سمندری کے سمندر کی دو کہانیاں ہیں۔ پہلی کہانی تو یوں ہے کہ یہاں تین مندر ہوا کرتے تھے۔ فارسی بول چال میں ان تین مندروں کی مناسبت سے شہر کو سہہ مندری کہا جانے لگا جو ہوتے ہواتے سمندری بن گیا۔
دوسری کہانی شیر شاہ سوری کے زمانے کی ہے۔ راستے میں، جہاں اب گوجرہ موڑ ہے، بڑے بڑے تالاب ہوا کرتے تھے۔ دلی کو جانے والی سواریاں اور قافلے یہاں رکتے تو دور دور تک پھیلے تالاب اور باؤلیاں سمندر کا احساس دلایا کرت
یں تھیں۔
تین میں سے دو مندروں کا تو نام و نشان تک نہیں رہا بس اندازے اور قیافے ہیں کہ مندر شوکت آباد والے محلے میں ہوا کرتا تھا یا نہر والی جگہ پہ۔ ایک مندر البتہ چکی بازار میں تھا جہاں اب لڑکوں کا پرائمری سکول کھل گیا ہے۔ شہر کے اکلوتے گرودوارہ میں اب لڑکیوں کا سکول ہے۔ پرانی عمارتیں نئے سانچوں میں ڈھل گئی ہیں، بس ایکگھر بچا ہے جس کے ماتھے پہ مورتی کھدی ہے۔
شہر تو بہت پرانا ہے مگر سرکار کے کاغذ میں اس کا سن پیدائش 1887 درج ہے۔ تین مندروں کے علاوہ یہاں کی ایک سمندر صفت شخصیت بھی بہت مشہور ہے۔ سردار تیجا سنگھ پیدا تو ترن تارن میں ہوئے مگر آباد کاری میں ملنے والی زمین کے باعث یہ لوگ سمندری آن بسے۔ کچھعرصہ فوج میں نوکری کی مگر پھر دل میں آئی کہ انگریز کی نوکری سے خالصہ پنتھ کی خدمت زیادہ بہتر ہے۔
یہ مشنری لوگوں کا زمانہ تھا۔ انگریزوں کے بنائے ہوئے سکول اور اسپتال لوگوں کے دل جیت رہے تھےاور برصغیر میں عیسائیت زور پکڑ رہی تھی۔ خالصہ قوم نے اپنے مذہباور معاشرت کو محفوظ رکھنے کے لئے ایک خالصہ دیوان بنایا تاکہ لوگوں کی فلاح کرکے انہیں دوسرے مذاہب کی فلاح سے دور رکھا جائے۔
تیجا سنگھ خالصہ دیوان کے روح رواں تھے اور ان کے کھولے ہوئے سکول اب بھی بہت سے شہروں میں قائم ہیں۔ شرومنی گرودوارہ پر بندھک کمیٹی کی بنیاد رکھنے والے تیجا سنگھ کو انگریزوں کی مخالفت کی پاداش میں بہت بار جیل جانا پڑا۔ چابیوں کے جھگڑے سے جیتومورچہ کے اکھنڈ پاتھ تک اس سپاہی نے پنجاب کی تقریبا ساری ہیجیلیں دیکھ ڈالیں حتیٰ کہ جولائی 1926 میں ایک جیل میں ہی انتقال کیا۔
اب دربار صاحب امرتسر میں تیجا سنگھ سمندری ہال ہے جو آتے جاتے لوگوں کو شناخت کی جنگ لڑنے والوں کی کہانی سناتا ہے۔
سمندری سے آگے بڑھیں تو گوجرہکے راستے میں کئی گاؤں پڑتے ہیں۔ ہوشیار پور کے ناڑا اور دادا کی یاد میں آباد ناڑا دادا اور رسیانہ کے نام سے آباد کیس گڑھ سے آگے خوش پور ہے۔ چک 51 گوگیرہ برانچ کا یہ نام ایک عیسائی پادری کی عطا ہے۔
گاؤں کی بنیاد 1900 کے لگ بھگ فادر فیلکس نے رکھی تھی۔ لاطینی زبان میں فیلکس کے معنی خوشی کے ہیں، سو گاؤں والوں نے مستقبل سے بے خبر اپنا نام بھی خوش پور رکھ دیا۔
کہنے کو تو ایک صدی پرانی تاریخ میں اس گاؤں کے لوگوں نے بہت سے اچھے دن دیکھے ہیں مگر اب وقت بہت بدل گیا ہے۔ جیسے گاؤں کی بہت سی سڑکیں اور پگڈنڈیاں چوک میں آ کر ملتی ہیں اسی طرح ظلم اور نا انصافی کی ڈھیروں داستانیں خوش پور پہنچتی ہیں۔
فیصل آباد کے بشپ فادر جون جوزف نے آنکھ تو یہیں کھولی مگر دفن یہاں نہیں ہوئے۔ بشپ ہونے کے باعث انہوں نے امید کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا اور چرواہوں کی سی ثابت قدمی سے گلہ کی بھیڑوں کو راستہ دکھاتے رہے مگر آفرین ہے اس عدالتی نظام پر جو راہبوں کے صبر کو بھی توڑ دیتا ہے۔
جب 1998 میں یعقوب مسیح کو ذاتی عناد کی بنیاد پہ توہین رسالت کے مقدمے میں پھنسایا گیا تو بشپ جان جوزف نے خود اس مقدمے کی پیروی کی۔ انہوں نے لوگوں کو سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ%96 مسلمانوں کے اس ملک میں %4 اقلیت سے اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
انصاف تو خیر کیا ملنا تھا پے در پے تاریخوں نے ان کی کمر توڑ دی اورآخر کار انہوں نے ساہیوال کی کچہری میں خود کو گولی مار لی۔ خوش پور میں ان کے خون آلود کپڑے دفن ہیں۔ چار سال بعد سپریم کورٹ نے ثبوتوں کی عدم فراہمی کی بنیادپہ یعقوب مسیح کو رہا کر دیا۔
ایک اور قبر شہباز بھٹی کی ہے۔ اپنے نام سے لے کر تعلیم تک شہبازبھٹی نے پوری کوشش کی کہ وہ اس معاشرے میں مدغم ہو سکے۔ مگر وہ جن لوگوں کے درمیان رہا انہوں نے اس کی زندگی کی قدر کی اور نہ ہی اس کی موت کا پرسہ دینے پہنچے۔
خوش پور والوں کو چار مارچ 2011 بھی ایسے ہی یاد ہے جیسے جان جوزف کا جنازہ، کیونکہ خوش پور میںان ہی دو موقعوں پہ سب سے زیادہ لوگ اکٹھے ہوئے تھے۔ شہباز بھٹی کے گولیوں سے چھلنی جسم اور جان جوزف کے خون آلود کپڑوں کے بیچ کئی گمنام تین کالمی خبریں ہیں جن میں معمولی رنجش صرف اس لئے دو سو پچانوے بن جاتی ہے کیونکہ سامنے والا کلمہ نہیں پڑھتا۔
خوش پور سے دور اور پاکستان سے بہت دور ایک شہر ہے جسے اسلام آباد کہتے ہیں۔ اس شہر میں یوں تو پیر مہر علی شاہ اور بری امام جیسے صوفی بزرگ دفن ہیں مگر تصوف کی نعمتیں کچھ زندہ لوگوں کا مقدربھی ہوئی ہیں۔
جب اطالیہ کے اگسٹینو گیٹانو بونو کا تقرر بطور سفیر پاکستان ہوا تو انہیں خوف سے زیادہ تحیر نے گھیر لیا۔ پھر ویزے لگاتے لگاتے ایک دن خوشپور کا کوئی بھولا بھٹکا بھی ان قطاروں کے راستے بونو صاحب تک پہنچ گیا۔ خوش پور والے نے سفیر صاحب کو گاؤں مدعو کیا۔ اصلی پاکستان دیکھنے کی دعوت ملی تو بونو صاحب سچ مچ مان گئے۔
جس دن وہ خوش پور پہنچے، گاؤں والوں نے ان کی اس طرح تواضع کی جیسے فادر فیلکس لوٹے ہوں۔ مہمان کی آنکھیں مگر وہ کچھ دیکھ رہی تھیں جو اس ملک کے باقی لوگ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ خوش پور والوں کی خوشی دیکھ کر بونو کے آنسو نکل پڑے۔
ایسے ہی ایک لمحے میں ایک بابا آگے بڑھا اور اس نے بونو کے ہاتھ چوم کر کہا۔ “مجھے پتہ تھا!! میں نےخواب دیکھا تھا کہ تم آؤ گے اور ہمارا اسپتال بناؤ گے”۔
بونو واپس اسلام آباد تو آ گئے مگر ان کا دل خوش پور میں ہی ٹک گیا۔ دوست احباب سے مشورہ کرنے کے بعد وہ اس خواب کو سچ کرنے کی جستجو میں لگ گئے۔ اگسٹو بونو فاؤونڈیشن خو ش پور کے ہسپتال سے اب تک تقریبا کئی ہزار مریض شفا پا چکے ہیں۔
یہاں موجود تین ڈاکٹر اور کئی نرسیں دن رات بابا اور بونو کے خواب کو تعبیر عطا کرنے پہ معمور ہیں۔ اب بھلے اطالیہ میں بونو کی شناخت سفیر کی ہو یا محقق کی، خوش پور میں لوگ اسے صوفی سمجھتے ہیں اور بونو بابا پکارتے ہیں۔
میں خوش پور سے چلا تو راستہ دکھاتی سائیکل کی پچھلی بتیپہ گول دائرے میں لکھا تھا۔
“خداوند میرا چوپان ہے”۔
By
محمد حسن معراج |
2 days ago
ریل کی سیٹی
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو
kash