Pakistan lok Virsa

Pakistan lok Virsa Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Pakistan lok Virsa, Tourist Information Center, jamal chok, Pakpattan.
(7)

Heritage & tourists
History with Romantic Soul and Old Memories
سنہری الفاظ ،اسلامی، انوکھی،آگہی میسج ، انوكهی دلچسپ معلومات جنتری،عورتیں معاشرہ،اقوال زریں ،فوڈ ریسپی
پاکستانی ثقافت پوشیده تاریخی جگہیں اور شہروں گاؤں
پرانے کھیل رسم و رواج علاقائی ثقافت

شرعی حلالہ سے شرعی بورڈ تک ۔ ابویحییٰآج صبح اخبار میں شرعی مسائل کے کالم میں ایک ایسے مسئلے کی تفصیلات پڑھیں کہ دل دہل ک...
02/02/2025

شرعی حلالہ سے شرعی بورڈ تک ۔ ابویحییٰ
آج صبح اخبار میں شرعی مسائل کے کالم میں ایک ایسے مسئلے کی تفصیلات پڑھیں کہ دل دہل کر رہ گیا۔ مفتی صاحب سے مسئلہ یہ دریافت کیا گیا کہ ایک نوجوان جوڑے میں تین طلاقیں ہوگئیں۔ اور جس طرح ہمارے ہاں طلاق دینے کا دستور ہے، لڑکے نے تین طلاقیں ایک ساتھ دیں۔ ایک برس بعد محسوس ہوا کہ فیصلہ غلط تھا۔ اس لیے دونوں دوبارہ نکاح کے لیے آمادہ ہوگئے۔ مگر انہیں بتایا گیا کہ دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے حلالہ ہونا ضروری تھا۔ چنانچہ اس بات پر دونوں آمادہ ہوگئے کہ لڑکی کو آگ کے اس سمندر سے گزارا جائے۔

حلالہ کے اس ’کار خیر‘ کے لیے ایک اور صاحب نے اپنی خدمات پیش کیں۔ چنانچہ لڑکی کے باپ نے نکاح پڑھایا۔ اور اس موقعہ پر عارضی ’دولہا‘ کے علاوہ صرف لڑکی کی ماں موجود تھی۔ یہ نکاح ایک ماہ تک جاری رہا جس میں ’دولہا‘ نے تین مرتبہ اس بات کو یقینی بنایا کہ واقعی ’حلالہ‘ ہوگیا ہے۔ پھر ایک روز ’دولہا‘ نے لڑکی کے باپ کو فون کرکے لڑکی کو طلاق دے دی۔

جب یہ مسئلہ مفتی صاحب کے سامنے پیش ہوا تو انہوں مختلف اہل علم کی رائے کو بیان کرکے یہ فیصلہ دیا کہ ہر چند کہ اس عمل میں تین دفعہ تعلق زن و شو قائم ہوا ہے اور حلالہ کی شرط پوری ہوگئی ہے، مگر نکاح کے موقعہ پر دو گواہ نہیں تھے، اس لیے نکاح فاسد ہے۔ جب نکاح ہی نہیں ہوا تو طلاق بھی معتبر نہیں ہے۔ اس لیے اصل مسئلہ جوں کا توں باقی ہے اور لڑکی کا اپنے پہلے شوہر سے نکاح ابھی تک جائز نہیں۔

یہ کسی ایک لڑکی یا جوڑے کا معاملہ نہیں، ہمارے معاشرے میں آئے دن ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہمیشہ تین طلاق ہی دی جاتی ہیں۔ اکثر اوقات یہ جذبات میں آکر دی جاتی ہیں اس لیے کچھ عرصے میں غلطی کا احساس ہوجاتا ہے۔ پھر لوگ علما کے پاس بھاگتے پھرتے ہیں۔ پھر بارہا یہ ایسی عبرتناک کہانیاں وجود میں آتی ہیں جن میں سے ایک کو اوپر بیان کیا گیا ہے۔

ہم اس سلسلے میں بنیادی طور پر علما کو ذمے دار سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس جمعہ کی نماز کا وہ پلیٹ فارم میسر ہے، جس کی بنیاد پر وہ قوم کو، اگر چاہیں تو پورا دین سمجھا سکتے ہیں۔ مگر ان میں سے اکثر نہ خود دین کی گہری بصیرت رکھتے ہیں اور نہ انہیں دین سمجھانے سے کوئی دلچسپی ہے۔ وگرنہ ہر صاحب علم یہ جانتا ہے کہ قرآن، حدیث اور تمام ائمہ کے نزدیک طلاق دینے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک طلاق دی جائے۔ فقہا کی اصطلاح میں اسے احسن یا سنی طلاق کہا جاتا ہے۔ یہ طلاق ماہواری کے دنوں میں نہ دی جائے بلکہ ماہواری ختم ہونے کے بعد اس وقت دی جائے جب پاکی کے ان ایام میں میاں بیوی میں ملاقات نہ ہوئی ہو۔

یہ طلاق دینے کے بعد کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ تین حیض کی عدت کے اندر میاں اگر چاہے تو رجوع کرلے اور دونوں بغیر نکاح کے میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جبکہ تین ماہ بعد بیوی الگ ہوجائے گی اور پھر چاہے تو وہ کسی اور سے نکاح کرے یا چاہے تو دوبارہ اپنے پرانے شوہر سے نکاح کرکے ساتھ رہے۔

یہ وہ طریقہ ہے جس پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔ یہ قرآن میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے۔ صرف اس طریقے کو بتانے کے لیے سال میں جمعے کا ایک خطبہ وقف کردیا جائے تو پوری قوم کو معلوم ہوجائے گا کہ اصل بات کیا ہے۔ مگر کیا کیجیے دین کا صحیح علم پھیلانا ہماری ترجیحات میں سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔ جس کے نتیجے میں آئے دن ایسے دلخراش واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

باقی رہا ’حلالہ‘ کے مروجہ تصور کا سوال تو اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر ہم صرف ایک سوال قارئین کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی عورت حالات کی ستم ظریفی کا شکار کچھ لڑکیوں کو اپنے پاس رکھ لے۔ پھر ہر روز اس کے پاس شہر کے عیاش امرا آئیں۔ ہر روز نکاح منعقد ہوں۔ جس میں اس کا ایک مرد ملازم نکاح پڑھائے اور دو مرد ملازم گواہ مقرر ہوں۔ مہر کے نام پر ٹھیک ٹھیک پیسے ادا کیے جائیں۔ جب ان عیاش بدکرداروں کا دل بھر جائے تو یہ طلاق کے تین لفظ ادا کریں۔ پھر لڑکی کو تین ماہ کی ’چھٹی‘ مل جائے اور وہ مرد ایک نئی ’بیوی‘ کا انتخاب کرلے۔ اس پورے معاملے کو کیا کہا جائے گا۔ اگر شرعی حلالہ ٹھیک ہے تو یہ شرعی نکاح کیسے غلط ہوگیا۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہم سب کو مل کر سوچنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بینکوں کی دیکھا دیکھی کوئی ستم ظریف، کسی ’شرعی بورڈ ‘کی نگرانی میں یہ کام بھی شروع کر دے۔

وکیلوں کے ایک گروپ میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے لوگ حلالہ کر رہے ہیں اور اس کے بابت سوال کر رہے ہوتے ہیں...
حال ہی میں ایک ڈرامہ "من جوگی" آیا ہے جس میں حلالہ کا ذکر ہوا، لیکن میں ڈرامہ پر بات نہیں کروں گی بلکہ حلالہ کے بارے میں لوگوں کے غلط تصور پر روشنی ڈالوں گی۔

حلالہ اصل میں کیا ہے؟

قرآن پاک میں ذکر ہے کہ جب ایک عورت کو طلاق ہو جائے تو وہ عدت پوری کرنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ اگر اسے دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے یا وہ فوت ہو جائے، تو عدت پوری کرنے کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے دوبارہ نکاح کے لیے حلال ہو جاتی ہے، بشرطیکہ وہ ایسا کرنا چاہے۔

لیکن لوگ سمجھتے ہیں کہ پہلے شوہر سے طلاق کے بعد دوبارہ نکاح کے لیے عورت کا کسی دوسرے مرد سے فوراً نکاح کر کے طلاق لینا ہی حلالہ ہے، جو بالکل غلط اور گناہ ہے۔ نکاح کو کسی خاص غرض کے ساتھ مشروط کر کے حلالہ کرنا ناجائز ہے۔ حلالہ ایک خاص صورت میں ہی جائز ہے، اور اسے غلط طور پر استعمال کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یعنی حلالہ کو دانستہ طور پر نکاح میں شامل کرنا اور پہلے شوہر کے پاس واپس آنے کے لیے وقتی نکاح کی منصوبہ بندی کرنا سختی سے منع ہے اور اس کو گناہ تصور کیا گیا ہے

عورتیں اس معاشرے میں 👇👇
https://www.facebook.com/share/p/dT22Ehry2iHwRWWy/?mibextid=oFDknk

میری اپنی رائے 👇👇
حلالہ پلان کرکے کرنا حرام ہیں۔یعنی حلالہ کی نیت سے نکاح کرنا اور اور بعد میں طلاق لےکر پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا حرام ہیں ۔ہاں اگر کسی عورت کو طلاق ہوئی ہو اور وہ دوسری شادی کرے نیت اسکی حلالہ کی نہ ہو لیکن خدا نخواستہ اسکی شوہر مر جائے یا اتفاقاً اسے دوسری شوہر سے بھی طلاق ہو جائے ۔تو وہ اپنے پہلے شوہر سے رجوع کر سکتی ہیں ۔
آپ اپنی رائے کمنٹ میں دے سکتے ہیں 👇👇

02/02/2025

🤔🤔

جب تک دُنیا میں عورت ، شراب اور پُھول موجُود ہیں مرد ضرور بہکیں گے اور بہکا ہوا مرد عورت ، شراب اور پُھول سے بھی ذیادہ خ...
02/02/2025

جب تک دُنیا میں عورت ، شراب اور پُھول موجُود ہیں مرد ضرور بہکیں گے اور بہکا ہوا مرد عورت ، شراب اور پُھول سے بھی ذیادہ خُوبصُورت ہوتا ھے.

سعادت حسن منٹو

شرک کا مطلب ہے اللہ کی ذات یا صفات یا احکامات میں کسی کو شریک سمجھنا۔۔۔۔۔شرک کو سمجھنے کیلئے مکہ کے مشرکین کو سمجھیں۔۔۔م...
02/02/2025

شرک کا مطلب ہے اللہ کی ذات یا صفات یا احکامات میں کسی کو شریک سمجھنا۔۔۔۔۔

شرک کو سمجھنے کیلئے مکہ کے مشرکین کو سمجھیں۔۔۔
مکہ کے مشرکین اللہ کو مانتے تھے انھیں معلوم تھا یہ کائنات اللہ نے بنائی ہے۔ وہ بیت اللہ کو اللہ کی عبادتگاہ ہی سمجھتے تھے وہ حج اور اہنے طریقے سے اللہ کی عبادت بھی کرتے تھے۔۔۔
حضرت محمد ﷺ کے والد کا نام اسلام سے قبل ہی عبداللہ تھا جس کے معنی اللہ کا بندہ اللہ کی عبادت کرنے والا ہے۔۔۔

اگر آپ ان مشرکوں سے پوچھیں کہ کس نے آسمان و زمین تخلیق کیئے اور کام میں لگائے سورج اور چاند تو وہ کہیں گے اللہ نے تو کہیئے کہ کیوں بھولے جاتے ہیں
(سورہ العنکبوت 61)

مکہ والوں نے بت اپنے نیک لوگوں اور فرشتوں کے بنا رکھے تھے جنھیں وہ سفارشی سمجھتے تھے اور ان کے وسیلے سے دعائیں کرتے تھے یہ تھا شرک۔

پھر کیا تم نے لات اور عزیٰ کو دیکھا۔ اور تیسری ایک اور منات کو۔ کیا تمھارے لیے لڑکے ہیں اور اس کے لیے لڑکیاں؟
(سورہ النجم 19- 20- 21)

(لات عزی منات کو مکہ کے مشرکین فرشتے اور اللہ کی بیٹیاں سمجھتے تھے)

ود اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر۔۔۔۔۔
یہ پانچوں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی موت ہو گئی تو شیطا-ن نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھے تھے ان کے بت قائم کر لیں اوران بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مر گئے جنہوں نے بت قائم کئے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی ۔
(صیح بخاری 4920)

بلکہ انھوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں فرما دو کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو ساری شفاعتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔
(سورہ الزمر 43،44)

" ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں تمہارے حق میں نقصان یا بھلائی کاکچھ اختیار نہیں رکھتا۔"
(سورة الجن 21)

اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعا کرنا اس کی عبادت کرنا ہی ہے کیونکہ دعا بھی عبادت میں شامل ہے۔
ڈاکٹر سے دوا لینے اور غیبی مدد و شفا کی دعا کرنا دو مختلف عمل ہیں۔۔ غیبی مدد صرف اللہ کی ذات کر سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”تمہارے رب نے فرمایا: مجھ سے دعائیں کرو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ “ صحیح، رواہ احمد ( ۱۸۵۴۲، ۱۸۶۲۳) و الترمذی (۲۹۶۹) و ابوداؤد (۱۴۷۹) و النسائی (فی الکبری: ۱۱۴۶۴) و ابن ماجہ (۳۸۲۸)

مکہ کے مشرکین کا شرک اللہ کی صفات میں بتوں کو شریک کرنا تھا مطلب وہ سمجھتے تھے بت بھی بارش برسا سکتے، مشکلات حل کر سکتے، روزی دے سکتے، اولاد دے سکتے، غیبی مدد کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔۔

شرک کی ایک قسم اللہ کے احکامات میں کسی کو شریک سمجھنا ہے۔۔ اسے اطاعت کا شرک بھی کہتے
اس کو سمجھنے کیلئے بنی اسرائیل کو سمجھیں جو اللہ کے احکامات کے مقابلے میں اپنے علماء اور درویشوں کے خودساختہ عقائد کی پیروی کرتے تھے اور اللہ کے کچھ احکامات پر عمل نہیں کرتے تھے۔۔
اس کی مجودہ دور میں مثال جمہوریت ہے جس میں اللہ کی شریعت چھوڑ کر جمہوری پارلیمنٹ کے احکامات کی پیروی کی جاتی ہے۔
اللہ کے احکامات کے مخالف احکامات کی اطاعت و پیروی کرنا

(قرآن 9:31)
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

آپ ﷺ نےفرمایا : کیا ایسا نہیں تھا کہ جب یہود ونصاریٰ کے علماء و درویش کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو تم لوگ اسے حلال مان لیتے تھے، اور جب وہ کسی چیز کو حرام ٹھہرا دیتے تو تم لوگ اسے حرام جان لیتے تھے ؟ میں نے عرض کیا بالکل اسی طرح کی صورت حال تھی ،تو آپ نے فرمایا : یہی تو ان کی عبادت تھی "
(المعجم الکبیر طبرانی 218)

شرک کے جواب میں اکثر یہی کہا جاتا اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا شرک ہے ۔۔۔۔ جبکہ شرک کسی کو اللہ سمجھ کر عبادت کرنے کو نہیں کہتے۔۔۔۔

قرآن وسنت کی تعلیمات سے واضح ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعا مانگنا، کسی اور سے منت مانگنا، کسی اور سے اولاد مانگنا۔۔۔۔۔ یا ایسا کوئی کام جو صرف اللہ کر سکتا ہے وہ کسی اور کو وہ کرنے کا اہل سمجھنا
ایسے ہی جو احکامات اللہ نے دیئے ان کے مقابلے میں کسی اور کے احکامات کو درست سمجنا اور ان کی پیروی کرنا جیسے اللہ کی شریعت کے احکامات چھوڑ کر پارلیمنٹ کے قوانین اور غیر شرعی ائین کی پیروی کرنا۔۔۔
اس میں شخصیت پرستی کا شرک بھی ہو سکتا، جماعت پرستی کا شرک بھی ہو سکتا، آئین پرستی کا شرک بھی ہو سکتا، سیکولرازم، جمہوریت پرستی کا شرک بھی ہو سکتا۔۔ مطلب اللہ کے احکامات کے مقابلے میں کسی اور کے احکامات کی اطاعت شرک ہے۔۔۔۔۔

تیسرا شرک اللہ کی ذات میں کسی کو شریک کرنا یہ شرک مسلمانوں میں تو نہیں اسے سمجھنے کیلئے عیسائیوں کے عقیدے کو سمجھیں وہ تثلیث کا عقیدہ رکھتے مطلب خدا جس نے کائنات بنائی اور مسیح بھی خدا ہے جو انسانی شکل میں دنیا میں ایا ۔ اور روح القدس بھی خدا ہے، کچھی عیسائی فرقے حضرت مریم کو خدا کا تیسرا اقنوم کہتے تھے۔۔
مطلب خدا ایک ہی ہے مگر اس کے تین اقنوم جز ہیں۔۔۔۔۔

وہ جو کہتے ہیں اللہ تین خداؤں میں کا تیسرا ہے اور خدا تو نہیں مگر ایک خدا
(سورہ المائدہ 73)

(قرآن 4:116)
اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہوسکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا

(قرآن 31:13)
اور (یاد کیجیے) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ اسے نصیحت کر رہا تھا، اے میرے فرزند! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بے شک شِرک بہت بڑا ظلم ہے۔

(قرآن 9:31)
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

قرآن 6:70
چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے، اور گرفتار بھی اِس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مدد گار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور گر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے، کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجہ میں پکڑے جائیں گے، ان کو تو اپنے انکار حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اور درد ناک عذاب بھگتنے کو ملے گا

(مشرک کی قیامت کے دن شفاعت نہیں ہو گی )

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کی ایک دعا مقبول ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ کر رکھی ہے، اس دعا کا فائدہ ان شاءاللہ امت کے ہر اس شخص کو حاصل ہو گا جس نے مرنے سے پہلے اللہ کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا ہو گا“
(سنن ترمزی 3602)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو اِس حال میں فوت ہو کہ اللہ تعاليٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔
(صیح بخاری 1181)

(قرآن 39:3)
اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خالص عبادت کرنا ہے اور جن لوگوں نے اس کے سوا اولیا بنا رکھے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ (بزرگ) اللہ کی نزدیکی کے مرتبہ تک ہماری رسائی کرا دیں، یہ لوگ جس بارے میں اختلاف کر رہے ہیں اس کا (سچا) فیصلہ اللہ (خود) کرے گا۔ جھوٹے اور ناشکرے (لوگوں) کو اللہ تعالیٰ راه نہیں دکھاتا

(قرآن 10:106)
اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمہارا کچھ بھلا کر سکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہو جاؤگے

(قرآن 12:106)
اوران میں سے اکثر ایسے بھی ہیں جو الله کو مانتے بھی ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں

(قرآن 2:186)
اور جب آپ سےمیرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو میں نزدیک ہوں دعاا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے پھر چاہیئے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں

حضرت محمد ﷺ نے فرمایا
۔۔۔۔۔۔ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا، اگرچہ تم ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائو اور جلا دیے جائو۔
(سنن ابن ماجہ: 4034)

اگر آپ ان مشرکوں سے پوچھیں کہ کس نے آسمان و زمین تخلیق کیے اور کام میں لگائے سورج اور چاند تو وہ کہیں گے اللہ نے تو کہیئے کہ کیوں بھولے جاتے ہیں
(العنکبوت 61)

بلکہ انھوں نے اللہ کے مقابل کچھ سفارشی بنا رکھے ہیں فرماد و کہ کیا اگر چہ وہ کسی چیز کے مالک نہ ہوں اور نہ عقل رکھیں فرمادو ساری شفاعتیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔
(سورہ الزمر 43،44)

رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”حلال واضح ہے، اور حرام بھی، ان کے درمیان بعض چیزیں مشتبہ ہیں جنہیں بہت سے لوگ نہیں جان پاتے (کہ حلال ہے یا حرام) جو ان مشتبہ چیزوں سے بچے، اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو بچا لیا، اور جو شبہات میں پڑ گیا، وہ ایک دن حرام میں بھی پڑ جائے گا، جیسا کہ چرا گاہ کے قریب جانور چرانے والا اس بات کے قریب ہوتا ہے کہ اس کا جانور اس چراگاہ میں بھی چرنے لگ جائے، خبردار!، ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں، آگاہ رہو! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب تک وہ صحیح رہتا ہے تو پورا جسم صحیح رہتا ہے، اور جب وہ بگڑ جاتا ہے، تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، آگاہ رہو!، وہ دل ہے“
صحیح البخاری (52)، (2051)
صحیح مسلم (1599)،
سنن ابی داؤد (3329، 3330)، سنن الترمذی(1205)، سنن النسائی (4458)، (تحفة الأشراف: 11624)، : مسند احمد (4/275)، سنن الدارمی/ (2573) (صحیح)» ‏‏‏‏

قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل کریں خودساختہ عقائد و رسومات سے بچیں۔
مزارات پر جائیں تو مزار والے کیلئے اللہ سے دعا کریں۔
نفاذ شریعت کیلئے جدوجہد کریں اور اللہ کی شریعت کے مخالف جمہوریت سیکولرازم کا بائیکاٹ کریں۔

شرک کے ہر عمل سے بچیں یہاں تک کہ اگر شک ہو کہ یہ عمل شرک بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا تب بھی اس عمل کو چھوڑ دیں

مزید کمنٹ میں ویڈیو دیکھو 👇👇
02/02/2025

مزید کمنٹ میں ویڈیو دیکھو 👇👇

پرانے گھر اور پرانیاں گلاں۔ 1950 کی دہائی میں ہمارا گھر کچا تھا، کچے آنگن میں کنواری مٹی کی روح پرور باس میں بسا ایک کنا...
02/02/2025

پرانے گھر اور پرانیاں گلاں۔
1950 کی دہائی میں ہمارا گھر کچا تھا، کچے آنگن میں کنواری مٹی کی روح پرور باس میں بسا ایک کنال سے کچھ زیادہ گھرتھا۔ گارے مٹی کے گھروں نے زمین پر ایک خاص رنگ پایا ہے۔
ایشین سٹائل گھر میں پیچھے 4 کمرے ایک ہی لائن میں بنے تھے اور سب کے سامنے ایک لمبا برآمدہ تھا۔ چھت پر دیار کی لکڑی کے بیم اور بالے اور چوکے اوپر مٹی کی لپائی جو ہر سال لپائی کرنی پڑتی تھی تاکہ چھت بارش میں ٹپ ٹپ نہ ٹپکے۔ کمروں کا سائز اتنا کہ پچھلی طرف تین چارپائیاں اور دو اگلی طرف ایک دروازہ دیار لکڑی کا ۔ دو لکڑی کی کھڑکیاں ہر کمرے میں اور کھڑکیوں کے اوپر روشندان تھے۔
کمروں اور برآمدے میں اینٹوں کا فرش تھا ۔ صحن کچا لیکن چٹی مٹی اور گوبر ملا کر گارے سے لپائی کی ہوئی جو ہر سال چھت کے ساتھ کرنی پڑتی تھی ۔ اگلی طرف کچھ حصہ کچا مویشی باندھنے کے لئیے۔ مال مویشی کے لئے الگ بڑا سا کمرہ تھا،
صحن کھلا تھا۔ نیم اور شہتوت کے درخت بھی تھے ۔ دو بیری کے درخت بھی تھے۔ ایک بہت بڑا کیکر کا درخت تھا صبح جب کلچیٹ آ کر بولتی تھی تو ہماری آنکھ کھل جاتی تھی۔۔
عید پر والد صاحب شہتوت کے ساتھ پینگ ڈال دیتے تھےسارے بہن بھائی جولے جولتے تھے۔
دو بڑے کمروں میں کانس تھی۔
اس زمانے میں گھروں کو برتنوں سے سجایا جاتا تھا پیتل تانبے لوہے چینی اور دیسی برتن کے علاوہ گھر میں جتنے بھی برتن ہوتے تھے ۔ کانس پر بڑے سلیقے, ترتیب اور خوبصورتی سے رکھے جاتے ۔ یہ برتن گھر کی بہت بڑی رونق اور زینت ہوتے تھی ۔ انہیں روزانہ جھاڑا جاتا اور ان کی چمک کا خاص خیال رکھا جاتا ۔۔ کہیں کہیں ان کانسوں پر ارائشی کپڑے ڈالے جاتے۔ جن پر سوئی اور رنگین دھاگوں سے پھول بوٹے اور پھولوں کی بیلیں ہاتھوں سے کڈھائی کر کے کانس پر برتنوں کے نیچے اور کچھ آگے پھول سرخ پیلے نیلے اور پتے سبز دھاگے سے کلڈھائی کر کے لٹکائی جاتی تھی ۔ اسکے نیچے کروشئیے سے چھالر بنا کر لٹکائی جاتی تھی کڈھائی کا سارا کام لکڑی کے فریم پر فٹ کر کے بنایا جاتا۔ آگے سامنے کروشئیے سے جھالر بنائی جاتی تھی۔
کوندر سے بنی پکھیوں پر بھی نیچے رنگین ساٹن کا کپڑا اور نیچیے کڈاھائی والی جھالر لگی ہوتی۔ کبھی گول شیشے بھی سوئی دھاگے سے جوڑ کر سجی سجائی رنگین پکھیاں کانس سے اوپر بڑی نفاست سے لٹکائی جاتیں۔
شادی میں بڑی فینسی گھڑولی استعمال ہوتی تھی۔ اسکی نیچے سر پر رکھنے کے لئے اینو بھی کلڈھائی والا۔ اور اون کے رنگ رنگ کے بھگے رنگین اونی دھاگو سے لٹکائے جاتے تھے۔ وہ بھی ڈیکوریشن کے لئے کانس سےاوپر لٹکائے جاتے تھے۔
جب کوئی مہمان آ جائے تو کسی چھوٹے بچے کو کہتے مہمان کو ہاتھ والی سجھی سجھائی پھولوں والی پکھی جھولیں۔ مہمان کا پسینہ سوکھ جاتا تو بچے سے پکھی خود لے لیتا۔
کمرے کے اندر جب کوئی مہمان داخل ہوتا تو ان برتنوں کی ترتیب اور تزئین میں کھو سا جاتا ۔ افسوس یہ ارٹ اور فن نئے دور کی بھینٹ چڑھ گیا ہے ۔
بجلی نہیں تھی نہ بجلی کے پنکھے۔ نہ دیگر مصنوعات ہوتی تھیں۔ ٹیلیویژن موبائل کچھ نہیں تھا۔ عورتیں گھر کی تزین و ارائیش میں مصروف رہتی تھیں۔ ناڑے بھی لکڑی کی بنی کرگاہ پر بناے جاتے تھے۔ شادی کے لئے خاص تیاری کی جاتی۔ دولہے اور دلہن کے لئے سرخ رنگ کے ناڑے بنائے جاتے تھے۔
سرہانے اور تکیے کے کور پر کڈھائی کی جاتی تھی۔ پلنگ پر بچھانے والے چادروں پر بھی رنگین دھاگوں سے گل بوٹے بنائے جاتے تھے۔
مہمان کو سجھی سجھائی رنگین پایوں والی چارپائی پر بٹھا کر پیچھے پھولوں والا تکیہ رکھا جاتا۔ عورتیں رنگین پایوں والی سوتری سے بنی ہوئی پیڑیوں پر بیٹھ کر چلم گڑاکو کے مزے لیتی گپ شپ لگاتیں۔ مہمانوں کے سامنے تندور کی روٹیاں مکئی گندم یا باجرے کی مکھن سے چپڑ کر رکھی جاتیں۔ لسی ساگ اور سادہ خوراک کے لیے جو چھکور ہوتی وی بھی بڑی کڈھائی اور پھولوں کی کڈھائی سے مزین ہوتی۔ چائے کا رواج نہیں تھا۔ مٹی کی ٹاس میں لسی اور اس کے اوپر مکھن کا پیڑا پیش کیا جاتا تھا۔
چینی سٹیل, شیشہ , سلور ,پیتل اور لوہے کہ برتنوں کی جگہ اج کل عجیب قسم کے برتن اگئے ہیں ۔ زیادہ تر تو پلاسٹک ہی ہے اج سے 30, 40 سال پہلے پلاسٹک کے استعمال کو بہت مضر تصور کیا جاتا تھا۔
بچپن کے زمانے 50 & 60 کی دہائی میں ٹینٹ سروس نہیں ہوتی تھی۔ لیکن جب بھی کوئی غمی یا خوشی ہوتی تو ہر گھر سے ایک چارپائی مہمانوں کے لئے آ جاتی۔😥
جانے کہاں گئے وہ دن جب سادگی تھی لیکن بھائی چارہ بھی تھا۔ مل کر کام کرنے والے لوگ خاک ہو گئے ۔😪
اب نفسا نفسی کا عالم ہے۔ ہر ایک کو جلدی ہے۔ پتہ نہیں یہ دوڑ کب تک ہے۔ زندگی تو مختصر ہے۔ پھر بھی لوگ دوڑ رہے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں جانا ہے ان کو۔🤔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور اس دوڑ سے بچائے۔ آمین 🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️🏃‍♂️
آجکل جو بھی برتن ہوتے ہیں وہ الماریوں میں پڑے ہوتے ہیں ۔ شاید کچھ وقت بعد برتنوں کا رواج ہی ختم ہو جائے شادی بیاہ اور دوسرے پروگرامات میں شادی ہال میں ہوتے ہیں۔ موت فوت پر پکی پکائی دیگیں ٹینٹ سروس والے کرسیوں سمیت سپلائی کرتے ہیں۔
اب تو بہت سی جگہوں پر گھڑوں کا پانی بھی مشکل ہو گیا ہے ۔ ورنہ پہلے تو گھڑوں کے لیے لکڑی کی گڑونجیاں بنوا کر گھڑوں کو رکھا جاتا تھا ۔ کھڑوں پر مٹی کے ٹاس پڑی ہوتی اسی میں پانی پیا جاتا تھا۔
گھر کے باہر بھی ایک مٹکا پڑا ہوتا تھا ۔ اس پر مٹی کا کٹورا پڑا ہوتا۔ ۔ ان کا پانی پی کر روح میں سرور بھر جاتا ۔
اہ میرے جیسے لوگ شاید پرانیت کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نئی چیزوں کو محبت و مروت کا دشمن سمجھ رہے ہیں۔
سال میں ایک دفعہ گھر میں چونا ہونا ہوتا تھا ۔ اس دن ہمارے گھر میں بڑی گہما گہمی ہوتی تھی ۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھروں میں بیڈروم نہیں بلکہ کمرے ہوتے تھے اور ڈسٹمپر نہیں بلکہ گھروں میں چونا ہوتا تھا
کمروں سے بستر ، منجیاں اور کانس سے برتن نکال کر باہر ویہڑے میں رکھے جاتے
اگلے دن گھر میں چونے کے بڑے بڑے ٹکڑے ، کوچیاں، نیل اور پیپے پہنچ جاتے اور پھر کمرہ بہ کمرہ چونا شروع ہو جاتا
دن میں چونا لگانے والے کے لیئے کھانا بنتا ، عصر کے وقت چاۓ
“ برانڈے (برآمدے) وچ چونا کرانڑاں “
اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

02/02/2025

جھوٹے سے زندگی آج ہم زمان کے اوپر ہیں کل سب زمان کے نیچے ہونگے آج زمان پر چل رہے پھر زمان میں دفن ہو جائینگے ❤️

🤔🤔🤔
02/02/2025

🤔🤔🤔

02/02/2025
اپنی چاۓ پیئں، خاموشی کو اپنائیں، لوگوں کو سنجیدگی سے نہ لیں، اپنے جذبات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں، پرسکون رہیں۔اگر کس...
02/02/2025

اپنی چاۓ پیئں، خاموشی کو اپنائیں، لوگوں کو سنجیدگی سے نہ لیں،
اپنے جذبات کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں، پرسکون رہیں۔

اگر کسی کا کوا سفید ہے تو اسے سفید ہی رہنے دیں کالا ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں،

اگر کوئی یہ تسلیم کرچکا ھے کہ ہاتھی درخت پر بیٹھا ہے
تو اس کے ہاتھی کو نیچے اتارنے میں اپنا وقت، جذبات اور اپنے الفاظ ضائع نہ کریں۔

اپنے الفاظ اور خیالات ان پر استعمال کریں جو غلطی پر ہیں ان پر نہیں جو ضد پر ہیں۔

رنگوں سے بھرا ہے شہر لاہور آنکھ بھر جائے لیکن دل نا بھرے❤️
02/02/2025

رنگوں سے بھرا ہے شہر لاہور
آنکھ بھر جائے لیکن دل نا بھرے❤️

"پاکستان کی چند مشہور بکریاں 🐐🐑🐏گائے🐄🐄🐄🐂بھینس 🐃🐃🐃اور ان کے خواص"🐐🐐🐐🐄🐄🐄🐄🐃🐃🐃🐑🐏🐏🐐👈🐐🐐🐑🐏بکریاں ایک سوال تواتر کے ساتھ پوچھا ج...
02/02/2025

"پاکستان کی چند مشہور
بکریاں 🐐🐑🐏گائے🐄🐄🐄🐂بھینس 🐃🐃🐃
اور ان کے خواص"
🐐🐐🐐🐄🐄🐄🐄🐃🐃🐃🐑🐏🐏🐐
👈🐐🐐🐑🐏بکریاں
ایک سوال تواتر کے ساتھ پوچھا جاتا ہے کہ، (صوبہ پنجاب کی حد تک)، بکری کی کون سی نسل پالی جاۓ۔ اس موضوع پر تفصیلات، ہمارے ناقص علم اور تجربات کے مطابق، مندرجہ ذیل ہیں:

پاکستان کی ساری ہی نسلیں بہترین ہیں۔ ایک مطالعہ کے مطابق 26 نسلوں کی بکریاں موجود ہیں ارض پاک پر۔ سب سے قد آور، دودھ آور اور مضبوط نسل #بِیتل ہے، ماشاءاللہ۔ بِیتل کی کل چھ شاخیں ہیں جو مادہ میں دودھ اور نر میں قد و قامت اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کے حوالے سے ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں:

1- لائلپُوری بیتل (جسے فیصل آبادی یا امرتسری بھی کہا جاتا ہے)۔
2- ناگری بیتل
3- مکھّی چینی بیتل
4- رحیم یارخان بیتل (جسے ہوتل بھی کہا جاتا ہے)
5- نُکری بیتل (جس راجن پوری بھی کہا جاتا ہے)
6- گجراتی بیتل (جسے پوٹھوہاری بِیتل بھی کہا جاتا ہے)

#لائلپُوری (مکمل سیاہ یا سیاہ جسم پر سفید دھبے اور #ناگری (تیز سیاہی مائل سُرخ رنگ، یا اس پر سفید دھبے)، بنیادی طور پر فیصل آباد اور ساہیوال میں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں اور ان علاقوں میں نسلوں سے پالی جا رہی ہیں، لیکن وسطی پنجاب اور بالائی پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی موجود ہیں۔ دودھ، وزن اور قد میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ایک اچھی لائلپُوری یا ناگری پہلے سُوۓ میں تین کلو دودھ یومیہ سے شروع ہو جاتی ہے اور بعض گھروں کے پاس چار دانت کی عُمر میں پہلے سُوۓ پر پانچ کلو یومیہ یا زائد والی بکریاں بھی موجود ہیں (ماشاءاللہ تبارک اللّہ)۔ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کے حوالے سے بھی باقی نسلوں سے بہتر ہیں۔ ماشااللہ۔ یہ دونوں نسلیں آپس میں بہنیں سمجھی جاتی ہیں اور ماحول میں اپنے آپ کو جلدی ڈھالنے کی خصوصیت کی بِنا پر قریبا پورے پاکستان میں پرورش کے لئے موزوں ہیں (سواۓ مسلسل سرد، شدید سرد، مسلسل مرطوب اور ذیادہ گرم خشک علاقوں کے)۔

#مکھّی_چینی_بِیتل بھی عمدہ کارکردگی والی نسل ہے۔ اور ناگری اور لائلپُوری کے بعد دودھ اور قد کے حوالے سے ایک معروف نسل ہے۔ اس نسل کا آبائی علاقہ بہاولپور ڈویژن ہے، اور بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع میں اپنی بہترین بڑھوتری دکھاتی ہے۔ جبکہ ضلع رحیم یار خان میں رحیم یار خانی بھی مکھّی چینا کے ساتھ آ جاتی ہے۔ اپنے آبائی علاقوں میں پالنے کے لئے بہترین نسل ہے، تاہم محنت کے ساتھ بالائی اور وسطی پنجاب میں بھی کامیاب ہو رہی ہے۔

#نُکری_بِیتل (جسے ڈیرہ غازی خان کے ضلع راجن پور کے حوالہ سے راجن پوری بھی کہا جاتا ہے) ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے لئے شاندار نسل ہے۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے چاروں اضلاع لیّہ، مظفرگڑھ، ڈی جی خان اور راجن پور کی آب و ہوا کے مطابق وہاں پالنے کے لئے سب سے بہترین نسل ہے۔ اس نسل کی سب سے خالص صنف، گُلابی نکرے نر بہت اچھا قد اور خوبصورتی رکھتے ہیں۔نُکری مادہ دودھ کے حوالے سے کم دودھ دینے والی نسل میں آتی ہے۔

ِیتل بہاولپور، رحیم یار خان، صادق آباد، یزمان وغیرہ کے علاقوں اور منڈیوں میں پائی جاتی ہے اور اُس علاقے کی مقبول نسل ہے۔ تیکھے نین نقش اور ماتھے سے شروع ہونے والا ناک کا ابھار اس کی خصوصیات ہیں۔ نر بہتر جسم بناتے ہیں، جبکہ مادہ نسبتا کم دودھ دینے والی نسل ہے۔

(پوٹھوہاری) سطح مرتفع پوٹھوہار کے علاقوں میں ذیادہ مقبول ہے اور اس وجہ سے رحیم یار خانی کی طرح علاقائی بیتل کا مقام رکھتی ہے۔ اپنے علاقے میں اچّھی پرورش پاتی ہے۔ نر اچھا وزن کرتے ہیں۔ مادہ دودھ کے حوالے سے بہت معروف نہیں مانی جاتی۔

بِیتل کے بعد، نسل بھی دودھ اور گوشت کے حوالے سے قابلِ تعریف ہے اور لیّہ سے کوٹ ادُو جاتے ہوئے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ضلع مظفر گڑھ کے علاقے دائرہ دین پناہ کے نام سے موسوم ہے اور لیّہ، پہاڑ پور، احسان پور، دائرہ دین پناہ اور کوٹ ادو کے علاقوں میں عام نظر آتی ہے۔ تیز سیاہ رنگ میں، گھنے بالوں سے لدا، گُٹھا ہوا جسم اسے ایک مضبوط نسل بناتا ہے۔

یہ بات میں کتابی یا فیس بک پر بیٹھ کر نہیں، اپنے کئی برس کے کھاۓ ہوئے دھکوں، فارموں اور پنجاب کی معروف و غیر معروف منڈیوں کے بارہا سفر کی بنا پر کہ رہا ہوں، کہ، نسل ہمیشہ وہ پالنی چاہیے، جو آپ کے علاقے، آب و ہوا سے مطابقت رکھتی ہو، بہتر قوت مدافعت اور ماحول کی تبدیلی کو جلد قبول کر لینے والی خصوصیات کی حامل ہو۔ مثال کے طور پر (ڈی جی خان ڈویژن کے ساتھیوں سے معذرت کے ساتھ)، اگر راجن پوری پورے ملک میں اسی طرح کا قد کاٹھ نکالتا جو وہ اپنے آبائی علاقے (ڈیرہ غازی خان ڈویژن، خاص طور پر ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور) میں کرتا ہے، تو پورے ملک میں راجن پوری ہی پل رہا ہوتا۔

جانور کی خوبصورتی سے پہلے، اپنے علاقے کی آب و ہوا، دستیاب وسائل، اپنی لگن اور دیگر زمینی حقائق کو سامنے رکھیں۔ ہر بندہ اپنے حساب سے مشورہ دے گا۔ وسائل اور وقت آپ ہی کے لگنے ہیں۔ صرف تجربہ کی کمی اور غلط مشوروں کی وجہ سے کامیاب کے ساتھ ساتھ ناکام فارموں کی تعداد بھی بڑھتی ہے۔ جب بھی گوٹس یا کوئی اور لائیو اسٹاک فارمنگ کریں، پہلے تجربہ، تجزیہ اور تقابلی جائزہ ضرور لیجئے۔ سب سے اہم بات، خود اپنے ہاتھوں سے کام کے جذبے کے ساتھ کریں۔ اگر سارا دن نہیں تو کم از کم کچھ گھنٹے ملازم کے ساتھ ضرور لگائیں۔ تحقیق کے ساتھ تجربہ بھی ایک لازمی امر ہے، لازمی ترین امر۔ ایک اور اہم بات، گوبر/مینگنیں اٹھانے، جانور چرانے، پٹھا ونڈا کرنے میں شرم یا محنت کے ذریعے کامیابی۔۔۔۔دونوں میں سے ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔

پاکستان کا نام لوں تو سندھ بکریوں کی اقسام میں پہلے نمبر پر ہے معلومات میں اضافہ کے لیئے عرض کرتا چلوں کے پاکستان میں سب سے قدآور نسل جتن ہے دودھ اور گوشت میں پاکستان کی تمام نسلوں سے پہلے نمبر پر ہے بہت سے دوست اس نسل سے نا آشنا ہیں دوسرے نمبر پہ کچھن ہے گوشت اور دودھ کے حساب سے تیسرے نمبر پہ کاموری ہے یہ تینوں سندھ کی نسلیں ہیں بیتل کا نمبر ان سے پیچھے ہے سندھ کی اک نسل لوہری ہے جس کے کان اسکے قد کے برابر ہوتے ہیں اور دودھ دینے کی وجہ سے مشہور نسل ہے گلابی پٹیری بھی سندھ کی بڑی نسلوں میں شمار ہوتی ہیں.
اللّہ پاک سب افراد، جو اس سنت کام کو لے کر چلنا چاہتے ہیں، کو کامیاب فرمائیں اور آسانی، عافیت اور برکت کا معاملہ فرمائیں۔ ۔آمین

👈 🐄🐂 اچھی گاۓ کی پہچان:
سب سے پہلے جانور کے نسل ہوتی ہے. گاۓ کے دو نسلیں ہیں.
1) دیسی نسل
2) ولاتی نسل

1) دیسی نسل کے گاۓ کے مزید 10, 12 نسل ہیں
جن میں کچھ مشہور نسلیں یہ ہیں.
سہوال, چولستانی, دہھنی, سندھی , اچی وغیرہ وغیرہ.
یاد رکھو کہ پاکستان میں بہت سے گائیوں کا کوئی نسل معلوم نہیں جن کو نان ﮈسکرپٹو بریﮈ کہتے ہیں.
2) ولائتی نسل کے گاۓ.یا ایگزارٹک گائے
ان میں جرسی, ہوسٹن یوفریژین, ایشائر, براون سوئیز گاۓ مشہور ہیں.
فریژین نسل میں مزید نسلیں اور کراس ہیں. اور یہ دنیا کا سب سے مشہور گاۓ ہے.
یہ سارے گاۓ یورپ, اسٹریلیا, نیوزی لینﺫ , امریکہ اور کینﮈا کے ممالک کے ہیں.
گو کہ ان کی اوسط دودھ کی مقدار دیسی گائیوں کے تین گنا ﺫیادہ ہے لیکن یہ گاۓ پاکستان, افریقہ, انڈیا اور عرب کے ممالک کے گرم مرطوب موسم کو سہہ نہیں پاتے اور یہاں مر جاتے ہیں, دوسرا ان گائیوں میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت نہ ہونے کے برابر ہے.
کچھ بیماریاں جو ان کی جان تک لے سکتی ہے یہ ہے
گل گھوٹو, سٹ, تھلیریا, اینا پلازما, بی بیزیا, جگر کے کیڑے اور چیچڑ.

( ان گاۓ کو اگر رکھنا ہو تو , پولٹری فارم کی طرح کنٹرول شیﮈ میں رکھا جا سکتا ہے. ان سارے بیماریوں کی ویکیسن ضروری ہے, خوراک بھی مناسب اور ﺫیادہ مقدار میں ہو, اگر اپ ان سے 365 دن کے بعد بچہ لیں تو ولائتی گاۓ کا فارم سب سے منافع بخش فارمنگ ہے)

اب آتے ہیں دودھ دینے والی گاۓ کے پہچان کی طرف, ﺫیادہ دودھ دینی والی گاۓ کا حیوانہ یا چﮈا بڑا اور دور سے واضح نظر اۓ گی جس طرح تصویر میں دیکھا یا گیا ہے.
اس کا حیوانہ گوندے ہوۓ آٹے کی طرح نرم ہوگا.
سخت پتھر والا بیمار حیوانہ ہے جبکہ نرم میں پانی والا سوجن ہوتا ہے. کچھ حیوانے زمین کو چوتے ہوۓ معلوم ہوتے ہیں جن میں لگامنٹ کو چوٹ کی شکایت ہوتی ہے. پس دودھ والے جانور کا حیوانہ متوازن, تھن ایک لیول پر ایک دوسرے سے ایک جتنا لمبی کی دوری پر ہوتے ہیں, جو زمین سے مناسب اونچائی پر ہوتے ہیں.
اس کے علاوہ گاۓ کے, کمر کا (سینے)پیچھلے حصے اور دم کے قریب اوپر والا حصہ , جس کو پوٹا کہتے ہیں, جتنا چوڑا ہوگا اتنا ہی حیوانے کے لیے جگہ ﺫیادہ ملے گا. الغرض کہ حیوانا جتنا بڑا ہوگا اتنا ہی دودھ ﺫیادہ ہوگا. اچھے دودھ والے گاۓ کا حیوانہ اور تھن دودھ نکالنے کے بعد ایسا ہوجاتا ہے جیسے ہوا سے بھرے ہوۓ ٹائر سے ہوا نکل جاۓ یا پاؤں سے جرابے کو نکلنے کے بعد جس طرح جرابہ سکڑ کر چھوٹا ہوجاتا ہے.
حیوانے کو جو رگ جاتی ہے, جتنی موٹی اور ٹیڑی ہوگی اتنا ہی دودھ ﺫیادہ ہوگا.
جانور ﺫیادہ موٹا نہ ہو نہ ہی ﺫیادہ کمزور ہو. موٹا جانور خوراک کو دودھ کے بجاۓ گوشت اور چربی میں تبدیل کرتی ہے. جبکہ کمزور جانور اکثر بیمار ہوتا ہے.
دم پتلی اور لمبی ہو اور چمڑا خوبصورت اور چمکدار ہو. انکھ, ناک اور منہ سے کسی قسم کا پانی یا پیپ نہ آۓ. جانور کے قریب جاۓ تو فورا کھڑا ہو. یہ سارے صحت مند جانور کی علامات ہےبھینس ایک ممالیہ جانور کا نام ہے اس کا مذکر بھینسا ہوتا ہے۔ بھینسیں گھریلو بھی ہوتی ہیں اور جنگلی بھی، یہ جانور سیاہ اور خاکی رنگ میں پایا جاتا ہے ِ، یہ جانور نہروں، نالوں اور تالابوں میں نہانا پسند کرتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں دیہاتوں کے لوگ گھروں میں کثیر تعداد میں بھینسیں پالتے ہیں اور ان کا دودھ اپنے استعمال میں لانے کے ساتھ ساتھ شہروں میں لیجا کر فروخت بھی کرتے ہیں، اسی طرح اس کا گوشت بھی کھایا اور فروخت کیا جاتاہے۔
👈👈🐃🐃بھینس
بھینس دودھ پلانے والا جانور ہے جس کو امریکا میں "ارنا بھینسا" بھی کہا جاتا ہے جو شمالی امریکا اور کینیڈا کے گھاس کے میدانوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور بڑے بڑے غولوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہوتی ہیں پہلی قسم اپنی سیدھی کمر کے باعث Plains Bison کہلاتی ہے جبکہ دوسری قسم Wood Bison ہوتی ہے جس کے کوہان بھی ہوتا ہے۔ بھینس کی کھال گہرے بھورے بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے اور کبھی ہلکے بھورے بال بھی ہوتے ہیں۔ ارنا بھینسا تقریباً 2 میٹر (6 فِٹ) اونچا‘ 3 میٹر (10 فِٹ) لمبا ہوتا ہے اور اس کا وزن تقریباً 900 کلو گرام (2000 پونڈز) تک ہوتا ہے۔ اس کا سر اور جسم کافی بھاری ہوتا ہے اور نر اور مادہ کے سینگ گولائی میں مُڑے ہوتے ہیں جو ان کے تحفظ میں کام آتے ہیں۔ اگست اور ستمبر ان کی افزائشِ نسل کا زمانہ ہے۔ پیدائش کے وقت بچّہ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے اور ایک سال تک بچھڑا∕ بچھیا کہلاتا ہے۔ یہ تین سال میں جوان ہوتا ہے۔ بھینس کی اوسط عمر 18-22 سال کے درمیان ہوتی ہے
بھینس:
(بلیک گولڈ):
ہمارے ملک کی آبادی 24 کروڑ اور اس کے حساب سے ہمیں اپنی نسلوں کو صحت مند رکھنے کےلئے یومیہ 13 کروڑ لیٹر خالص قدرتی دودھ چاہیے تاکہ ہم فیٹ ، پروٹین ، منرلز ، پروبیاٹک ، کوانزائم، گروتھ ہارمونز وغیرہ کی جسمانی ضروریات کو پورا کر سکیں ۔
خالص قدرتی تازہ دودھ کا کائنات میں کوئی نعمل البدل نہیں ۔
اللہ کریم نے ہمیں نیلی، راوی ، سندھری وغیرہ جیسی قیمتی بھینسوں اور چولستانی ، ساہیوال جیسی نایاب گائے کی نسلوں سے نوازا لیکن ہم انکے صحت مند اور پروڈکٹوو جینز کی حفاظت اور آگے بھروتری کی بجائے آن میں ہر طرح کی اور غیر صحت مند جینز کی آمیزش سے ان نسلوں کو غیر معیاری بنا دیا ہے ۔
اب آس سے بڑھ کر اخراجات میں بےتحاشہ اضافے کی وجہ سے پہلے دن ہی بچھڑے ، بچھڑیاں اور کٹے کٹیوں کو بیچ یا تلف کردیا جاتاہے جس سے ان قیمتی جانوروں کی نسلوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔
حکومت کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر بچھڑے ، بچھڑیاں ، کٹے اور کٹیاں وغیرہ کو پالنے کے لیے ونڈہ ، کالف سٹارٹر اور مالی معاونت فراہم کرے تاکہ ان کی نسلوں کو بچایا جا سکے اور آنے والی نسلوں کی صحت کے لیے انکی دودھ اور گوشت کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے ۔
کیونکہ جدید تحقیق بھی دوبارہ انسانی صحت کے لیے جسمانی ورزش کے ساتھ دیسی گھی اور خالص قدرتی دودھ کو ہی صحت کا ضامن سمجھتی ہے ۔
مویشی، مال مویشی یا ڈھور ڈنگر ایک یا زیادہ گھریلو جانوروں کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے۔ زرعی زبان میں مویشی وہ جز ہے جو خوراک، لحمیات یا مال برداری جیسی پیداور کے لیے مشہور ہو۔ گو اس مقالے میں مویشی کے زمرے میں مرغبانی اور ماہی گیری کو شامل نہیں کیا گیا، لیکن عام طور پر یہ دونوں جز بھی زرعی اصطلاح “مویشی“ کے زمرے میں شامل کیے جاتے ہیں۔ مویشی پالنے کا تصور عمومی طور پر منافع کمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال جدید زراعت کا انتہائی اہم جز تصور ہوتا ہے۔ مویشی پالنے کی روایت تاریخ انسانی میں ہر تہذیب میں ملتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ رفتہ رفتہ جب انسان نے شکار کے ذریعے گزر بسر چھوڑی تو مویشی سدھارنے اور پالنے کی روایت نے جنم لیا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں مویشیوں کی آبادی تقریباً 65 ارب ہے، جس میں مرغیاں اور مچھلیاں شامل نہیں ہیں۔
Pakistan lok Virsa
اور جانوروں کے بارے میں پڑھنے کے لیے لنک کو اوپن کریں 👇👇👇👇
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=259739936803632&id=100083028834066&mibextid=Nif5oz
انوکھی ،دلچسپ ،معلومات
https://www.facebook.com/share/p/3JJUZ9MKoTWfvce7/?mibextid=oFDknk

Address

Jamal Chok
Pakpattan

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pakistan lok Virsa posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pakistan lok Virsa:

Videos

Share