08/10/2024
شہر کاشغر جس سے مقامی لوگ کاشی کہتے ہیں اس شہر کے بارے میں حضرت اقبال نے فخر سے کہا تھا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاکِ کاشغر
رات 11بجے شہرکے وسط میں ایک مشہور ہوٹل میں کمرہ لیا جہاں زیادہ پاکستانی بیوپار اور پھیری والا قیام کرتے ہیں مسلسل سفری تھکن کی وجہ سے جسم ٹوٹ رہا تھا اسے پہلے بدن جواب دے فوراً دو رکعت فرض ادا کی اور سو گیا۔ صبح 7 بجے رسپشن پر کال کرنے پر پتا چلا ہوٹل میں ناشتے کا انتظام نہیں ہے ۔ ناشتے کی تلاش میں ہوٹل سے باہر نکلا تو آس پاس کی تمام دوکانیں بند تھی ۔ روڈ پر صفائی کرنے والے اپنے اپنے مشینوں کو سمٹ رہے تھے ۔ سڑک کی دوسری جانب قدیم طرز تعمیر کی ایک خوبصورت عمارت دیکھ کر خیال آیا کہ اس شہر میں زیادہ تر مسلمانوں کی آبادی ہے یقیناً تاریخی مسجد، کسی بزرگ کا آستانہ یا پھر صوفیوں کا خانقاہ ہوگا ۔سوچا کیوں نہ قریب چل کر دیکھ لیں اگر کسی بزرگ کا مزار ہے تو فاتحہ خوانی پڑھ لیتے ہیں خیر قریب پہنچا تو دروازہ بند ہونے کی وجہ سے اندر نہیں جا سکا۔ دن بھر شہر کاشغر میں خوب آوارہ گردی کے بعد شام کو ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہوئے خیال آیا کہ اُس طرزتعمیر سے دلی محبت اور اسلامی فن تعمیر ہونے کا گمان تھا اورحضرت اقبال کی مذکورہ شعر کی وجہ سے کاشی کےباسیوں کے بارے میں جو عزت وقار تھی وہ تو ایک ہی دن میں زمین بوس ہو کر رہ گیا چونکہ یہ شہر چائنہ کے اس ریجن کا سیاحتی مقام ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر ریسٹورنٹ، شراب خانے اور جوا خانے اسی طرز تعمیر پر بنا ہوا تھا ۔ اور ہم شریف لوگ دن پر اسی طرح کی عمارت دیکھ کر کسی بزرگ کا مزار یا پھر مسجد ہونے کا گمان کرتے رہے۔
@@