Beautiful Pakistan

Beautiful Pakistan Find the best places, videos, pictures about natures and view points. No one can escape to feel the rhythm of the coolness and freshness in the atmosphere.

Pakistan is one of the most beautiful country in the World, which is considered as a heaven for tourists. People from all over the World attract to visit in Pakistan to admire the creativity of the Almighty Allah in the development of wider landscape of Pakistan. You will not be the next who will spend the memorable days of his life in Pakistan.

سردی کی رات ہے اور چاروں طرف تنہائی کا عالم ہم بھی خوب سوتے اگر تیری باہوں میں ہوتے 🌸🫀🥀
11/22/2024

سردی کی رات ہے اور چاروں طرف تنہائی کا عالم ہم بھی خوب سوتے اگر تیری باہوں میں ہوتے 🌸🫀🥀

11/15/2024

ابھی آواز اُٹھانا
مستقبل میں جناز*ے اٹھانے سے بہتر ہے۔

کچے کے مشہور شاہدلنڈ کو مارنے والے عمرلنڈ کو بھی قت ل کر دیا گیا۔ ذارئعTen Unknown Facts About   1. Founding and History...
11/12/2024

کچے کے مشہور شاہدلنڈ کو مارنے والے عمرلنڈ کو بھی قت ل کر دیا گیا۔ ذارئع
Ten Unknown Facts About
1. Founding and History: BMW, Bayerische Motoren Werke AG, was founded in 1916 in Munich, Germany, initially producing aircraft engines. The company transitioned to motorcycle production in the 1920s and eventually to automobiles in the 1930s.
2. Iconic Logo: The BMW logo, often referred to as the "roundel," consists of a black ring intersecting with four quadrants of blue and white. It represents the company's origins in aviation, with the blue and white symbolizing a spinning propeller against a clear blue sky.
3. Innovation in Technology: BMW is renowned for its innovations in automotive technology. It introduced the world's first electric car, the BMW i3, in 2013, and has been a leader in developing advanced driving assistance systems (ADAS) and hybrid powertrains.
4. Performance and Motorsport Heritage: BMW has a strong heritage in motorsport, particularly in touring car and Formula 1 racing. The brand's M division produces high-performance variants of their regular models, known for their precision engineering and exhilarating driving dynamics.
5. Global Presence: BMW is a global automotive Company
6. Luxury and Design: BMW is synonymous with luxury and distinctive design, crafting vehicles that blend elegance with cutting-edge technology and comfort.
7. Sustainable Practices: BMW has committed to sustainability, incorporating eco-friendly materials and manufacturing processes into its vehicles, as well as advancing electric vehicle technology with models like the BMW i4 and iX.
8. Global Manufacturing: BMW operates numerous production facilities worldwide, including in Germany, the United States, China, and other countries, ensuring a global reach and localized production.
9. Brand Portfolio: In addition to its renowned BMW brand, the company also owns MINI and Rolls-Royce, catering to a diverse range of automotive tastes and luxury segments.
Adnan Ullah
10. Cultural Impact: BMW's vehicles often become cultural icons, featured in films, music videos, and celebrated for their design and engineering excellence worldwide.

ایک لڑکی نے مجھے کہا - یو آر نائس گائے 🐄میں نے بھی جواب میں کہایو آر نائس بھینس🐃اب اس میں بلاک کرنے والی کیا بات تھی۔   ...
10/27/2024

ایک لڑکی نے مجھے کہا - یو آر نائس گائے 🐄
میں نے بھی جواب میں کہا
یو آر نائس بھینس🐃
اب اس میں بلاک کرنے والی کیا بات تھی۔ گٹیاں ٹاپ

10/27/2024

''پاکستان میں مکروہ دھندہ''

فہد حجاب نام کا ایک عربی شخص سعودی ائیرلائین کی ایک پرواز سے لاہور ائیرپورٹ پر لینڈ کرتا ہے۔ فہد وہیل چئیر پر اُترتا ہے تو اُسے چند پاکستانی ائیرپورٹ پر خوش آمدید کہتے ہیں اور باہر ایک ایمبولینس کھڑی ہوتی ہے جس میں اُسےلٹا کر ایک نامعلوم منزل کی طرف لے جانا شروع کردیا جاتا ہے۔ ایمبولینس لاہور کے ایک بڑے ہوٹل کی پارکنگ میں رُکتی ہے جہاں فہد کا کمرہ بُک ہوتا ہے۔ پاکستانی باشندوں میں ایک عربی بولنے والا مترجم بھی ہوتا ہے جو فہد کے ساتھ ہی ہوٹل کے ایک الگ کمرے میں رہائش اختیار کرلیتا ہے۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسیز جب فہد حجاب کو ائیرپورٹ سے وہیل چئیر پر باہر آتے دیکھتی ہیں تو اُنہیں کچھ شک گزرتا ہے کہ یہ فہد نہ تو پاکستان بزنس کے سلسلے میں آیا ہے اور نہ ہی یہ سیاح ہوسکتا ہے کیونکہ اسکی تو اپنی حالت اتنی ٹھیک نہیں ہے اور وہیل چئیر پر یہ بیٹھ کر باہر آرہا ہے۔ ایف آئی اے، آئی بی کے افسران فہد حجاب کا پیچھا کرتےہیں تو ائیرپورٹ پر کھڑی ایمبولینس اُنکے شک کو اور تقویت دیتی ہے۔
ایف آئی اے اس سعودی شہری پراپنی نگرانی سخت کردیتی ہے۔ موبائل فون کے ڈیٹا کے سے پتہ چلا کہ یہ صاحب پاکستان میں گُردہ تبدیل کروانے آئے ہیں اورایک بین الاقوامی گروہ ہے جو بین الاقوامی سطح پر گرُدوں کی فروخت کا غیر قانونی کاروبار کررہا ہے۔
اب میں منظر کو تھوڑا سا بدلتے ہوئے آپکو پیر محل کے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں لئیے چلتا ہوں جہاں پر ڈاکٹر سفید گاؤن پہنے مسیحا کے روپ میں موجود ہیں سینکڑوں کی تعداد میں اس ہسپتال میں مریض آتے ہیں۔ صحت کا شعبہ پنجاب میں بہت ہی پیچھے ہے جسکی وجہ سے پیر محل، سندھیلیانوالی اور قرب و جوار کے غریب لوگوں کے لئیے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔
سعودی شہری فہد حجاب کی لاہور سے اگلی منزل ملک کا کوئی بڑا ہسپتال نہیں بلکہ پیرمحل میں ابراہیم ہسپتال کے ساتھ موجود ایک خالی کوٹھی ہے جس کے متعدد کمروں کو آپریشن تھیٹر میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ابراہیم ہسپتال میں ایک نیفرالوجسٹ یعنی ماہر امراض گردہ ڈاکٹر محمد شاہد کی سربراہی میں ابراہیم ہسپتال کے دیگر معاون عملہ کی مدد سے غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر گردے ٹرانسپلانٹ کررہے تھے۔
یہ گھناؤنا کاروبار ایک بڑے عرصے سے چل رہا تھا جسے چوہدری محمد سرورسابقہ گورنر پنجاب کے یہ دو سگے بھانجے کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ چلا رہے تھے۔
اس فعل کا سب سے گھناؤنا پہلو یہ ہے کہ جو عورتیں زچگی کے لئیے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں آتی تھیں توگائنا کالوجسٹ یعنی ماہرامراض زچگی لیڈی ڈاکٹر سب سے پہلے مریضہ کے خون کا گروپ ٹیسٹ کرواتی اور دیگر گردوں کے ٹیسٹ کرواتی۔ پھر یہ رپورٹ کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کو بھیج دی جاتی۔ یہ انٹرنیٹ پر گردوں کے منتظر مریضوں سے ڈیٹا کو ملاتے۔ پھر زچگی کے لئیے آنے والی خاتون کے علم میں لائے بغیر اُس کے ایک گردے کا سودا ایک کروڑ روپے میں طے کرتے۔ غیر ملکی جسے گردے کی ضرورت ہوتی اُسے عورت کی زچگی سے ایک دو دن پہلے بُلوا لیتے۔ پھر عین زچگی کے دن ڈاکٹر عورت کا آپریشن کرتے اور نئے پیدا ہونے والے بچے کی ماں کا گردہ بھی نکال لیتے۔ زچگی کا آپریشن کروانے آنے والی خاتون کو علاج میں سہولتیں دیتے اور بہت ہی کم پیسے لیتے۔ وہ غریب عورت ان ضمیر فرشوں کو جھولیاں پھیلا پھیلا کر دُعائیں دیتی رُخصت ہوجاتی اور سمجھتی کہ ابھی دُنیا میں کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کی صورت میں فرشتے موجود ہیں جو غریبوں کے دُکھ درد کو سمجھتے ہیں۔ وہ سوچتی کہ اگر یہی میرا بڑا آپریشن کسی اور جگہ ہوتا تو میرے کم از کم پچاس ہزار روپے خرچ ہوجانے تھے جبکہ ان نیک دل لوگوں نے میرے پانچ ہزار بھی نہیں لگنے دئیے۔ وہ غریب عورت اپنے گُردے کے نکالے جانے سے لاعلم رہتی ہے اور ہر ملنے والے کو ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کی تعریفیں کرتی رہتی ہے۔ یہ بے ضمیر لوگ ڈاکٹر سے مل کر ایک کروڑ روپیہ اپنی جیبوں میں بھر لیتے اور پارسائی کا لبادہ اوڑھے معاشرے سے عزت سمیٹنے میں مشغول رہتے۔
یہ تو وہ سلوک تھا جو زچگی کے لئیے آنے والی خواتین کے ساتھ ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ظلم یہ کیا جاتا کہ مختلف دلالوں سے رابطہ کیا جاتا اُنہیں ڈیمانڈ بتائی جاتی کہ اس خون کے گروپ کا گردہ چاہیے۔ وہ دلال جرائم پیشہ لوگ ہوتے تھے جو کبھی بندوق کے زور پر کسی غریب کو اغواء کرکے ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس میں لے آتے جہاں پر ڈاکٹر اُس کا گردہ نکال لیتے یا کبھی غربت کے ہاتھوں مجبور اُن لوگوں کی مجبوریوں کا سودا کرتے اور اُنہیں پچاس سے نوے ہزار روپے تک ہاتھ میں تھما دیتے اور اُس کا گردہ نکال کر کم از کم ایک کروڑ روپے میں فروخت کردیتے۔
یہ واقعہ 13 اکتوبر کا ہے جب ایف آئی اے کے مخبر نے اطلاع دی کہ آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام کو ساتھ لیا پولیس اور انتظامیہ کے افسران کو ساتھ لیا اور ابراہیم ریاض اللہ میڈیکل کمپلیکس کے ساتھ ملحقہ کوٹھی پر چھاپہ مارا تو وہاں پر ڈاکٹر شاہد اپنی آپریشن تھیٹر کی ٹیم کے ساتھ موجود تھا اور عورت کا گردہ نکال کر سعودی شہری فہد حجاب کے ٹرانسپلانٹ کررہا تھا۔ ایف آئی اے کی ٹیم کو دیکھ کر ڈاکٹر گھبرا گیا اور آپریشن ادھورا چھوڑنے لگا۔ لیکن ایف آئی اے اور محمکہ صحت کی ٹیم نے کہا کہ اس پروسیجر کو اب مکمل کرو۔ لیکن ڈاکٹر شاہد کے ہاتھ کانپنے لگے اور وہ بار بار کہتا رہا کہ اب مجھ سے نہیں ہونا۔ یہ کیسا مسیحا کے روپ میں شیطان تھا کہ جب غریبوں کے گردے نکال رہا تھا وہ لوگ جن کے پاس بیچنے کو اُنکے جسم کے اعضاء کے علاوہ کچھ نہ تھا جب اُنکےگُردے نکالتا تھا تب اسکے ہاتھ نہیں کانپے لیکن جونہی ایف آئی اے کے افسران کو دیکھا تو ہاتھ کانپنے لگ گئے۔ جب غریب پھٹے پُرانے کپڑوں میں ملبوس بے ہوش لوگ اس ڈاکٹر کے سامنے سٹریچر پر لٹائے جاتے تب اُنکی شکلیں دیکھ کر اس ظالم کو ترس نہ آیا، نہ اس نے ایک دفعہ کہا کہ "یہ ظلم مجھ سے نہیں ہوتا" بلکہ چکمتے دمکتے نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کر یہ گھناؤنا فعل خوشی خوشی سرانجام دیتا۔
ایف آئی اے کے افسران آپریشن تھیٹر سے باہر چلے گئے اور محکمہ صحت کے ڈاکٹر افسران کو آپریشن تھیٹر میں چھوڑ گئے کہ اس کا آپریشن اب مکمل کریں اور انسانی جان کو ضائع ہونے سے بچائیں۔ خیر جیسے تیسے ڈاکٹر شاہد نے آپریشن مکمل کیا تو محکمہ صحت کی ٹیم نے فوری طور پر سعودی شہری اور گردہ فروخت کرنی والی عورت کو الائیڈ ہسپتال فیصل آباد شفٹ کیا تاکہ ان کا بہتر علاج ہوسکے۔
جب وہیں پر ڈاکٹر سے ایف آئی اے کی ٹیم نے سوال وجواب کئیے تو ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ میں تو صرف آپریشن کی فیس لیتا ہوں اصل گُردوں کی خرید وفروخت کا مکروہ دھندا تو نجف ریاض اللہ اور کشف ریاض اللہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں ملزمان فرار ہوگئے لیکن ایک دن بعد ہی کشف ریاض اللہ کو ایف آئی اے نے اُسکے موبائل کی لوکیشن سے گرفتار کرلیا ہے جبکہ اسکے دوسرے بھائی نجف ریاض اللہ کا تاحال کوئی پتہ نہیں چل سکا کہ وہ بھی گرفتار ہوا ہے یا نہیں۔
اس واقعے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ چونکہ ملزمان سابقہ گورنر پنجاب چوہدری سرور کے سگے بھانجے ہیں اور اثرورسوخ والے لوگ ہیں اس لئیے کسی بھی صحافی نے اس گھناؤنے کاروبارکو اُس طرح سے بے نقاب نہیں کیا جیسے اسکا حق بنتا تھا۔ صاف بات ہے کہ مقامی صحافیوں کے بھی ان سے بہت اچھے تعلقات تھے اس لئیے اس واقعہ کو صرف ڈاکٹر شاہد کے سر تھوپ کر معاملہ کورفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی اور ایسا تآثر دیا گیا کہ جیسے یہ ایک ڈاکٹر شاہد جیسے فرد واحد کا فعل تھا لیکن کمال ہوشیاری سے اپنے قلم کی طاقت کو دباتے ہوئے کشف ریاض اللہ اور نجف ریاض اللہ کا نام تک نہیں لکھا۔ یہ ہمارے علاقے میں کیسی صحافت ہورہی ہے؟ وہ صحافی جن کا اولین مقصد ہی عوام تک ٹھیک اور سچی معلومات کا پہنچانا ہے جب وہ ہی اپنے قلم سے بددیانتی کرنے لگ جائیں، جب حُرمت قلم کے پاسبان اُسے چوک میں رکھ کرنیلام کردیں پھر ہم جیسے باضمیر لوگ اپنی آواز کو نہ بُلند کریں تو یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر صحافیوں کی عزتوں کا جنازہ نکالتے ہو۔ جب یہ خود اپنی اپنے مقدس پیشے کو چند ٹکوں کے عوض فروخت کرتے ہیں تب انہیں شرم اور غیرت کیوں نہیں آتی؟
کیا ان صحافیوں کا یہ فرض نہیں تھا کہ ملزم جتنا بھی طاقتور ہوتا اُس کے خلاف اپنی آواز بُلند کرتے؟ انکی آنکھوں کے سامنے غریب لوگوں کے گُردے نکال نکال کر فروخت کردئیے گئے یہ اپنی لمبی لمبی زبانیں اپنی آنکھوں پر لپیٹ کر سوتے رہے؟
آئیندہ چند دنوں میں یہ واقعہ ملک کے تمام ٹی وی چینلز کی شہہ سُرخی بنے گا غریبوں کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا۔ ہم ہر میڈیا گروپ کو لکھیں گے اور پوچھیں گے کہ آخر کونسی مجبوری تھی کہ یہاں پر کوئی سرعام کی ٹیم، کوئی جُرم بولتا ہے کی ٹیم یا ایف آئی آر پروگرام کی ٹیم نہ پہنچ سکی؟ صرف اس لئیے کہ جو ملزمان ہیں وہ بہت طاقتور ہیں؟
منقول

10/24/2024

حکیم شہزادالمعروف لوہاپاڑ گرفتار. کیا ایسے انسان کوسبق ملناچاہیے؟ میرے خیال میں کیمرہ مین کو بھی گرفتارہوناچاہیے.
#لوہاپاڑ #دانیہ #حکیم #شہزاد #گرفتار #شہزادحکیم #لوہاحکیم #پنجاب

10/11/2024

احتیاط شرمندگی سے بہتر ہے. اپنے بچوں کےلیے زیادہ سےزیادہ احتیاط کریں. ویڈیوکوشئیرکریں

10/09/2024

افسوس اس نے شومیں ٹوپی تو اتار دی لیکن شونہں چھوڑا.

Hunza valley 🌸🌲 Gilgit baltistan 🌲
10/03/2024

Hunza valley 🌸🌲 Gilgit baltistan 🌲

10/03/2024

سی آئی اے نے چین ایران اور شمالی کوریا میں ایجنٹس کی بھرتی کے لیئے نئی کیمپین شروع کی ہے

10/02/2024

انقلابی گارڈز نے دعویٰ کیا ہے کہ کل میزائلوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی ایئر ڈیفنس سسٹمز پر بڑے پیمانے پر سائبر اٹیک بھی کیا گیا۔ میزائلوں کی ایکوریسی کی ایک وجہ یہ بھی تھی

10/02/2024

حزب زرائع نے جھڑپوں میں پانچ ٹینک اور 80 سہونی casualties کا دعویٰ کیا ہے۔

اسرائیلی زرائع نے گراؤنڈ ایڈوانس اور حزب کے تین لوگ شہید کرنے کا دعویٰ کیا ہے

09/30/2024

کبھﯽ ﺟﺐ ہم ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮنگے
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮯ ﮐﺮﺍﮞ ﭼﺎﮨﺖ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺷﺪﺕ
ﻭﺻﺎﻝ ﻭ ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﻟﺬﺕ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﻮ ﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺩﮮ ﺩﯾﻨﺎ
ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺩﮮ ﺩﯾﻨﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﺎ ﻧﻢ ﺑﮭﯽ
ﻭﻓﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﻭﮦ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﮭﯽ
ﺟﻨﻮﮞ ﺧﯿﺰﯼ ﮐﺎ ﻋﺎﻟﻢ ﺑﮭﯽ
ﻣﺮﯼ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺧﻮﺷﯽ ﻏﻢ ﺑﮭﯽ
ﻣﺮﺍ ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺩﺭﺩ ﮐﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺁﻧﺴﻮ ﭼﺮﺍ ﻟﯿﻨﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺐ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮯ ﺭﺧﯽ ﺳﮩﻨﺎ
ﺑُﮭﻼ ﮐﺮ ﺭﻧﺠﺸﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ
ﻓﻘﻂ " ﺍﭘنا" ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺗﺴﺒﯿﺢ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺫﮐﺮ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺍﮎ ﮔﻮﺷﮧ ﺳﺠﺎ ﻟﯿﻨﺎ
ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺗﻢ ﻣﺮﯼ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺳنتے ہو
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺟﺎﻥ ﻟﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ !
ﮐﺒﮭﯽ
ﺟﻮ ہم نہیں ہوﻧﮕﮯ

09/17/2024

فارٹوربکنگ پلیز انباکس

نانگا پربت دنیا کا سب سے بے رحم پہاڑ جسے “قاتل پہاڑ” کا لقب دیا گیا ہے۔‎پاکستان میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5...
09/17/2024

نانگا پربت
دنیا کا سب سے بے رحم پہاڑ جسے “قاتل پہاڑ” کا لقب دیا گیا ہے۔

‎پاکستان میں دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیوں میں سے 5 موجود ہیں، جن میں کے ٹو، گاشر برم اول، براڈ پیک، گاشر برم دوم، اور نانگا پربت شامل ہیں۔
‎نانگا پربت، جو کہ 8126 میٹر (26660 فٹ) بلند ہے، ہمالیہ کے پیشانی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ سیاسی طور پر گلگت بلتستان کے علاقے میں ہے اور ضلع دیامر کے اندر آتا ہے۔
‎ نانگا پربت اپنی قدرتی جلال اور مشکلات کی وجہ سے دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کے لیے ایک سحر انگیز چوٹی ہے، جو انہیں اپنی حدود آزمانے کے لیے مجبور کرتی ہے۔ اس پہاڑ کی تاریخ اور اس سے منسلک داستانیں انسان کو اس کے سامنے بے بس ہونے کا احساس دلاتی ہیں، اور یہ پہاڑ اپنے دامن میں ایک ایسی پراسراریت چھپائے ہوئے ہے جو دیکھنے والوں کو ہمیشہ مسحور کیے رکھتی ہے۔
‎نانگا پربت، کو پہلی بار 1953 میں آسٹریا کے کوہ پیما ہرمن بول نے سر کیا تھا۔ اس وقت تک، اس پہاڑ پر کئی مشن ناکام ہو چکے تھے اور بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
‎پہلی کوشش 1895 میں ہوئی تھی، جب الفریڈ ممرے نے اسے سر کرنے کی کوشش کی۔ لیکن الفریڈ ممرے اور ان کے ساتھیوں کو نانگا پربت پر پہلی ہی کوشش میں اپنی جان گنوانی پڑی۔ 1953 تک، تقریباً 31 کوہ پیما اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے تھے اور نانگا پربت کو "قاتل پہاڑ" کے نام سے جانا جانے لگا تھا۔

‎پاکستانی کوہ پیماؤں میں سے سب سے پہلے نانگا پربت کو سر کرنے کا اعزاز قومی ہیرو، میجر محمد اقبال کو حاصل ہوا۔ انہوں نے 1989 میں اس بلند و بالا چوٹی کو سر کر کے پاکستان کا نام روشن کیا۔ اس کامیابی کے ساتھ ہی وہ نانگا پربت کو سر کرنے والے پہلے پاکستانی کوہ پیما بن گئے۔

‎نانگا پربت کو سب سے زیادہ بار سر کرنے کا اعزاز پاکستانی کوہ پیما **علی سدپارہ** کو حاصل ہے، جنہوں نے اس پہاڑ کو **چار** بار کامیابی سے سر کیا تھا۔ علی سدپارہ ایک انتہائی تجربہ کار اور قابل کوہ پیما تھے جنہوں نے نانگا پربت کو نہ صرف موسم گرما میں بلکہ 2016 میں سردیوں میں بھی سر کیا تھا، جو کہ ایک تاریخی کارنامہ تھا۔

‎علی سدپارہ کی نانگا پربت سے وابستگی اور ان کے اس پہاڑ کو بار بار سر کرنے کی کامیابیاں انہیں کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک نمایاں مقام عطا کرتی ہیں۔

‎نانگا پربت کو سر کرنے کے لیے بنیادی طور پر تین اہم راستے ہیں، جو اسے دنیا کے مشکل ترین اور متنوع چیلنجز فراہم کرتے ہیں۔ یہ راستے مختلف سمتوں سے پہاڑ تک پہنچنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں
‎1. **راکیوٹ/کینچن روٹ (Rakhiot/Kinshofer Route)**:
‎ - یہ نانگا پربت کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا اور نسبتاً آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ راستہ پہاڑ کی شمالی جانب سے گزرتا ہے اور راکیوٹ گلیشیئر سے شروع ہوتا ہے۔ 1953 میں ہرمن بوہل نے اسی راستے سے پہلی بار نانگا پربت کو سر کیا تھا۔

‎2. **دیامیر فیس (Diamir Face)**:
‎ - یہ راستہ نانگا پربت کی مغربی جانب سے گزرتا ہے۔ یہ دیامیر ضلع سے شروع ہوتا ہے اور راکیوٹ روٹ کے بعد دوسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا راستہ ہے۔ 1962 میں ایک جرمن-پاکستانی ٹیم نے اسی راستے سے پہاڑ کو سر کیا تھا۔

‎3. **روپال فیس (Rupal Face)**:
‎ - یہ راستہ نانگا پربت کی جنوبی جانب سے گزرتا ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا اور مشکل ترین پہاڑی چہرہ مانا جاتا ہے۔ یہ راستہ انتہائی دشوار اور خطرناک ہے، اور اس کے ذریعے پہاڑ کو سر کرنے کے لیے زبردست مہارت اور طاقت درکار ہوتی ہے۔ 1970 میں، مشہور کوہ پیما رین ہولڈ میسنر (Reinhold Messner) اور اس کے بھائی گونتر میسنر (Günther Messner) نے اس راستے سے چڑھائی کی تھی۔

‎یہ تینوں راستے اپنی نوعیت اور مشکلات کے اعتبار سے منفرد ہیں، اور کوہ پیما ان میں سے کسی بھی راستے کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی مہارت، تجربہ، اور تیاری کے مطابق نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

‎رین ہولڈ میسنر اور ان کے بھائی گونتر میسنر نے 1970 میں نانگا پربت کو روپال فیس کے ذریعے سر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ کارنامہ انجام دیا اور نانگا پربت کی چوٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، لیکن اس مہم کا انجام ایک المناک حادثے پر ہوا۔

‎چوٹی سر کرنے کے بعد، نیچے اترتے وقت گونتر میسنر کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ان دونوں بھائیوں نے زیادہ محفوظ اور آسان راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی، مگر حالات انتہائی خطرناک ہو گئے۔ رین ہولڈ نے اپنے بھائی کو بچانے کی پوری کوشش کی، مگر گونتر میسنر برفانی تودے کی زد میں آ کر لاپتہ ہو گئے اور ان کی موت ہو گئی۔

‎گونتر کی لاش کو کئی سالوں تک نہیں مل سکی، اور یہ ایک بڑی معمہ بن گئی۔ بالآخر، 2005 میں، گونتر میسنر کے باقیات نانگا پربت کے دیامیر فیس کے قریب پائے گئے، جس نے ان کی موت کی تصدیق کی۔

‎رین ہولڈ میسنر نے نانگا پربت کو سر تو کر لیا تھا، مگر اپنے بھائی کی موت کے صدمے نے ان پر گہرا اثر ڈالا۔ بعد میں انہوں نے اس مہم کے بارے میں کتابیں بھی لکھیں اور اس حادثے کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا۔ ان کی یہ مہم کوہ پیمائی کی تاریخ میں ایک انتہائی دشوار اور دلخراش واقعات میں شمار کی جاتی ہے۔



Hello friends, admin is here 😊😊 sunain kia hal chal hain? Ain gupshup lgain
09/14/2024

Hello friends, admin is here 😊😊 sunain kia hal chal hain? Ain gupshup lgain

09/11/2024

کیا آپ کے علاقے میں بھی آنکھوں کی وباء آئی ہوئی ہے؟

کراۓ دار کی زندگی 😢اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اپنی چھت عطا فرمائے آمین
09/11/2024

کراۓ دار کی زندگی 😢
اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اپنی چھت عطا فرمائے آمین

Address

New York, NY

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Beautiful Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share