Ajmal Ranjha Official

Ajmal Ranjha Official یہ پیج اپنے خیالات کے اظہار، سماجی، سیاسی و معاشرتی مسائل پر مستند محققانہ رائے دینے کیلئے بنایا ہے۔

14/05/2024

ہمیں میڈیا کو مضبوط کرنا ہو گا۔ جان لیں کہ میڈیا کی مضبوطی میں ہی عام عوام کی مضبوطی ہوتی ہے۔ حکمران کبھی نہیں چاہے گا کہ میڈیا آزاد و مضبوط ہو اور ان کے غلط فیصلوں و پالیسیوں پہ تنقید کرے !

آئیے ! تعلیم، تحقیق، اپنے مشاہدات، تنقیدی تجزیاتی انداز فکر سے اس مرض سے شفا پائیں اور اپنی نسلیں سنواریں !
13/05/2024

آئیے !
تعلیم، تحقیق، اپنے مشاہدات، تنقیدی تجزیاتی انداز فکر سے اس مرض سے شفا پائیں اور اپنی نسلیں سنواریں !

13/05/2024

اپنی سوچ کی چابی اپنے سوا کسی کو نہ دیں، ورنہ وہ آپ کی سوچ کا کنٹرول سنبھال لے گا۔ وہ چابی گھمائے گا تو آپ وہی سوچیں گے جو وہ چاہے گا !

12/05/2024

شعور کا شعلہ چمکاتے رہو، دوستو !
وہ دن ہم یا ہماری نسلیں ضرور دیکھیں گی جب ہمارے ہاں بھی انسانیت، برداشت، مساوات علم کا راج ہو گا۔

11/05/2024

ہم جو بھی بات سنیں پڑھیں، اسے دماغ میں رکھ کر اپنے علم، مشاہدہ ، تجربہ کی مدد سے اس کے بارے خوب سوچیں، پھر اپنی رائے قائم کریں۔ سنی سنائی رائے کو مان لینا اپنی عقلی معذوری کی علامت ہے !

10/05/2024

2 منٹ کی بات کو سنانے کیلئے 30 منٹ کی ویڈیو بنا دینے کا کرشماتی فن اگر کوئی سیکھنا چاہے تو محترم قاسم علی شاہ صاحب سے رابطہ کر لے۔ موصوف آن لائن فراڈ ہیں۔ ان سے دوری میں ہی بہتری ہے !

09/05/2024

9 مئی سانحہ کی مذمّت !
کتنی حقیقت کتنا افسانہ !
شاید ہماری باقی ماندہ تاریخ کی طرح اس کے حقائق کبھی سامنے نہ آ پائیں۔ !
سال گزر گیا مگر معاملہ جوں کا توں !
دعا گو ہوں اللّہ کریم وطن عزیز کی حفاظت فرمائے آمین

نئی آمد۔۔۔!مجھے اپنی کتابیں بچوں کی طرح عزیز ہیں۔۔۔ نئی کتاب لینے پہ جو خوشی تسکین ملتی ہے وہ اب کسی دوسری شے پہ نہیں آت...
08/05/2024

نئی آمد۔۔۔!
مجھے اپنی کتابیں بچوں کی طرح عزیز ہیں۔۔۔ نئی کتاب لینے پہ جو خوشی تسکین ملتی ہے وہ اب کسی دوسری شے پہ نہیں آتی۔۔۔کتاب میرے لئے سب سے قیمتی تحفہ ہے اگر آپ دینا چاہیں تو۔۔۔شکریہ💓

01/05/2024

مزدور ڈے اور میرے خام خیالات،
آج کا دن مزدور کا درد محسوس کرنے کا دن ہوتا ہے !

تاریخِِ انسانی کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ مزدور طبقہ ہمیشہ سے ہی پسا رہا ہے۔ بہت سے حکومتوں، سلطنتوں، شہنشاہوں نے اس کرہ ارض پہ حکومت کی مگر مزدور مزدور ہی رہا۔ ہاں وہ بات الگ ہے کہ آپ اپنے خاص نظریہ کے پجاری ہیں تو آپ اپنے نظریہ کو سچا اور مسائل کا حل کا دیوتا پیش کرتے ہوئے تاویلیں کرنا شروع کر دیں کہ دیکھیں ہمارے سنہری دور میں مزدور کی حالت بہتر ہوئی مگر اگر بغور تنقیدی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض سطحی دعویٰ کے سوا کچھ نہیں !

مذہب کے علاوہ فلسفہ ایسا میدان ہے جس نے انسانی مسائل کے حل پہ غور و خوض کیا۔ تاریخ میں اگر دیکھا جائے تو مزدوروں کا کوئی نمائندہ فلسفی نہیں تھا۔ سوائے اک نام کے ! جسے دنیا کارل مارکس کے نام سے جانتی ہے ! اور ایسا جانتی ہے کہ جس کے فلسفہ کے رد میں جتنا لکھا جاتا ہے اتنا اس کا فلسفہ مقبول عام ہوتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کی تعبیر میں کئی نا کامیاں درج ہیں۔ مگر یہ واحد فلسفی تھا جس نے تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے تجزیہ پیش کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام مزدور کی محنت کے بل بوتے پر پل رہا ہے۔ اور ایسا نظام جو غریب کے خون کو تو چوس لے مگر اسے بدلے میں دووقت کی روٹی میسر نہ ہو تو ایسا نظام ظلم ہے ! لہذا اسی کے فلسفیانہ بنیادوں پر انقلاب روس ہوا، اگرچہ وہ بظاھر ناکام رہا جس کی اپنی الگ توجیہات ہیں مگر یہ فلسفہ آج بھی زباں زدعام ہے اور اس کے اثر کو شاید رہتی دنیا تک زائل نہ کیا جا سکے۔ اشتراکی نظریات کو روکنے کیلئے کولڈ وار رہی جس میں اگرچہ امریکہ سرخرو رہا مگر مارکسی نظریات آج بھی مقبول ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں چین کی ترقی کافی حد تک مارکسی نظریات کی بدولت ہے۔ مارکسی اشتراکیت نظریات اور سرمایہ دارانہ نظام کی جنگ ہنوز جاری ہے جو ابد تک جاری رہے گی !

آج کے سرمایہ دارانہ نظام نے مزدور طبقہ کی حالت زندگی مزید ابتر بنا دی ہے جس میں مزدور کے دن تو نہیں بدلتے مگر سرمایہ دار کی تجوری دن دگنی رات چوگنی ترقی کر جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج مزدور کیا ایک عام سفید پوش آدمی بھی یہ شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ امیر اور غریب کا فرق گھنٹے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ تو ایسے میں مزدور کی زندگی کیا خاک بدلے گی !

اگر مزدور کے ایسے حالات کا جائزہ لیا جائے تو کچھ نمایاں وجوہات درج ذیل ہیں۔ پہلی بنیادی وجہ ہمارے ہاں کا ناقص سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے جس میں پیسے والا اپنے پیسے سے مزید پیسے بناتا جاتا ہے۔ جبکہ غریب کو یہ نظام جگہ نہیں دیتا کہ وہ بھی اپنے حالات بدل سکے۔ دوسرا یہ کہ ہماری حکومتیں بھی ایسے نظام کو بدلنے کی بجائے ایسی پالیسیاں لاتی ہے جس سے یہ فرق کم ہونے کی بجائے بڑھتا جاتا ہے۔ حالانکہ حکومت کا بنیادی کام اس فرق کو مٹانا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے ہاں مزدور طبقہ اپنے حالات کو اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کے کچھ کوشش نہیں کرتا۔ نہ کبھی اپنے ساتھ ہونے والی بدترین نا انصافی کو چیلنج کرتا ہے بلکہ راضی بارضا ہو کے سب کچھ قبول کر کے بیٹھا ہوا ہے اور اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش تک نہیں کرتا۔

یقین کریں جو گوشت پوست کا جسم آپ کا ہے وہی مزدور کا بھی ہے۔ جو آپ کا دل خواہشات سے لبریز ہے وہی مزدور کا بھی دل کرتا ہے۔ وہ بھی اچھا مکان، گھر، گاڑی، عزت چاہتا ہے۔ اس کا دل بھی وہی ہے جو آپ کا ہے۔ لہذا اپنے اندر انسانی درد کو فیل کریں اور مزدور کو انسانیت کے لیول پہ آ کر سمجھیں گے تو بات شروع ہو گی۔ بدقسمتی سے ہم ان کو انسان بھی نہیں سمجھتے جو ہمارے وجود کا بھیانک ترین پہلو ہے۔

یاد رکھیں کہ مسائل ہمیشہ سے رہے ہیں اور رہیں گے، مگر ان کے حل کیلئے بنیادی کوشش ہم انسانوں نے ہی کرنی ہے۔ لہذا سارے کام حکومت پہ نہ ڈالیں، حکومت بھی عوام کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ہم سب کو مزدوروں کی ہر طرح سے ہیلپ کرنی ہو گی۔ کسی کا بچہ یا بچی سکول نہیں جا سکتا تو اس کے سکول کی ذمہداری لے لیں۔ کسی مزدور کو روزگار بنا دیں۔ مزدوری پوری کی بجائے اضافی دے دیں، آپ کو فرق نہیں پڑے گا مگر اس کے کئی دن کا راشن مل جائے گا۔ کسی کی جوان بچی ہو تو بیاہ دیں۔ مکان رہائش کا مسئلہ ہو تو حل کروا دیں۔ کوئی بااثر فرد مزدور کو تنگ کرے تو مزدور کا ساتھ دیں نہ کہ با اَثر فرد کا۔
اہم نکتہ،
میرے دوست !
یہ دنیا، اس کا مال، جاہ و جلال سب فانی ہے، باقی بچے گا وہی جو آپ کی اچھی سوچ، اچھی شخصیت سے ہونے والے اچھے کام ہوں گے !
با زبان شاعر،
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو،
ورنہ اطاعت کیلئے کم نہ تھے کرو بیاں۔
نوٹ:
(یہ کوئی باقاعدہ کالم یا تحریر نہیں، بس جو خیالات آتے گئے لکھتا گیا۔ بہت سی زبان دانی، لفاظی و نظریاتی غلطیوں کے ساتھ قبول کیجئے گا۔۔ اور آپ کی قیمتی ناقدانہ رائے کا منتظر ہوں۔ شکریہ)
اجمل رانجھا۔
یکم مئی 2024

01/05/2024

آج مزدور ڈے ہے۔ ستم دیکھئے وہ آج بھی دیہاڑی پہ ہے، جس کی بدولت ہم چھٹی پہ ہیں۔ کیا ظلم کا نظام ہے۔ میرا دیوانہ سا خواب ہے کہ کاش وہ دن آئے، جب مزدور کی زندگی میں بھی خوشحالی ہو۔

آہ !جو شادی کے انتظار میں اپنی زندگی کے قیمتی ترین ابتدائی 35 بہاریں گزار چکے ہیں اب ان کے پاس باقی بچا ہی کیا ہے لائف م...
29/04/2024

آہ !
جو شادی کے انتظار میں اپنی زندگی کے قیمتی ترین ابتدائی 35 بہاریں گزار چکے ہیں اب ان کے پاس باقی بچا ہی کیا ہے لائف میں ؟ اتنی بڑی زیادتی کا ذمہ دار کون ؟
میرے مطابق سب سے زیادہ معاشرہ ذمہدار ہے جس کی فضول، غیر انسانی، فرسودہ رسموں کے بوجھ نے نکاح جیسے آسان کام کو مشکل ترین بنا دیا ہے۔ ہمیں ان فرسودہ رسومات کا اب مکمل خاتمہ کرنا ہو گا۔
ہماری سماجی اقدار بھی اک بڑی رکاوٹ ہیں یعنی ہمارے ہاں دوسری شادی کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جس میں مرد وعورت دونوں ذمہ دار ہیں۔ جس سے بہت سی خواتین کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بہت سے غیر اسلامی و غیر اخلاقی جرائم انڈر گراؤنڈ ظہور پذیر ہو کر معاشرتی بگاڑ کی وجہ بنتی ہیں اور معاشرہ گرتا ہی چلا جاتا ہے۔ صاحب حثیت مردوں کو دوسری شادی لازمی کرنی چاہیے اور عورت کو اسے قبول کرنا چاہیے۔
دوسرا والدین ذمہ دار ہیں جن کو شعور نہیں ہوتا اور وہ اپنی نام نہاد نک بنانے کے چکر میں اپنی اولاد کی جوانی گال رہے ہیں۔ والدین کو سمجھنا ہو گا کہ اصل کام نکاح ہے، وہ وقت پہ کرنا لازم ہے، لہذا اپنی اولاد کو اعتماد دیں اور سادگی سے شادی کر دیں۔
کسی حد تک خود اولاد بھی ذمہ دار ہے جو خود اپنے کرئیر کو سیٹ کرنے کے چکر میں اپنی جوانی کو ضائع کر بیٹھتے ہیں پہلے ان کو جوانی، حسن کے خمار میں کوئی رشتہ پسند نہیں آتا، اور اچھے اچھے رشتے ٹھکرا دیتے ہیں مگر بعد میں ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں جب کوئی ان کو منہ نہیں لگاتا۔ لہذا اولاد شادی میں لیٹ نہ کرے اور خوب جوانی میں یعنی 22 سے 25 کے بیچ شادی لازمی کر لیں۔
لہذا آئیں سب مل کر اپنے معاشرے میں موجود غلط، فرسودہ، بیکار رسموں کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے اپنے گھروں میں اس کے خاتمہ کیلئے کردار ادا کریں۔ کیونکہ سماج انسانوں سے بنتا ہے اور ہم نے انسانوں کی سوچ بدل دی تو سماج خود بدل جائے گا۔ شکریہ ❤️
اجمل رانجھا آفیشل

28/04/2024

السلام وعلیکم،
ہر انسان فطرتاً چاہتا ہے کہ جو کچھ وہ سوچتا سمجھتا ہے اس کا اظہار کرے۔ اس کیلئے وہ مختلف دستیاب فورمز استعمال کرتا ہے۔ ابتدائی زمانے میں لوگ آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کرتے، پھر کتابوں کا دور آیا۔ دور جدید میں ویڈیو ، ٹی وی کا زمانہ بھی ہم نے دیکھا۔ اب انٹرنیٹ کا دور ہے۔ اب آپ سوشل میڈیا سے اپنے گھر بیٹھے ساری دنیا سے مخاطب ہو سکتے ہیں۔ اچھا پیغام دے سکتے ہیں۔ لہذا میں نے بھی اپنے خیالات کے اظہار کیلئے Youtube چینل اور Facebook پہ اپنا پیج بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس پہ میں اپنی دلچسپی کے موضوعات پہ اظہار خیال کروں گا۔ اور ساتھ میں سیاحتی وی لاگ اپلوڈ کروں گا۔ آپ احباب سے درخواست ہے کہ اک بار میرا چینل اور پیج وزٹ کریں، اگر آپ کو میرا کام پسند آئے تو حوصلہ افزائی کر دیجئے گا۔ بہت شکریہ
اجمل رانجھا،
نین رانجھا (منڈی بہاؤ الدین)۔
YouTube Channel Name:
Ajmal Ranjha Official
Link:
https://youtube.com/?si=Amivx1wgaV-HJLCz
page Name:
Ajmal Ranjha Official
Link:
https://www.facebook.com/profile.php?id=61559172262014&mibextid=ZbWKwL
Thank You 💖

27/04/2024

ہر انسان اپنے خیالات کا اظہار چاہتا ہے۔ جس کیلئے مختلف فورمز استعمال کرتا ہے۔ دور جدید میں سوشل میڈیا انتہائی سستا، موثر اور آسانی سے دستیاب فورم ہے، یہ پیج اپنے خیالات کے اظہار کے لئے بنایا ہے۔

27/04/2024

WELCOME 🤗
To
My FaceBook Page
Ajmal Ranjha Official

Address

Nain Ranjha
Mandi Bahauddin

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ajmal Ranjha Official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ajmal Ranjha Official:

Share

Category


Other Tour Guides in Mandi Bahauddin

Show All