بیوہ عورتوں کے نفسیاتی مسائل اور انکا حل -
کسی بھی خاتون کا جیون ساتھی اگر کسی وجہ سے وفات پا جائے تو وہ بیوہ کہلاتی ہے۔اپنے ساتھی کی وفات کے بعد جو احساسات وہ محسوس کرتی ہے۔اس میں سب سے پہلے وہ صدمے (Shock) میں چلی جاتی ہے۔وہ Denial Phase میں آجاتی ہے۔اس صدمے کے ماننے سے انکاری ہوتی ہے۔وہ دل ٹوٹ جانے کے درد میں مبتلا ہو جاتی ہے۔اس کو اپنے زندہ رہنے اور اپنے محبت کرنے والے ساتھی کے جانے پہ Guilty محسوس ہونے لگتی ہے۔
وہ ناراض ہو جاتی ہے۔اپنے رب سے شکوہ کرتی ہے۔اور ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔وقتی طور پہ اس کی دنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔اس کو ابھی کوئی راستہ سمجھ نہیں آ رہا ہوتا۔وہ اپنے بچوں کے بارے سوچ کر پریشان ہو جاتی ہے ۔جن کی وہ آج سے ماں ہی نہیں باپ بھی ہے۔باپ خود کو کہنا آسان ہے مگر ثابت کرنا مشکل ہے۔
اس دنیا میں لوگ مشکل میں کام آنے کی بجائے مشکلات میں اضافہ کرتے ہیں۔
بار بار اس کو بیوہ ہونے کا احساس دلا کر رُلاتے ہیں۔طنز کرتے ہیں۔بہت کم لوگ اس کو حوصلہ دیتے ہیں۔یا اس کی مدد کرتے ہیں۔
معاشرے کا کردار
کسی بھی بیوہ عورت کی ذاتی زندگی میں معاشرہ بھی بڑھ چڑھ کے حصہ لیتا ہے۔جس میں اس عورت کے شوہر کے آفس والے،جدھر وہ جاب کرتا تھا یا عدالت والے جن کے پاس وہ اپنا حق لینے کے لئے انصاف مانگنے جاتی ہے یا وہ لوگ جو کل تک اس کے شوہر ک
اگر یہ پوسٹ خواتین تک پہنچ جائے تو کئی جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں ۔ نہ صرف عبایا بلکہ چادر اور دوپٹہ بھی سنبھال کے بیٹھیں ۔ یہ حادثات آئے روز ہوتے ہیں اور خواتین کی لاپرواہی سے ہوتے ہیں ۔
اکتوبر کے بعد جب پت جھڑ دبے پاؤں سب درختوں کے پتوں کو الوداعی جھولا جھلانے لگتی تو ہر طرف سنہری خزاں چھا جاتی ، گاؤں کے سر سبز جنگل بیلے پیلا چولا پہن لیتے ، ہر طرف اک ٹھہراؤ اک اداسی سی چھائی ہوئی لگتی شاید دل آئینہ ہوتا جیسا دیکھتا ویسا بس جاتا اس میں ،
اس سارے اداس منظر میں ، اس سنہری جاڑے میں ہماری طرف کچھ رنگ الگ نظر آتے ہیں جو کہ بہت منفرد اور بہت "لذیز" لگتے ہیں جیسا کہ یہ جنگلی جھاڑی کے سرخ بیر ، یہ کھانے میں جتنے ہی منفرد ہیں ان سے جڑی یادیں اتنی ہی جاندار ہیں ، ان بے شمار یادوں میں سے ایک یاد یہاں تازہ کرتا چلوں،
ہمارے ہاں 90 کی دھائی میں بیشتر لوگ بھیڑ بکریوں کو پالنے کا کام کرتے تھے ، ہر دوسرے گھر ان کا چھوٹا بڑا ریوڑ ہوتا اور ساتھ ہی ان کے "واڑے" بھی ہوتے تھے ، ہمارے ہمسائے میں بھی تین چار ایسے ہی واڑے تھے جو بھیڑ بکریوں سے بھرے رہتے تھے ، گھر ساتھ ایک بابا جی کا گھر تھا وہ بھی دن بھر اپنی بھیڑ بکریوں کو جنگل بیلوں میں چراتے تھے ، ان دنوں سنہری اور گرد آلود شاموں میں ان کی جب واپسی کا وقت ہوتا تو ان بھیڑ بکریوں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں ان کی آمد کی نوید سناتیں ، ساتھ ہی بابا جی کی بھیڑ بکریوں کو بلانے کی آواز آتی تو محلے کے تقریباً سب بچے تیار ہو جاتے کیونکہ ابھی بابا جی گھر کے پاس ہی ہوتے تو اونچی آو
مرد کے دُکھ بڑے بے زبان ہوتے ہیں، خاص کر جب غربت بھی ان دکھوں میں شامل ہو...!!!
کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کی۔ اس کا پہلے شوہر سے ایک تین سالہ بیٹا تھا۔ جب اس عورت نے دوسری شادی کی تو وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے نئے شوہر کے گھر منتقل ہو گئی۔ نیا شوہر بہت امیر تھا، اس لیے اس نے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ اس کا بیٹا بھی ان کے ساتھ رہے۔ شروع میں وہ اس بچے کے ساتھ کھیلتا بھی تھا اور اسے اپنا ہی سمجھتا تھا۔
لیکن ایک سال بعد، جب ان کا اپنا بیٹا پیدا ہوا، تو شوہر کی محبت اور توجہ بدلنے لگی۔ اب وہ اپنے سوتیلے بیٹے سے کترانے لگا اور اس کے ساتھ پہلے جیسا سلوک نہیں کرتا تھا۔ اس کا سارا دھیان اب اپنے حقیقی بیٹے پر تھا۔ ایک دن جب وہ کام سے واپس آیا، تو اپنے بیٹے کے لیے ایک نئی سائیکل لے کر آیا۔ ماں کا دل کٹ گیا جب اس نے اپنے یتیم بیٹے کو اپنے چھوٹے بھائی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے پایا۔
ماں نے شوہر سے درخواست کی کہ وہ اپنے سوتیلے بیٹے کے لیے بھی ایک سائیکل خرید دے، لیکن شوہر نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اس بچے کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اگر ماں نے دوبارہ اس بارے میں بات کی، تو وہ بچے کو گھر سے نکال دے گا۔ ماں نے اپنے بیٹے کے تحفظ کے لیے یہ بات مان لی۔
وقت گزرتا گیا اور دونوں بچے بڑے ہوگئے۔ شوہر نے اپنے حقیقی بیٹے کو ایک بہترین پرائیویٹ اسکول میں داخل کروا دیا، لیکن س
حرام تعلق اسلامی تعلیمات کے خلاف ایک ایسا عمل ہے
حرام تعلق اسلامی تعلیمات کے خلاف ایک ایسا عمل ہے جو
معاشرتی اقدار، اخلاقیات اور مذہبی حدود کی پامالی کا باعث بنتا ہے۔ اسلام ایک پاکیزہ اور متوازن زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے، جہاں ہر انسان کے لیے حدود مقرر کی گئی ہیں تاکہ وہ اپنے کردار کو سنوار سکے اور معاشرے میں فتنہ و فساد سے بچ سکے۔
حرام تعلقات کی کئی اقسام ہیں، جیسے غیر محرم افراد کے ساتھ ناجائز تعلقات، شادی سے قبل محبت یا جسمانی تعلقات، اور ایسے تعلقات جو شریعت کے اصولوں سے متصادم ہوں۔ قرآن و سنت میں ان تعلقات کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
"اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، بے شک یہ بے حیائی ہے اور بہت بری راہ ہے۔" (سورہ الاسراء: 32)
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ نہ صرف زنا بلکہ اس کی طرف لے جانے والے تمام راستے بھی ممنوع ہیں۔
حرام تعلقات سے اجتناب نہ صرف انسان کی دنیاوی زندگی کو سکون بخشتا ہے بلکہ آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حرام تعلقات سے بچنے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
عورتیں اس معاشرے میں 👇👇
https://www.facebook.com/share/p/dT22Ehry2iHwRWWy/?mibextid=oFDknk
محبّت میں آپشنزنہیں ہوتے ❤️❤️
باپ دو دن سے بیٹی کے نمبر پر کال کر رہا تھا مگر نمبر بند تھا ، وہ بیٹی کے سسرال چلا آیا اور پوچھا زارا کہاں ہے ؟ فون بند ہے اس کا ، جبکہ زارا کا دو سال کا بیٹا گھر میں موجود تھا ، ساس اور نندوں نے بتایا دو دن پہلے رات کو کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ، موبائل بھی ساتھ لے گئی ۔ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ، خاموشی سے تلاش کررہے ہیں ۔۔۔
باپ کو یقین نہ آیا ، چار سال پہلے اسنے بہت چاؤ سے اس کے خالہ زاد قدیر سے کی شادی کی تھی اور وہ دونوں بہت خوش تھے ، اس نے تلاش گمشدگی کے لیے پولیس کی مدد لی ، پولیس نے سسرالیوں کے بیان لیے ، ہر ایک کے بیان میں تضاد تھا ، چناچہ زارا کی ساس اور نندوں کو شامل تفتیش کیا گیا جس پر انہوں نے انکشاف کیا کہ زارا بھاگی نہیں بلکہ 11 نومبر کی رات انہوں اس کو مار کر پھینک دیا تھا۔ اور شوہر کو بھی یہی بتایا کہ وہ کسی سے رابطے میں تھی۔ زارا سات ماہ کی حاملہ تھی ، اس کے ساتھ ننھی جان بھی ماری گئی ۔
جھگڑا کیا تھا؟ وہی ساس بہو کی ازلی چپقلش اور نند بھابی کا بیر ۔۔۔ زارا کی پانچ نندیں تھیں اور قدیر ان کا اکلوتا بھائی ۔۔ اور انہوں نے خود زارا کا رشتہ مانگا اور اپنے ہاتھوں سے رخصت کرکے گھر لائیں ۔ جھگڑا پیسے کا تھا ، ان کا خیال تھا ان کا بیٹا سارا خرچ بہو کے ہاتھ رکھتا ہے جبکہ اسے سب کچھ ماں بہنوں کو