01/05/2024
مزدور ڈے اور میرے خام خیالات،
آج کا دن مزدور کا درد محسوس کرنے کا دن ہوتا ہے !
تاریخِِ انسانی کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ مزدور طبقہ ہمیشہ سے ہی پسا رہا ہے۔ بہت سے حکومتوں، سلطنتوں، شہنشاہوں نے اس کرہ ارض پہ حکومت کی مگر مزدور مزدور ہی رہا۔ ہاں وہ بات الگ ہے کہ آپ اپنے خاص نظریہ کے پجاری ہیں تو آپ اپنے نظریہ کو سچا اور مسائل کا حل کا دیوتا پیش کرتے ہوئے تاویلیں کرنا شروع کر دیں کہ دیکھیں ہمارے سنہری دور میں مزدور کی حالت بہتر ہوئی مگر اگر بغور تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض سطحی دعویٰ کے سوا کچھ نہیں !
مذہب کے علاوہ فلسفہ ایسا میدان ہے جس نے انسانی مسائل کے حل پہ غور و خوض کیا۔ تاریخ میں اگر دیکھا جائے تو مزدوروں کا کوئی نمائندہ فلسفی نہیں تھا۔ سوائے اک نام کے ! جسے دنیا کارل مارکس کے نام سے جانتی ہے ! اور ایسا جانتی ہے کہ جس کے فلسفہ کے رد میں جتنا لکھا جاتا ہے اتنا اس کا فلسفہ مقبول عام ہوتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کی تعبیر میں کئی نا کامیاں درج ہیں۔ مگر یہ واحد فلسفی تھا جس نے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے تجزیہ پیش کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام مزدور کی محنت کے بل بوتے پر پل رہا ہے۔ اور ایسا نظام جو غریب کے خون کو تو چوس لے مگر اسے بدلے میں دووقت کی روٹی میسر نہ ہو تو ایسا نظام ظلم ہے ! لہذا اسی کے فلسفیانہ بنیادوں پر انقلاب روس ہوا، اگرچہ وہ بظاھر ناکام رہا جس کی اپنی الگ توجیہات ہیں مگر یہ فلسفہ آج بھی زباں زدعام ہے اور اس کے اثر کو شاید رہتی دنیا تک زائل نہ کیا جا سکے۔ اشتراکی نظریات کو روکنے کیلئے کولڈ وار رہی جس میں اگرچہ امریکہ سرخرو رہا مگر مارکسی نظریات آج بھی مقبول ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں چین کی ترقی کافی حد تک مارکسی نظریات کی بدولت ہے۔ مارکسی اشتراکیت نظریات اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ہنوز جاری ہے جو ابد تک جاری رہے گی !
آج کے سرمایہ دارانہ نظام نے مزدور طبقہ کی حالت زندگی مزید ابتر بنا دی ہے جس میں مزدور کے دن تو نہیں بدلتے مگر سرمایہ دار کی تجوری دن دگنی رات چوگنی ترقی کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مزدور کیا ایک عام سفید پوش آدمی بھی یہ شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ امیر اور غریب کا فرق گھنٹے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ تو ایسے میں مزدور کی زندگی کیا خاک بدلے گی !
اگر مزدور کے ایسے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کچھ نمایاں وجوہات درج ذیل ہیں۔ پہلی بنیادی وجہ ہمارے ہاں کا ناقص سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے جس میں پیسے والا اپنے پیسے سے مزید پیسے بناتا جاتا ہے۔ جبکہ غریب کو یہ نظام جگہ نہیں دیتا کہ وہ بھی اپنے حالات بدل سکے۔ دوسرا یہ کہ ہماری حکومتیں بھی ایسے نظام کو بدلنے کی بجائے ایسی پالیسیاں لاتی ہے جس سے یہ فرق کم ہونے کی بجائے بڑھتا جاتا ہے۔ حالانکہ حکومت کا بنیادی کام اس فرق کو مٹانا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے ہاں مزدور طبقہ اپنے حالات کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کے کچھ کوشش نہیں کرتا۔ نہ کبھی اپنے ساتھ ہونے والی بدترین نا انصافی کو چیلنج کرتا ہے بلکہ راضی بارضا ہو کے سب کچھ قبول کر کے بیٹھا ہوا ہے اور اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش تک نہیں کرتا۔
یقین کریں جو گوشت پوست کا جسم آپ کا ہے وہی مزدور کا بھی ہے۔ جو آپ کا دل خواہشات سے لبریز ہے وہی مزدور کا بھی دل کرتا ہے۔ وہ بھی اچھا مکان، گھر، گاڑی، عزت چاہتا ہے۔ اس کا دل بھی وہی ہے جو آپ کا ہے۔ لہذا اپنے اندر انسانی درد کو فیل کریں اور مزدور کو انسانیت کے لیول پہ آ کر سمجھیں گے تو بات شروع ہو گی۔ بدقسمتی سے ہم ان کو انسان بھی نہیں سمجھتے جو ہمارے وجود کا بھیانک ترین پہلو ہے۔
یاد رکھیں کہ مسائل ہمیشہ سے رہے ہیں اور رہیں گے، مگر ان کے حل کیلئے بنیادی کوشش ہم انسانوں نے ہی کرنی ہے۔ لہذا سارے کام حکومت پہ نہ ڈالیں، حکومت بھی عوام کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ہم سب کو مزدوروں کی ہر طرح سے ہیلپ کرنی ہو گی۔ کسی کا بچہ یا بچی سکول نہیں جا سکتا تو اس کے سکول کی ذمہداری لے لیں۔ کسی مزدور کو روزگار بنا دیں۔ مزدوری پوری کی بجائے اضافی دے دیں، آپ کو فرق نہیں پڑے گا مگر اس کے کئی دن کا راشن مل جائے گا۔ کسی کی جوان بچی ہو تو بیاہ دیں۔ مکان رہائش کا مسئلہ ہو تو حل کروا دیں۔ کوئی بااثر فرد مزدور کو تنگ کرے تو مزدور کا ساتھ دیں نہ کہ با اَثر فرد کا۔
اہم نکتہ،
میرے دوست !
یہ دنیا، اس کا مال، جاہ و جلال سب فانی ہے، باقی بچے گا وہی جو آپ کی اچھی سوچ، اچھی شخصیت سے ہونے والے اچھے کام ہوں گے !
با زبان شاعر،
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو،
ورنہ اطاعت کیلئے کم نہ تھے کرو بیاں۔
نوٹ:
(یہ کوئی باقاعدہ کالم یا تحریر نہیں، بس جو خیالات آتے گئے لکھتا گیا۔ بہت سی زبان دانی، لفاظی و نظریاتی غلطیوں کے ساتھ قبول کیجئے گا۔۔ اور آپ کی قیمتی ناقدانہ رائے کا منتظر ہوں۔ شکریہ)
اجمل رانجھا۔
یکم مئی 2024