09/08/2023
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور جاریہ غیر کشمیری آباد کاری کے سنگین معاملات میں پاکستان کے پاس کیا کیا پالیسی اور قانونی آپشنز موجود ہیں ؟
یہ وہ اہم سوال ہے جس کا جواب آجکل پاکستان میں کسی بھی فیصلہ ساز کے پاس موجود نہیں ہے۔ اور معاملہ معنی خیز خاموشی ، کشمیر پر خاموش سمجھوتے کی بازگشتوں اور سرکاری دانشورں کی بھارتی سپریم کورٹ سے آخری امید تک پہنچ چکا ہے۔
بد قسمتی سے پہلےجموں کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے محدود ہو کر محض انسانی حقوق کی پامالیوں کا مسئلہ بن گیا اور اب صرف بھارت کی طرف سے دیے گئے اور پھر ترمیم کئے گئے دفعہ 370 کی بحالی کا مسئلہ باقی رہ گیا ہے۔
آج حکومت پاکستان کے سرکاری نمائندے اور سرکاری دانشور بھارت سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی 5 اگست 2019 سے پہلے والی حیثیت کی بحالی کے مطالبات کرتے ہیں۔
تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو اس سرکاری موقف کو دہرا نے اور اس پر اپنی جاندار سیاسی اور سفارتی کاوشوں سے پہلے مسئلہ جموں و کشمیر پر اپنی اخلاقی برتری کو ثابت کرنا چاہیے اور پاکستان کے زیر انتظام آزاد جموں اور کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں میں وہی اصلاحات بحال یا نافذ کرنی چاہئے جن کا مطالبہ پاکستان انڈیا سے مقبوضہ کشمیر کے لیے کر رہا ہے۔
اس حوالے سے میری درج ذیل تجاویز ہیں :
ا) پاکستان مقبوضہ کشمیر کی جس خصوصی حیثیت کی بحالی کا مطالبہ کرتا ہے اس کے مطابق ماسوائے دفاع، بین الاقوامی تعلقات اور مواصلات اور ان سے متعلقہ subjects کے، جملہ subjects مقبوضہ کشمیر کے پاس تھے اور مقبوضہ کشمیر کو آئینی اور قانونی طور پر اندرونی خودمختاری (autonomy) حاصل تھی۔
پاکستان کو آزاد جموں اور کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی انڈین دفعہ 370 کی طرز پر مکمل اندرونی خود مختاری ( autonomy) دینی چاہیئے تاکہ استصواب رائے کے انعقاد تک اس خطے کے لوگ آئینی طور پر با اختیار ہو جائیں اور پاکستان کو بھارت پر ایک اخلاقی اور سفارتی برتری حاصل ہو جائے۔
۲) اس کے علاوہ دفعہ 35-A کے خاتمے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں تاکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی عملدرآمدگی کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ اس بابت حکومت پاکستان کو گلگت پاکستان میں 1973/74 میں ختم کیے گئے سٹیٹ سبجکٹ رولز کو فورا بحال کرنا چاہئے اوربذریعہ حکومت آزاد کشمیر، آزاد کشمیر کے قانون میں تبدیلی لاتے ہوئے سٹیٹ سبجکٹ درجہ سوئم کی کیٹیگری کو ختم کرنا چاہئے ۔ پچھلے 76 سالوں میں نوکریوں، داخلوں، مہاجرین مقیم پاکستان کے حلقوں میں ووٹوں اور سکالرشپز کے حصول کے لیے جاری گئے گئے جعلی سٹیٹ سبجکٹ سرٹیفکیٹز کا بذریعہ موئژ عدالتی کمیشن خاتمہ کیا جائے۔ ان اقدامات سے 35-A کے خاتمے کے اوپر پاکستانی موقف کو اخلاقی، سیاسی اور سفارتی برتری حاصل ہو جائے گی۔
۳) اس کے علاوہ بھارت نے 5 اگست 2019 میں لداخ کو جموں و کشمیر سے علیحدہ کر دیا تھا۔ جو کہ جموں کشمیر کی جغرافیائی وحدت کے اصول کے خلاف ہے۔ 28 اپریل 1949 کے معاہدہ کراچی کے بعد شمالی علاقاجات (گلگت بلتستان) اور آزاد کشمیر کے زمینی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی روابط نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت پاکستان کو ان دو خطوں کے درمیان آئینی و دیگر دوریوں کو ختم کرنے کے کیے کوئی موئثر لائحۂ عمل اپنانا چاہئے۔
درج بالا اصلاحات کے بعد جموں و کشمیر پر پاکستانی موقف کو اخلاقی برتری حاصل ہو جائے گی اوراس سے دنیا کے مختلف فورمز پر پاکستانی سیاسی اور سفارتی کاوشوں کو بھی تقویت حاصل ہو گی۔
میر عدنان رحمن صاحب کی وال سے Mir Adnan Rahman