02/02/2025
"پاکستان کی چند مشہور
بکریاں 🐐🐑🐏گائے🐄🐄🐄🐂بھینس 🐃🐃🐃
اور ان کے خواص"
🐐🐐🐐🐄🐄🐄🐄🐃🐃🐃🐑🐏🐏🐐
👈🐐🐐🐑🐏بکریاں
ایک سوال تواتر کے ساتھ پوچھا جاتا ہے کہ، (صوبہ پنجاب کی حد تک)، بکری کی کون سی نسل پالی جاۓ۔ اس موضوع پر تفصیلات، ہمارے ناقص علم اور تجربات کے مطابق، مندرجہ ذیل ہیں:
پاکستان کی ساری ہی نسلیں بہترین ہیں۔ ایک مطالعہ کے مطابق 26 نسلوں کی بکریاں موجود ہیں ارض پاک پر۔ سب سے قد آور، دودھ آور اور مضبوط نسل #بِیتل ہے، ماشاءاللہ۔ بِیتل کی کل چھ شاخیں ہیں جو مادہ میں دودھ اور نر میں قد و قامت اور بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کے حوالے سے ترتیب وار مندرجہ ذیل ہیں:
1- لائلپُوری بیتل (جسے فیصل آبادی یا امرتسری بھی کہا جاتا ہے)۔
2- ناگری بیتل
3- مکھّی چینی بیتل
4- رحیم یارخان بیتل (جسے ہوتل بھی کہا جاتا ہے)
5- نُکری بیتل (جس راجن پوری بھی کہا جاتا ہے)
6- گجراتی بیتل (جسے پوٹھوہاری بِیتل بھی کہا جاتا ہے)
#لائلپُوری (مکمل سیاہ یا سیاہ جسم پر سفید دھبے اور #ناگری (تیز سیاہی مائل سُرخ رنگ، یا اس پر سفید دھبے)، بنیادی طور پر فیصل آباد اور ساہیوال میں کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں اور ان علاقوں میں نسلوں سے پالی جا رہی ہیں، لیکن وسطی پنجاب اور بالائی پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی موجود ہیں۔ دودھ، وزن اور قد میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ایک اچھی لائلپُوری یا ناگری پہلے سُوۓ میں تین کلو دودھ یومیہ سے شروع ہو جاتی ہے اور بعض گھروں کے پاس چار دانت کی عُمر میں پہلے سُوۓ پر پانچ کلو یومیہ یا زائد والی بکریاں بھی موجود ہیں (ماشاءاللہ تبارک اللّہ)۔ بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت کے حوالے سے بھی باقی نسلوں سے بہتر ہیں۔ ماشااللہ۔ یہ دونوں نسلیں آپس میں بہنیں سمجھی جاتی ہیں اور ماحول میں اپنے آپ کو جلدی ڈھالنے کی خصوصیت کی بِنا پر قریبا پورے پاکستان میں پرورش کے لئے موزوں ہیں (سواۓ مسلسل سرد، شدید سرد، مسلسل مرطوب اور ذیادہ گرم خشک علاقوں کے)۔
#مکھّی_چینی_بِیتل بھی عمدہ کارکردگی والی نسل ہے۔ اور ناگری اور لائلپُوری کے بعد دودھ اور قد کے حوالے سے ایک معروف نسل ہے۔ اس نسل کا آبائی علاقہ بہاولپور ڈویژن ہے، اور بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع میں اپنی بہترین بڑھوتری دکھاتی ہے۔ جبکہ ضلع رحیم یار خان میں رحیم یار خانی بھی مکھّی چینا کے ساتھ آ جاتی ہے۔ اپنے آبائی علاقوں میں پالنے کے لئے بہترین نسل ہے، تاہم محنت کے ساتھ بالائی اور وسطی پنجاب میں بھی کامیاب ہو رہی ہے۔
#نُکری_بِیتل (جسے ڈیرہ غازی خان کے ضلع راجن پور کے حوالہ سے راجن پوری بھی کہا جاتا ہے) ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے لئے شاندار نسل ہے۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے چاروں اضلاع لیّہ، مظفرگڑھ، ڈی جی خان اور راجن پور کی آب و ہوا کے مطابق وہاں پالنے کے لئے سب سے بہترین نسل ہے۔ اس نسل کی سب سے خالص صنف، گُلابی نکرے نر بہت اچھا قد اور خوبصورتی رکھتے ہیں۔نُکری مادہ دودھ کے حوالے سے کم دودھ دینے والی نسل میں آتی ہے۔
ِیتل بہاولپور، رحیم یار خان، صادق آباد، یزمان وغیرہ کے علاقوں اور منڈیوں میں پائی جاتی ہے اور اُس علاقے کی مقبول نسل ہے۔ تیکھے نین نقش اور ماتھے سے شروع ہونے والا ناک کا ابھار اس کی خصوصیات ہیں۔ نر بہتر جسم بناتے ہیں، جبکہ مادہ نسبتا کم دودھ دینے والی نسل ہے۔
(پوٹھوہاری) سطح مرتفع پوٹھوہار کے علاقوں میں ذیادہ مقبول ہے اور اس وجہ سے رحیم یار خانی کی طرح علاقائی بیتل کا مقام رکھتی ہے۔ اپنے علاقے میں اچّھی پرورش پاتی ہے۔ نر اچھا وزن کرتے ہیں۔ مادہ دودھ کے حوالے سے بہت معروف نہیں مانی جاتی۔
بِیتل کے بعد، نسل بھی دودھ اور گوشت کے حوالے سے قابلِ تعریف ہے اور لیّہ سے کوٹ ادُو جاتے ہوئے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ضلع مظفر گڑھ کے علاقے دائرہ دین پناہ کے نام سے موسوم ہے اور لیّہ، پہاڑ پور، احسان پور، دائرہ دین پناہ اور کوٹ ادو کے علاقوں میں عام نظر آتی ہے۔ تیز سیاہ رنگ میں، گھنے بالوں سے لدا، گُٹھا ہوا جسم اسے ایک مضبوط نسل بناتا ہے۔
یہ بات میں کتابی یا فیس بک پر بیٹھ کر نہیں، اپنے کئی برس کے کھاۓ ہوئے دھکوں، فارموں اور پنجاب کی معروف و غیر معروف منڈیوں کے بارہا سفر کی بنا پر کہ رہا ہوں، کہ، نسل ہمیشہ وہ پالنی چاہیے، جو آپ کے علاقے، آب و ہوا سے مطابقت رکھتی ہو، بہتر قوت مدافعت اور ماحول کی تبدیلی کو جلد قبول کر لینے والی خصوصیات کی حامل ہو۔ مثال کے طور پر (ڈی جی خان ڈویژن کے ساتھیوں سے معذرت کے ساتھ)، اگر راجن پوری پورے ملک میں اسی طرح کا قد کاٹھ نکالتا جو وہ اپنے آبائی علاقے (ڈیرہ غازی خان ڈویژن، خاص طور پر ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور) میں کرتا ہے، تو پورے ملک میں راجن پوری ہی پل رہا ہوتا۔
جانور کی خوبصورتی سے پہلے، اپنے علاقے کی آب و ہوا، دستیاب وسائل، اپنی لگن اور دیگر زمینی حقائق کو سامنے رکھیں۔ ہر بندہ اپنے حساب سے مشورہ دے گا۔ وسائل اور وقت آپ ہی کے لگنے ہیں۔ صرف تجربہ کی کمی اور غلط مشوروں کی وجہ سے کامیاب کے ساتھ ساتھ ناکام فارموں کی تعداد بھی بڑھتی ہے۔ جب بھی گوٹس یا کوئی اور لائیو اسٹاک فارمنگ کریں، پہلے تجربہ، تجزیہ اور تقابلی جائزہ ضرور لیجئے۔ سب سے اہم بات، خود اپنے ہاتھوں سے کام کے جذبے کے ساتھ کریں۔ اگر سارا دن نہیں تو کم از کم کچھ گھنٹے ملازم کے ساتھ ضرور لگائیں۔ تحقیق کے ساتھ تجربہ بھی ایک لازمی امر ہے، لازمی ترین امر۔ ایک اور اہم بات، گوبر/مینگنیں اٹھانے، جانور چرانے، پٹھا ونڈا کرنے میں شرم یا محنت کے ذریعے کامیابی۔۔۔۔دونوں میں سے ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔
پاکستان کا نام لوں تو سندھ بکریوں کی اقسام میں پہلے نمبر پر ہے معلومات میں اضافہ کے لیئے عرض کرتا چلوں کے پاکستان میں سب سے قدآور نسل جتن ہے دودھ اور گوشت میں پاکستان کی تمام نسلوں سے پہلے نمبر پر ہے بہت سے دوست اس نسل سے نا آشنا ہیں دوسرے نمبر پہ کچھن ہے گوشت اور دودھ کے حساب سے تیسرے نمبر پہ کاموری ہے یہ تینوں سندھ کی نسلیں ہیں بیتل کا نمبر ان سے پیچھے ہے سندھ کی اک نسل لوہری ہے جس کے کان اسکے قد کے برابر ہوتے ہیں اور دودھ دینے کی وجہ سے مشہور نسل ہے گلابی پٹیری بھی سندھ کی بڑی نسلوں میں شمار ہوتی ہیں.
اللّہ پاک سب افراد، جو اس سنت کام کو لے کر چلنا چاہتے ہیں، کو کامیاب فرمائیں اور آسانی، عافیت اور برکت کا معاملہ فرمائیں۔ ۔آمین
👈 🐄🐂 اچھی گاۓ کی پہچان:
سب سے پہلے جانور کے نسل ہوتی ہے. گاۓ کے دو نسلیں ہیں.
1) دیسی نسل
2) ولاتی نسل
1) دیسی نسل کے گاۓ کے مزید 10, 12 نسل ہیں
جن میں کچھ مشہور نسلیں یہ ہیں.
سہوال, چولستانی, دہھنی, سندھی , اچی وغیرہ وغیرہ.
یاد رکھو کہ پاکستان میں بہت سے گائیوں کا کوئی نسل معلوم نہیں جن کو نان ﮈسکرپٹو بریﮈ کہتے ہیں.
2) ولائتی نسل کے گاۓ.یا ایگزارٹک گائے
ان میں جرسی, ہوسٹن یوفریژین, ایشائر, براون سوئیز گاۓ مشہور ہیں.
فریژین نسل میں مزید نسلیں اور کراس ہیں. اور یہ دنیا کا سب سے مشہور گاۓ ہے.
یہ سارے گاۓ یورپ, اسٹریلیا, نیوزی لینﺫ , امریکہ اور کینﮈا کے ممالک کے ہیں.
گو کہ ان کی اوسط دودھ کی مقدار دیسی گائیوں کے تین گنا ﺫیادہ ہے لیکن یہ گاۓ پاکستان, افریقہ, انڈیا اور عرب کے ممالک کے گرم مرطوب موسم کو سہہ نہیں پاتے اور یہاں مر جاتے ہیں, دوسرا ان گائیوں میں بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت نہ ہونے کے برابر ہے.
کچھ بیماریاں جو ان کی جان تک لے سکتی ہے یہ ہے
گل گھوٹو, سٹ, تھلیریا, اینا پلازما, بی بیزیا, جگر کے کیڑے اور چیچڑ.
( ان گاۓ کو اگر رکھنا ہو تو , پولٹری فارم کی طرح کنٹرول شیﮈ میں رکھا جا سکتا ہے. ان سارے بیماریوں کی ویکیسن ضروری ہے, خوراک بھی مناسب اور ﺫیادہ مقدار میں ہو, اگر اپ ان سے 365 دن کے بعد بچہ لیں تو ولائتی گاۓ کا فارم سب سے منافع بخش فارمنگ ہے)
اب آتے ہیں دودھ دینے والی گاۓ کے پہچان کی طرف, ﺫیادہ دودھ دینی والی گاۓ کا حیوانہ یا چﮈا بڑا اور دور سے واضح نظر اۓ گی جس طرح تصویر میں دیکھا یا گیا ہے.
اس کا حیوانہ گوندے ہوۓ آٹے کی طرح نرم ہوگا.
سخت پتھر والا بیمار حیوانہ ہے جبکہ نرم میں پانی والا سوجن ہوتا ہے. کچھ حیوانے زمین کو چوتے ہوۓ معلوم ہوتے ہیں جن میں لگامنٹ کو چوٹ کی شکایت ہوتی ہے. پس دودھ والے جانور کا حیوانہ متوازن, تھن ایک لیول پر ایک دوسرے سے ایک جتنا لمبی کی دوری پر ہوتے ہیں, جو زمین سے مناسب اونچائی پر ہوتے ہیں.
اس کے علاوہ گاۓ کے, کمر کا (سینے)پیچھلے حصے اور دم کے قریب اوپر والا حصہ , جس کو پوٹا کہتے ہیں, جتنا چوڑا ہوگا اتنا ہی حیوانے کے لیے جگہ ﺫیادہ ملے گا. الغرض کہ حیوانا جتنا بڑا ہوگا اتنا ہی دودھ ﺫیادہ ہوگا. اچھے دودھ والے گاۓ کا حیوانہ اور تھن دودھ نکالنے کے بعد ایسا ہوجاتا ہے جیسے ہوا سے بھرے ہوۓ ٹائر سے ہوا نکل جاۓ یا پاؤں سے جرابے کو نکلنے کے بعد جس طرح جرابہ سکڑ کر چھوٹا ہوجاتا ہے.
حیوانے کو جو رگ جاتی ہے, جتنی موٹی اور ٹیڑی ہوگی اتنا ہی دودھ ﺫیادہ ہوگا.
جانور ﺫیادہ موٹا نہ ہو نہ ہی ﺫیادہ کمزور ہو. موٹا جانور خوراک کو دودھ کے بجاۓ گوشت اور چربی میں تبدیل کرتی ہے. جبکہ کمزور جانور اکثر بیمار ہوتا ہے.
دم پتلی اور لمبی ہو اور چمڑا خوبصورت اور چمکدار ہو. انکھ, ناک اور منہ سے کسی قسم کا پانی یا پیپ نہ آۓ. جانور کے قریب جاۓ تو فورا کھڑا ہو. یہ سارے صحت مند جانور کی علامات ہےبھینس ایک ممالیہ جانور کا نام ہے اس کا مذکر بھینسا ہوتا ہے۔ بھینسیں گھریلو بھی ہوتی ہیں اور جنگلی بھی، یہ جانور سیاہ اور خاکی رنگ میں پایا جاتا ہے ِ، یہ جانور نہروں، نالوں اور تالابوں میں نہانا پسند کرتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں دیہاتوں کے لوگ گھروں میں کثیر تعداد میں بھینسیں پالتے ہیں اور ان کا دودھ اپنے استعمال میں لانے کے ساتھ ساتھ شہروں میں لیجا کر فروخت بھی کرتے ہیں، اسی طرح اس کا گوشت بھی کھایا اور فروخت کیا جاتاہے۔
👈👈🐃🐃بھینس
بھینس دودھ پلانے والا جانور ہے جس کو امریکا میں "ارنا بھینسا" بھی کہا جاتا ہے جو شمالی امریکا اور کینیڈا کے گھاس کے میدانوں میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور بڑے بڑے غولوں کی شکل میں رہتے ہیں۔ ان کی دو اقسام ہوتی ہیں پہلی قسم اپنی سیدھی کمر کے باعث Plains Bison کہلاتی ہے جبکہ دوسری قسم Wood Bison ہوتی ہے جس کے کوہان بھی ہوتا ہے۔ بھینس کی کھال گہرے بھورے بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے اور کبھی ہلکے بھورے بال بھی ہوتے ہیں۔ ارنا بھینسا تقریباً 2 میٹر (6 فِٹ) اونچا‘ 3 میٹر (10 فِٹ) لمبا ہوتا ہے اور اس کا وزن تقریباً 900 کلو گرام (2000 پونڈز) تک ہوتا ہے۔ اس کا سر اور جسم کافی بھاری ہوتا ہے اور نر اور مادہ کے سینگ گولائی میں مُڑے ہوتے ہیں جو ان کے تحفظ میں کام آتے ہیں۔ اگست اور ستمبر ان کی افزائشِ نسل کا زمانہ ہے۔ پیدائش کے وقت بچّہ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے اور ایک سال تک بچھڑا∕ بچھیا کہلاتا ہے۔ یہ تین سال میں جوان ہوتا ہے۔ بھینس کی اوسط عمر 18-22 سال کے درمیان ہوتی ہے
بھینس:
(بلیک گولڈ):
ہمارے ملک کی آبادی 24 کروڑ اور اس کے حساب سے ہمیں اپنی نسلوں کو صحت مند رکھنے کےلئے یومیہ 13 کروڑ لیٹر خالص قدرتی دودھ چاہیے تاکہ ہم فیٹ ، پروٹین ، منرلز ، پروبیاٹک ، کوانزائم، گروتھ ہارمونز وغیرہ کی جسمانی ضروریات کو پورا کر سکیں ۔
خالص قدرتی تازہ دودھ کا کائنات میں کوئی نعمل البدل نہیں ۔
اللہ کریم نے ہمیں نیلی، راوی ، سندھری وغیرہ جیسی قیمتی بھینسوں اور چولستانی ، ساہیوال جیسی نایاب گائے کی نسلوں سے نوازا لیکن ہم انکے صحت مند اور پروڈکٹوو جینز کی حفاظت اور آگے بھروتری کی بجائے آن میں ہر طرح کی اور غیر صحت مند جینز کی آمیزش سے ان نسلوں کو غیر معیاری بنا دیا ہے ۔
اب آس سے بڑھ کر اخراجات میں بےتحاشہ اضافے کی وجہ سے پہلے دن ہی بچھڑے ، بچھڑیاں اور کٹے کٹیوں کو بیچ یا تلف کردیا جاتاہے جس سے ان قیمتی جانوروں کی نسلوں کو شدید خطرات لاحق ہیں ۔
حکومت کو چاہیے کہ بڑے پیمانے پر بچھڑے ، بچھڑیاں ، کٹے اور کٹیاں وغیرہ کو پالنے کے لیے ونڈہ ، کالف سٹارٹر اور مالی معاونت فراہم کرے تاکہ ان کی نسلوں کو بچایا جا سکے اور آنے والی نسلوں کی صحت کے لیے انکی دودھ اور گوشت کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے ۔
کیونکہ جدید تحقیق بھی دوبارہ انسانی صحت کے لیے جسمانی ورزش کے ساتھ دیسی گھی اور خالص قدرتی دودھ کو ہی صحت کا ضامن سمجھتی ہے ۔
مویشی، مال مویشی یا ڈھور ڈنگر ایک یا زیادہ گھریلو جانوروں کے لیے استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے۔ زرعی زبان میں مویشی وہ جز ہے جو خوراک، لحمیات یا مال برداری جیسی پیداور کے لیے مشہور ہو۔ گو اس مقالے میں مویشی کے زمرے میں مرغبانی اور ماہی گیری کو شامل نہیں کیا گیا، لیکن عام طور پر یہ دونوں جز بھی زرعی اصطلاح “مویشی“ کے زمرے میں شامل کیے جاتے ہیں۔ مویشی پالنے کا تصور عمومی طور پر منافع کمانے سے تعلق رکھتا ہے۔ جانوروں کی دیکھ بھال جدید زراعت کا انتہائی اہم جز تصور ہوتا ہے۔ مویشی پالنے کی روایت تاریخ انسانی میں ہر تہذیب میں ملتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ رفتہ رفتہ جب انسان نے شکار کے ذریعے گزر بسر چھوڑی تو مویشی سدھارنے اور پالنے کی روایت نے جنم لیا۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں مویشیوں کی آبادی تقریباً 65 ارب ہے، جس میں مرغیاں اور مچھلیاں شامل نہیں ہیں۔
Pakistan lok Virsa
اور جانوروں کے بارے میں پڑھنے کے لیے لنک کو اوپن کریں 👇👇👇👇
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=259739936803632&id=100083028834066&mibextid=Nif5oz
انوکھی ،دلچسپ ،معلومات
https://www.facebook.com/share/p/3JJUZ9MKoTWfvce7/?mibextid=oFDknk