پاکستان کے شمالی علاقہ جات

پاکستان کے شمالی علاقہ جات پاکستان کا شمال ـ دنیا میں سیاحوﮞ کی جنت

پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی آبادی 11 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جبکہ اس کا کل رقبہ 72971 مربع کلومیٹر ہے ‘ اردو کے علاوہ بلتی اور شینا یہاں کی مشہور زبانیں ہیں۔ گلگت و بلتستان کا نیا مجوزہ صوبہ دوڈویژنز بلتستان اور گلگت پر مشتمل ہے۔ اول الذکر ڈویژن سکردو اور گانچے کے اضلاع پر مشتمل ہے جب کہ گلگت ڈویژن گلگت،غذر،دیا میر، استور اورہنزہ نگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ شمالی علاقہ جات کے شمال مغرب میں افغانستان

کی واخان کی پٹی ہے جو پاکستان کو تاجکستان سے الگ کرتی ہے جب کہ شمال مشرق میں چین کے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا ایغورکا علاقہ ہے۔ جنوب مشرق میں مقبوضہ کشمیر، جنوب میں آزاد کشمیر جبکہ مغرب میں صوبہ خیبر پختونخوا واقع ہیں۔ اس خطے میں سات ہزار میٹر سے بلند 50 چوٹیاں واقع ہیں۔ دنیا کے تین بلند ترین اور دشوار گزار پہاڑی سلسلے قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش یہاں آکر ملتے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی اسی خطے میں واقع ہے۔ جب کہ دنیا کے تین سب سے بڑے گلیشئیر بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔

گلگت بلتستان کے حدود میں داخل ہونے والے سیاحوں کو فیس ادا کرنا ہوگا نوٹیفکیشن جاری گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہونے وا...
31/12/2024

گلگت بلتستان کے حدود میں داخل ہونے والے سیاحوں کو فیس ادا کرنا ہوگا

نوٹیفکیشن جاری

گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہونے والے غیر مقامی سیاحوں کی گاڑیوں سے 2 ہزار جبکہ موٹر سائیکلز پر سوار فی سیاح سے 5 سو روپے فیس وصول کرنے کا فیصلہ

سیاحت پر حملہ گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہونے والے غیر مقامی سیاح کی گاڑی سے 2 ہزار اور موٹر سائیکل پر سوار فی سیاح س...
31/12/2024

سیاحت پر حملہ

گلگت بلتستان کی حدود میں داخل ہونے والے غیر مقامی سیاح کی گاڑی سے 2 ہزار اور موٹر سائیکل پر سوار فی سیاح سے 5 سو روپے فیس وصولی کا نوٹیفکیشن جاری

سکردو کی کٹپنا جھیل اور صحرا کا ایک ساتھ خوبصورت منظر
31/12/2024

سکردو کی کٹپنا جھیل اور صحرا کا ایک ساتھ خوبصورت منظر

ہنزہ (کریم آباد) میں اس وقت منفی °12 درجہ حرارت ہے
31/12/2024

ہنزہ (کریم آباد) میں اس وقت منفی °12 درجہ حرارت ہے

سکردو میں دریائے سندھ کی تازہ برفباری کے بعد کی موجودہ صورتحال
30/12/2024

سکردو میں دریائے سندھ کی تازہ برفباری کے بعد کی موجودہ صورتحال

سکردو کی موجودہ صورتحال
28/12/2024

سکردو کی موجودہ صورتحال

دریائے نیلم موسمِ سرما میں
28/12/2024

دریائے نیلم موسمِ سرما میں

استور کے تریشنگ گاؤں سے نانگا پربت
28/12/2024

استور کے تریشنگ گاؤں سے نانگا پربت

مار سور راک - حسین آباد (سکردو)
28/12/2024

مار سور راک - حسین آباد (سکردو)

عطا آباد جھیل کا ایک منظر
28/12/2024

عطا آباد جھیل کا ایک منظر

25/12/2024

حادثات کے پیش نظر موٹروے ایم ٹو کلر کہار سالٹ رینج میں ٹنل بنانے کا فیصلہ

سالٹ رینج کلر کہار پر 10 کلومیٹر طویل ٹنل بنانے کے لیے تین کمپنیوں نے فیزبلٹی سٹڈی مکمل کرلی
اس ٹنل کے بننے کے بعد اسلام آباد لاہور کا راستہ 25 سے 35 منٹ کم ہو جائے گا اور حادثات میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔

روایتی تہوار جشن مہ فنگ کے موقع پر بلتستان میں علاقہ مکینوں کا قیدی نمبر 804 سے محبت کا دلفریب انداز
23/12/2024

روایتی تہوار جشن مہ فنگ کے موقع پر بلتستان میں علاقہ مکینوں کا قیدی نمبر 804 سے محبت کا دلفریب انداز

اسلام آباد محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 22 دسمبر کو سال 2024 کا چھوٹا ترین دن اور دسمبر کی 23 تاریخ سب سے لمبی رات ہوگی۔م...
22/12/2024

اسلام آباد محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 22 دسمبر کو سال 2024 کا چھوٹا ترین دن اور دسمبر کی 23 تاریخ سب سے لمبی رات ہوگی۔
محکمہ موسمیات نے بتایا کہ 22 دسمبر کو سورج سات بج کر چھ منٹ پر طلوع ہوگا اور پانچ بج کر 14 منٹ پر غروب ہوگا، جس کا ک±ل دورانیہ 10 گھنٹے آٹھ منٹ کا ہوگا۔
رات کا دورانیہ 13 گھنٹے 52 منٹ کا ہوگا۔23 دسمبرسے دن کا دورانیہ بڑھنا اور رات کا دورانیہ کم ہونا شروع ہو جائے گا۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے 21 مارچ 2025 کو دن اور رات کا دورانیہ برابر ہوجائے گا۔
اور
پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں 22 ستمبر دن اور رات کا دورانیہ برابر ہو جاتا ہے ۔ دن اور رات بارہ بارہ گھنٹے پر مشتمل ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق سورج سال میں دو مرتبہ 22 مارچ اور 22 ستمبر کو خط استواء پرہوتا ہے اور اس روز رات اور دن کا دورانیہ برابر ہوتا ہے۔ پاکستان میں 22 مارچ کے بعد دن کا دورانیہ بڑھنے اور رات کا دورانیہ گھٹنے لگتا ہے اور اسی طرح 22 ستمبر کے بعد دن کا دورانیہ کم ہونے لگتا ہے جبکہ راتوں کا دورانیہ طویل ہونے لگتا ہے۔

شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم ...
21/12/2024

شاہراہ قراقرم -محض ایک سڑک نہیں !
اس عظیم الشان سڑک کی تعمیر کا آغاز 1966 میں ہوا اور تکمیل 1978 میں ہوئی۔ شاہراہ قراقرم کی کُل لمبائی 1,300 کلومیٹر ہے جسکا 887 کلو میٹر حصہ پاکستان میں ہے اور 413 کلومیٹر چین میں ہے۔ یہ شاہراہ پاکستان میں حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور ہری پور ہزارہ, ایبٹ آباد, مانسہرہ, بشام, داسو, چلاس, جگلوٹ, گلگت, ہنزہ نگر, سست اور خنجراب پاس سے ہوتی ہوئی چائنہ میں کاشغر کے مقام تک جاتی ہے۔
اس سڑک کی تعمیر نے دنیا کو حیران کر دیا کیونکہ ایک عرصے تک دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں یہ کام کرنے سے عاجز رہیں۔ ایک یورپ کی مشہور کمپنی نے تو فضائی سروے کے بعد اس کی تعمیر کو ناممکن قرار دے دیا تھا۔ موسموں کی شدت, شدید برف باری اور لینڈ سلائڈنگ جیسے خطرات کے باوجود اس سڑک کا بنایا جانا بہرحال ایک عجوبہ ہے جسے پاکستان اور چین نے مل کر ممکن بنایا۔
ایک سروے کے مطابق اس کی تعمیر میں 810 پاکستانی اور 82 چینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق شاہراہ قراقرم کے سخت اور پتھریلے سینے کو چیرنے کے لیے 8 ہزار ٹن ڈائنامائیٹ استعمال کیا گیا اور اسکی تکمیل تک 30 ملین کیوسک میٹر سنگلاخ پہاڑوں کو کاٹا گیا۔
ہم چار دوستوں نے کچھ دن قبل خنجراب پاس سے حسن ابدال تک اس شاہراہ کے پاکستانی 810 کلومیٹر والے حصے پر سفر کا شرف حاصل کیا جو کہ ہماری زندگی کا بہترین سفر تھا۔
یہ شاہراہ کیا ہے؟ بس عجوبہ ہی عجوبہ!
کہیں دلکش تو کہیں پُراسرار, کہیں پُرسکون تو کہیں بل کھاتی شور مچاتی, کہیں سوال کرتی تو کہیں جواب دیتی۔۔۔۔۔
یہ سڑک اپنے اندر سینکڑوں داستانیں سموئے ہوئے ہے, محبت, نفرت, خوف, پسماندگی اور ترقی کی داستانیں!!
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ
"انقلاب فکر و شعور کے راستے آیا کرتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کا انقلاب تو سڑک کے راستے آیا"
شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے آپ کا تجسس بڑھتا ہی جاتا ہے کبھی پہاڑوں کے پرے کیا ہے یہ دیکھنے کا تجسس تو کبھی یہ جاننے کا تجسس کہ جب یہ سڑک نہیں تھی تو کیا تھا؟ کیسے تھا؟ اسی سڑک کنارے صدیوں سے بسنے والے لوگوں کی کہانیاں سننے کا تجسس تو کبھی سڑک کے ساتھ ساتھ پتھروں پر سر پٹختے دریائے سندھ کی تاریخ جاننے کا تجسس !!
شاہراہ قراقرم کا نقطہ آغاز ضلع ہزارہ میں ہے جہاں کے ہرے بھرے نظارے اور بارونق وادیاں "تھاکوٹ" تک آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔
تھاکوٹ سے دریائے سندھ بل کھاتا ہوا شاہراہ قراقرم کے ساتھ ساتھ جگلوٹ تک چلتا ہے پھر سکردو کی طرف مُڑ جاتا ہے۔
تھاکوٹ کے بعد کوہستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے جہاں جگہ جگہ دور بلندیوں سے اترتی پانی کی ندیاں سفر کو یادگار اور دلچسپ بنانے میں اہم ہے ۔

📌 پاکستان میں پہلی مرتبہ ہاٹ ائیر بیلون لانچ کردیا گیا، یہ ایڈونچر  #سیاحت کے شوقین افراد کے لئے کسی عجوبہ سے کم نہیں۔تف...
21/12/2024

📌 پاکستان میں پہلی مرتبہ ہاٹ ائیر بیلون لانچ کردیا گیا، یہ ایڈونچر #سیاحت کے شوقین افراد کے لئے کسی عجوبہ سے کم نہیں۔

تفصیلات کے مطابق دنیا کے بلند ترین ہارٹ ایئر بیلون کو پاکستان میں پہلی مرتبہ سیاحتی مقام پر لانچ کردیا گیا، ضلع مانسہرہ کے تاریخی مقام بالاکوٹ میں پاکستان کے پہلے ہاٹ ائیر بیلون کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔

یہ پاکستان میں ونٹر ٹورازم اور بین الاقوامی سیاحت کے فروغ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔

بیلون پائلٹ عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ایڈونچر کے شوقین سیاحوں کو اب بیرون ممالک جانے کی ضرورت نہیں، وہ ہاٹ ائیر بیلون میں بیٹھ کر دریائے کنہار سمیت کاغان ویلی کے بلندو بالا سیاحتی مقامات کے دلکش نظاروں سے خوب لطف اندوز ہو سکیں گے۔

یاد رہے ترکی، تھائی لینڈ اور چائنہ جیسے ملک دنیا بھر سے ہاٹ ائیر بلوننگ کے ذریعے سیاحوں کی دلچسپی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

خیال رہے ہاٹ ایئر بیلون رائیڈز پیشہ ورانہ کمپنیاں چلاتی ہیں جو اپنے صارفین کو محفوظ اور پرلطف تجربات فراہم کرنے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ یہ کمپنیاں جدید آلات استعمال کرتی ہیں اور سخت حفاظتی پروٹوکول پر عمل کرتی ہیں، تاکہ مسافر پرواز کے دوران اپنی حفاظت اور آرام کے بارے میں پراعتماد رہ سکیں۔

نانگا پربتدنیا کا سب سے بے رحم پہاڑ جسے “قاتل پہاڑ” کا لقب دیا گیا ہے۔‎پاکستان میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 ...
21/12/2024

نانگا پربت

دنیا کا سب سے بے رحم پہاڑ جسے “قاتل پہاڑ” کا لقب دیا گیا ہے۔

‎پاکستان میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 موجود ہیں، جن میں کے ٹو، گاشر برم اول، براڈ پیک، گاشر برم دوم، اور نانگا پربت شامل ہیں۔
‎نانگا پربت، جو کہ 8126 میٹر (26660 فٹ) بلند ہے، ہمالیہ کے پیشانی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ سیاسی طور پر گلگت بلتستان کے علاقے میں ہے اور ضلع دیامر کے اندر آتا ہے۔
‎ نانگا پربت اپنی قدرتی جلال اور مشکلات کی وجہ سے دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لیے ایک سحر انگیز چوٹی ہے، جو انہیں اپنی حدود آزمانے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ اس پہاڑ کی تاریخ اور اس سے منسلک داستانیں انسان کو اس کے سامنے بے بس ہونے کا احساس دلاتی ہیں، اور یہ پہاڑ اپنے دامن میں ایک ایسی پراسراریت چھپائے ہوئے ہے جو دیکھنے والوں کو ہمیشہ مسحور کیے رکھتی ہے۔
‎نانگا پربت، کو پہلی بار 1953 میں آسٹریا کے کوہ پیما ہرمن بول نے سر کیا تھا۔ اس وقت تک، اس پہاڑ پر کئی مشن ناکام ہو چکے تھے اور بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
‎پہلی کوشش 1895 میں ہوئی تھی، جب الفریڈ ممرے نے اسے سر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن الفریڈ ممرے اور ان کے ساتھیوں کو نانگا پربت پر پہلی ہی کوشش میں اپنی جان گنوانی پڑی۔ 1953 تک، تقریباً 31 کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے تھے اور نانگا پربت کو "قاتل پہاڑ" کے نام سے جانا جانے لگا تھا۔

‎پاکستانی کوہ پیماؤں میں سے سب سے پہلے نانگا پربت کو سر کرنے کا اعزاز قومی ہیرو، میجر محمد اقبال کو حاصل ہوا۔ انہوں نے 1989 میں اس بلند و بالا چوٹی کو سر کر کے پاکستان کا نام روشن کیا۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی وہ نانگا پربت کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما بن گئے۔

‎نانگا پربت کو سب سے زیادہ بار سر کرنے کا اعزاز پاکستانی کوہ پیما **علی سدپارہ** کو حاصل ہے، جنہوں نے اس پہاڑ کو **چار** بار کامیابی سے سر کیا تھا۔ علی سدپارہ ایک انتہائی تجربہ کار اور قابل کوہ پیما تھے جنہوں نے نانگا پربت کو نہ صرف موسم گرما میں بلکہ 2016 میں سردیوں میں بھی سر کیا تھا، جو کہ ایک تاریخی کارنامہ تھا۔

‎علی سدپارہ کی نانگا پربت سے وابستگی اور ان کے اس پہاڑ کو بار بار سر کرنے کی کامیابیاں انہیں کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک نمایاں مقام عطا کرتی ہیں۔

‎نانگا پربت کو سر کرنے کے لیے بنیادی طور پر تین اہم راستے ہیں، جو اسے دنیا کے مشکل ترین اور متنوع چیلنجز فراہم کرتے ہیں۔ یہ راستے مختلف سمتوں سے پہاڑ تک پہنچنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں
‎1. **راکیوٹ/کینچن روٹ (Rakhiot/Kinshofer Route)**:
‎ - یہ نانگا پربت کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور نسبتاً آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ راستہ پہاڑ کی شمالی جانب سے گزرتا ہے اور راکیوٹ گلیشیئر سے شروع ہوتا ہے۔ 1953 میں ہرمن بوہل نے اسی راستے سے پہلی بار نانگا پربت کو سر کیا تھا۔

‎2. **دیامیر فیس (Diamir Face)**:
‎ - یہ راستہ نانگا پربت کی مغربی جانب سے گزرتا ہے۔ یہ دیامیر ضلع سے شروع ہوتا ہے اور راکیوٹ روٹ کے بعد دوسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا راستہ ہے۔ 1962 میں ایک جرمن-پاکستانی ٹیم نے اسی راستے سے پہاڑ کو سر کیا تھا۔

‎3. **روپال فیس (Rupal Face)**:
‎ - یہ راستہ نانگا پربت کی جنوبی جانب سے گزرتا ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا اور مشکل ترین پہاڑی چہرہ مانا جاتا ہے۔ یہ راستہ انتہائی دشوار اور خطرناک ہے، اور اس کے ذریعے پہاڑ کو سر کرنے کے لیے زبردست مہارت اور طاقت درکار ہوتی ہے۔ 1970 میں، مشہور کوہ پیما رین ہولڈ میسنر (Reinhold Messner) اور اس کے بھائی گونتر میسنر (Günther Messner) نے اس راستے سے چڑھائی کی تھی۔

‎یہ تینوں راستے اپنی نوعیت اور مشکلات کے اعتبار سے منفرد ہیں، اور کوہ پیما ان میں سے کسی بھی راستے کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی مہارت، تجربہ، اور تیاری کے مطابق نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

‎رین ہولڈ میسنر اور ان کے بھائی گونتر میسنر نے 1970 میں نانگا پربت کو روپال فیس کے ذریعے سر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا اور نانگا پربت کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، لیکن اس مہم کا انجام ایک المناک حادثے پر ہوا۔

‎چوٹی سر کرنے کے بعد، نیچے اترتے وقت گونتر میسنر کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان دونوں بھائیوں نے زیادہ محفوظ اور آسان راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، مگر حالات انتہائی خطرناک ہو گئے۔ رین ہولڈ نے اپنے بھائی کو بچانے کی پوری کوشش کی، مگر گونتر میسنر برفانی تودے کی زد میں آ کر لاپتہ ہو گئے اور ان کی موت ہو گئی۔

‎گونتر کی لاش کو کئی سالوں تک نہیں مل سکی، اور یہ ایک بڑی معمہ بن گئی۔ بالآخر، 2005 میں، گونتر میسنر کے باقیات نانگا پربت کے دیامیر فیس کے قریب پائے گئے، جس نے ان کی موت کی تصدیق کی۔

‎رین ہولڈ میسنر نے نانگا پربت کو سر تو کر لیا تھا، مگر اپنے بھائی کی موت کے صدمے نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ بعد میں انہوں نے اس مہم کے بارے میں کتابیں بھی لکھیں اور اس حادثے کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ ان کی یہ مہم کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک انتہائی دشوار اور دلخراش واقعات میں شمار کی جاتی ہے۔

کے۔ٹو کتنا ضدی ہے؟؟ 1953 میں ایک امریکن کوہ پیماہ George Bell نے K-2 سے شکست کھانے کے بعد ایک عیجب و غریب بیان دیا۔اس نے...
20/12/2024

کے۔ٹو کتنا ضدی ہے؟؟

1953 میں ایک امریکن کوہ پیماہ George Bell نے K-2 سے شکست کھانے کے بعد ایک عیجب و غریب بیان دیا۔اس نے اس پہاڑ کو The Savage Mountain کا نام دیا اور کہا کے اس پہاڑ کا سر کیا جانا ناممکن ہے۔اس دنیا میں 8000 میٹر کی کل 14 چوٹیاں موجود ہیں جن میں سے 5 پاکستان ،8 نیپال اور ایک چوٹی چائینہ میں واقع ہے۔ 1856 میں برٹیش سرکار نے ایک Trigonmetrical سروے کے دوران ان 5 چوٹیوں کوK5,K4,K3,K2,K1 کا نام دیا۔انھی پانچ چوٹیوں میں دنیا کی دوسری بلند ترین اور پہلی خطرناک ترین چوٹی K2 بھی شامل ہے۔اسکو دنیا خطرناک ترین چوٹی اس لیے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس پہ مرنے والوں کی تعداد دنیا کی بلند تریں چوٹی ماوئنٹ ایوریسٹ سے کہیں زیادہ ہے۔شروع شروع میں K2 کو سر کرنے میں سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ K2 پہ جانے کا صیح راستہ کسی شخص کو معلوم نہ تھا۔K2 کو سر کرنے کی پہلی کوشیش 1902 میں Victor wessely اور اس کی ٹیم نے کی انہوں نے کے۔ٹو کو شمال مشرق کے ڈھلوانی راستے سے سر کرنے کی کوشیش کی لیکن 68 دن کی انتھک محنت کے بعد یہ لوگ صرف K2 بیس کیمپ یعنی 5000 سے 6000 میٹر بلندی تک ہی پہنچ سکے۔اس مہم سے واپسی پر انھوں نے صرف اتنا کہا کہ اس مہم میں نہ تو کسی انسان کو اور نہ ہی Beast کو کوئی نقصان پہنچا۔انھوں نے اس پہاڑ کے لیے Beast کا لفظ استعمال کیا۔K2 کو سر کرنے کی دوسری کوشیش 1909 میں کی گئی لیکن یہ لوگ بھی بیس کیمپ سے آگے نہ جا سکے۔واپسی پر ان کے ٹیم لیڈر Duke نے کہا K2 Would never be climbed یعنی کے۔ٹو کبھی سر نہیں ہو پاے گا۔کے۔ٹو کو سر کرنے میں سب سے اہم کردار ایک امریکن کوہ پیما Charles Houston نے ادا کیا۔اس کے۔ٹو کا پاکستان کی طرف سے جانے والا مغرابی راستہ جسے آجکل Abruzzi روٹ کہا جاتا ہے دریافت کیا۔اس نے کہا کہ کے-ٹو کو سر کرنے کا یہ راستہ سب سے آسان اور پریکٹیکل ہے۔1939 میں Dudly Wolfe اور اس کی ٹیم اس راستہ سے پہلی بار کے۔ٹو پر 8000 میٹر کی بلندی جہاں پہ آجکل کیمپ 4 ہوتا ہےاس تک پہنچے۔لیکن اس سے آگے کے۔ٹو کی چوٹی کی طرف جاتے ہوے ان کے ٹیم ممبرز اس پہاڑ پر کہیں کھو گئے اور ان کو ناکام واپس آنا پڑا۔1953 میں پھر ایک بار Charles Houston اور اس کی ٹیم نے K2 کو سر کرنے کی کوشیش کی لیکن ان کے ساتھ بھی وہی ہوا جو Dudly Wlofe کی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا۔مشہور زمانہ کوہ پیماہ George Bell بھی اس بار ان کے ساتھ تھے لیکن اس مہم میں ایک Frost Bite کی وجہ سے ان کو اپنی ایک ٹانگ کٹوانی پڑی۔K2 کو پہلی مرتبہ کامیابی سے کرنے کا سہرا اٹلی کے دو کوہ پیماوں کے سر جاتا ہے۔انھوں نے پہلی مرتبہ31جولائی 1954 میں کے۔ٹو کو کامیابی سے سر کیا۔اس مہم میں ان کے ساتھ پاکستانی کوہ پیماہ کرنل عطا محمد اور ہنزا کا ایک پورٹر عامر مہدی بھی شامل تھا۔انھوں نے ان کوہ پیماوں کا سامان 8000 میٹر بلندی تک پہنچانے میں ان کی مدد کی تھی۔اس مہم سے واپسی پر عامر مہدی کو اپنی ایک ٹانگ کٹوانی پڑی۔کے۔ٹو کو پہلی بار کامیابی سے سر کرنے کے ٹھیک 23 سال بعد جاپان سے آئے ہوئے کوہ پیماوں نے کے۔ٹو کو دوسری مرتبہ کامیابی سے سر کیا۔ان کی اس مہم میں تقریبا 1500 پاکستانی پورٹر شامل تھے۔اس کے علاوہ مشہور پاکستانی کوہ پیماہ اشرف امان بھی ان کے ساتھ تھے۔اشرف امان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے کے۔ٹو کی چوٹی پر اپنے قدم رکھے۔1986 میں پہلی مرتبہ کسی خاتون نے کے۔ٹو کو کامیابی کے ساتھ سر کیا۔اس Polish خاتون کا نام *Wanda* تھا۔اور کے۔ٹو کو سر کرنے کے ٹھیک 8 گھنٹے بعد واپسی پر وہ کے۔ٹو کے انتقام کا شکار بن کر جان کی بازی ہار گئی۔یوں بھی کہا جاتا ہے کہ کے۔ٹو خواتین سے انتقام ضرور لیتا ہے۔
اس کے بعد مختلف ادوار میں مختلف ممالک سے لوگ آتےکچھ کامیابی سے کے۔ٹو کو سر کرتے رہے اور کچھ اس کے غضب کا شکار بنتے رہے۔ کے۔ٹو سے منسلک 3 حادثات کو عالمگیر شہرت حاصل ہوئی اور ان کو *Three Major Disaster* کا نام بھی دیا جاتا ہے۔پہلا حادثہ اگست 1986 میں پیش آیا جس میں 13 کوہ پیماہ اکٹھے کے۔ٹو پر مارے گئے۔دوسرا حادثہ 1995 میں رونما ہوا جب کے۔ٹو کو کامیابی سے سر کرنے کے بعد واپسی پر 6 کوہ پیما جان سے گئے۔تیسرا حادثہ اگست 2008 میں پیش آیا جب کے۔ٹو نے 11 ماہر کوہ پیماوں کی جان لی۔ان حادثات پر مختلف موویز بھی بن چکی ہیں۔
اگر آپ کے۔ٹو کے معتلق موویز دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو ہالی *وڈ کی یہ 4 موویز آپ کو بہت پسند آئیں گی۔جن میں
K2(1991)
Vertical limit(2001)
The siren of Himalaya(2012)
The Summit(2012)
* شامل ہیں۔ان موویز کو دیکھنے کے بعد آپ کو قدرت کے اس شاہکار کی وسعت اور خدوخال کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان زندہ آباد❤❤

I Love My Pakistan 🇵🇰

یہ معلومات واقعی بہت مفید ہے اور بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے۔🚗 ہر ٹائر کی رفتار کی حد ہوتی ہے اور اس کی ایک مدتِ معیاد بھی...
18/12/2024

یہ معلومات واقعی بہت مفید ہے اور بہت سے لوگ اسے نہیں جانتے۔

🚗 ہر ٹائر کی رفتار کی حد ہوتی ہے اور اس کی ایک مدتِ معیاد بھی ہوتی ہے جو اس پر لکھی ہوتی ہے۔ یہ معلومات ٹائر کی دیوار پر درج ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر، اگر آپ کو ٹائر پر "1423" لکھا ہوا ملے، تو اس کا مطلب ہے کہ یہ ٹائر سال 2023 کے چودھویں ہفتے میں بنایا گیا ہے۔
ٹائر کی معیاد عام طور پر 2 سے 4 سال ہوتی ہے، اس کے بعد اسے تبدیل کر دینا چاہیے۔

🚙 ہر ٹائر کی رفتار کی ایک حد ہوتی ہے جو ایک حرف سے ظاہر ہوتی ہے:

حرف "L" کا مطلب ہے کہ ٹائر کی زیادہ سے زیادہ رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

حرف "M" کا مطلب ہے 130 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

حرف "N" کا مطلب ہے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

حرف "P" کا مطلب ہے 150 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

حرف "Q" کا مطلب ہے 160 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

حرف "R" کا مطلب ہے 170 کلومیٹر فی گھنٹہ۔

اور حرف "H" کا مطلب ہے کہ ٹائر 210 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار برداشت کر سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر ٹائر تیز رفتاری کے دوران پھٹ جاتے ہیں، کیونکہ وہ مقررہ رفتار سے زیادہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔
لہٰذا، ہمیشہ اپنے ٹائر پر درج حرف چیک کریں اور رفتار کا خیال رکھیں

Address

Sahiwal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when پاکستان کے شمالی علاقہ جات posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to پاکستان کے شمالی علاقہ جات:

Videos

Share

Category