Imran & Kamran hajj and umrah services Quetta

بڑھ چڑھ کر حصہ لیں
25/12/2024

بڑھ چڑھ کر حصہ لیں

سعودی فوٹو گرافر عبدالرحمن السھلی سعودی فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ عصر کی نماز ادا کرتے ہوئے زائرین کی تصویر بنائی جس میں ...
24/12/2024

سعودی فوٹو گرافر عبدالرحمن السھلی

سعودی فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ عصر کی نماز ادا کرتے ہوئے زائرین کی تصویر بنائی جس میں نمازی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند نظر آرہے ہیں۔ تمام عمرہ زائرین سجدے کی حالت میں اور احرام میں ہیں۔
صارفین نے اس دلکش منظر پر پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "سجدے کے دوران عمرہ زائرین بکھرے ہوئے سفید موتیوں کی مانند لگ رہے ہیں"۔

ایک طرف مکّے کی سرحد ایک طرف شہرِ نبی
کاش ہوتا میرا گھر آدھا اِدھر آدھا اُدھر بھی _______________

19/12/2024

,,"""""""""""""""""""پاسپورٹ فیس """"""""
پاکستانی شہریوں کے لیے پاسپورٹ حاصل کرنا ضروری ہے اگر وہ سیاحت، ملازمت، امیگریشن یا کسی دوسرے مقصد کے لیے بیرون ملک سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پاسپورٹ ڈائریکٹوریٹ آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹ کی جانب سے جاری کیے جاتے ہیں، جس کے لیے شہریوں کو مخصوص دستاویزات اور فیس ادا کرنا ہوتی ہے۔
جب پاکستانی شہری درست پاسپورٹ کے ساتھ کسی غیر ملکی ملک میں موجود ہوتے ہیں، تو وہ اس ملک میں پاکستان کے سفارتی اور قونصلر نمائندے کے تحفظ کے حق دار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں شہری پاسپورٹ کے لیے قریبی پاسپورٹ آفس سے رجوع کر سکتے ہیں، جہاں تین مختلف کیٹیگریز نارمل، ارجنٹ، اور فاسٹ ٹریک کے تحت پاسپورٹ جاری کیے جاتے ہیں۔
نارمل پاسپورٹ کی 5 سالہ مدت کے لیے 36 صفحات کے ساتھ فیس 4500 روپے ہے، جبکہ ارجنٹ پروسیسنگ کی فیس 7500 روپے ہے۔
10 سالہ مدت کے لیے 36 صفحات والے پاسپورٹ کی فیس 6700 روپے جبکہ ارجنٹ پاسپورٹ کی فیس 11200 روپے ہے۔
72 صفحات والے 5 سالہ پاسپورٹ کی نارمل فیس 8200 روپے ہے، اور ارجنٹ کے لیے 13500 روپے فیس ادا کرنی ہوگی۔
10 سالہ مدت اور 100 صفحات والے پاسپورٹ کے لیے نارمل فیس 12400 روپے اور ارجنٹ کے لیے 20200 روپے مقرر کی گئی ہے۔

حج میڈیکل سرٹیفکیٹ
29/11/2024

حج میڈیکل سرٹیفکیٹ

26/11/2024

*حج 2025 کی اہم تاریخیں*

یکم ذی الحجہ 28 مئی 2025
ذوالحجہ کا آغاز (سال کے بہترین 10 دن)


4 ذی الحجہ 31 مئی 2025
حج 2025 کے لیے عازمین کو لے جانے والی غیر سعودی ایئر لائنز کی پروازوں کے داخلے کا آخری دن

8 ذی الحجہ 4 جون 2025
حج 2025 کا آغاز- منیٰ کا پہلا دن

9 ذی الحجہ 5 جون 2025
حج کا اہم ترین عرفہ کا دن

10 ذی الحجہ 6 جون 2025
حج کا سب سے بڑا دن (غیر حاجیوں کے لیے عید)

11-13 ذی الحجہ 7-9 جون 2025
جمرات اور شیطان کو سنگسار کرنے کے دن

14 ذی الحجہ 10 جون 2025
پہلی پروازیں حج کے بعد روانہ ہوتی ہیں۔

عازمین حج کیلئے خوشخبری ۔۔۔ وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی کاوش سے ڈی جی ایمیگریشن اینڈ پاسپورٹ، (وزارت داخل...
21/11/2024

عازمین حج کیلئے خوشخبری ۔۔۔ وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کی کاوش سے ڈی جی ایمیگریشن اینڈ پاسپورٹ، (وزارت داخلہ) نے پاکستان اور بیرون ملک پاکستان مشن میں قائم پاسپورٹ دفاتر میں عازم حج کے پاسپورٹ کی ترجیحی بنیادوں پر فراہمی کیلئے خصوصی سہولت ڈیسک قائم کر دیے۔
https://www.dgip.gov.pk/aboutus/dgip-hajj-complaints-cell.php

لیبر مفت میں حج کر سکتے ہیں
21/11/2024

لیبر مفت میں حج کر سکتے ہیں

19/11/2024
18/11/2024

حج درخواست کیلئے لازمی کاغذات۔۔ پاسپورٹ و شناختی کارڈ کی کاپی، ایک تصویر، وارث کا شناختی کارڈ، بلڈ گروپ، میڈیکل سرٹیفکیٹ

16/11/2024

حج کا بلاوا۔۔ بلوچستان کے عورتیں

(خواتین کیلئے ایک نئی سوچ سے مزین اچھوتی تحریر حنا ظفر بھٹی کے قلم سے)

کبھی ایسا ہوا نہیں کہ کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ہو تو مناسب الفاظ نہ مل رہے ہوں۔ لیکن اس تحریر کے لیے میں کافی دیر تک تذبذب کا شکار ہی رہی کہ آیا اس موضوع پہ لکھوں یا نہیں۔
نہ لکھنے کی وجہ، ایک ڈر تھا کہ کہیں یہ تحریر، دکھاوے اور نمائش کے زمرے میں نہ آ جائے اور جس نیک کام کا قصد کیا ہے وہ زائل نہ ہوجائے۔ اور پھر لکھنے کی وجہ بھی سورۃ بقرہ کی وہ آیت بنی کہ جس کا مفہوم ہے کہ چھپا کر صدقہ کرنا افضل ہے لیکن کبھی ظاہر بھی کر دیا جائے تاکہ دوسروں کو ترغیب ملے۔ سو پھر ارادہ کیا لکھنے کا، کہ شاید اس تحریر سے کسی کو سوچنے کا ایک نیا رخ ملے، کوئی تحریک ملے سو آج ہمت کر کے قلم اٹھا لیا۔ اب بنا دیر کیے مدعے پہ آتی ہو۔ مضمون اگر طویل ہو جائے تو پیشگی معذرت کہ اپنے مخصوص لکھت کے انداز سے مجبور ہوں، کہ روانی آجائے تو احساس نہیں رہتا مضمون کی طوالت کا۔

ہر سال زکوٰۃ کا حساب کتاب کرتے ہوئے میرا ایک ہی نعرہ ہوتا تھا۔۔۔
"کیا کروں اتنے سونے کا؟ جب پہننا ہی نہیں ہے۔ میں اسے بیچ کر اب بس ترکی کا سولو ٹرپ مارنے جا رہی ہوں۔"
اور امی کی ہر مرتبہ کی وہی جھڑکی"رکھو سنبھال کر بچوں کے کام آئے گا۔۔۔!"
کبھی میں کہتی "بس اب میں یہ سب بیچ کر گاڑی لینے لگی ہوں، کم از کم کام تو آئے گی۔"
اور پھر امی کی گُھرکی "نا شکری ہو تم، اچھے وقتوں میں بن گیا، اب بنانے جاؤ تو پتہ چلے۔ تمہارے بچپن سے جوڑ جوڑ کر بنا رہی تھی۔ رکھو سنبھال کر بہوؤں کو دینا۔۔۔ بیچ کر کچھ نہیں ہاتھ آئے گا، سناروں کا پتہ نہیں تمہیں" چلو جی پوٹلی پھر کسی کونے کھدرے میں غائب اور میرا بس وہی احتجاجی نعرہ "دیکھنا۔ ایک دن یہ سارا کچھ بیچ کر کہیں گھومنے چلی جاؤں گی۔" کبھی کہتی، "ایک دن یہ سب بیچ کر حج کر کے آجاؤں گی، نیک کام میں تو خرچ ہوگا۔"

اور پھر آیا دن ۲۷ نومبر ۲۰۲۳ کا, بروز پیر۔ آفس کے کسی کام کے سلسلے میں گوگل بابا کو چھان پھٹک کر رہی تھی کہ ایک جانب کہیں سے اشتہار "پاپ اپ" ہوا۔
"حج درخواستیں ۲۷ نومبر سے بنکوں میں وصول کی جا رہی ہیں۔"
سرسری سی نظر ڈالی اور بے اختیار ہی ہاتھ گوگل بابا سے کچھ سوالات پوچھنے لگ گئے جن کے جواب، مختلف مفتیانِ کرام کی ویب سائٹس سے فتووں کی صورت کم و بیش ایک جیسے ہی ملے۔۔۔ اور پھر میرے جادوئی بیگ سے نکلی یو-ایس-بی اور ایک مخصوص فولڈر کو انگلیاں کلک کرنے لگیں۔
اس بات سے تو کوئی انکار نہیں کرے گا کہ مائیکروسافٹ ایکسل استعمال کرنے والا ہر شخص تھوڑا سا مُنشی ضرور ہوتا ہے۔ اور پھر مجھے تو گاگا(خالہ) مرحومہ کی بدولت بچپن کی عادت ہے، حساب کتاب لکھنے کی اور بجٹ بنانے کی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میری امی اور گاگا مرحومہ ڈائری پہ حساب کتاب کرتی تھیں۔ میں نے اپنی ایکسل کی شیٹ بنا لی ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی پیسوں کی پُڑیاں بنا لیا کرتی تھیں ہر کام کے لیے الگ الگ، میں نے بھی الگ الگ بٹوے بنا لیے ہیں۔
بہرحال، فٹافٹ ایکسل کی شیٹ کھولی، گوگل سے سونے کے ریٹ لیے، اور پہلے سے فارمولا لگی تیار شیٹ میں ریٹ ڈال کر کُل اثاثے کا حساب کتاب لگایا۔ کچھ کیلکولیشن کی، پھر پراوڈنٹ فنڈ چیک کیا۔۔۔ نا امیدی سی ہوئی ۔۔۔ لیکن پھر تاریخیں دیکھیں۔۔ اگلے کچھ مہینوں کی متوقع تنخواہ کا حساب کتاب لگایا اور امّی کو کال لگا دی۔
"امّی، میں کل چھٹی کر رہی ہوں، آپ نے میرے ساتھ چلنا ہے، ہم گولڈ بیچ کر آیئں گے۔ مجھے حج پہ جانا ہے۔"
اور امّی کی اس مرتبہ صرف اتنی آواز آئی۔ "دیکھ لو بیٹا، جتنا اندازہ تم لگا رہی ہوگی، اتنے کا نہیں بکتا سونا۔۔۔"
اور میں نے انہیں تسلّی دی کہ "اللّٰہ مالک ہے۔"
یہ فیصلہ لینے میں بمشکل مجھے آدھے سے پونہ گھنٹہ لگا ہوگا، لنچ ٹائم چل رہا تھا۔ جب آفس میں، میں اکیلی بیٹھی یہ حساب کتاب کر رہی تھی۔ امّی کو جس وقت کال کی اس ہی وقت میرے کولیگ آفس میں داخل ہوئے تھے اور میری گفتگو سن کر حیرت سے دیکھنے لگے۔ ان کی حیرت کی وجہ یہ تھی کہ کچھ دن پہلے ہی وین والے سے تلخ کلامی کے باعث میں اُن کے پیچھے پڑی تھی کہ "آپ مجھے ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی دلوا دیں، میں پراوڈنٹ فنڈ سے پیسے نکلوا کر لے لوں گی یا کچھ گولڈ بیچ دوں گی، اب بس وین چھوڑ دوں گی۔" میں نے فون رکھا تو ڈپٹ کر کہنے لگے۔ "پاگل، پہلے گاڑی تو مل جائے پھر بیچ آنا گولڈ۔"
میں نے مسکراتے ہوئے ان کی طرف دیکھا اور کہا۔۔۔ "گاڑی واڑی تو چھوٹی چیز ہے طلحہ بھائی، اب میں حج پہ جا رہی ہوں۔" ان کا حیرت سے منہ کھُل گیا۔۔
"یہ بیٹھے بیٹھے کیا ہوا بھئی؟ صبح تک تو ایسی کوئی خبر نہیں تھی۔" میں نے کہا۔۔۔ مجھے بھی بس ابھی آدھا گھنٹہ پہلے پتہ چلا ہے۔
خیر وہ عادی ہیں میرے ایسے "اچانک میں بھیانک" والے اعلانات کے۔ کیونکہ میرے پہاڑوں پہ جانے کے پلان بھی ایسے ہی بنتے ہیں، اچانک ایک دن اعلان ہوجاتا ہے کہ میں فلاں دن سے نہیں آؤں گی، بچے لے کر جا رہی ہوں پہاڑوں پہ۔ اس لیے وہ زیادہ دیر حیرت میں نہیں رہے۔ باس کو مطلع کردیا گیا اگلے دن کی چھٹی کا، وجہ نہیں بتائی، اور میں اور امّی اگلے دن مشن پہ چل نکلے جو الحمدللہ میری توقع سے بھی زیادہ بہت احسن طریقے سے مکمل ہوا۔ پراوڈنٹ فنڈ آنے میں ڈیڑھ سے دو مہینہ لگ جاتا اور درخواست جمع کروانے کی تاریخ نکل جاتی۔ سو اس کے اگلے دن میں نے آفس میں لون کی درخواست جمع کروا دی۔ اور ضرورت کے لیے امی سے رقم ادھار لے لی تاکہ حج درخواست بروقت جمع کروادی جائے، اور امی کی رقم، پراویڈنٹ فنڈ سے ادھار آنے پر امی کو لوٹا دی جائے۔ ساتھ ہی امی نے بھی عندیہ دے دیا کہ "میں بھی چلوں گی۔ مجھے بھی لے کر جاؤ۔" اس تمام کام میں مجھے تین دن لگ گئے۔۔۔
اور پھر اس ہی شام، جب میں ہاسپٹل سے گھر پہنچی تو سبحان صاحب چائے کے ساتھ کیک رس نوش فرما رہے تھے میں نے ان پہ بعد از سلام اچانک یہ خوشگوار بم گرادیا۔۔۔ "سبحان صاحب، تیاری پکڑ لیں، ہم حج پہ جا رہے ہیں۔۔۔"
یہ سن کر سبحان صاحب کے کیک رس نے فرطِ جذبات میں آ کر چائے میں ہی خود کشی کر لی۔ وہ ہڑبڑا کر بولے۔۔۔
"ہیں؟ ایسے اچانک؟ بیگم؟ حج تو نہیں، انشاء اللہ حج بھی کریں گے، لیکن ابھی ایسا کرتے ہیں عمرہ پہ چلتے ہیں، میں بھی اپنا پراوڈنٹ فنڈ چیک کرتا ہوں، تم بھی دیکھ لو۔۔۔ پھر بچوں کو لے کر چلتے ہیں۔۔۔" اور میں نے انہیں تسلّی دے کر کہا۔۔۔
"سبحان صاحب، میں پوچھ نہیں رہی، بتا رہی ہوں۔ ہم دونوں اور امی حج پہ جا رہے ہیں۔ اب بس آپ نے درخواستیں جمع کروانے والے کام کرنے ہیں۔ "
درخواستیں جمع ہوئیں، قرعہ اندازی ہوئی، اور اللّٰہ نے ہمیں عندیہ دیا اپنے گھر مہمان کرنے کا۔ یہ سب آناً فاناً ایسے ہوا کہ میں بھی اب حیران ہوتی ہوں کہ یہ میں نے کِیا کیا؟ ایسے اچانک؟ بس بیٹھے بٹھائے؟ یہ اثاثہ تو ہمیشہ سے تھا میرے پاس، اور کہا بھی کرتی تھی کہ کبھی اسے بیچنے کی نوبت آئی تو حج کر کے آؤں گی، تو انتظار کس بات کا تھا؟ پہلے کیوں نہیں؟
بہرحال۔۔۔ اس پوری جدوجہد کی کہانی میں کہیں کہیں آپ کو رنگ نظر آرہا ہوگا ایک مڈل کلاس گھرانے کا۔ پاکستان کی نصف سے زیادہ آبادی ہم اور آپ جیسی ہی ہے۔ مڈل کلاس، روز کی جدوجہد کرنے والے، اور اب تو میاں بیوی دونوں مل کر گھر کر چلانے والے۔ ہم اشرافیہ میں سے نہیں جوجب دل چاہا من کی مراد پوری کر لی۔ ہمیں ایسی ہی کوششیں کرنی ہوتی ہیں اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کے لیے۔ رزق حلال کمانے والوں کو کہیں نا کہیں تو سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ سو میں نے گاڑی پہ کر لیا۔۔۔ اور وین والے انکل سے صلح کر لی۔ 😜
اب آتے ہیں اس تحریر کو بیان کرنے کے دو مقاصد کی طرف۔
پہلا، جس دن گولڈ بیچ کر میں اور امّی واپس گھر کو آ رہے تھے تب آنکھوں میں آنسو آنا شروع ہوگئے اپنے رب کی رحمت پہ کہ کیسے بیٹھے بٹھائے بلا لیا۔۔۔ ایک خیال اور آیا تو آنسوؤں میں شدت آگئی کہ کاش، اس سے زیادہ کی گنجائش ہوتی تو دونوں بیٹوں کو بھی ساتھ لے کر جاتی۔
اب لکھاری ہو، اور اوور تھنکر نہ ہو ممکن ہی نہیں۔ اور کچھ خیالات ایسے ہوتے ہیں جو اللّٰہ آپ کے ذہن میں ڈالتا ہے۔ سو اس لمحے بھی کچھ ایسا ہی ہوا میرے ساتھ۔ اگلا خیال خودبخود میرے ذہن میں اترا اور مجھے پر سکون کر گیا۔ غور کریں تو اللّٰہ کی فرائض کی تقسیم کتنی پیاری ہے۔ اللّٰہ نے حقوق اللّٰہ کے لیے عمر کی تقسیم کتنی منصفانہ رکھی ہے ، سبحان اللہ ۔
اسلام کے پانچ ارکان۔ توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔
توحید: بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان کی آواز دی جاتی ہے کہ دنیا میں آنے والی روح کو معلوم ہو کہ مسلمان کے گھر پیدائش ہوئی ہے۔ بچہ بولنا شروع کرتا ہے تو اسے "اللّٰہ ایک ہے" کا سبق سکھایا جاتا ہے، کلمہ سکھایا جاتا ہے۔ یعنی کہ اس معصوم عمر تک کے لیے صرف یہی ایک فرض رکھا کہ اللّٰہ اور اس کے نبی پہ ایمان لانے کی ذمہ داری پوری کرے۔
نماز: بچہ ذرا ہوشمند ہو، جسمانی مشقت میں سے صرف نماز فرض کی گئی۔ یعنی کہ سات سال سے بارہ سال تک کی عمر تک آئے تو صرف نماز کی زمہ داری ہے اس پہ، نہ پڑھے تو سختی کا حکم ہے۔ یعنی خدانخواستہ ، اللّٰہ نہ کرے۔ اس عمر میں کوئی بچہ خالق حقیقی سے جا ملے تو اس سے صرف دو سوال ہوں گے؟ ایمان اور نماز کا؟
روزہ: بالغ ہونے کے بعد روزہ کی فرضیت کا حکم۔ یعنی جب جسم اس قابل ہو کہ بھوک برداشت کر سکے تو اس کے بعد روزہ فرض ہوا۔ اس سے پہلے کی عمر پہ اس جسمانی مشقت کا بوجھ نہیں ڈالا۔
اور پھر زکوٰۃ اور حج: جب مالدار ہو، صاحب نصاب ہو تب زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم، اگر کوئی شخص مالدار ہی نہ ہو تو زکوٰۃ فرض ہی نہیں، کوئی سوال نہیں۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں۔ اور حج کے لیے بھی یہی شرط کہ اگر اتنا اسباب ہو کہ حج کا آنا جانا، رہائش کا خرچ، اور پیچھے چھوڑ کر جانے والے کنبہ کے خرچ کا بندوبست ہو، تو پھر حج فرض کیا گیا۔ ورنہ جس کے پاس اثاثہ ہی نہیں۔ اس سے تو حج کا سوال بھی نہیں ہوگا۔ سبحان اللّٰہ ۔
بس یہ خیال آیا تو دل کو خود ہی سکون آگیا کہ بچوں پہ تو ابھی حج فرض ہی نہیں ہوا، جب صاحب نصاب ہوں گے، زکوٰۃ کی ادائیگی پہلے آئے گی، پھر انشاء اللہ ، اللّٰہ نے چاہا تو دونوں اپنے بَل پہ خود حج کا فریضہ بھی ادا کریں گے۔ انشا اللّہ۔
اس تحریر کی لکھت کا دوسرا مقصد جو بیان کرنے لگی ہوں، اس کے لیے میں پہلے ہی عرض کرنا چاہتی ہوں کہ میری بھی معلومات بہت محدود ہیں، اور جتنا علم اس تمام عرصے میں میں نے سیکھا، مفتیان کرام کے فتووں سے، یا بذات خود کسی مفتی سے بات کر کے اس کا خلاصہ کی بنیاد پہ ہی اپنا نقطہ نظر پیش کر رہی ہوں۔ اختلاف رائے ضرور کیجیے گا لیکن کوشش کر کے دلیل کی صورت اور تمیز کے دائرے میں۔ لکھنے کا خیال صرف اس لیے آیا کہ کچھ لوگوں سے جب سنا کہ "ہمارے لیے بھی دعا کرنا، اللّٰہ ہمارے لیے بھی اسباب پیدا کرے۔" تو چاہ کر بھی کسی کو وہ کچھ نہیں کہہ سکی جو کہنا چاہتی تھی، کیونکہ قبر کا حال مردہ جانتا ہے۔ کیا معلوم، جو مجھے نظر آرہا ہو، حالات ویسے نہ ہوں۔ ہر شخص کی الگ کہانی اور الگ جدوجہد ہے۔ ہاں لکھنا مناسب اس لیے سمجھا کیونکہ یہ ایک عام بات ہوگی، کسی ایک کی طرف اشارہ نہیں ہوگا، تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔
اس تمام عمل سے گزر کر کچھ باتیں جو مجھے معلوم ہویئں ان کے کچھ مرکزی نقاط ذیل میں تحریر کر رہی ہوں۔
۱. سب سے پہلی بات جو میرے علم میں آئی تھی وہ یہ کہ بیوی کا حج، شوہر کی ذمہ داری نہیں ہے۔ شوہر اپنی حیثیت کے مطابق اگر کروادے تو اس کی نیکی ہے، اور باعث ثواب ہے۔ یہ ویسی ہی مثال سمجھی جائے جیسے عورت پہ ساس سسر کی خدمت فرض نہیں ہے، لیکن وہ اگر کرتی ہے تو اس کا حسن اخلاق ہے، باعثِ ثواب ہے۔
۲. عورت پہ حج فرض ہونے کی شرائط میں شامل ہے کہ اس کے پاس اتنے اخراجات ہوں کہ وہ اپنے ساتھ ایک محرم کا آنے جانے کا خرچ، اور رہائش کے اخراجات بھی اٹھا سکے۔ کیونکہ ویسے تو اب سعودی گورنمنٹ نے محرم کے معاملات میں کافی نرمی اختیار کر لی ہے لیکن ہم جن گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارا دل نہیں مانتا اتنے بابرکت سفر پہ بنا محرم کے جایا جائے۔ ہاں اگر محرم کے پاس اپنے جانے کا خرچ ہے تو عورت اس صورت میں بھی محرم کے ساتھ اپنے خرچ پہ جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہاں تک کہ عورت کے سونے کے زیورات پہ دی جانے والی زکوٰۃ بھی مرد کی ذمہ داری نہیں۔
۳. حج کی قربانی دم شکر کہلاتی ہے، یہ اس سالانہ قربانی سے الگ ہے جو ہر سال ہم بقر عید پہ کرتے ہیں۔ حج کے اخراجات کے بعد بھی اگر آپ صاحب نصاب ہیں تو یہ قربانی آپ پہ اب بھی ادا کرنی واجب ہے۔
۴.حج کی کلاسز لینے کے دوران یہ بھی میرے علم میں آیا کہ اگر ایک شخص صاحبِ نصاب ہو گیا کہ حج پہ آنے جانے کا خرچ اور رہائش کا بندوبست کر لے اور گھر والوں کے خرچ کا بھی بندوبست کر سکے تو اس پہ حج فرض ہو گیا۔ لیکن وہ سوچتا ہے کہ ابھی تو پیسہ آیا ہے، گھر بنا لوں اگلے سال حج پہ چلا جاؤں گا ، اگلے سال بھی گاڑی پہ خرچ کردیا اس ہی سوچ کے ساتھ اور اگلے سال پھر حالات ویسے نہیں رہے، تو چونکہ اس پہ حج فرض ہو چکا تھا، وہ اپنی سُستی کی وجہ سے نہیں گیا تو اب اس پہ واجب ہے کہ حج کرے چاہے قرض ہی کیوں نہ لینا پڑے (واللہ اعلم باالصواب)
یہ تو کچھ چیدہ چیدہ باتیں تھیں جو میرے علم میں بھی ابھی آئی تھیں تو صدقہ جاریہ کی نیت سے آگے بڑھانا مناسب سمجھا۔ اب میری بہت سی بہنوں کے ذہن میں سوال آئے گا کہ عورت اپنا خرچ کیسے اٹھائے، ہر کوئی تو حنا کی طرح نوکری نہیں کرتی۔ تو یقین جانیے میرے ذہن میں بھی یہ سوال آیا تھا۔ لیکن پھر وہی بات، لکھاری، اوور تھنکر اور اللّٰہ کی مہربانی کہ فوراً ہی اگلے خیال نے اس کا جواب بھی دے دیا۔
اسلام نے ہر مسئلہ کا اتنا سیدھا سیدھا طریقہ رکھا ہے، عورت کا جیب خرچ، نان نفقہ شوہر کے ذمہ لگا دیا۔ باپ کی جائیداد میں، شوہر کی جائیداد میں یہاں تک کے بیٹے کی جائیداد تک میں سے عورت کا حصہ رکھا۔ اگر عورت کا یہ حق ذمہ داری سے اسے ملتا رہے تو کیوں نہیں ہو گی صاحب حیثیت؟ اسلام نے عورتوں کے کام کو بھی برا نہیں سمجھا، نہ تعلیم کو۔ حضرتِ خدیجہ رضہ ایک بزنس وومن تھیں، اگر ان کا کاروبار کرنا اسلام کی نظر میں نا پسندیدہ ہوتا تو ہمارے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان سے عقد نہ کرتے۔ اگر عورت کا صاحب حیثیت ہونا اسلام میں نا پسندیدہ ہوتا تو حج جیسے فریضہ کے لیے کیوں شرط رکھی جاتی عورت کے صاحب نصاب ہونے کی؟ یا قرآن کے ذریعے یہ پیغام کیوں دیا جاتا کہ مرد کی کمائی میں عورت کا حصّہ ہے لیکن عورت کی کمائی میں مرد کا حصّہ نہیں، سوائے اس کے جو وہ اپنی مرضی سے دے۔ عورت کو اس کا حق ذمہ داری سے ملتا رہے تو وہ صاحب نصاب، صاحب حیثیت ضرور ہوگی۔

دوسری بات، بہنوں، ٹیکنیکلی اور تھوڑا سا لوجیکلی بھی، ہم عورتیں اپنے مردوں سے پہلے صاحب حیثیت ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ شادی بیاہ میں سونا، زیورات، نقد تحائف، حق مہر وغیرہ عورت کو ملتا ہے۔ میکہ سے بھی اور سسرال سے بھی۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں (بر صغیر پاک و ہند) کی وجہ سے کچھ روایات آج بھی زندہ ہیں جو اسلامی تو نہیں لیکن اب تک چلی آرہی ہیں بوجہ آزادی کے زمانہ سے پہلے کی تہذیب کے۔ جس میں خواتین کو شادی بیاہ پہ بھر بھر کر سونا چڑھانا اور جہیز دینا سر فہرست ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم بھی اب تک وہی چلا آرہا ہے جو آہستہ آہستہ اپنی شکل تبدیل کر رہا ہے۔ مرد حضرات تو وہی نو سے پانچ کی نوکری میں پھنسے رہتے ہیں، جس گھر میں رہ رہے ہیں وہ بھی والد صاحب کی مرہون منت ہے۔ اپنے پیروں پہ کھڑے ہوتے ہوتے، اپنا گھر بناتے بناتے آج بھی پاکستانی مرد رٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جاتا ہے۔ تب کہیں جا کر رٹائرمنٹ کا پیسہ ہاتھ آتا ہے اور حج عمرے کا خیال بھی۔ لیکن عورت پھر بھی اکثر شادی کے روز سے ہی مالدار ہوتی ہے (بشرطیکہ ،اس غریب کے زیورات کی ملکیت اس سے چھین نہ لی جائے)۔ تو ہمارے میاں حضرات تو شاید حج کے سوال جواب سے بچ جایئں لیکن ہم عورتوں سے تو سوال ہوگا کہ بی بی جب اثاثے موجود تھے تو فرض کیوں نہ ادا کیا؟
بس یہی بات تھی جو میں کچھ خواتین کو بلا جھجھک منہ پہ نا کہہ سکی، شاید لکھ کر سمجھانے میں کامیاب ہو گئی ہوں۔ بہنوں، بھائیوں گھر بھی بن جائے گا، گاڑی بھی آجائے گی، بچے بھی پڑھ لکھ جایئں گے لیکن موت بنا بتائے، بنا وارننگ دیے آئے گی۔ سو اپنے کرنے کے کام پہلے کر لیں؟ اللّٰہ کے کرنے کے کام اس پہ چھوڑ دیتے ہیں۔ بے شک اللّٰہ ہر جگہ موجود ہے لیکن یہاں بیٹھ کر مانگنے میں اور وہاں بیٹھ کر مانگنے میں کچھ تو فرق ہوگا۔
اللّٰہ تعالیٰ آپ سب کو بھی اپنے گھر کا مہمان کرے آمین۔
باقی یہ کہ میری کسی بات سے اختلاف ہو تو ضرور آپ کو حق ہے، تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوڑے بنا مثبت تنقید کیجیے۔ کم علم ہوں، اور سیکھ رہی ہوں، تو میرے ناقص علم میں بھی اضافہ کیجیے۔ دعاؤں میں یاد رکھیے کہ اللّٰہ تعالیٰ میرا آگے کا سفر آسان بنائے۔
آمین۔
دعاؤں کی طلبگار
حنا ظفر بھٹی
۱۹ مئی ۲۰۲۴

Highlights of Islam

جنت البقیع قبرستان میں جانے کے لیے عصر اور فجر کی نمازوں کے فورا بعد گیٹ کھولا جاتا ہے۔۔۔مقررہ وقت پر پہنچ کر زیارت کا ش...
16/11/2024

جنت البقیع قبرستان میں جانے کے لیے عصر اور فجر کی نمازوں کے فورا بعد گیٹ کھولا جاتا ہے۔۔۔
مقررہ وقت پر پہنچ کر زیارت کا شرف حاصل کریں۔۔۔۔❤️

بلا معاوضہ ہماری ٹیم خدمات فراہم کر سکتی ہے
15/11/2024

بلا معاوضہ ہماری ٹیم خدمات فراہم کر سکتی ہے

مکمل حج فارم بمع میڈیکل فٹنس کا نمونہ وزارت کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جائے گا نیز 18 نومبر سے بینکوں میں دستیاب ہو گا
13/11/2024

مکمل حج فارم بمع میڈیکل فٹنس کا نمونہ وزارت کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جائے گا نیز 18 نومبر سے بینکوں میں دستیاب ہو گا

نئی حج پالیسی
11/11/2024

نئی حج پالیسی

حج 2025 پالیسی کا اعلان

Address

Jalal Ud Din Corner Pateal Road Quetta
Quetta
0812

Telephone

+92812830281

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Imran & Kamran hajj and umrah services Quetta posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Imran & Kamran hajj and umrah services Quetta:

Share

Category