Gilgit Baltistan the land of beauty

Gilgit Baltistan the land of beauty We are promoting the natural beauty of the 10 districts of Gilgit_baltistan, Pakistan.The beautiful
(5)

29/12/2023

شدید موسمیاتی تبدیلی ،خطرے کی گھنٹی

ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ

گلگت بلتستان جو پاکستان میں اپنے گلیشیائی رقبے اور برفانی علاقوں کی وجہ سے ٹھنڈک کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت شدید ترین موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے اور نہ صرف اس علاقے کے لیے بلکہ پورے ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ مقامی ریکارڈ اور روایت کے مطابق 21دسمبر سے پہلے اور بعد کا ہفتہ سرد ترین شمار ہوتا ہے جہاں سالہا سال سے ان دوہفتوں کا اوسط درجہ حرارت منفی پانچ سے منفی دس کے بیچ میں ہوتا ہے۔ لیکن اس بار دسمبر کا آخری ہفتہ ہے اور سکردو میں اوسط درجہ حرارت منفی تین سے منفی پانچ ڈگری سنٹی گریڈپر اتر آیا ہے۔ برف ابھی نہیں ہو پائی ہے۔ سکردو شہر میں پہاڑوں کی چوٹیوں پرتھوڑے برف نظر آتے ہیں جبکہ پہاڑوں کے تین چوتھائی حصہ بالکل سوکھا دکھائی دے رہا ہے۔ یہ صورت حال خطرے کی علامت ہے۔ نومبر دسمبر میں ہونے والے برف بارے نہایت مفید اوردیر پا ہوتے ہیں، جبکہ وسط جنوری کے بعد والی برف صرف چند دنوں کی مہمان سمجھی جاتی ہیں، جو نہ صرف بہت جلد پگھل جاتے ہیں بلکہ فروری اور مارچ کے مہینوں میں برفانی تودوں اور برفانی تباہ کاریوں کا باعث بھی بنتا ہے۔ وسط جنوری سے پہلے کی برف پڑنے کے بعد جمے رہنے کی وجہ سے نسبتاً سخت ہوتی ہے جس کے اوپر آپ چل سکتے ہیں، جو بعد کی بارف اور بارش کو بھی جما دیتی ہے، جبکہ سردیوں کے اواخر اور بہار کی اوائل میں آنے والی برف نرم ہوتے ہیں جو پہاڑوں سے چٹانی سطح سے چمٹنے کی بجائے پھسل جاتی ہیں، جلد پگھلنے کی وجہ سے بہنا شروع ہوجاتا ہے، جو مزید برف کو ساتھ لے کر برفانی تودے ’’کھا روٹ ‘‘ یعنی Avalanche کا باعث بنتا ہےاور یوں برف ضائع ہوجاتا ہے اور گرمیوں میں ضرورت کے وقت پانی کا بحران شروع ہوتا ہے۔ خصوصاً ان آبادیوں میں جن کی آب پاشی کا انحصار برف کی پانی پر ہو۔

وسط جنوری سے پہلے کی برف گلیشئرز کو توانا کرتی ہے، اور اس کی آئس ماس کا توازن برقرار رکھنے میں معاون ہوتی ہے، جبکہ جنوری کے بعد والی برف نیم بارش کی صورت میں گلیشئرز کو مضبوط اور توانا کرنے کی بجائے ، ان کی پگھلاؤ میں اضافہ کرکے اسے کمزور کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ صورتحال گلیشئرز کی صحت کےلیے نہایت مضر ہے جو جاری رہنے کی صورت میں تشویشناک موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ سیلابی تباہ کاریاں، خشک سالی، اور ان حالات سے وابستہ ذرعی فصلوں اور نباتات کی پیداوار اور نشو ونما کو متاثر کرتی ہے۔

گلیشیائی خطوں میں سردیوں میں برف باری کا نہ ہونا خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں کی نشانی اور الارام ہے کہ ہمیں فوری اقدامات کر نے کی ضرورت ہیں۔

برف باری نہ ہونے کی صورت میں گلیشئرز کی وجود مزید خطرات سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ انہیں بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہیں۔ خدا نخواستہ اس وقت والی صورت مزید چند سال تک جاری رہیں تو آٹھ دس سالوں میں موجودہ گلیشئرز کی آئس ماس یعنی ان کا حجم ایک تہائی حصے تک کم ہو سکتی ہیں۔ بارشوں اور برف میں کمی پہاڑوں کی بالائی خطوں میں آبی ذخائر میں کمی کا باعث بنتا ہے جسے روکنے اور بحال رکھنے کے لیے قومی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہیں۔

بلندیوں پر موجود ان آبی ذخائر کو بچانے کے لیے ، درجہ حرارت کم کرنے، جنگلات اور ذرعی اراضی کی رقبے میں اضافہ کرنے، دستیاب پانی کی مؤثر نظم و نسق کی ضرورت ہیں ۔ چونکہ درجہ حرارت کو کم کرنا یا روکنا شاید بہت مشکل ہے، بلکہ فی الحال ہمارے بس میں نہیں تو باقی دونوں اقدامات پر توجہ کی ضرورت ہے۔

بلندیوں پر موجود آبی ذخائر کو بچانے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کا ایک اہم ترین طریقہ گلیشئر ز کی نشو نما اور گلیشئر اُگانے کی طریقوں کا فروغ ہے۔ جو کہ ابتدائی طور پر نہایت چھوٹے پیمانے پر ممکن ہے تاہم اگر ہر نالے میں جہاں تک ممکن ہو، چھوٹے پیمانے پر گلیشئر کو پرورش کرنے کی اقدامات کیے جائیں تو مقامی سطح پر کافی حد تک ان خطرات کاتدارک کیا جا سکتا ہے، جسے بڑے پیمانے پر پھیلایا سکتا ہے۔

گلیشئر ز یا آئس ماس کے بڑے ذخائر بنانے کے تین طریقوں پر اس وقت بلتستان یونیورسٹی کام کر رہی ہے جن کے حوصلہ افزا نتائج دیکھ کر بہت ساری کمیونٹیز کی طرف سے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں ۔تاہم ابھی تک گلاف ٹو پروجیکٹ کے تحت جو وسائل تجرباتی طور پر گلیشئرز کی پرورش کے لئے بلتستان یونیورسٹی کی حصے میں آرہی ہے، وہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ضرورت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ میں یونیورسٹی میں گلاف پروجیکٹ کےفوکل پرسن کی حیثیت سے میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق کام کرنے والے ملکی اداروں اور این جی اوز کو کھلی دعوت دیتا ہوں کہ وہ خود آکر ہمارے بنائے ہوئے آئس ٹاوز اور ایوالانچ ہارویسٹنگ منصوبوں کا مشاہدہ کریں اور ان کی اثرات کا جائزہ لے کرملکی اور بین الاقوامی اداروں کو عملی تجاویز دیں۔ مثلاً آنے والی موسم بہار کی اوائل یعنی مارچ اپریل میں آئس ٹاور والی سائٹس کا دورہ کریں اور مقامی لوگوں سے ملیں، مئی جون کے مہینے میں ایولانچ ہاروسٹنگ سائٹ دیکھیں اور وہاں موجود برفانی ذخیرے سے ان کی افادیت کا انداز ہ لگائیں۔ آئس ٹاور کے لیے میں سکردو میں قمرا ہ علی آباد نالہ اور قمراہ ہاردو نالہ ، کھرمنگ میں ژے ژے تھنگ اور گانگچھے میں ہلدی کے آئس ٹاورز تجویز کرتا ہوں جو اس وقت بڑھنے کے مراحل میں ہیں۔ اسی طرح ایولانچ ہاروسٹنگ کے لیے روندو تھوار پائین میں گولگول نالہ میں بنائے گئے ایولانچ ٹریپنگ سائٹ کا دورہ تجویز کرتا ہوں۔ ان ٹھوس آبی ذخائر کی ارد گرد کے ماحول پر اثرات ، پینے کے پانی اور ذرعی آبپاشی پر اثرات کا تفصیلی جائزہ اور مطالعہ ممکن ہے ہمیں کچھ نیا کرنے کا حوصلہ دے اور موسمیاتی تبدیلیوں کی اثرات سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہو۔

ابھی تک ہمارے کئی احباب ان سرگرمیوں کو کھیل تماشہ سمجھ رہے ہیں۔ تاہم تین سالوں کی تجربات کے بعد اب ہم خود اعتماد حاصل کر چکے ہیں کہ انشأاللہ اس سال ہمارے مذکورہ مقامات والی آبی ذخائر آب پاشی سکیل پر معاون ہو گا کم از کم موسم بہار کی پہلے دوآبپاشی کے دورانیئے میں مددگار ہوگا، جو فصلوں کو سوکھنے سے بچا سکتی ہے جس کی شکایت کئی مقامی آبادیوں نے کی ہیں۔

--
Dr. Zakir Thasang

Pure Salajeet Available in resonable price. Limited stock available.contact 03104690533
29/10/2023

Pure Salajeet Available in resonable price. Limited stock available.
contact 03104690533

Address

Lahore
Lahore
54810

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Gilgit Baltistan the land of beauty posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Gilgit Baltistan the land of beauty:

Share