Lahore Tour Guide

Lahore Tour Guide Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Lahore Tour Guide, Travel Company, 7/bagwan das building, Lahore.

Lahore Known as the city of gardens it was the city of festivals and the hub of cultural activities
Lets Enjoy the cultural and heritage tours of Lahore with our professional guides lets explore lahore with us and make your tour memorable Lahore is Pakistan,s most interesting city the cultural and intellectual center of the nations.Its faded elegance and busy streets and bazaars and wide variety of Islamic and British architecture make it is city full of atmosphere contrast and surprise.

فورٹریس سٹیڈیم لاھور  کی ایک پرانی تصویر
23/08/2024

فورٹریس سٹیڈیم لاھور کی ایک پرانی تصویر

ہم سے بہت لوگوں کو یاد ہوگی نیو خان میٹرو بس 🚌 پورے لاہور کے مختلف روٹ تھےیقینا طالب علم کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے اس...
23/08/2024

ہم سے بہت لوگوں کو یاد ہوگی

نیو خان میٹرو بس 🚌

پورے لاہور کے مختلف روٹ تھے
یقینا طالب علم کے زمانے میں بہت سے لوگوں نے اس پہ سفر کیا ہوگا دو روپے کی ٹکٹ پھر پانچ روپے کی اور پھر 12 روپے کی

لاھور جو ایک شہر تھا اب ایک ہجوم ہے لاھور کا شالیمار باغ اور کچھ پرانی یادیں والد صاحب کی زبانی شعلہ ماہ سے شالیمار باغ ...
26/03/2024

لاھور جو ایک شہر تھا اب ایک ہجوم ہے

لاھور کا شالیمار باغ اور کچھ پرانی یادیں والد صاحب کی زبانی
شعلہ ماہ سے شالیمار باغ تک کا سفر
یادش بخیر: تحریر و تصاویر عادل لاھوری

شالیمار باغ کا نام سنتے ہی میرے دماغ میں میلہ چراغاں کا خیال ا جاتا ہے لاہور کا سب سے بڑا میلہ یہاں تک کہ جب اس میلہ میں اگ لگائ جاتی تو ان کے پھبنڑوں کو اندرون شہر کی چھتوں سے باآسانی دیکھا جا سکتا تھا آسمان لال سرخ ہو جاتا تھا اور اندھی نہ آئے ایسا ہوتا ہی نہیں تھا کتنے ہی سالوں تک میلہ شالامار کے نام سے میلہ شالیمار رہا بعد اس کو مادھو لال حسین کا میلہ کہا جانے لگا اصل میلہ تو باغ کے اندر لگتا تھا لوگ کئ دنوں پہلے ہی اپنے اپنے خیمے لگا لیتے تھے کیا سیکھ کیا ہندو سبھی دھرم کے لوگ اس میلے میں شرکت کرتے تھے لاھور کے باسی اس کو خوشیوں والا میلہ بھی کہا کرتے تھے اندرون شہر سے ٹانگوں پر بھر بھر کر ٹولیاں آتی تھی کئ دنوں پہلے ہی اس میلہ کی تیاریاں شروع ہو جاتی یہ لاھور کا واحد میلہ تھا جہاں لوگ کئ دنوں پہلے ہے ڈیرے ڈال لیتے اور میلہ کے ختم ہونے کے بعد بھی اس کا زکر کئ دنوں تک رہتا یہی اس کے بعد قدموں کا میلہ آتا تھا اس کا زکر پھر کبھی ۔کھانے پینے کی عارضی دکانیں کپ سٹور سے شروع ہو کر اخری منٹ سے آگے تک جاتی تھی لاھور میں ان دنوں کوئ بھی ٹانگہ نہیں ملتا تھا
والد صاحب بتاتے ہیں کہ طفیل نیازی ، عالم لوہار اس میلہ میں دو دن پرفارم کرتے تھے اور لوگوں سے داد وصول کرتے تھے ایک ہندو گلوکار مدن بھی یہاں پرفارم کرتا تھا
لاھور میں طرح طرح کے مزیدار پکوان پکتے تھے قیام پاکستان سے قبل بھائیوں کی مٹھائی کی ہٹی انارکلی میں ہوا کرتی تھی جو اس میلہ کے موقع پر خصوصی پکوان تیار کرتے تھے اسی روایات کو آج بھی اندرون شہر چوہٹہ مفتی باقر کے صدیق حلوائی نے زنده رکھے ہوئے ہے جو ہر سال اس میلہ پر کھوئے والی کچوریاں بناتے ہیں جن کا ذائقہ لاجواب ہوتا ہے
ہمارے گھروں میں بھی اس مناسبت سے کھانے پکاتے تھے کھیر تو بہت عام تھی
اس میلہ میں کوئ گتکا پرفارم کر رہا ہے تو کوئ سازندے بجا کر اپنے فن کا مظاہرہ کر رہا ہے اجکل کی طرح چادروں کا رواج بلکل نہ تھا البتہ ڈھول کی تھاپ آپکو ہر کونے میں سنائ دیتی گجرات کے ایک جوان یہاں ہر روز تین بار اپنے فن کا مظاہرہ کرتا جس کو دنیا عالم لوہار کے نام سے جانتی ہے ملک تھیٹریکل کمپنی بھی اپنا رنگ خوب جماتی تھی اور کئ لوگ فنکاروں کو مشہور کرنے میں ان میلوں کا بہت اہم کردار تھا
لاھور کے مشہور ہوتے فنکار تیسرے دن جب رش قدرے کم ہو جاتا تو اپنے چہرے کو ڈھانپے اس میلہ میں ضرور شرکت کرتے تھے
ایک ایسا فنکار جس نے لاھور کی گلیوں میں نعت " شاہے مدینہ یثرب کے والی " پڑھ کر لوگوں کے دل جیت لیے جب سرد راتوں میں لوگ اپنے بستروں میں لیٹے ہوتے تھے تو اس کی آواز رونگٹے کھڑے کر دیتی تھی اس فنکار کا تعلق ایک میسحی خاندان سے تھا اور لوگ کس قدر فنکاروں کی قدر کرتے تھے اجکل ایسا ممکن نہیں مجھے یہ میلہ آج سے کوئ 25 سال قبل دیکھتے کا اتفاق ہوا ہے اب کے میلہ میں بہت فرق ہے اب زرا باغ کی طرف واپس آتے ہیں
اصل باغ وہ تھا جو جہانگیر بادشاہ نے کشمیر میں بنوایا تھا جس میں دن بھر فوارے بہتے تھے اور جس کی سات پرتے تھیں پھل دار درختوں کی بہتات تھی جس کی وجہ رنگ برنگ کے پرندوں نے باغ کو ایک منفرد سماع بخشا تھا آج تو آپ کو لاھور میں سبز طوطا تک نظر نہیں آتا مجھے یاد ہے کوئ 25 سال پہلے تک طوطوں کی ٹولیاں آسمان پر صبح سویرے گزرتی اور شام گئے واپس لوٹ آتی کیا خوبصورت نظارہ تھا آنکھیں ترس گئ ہیں ان ٹولیوں کو دیکھنے کے لیے
والد صاحب کے بقول اس میلہ میں سہیلیوں کی ٹولیاں بھر بھر گلی محلوں سے بے خوف آیا کرتی تھی سکھیاں گدا اور کیکلی ڈالتی تھیں لوگ داستانوں والے خوب رنگ جماتے تھے لوگ سارا سال ان کا انتظار کرتے تھے افسوس سب ختم ہو گیا
جب شاہجاں کی توجہ لاہور پر مرکوز ہوئی تو دہلی سے لاہور آنے والے مہمانوں کے استقبالئے کیلئے لاہور سے باہر ایک باغ بنانے کا ارادہ کیا تاریخ کے جھروکوں میں یہ بات زباں زدِ عام ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اس باغ کا نام کچھ اور رکھا تھا تاہم لوگوں نے اسے شالیمار باغ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ تاریخ دان بتاتے ہیں کہ شروع میں اس باغ کا نام شعلہِ ماہ تھا جس کے معنی ہیں چاند کی روشنی۔ اس باغ کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے چاند کا شعلہ کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں اس باغ کا نام شعلہِ ماہ سے بگڑ کر شالیمار باغ کے نام سے پکارا جانے لگا لیکن شاہ جہاں کے ذہن میں نقشہ کشمیر کے شالیمار باغ کا تھا۔ لیکن ادھر مسئلہ یہ تھا کہ کشمیر کا پہاڑی علاقہ فواروں کو مسلسل رواں رکھنے کیلئے کافی سازگار تھااور پانی کی بھی خوب فراوانی تھی۔لیکن لاہور میں حالات مختلف تھے انجینیرز نے یہ چیلنج قبول کرلیا اور ناممکن کو ممکن کر دکھایا ۔
جس جگہ آج شالیمار باغ موجود ہے یہ علاقہ لاہور شہر سے کوئی پانچ کلومیٹر دور باغبانپورہ کے علاقے میں آتا ہے۔باغ کیلئے جس جگہ کو پسند کیا گیا وہ ایک ارائیں فیملی کی ملکیت تھی لہذا طے یہ پایا گیا کہ اس باغ کو شاہدرہ سے پار بنوایا جائے اس وقت اس خاندان کے سربراہ محمد یوسف مانگا تھے جنہوں نے بادشاہ کے الیچی کو یہ پیغام بھیجا کہ ہماری جاگیر آپ کے باغ کے لیے وقف ہے لہذا یہ اراضی حکومت کے حوالے کردی۔جس پر بادشاہ نے ناصرف ہمیشہ کیلئے اس خاندان کو باغ کا نگران مقرر کردیا بلکہ میاں کے خطاب سے بھی نوازا ۔اور یوں اگلے ساڑھے تین سو سال تک یہ باغ میاں خاندان کی ملکیت رھا مگر ایوب خان نے 1962 میں اسے قومیا لیا۔پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبدلرشید اور پاکستان ٹائمز اور روزنامہ امروز کے مالک میاں افتخار الدین کا تعلق اسی خاندان سے تھا اور بھی بہت سے نامور لوگ اس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں
باغ کو تین ڈھلوانوں پر بنایا گیا اور ان کے الگ الگ نام رکھے گئے۔باغ کے گرد اونچی چار دیواری بنائی گئی جو مغلیہ عہد کی ہر عمارت کی پہچان رہی ہے۔410 فواروں کی تنصیب کی گئی اور سفید اور سرخ سنگ مرمر سے باغ کو سجایا گیا
یہ لاھور کا واحد ایسا باغ تھا جس میں سب سے زیادہ پھلوں کے درخت تھے والد صاحب کے بقول وہ یہاں دستوں کے ساتھ لاھور کے بہترین پھل کھانے آیا کرتے تھے ایسی مٹھاس ہوتی تھی کہ آج کے پھلوں میں وہ کہاں باغ کے لیے درختوں کے پودے قندھار اور کابل سے منگوائے گئے۔ شالیمار باغ جو 80 ایکڑ اراضی پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا سنگِ بنیاد 1637ء میں رکھا گیا اور اِس باغ کی تعمیر 1641ء میں مکمل ہوئی۔
باغ جنوب سے مشرق کی سِمت تین خطوں پر تیار کیا گیا ہے اور یہ تینوں خطے الگ الگ باغ ہیں۔
ان کے نام فرح بخش، فیض بخش اور حیات بخش ہیں (جن کے ناموں کے محلہ اس علاقے میں آج بھی اباد ہیں ) یہ ایک دوسرے سے تقریباً بارہ فٹ بلندی پر ہیں۔ نیچے اترنے کیلئے خوبصورت سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ پہلے درجے پر 105، دوسرے پر 152 اور تیسرے درجے پر 153 فوارے تعمیر کیے گئے ہیں۔
کچھ دن پہلے مجھے اس باغ کو دیکھنے کا موقع ملا تو اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا یہ تحریر لکھتے وقت مجھے صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی وہ نظم یاد آگئی جو ہمیں ہماری امی اس میلہ کے موقع پر ضرور سناتی تھیں

دہقانوں کی ٹولیاں گاتی آئی بولیاں
آؤ منائیں شوق سے میلہ شالامار کا

اس سے آگے مجھے بکل بھی یاد نہیں اب بھی بہت کچھ لکھنے کو باقی ہے مگر تحریر کافی لمبی ہو جائے گی اس لیے اگلی نشست میں
اب نہ وہ میلہ رہے نہ وہ لوگ داستانوں والے اب نہ تو لال آندھی آتی ہے اور نہ ہی آگ کے بھانبھڑ کو چھتوں سے دیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی اب ٹولیاں نظر آتی ہیں اب تو وہ میلہ رہا ہی نہیں
البتہ محمکہ آرکیالوجی کے افسران اس باغ پر بھرپور توجہ دے رہیں ہیں

اگر میری یہ چھوٹی سی کوشش پسند آئے تو حوصلہ افزائی ضرور کیجئے گا تاکہ لاھور کی خوبصورت یادوں کے سلسلے کو جاری رکھ سکوں
شکریہ
لاھور جو ایک شہر تھا اب ایک ہجوم ہے ۔

نشر مکرر ۔۔کچھ دن پہلے یہاں سے گزر ہوا کافی دیر تک اس بینک کی دیوار کو تکتا رہا پھر اس کی حالت کو دیکھ وہ دور یاد آنے لگ...
09/03/2024

نشر مکرر ۔۔
کچھ دن پہلے یہاں سے گزر ہوا کافی دیر تک اس بینک کی دیوار کو تکتا رہا پھر اس کی حالت کو دیکھ وہ دور یاد آنے لگا جب لاھور افراتفری سے پاک تھا
لاہور کا شمار برصغیر کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ لاہور کا دل اندرون شہر کے تنگ گلیوں میں رہتا ہے۔ ایک وقت تھا، جب لاہور شہر بارہ دروازوں اور ایک موری پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔
اب تو بس چند دروازے رہ گئے ہیں باقی سب قبضہ مافیا کی نظر ہو چکا ہے ۔ ہندوستان پر تاج برطانیہ کے قبضے اور اس سے پہلے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کے دور اقتدار کی بے شمار کہانیاں اندرون شہر کے تنگ گلی محلوں میں آج بھی قید ہے۔
شاہ عالمی کا علاقہ ہندؤ کے دور میں سب سے بڑا کاروباری علاقہ تصور کیا جاتا تھا یہاں پر متحدہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک باب دفن ہے۔ اس دکان کی عمارت کسی زمانے میں کمرشل بینک آف ہندوستان ہوا کرتی تھی۔ میں اس کی تاریخ بیان کرنے سے پہلے اس وقت کے مقامی حالات بیان کرنا چاہوں گا۔ اس بینک کے سامنے جو آج کی سونا مارکیٹ ہے، کسی وقت میں ہندوؤں کا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔ یہاں زیادہ دکانیں ہندوؤں کی تھی جو سونے کا کام کرتے تھے۔ اسی بناء پر اس کو صرافہ بازار بھی کہا جاتا تھا ان لوگوں کے پاس بہت وزنی لوہے کی تجوریاں ہوا کرتی تھی، جنہیں دکانوں کے اندر ہی زمین میں نصب کیا جاتا تھا۔ ان کو اٹھانا درجن سے کم انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی اور یہ شہر کی محفوظ جگہیں سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت کے ہندوؤں امانت اور دیانت میں مشہور تھے اور لوگ اپنے قیمتی سامان ان تجوریوں میں رکھواتے تھے۔ جن کی حفاظت کے لئے ماہانہ بنیادوں پر تھوڑی سی رقم وصول کی جاتی تھی۔ یوں امانت رکھوانے کا یہ کاروبار سونا مارکیٹ میں عام تھا۔ اس سلسلے میں اپنی تشہیر کے لئے باقاعدہ اشتہار بازی بھی ہوتی تھی۔ ان میں ایک مشہور کردار بلاقی شاہ کا تھا جو سود کا کاروبار کرتا تھا تقریباً لاھور کا ہر امیر بندہ کسی نہ کسی طرح اس کا مقروض تھا اور ان میں ایک بڑی ہیرا منڈی کی بائیوں کی تھی اس کی حویلی آج بھی پانی والے تالاب گمٹی بازار کے پاس ہے اس کے بارے تفصیل سے لکھوں گا
ہندو ان زیورات کو کمرشل بینک آف ہندوستان میں رکھوا کر اس پر سود کھاتے تھے جبکہ دوسری طرف ان زیورات کا اصل مالک زیور کی حفاظت کے بدلے ماہانہ بھی ادا کرتا تھا۔ جب مالک کو اپنی امانت درکار ہوتی تھی، دکاندار بینک سے واپس لے کر مالک کے سپرد کردیتا تھا۔ اسی طرح بہت سارے لوگ ان ہندوؤں کے پاس اپنی کیش رقم بھی بطور امانت رکھواتے تھے ان کے ساتھ زیورات والا معاملہ ہی کیا جاتا تھا۔ اس وقت کی سونا مارکیٹ کی پچھلی جانب ہندوؤں کے خاندان بھی آباد تھے۔

تقسیم کا اعلان ہوا اور ہر طرف فساد پھوٹ پڑے۔ مسلمانوں نے یہاں حملہ کردیا، دکانوں سے سونا لوٹ لیا گیا اور یہاں آگ لگادی گئی جس میں بہت سے ہندو زندہ جل گئے۔ موچی دروازے کے مسلمانوں نے ایک سازش کے تحت شاہ عالمی کو آگ لگا دی اور اس کے بعد لوگوں کی دکانوں میں گس کر سونا چوری کرتے رہے ان میں بڑی تعداد موچی کے اور لاھوری دروازے کے لوگوں کی تھی
کشمیری بازار کے علاقے میں قیام پاکستان کے کئی سالوں بعد وہاں کے رہائشی ملک ***** جو کہ پی پی پی کے ایک نامور کارکن بھی رہے ہیں اور میرے قریبی عزیز بھی ہیں نہ تین مکان خریدے کئ سالوں بعد جب یہ علاقے کمرشل ہو گئے تو انہوں نے اس کو گرا کر پلازہ بنانے کا سوچا جب ان مکانات کی کھدائی کی گئی تو ان میں سے ایک مکان کی تہہ خانے سے ایک سونے کی تجوری نکلی جس کی خوشی میں پورے مہینے بہترین روٹی کا جشن چلتا رہا چونکہ یہ مکان ہندؤ سونےکے تاجروں کے تھے لہذا اس صورتحال کو دیکھ کے بہت سے اور لوگوں نے لالچ میں آکر اپنے مکانات تورنے شروع کر دیے مگر بے سود رہا ۔۔
کچھ خاندانوں کو میں بہت اچھے سے جانتا ہوں جنہوں نے اندرون کے ان پرانے خوبصورت مکانات سے بہت فائدہ اٹھایا
کمرشل بینک آف ہندوستان 1805میں گوبند رام بلڈنگ میں قائم کیا گیا تھا۔ گوبند رام اسی عمارت کے گروانڈ فلور پر دکان کرتا تھا۔ یہ کاروباری طور پر اچاڑ، چٹنی اور شربت فروخت کیا کرتا تھا اور اپنی اسی مصنوعات کی بناء پر علاقے میں کافی مشہور تھا اور علاقے کا بہت امیر اور قابل عزت فرد سمجھا تھا۔ تقسیم ہندوستان کے وقت باقی علاقوں کی طرح یہاں کے لوگ بھی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ گوبندرام نے اپنا قیمتی سامان اور مال و دولت اسی بلڈنگ کے بیسمنٹ میں دفن کیا اور خود اپنے خاندان کو لے کر ہندوستان چلا گیا۔ حالات ٹھیک ہونے پر گوبندرام ہندوستانی اور پاکستانی افوا ج کے ذمہ داران کو لے کر واپس آیا اور یہاں دفن رقم نکال لی۔ ایک کہان چند بلڈنگ اب بھی مال روڈ انارکی کے باہر موجود ہے جس میں کبھی ایک ریستوران کرو ایٹڑز ہوا کرتا تھا ۔
اب ہم بینک کی طرف واپس آتے ہے، کمرشل بینک آف ہندوستان نے 1805 میں اپنی پانچ شاخیں کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جس میں سے پہلی برانچ امرتسر میں کھولی گئی تھی۔ جبکہ بنگال میں 1809 میں اس بینک کی ایک برانچ کھولی گئی۔ لاہور میں دو برانچیں کھولی جانی تھی جس میں سے ایک برانچ رنگ محل میں کھولی گئی تھی جبکہ دوسرے برانچ نیلے گنبد میں کھولی جانی تھی جو کہ نہ کھول سکی ۔۔
لاھور کی ہر گلی کسی نہ کسی داستان سے بھری پڑی ہے مگر اب داستان گو کم رہ گئے ہیں اور شاید سننے والے بھی ۔۔۔
صرافہ بازار کے لوگوں کے بارے میں ایک بات بہت مشہور ہے
کہ سونے کی خریدوفروخت میں انکے رویہ بالکل بدل جاتے ہیں
دیندیا گلاں لال
لیندیا اکھاں لال
تحریر اور تصویر عادل لاھوری
حوصلہ افزائی ضرور کریں تاکہ یہ سلسلہ جاری رکھ سکوں

07/09/2022

Lahore is famous for its spices and traditional food paye kulchy and channy are most popular breakfasts of Lahore this is early morning setup video mostly they use black peeper and tumeric...

Offering the best guided tours of Wagha Border in private car enjoy this memorable tour with  The best tour company of L...
28/07/2022

Offering the best guided tours of Wagha Border in private car enjoy this memorable tour with
The best tour company of Lahore

Let's join our weekly customized guided tours of old Lahore  organized by   The best tour company of Lahore             ...
28/07/2022

Let's join our weekly customized guided tours of old Lahore organized by
The best tour company of Lahore

Guest enjoying the Walled City tour of Lahore organized by   The best tour company of Lahore
28/05/2022

Guest enjoying the Walled City tour of Lahore organized by
The best tour company of Lahore

محسن لاہور۔۔۔۔آج گنگا رام کا جنم دن ہے۔ وہ جدید لاہور کے معمار تھے جنھیں ہم شاید یاد نہیں رکھنا چاہتے۔دیال سنگھ مجیٹھیا ...
13/04/2022

محسن لاہور۔۔۔۔
آج گنگا رام کا جنم دن ہے۔ وہ جدید لاہور کے معمار تھے جنھیں ہم شاید یاد نہیں رکھنا چاہتے۔
دیال سنگھ مجیٹھیا اور رائے بہادر گنگا رام جدید لاہور کی دو ممتاز غیر مسلم شخصیات تھیں۔ آج لاہور میں دیال سنگھ کالج، دیال سنگھ لائبریری، دیال سنگھ مینشن اور گنگا رام ہسپتال ان دونوں کی یاد دلاتا ہے۔1851میں شیخوپورہ کے علاقے مانگٹانوالہ میں پیدا ہونے والے گنگا رام ماہر تعمیرات ،سول انجینئیر اور سیوا کار تھے۔لاہور میں موجود بہت سی عمارتوں کے ڈیزائن گنگا رام ہی نے بنائے تھے جن میں جی پی او، لاہور میوزیم، این سی اے، میوہسپتال لا البرٹ وکٹر وارڈ،کنگا رام ہسپتال، ایجی سن کالج اور لاہور کالج برائے خواتین بھی شامل ہیں۔ لائلپور کانقشہ انہوں نے ہی یونین جیک پر آٹھ بازار بناکرتیارکیا۔ جڑانوالہ کے قریب ان کا گاوں گنگاپور ہے جس کامرکزی چوک آٹھ بازاروں پر مشتمل ہے ۔یہیں انہوں نے گھوڑا ٹرین متعارف کروائی انگریز سرکار نے انہیں بہت سے خطابات دئیے۔ دس جولائی 1927 کو وہ وفات پا گئے توان کی راکھ کو لندن سے لا کر راوی میں بھی بہایا گیا۔۔
لاھور ہمیشہ آپکا مقروض رہے گا

Address

7/bagwan Das Building
Lahore
54000

Opening Hours

Monday 08:00 - 20:00
Tuesday 08:00 - 20:00
Wednesday 08:00 - 20:00
Thursday 08:00 - 20:00
Friday 08:00 - 20:00
Saturday 08:00 - 20:00
Sunday 08:00 - 20:00

Telephone

0322-8833561

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Lahore Tour Guide posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Lahore Tour Guide:

Videos

Share

Category

Nearby travel agencies


Other Travel Companies in Lahore

Show All