں نے دلی میں سکھوں کے قتل عام کا پوچھا۔۔۔وہ ہنس پڑے " ارے کچھ بھی نہیں۔ اپنے گلزار صاحب سے پوچھو گے تو کہہ دیں گے جو سکھ تلوار 1947 میں بے نیام ہوئی تھی یہ اسی کا بدلہ پے "
دلی کہاں گئیں تیرے کوچوں کی رونقیں
گلیوں سے سر جھکا کے گزرنے لگا ہوں میں( جاں نثار اختر )
تصویر اور تعارف کے لیے صولت پاشا صاحب کا شکریہ

15/09/2024

Death Anniversary of Sher Singh

Photograph of the Samadhi of Ranjit Singh at Lahore, Pakistan, taken by George Craddock in the 1880s, part of the Bellew...
15/05/2024

Photograph of the Samadhi of Ranjit Singh at Lahore, Pakistan, taken by George Craddock in the 1880s, part of the Bellew Collection of Architectural Views.

Location: Bhati Gate Walled City of LahoreDiscover Lahore JKبھاٹی دروازہ قدیم لاہور کے گرد قائم فصیل میں متعدد مقامات پر...
04/05/2024

Location: Bhati Gate Walled City of Lahore
Discover Lahore JK
بھاٹی دروازہ

قدیم لاہور کے گرد قائم فصیل میں متعدد مقامات پر شہر میں داخلے کے لیے رکھے گئے دروازوں میں سے ایک اہم بھاٹی دروازہ، جو سید علی ہجویری کے مزار کی سمت واقع ہے۔ یہ بھاٹ قوم کی طرف منسوب ہے جو آبادی ایاز کے اس دروازہ کے اندر یکجا آباد ہوئے تھے اسی کے اندر بازار حکیماں ہے جہاں بڑے بڑے نامور طبیب رہتے تھے
کہا جاتا ہے کہ سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اس قوم کو مسلمان کیا تھا تو انہوں نے اس دروازے کو آپکے نام سے منسوب کرنا چاہا لیکن آپ نے فرمایا کہ میں دروازوں کے نام نہیں لوگوں کے دل بدلنے آیا ہوں۔۔

’’بھاٹی دروازے کا اصل نام بھٹی دروازہ تھا ".

یہ دروازہ شہر قدیم کی فصیل میں جنوبی جانب واقع ہے۔ فصیل میں بھاٹی دروازے کی دائیں جانب موری جبکہ بائیں جانب ٹکسالی دروازہ ہے۔ اس کے سامنے لوئر مال ہے جو آگے جا کر ملتان روڈ بن جاتی ہے۔

بھاٹی دروازے کے سیدھے ہاتھ تانگوں کا اڈہ اور خالی میدان تھا جہاں سرکس کمپنیاں سرکس لگاتی تھیں جبکہ الٹے ہاتھ پر مسجد و مزار غلام رسول ہے۔ یہ بزرگ ’’بلیوں والی سرکار‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ دروازے کے بالکل پاس الٹے ہاتھ پر ایک بڑا درخت ہے جس کی شاخوں نے جھک کر دروازے کا منظر چھپایا ہوا ہے۔

بھاٹی گیٹ کی بیرونی جانب سرکلر روڈ سے پرے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور اس کے قریب ہی کربلا گامے شاہ ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شہر قدیم سے داتا گنج بخش علی ہجویری کے مزار تک آنے کے لیے یہ دروازہ بنایا گیا تھا۔ ملک ایاز کے زمانے میں یہاں بھٹ قبیلے لوگوں کو رہائش اختیار کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی اور انہوں نے صدیوں اس دروازے کے اندر قیام کیا اور ان کی مناسبت سے ہی دروازے کا نام بھاٹی دروازہ مشہور ہو گیا۔ بھٹ قبیلے کے لوگ تالا سازی کے پیشہ سے منسلک رہے۔ غزنوی عہد کا شہر قدیم یہاں اختتام پذیر ہوتا تھا اور اکبر کے عہد میں جب شہر قدیم کو نو گزروں میں تقسیم کیا گیا تو تلواڑہ گزر اور مبارا خان گزر بھاٹی دروازے کے پاس باہم ملتی تھیں۔
اندرون بھاٹی گیٹ میں ہی وہ جگہ واقع ہے جہاں پر شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنی شاعری کی ابتدا کی تھی۔
حکیم احمد شجاع مرحوم ’’لاہور کا چیلسی‘‘ (مطبوعہ 1988ء) کے صفحہ 11پر بھاٹی دروازے کے نام کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں:
’’بھاٹی دروازے کا اصل نام بھٹی دروازہ تھا اور یہی وہ مقام تھا جہاں مغلوں کی سلطنت سے پہلے بھٹی قوم کے جنگجو دلیروں نے فتح ملتان کے بعد لاہور آ کر پڑائو ڈالا تھا۔ امتداد زمانہ سے بگڑتے بگڑتے بھٹی سے بھاٹی دروازہ ہو گیا۔‘‘

بھاٹی گیٹ کے باہر کھلے میدان میں روایتی تھیٹر کمپنیاں اور سرکس لگتے تھے۔ ہو سکتا ہے اس کی ایک وجہ دربار حضرت داتا گنج بخش بھی ہو کہ عرس کے موقع پر اسی طرح کی تفریحات معمول کا حصہ ہیں تاہم 1938ء میں جب فلموں کا رواج ہوا تو یہ تھیٹر کمپنیاں آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھونے لگیں تب یہاں تین سینما گھر تعمیر ہو گئے۔
علمی و ادبی اور تاریخی
حوالے سے اندرون بھاٹی گیٹ کا علاقہ ہمیشہ ہی مرکز و منبع رہا ہے۔ مشہور تاریخی اور لاہور کی ابتدائی مسجد ’’اونچی مسجد‘‘ بھاٹی دروازے کے اندر واقع ہے۔ سکھوں کے عہد کے آخری دو عشروں میں یہاں بہت سی حویلیاں تعمیر کی گئیں، جن میں سے زیادہ تر آج موجود نہیں ہیں۔ بھاٹی بازار، بازار حکیماں اور ٹبی بازار سے ہوتا ہوا شاہی محلہ تک چلا جاتا ہے جہاں ٹکسالی دروازے سے سڑک آ کر مل جاتی ہے۔
کوچہ فقیر خانہ اور فقیر خانہ میوزیم بھی بھاٹی دروازے کے اندرونی حصے میں واقع ہیں۔ ذوالجناح کا جلوس جو اندرون لاہور سے کربلا گامے شاہ جا کر ختم ہو جاتا ہے، بھاٹی دروازے میں سے ہی گزرتا ہے۔ بے شمار علمی و ادبی شخصیات بازار حکیماں اور تحصیل بازار میں قیام پذیر رہیں۔اقبال لندن سے لاہور آکر رہائش پذیر ہوئے تو انہوں نے بھاٹی دروازے کے محلہ جلوٹیاں کو اپنا مسکین بنایا، جہاں ان کے دوست رہتے تھے۔ لاہور کی اولین ادبی انجمن جس کے اجلاس حکیم امین الدین بیرسٹر کے مکان پر ہوتے تھے، یہیں قائم ہوئی۔ اس انجمن کی بنیاد مشہور ڈرامہ نویس حکیم احمد شجاع پاشا کے والد اور فلمی ہدایت کار انور کمال پاشا کے دادا نے رکھی۔ مسلم لیگ کا ترجمان ’’خالد‘‘ نامی اخبار بھی بھاٹی دروازے سے ہی شائع ہوتا تھا۔

سر عبدالقادر نے یہیں سے اپنا رسالہ ’’مخزن‘‘ جاری کیا۔ مشہور ڈرامہ نگار آغا حشر بھی یہیں مقیم رہے۔ مرزا داغ دہلوی جب لاہور آئے تو بھاٹی دروازے کو اپنا مسکن بنایا۔ ڈاکٹر مولوی محمد شفیع کا مکان بھی کوچہ پٹرنگاں کے قریب ہی تھا جو اورینٹل کالج کے پرنسپل اور کالج میگزین کے ایڈیٹر رہے۔ ’’تاریخ لاہور‘‘ کے مصنف سید محمد لطیف کوچہ تحصیل کے مقابل سمیوں کا بازار میں رہتے تھے۔ کوچہ تحصیل میں رسالہ ’’تہذیب نسواں‘‘ کے مالک سید ممتاز علی اور کچھ دیر کے لیے مولانا محمد حسین آزاد بھی قیام پذیر رہے۔ بارود خانے کے علاقہ میں ’’نیرنگ خیال‘‘ کے ایڈیٹر و مالک حکیم یوسف حسن بھی شروع شروع میں مقیم رہے۔ آغا حشر جب اپنی کمپنی کے ساتھ لاہور آتے تو بھاٹی دروازے کے باہر اس مکان میں ٹھہرتے جو ہری کرشن تھیٹر سے ملحق تھا، جس میں ان کی کمپنی کے کھیل دکھائے جاتے تھے۔ کوچہ سبز پیر میں کٹڑی امیر چند میں مولانا ظفر علی خان دکن سے واپس آئے تو رہنے لگے۔ انہوں نے ’’پنجاب ریویو‘‘ کے نام سے رسالہ بھی نکالا۔ پیسہ اخبار کے مالک اور ایڈیٹر منشی محبوب عالم کے ادبی و صحافتی سلسلہ کا آغاز بھی بھاٹی دروازے سے ہی ہوا۔
استاد دامن بھاٹی دروازے کے اندر ہی اپنی نظمیں سنانے آتے تھے۔ ساغر صدیقی کی عمر کا بیشتر حصہ بھاٹی دروازے میں اور اس کے قرب و جوار میں ہی گزرا۔ مولانا محمد حسین آزاد بیرون بھاٹی دروازہ نزد کربلا گامے شاہ دفن ہیں۔

فن تعمیر کے حوالے سے بھاٹی، شیرانوالہ اور کشمیری دروازہ روکار میں ایک جیسے ہیں۔ البتہ سطحی نقشے کے اعتبار سے بھاٹی دروازہ، شیرانوالہ اور کشمیری دروازے سے مختلف ہے۔

بھاٹی دروازہ اپنی ظاہری سطح پر یوں تو گوتھک اندازِ تعمیر کی دوہری کمان پر مشتمل ہے مگر دروازے کے بائیں اور دائیں جانب دو لمبی بیرکیں ہیں جن کے سامنے برآمدے بنے ہوئے ہیں۔ ان بیرکوں کی بیرونی دیواریں شہر کی فصیل کی جگہ لیے ہوئے ہیں۔ دائیں اور بائیں دونوں جانب دو دروازے ڈیوڑھی میں کھلتے ہیں۔ لمبائی کے اعتبار سے بھاٹی دروازہ دیگر دروازوں کی عمارات سے طویل ترین ہے اس کی لمبائی 187فٹ تک پہنچتی ہے۔

دروازے کی بڑی ڈاٹ کو دو ستون سہارا دئیے ہوئے ہیں ہر ستون پر اوپر نیچے مستطیل چوکھٹے بنے ہوئے ہیں۔ ڈیوڑھی کی چھت بھی گوتھک انداز کی ڈاٹ سے بنی ہے۔ ڈیوڑھی کا حصہ دائیں اور بائیں ملحقہ بیرک کی عمارت سے خاصا بلند ہے۔ ڈاٹ کے دونوں اطراف بیرونی جانب مرغولے بنے ہوئے ہیں جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں۔

انگریزی عہد میں بھاٹی دروازے کی تعمیر نو کے وقت نہ تو عسکری ضرورت کو اس طرح ترجیح دی گئی جیسے سکھوں یا مغلوں کے زمانے میں تھی اور نہ ہی اصل دروازوں کی جمالیات کے تناسب و شکل کو بحال رکھنے کی کوشش کی گئی۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ دہلی دروازے کے برعکس ان دروازوں کا روکار داخلی دروازے جیسا ہی نظر آتا ہے۔ گوتھک انداز تعمیر کی ڈاٹ کے علاوہ دیگر عناصر مغلوں کے فن تعمیر سے سرسری ربط بناتے ہیں۔
بیرک اور برآمدہ یک منزلہ ہیں جبکہ اصل دروازے میں بالائی منزل پر داروغوں کی رہائش کے لیے کمرے تعمیر تھے۔ عمارات کے لیے اینٹیں اور چونے کا مسالہ استعمال کیا گیا۔ آج کل ان بیرکوں میں بھاٹی پولیس کے ملازم آباد ہیں۔

آج کل بیرون بھاٹی کے کافی رقبہ پر مدرسہ جامعہ حنفیہ غوثیہ نے قبضہ کر رکھا ہے بلکہ وہاں کثیر منزلہ عمارت بھی تعمیر کر لی ہے۔ محکمہ اوقاف نے کئی برس پہلے داتا دربار کی توسیع کا منصوبہ شروع کیا تو بھاٹی دروازے کے باہر عارضی طور پر دکانات تعمیر کیں جو دراصل ان لوگوں کو دی گئیں جن سے داتا دربار کی توسیع کے وقت دکانات خالی کروائی گئی تھیں مگر اب یہ دوکانات مستقل ہو گئی ہیں۔ چونکہ میاں نواز شریف نے توسیعی منصوبہ میں شامل دوکانات ختم کروا کر سماع ہال بنوا دیا تھا لہٰذا یہ دوکاندار اب مستقل طور پر یہیں سکونت پذیر ہیں۔
(غافر شہزاد کی کتاب ’’لاہور… گھر گلیاں دروازے‘‘ سے اقتباس)
٭٭٭
جسٹس امیر علی لکھتے ہیں کہ جب حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے تو ہندو راجہ جے سنگھ کے سپاہی گئے اور شکایت کی کہ سید علی ہجویری ایک زبردست سیاسی شخصیت بنتے جا رہے ہیں، آپ اس کی طرف توجہ دیں چنانچہ راجہ جے سنگھ نے سلطان مسعود غزنوی سے اس کا ذکر کیا تو اس نے یہ بات سن کر ٹال دی اور کہا کہ آپ ایک برگزیدہ ہستی ہیں، ان کی طرف سے کسی کوکوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مسلمانوں نے بھاٹی دروازہ کو ’’ہجویری دروازہ‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ بھٹی راجپوتوں نے اس کا برا منایا اور انہوں نے بھاٹی دروازے کا نام جے سنگھ دروازہ رکھ دیا۔ جب حضرت سید علی ہجویری کواس کی اطلاع ملی تو انہوں نے دونوں قوموں کے عمائدین کو بلایا اور کہا کہ نام بدلنے سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک کہ دلوں میں انقلاب نہ آئے۔ پھر کہا کہ آپ لوگ جو نام بھی رکھیں گے ہمیں منظور ہو گا ، اگر بھاٹی دروازہ ہی رہے تو اچھا ہے۔ راجہ جے سنگھ آپ کے فیصلے اور اخلاق سے بہت متاثر ہوا اور اسلام قبول کر لیا اور عرض کی کہ اس کا نام ہجویری دروازہ رکھنے کی اجازت فرمائی جائے مگر آپ نے فرمایاکہ ہجویری کی نسبت بھٹی قوم کا حق اس دروازے پر زیادہ ہے جو یہاں صدیوں سے آباد ہیں لہٰذا ان کو من پسند نام رکھنے کا حق ہے۔ جسٹس امیر علی نے مزید لکھا ہے کہ اس واقعہ کے تقریباً ایک ماہ بعد ساری بھٹی قوم حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔
(پیر صوفی محمد اطہر القادری کی کتاب ’’الجواہرات عن الزیارات‘‘ سے اقتباس)

تحریر و تحقیق ڈاکٹر حافظ محمد کاشف بھٹی انٹرنیشنل بائیکر جہاں گرد

معاون ۔۔۔ احمد بدر

#بھاٹی
Kashif Bhatti JK
Kashif On Bike JK
Lahore City
Walled City Lahore Authority والڈ سٹی لاہور اتھارٹی
Walled City Lahore

Location : San San Village & Carvanseray Kashan Iran Kashif On Bike JKKashif Bhattiashif Bhatti  JKGoogle Review :>https...
23/03/2024

Location : San San Village & Carvanseray Kashan Iran
Kashif On Bike JK
Kashif Bhattiashif Bhatti JK
Google Review :>https://maps.app.goo.gl/dASNMGycPMX6SwSx8
سفر یار من ایران...قسط نمبر 118
میرا نام کاشف بھٹی ہے اور میں دہشت گرد نہیں ہوں۔

میرے اپنے الفاظ میں ایران کے سفر کی کہانی

پچھلی قسط میں ایران کے شہر کاشان کو ایران میں سیاحتی مقام اور کاشان ریلوے اسٹیشن
کاشان ریلوے اسٹیشن صوبہ اصفہان کے ایک ممتاز شہر کاشان میں واقع ہے۔ اس نے آج دیکھا اور سنا تھا۔

سن سن ایک منفرد گاؤں ہے۔

سین سین یا سن سن کا ایک گاؤں ہے جو کاشان صوبہ اصفہان، ایران کے وسطی ضلع میں واقع ہے۔ 2006 کی مردم شماری میں، اس کی آبادی 411 خاندانوں میں 1,576 تھی۔ مجھے یہ نام بہت دلچسپ لگا۔ میں کاشان سے 100 کلومیٹر دور کاشان کی نمکین جھیل دیکھنے جا رہا تھا۔ یہاں سے گزریں تو یہ انوکھا نام یاد رکھیں۔ اس کے بعد اب شیریں نام کا ایک گاؤں ہے، وہاں ایک قلعہ قاسم آباد ہے۔ جس کا تذکرہ اگلی قسط میں کیا جائے گا، وہاں سے گزرتے ہوئے کاشان کی نمکین جھیل کی طرف جاتا ہے۔
اب یہاں سن سن کی بات ہو رہی ہے۔ سن سن میں ایک عدد کاروانسرائے اور اسکا ریلوے اسٹیشن دیکھنے لائق ہے

سین سین کاروانسرائی کا تعلق صفوی دور سے ہے اور یہ کاشان شہر میں قم سے کاشان شاہراہ پر 40 کلومیٹر کے فاصلے پر آب شیرین اور مشکان کے دو گاؤں کے درمیان واقع ہے
حسین یزدان مہر نے کاشان میں جرنلسٹس کلب کے رپورٹر کے ساتھ بات چیت میں کاروان سرائے کی چھت کے ایک حصے کو اسٹائل اور مضبوط کرنے، محراب اور چشمے کی چھتوں پر لگے پلاسٹر کے ٹوٹے پھوڑے کو ہٹانے، محراب اور چشمے کی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ روایتی انداز میں، کھجور اور پھولوں کے برتنوں کا مظاہرہ کرنا۔ چھت پر، انہوں نے اس تاریخی عمارت کی بحالی کے اقدامات میں سے ایک کے طور پر روایتی انداز میں پتھر کے گٹر کے نفاذ کو درج کیا۔

انہوں نے مزید کہا: سین سین گاؤں کے تاریخی کاروان سرائی کو 300 ملین ریال کی لاگت سے بحال کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق کاروانسرائے کی عمارت کو اس وقت کافی نقصان پہنچا ہے جس کی بحالی کی ضرورت ہے۔

سان سین کا تاریخی کاروان سرائی ان بڑے اور باوقار کاروانوں میں سے ایک ہے جو رے اور قم سے کاشان کے درمیان سڑک پر واقع ہے اور یہ ماضی میں اس سڑک کے مشہور کاروان سرائیوں میں سے ایک تھا۔

اس کاروانسرائی میں چار برآمدے ہیں جو اینٹوں سے بنے ہوئے مٹی اور چونے کے مارٹر کے ساتھ ایک شاندار دروازے کے ساتھ ہیں۔ کمرے صحن کے چاروں طرف قطار میں لگے ہوئے ہیں اور ان کے پیچھے اصطبل ہیں۔ اس کاروان سرائے کو 1364 میں ملک کی قومی یادگاروں کی فہرست میں 1677 ویں نمبر پر رکھا گیا تھا۔

09/12/2021

Address

Lahore
71000

Opening Hours

Monday 09:00 - 19:00
Tuesday 09:00 - 19:00
Wednesday 09:00 - 19:00
Thursday 09:00 - 19:00
Friday 09:00 - 19:00
Saturday 09:00 - 19:00
Sunday 09:00 - 19:00

Telephone

03457555660

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Discover Lahore posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category

Nearby travel agencies


Other Tour Guides in Lahore

Show All