05/06/2022
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھوڑے کی نسل کی پاکستان میں بریڈنگ کرائی جا رھی ھے
Safar gardi by khuram is a personal blog for tourists and viewers
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے گھوڑے کی نسل کی پاکستان میں بریڈنگ کرائی جا رھی ھے
نییچے پڑا ھوا پاکستانی سیاسی نظام
اور بھاگتے دوڑتے طاقتور بچے اپنی مرضی سے اکھاڑ پچھاڑ کرتے ھوئے
اردو ادب و تلفظ کی شہرہ آفاق شخصیت
اچھا بھلا اپوزیشن میں انجوائے چل رھا تھا گورنمنٹ لینے کے بعد سمجھ ھی نہیں آ رھی
عقلمند مرغا
ایسے راستے جہاں رینج روور بھی نہیں جا سکتی۔ رائے کوٹ برج سے فیری میڈوز بھی صرف یہی گاڑیاں جا سکتی ھیں اور ان گاڑیوں میں ھینڈ بریک بھی نہیں ھوتی
غار حرا جانے والوں کو چاھیے کہ مقدس جگہ پر پلاسٹک کی بوتلیں واپسی پر ساتھ اٹھا لائیں بجائے وھاں گرانے کے۔
کسی کی انگلی کٹ جائے تو ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے ایسا کریں تو انگلی دوبارہ جوڑی جا سکتی ھے۔
مہنگائی کا طوفان آ چکا ھے۔
اپنی سکلز بڑھا لیں جو کام خود کر سکتے ھیں وہ خود ھی کرنے پڑیں گے۔
سرائیکی فوجی کی مزاحیہ انگلش
دیسی لاک
سلاجیت نکالنے کا خطرناک طریقہ
Humming birds
زندگی کے خوبصورت و تلخ پہلو
ایک ھی زمان و مکان پر موجود ، بس بیچ میں معیشت کی اک دیوار ھے۔
اک طرف زمین کا سینہ چاک کر کے دل کو بہلانے کی خاطر مصنوعی آبشار اور حوض تو دوسری طرف زیست کے سوکھے کو سیراب کرنے کی خاطر مشکیزوں کا سہارا لیتے انسان۔
ملک ایسے نہیں چلتے بھائی جان
آصف محمود |ترکش |
بلیو ایریا سے نکلا تو سامنے گاڑیوں کی ایک طویل قطار تھی۔یہ اب اسلام آباد کا ہر وقت کا معمول ہے۔ کئی کلومیٹرز تک بمپر ٹو بمپر گاڑیاں چل رہی ہوتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں سے کوئی ایک گاڑی بھی پاکستان میں تیار نہیں ہوئی۔ یہ سب گاڑیاں ہم نے قیمتی زر مبادلہ چولہے میں ڈال کر لی ہیں۔گاڑیاں چلانے کا ہمیں بہت شوق ہے لیکن ملک میں ہم نے کوئی گاڑی تیار نہیں ہونے دینی۔
ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 2 کروڑ36لاکھ ہے۔ان میں 0 2 ہزار بھی ایسی نہ ہوں گی جو یہاں تیار ہوئی ہوں۔ پہلے ہم پوری دنیا میں گھوم پھر کر امداد اور قرض کے نام پر ڈالر اکٹھے کرتے ہیں اور پھر ہم ان ڈالروں کو امپورٹ کے جہنم میں ڈال دیتے ہیں۔
ہر گاڑی کے ساتھ پانچ ٹائر ہوتے ہیں۔ ایک ’سٹپنی‘ اور چار فعال۔اگر 2 کروڑ36لاکھگاڑیاں سڑک پر ہیں تو یہ11 کروڑ 80 لاکھ ٹائر ہیں جو اس وقت سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔کیا آپ نے کبھی غور کیا یہ ٹائر کہاں سے آتے ہیں؟ بیرون ملک سے۔
پاکستان میں ٹائروں کی صرف ایک کمپنی ہے۔ اجارہ داری امپورٹڈ مال کی ہے۔ چھوٹی بڑی گاڑی کے اور سستے مہنگے ٹائر کی ایک اوسط نکال لیں تو ایک گاڑی کے ٹائر قریب چالیس ہزار میں آتے ہیں۔ اب یہ حساب کتاب آپ خود کر لیجیے کہ دنیا بھر کے آگے ڈالر کے لیے جھولی پھیلانے والے ہم بادشاہ لوگ کتنے ارب ڈالر صرف گاڑیوں اوران کے ٹائروں کی خاطر بیرون ملک بھجو ا دیتے ہیں۔
دنیا میں اگر کوئی ملک کوئی چیز تیار کرتا ہے تو اسے سب سے پہلے اس کے لیے کنزیومر مارکیٹ کی تلاش ہوتی ہے۔ ہم آٹو موبیل میں جاپان کی کنزیومرمارکیٹ بن کر رہ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیوں اور کس قیمت پر؟ یہ خود سپردگی کیوں؟ اس کے بدلے جاپان سے ہمیں کیا ملتا ہے؟کیا وجہ ہے کہ آج تک کبھی قومی بیانیے میں یہ چیز زیر بحث نہیں آ سکی کہ یہ ناگزیر انتخاب ہے، ہماری نا اہلی ہے، کہیں کچھ فیصلہ ساز کمیشن لے کر خاموش بیٹھے ہیں یا کچھ اور معاملہ ہے؟ کیا وجہ ہے کہ مقامی سطح پر گاڑیاں تیار نہیں ہو رہیں؟
پاکستان نے 1953میں پہلی کار تیار کی تھی۔یہ نیشنل موٹرز والوں نے بنائی تھی۔جنرل موٹرز والوں نے اسی دور میں بیڈفورڈ ٹرک بنانے شروع کر دیے تھے۔علی آٹوز ، ہارون انڈسٹریز کتنے ہی نام تھے۔ یہ سب کیا ہوئے؟ کس نے یہ ماحول بنایا کہ پاکستان میں کاروبار کرنا عذاب ہو گیا۔ بوگرہ حکومت کے وزیر اطلاعات نے کس کے کہنے پر اعلا ن کیا کہ:No More Industrialization۔
سرمایہ کار سے نفرت کرنا ہمارا کلچر کیوں بنا؟ سرمایہ کار کے لیے ون ونڈو آپریشن کی سہولت کیوں نہ دی جا سکی؟ کیسے یہ لوگ ایک کے بعد دوسرے دفتر میں ذلیل ہوتے رہے اور ایک کے بعد دووسرے محکمے کے ہاتھوں ہراساں کیے جاتے رہے؟کیسے بیوروکریسی نے سرمایہ دار کو یہاں سے بھگایا؟ کیسے یہاں خوف کا ماحول پیدا کیا گیا؟ سرمایہ اور سرمایہ دار پاکستان سے کیوں بھاگے اور کس نے بھگائے؟ یہ اور ان جیسے سوالات ہمارے ہاں کبھی زیر بحث کیوں نہیں آتے؟
موبائل یہاں ہر بندے کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن کیا کوئی موبائل پاکستان میں بھی تیار ہو رہا ہے؟ یہی حالت لیپ ٹاپ کی ہے۔ یہ سب کی ضرورت ہے۔ لیکن کوئی ایک لیپ ٹاپ پاکستان میں تیار ہو رہا ہو تو بتائیے۔سب باہر سے آ رہا ہے۔
پاکستان میں اس سیاسی کلچر اور اس رعونت کی ماری کرپٹ بیوروکریسی کے ہوتے ہوئے کوئی پاگل ہے جو سرمایہ کاری کرے گا؟یہاں مسلسل سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی ہے۔ حکومت بنتی بعد میں ہے اس کے جانے کی تاریخیں دینے والے پہلے آ جاتے ہیں۔ میڈیا، الا ماشاء اللہ، انتشار فکر اور ہیجا ن کو فروغ دے رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں سرمایہ کاری کیسے ہو گی؟یہاں خوف ہو وہاں سے سب سے پہلے سرمایہ بھاگتا ہے۔
ملک صرف قرض اور بھیک سے نہیں چلتے۔ ملک اس بات سے چلتا ہے کہ آپ کے پاس ایکسپورٹ بیسڈ اکانومی کا حجم کیا ہے۔ یعنی آپ کے پاس ایسا کیا ہے جو آپ دنیا کو بیچ کر قیمتی زر مبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔
ہمارے ہاں عالم یہ ہے کہ ہر چیز امپورٹڈ ہے۔ مقامی صنعت کو برباد کر دیاگیا ہے۔یہاں تک کہ اب ڈبہ بند دودھ بھی امپورٹڈ ہے۔ سبزی و الے کے پاس چلے جائیں وہ نیوزی لینڈ کے سیب کے فضائل بیان کرے گا اور کوئٹہ کا شاندارسیب لاوارث پڑا ہے۔ کان مہتر میں پانی نہیں ہے۔ وہاں کے لوگ سیبوں کے باغات کاٹ کر پھینکتے جا رہے ہیں اور کان مہتر اب سیبوں کی وجہ سے کم اور ٹبمر مارکیٹ ہونے کی وجہ سے زیادہ پہچانا جانے لگا ہے۔
قرض لے لے کر آج یہ نوبت آن پہنچی ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ سواال یہ ہے کہ یہ قرض کہاں گیا۔70سال یہ قرض لے کر کھایا جاتا رہا یہ گیا کہاں؟ کیا وجہ ہے کہ اتنا قرض کھا کر بھی ہم ایکسپورٹ بیسڈ اکانومی کی بنیاد نہیں رکھ سکے۔ یہ قرض کون کھا گیا یہ کس کے اللے تللوں کی نذر ہوا؟ غریب کے پاس کھانے کو نہیں اور بالادست طبقے کی مراعات دیکھ دیکھ کر خوف آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ انہیں مال غنیمت میں آیا ہے۔
آپ کے پاس کوئی انڈسٹری کچھ تو ایسا ہو کہ آپ بھی کوئی چیز دنیا کو بیچ رہے ہوں۔ہمارے پاس کیا ہے؟ ہم نے کس شعبے میں منصوبہ بندی سے سرمایہ کاری ہے؟ہم زرعی ملک ہیں لیکن زرعی آلات تک نہیں بنا رہے۔ہم اس کے لیے دوسرے ملکوں کے محتاج ہیں۔
دوسرے ملکوں کو ہم کچھ نہیں بیچ سکتے تو کم از کم اپنی ضروریات کی چیزیں تو خود بنانا شروع کر دیں۔لیکن ہماری نا اہلی اور شاہ مزاجی کا یہ عالم یہ ہے مارکیٹیں امپورٹڈ آئٹم سے بھری پڑی ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم نے س عرصے میں خود کیا کیا ہے؟ سیاست کے علاوہ ہمیں کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ہم ایک آتش فشاں پر بیٹھے ہیں اور ہمارا صرف ’نچنے نوں دل کردا ہے‘۔معیشت کبھی زیر بحث آٓ بھی جائے تو نکتہ آفرینی کی انتہاء یہ ہوتی ہے کہ کون سا حکمران اپنے کشکول کو بھر لانے میں کامیاب رہا۔ہم گھر کے برتن بیچ کر گلوبل ولیج میں دہائی دے رہے ہوتے ہیں کہ ’دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ ای بوٹا لائے گا‘۔
ابھی ابھی ایک دوست سے معلوم ہوا ہے کہ سوئٹزر لینڈ کے چاکلیٹ سپر مارکیٹ میں دستیاب ہیں ۔ تو جناب میں تو چاکلیٹ لینے جا رہا ہوں۔ موجیں ہی موجیں ہیں۔ چاکلیٹ سوئٹزر لینڈ کے، سگار کیوبا کے، گاڑیاں جاپان کی، پانی فرانس کا۔
اقبال ؒ نے کہا تھا:
انتہااس کی بھی ہے؟آخر خریدیں کب تلک
چھتریاں، رومال، مفلر پیرہن جاپان سے
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسال کابل سے، کفن جاپان سے
نیچر کے ساتھ مزاق
سکردو بلتستان جانے والے سیاح احباب متوجہ ہوں۔
سکردو بلتستان جانے کیلے 12 مہینوں میں سے سب سے بہترین مہینہ کونسا رہے گا ؟
یوں تو سکردو بلتستان کی خوبصورتی سارا سال اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ موسم سرما میں جائیں تو برف، گرمیوں میں جائیں تو سرسبز میدان، خزاں میں جائیں تو زرد پتے اور بہار میں جائیں تو ہر سمت پھول۔ اب سارا سال کوئی دیس جنت کا نظارہ پیش کررہاہو اور اس میں سے بھی کسی ایک مہینے کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہے ۔ لیکن چلو خیر ہم وہ بھی کرلیتے ہیں۔۔ تو سکردو جانے کیلے 12 مہینوں میں سے بہترین مہینہ (وقت) یکم جون سے 15 ستمبر تک ہے۔
یکم جون سے 15 ستمبر کے درمیان سکردو جانے کا فائدہ مندرجہ ذیل ہوگا:
نمبر(١)
اس دوران سکردو میں جتنی بھی آبشاریں(منٹھوکھا آبشار،خموشو آبشار نیالی آبشار وغیرہ) موجود ہیں وہ برف پگل کر پانی زیادہ آنے کی وجہ سے انتہائی خوبصورت ہوتی ہیں۔
نمبر(٢)
یکم جون کے بعد ہی دیوسائی روٹ(Roof of the world) اوپن ہوتا ہے جہاں آپ قدرت کے کرشمے قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔۔۔
نمبر(٣)
جولائی ،اگست میں سکردو میں تقریباً ہر پھل(سیب، خوبانی، انگور، ناشپاتی وغیرہ) پکنے کا ٹائم ہوتا ہے جہاں آپ ہر پھل کا مزہ لے سکتے ہیں۔
نمبر(۴)
جون سے دریائےسندھ جو سکردو کے فلک پوش پہاڑوں سے پگل کر آتا ہے وہ اور اپنے عروج پر ہوتا ہے جس کی وجہ راہ چلتے سیاح دریائی موجوں کو دیکھنے کیلے کچھ پل ان کے دیدار کیلے ضرور رکتے ہیں۔
نمبر(۵)
جون کے بعد سکردو کے کسی بھی میدان پر باآسانی کیمپنگ کر سکتے ہیں۔
نمبر(٦)
ٹریکنگ کی غرض سے جو سیاح سکردو آتے ہیں ان کیلے جون سے سکردو کے تمام ٹریک/ روٹ (تھلہ لہ،وغیرہ) برف پگل کر ان کے راستہ کھل جاتے ہیں۔
چائنا اس ویڈیو کے بعد پاکستان میں موٹر سائیکل پر پابندی لگانے میں سنجیدگی سے سوچنے لگا ھے
جگلوٹ سکردو روڈ پر لینڈ سلائیڈنگ
مرشد کا باربی کیو
ھائبرڈ چاول کے موجد لانگ پنگ کی یاد
آتش بازی سے چاول کا پودا بنا دیا گیا
بابوسر ٹاپ برفباری
کمشنر دیامیر کی طرف سے بابوسر ٹاپ کا راستہ استعمال کرنے سے روک دیا بوجہ اچانک شدید برفباری۔ جو لوگ سفر کر رھے ھیں وہ بشام دیامیر بھاشا ڈیم چیلاس والا راستہ استعمال کر سکتے ھیں
فراڈ دھوکہ
موبائل فون پلے سٹور ایپلی کیشنز کے ذریعے قرضہ دینے کی لالچ دے کر ذاتی معلومات اکھٹی کی جاتی ھے۔ کیبنٹ ڈویژن نے نوٹیفیکشن شائع کیا ھے۔ ان میں سے دو ایپلی کیشنز کے نام یہ ھیں
Olivecash
Barwaqt
اس میسج کو اپنے دوستوں اور گردو نواح کے لوگوں کے ساتھ شئیر کریں تاکہ فراڈ سے بچا جا سکے
کوہ سلیمان شیرانی چلغوزے کےجنگل میں آگ 30 کلو میٹر تک پھیل چکی ھے۔ حکومتی نا اھلی کی وجہ سے قیمتی لکڑی اور انسانی جانوں کا ضیاں ھو رھا ھے۔
کوہ سلیمان کے چلغوزے کے باغات میں لگنے والی آگ بے قابو
رانگڑ ی زبان میں گائیکی
موسیقار کا پردیس جانے والوں کو گائیکی میں پیغام
ضلع شیرانی، بلوچستان: کوہ سلیمان میں چلغوزوں کے جنگلات میں کئ دن سے آگ لگی ہوئ ہے۔ جس سے انسانی اور جنگلی حیات کا نقصان ہو رہا ہے۔ متعلقہ حکومتی ادارے اس جانب توجہ دیں اور ریسکیو کے انتظامات کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ رحم کا معاملہ فرمائے آمین۔
سفر گردی کے رپورٹر عابد شیر علی
لندن سے براہ راست۔
اھم شخصیت کے گھر کی سیر کراتے ھوئے۔
سڑک پر بار بار پیشاب کرنے سے پتھروں سے بچا جا سکتا ھے
معاشی ھرکارے
منی مرگ
اجازت نامہ اور قوانین۔ استور سے چلم چوکی اور یہاں سے ایک راستہ دیوسائی اور دوسرا منی مرگ جاتا ھے جو آرمی کے کنٹرول میں ھے اور لائن آف کنٹرول پر واقع ھے۔
میں اپنے علاقے میں کون سا درخت لگاؤں؟
پروفیسر ڈاکٹر طاہر صدیقی
پاکستان میں حالیہ گرمی کی شدت کی وجہ سے پاکستان کے ایک بڑے طبقے نے درختوں کی اہمیت کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی درخت لگانے کے حوالے سے ایک تحریک سی چل نکلی ہے اور درخت لگانے کے حوالے سے طرح طرح کے نعروں سے فیس بک کی دیواریں سجی ہوئی ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ۔۔۔
اگر کوئی شخص درخت لگانا چاہتا ہے تو وہ کون سا درخت لگائے؟
پاکستان کی آب وہوا کے لیے موزوں درخت کون کون سے ہیں؟ پاکستان کے مختلف خطوں کے لیے موزوں درختوں کی الگ الگ تفصیل بیان کی گئی ہے۔
1۔ جنوبی پنجاب کے لیے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟
جنوبی پنجاب کی آب و ہوا زیادہ تر خشک ہے اس لیے یہاں خشک آب و ہوا کو برداشت کرنے والے درخت لگائے جانے چاہییں۔ خشکی پسند اور خشک سالی برداشت کرنے والے درختوں میں بیری، شریں، سوہانجنا، کیکر، پھلائی، کھجور، ون، جنڈ اور فراش کے درخت قابل ذکر ہیں. اس کے ساتھ آم کا درخت بھی جنوبی پنجاب کی آب وہوا کے لیے بہت موزوں ہے۔
2۔ وسطی پنجاب کے لیے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟
وسطی پنجاب میں نہری علاقے زیادہ ہیں اس میں
املتاس، شیشم، سوہانجنا، بیری، پاپلر، کیکر، شیشم، امرود، نیم، دھریک، آڑو، املتاس، سنبل، کھجور، جامن، توت، پیپل، بوڑھ، شریں، بکائن، ارجن اور لسوڑا لگایا جانا چاہیے۔
3۔ شمالی پنجاب کے لیے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟
شمالی پنجاب میں کچنار، پھلائی، کَیل، اخروٹ، بادام، دیودار، اوک کے درخت لگائے جائیں۔
کھیت میں کم سایہ دار درخت لگائیں, ان کی جڑیں بڑی نہ ہوں اور وہ زیادہ پانی استعمال نہ کرتے ہوں۔
سفیدہ صرف وہاں لگائیں جہاں زمین خراب ہو, یہ سیم و تھور ختم کر سکتا ہے. سفیدہ ایک دن میں 25 لیٹر پانی پیتا ہے لہٰذا جہاں زیر زمین پانی کم ہو اور فصلیں ہوں وہاں سفیدہ نہ لگائیں۔
4۔ اسلام آباد اور سطح مرتفع پوٹھوہار کے لیے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟
خطہ پوٹھوہار کے لیے موزوں درخت دلو؛ پاپولر، کچنار، بیری اور چنار ہیں۔
اسلام آباد میں لگا پیپر ملبری الرجی کا سبب ہے اس کو ختم کرنا چاہیے۔ خطے میں اس جگہ کے مقامی درخت لگائے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ زیتون کا درخت بھی یہاں لگایا جا سکتا ہے۔
5۔ سندھ کے لیے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟
سندھ کے ساحلی علاقوں میں پام ٹری اور کھجور لگانا چاہیے۔
کراچی میں املتاس، برنا، نیم، گلموہر، جامن، پیپل، بینیان، ناریل اور اشوکا لگایا جائے۔
اندرون سندھ میں کیکر، بیری، پھلائی، ون، فراش، سہانجنا اور آسٹریلین کیکر لگانا چاہیے۔
کراچی اور پنجاب کے مختلف شہروں میں ایک بڑے پیمانے پر کونو کارپس کے درخت لگائے گئے ہیں۔ یہ درخت شہروں کی آب و ہوا سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتے۔ اس کی جڑیں دیواروں اور مکانوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔
یہ درخت شہر میں پولن الرجی کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں، جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔
6۔ بلوچستان کے لیے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟
زیارت میں صنوبر کے درخت لگائے جانے چاہییں۔
زیارت میں صنوبر کا قدیم جنگل بھی موجود ہے۔ زیارت کے علاوہ دیگر بلوچستان خشک پہاڑی علاقہ ہے اس میں ون، کرک ، پھلائی، کیل، بڑ، چلغوزہ، پائن، اولیو اور ایکیکا لگایا جانا چاہیے۔
7۔ کے پی کے (KPK) اور شمالی علاقہ جات کے لیے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟
کے پی کے میں شیشم، دیودار، پاپولر، کیکر، ملبری، چنار اور پائن ٹری لگایا جائے۔
8۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے کون کون سے درخت موزوں ہیں؟
دیودار، کیل، پڑتل، صنوبر، اخروٹ، سیب، خوبانی، آلوبخارہ، ملبری، چنار وغیرہ کے درخت ان علاقوں کے لیے بہترین سمجھے جاتے ہیں۔
9۔ درخت لگانے کا بہترین وقت کون سا ہے؟
پاکستان میں درخت لگانے کا بہترین وقت بہار کا موسم یعنی (فروری، مارچ، اپریل) اور برسات کا موسم یعنی (جولائی، اگست، ستمبر) کے مہینے ہیں۔
10۔ درخت کیسے لگائیں اور ان کی حفاظت کیسے کریں؟
اگر آپ سکول, کالج, کھیت یا پارک میں درخت لگا رہے ہیں تو درخت ایک قطار میں لگائیں اور ان کا فاصلہ دس سے پندرہ فٹ ہونا چاہیے۔
گھر میں لگاتے وقت دیوار سے دور لگائیں۔ آپ بنا مالی کے بھی درخت لگا سکتے ہیں۔ نرسری سے پودا لائیں، زمین میں فٹ یا ڈیڑھ فٹ گہرا گڑھا کھودیں۔ نرسری سے بھل (آرگینک کھاد اور نرم مٹی کا مکسچر) لائیں, گڑھے میں ڈالیں، پودا اگر کمزور ہے تو اس کے ساتھ ایک چھڑی باندھ دیں۔ پودا ہمیشہ صبح یا شام کے وقت لگائیں، دوپہر کے وقت نہ لگائیں. اس سے پودا سوکھ جاتا ہے۔ پودا لگانے کے بعد اس کو پانی دیں. گڑھا ذرا نیچا رکھیں تاکہ وہ پانی سے بھر جائے۔
گرمیوں میں روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر جبکہ سردیوں میں ہفتے میں دو بار یا بوقت ضرورت پانی دیتے جائیں۔
پودے کے گرد کوئی جڑی بوٹی نظر آئے تو اس کو کھرپے سے نکال دیں۔ اگر پودا مرجھانے لگے تو گھر کی بنی ہوئی کھاد یا کمپوسٹ یا انتہائی ضروری کے یوریا، پوٹاش یا ڈی اے پی کھاد اس میں ڈال سکتے ہیں لیکن بہت زیادہ نہیں ڈالنی۔ زیادہ کھاد سے بھی پودا سڑ سکتا ہے۔ بہت سے درخت جلد بڑے ہوجاتے ہیں، کچھ کو بہت وقت لگتا ہے۔ سفیدہ، سوہانجنا، پاپولر، سنبل اور شیشم جلدی بڑے ہوجاتے ہیں جبکہ دیودار اور دیگر پہاڑی درخت دیر سے بڑے ہوتے ہیں۔ گھروں میں کوشش کریں شہتوت، جامن، سوہانجنا، املتاس، بکائن یا نیم لگائیں.
اس کے علاوہ آپ اپنے علاقوں میں کون کون سے درخت لگاتے ہیں؟ کومینٹس میں ضرور بتائیں۔
Mithankot
33500
Be the first to know and let us send you an email when Safar gardi by Khuram posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.
Send a message to Safar gardi by Khuram: