اس دن میں عصر کے وقت ندی کنارے چہل قدمی کر رہا تھا۔ موسم خوش گوار تھا۔ بہت سے اقسام کے پرندے چہک رہے تھے۔ جھینگر اور ندی کی آواز میں ایک سکون تھا۔ اچانک مجھے ان پرندوں کا ایک غول نظر آیا جو دھان کی کھیتوں سے دانا چک رہے تھے۔ یہ بہت خوبصورت منظر تھا۔ ندی کنارے دھان کے کھیت گھنے درختوں کے آس پاس پرندوں کا یہ غول۔ پرندوں کا یہ غول Scaly-breasted munia سکیلی بریسٹڈ مونیا کا تھا۔ اب ہمارے قصبے میں جگہ جگہ بغیر پلاننگ نئے گھر بن رہے ہیں۔ جنگلات کٹ رہے ہیں۔ پرندوں کے لیے ساز گار قدرتی ماحول ختم ہورہا ہے۔ فطرت کا مطالع کریں، فطرت سے محبّت کریں، فطرت کے قریب ترین رہیں، یہ آپ کو کبھی بھی ناکام نہیں ہونے دے گا۔ لیکن
انسان دوسرے انسان سے لڑتا ہے، خود سے لڑتا ہے، سماج سے لڑتا ہے اور یہ تینوں لڑائیاں جیت جاتا ہے۔ فطرت سے نہیں جیت پاتا۔ جہاں ایسی کوشش کرتا ہے، وہاں ماحول کو متاثر کردیتا ہے۔ جواب میں فطرت سخت سزا دیتی ہے۔ ہمارا تعلق سزا یافتہ نسل سے ہے۔
زندہ دلی ایک ایسی خصوصیت ہے جو زندگی کو رنگین اور معنی خیز بناتی ہے۔ یہ ایک ایسی توانائی ہے جو انسان کو مشکلات کا سامنا کرنے، نئی راہیں تلاش کرنے اور زندگی کے چیلنجز کو قبول کرنے کی قوت دیتی ہے۔ زندہ دل لوگ زندگی کے چھوٹے چھوٹے لمحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ہر مشکل میں نئی راہیں ڈھونڈ نکالتے ہیں اور زندگی کو مثبت انداز میں گزارتے ہیں۔ زندہ دلی انسان کو ہمیشہ پُرسکون اور مطمئن رکھتی ہے۔
بٹل مانسہرہ کی طرف سے تمام دوست و احباب کو عید الضحی مبارک۔۔ اللّه آپ سب کو خوش و خرم رکھے۔
آج قصبے میں دن تین سے لے کر مغرب تک وقفے وقفے تک بارش برس رہی تھی۔ تین بجے تیز ہواؤں کے ساتھ بہت تیز بارش برسی۔ میں چھتری لے کر ندی کی طرف نکلا کہ دیکھ لو ندی میں کتنی طغیانی آئ ہے۔ ندی میں شدید طغیانی تھی۔ بجلی چمک رہی تھی۔ بادل کڑک رہے تھے۔ ایک چرواہے کو میں نے دیکھا جو اپنی بھیڑوں کو گھنے درختوں کے نیچے جمع کیے ہوۓ تھا کہ بارش رکے اور وہ گھر کی راہ لے۔ جب بارش رکی تو میں نے ایک جگہ اس پرندے کو دیکھا جو ایک ٹہنی پر بیٹھا چہک رہا تھا۔ یہ پرندہ Long Tail Shrike تھا۔ میں کچھ دیر اس خوبصورت پرندے کو دیکھتا رہا اور پھر یہ منظر اپنے کیمرے کی آنکھ سے قید کر لیا۔ میں غریب آدمی ہوں۔ مجھے ایک سرسبز وسیع و عریض وادی چاہیے۔ جس میں قسم قسم کے پرندے ہوں۔ چنار، کیکر، چیڑ، صنوبر، دیودار کے بلند و بالا درخت ہوں۔ کچھ معصوم جانور ہوں۔ ایک ندی ہو جس کے کنارے میرا پھولوں کا باغ ہو۔ اس باغ کے کنارے میری سرکھنڈوں کی ایک جونپڑی ہو۔ غریب آدمی فطرت کے قریب رہے تو اسے غربت محسوس نہیں ہوتی میں امیر آدمی ہوں۔
ہزارہ بھر میں مویشیوں کیلئے گھاس کٹائی ’’حشر‘‘ کا سیزن شروع ہو گیا
ہزارہ بھر میں مویشیوں کیلئے گھاس کٹائی کا سیزن شروع ہو گیا، اس سیزن میں مقامی ثقافت کے مطابق تمام کسان اکٹھے ہو کر باری باری ہر ایک کی گھاس کو مل کر کاٹتے ہیں، ڈھولک کی تھاپ پر جھومتے نوجوان انتہائی چابک دستی سے یہ کام سرانجام دیتے ہیں جبکہ گھاس کی کٹائی میں حصہ لینے والے کسانوں کی دیسی کھانوں اور گھی سے تواضع کی جاتی ہے۔ صدیوں سے جاری اس مقبول رسم کو مقامی زبان میں ’’حشر‘‘ کہا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ہزارہ میں شدید سردی اور برف باری کے دوران موشیوں کے چارے کی قلت پیدا ہو جاتی ہے، اس تکلیف سے بچنے کیلئے دیہی علاقوں کے عوام صدیوں سے اجتماعی طور پر گھاس کاٹ کر اکٹھا کرنے کا کام ایک رسم یا تقریب کی صورت میں کرتے ہیں۔ یہ حشر بپا کرنے کے لئے قریبی دیہاتوں میں اعلانات کروا کر لوگوں کو اکٹھا کیا جاتا ہے اور درجنوں افراد صبح سویرے ڈھول اور شہنائی کی تھاپ پر گھاس کٹائی شروع کرتے ہیں جو شام تک جاری رہتی ہے۔ جس کسان کی حشر ہوتی ہے دوپہر کو اُس کی طرف سے گھاس کاٹنے والوں کیلئے انواع و اقسام کے کھانوں میں دیسی گھی کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے جسے کام کرنے والے نہ صرف رغبت سے کھاتے بلکہ کئی تو مزے لے کر پی بھی جاتے ہیں۔ آج کل جس حاشر میں ڈوم (ڈھولک وال
کہتے ہیں کہ كسان جدید انسانی تہذیب کے بانی ہیں لکین ان کا شمار آج بھی سماج گرے پڑے طبقے میں ہوتا ہے
گندم کی کٹائی کا آغاز ہوچکا ہے۔
#battal_mansehra
بٹل مانسہرہ میں گندم کی کٹائی کا موسم آنے والا ہے۔
چاول کی کاشت کے لیے کھیت تیار کرنے کا وقت ہو گیا ہے